ع پ ک ا (216 - 245)

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

پرویز

رابعہ - سیدہ اور انور اجمل کی بہنیں تھیں۔ رابعہ کی شادی نوعمری میں اس کے خالہ زاد بھائی پرویز سے ہو چکی تھی جو میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور جس نے دورانِ تعلیم ہی میں حلقہ اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ مذہب کی اس تبدیلی کا سبب کسی نوجوان لڑکی کا حسن و جمال تھا لیکن اس کے متعلق وضاحت سے کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ کیونکہ پرویز کی زندگی ایک پراسرار معمہ بن کر رہ گئی تھی۔ وہ ماں باپ کا بے حد لاڈلا تھا۔ اسی وجہ سے باپ نے اسے اعلٰی تعلیم دلوائی تھی حالانکہ وہ صاحبِ حیثیت شخص نہ تھے۔ پھر بھی انہوں نے بیٹے کی ہر بات پوری کی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ پرویز متوسط درجے کے والدین کا بیٹا ہونے کے باوجود فیشن ایبل حلقوں میں رہنے کا عادی ہو گیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے عزیزوں کی سی عامیانہ زندگی بسر کرنے سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے اس نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔

پرویز کی تبدیلی مذہب گھر والوں کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی۔ اس کی والدہ نے اس خبر کو سنا تو یوں خاموش ہو گئی جیسے کسی اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی ہو۔ والد نے سنا تو وہ اضطراب سے ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ “ نہیں نہیں۔“ وہ چلائے، “ ایسا نہیں ہو سکتا۔ نہیں پرویز ایسا لڑکا نہیں۔“ اور پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ خبر درست ہے تو انہوں نے پہلو بدلا “ عیسائی ہو گیا تو کیا ہوا۔“ انہوں نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بہرحال وہ پرویز ہے وہ ہمارا بیٹا ہے۔ نہیں نہیں اس کا کیا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ مگر ان کے انداز سے واضح تھا کہ فرق پڑتا ہے۔ ایسا فرق جو ان کے لیے قابل برداشت نہیں۔

پرویز کے متعلق یہ خبر اس کی بیوی رابعہ نے سنی تو اس نے لپک کر ننھے ساحر کر اپنی گود میں اٹھا لیا اور حیرانی سے چاروں طرف دیکھنے لگی جیسے کھو گئی ہو۔ رابعہ نوجوان تھی حسین تھی اور زندگی کی راہ میں ابھی نوآموز تھی۔

رابعہ کو دیکھ کر ایلی کو پرویز پر غصہ آنا شروع ہو جاتا اور وہ سوچنے لگتا کہ ضرور پرویز کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو گا جیسا سارہ کے ساتھ آیا تھا ورنہ عیسائیت کا سہارا کیوں لیتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

کیا ہے تجھے

سارہ کا خیال آتے ہی اسے علی احمد یاد آ جاتے اور پھر بےبی شو کا وہ میدان دکھائی دیتا اور ایک اجلے برقعہ والی لڑکی اس کے روبرو آ کھڑی ہوتی۔ ایک سفید دھبہ ایک گھنگھریالی لٹ۔ پھر وہ چپ چاپ گھر جا کر بیٹھ جاتا اور دادی اماں پوچھتی ایلی کیا ہے تجھے کیا ہو گیا ہے۔ کیا بات ہے ایلی۔ ایلی کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ اسے کیا ہو گیا تھا۔

محلے کا احاطہ ویران پڑا تھا۔ اس لیے کہ ارجمند نہ جانے کہاں کس نوکری پر چلا گیا تھا اور انکراینڈی کا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی ایلی گھبرا کے ارجمند کے گھر چلا جاتا جہاں تخت پر ارجمند کی بانسری پڑی دیکھ کر اس کا دل بھر آتا۔ یا کسی وقت جب وہ نگاہ بچا کر مقابل کے مکان کی طرف دیکھتا اور وہاں ہکوری ڈکوری کا کوئی ایڈیشن نظر آتا تو دل پر ٹھیس لگتی۔ پھر وہ کچی حویلی کی کبڑی لالٹین تلے چلا جاتا لیکن وہاں کھڑا ہونا تو بالکل بیکار تھا۔ اگرچہ کیپ فوراً کھڑکی میں آ کھڑی ہوتی اور مسکرا مسکرا کر کسی نہ کسی سے باآواز بلند باتیں کرنے لگتی لیکن ایلی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرئے، کس طرح ہاتھ ہلائے، رومال لہرائے۔ وہاں بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑے رہنا بھی تو بےمعنی بات تھی اور پھر لوگ ------ پھر وہ رضا کی دوکان پر جا بیٹھتا اور رضا اسے دلچسپ باتیں سناتا اور ہر آتے جاتے کو چھیڑتا اور بالآخر ایلی پر فقرے کسنے شروع کر دیتا۔ “ہوں تو ایلی بابو کو محبت ہو گئی ہے۔ بڑا خطرناک مرض ہے یہ۔ اللہ ہی بچانے والا ہے۔ ورنہ ایسے مریض بچتے نہیں۔“ اور ایلی کو اس کی باتوں کے علاوہ اپنی حماقت پر غصہ آتا کہ اس نے اپنی محبت کی بات رضا کو کیوں بتا دی تھی مگر رضا کو بتائے بغیر چارہ بھی تو نہ تھا۔ علی پور میں اور کون تھا جس سے وہ راز دل کہہ سکتا تھا۔ صرف ایک رضا تھا نا۔ رفیق بھی تو نوکری کے سلسلے میں کہیں جا چکا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

حمیدہ رشیدہ

محلے میں اس کے لیے دلچسپی کی کوئی صورت نہ تھی۔ گھر میں بوڑھی دادی کے سوا کوئی نہ تھا۔ سیدہ تو بالکل ہی خاموش رہا کرتی تھی۔ وہ ہر وقت دادی کے ساتھ چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی۔ جوان ہونے کے باوجود وہ ازلی طور پر بوڑھی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا خاوند اس کی پروا نہ کرتا تھا۔ کبھی کبھار سال دو سال کے بعد رات کے اندھیرے میں وہ چپ چاپ آ جاتا پھر اگلی صبح جب ایلی بیدار ہوتا تو اسے خبر ملتی کہ فاضل صاحب آئے ہوئے ہیں۔ وہ دور سے ہی اسے دیکھتا۔ سیاہ فام بھاری بھر کم سا مرد جس کے بال کالے ہونے کے باوجود سفید دکھائی دیتے تھے اور جس کی جھکی ہوئی کمر سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ شانوں پر صدیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔ وہ دھیمی آواز میں باتیں کرنے کا عادی تھا یہاں تک کہ گھر والوں کو اس کی کھسر پھسر سے اندازہ نہ ہو سکتا تھا کہ وہ آپس میں محبت بھری باتیں کر رہے ہیں یا ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ البتہ جب کبھی ایلی اس کے پاس جاتا تو وہ ایک نہ ایک دلچسپ بات شروع کر دیتا اور ایلی کو یقین نہ آتا کہ اس شکل و صورت کا شخص ایسی چمکیلی اور دلچسپ بات بھی کر سکتا ہے۔

ایلی کے گھر میں سیدہ کے علاوہ سیدہ کی مرحوم بہن نیاز کی بیٹیاں حمیدہ اور رشیدہ تھی رہتی تھیں مگر وہ تو بالکل بچیاں تھیں۔ حمیدہ اور رشیدہ کا ایک بھائی بھی تھا جس کا نام نقی تھا اور جس کے چہرے پر بہت بڑا داغ تھا۔

حمیدہ اور رشیدہ کے آنے سے ایلی کو چند ایک سہولیات ضرور حاصل ہو گئی تھیں کیونکہ اسے دو چھوٹی بہنیں میسر ہو گئی تھیں جو اس کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور اس کا کام کرنے میں حقیقی مسرت محسوس کرتی تھیں مگر ان باتوں کے باوجود اسے گھر رہنے میں کوفت ہوتی تھی اور وہ ہر ممکن موقعہ پر رضا کے پاس جا بیٹھتا اور رضا اسے اداس دیکھ کر کہتا “ آؤ تمہیں گھما لائیں۔ کیا یاد کرو گے بابو۔“

وہ اپنی لاٹھی سنبھال کے ساتھ ہو لیتا اور جب وہ علی پور کی فصیل کے باہر چکر لگا لگا کر تھک جاتے تو وہ اسے پہلوان اور طفیل کے پاس لے جاتا۔ پہلوان اور طفیل آصفی محلے کے پڑوس میں رہتے تھے۔ پہلوان ایلی کو دیکھ کر مسکراتا۔ “ آئیے بابو جی۔“ اور پھر اپنی تمام تر معصومیت کو لیے ہوئے بیٹھا مسکراتا رہتا۔ طفیل ایک دبلا پتلا لڑکا تھا جس کی طبیعت میں رنگینی اور تیزی دونوں عنصر موجود تھے۔ وہ دونوں ایلی کے ساتھ بڑی محبت اور عزت سے پیش آتے تھے اور ایلی محسوس کرتا تھا جیسے وہ ایک بلند و برتر ہستی ہو۔ پھر وہ شیخ ہمدم کی طرف جا بیٹھتے جو چمڑے کا سوداگر تھا۔

پہلی دفعہ شیخ ہمدم کو دیکھ کر ایلی بہت متاثر ہوا تھا۔ شکل و صورت سے معزز دکھائی دینے کے باوجود اس کے خیالات نوجوانوں کے سے تھے اور طبیعت میں بلا کی چمک تھی۔ شیخ ہمدم پہلا شخص تھا جو عمر اور مرتبے میں بڑا ہونے کے باوجود ایلی سے دوستانہ حیثیت سے ملتا تھا۔ “ آئیے الیاس صاحب۔“ وہ اسے دیکھ کر مسکراتا “ تشریف رکھیے یہاں گھبرانے کی کوئی بات نہیں بس چار ایک منٹ میں سودا طے ہو جائے گا اور پھر بیٹھ کر گپ اڑائیں گے۔“ “ ہاں جی چودھری جی۔“ وہ اپنے گرد بیٹھے ہوئے بیوپاریوں سے کہتا “ بس جو کہہ دیا ہے نا میں نے وہ عین مناسب ہے۔ آپ بھی کیا یاد رکھیں گے چودھری صاحب۔ سو کے پیچھے ایک آنہ اور سہی۔ بس چودھری صاحب اب تو مطمئن ہو جانا چاہیے اپ کو۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے اچھا تو سلام علیکم ہاں جی الیاس صاحب۔ تو رہے گی شطرنج کی بازی۔ مگر ابھی تو آپ ناپختہ ہیں اس فن میں بہرحال چلیئے۔ ہو ہی جائے ایک بازی۔ ہاں کیا پئیں گے آپ، نہیں چاہے تو واہیات ہے۔ او لڑکے دودھ والے، آدھ سیر دودھ میں چار پیڑے بلو کر لانا۔ ذرا بالائی زیادہ ڈالنا۔ الیاس صاحب بھی کیا یاد کریں گے کہ کسی شیخ سے پالا پڑا تھا۔ بابو الیاس صاحب دودھ پیجیئے۔ بالائی کھائیے اور ورزش کیجیئے ورزش۔ یہی عیش ہے آپ کی قسم۔ ہاں تو کہیے کیسی گزرتی ہے آج کل۔“

شیخ ہمدم میں زندگی تھی۔ جوانی تھی اور اس کے علاوہ وہ معزز شہری سمجھے جاتے تھے اور یہ سب باتیں علی پور میں ایلی کو نصیب نہ تھیں۔ گھر اور محلے والے اسے کھلنڈرہ لڑکا سمجھتے تھے اور

(صفحہ 245 ختم ہوا)
 
Top