عیسائی تبلیغی طالبان کے گھیرے میں

سید ابرار

محفلین
ویسے بہتر یہی ہوتا ہے کہ جو بات آپ سے کی جائے اسی کا جواب دیں۔ کیا ابرار کے منہ میں زبان نہیں ہے؟ وہ عقل کا استعمال کیے بغیر اتنا بول رہے ہیں تو میری بات کا جواب بھی دے دیں گے۔ :
میرے خیال میں یہ ”پابندی “ مناسب نھیں ہے ، ویسے بھی ساجد بھائی نے میری طرف سے کوئی جواب نھیں دیا ہے ، بلکہ آپ کے انداز جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ، کہ یہ عموما تنقید پر مبنی ہوتا ہے ، جو با ت آپ نے کھی ہے اس کا جواب آپ مجھ ہی سے سنیں گے ، مگر وہ ”لا جواب “ ہوگا ،
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں یہ ”پابندی “ مناسب نھیں ہے ، ویسے بھی ساجد بھائی نے میری طرف سے کوئی جواب نھیں دیا ہے ، بلکہ آپ کے انداز جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ، کہ یہ عموما تنقید پر مبنی ہوتا ہے ، جو با ت آپ نے کھی ہے اس کا جواب آپ مجھ ہی سے سنیں گے ، مگر وہ ”لا جواب “ ہوگا ،

جی عقل کا استعمال کرنے کی واقعی پابندی نہیں ہے۔ آپ کی مسلسل بے تکی پوسٹس سے یہ ثابت بھی ہو رہا ہے۔ اور آپ اب تک جو پوسٹ کرتے آ رہے ہیں اس سے زیادہ لاجواب تو کیا چیز ہوگی؟ چلیں آنے دیں دیکھتے ہیں کیا چھوڑتے ہیں اس مرتبہ آپ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صا حب چند سوالات پیش خدمت ہیں‌ امید کہ ”جواب “ دینے کی زحمت گوارا کریں گے
1- کورین فوج کے دستے ، اسلحہ کے ساتھ کیا افغانستا ن میں ”چھل قدمی “ کے لئے گئے ہیں ؟ ذرا سوچ کر بتائیں کل اگر ہندوستان کی فوج خدانخواستہ پاکستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلے ، اور چند زر خرید ، اور ضمیر فروش لوگوں کو خرید کر ان کو پاکستان کے مسند اقتدار پر بٹھا دے ، تو کیا اس وقت پاکستان میں موجود ”ہندووں “ کے ساتھ آپ کی ”محبت “ کا وہی عالم ہوگا ، جس ”محبت “ کا اظھار آپ ”کوریائی عیسائی مبلغین “ کے ساتھ کررہے ہیں ، بلکہ اس وقت شاید ہر ”ھندو “ کو ”قتل “ یا ”اغوا “ کرنا ،عین ”حب وطن “ قرار دیا جائے ، اور ایسا کرنے والوں کو ”مجا ھدین آزادی “ قرار دیا جائے ، اور جو حضرات اس موقف سے ”اتفاق“ نہ کریں ، شاید ان کو ”غدار وطن “ اور ”میر صادق “ کے خطاب سے نوازا جائے ،

حضور یہ تو آپ جواب آں غزل کے طور پر اپنے ہی سوال اٹھالے، میری مجال کے میں آپ کو جواب دوں، کوئی کافر ہو کر مرنا ہے، خاکم بدہن۔

اوپر والی ساری رام لیلا میں ہندوستان کے قبضے والی بات "مزے" کی ہے، ہم کافر تو جو کریں گے سو کریں گے، دیکھتے ہیں آپ اور آپ جیسے ہندوستانی فوج میں اور کتنے مسلمان، کیا کرتے ہیں۔ ;)


2- جن عیسائیوں نے افغانستان پر حملہ کرکے لاکھوں شھریوں کا خون بھایا ہے ، اور جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے ، یقینا ان میں سے کسی کا ”خونی رشتہ “ آپ سے نھیں‌ ہوگا ، لیکن جن لوگوں نے اپنی نگاہوں کے سامنے اپنی جان سے عزیز رشتوں کو ، بمباری کی وجہ سے دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے ، وہ بھی انسان ہیں ، پتھر دل تو ہیں نھیں ، ان کے دل اس وقت جس ”درد و الم “ کی کیفیت سے گذررہے ہونگے ، اس کا ”ادراک “ یقینا ہم اے سی کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر نھیں کرسکتے ، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں ہونے والی اس جنگ اور اس جنگ کے نتیجہ میں ہونے والی تمام تباہیوں کے ذمہ دار صرف اور صرف عیسائی ملک اور ان کے زر خرید منا فق ہیں ، تو کیا آپ ”طالبان “ سے یہ امید رکھتے ہیں ، وہ دردو الم کے ان دریا ؤں سے گذرنے کے بعد بھی ، اپنے ملک پر قابض ،غیر ملکی عیسائیوں کے ساتھ ”ہمدردی “ کا بر تاؤ کریں گے ،

معذرت کے ساتھ میں اسے کفر اور اسلام کی جنگ نہیں سمجھتا۔ طالبان اور اپنے سینے پر جو تمغہ آپ نے اپنے اوتار کے طور پر سجھایا ہوا ہے، یہ سب بھلے وقتوں میں انہی آقاؤں کے پالتو تھے اور "جہاد" کررہے تھے۔

آپ کا محاورہ بدلنا خوب چاشنی پیدا کر گیا، "اے، سی کی ٹھنڈی چھاؤں" واہ واہ سبحان اللہ، کیا عقل "لڑائی" ہے۔

واضح رہے کہ ”طالبان “ اس وقت حالت جنگ میں ہیں ، اور ”حالت جنگ “ میں ”حکمت عملی “ اور ”حربہ “ کے طور پر ہر وہ چیز اختیار کی جاسکتی ہے ، جس کے نتیجہ میں دشمن پر دباؤ میں اضافہ کیا جاسکے اور اپنی ہار کو فتح میں تبدیل کیا جسکے ،

یہ اسلام پر سرا سر بہتان ہے، افترا ہے، کذب ہے۔

احادیث، تواریخ اور فقہہ کی کتب بھری پڑی ہیں، ان واقعات سے، کہ حضور پاک اور خلفاء راشدین جب کوئی لشکر بھیجتے تھے تو انہیں چند اصول و ضوابط بتاتے تھے، بچوں، خواتین، راہبوں اور بےضرر لوگوں کے قتال سے منع فرماتے تھے، درختوں، اور کھیتوں کو اجاڑنے سے منع فرماتے تھے۔

اب اس کے جواب میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیا اور وہ کیا، تو اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا کتا آپ کے کاٹے تو جوابی آپ اسے کاٹیں گے، شاید آپ اسکا جواب بھی زورِ مخالفت میں، ہاں میں دے دیں۔

لیکن جن نبی آخرالزماں (ص) کے ہم، آپ سبھی نام لیوا ہیں وہ مثلہ سے منع فرماگئے، حالانکہ آپ کے چچا حضرت حمزہ کا مثلہ ہوا، لیکن اسکے بعد کتنے غزوات ہیں جن میں آپ نے شرکت فرمائی اور مثلہ کیا ہو؟

سوچو میرے بھائی خدا را کچھ سوچو، کچھ عقل تعمیری سوچ کی طرف لڑاؤ، نفس اور جذبات کی رو میں بہہ کر خوامخوہ اسلام کو بدنام مت کرو۔

۔
 

سید ابرار

محفلین
۔ ان لوگوں سے کسی بات کا جواب نہیں بن پاتا تو مذہب کی آڑ لے کر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ بالکل عقل سے کام نہ لو، بس آنکھیں بند کرکے ملا کی بات پر یقین کر لو۔ اب پولیو ویکسین کو اسلام اور عصر حاضر کا موضوع بنایا ہوا ہے۔ ایسے ہی مجاہد رہ گئے ہیں دین کی سرفرازی کے لیے۔ اور ہاں، مجھے اس بات کی بہت پرواہ ہے کہ آپ کو میری باتوں میں صرف تنقید نظر آتی ہے۔ میں آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔ ::
وارث صاحب کو دئے گئے میرے جوابات اگر آپ کو نظر نھیں‌ آرہے ہیں ، تو اب میں کیا کھ سکتا ہوں اب تک تو میں آپ کی ”بینائی “ کے بارے میں ”حسن ظن “ میں‌ مبتلا تھا، اگر آپ کو جواب پر کوئی اعتراض ہو تو آپ ادھر ادھر کی بات کرنے کی بجائے ، اگر جواب کو نشان زد کرکے اس پر اپنا اعتراض ، معقول انداز میں درج کریں تو یہ آپ کے لئے بھی بھتر ہوگا ، اور ہمارے لئے بھی ، ورنہ فی الوقت خلق خدا کی نظر میں تو ”شور“ آپ مچارہے ہیں ،

اور پولیو ویکسین کی جو بات آپ نے کی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صرف ”اندھی مخالفت“ ہی نھیں‌ بلکہ ”منفی ذھنیت “کا شکار ہیں‌ ، مخالفت ضرور کریں‌ مگر قا عدے اور قرینہ سے ، ورنہ پڑھنے والے مثبت تاثر کی بجائے ، منفی تاثر لے کر اٹھیں گے ، یہ بات میں اس لئے کھ رہا ہوں کہ پولیو تھریڈ واقعتا میں نے نیک نیتی سے کھولی تھی ، اس لئے میں نے شروع میں وضا حت بھی کردی تھی ، اور اس کی وجہ بھی میں ذکر کی تھی کہ اس سلسلہ میں میری زیادہ معلومات نھیں ہے ،بھئی جب ہم اس فورم پر ہر موضوع پر بحث کرسکتے ہیں ، تو اس موضوع پر بحث کرنے میں کیا حرج ہے ؟ کسی تھریڈ کو کھولنے کو بد نیتی پر محمول کرنا یا اس کے لئے ”اسلام اور عصر حاضر “ کے انتخا ب کو استھزا کا نشانہ بنانا ، یہ کسی ایڈمن کے قطعا شایا ن شان نھیں ہے ، یہ میں صرف فورم کی بھلائی کے لئے کہ رہا ہوں ، جب ”بے وقوفانہ فتوی “ جیسی یھودیوں کی مرتب کردہ احمقانہ رپورٹ ، تائید کے ساتھ ”اسلام اور عصر حاضر “ کے فورم پر پیش کی جاسکتی ہے ، تو پولیو والی رپورٹ ، وہ بھی سوالیہ نشانات کے ساتھ ، کیوں پیش نھیں کی جاسکتی ، جبکہ خود اس کا تعلق مسلمانوں‌ میں پائے جائے والی بد گمانیوں سے ہے ، میرے خیال سے یہ ”دو رخی “ پالیسی مناسب نھیں ہے ، ویسے اس تھریڈ کو ” طب و صحت “ کے فورم میں جو آپ نے منتقل کیا ہے ، اس پر مجھے کوئی اعتراض بھی نھیں ہے ، ظاھر ہے اس کا تعلق ”طب و صحت “ سے بھی ہے ،
ویسے بھی آپ کے ان جملوں سے مجھے بہت اچھا ”سبق “ ملا ہے ، اور ان حضرات کو بھی جنھیں اس فورم میں کبھی کبھی ”تحقیق “ کا خیال آجاتا ہے ، در اصل میں بھول گیا تھا کہ مغرب کی اس ” اندھی تقلید “ کے زمانہ میں ، ”تحقیق“ میں بھی ” اھل مغرب “ کا سھارا لیا جاتا ہے ، بقول کسے ، مستند ہے اھل مغرب کا فرما یا ہوا ، ظاھر ہے ، ”تحقیق “ کی صلاحیت ہم میں ہیں کھا ں‌،
 

سید ابرار

محفلین
اقتباس
وپر والی ساری رام لیلا میں ہندوستان کے قبضے والی بات "مزے" کی ہے، ہم کافر تو جو کریں گے سو کریں گے، دیکھتے ہیں آپ اور آپ جیسے ہندوستانی فوج میں اور کتنے مسلمان، کیا کرتے ہیں۔ ;)

ویسے آپس کی بات ہے ، اب ھندوستانی اور پاکستانی فوج میں کوئی زیادہ فرق نھیں رہا ، یہ بھی ”مجاھدین “ کو ماررہے ہیں اور یہ بھی ، دونوں‌ کو اب شا نہ بشانہ کاروائیوں میں حصہ لینا چاہئے ، ویسے بھی ، پاکستان میں ، ٹی وی چینلز کے ذریعہ ، جب ھندو ثقافت نے اسلامی ثقافت کو چاروں خانے چت کردیا ہے ، تو اب اور کس ”شکست “ کا انتظار ہے ،

اقتباس
معذرت کے ساتھ میں اسے کفر اور اسلام کی جنگ نہیں سمجھتا۔ طالبان اور اپنے سینے پر جو تمغہ آپ نے اپنے اوتار کے طور پر سجھایا ہوا ہے، یہ سب بھلے وقتوں میں انہی آقاؤں کے پالتو تھے اور "جہاد" کررہے تھے۔

کفر اور اسلام کی جنگ نہ سمجھیں ، بلکہ ظالم اور مظلوم کی جنگ سمجھیں ،اور ایک ملک پر دوسرے ملک کے غاصبانہ قبضہ کو مان کر چلیں‌ تو زیادہ مناسب ہوگا ، واضح رہے کہ افغانستان کی اکثریت طالبان کی حامی ہے ، جھاں تک طالبان کے ”پالتو “ ہونے کی بات ہے تو یہ لمبی بحث ہے ، ویسے آج کل پاک فوج بھی کئی لوگوں کے نزدیک انھی آقاؤوں کی ”پالتو“ بنی ہوئی ہے ، ویسے بھی جب آپ کے نزدیک طالبان ، مجاھد ہی نھیں ہیں ، تو ان کے ”اقدامات “کا آپ کا اپنے ”جھاد“ کی ”کسوٹی “ میں‌ پرکھنا بے معنی ہے ،

اقتباس

یہ اسلام پر سرا سر بہتان ہے، افترا ہے، کذب ہے۔

احادیث، تواریخ اور فقہہ کی کتب بھری پڑی ہیں، ان واقعات سے، کہ حضور پاک اور خلفاء راشدین جب کوئی لشکر بھیجتے تھے تو انہیں چند اصول و ضوابط بتاتے تھے، بچوں، خواتین، راہبوں اور بےضرر لوگوں کے قتال سے منع فرماتے تھے، درختوں، اور کھیتوں کو اجاڑنے سے منع فرماتے تھے۔

اب اس کے جواب میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیا اور وہ کیا، تو اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا کتا آپ کے کاٹے تو جوابی آپ اسے کاٹیں گے، شاید آپ اسکا جواب بھی زورِ مخالفت میں، ہاں میں دے دیں۔

لیکن جن نبی آخرالزماں (ص) کے ہم، آپ سبھی نام لیوا ہیں وہ مثلہ سے منع فرماگئے، حالانکہ آپ کے چچا حضرت حمزہ کا مثلہ ہوا، لیکن اسکے بعد کتنے غزوات ہیں جن میں آپ نے شرکت فرمائی اور مثلہ کیا ہو؟

سوچو میرے بھائی خدا را کچھ سوچو، کچھ عقل تعمیری سوچ کی طرف لڑاؤ، نفس اور جذبات کی رو میں بہہ کر خوامخوہاسلام کو بدنام مت کرو۔
آپ کی تمام باتیں تسیلم ، اپنا لشکر دوسرے ملک بھیجنے کے ”آداب “اور ہوتے ہیں ، اور جب اپنے ملک پر کوئی لشکر” قبضہ “کرلے ، تو اس دشمن لشکر کو اپنے ملک سے ”بھیجنے “ کے ” آداب “ اور ہوتے ہیں ،
ویسے غنیمت ہے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لشکر دوسروں کی سرکوبی کے لئے بھیجا کرتے تھے ، ویسے آج کل کی ”اصظلاح “ میں ، کسی مسلم ملک کا اس قسم کا حملہ ، ”آزاد ملک کی خود مختاری “پر حملہ مانا جاتا ہے ، اور ممکن ہے پوری دنیا کی فوج فورا ، اس ”ظلم “ کو ختم کرنے کے لئے پھونچے ، ہاں ”امریکہ “ مستثنی ہے ،
وہ ”نا انصافی“ ختم کرنے کے لئے ، اور ”امن“ قائم کرنے کے لئے کھیں بھی ، کسی بھی وقت ”حملہ “ کرسکتا ہے ،

آپ نے جو ”آداب “ کی بحث چھیڑی ہے ، یہ کافی بحث طلب ہے ، اور میری پوسٹ کے خلاف ، ویسے ہی ایڈمن صاحب کی طرف سے ، مسلسل بے تکی اور بے مقصد ہونے کے ”فتوی “ آرہے ہیں ، ممکن ہے ان کی ”سمجھ“ میں نہ آرہے ہوں‌، سمجھ ، سمجھ کی بات ہوتی ہے ، بھر حال ”فتووں “ سے تو آج ہر ایک ڈرتا ہے ، صرف ”ملا “ کے فتووں سے نھیں ڈرتا ،
باقی ہر ایک کے ”فتوی “ ہر ایک کے لئے اہممیت رکھتے ہیں ، اس لئے اس کو فی الحال رھنے دیں ، کل یا پرسوں حوالوں کے ساتھ آپ سے بات کرونگا
 

نبیل

تکنیکی معاون
اچھا یعنی ابھی اس پر مزید بے تکی اور بے مقصد باتیں کہنا باقی رہ گئی ہیں؟:eek: آفرین ہے بھئی۔ :chalo: دیکھتے ہیں کہ پولیو ویکسین کے بعد اب عالم اسلام کو لاحق کس فتنے کا انکشاف ہوتا ہے؟
 
محترم ہمت علی صاحب ، لگتا ہے کہ آپ کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ مصروفیت کی وجہ سے اپکو جواب نہ دے سکا۔ میرا مطالعہ بہت وسیع نہیں‌ہے۔ اگرچہ کوشش کرتارہتا ہوں‌مگر طالب علم ہوں۔

اور اگر آپ کوریا میں رہتے ہیں یا رہ چکے ہیں تو برائے مہربانی تحقیق و تصدیق کر کے ہمیں یہ ضرور بتائیں کہ

1 ۔ جزیرہ کوریا جو کہ بدھ مت کے ماننے والوں کا مسکن تھا کب اور کیسے عیسائیت کی آغوش میں چلا گیا؟
جزیرہ نما کوریا اگرچہ بدھ مت کے ماننے والوں‌کا مسکن ضرور ہے مگر یہ کبھی بھی غالب مذہب نہیں‌رہا۔ بدھ مت یہاں‌انڈیا سے درامد ہوا تھا۔ دوسرے بہت سے مشرقی مذاہب بھی پائے جاتے ہیں‌جو کہ جاپان و چائنا میں بھی ہیں۔ اباواجداد کی پرستش یہاں بہت مقبول تھی بلکہ اب بھی ہے۔ یہ ہی غالب مذہب تھا اور غالبا کنفیوشش فکر (اگر مجھے اس کے درست ہجے یاد ہیں) بھی غالب تھی۔



2 ۔ عیسائیت کو یہاں کن عناصر نے فروغ دیا اور ان کا طریقہ تبلیغ کیا تھا؟
عیسائیت کو یہاں‌امریکی اثر کے بعد فروغ ملا۔ امریکیوں‌سے انے سے پہلے جاپانی یہاں‌قابض تھے۔ ذریعہ تعلیم جاپانی زبان تھا اور اسکولوں میں‌کورین زبان بولنے پر سزا ملتی تھی۔ جاپانی اپنا کلچر یہاں‌مسلط کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے مگر ناکامی ہوئی۔ بالاخر جاپان کے جانے کے بعد کمیونزم اور کیپیٹل ازم کی جنگ چھڑ گئی۔ امریکیوں‌نے کمیونزم کے ماننے والے کورینز کو شمال تک محدود کردیا۔ اس جنگ میں‌ امریکیوں‌نے کیپٹل ازم کے ماننے والے کورین کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھر اپنی کٹھ پتلی حکومتیں‌قائم کردیں۔ ساتھ ہی ساتھ اقتصادی طور پر مضبوط کرنے کے لیے مدد بھی دینی شروع کردی۔ 1960 میں‌امریکہ کے صدر (غالبا جانسن) نے یہاں‌کا دورہ کیا اور ایک انسٹیٹوٹ قائم کیا جس کا نام کوریا انسٹیٹوٹ اف سائنس و ٹیکنالوجی ہے۔ اس ادارے نے بہترین افرادی قوت مہیا کی۔ اسی کے ساتھ کوریا ڈیلویپمنٹ انسٹیٹوٹ کا قیام ہوا۔ جن نے کوریا کی ترقی کی ترکیبیں‌وضح کیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی انسٹیٹوٹ کی مدد سے ورلڈ بینک کی توسط سے ڈاکٹر محبوب الحق کی پانچ سالہ منصوبہ کا اغاز ہوا۔

بہرحال جنوبی کورین فکری طور پر امریکی اثر میں‌تھے۔ انھوں نے امریکی کلچر کو دل و جان سے قبول کرلیا۔ چرچ کلچر بھی امریکی کلچر کے تحت ہی یہاں‌وارد ہوا۔ امریکی چرچ کے اداروں نے خزانوں‌کے منہ کھول دیے اور یہاں بے شمار چرچ قائم کیے۔ مگر کورینز عیسائی نرے نام کے عسیائی ہیں‌اور بہت ہم کم لوگ عیسائیت کے بارے میں‌کچھ جانتے ہیں۔ چرچ دراصل میل ملاپ اور سوشل ایکٹیویٹی کے ادارے ہیں۔ یہاں‌ باقاعدہ چرچ فروخت بھی ہوتے ہیں۔آخبار میں‌اشتھارات اتے ہیں‌ کہ چرچ برائے فروخت ۔اتنے بلیورز کے ساتھ۔
میرا اپنا خیال ہے کہ اگرچہ عیسائیت کا فروغ یہاں‌ہوا ہے مگر عیسائیوں‌کے تعداد 5-10 فی صد کے درمیان ہی ہوگی۔

عیسائیت کو امریکیوں‌نے فروغ دیا اور غالب طور پر ان کا طریقہ پیسہ تھا۔
اس کی وجہ یہ بھی کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ عیسائیوں کے ایک ذیلی شاخ "جوھوا ویٹنس" والے یہاں‌بے انتہا محنت کرتے ہیں مگر ان کی طرف کوئی نہیں‌اتا۔



3 ۔ پھر اس کے قرب و جوار میں دیکھئیے کہ انڈونیشیا ، ملیشیا ، فلپائن ، تھائی لینڈ وغیرہ میں اگر اسلام پھیلا تو کس طرح سے؟ کیا تلوار سے ؟ کیا دولت سے؟ یا پھر مسلمان مبلغین کے اعلیٰ کردار سے؟
انڈونیشا میں‌تو میرے علم کے مطابق اسلام تاجروں‌کے اعلیٰ‌کردار کی بدولت پھیلا۔ عرب تاجر کوریا میں‌بھی ائے اور یہان بھی ایک دربار میں اذان دی جاتی رہی۔ عرب تاجر یہاں ہی سیٹل ہوگئے اور ان کی نسل اب تک موجود ہے۔
تلوار سے تو کوئی بھی مذہب نہیں‌پھیل سکتا مگر میں‌نبیل کی بات سے متفق ہوں‌کہ غالب طاقت ہر صورت میں‌اپنے مذہب کے پھیلاو کا ایک ذریعہ بھی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں‌ لوگوں‌کی ایک بڑی تعداد مذہب کو بطور کلچر قبول کرتی ہے ۔ یہ غالب کلچر اس ملڑی اور اقتصادی طاقت ہی کا ہوتا ہے جو کہ تلوار سے ملک فتح کرتی ہے۔ بہر حال یہ کلیہ ہر صورت میں‌لاگو نہیں‌ہوتا۔



4 ۔ جو لوگ آج کوریا میں مسلمان ہو رہے ہیں ان کا تناسب عیسائی بن جانے والوں کے مقابلے میں کیا ہے؟
تناسب کا تو مجھے پتہ نہیں‌ ہے۔ مگر یہ کوئی مقابلہ نہیں‌ہے۔ کوریا میں عیسائی لوگ مسلمان ہورہے ہیں۔ عیسائیوں‌کے کام کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ کورین خدا کے وجود سے اشنا ہوگئے۔ عیسائی خدا ہی کی تبلیغ کرتے ہیں اگرچہ تصور خدا ان کے یہاں‌غلط ہے ۔ مگر مسلمانو‌ں کو بڑی اسانی ہوجاتی ہے جب کو ئی خدا کے وجود سے اشنا ہو۔ پھر اس کی کریکشن میں‌اسانی ہوجاتی ہے۔ میں‌سمجھتا ہوں‌کہ عیسائیوں‌نے جو فصل تیار کی ہے وہ مسلمانوں نے کاٹنی ہے بلکہ شروع کردی ہے انشاللہ۔



5 ۔ برائے مہربانی مندرجہ ذیل جملے میں پائے جانے والے تضاد کی وضاحت فرمائیے،
صوفی دراصل تزکیہ نفس کا ایک طریقہ ہے اور یہ ہی لوگ اسلام کے مبلغ تھے اور ہیں‌مگر اب اس دورکا صوفی ازم شیطان پرستی کا دوسرا نام ہی رہ گیا ہے۔
غور کیجئیے کہ ایک طرف تو آپ انہیں آج بھی اسلام کے مبلغ مان رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے اختیار کردہ طریقے کو شیطان پرستی کہہ رہے ہیں۔آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ صوفی" ازم" نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کی رضا اور اس کی مخلوق کی خدمت میں اپنی ہستی کی نفی کرنے کا نام ہے۔ اور آپ خود بھی اقرار کرتے ہیں کہ صوفی تزکیہ نفس کا طریقہ ہے۔ تو پھر تزکیہ نفس شیطان پرستی کیوں کر ہو گیا؟
اگر صوفیاء کے نام سے آپ کے ذہن میں ملنگ اور ڈبہ پیر ٹائپ کی کوئی چیز آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ دراصل آج کے جعلی پیروں اور ملنگوں نے ہی صوفیاء کا نام خراب کیا ہے۔
[/QUOTE
[/COLOR]

کوئی تضاد نہیں‌ہے اگر اپ غور سے پڑھییں۔ صوفی وہ شخص ہوتا ہے جو تزکیہ نفس کررہاہو۔ تزکیہ نفس کیسے ہوتا ہے؟ یقینا اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر۔ لہذا صوفی کبھی بھی شریعت کی راہ کو نہیں‌چھوڑے گا بلکہ اس طریقے پر چلتے ہوئے روحانی بلندی حاصل کرے گا۔ اپ کو جو کنفیوژن ہوئی ہے وہ "صوفی ازم" کی وجہ سے ہوئی ہے۔ صوفیانہ طریقہ اور "صوفی ازم" الگ الگ چیزیں ہیں۔ اپ ترکی کی تاریخ اور وہا‌ں موجود صوفی ازم کو دیکھیے۔ صوفی ازم دراصل شیطان پرستی ہے۔
 
افغانستان کے صوبے غزنی کے گورنر نے الزام عائد کیا ہے کہ جنوبی کوریا کے تیئس باشندوں کو اغواء کرنے والے طالبان پاکستانی ہیں اور ان کا تعلق پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے ہے۔
مکمل خبر یہاں ہے

کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس معاملے میں آئی ایس آئی ملوث ہو سکتی ہے؟ یا افغان حکومتی اہلکاروں کی کی اپنی نااہلی چھپانے کی ایک کوشش ہے
صاحبو، یہ ایسی خبریں برطانوی خبر رساں اداروں‌کو ہی کیوں پتہ چلتی ہیں۔ پاکستان برطانیہ کے دل میں چبھا ہوا کانٹا تو نہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
محمد وارث نے لکھا:
''کیا آپ اسکا بات کا کوئی حوالہ دے سکتے ہیں؟ ہم نے تو طائف کا واقعہ پڑھا ہے، یا پھر جزیہ لیکر ذمیوں کو پر طرح کی آزادی دینے کا ایک اسلامی مملکت میں۔''
قرآن کریم میں جزیہ لینے کا حکم سورۃ التوبۃ میں ہے۔ سورۃ توبۃ آیت29 میں فرمانِ الٰہی ہے:
''۔۔۔۔۔(ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔''
سید مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں انیسویں صدی کے دور مذلت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اس دور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے زیادہ بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں، لیکن انہیں اس کا قطعًا کوئی حق نہیں ہے کہ اللہ کی زمین پر کسی بھی جگہ اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی، فساد رونما ہو گا اور اہل ایمان کا فرض ہو گا کہ ان کو اس سے بے دخل کر نے اور انہیں نظامِ صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے، اور اس قیمت کو اس صالح نظامِ حکومت کے نظم و نسق پر صرف ہونا چاہییے جو انہیں اس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔''
سورۃ التوبۃ آیت 33 میں فرمایا:
''وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔''
تفہیم القرآن جلد دوم میں اس کی تفسیر کچھ یوں کی گئی ہے:
'' رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی وہ لے کر آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آتا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہییے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظام زندگی رہتا ہے۔''
اس آیت کے الفاظ پر غور کریں '' یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں''۔ پھر اس آیت کو دیکھیں ''وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔''
جس دین کو پوری جنسِ دین پر غالب کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، کیسا عجیب تضاد ہوگا کہ اس کے خلاف مملکت اسلامیہ میں تبلیغ کی اجازت ہو۔ ذمیوں کو بس یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں۔ ''جزیہ لے کر ہر طرح کی آزادی'' دینے کو کوئی تصور نہیں۔ فقہاء کا پہلے دن سے فیصلہ ہے کہ ذمی مسلمان ملک میں اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اپنے بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دیں۔ افسوس اس وقت میرے پاس حوالہ جاتی کتابیں نہیں ہیں۔ اگر آپ زحمت فرمائیں تو کوئی حوالہ بتا دیں جس میں ''ہر قسم کی آزادی'' دینے کا ذکر ہو۔ کوئی ایک مثال ہی بتا دیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک دور میں یا خلافتِ راشدہ کے دوران اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کو مسلمانوں کے درمیان تبلیغ کرنے کی اجازت دی گئی ہو۔ ہمارے لیے مثالی دور نبوت و خلافت کا دور ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین
'' تم میری سنت کو پکڑے رہنا اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو بھی۔''
اور فرمایا:
خیر امتی قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم(او کما قال علیہ الصلوۃ والسلام)
'' میری امت کے لے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ جو اس کے بعد آئیں گے (صحابہ کا ) پھر جو اس کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین)۔
میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں جو آیت نقل کی تھی اس پر آپ نے '' کلمۃ الحق ارید بہا الباطل'' کا فتوٰی لگا دیا ہے۔ مناسب ہوتا اگر آپ اس آیت کا صحیح مفہوم بھی واضح کر دیتے۔
طائف کا واقعہ آپ نے پڑھا الحمد للہ۔ بنو قریظہ کے واقعے کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی بدعہدی اور مدینہ منورہ کی اسلامی مملکت کے خلاف جنگی تیاریوں کی سزا کے طور پر ان کے سات سو مرد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قتل کرا ئے اور صحابہ نے مدینے کے بازاروں میں گڑھے کھود کر انہیں دفن کیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا۔بنو نضیرکے بارے میں آپ کی ارشاد فرماتے ہیں جنہیں مدینہ سے جلا وطن کر دیا گیا۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس سال کے اندر ستائیس جنگوں میں بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ سیرت اور حدیث کی کتابوں میں عمومًا ''کتاب المغازی'' یعنی ''ان جنگوں کا باب جن میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شرکت فرمائی'' کتاب التفسیر کے بعد سب سے بڑا باب ہوتا ہے۔ طائف کا واقعہ تو ایک واقعہ ہے اورہ بھی ہجرت سے پہلے کا جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس کے مقابلے پرصرف امام بخاری ہی نے کتاب المغازی میں 796 حدیثیں بیان کی ہیں۔ قرآنِ کریم کا بہت بڑا حصہ جہاد کے مسائل اور فضائل پر مشتمل ہے۔ سورۃ البقرۃ، آل عمران، النساء، المائدۃ، الانفال، التوبۃ، الحج، الاحزاب، محمد، الفتح، الحجرات، االصف، المجادلۃ، الحشر، الممتحنۃ سمیت کتنی ہی سورتیں ہیں جو جہاد اور قتال پر اتری ہیں یا ان میں قتال کا تفصیلی ذکر ہے۔ طائف کے واقعے کے مقابلے میں ذرا اس حقیقت کو بھی سامنے رکھ لیجیے گا۔
 

قسیم حیدر

محفلین
اسلام اور تلوار
اسلام کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت میں وہ دنیا کے لیے اللہ کا قانون ہے۔ دوسری حیثیت میں وہ نیکی و تقوٰی کی جانب ایک دعوت اور پکار ہے۔ پہلی حیثیت کا منشا دنیا میں امن قائم کرنا، اس کو ظالم و سرکش انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانا اور دنیا والوں کو اخلاق و انسانیت کے حدود کا پابند بنانا ہے جس کے لیے قوت و طاقت کے استعمال کی ضرورت مسلم ہے۔ لیکن دوسری حیثیت میں وہ قلوب کا تزکیہ کرنے والا، ارواح کو پاک کرنے والا، حیوانی کثافتوں کو دور کرکے بنی آدم کو اعلیٰ درجہ کا انسان بنانے والا ہے جس کے لیے تلوار کی دھار نہیں بلکہ ہدایت کا نور ،دلوں کا جھکاؤ اور جسموں کی پابندی نہیں بلکہ روحوں کی اسیری درکار ہے۔ اگر کوئی شخص سر پر چمکتی ہوئی تلوار دیکھ کر لا الہ الا اللہ کہہ دے مگر اس کا دل بدستور ما سوی اللہ کا بتکدہ بتا رہے تو دل کی تصدیق کے بغیر یہ زبان کا اقرار کسی کام کا نہیں، اسلام کے لیے اس کی حلقہ بگوشی بیکار ہے۔ دینِ حق تو خیر بڑی چیز ہے دنیا کی معمولی تحریکیں بھی جن کا منشا محض دنیوی مقاصد کا حصول ہوتا ہے اپنی کامیابی کے لیے ایسے پیرووں پر بھروسہ نہیں کرسکتیں جو صرف زبان سے ان کے موید ہوں۔ پھر وہ دن جو تمام عالم بشری کی اصلاح کا عظیم مقصد لے کر اٹھا ہو کیا یہ ممکن تھا کہ وہ اپنی دعوت کا کام تلوار کی گونگی زبان کے سپرد کرتا۔ کیا وہ ایسے پیرو حاصل کر کے مطمئن ہو سکتا تھا جن کے دل اللہ کے خوف سے خالی مگر تلوار کی ہیبت سے معمور ہوں؟ کیا ایسے بزدل اور بودے آدمیوں کو وہ کوئی وزن دے سکتا تھا جو محض جان بچانے کے لیے کسی عقیدے کو جس کی صداقت کے وہ قائل نہ ہوں، قبول کر لیں؟ اور اگر ایسا ہوتا تو کیا اسے وہ کامیابی حاصل ہو سکتی تھی جو اس نے فی الحقیقت حاصل کی؟
اس بحث سے یہ حقیقت تو اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اسلام اپنی صداقت پر ایمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ بلکہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہدایت کی راہ کو ضلالت کی راہ سے ممتاز کر کے دکھا دینے کے بعد ہر شخص کو اختیار دیتا ہے کہ چاہے غلط راستے پر چل کر نامرادی کے گڑھے میں جا گرے اور چاہے سیدھے راستے پر لگ کر حقیقی اور دائمی کامیابی سے بہرہ اندوز ہو۔ اس میں شک نہیں کہ تبلیغ میں تلوار نہیں چلتی لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوتی ہے اور وہ یقینًا تلوار کی اعانت سے بے نیاز نہیں ہیں۔
اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنے، رسالت کو برحق ماننے، یوم آخر اور ملائکہ پر ایمان لانے کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا تو اسے کسی سے لڑنے ضرورت پیش نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامرو نواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس کا کام صرف پند و موعظت ہی سے نہیں چل سکتا بلکہ اسے نوکِ زبام کے ساتھ نوکِ سنان سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس کے عقائد سے سرکش انسان کو اتنا بُعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے ہے۔ باطل نظام اور باطل عقائد کا غلبہ انسانوں کی اکثریت کو دین کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا یا اسے قبول کرنے میں مانع بنتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیرہ سال مکے میں دعوت دی، مضبوط دلائل دیے، واضح حجتیں پیش کیں اور کوئی ذریعہ نہ چھوڑا جو حق کے اظہار و اثبات کے لیے مفید ہو سکتا تھا لیکن اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے معرکے بدر میں کل مردان جنگی تین سو تیرہ تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلوار ہاتھ میں لی، ملک میں ایک منظم اور منضبط حکومت قائم کر دی تو صرف دس سال کے اندر جانثاروں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار کا لشکر ہمراہ تھا اور خطبہ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان موجود تھے۔
اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ اسلام نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے، اس فضا کو صاف کر دیا جس کے اندر کوئی اخلاقی تعلیم پنپ نہیںسکتی تھی، ان حکومتوں کے تختے الٹ دیے جو حق کی دشمن اور باطل کی پشت پناہ تھیں، ان بدکاریوں کا استیصال کر دیا جو دلوں کو نیکی و پرہیزگاری سے دور رکھتی ہیں۔ پس جس طرح یہ کہنا غلط ہے ک اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان میں ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے جس طرح ہر تہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ اسلام قبول کرنے میں کوئی جبرواکراہ نہیں ہے۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
''دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ سیدھی راہ غلط راہ سے ممتاز کر کے دکھائی جا چکی ہے، اب جو کوئی معبودانِ باطل کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آئے وہ ایک ایسے مضبوط رشتہ سے تعلق جوڑتا ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔''
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
'' کسی شخص کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو کیونکہ وہ اس قدر بین و واضح ہے اور اس کے دلائل و براہین اس قدر روشن ہیں کہ کسی شخص کو اس میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اللہ نے جس شخص کو ہدایت دی ہو گی اور جس کا سینہ قبول حق کے لیے کھول دیا ہو اور جس کو بصیرت کا نور عطا کیا ہو وہ دلیل واضح کی بنا پر خود اسے اختیار کرے گا، اور جس کی سماعت و بینائی پراللہ نے مہر کر دی ہو اس کا مارے باندھے دین میں داخل ہونا بیکار ہے۔''
لیکن اسلام کی تلوار ان لوگوں کی گردنیں کاٹنے میں ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
قیصرانی بھائی!
ہمارے لیے بہترین نمونہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے۔ جب ہمیں ان کی سیرت سے بہترین راہنمائی مل رہی ہے تو پھر ہم کیوں اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر مشنریوں کی سنت پر عمل کریں۔ برصغیر میں اسلام بہت بعد میں پھیلا ہے اس سے پہلے صحابہ حجاز، مصر، ایران، شام، اردن، فلسطین وغیرہ میں اسلام کا بول بالا کر چکے تھے۔ کیا انہوں نے مشنریوں والا طریقہ اختیار کیا تھا یا بطور حکمران بہترین نمونہ پیش کا تھا؟
اسلام مسکینی کا دین نہیں ہے۔ اخلاق کا نمونہ پیش کرنا ہے تو وہ خلافت کی مسند پر بیٹھ کر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری 570 ء کے لگ بھگ ہوئی۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے برصغیر پر حملہ 712 ء میں کیا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دورِنبوت سے لے کر محمد بن قاسم رحمہ اللہ تک کے ڈیڑھ سو سال میں کتنے صوفی برصغیر میں آئے تھے؟ برصغیر میں اسلام کی اشاعت کا دروازہ اس وقت کھلا تھا جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی تلوار نے داہروں کے سروں کو کاٹ دیا تھا۔ ہمارے ہاں جو داستانیں مشہور ہیں ان میں صوفیوں کی ''تاثیر نظر'' سے مسلمان ہونے والے ہندوؤں کی جو تعداد بیان کی جاتی ہے، اسے جمع کریں تو شاید اس وقت کی کل آبادی کے برابر بھی نہ ہو۔ یہاں تو ایک ایک صوفی ایک محفل میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کر دیتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت مسلمانوں کی آبادی سات آٹھ کروڑ تھی۔ جو مسلمان موجود یہاں موجود ہیں ان میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے آباء واجداد عرب سے ہجرت کر کے تجارت کے لیے یہاں آئے تھے یا پھر محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے ساتھ آنے والے ہزاروں مسلمان تھے جو جہاد کے بعد یہیں بس گئے تھے۔ علاوہ ازیں ایک قابل ذکر تعداد ایران سے ہجرت کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ افغانستان سے آنے والے مسلمان اس کے علاوہ تھے جو شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی، محمد بن تغلق اور دوسرے مجاہدین کے ہمراہ آئے تھے۔ اگر ان لوگوں کی اولاد فطری رفتارسے بڑھتی رہی ہے تو بعید نہیں کہ ایک ہزار چار سو سال گزرنے کے بعد مسلمانوں کی عظیم اکثریت نسلًا مسلمان ہو۔ اب سوچیے کہ وہ لوگ کدھر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں حضرت نے ایک محفل میں ایک لاکھ ہندوؤں کو مسلمان بنا دیا؟
مفکر پاکستان علامہ اقبال کی نظم ابلیس کی مجلس شورٰی کا ایک حصہ پیش کرتا ہوں جس میں وہ صوفی ازم کی تباہ کاریوں کے بارے میں ابلیس کی زبانی کہتے ہیں:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
 

سید ابرار

محفلین
ابرار، کبھی کبھار عقل سے کام لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ کوشش کرکے دیکھیں۔

کیا ابرار کے منہ میں زبان نہیں ہے؟ وہ عقل کا استعمال کیے بغیر اتنا بول رہے ہیں تو میری بات کا جواب بھی دے دیں گے۔ اا۔ :

۔ آپ کی مسلسل بے تکی پوسٹس سے یہ ثابت بھی ہو رہا ہے۔ چلیں آنے دیں دیکھتے ہیں کیا چھوڑتے ہیں اس مرتبہ آپ۔

اچھا یعنی ابھی اس پر مزید بے تکی اور بے مقصد باتیں کہنا باقی رہ گئی ہیں؟:eek: آفرین ہے بھئی۔ : دیکھتے ہیں کہ پولیو ویکسین کے بعد اب عالم اسلام کو لاحق کس فتنے کا انکشاف ہوتا ہے؟

آپ کی مسلسل ”جانبدارانہ امپائرنگ “ دیکھکر ، آسٹریلوین امپائر ڈیرل ہیئر کی ”امپائرنگ “ کی یاد تازہ ہوگئی ہے ، ”نقش قدم “ پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھیں ، ویسے ڈیرل ہیئر کے بارے میں بی بی سی کی یہ رپورٹ پڑھنا نہ بھولیں
ڈیرل ہیئر کی امپائرنگ
 
سیول میں‌ کورین افراد کے رہائی کے لیے پاکستانی سفارتخانے کے باھر مظاہرہ کررہے ہیں
1100241595-1.jpg


یہ پاکستانی سفارتخانے کے باھر کیوں‌مظاہرہ کررہے ہیں؟ امریکی یا افغانی سفارتخانے کے باھر کیوں نہیں؟
 

Muhammad Naeem

محفلین
ہاں تو بتائیں نا کہاں تک پہنچی آپ کی پولیو ویکسین پر "تحقیق"؟
کیا ابھی آپ کی پولیو کے قطرے پینے کی عمر نہیں گئی۔(بھئی میں نے مذاق کیا ہے)۔ اگر پی لیئے ہیں تواب صبر کیجئے۔کیونکہ یہ بات تو آپ کو قطرے پینے سے پہلے پوچھنی چاہیئے تھی کہ قطرے مضر ہیں یا نہیں ؟
"اب پچھتائے کیا ہوت ۔۔۔۔۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"​
 
Top