عید کے عنوان پر اشعار اور نظمیں۔

سیما علی

لائبریرین
اب کے برس بھی نکلا چاند
لیکن تھا وہ سُونا چاند
برسوں اِدھر اُدھر بھٹک کر
بھول گیا اپنا رستہ چاند
ایک مانگو تو دو ملتے ہیں
ہوگیا کتنا سستا چاند
نارتھ امریکہ شور بہت تھا
لیکن کس نے دیکھا چاند
جب امت ہو ٹکڑے ٹکڑے
کیسے ایک ہو اس کا چاند
سب کی اپنی اپنی مسجد
سب کا اپنا اپنا چاند
یونٹی کیا ہے میری مانو
کیسی عید اور کہاں کا چاند
ایک شہر میں دو دو عیدیں
دیکھ کے ہنستا ہو گا چاند
معاذ سے پوچھو تو وہ بولے
گھر میں میرے میرا چاند

معاذ المساعد صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
ملتے ہیں روز رنج و غمِ زندگی بہت
پروردگار آج ہمیں دے خوشی بہت

مخلوق ہے اگرچہ گرانی سے خستہ حال
رنگینیاں ہیں شہر میں چھوٹی بڑی بہت

یہ عید کا مزہ ہے ، کہ پیاروں کی دید کا
ہر چیز دے رہی ہے دکھائی بھلی بہت

لگتا ہے عید کو بھی تمھاری طرح شعور
رہنے لگے آداس اگر آدمی بہت
انور شعور
 

سیما علی

لائبریرین
پردیس میں عید کے بعد :
عید آئی بھی اور چلی بھی گئی
اور ہم سب کو یاد کرتے رہے
اجنبی بستیوں میں افسردہ
دل کو یادوں سے شاد کرتے رہے
 

سیما علی

لائبریرین
دِل ، رُوح تک اُداس ہے اور چاند رات ہے
اِک بدترین یاس ہے اور چاند رات ہے

وُہ آخری ٹرین میں بیٹھا ہُوا ہو گا
پر یہ تو بس قیاس ہے اور چاند رات ہے

دِل کا سکوں ، جگر کا سکوں ، ذہن کا سکون
سب کچھ تو اُس کے پاس ہے اور چاند رات ہے

بادَل نے تشنگی کو کئی چند کر دِیا
اُوپر سے من کی پیاس ہے اور چاند رات ہے

ٹھنڈی ہَوا کا پَہرا ہے یادوں کے شہر میں
ہر زَخم بے لباس ہے اور چاند رات ہے

کچھ لوگ چاند رات میں لوٹیں گے پیار سے
جو کچھ بھی اَپنے پاس ہے اور چاند رات ہے

اَشکوں نے صف بنائی ہے وُہ بھی بہت طویل
اِک سال کی بھڑاس ہے اور چاند رات ہے

شب دیدہ جنگلات سے لاتے ہو جو حنا
اُس میں لہو کی باس ہے اور چاند رات ہے

اِک وعدہ اُس کی دید کا ، اِک پڑیا زہر کی
دونوں کی یکساں آس ہے اور چاند رات ہے

کچھ لیلیٰ کو جنون ہے تقسیمِ زَخم کا
کچھ قیس غم شناس ہے اور چاند رات ہے

شہزاد قیس
 

سیما علی

لائبریرین
میل دل سے نفرتوں کی دھویئے تو عید ہے
ہر کسی کے دکھ میں شامل ہویئے تو عید ہے
زیست میں رشتے کا ہونا تو ضروری ہے مگر
زندگی رشتوں کے اندر بویئے تو عید ہے
عنبر شمیم
 

سیما علی

لائبریرین
رنجش و بغض و عداوت چھوڑ دینے کا ہے نام
رشتۂ عشق و مروت جوڑ دینے کا ہے نام
فاصلے باقی نہ رہ پائیںدلوں کے درمیاں
عید ہر دیوارِ نفرت توڑ دینے کا ہے نام
عنبر شمیم
 

سیما علی

لائبریرین
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے

عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
مسندِ ناز پہ جب وہ ستم ایجاد آیا,
ٹوٹ کر ایک جہان برسرِ فریاد آیا۔

اُن کی محفل میں یہ جانے کا نتیجہ نکلا،
مَیں گیا شاد، مگر لَوٹ کے ناشاد آیا۔

ایک جان اور دو قالب بھی رہے ہیں ہم تم،
ہائے ! کیا دَور تھا تم کو بھی کبھی یاد آیا؟

ہم بہت روئے ہیں صیاد کے گھر میں گِھر کر،
چار تنکوں کا نشیمن جو ہمیں یاد آیا۔

جُستجو میں تِری جو شخص گیا، شاد گیا،
جو تِرے شہر سے آیا ہے، وہ برباد آیا۔

کار فرما ہے کسی مصلحتِ خاص کی رَو،
ورنہ میرا یہ مقدر، کہ تمہیں یاد آیا؟

قیس و فرہاد کو یک گو نہ رہا مجھ سے خُلوص،
جب بھی دیکھا تو پُکار اُٹھے کہ اُستاد آیا

وہ بھی مِلتا جو گَلے سے تو خوشی عید کی تھی،
کوئی رہ رہ کے نصیر آج بہت یاد آیا...!

✍...نصیرالدین نصیر
 

سیما علی

لائبریرین
عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس
جس کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس

ہے عید کا دن آج تو لگ جاؤ گلے سے
جاتے ہو کہاں جان مری آ کے مقابل
مصحفی غلام ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
مفلس کی عید

احساس آرزو ئے بہاراں نہ پوچھیے
دل میں نہاں ہے آتش سوزاں نہ پوچھیے
عید آئی اور عید کا سامان نہ پوچھیے
مفلس کی داستاں کسی عنواں نہ پوچھیے
ہے آج وہ بہ حالِ پریشاں نہ پوچھیے
روزے تو ختم ہو گئے باصد غم و ملال
اب عید آئی اور وہ ہونےلگا نڈھال
بچوں کا بھی خیال ہے اپنا بھی ہے خیال
دامن ہے چاک بال پریشان غیر حال
کچھ داستانِ چاک گریباں نہ پوچھیے
منہ میں نہیں زباں جو کچھ حالِ دل کہے
غیرت کا اقتضا ہے کہ خاموش ہی رہے
آنکھوں سے موج اشک جو بہتی ہے تو بہے
ہے سر پہ ایک ہاتھ تو اک ہاتھ دل پہ ہے
افلاس کا یہ منظر عریاں نہ پوچھیے
دل میں لیے ہوئے ہوسِ عیش بے شمار
اور زیب تن کیے ہوئے ملبوس زر نگار
منعم ادھر رواں ہے بصد شان و افتخار
ہیں اس طرف نشاط کے اسباب آشکار
اور یہ ادھر ہے گر یہ بہ داماں نہ پوچھیے
منعم کو دیکھ کر دمِ بازو نکل گیا
اس کے ملال کا کوئی پہلو نکل گیا
مفلس کے دل سے نعرۂ یاہو نکل گیا
عید آئی اور آنکھ سے آنسو نکل گیا
کس درجہ ہے وہ بے سر و ساماں نہ پوچھیے
ہر چند دل میں حسرت وارماں ہیں بے قرار
لیکن وہ اپنا حال کرے کس پہ آشکار
دشمن وجود اس کا عدو اس کی جان زار
جائے کہاں نہیں ہے کوئی اس کا غم گسار
لائے کہاں سے عیش کے ساماں نہ پوچھیے
اک جانِ زار اس پہ ہزاروں جفا و جور
کس کا خیال رکھے وہ کس پر کرے وہ غور
کمزور سی اک آہ میں اس کی ہے اتنا زور
صادق بپا ہے محفِل مکاں میں ایک شور
برہم ہے نظمِ عالمِ امکاں نہ پوچھیے

صادق اندوری
 

سیما علی

لائبریرین
آو مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی رہے نہ کوئی بھی غم عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے
اور چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن

شاعر نامعلوم
 

سیما علی

لائبریرین
عید کا چاند ہے خوشیوں کا سوالی اے دوست
اور خوشی بھیک میں مانگے سے کہاں ملتی ہے
دست سائل میں اگر کاسئہ غم چیخ اٹھے
تب کہیں جا کے ستاروں سے گراں ملتی ہے

عید کے چاند ! مجھے محرم عشرت نہ بنا
میری صورت کو تماشائے الم رہنے دے
مجھ پہ حیراں یہ اہل کرم رہنے دے
دہر میں مجھ کو شناسائے الم رہنے دے

یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں !
کل وہی رنج کے، آلام کے دھارے ہوں گے
چند لمحوں کے لیے آج گلے سے لگ جا
اتنے دن تو نے بھی ظلمت میں گزارے ہوں گے

ساغر صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
میل دل سے نفرتوں کی دھویئے تو عید ہے
ہر کسی کے دکھ میں شامل ہویئے تو عید ہے
زیست میں رشتے کا ہونا تو ضروری ہے مگر
زندگی رشتوں کے اندر بویئے تو عید ہے
عنبر شمیم
 

جاسمن

لائبریرین
عید
رنج و غم بن گٸے ہیں خوشی عید پر
پھول جیسے کھلی زندگی عید پر
جب گلے سے ملے رنجشیں بھول کر
ہر عمل بن گیا بندگی عید پر
پدر و مادر ، بہن بھاٸی سب مل گٸے
دوستوں کی ہوٸی دل لگی عید پر
ہر خوشی مستقل ، اک خوشی بن گٸی
کچھ نہ باقی رہا عارضی عید پر
حسن ہے تو کہیں روٹھنے کا ہے شغل
خوب سے خوب ہے چاشنی عید پر
عشق اب ہر مرض کی دوا بن گیا
کام آہی گٸی عاشقی عید پر
فاصلے رتجگوں کا سبب بن گٸے
یعنی گویا ہوٸی ، خامشی عید پر
وقت نے سب کو یکجا کیا اور پھر
ہر گھڑی بن گٸی قیمتی عیدپر
تو ہمیں مل گیا منظرِ دل نشیں
چپکے سے چھاگٸی ہر خوشی عید پر

منظرانصاری
 
Top