عورت کا حجاب

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فاروقی

معطل
[font="alvi Nastaleeq V1.0.0"] ہمارے ہاں کچھ روشن خیال لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورت کیلئے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے جب ان کے سامنے یہ آیت پیش کی جاتی ہے ۔ ” اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادر کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ “ ( الاحزاب : 59 ) وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم پر لپیٹنا ہے جسے پنجابی میں بکل مارنا کہتے ہیں ۔ براہ کرم اس الجھن کو دور کریں ۔ ( محمد علی ۔ کچا کھوہ )
جواب

دراصل عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے باقی تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے اگر اسے ننگا رکھنے کی اجازت دی جائے اور اسے شرعی حجاب سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو حجاب کے احکام بے سود ہیں ، سوال میں آیت کریمہ کا جو معنی کیا گیا ہے یہ لغوی ، عقلی اور نقل کے اعتبار سے غلط ہے ، اب ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔

لغوی لحاظ سے ادناءکا معنی قریب کرنا ، جھکانا اور لٹکانا ہے ، قرآن میں یدنین کے بعد علی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کسی چیز کو اوپر سے لٹکا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جب اس کا معنی لٹکانا ہے تو اس کا معنی سر سے لٹکانا ہے جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آ جاتاہے ۔

عقلی اعتبار سے اس لئے غلط ہے کہ اگر کوئی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی سارا جسم دکھا دیا جائے ، تو وہ اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کرے گا یہ ممکن ہے کہ لڑکی کا صرف چہرہ دکھا دیا جائے تو وہ مطمئن ہو جائے ، جب یہ چیزیں ہمارے مشاہدہ میں ہیں تو چہرے کو پردے سے کیونکر خارج کہا جا سکتا ہے ۔

نقل کے اعتبار سے یہ معنی درست نہیں ہے کیونکہ سورت احزاب5 ہجری میں نازل ہوئی ، اس کے بعد واقعہ افک 6ہجری میں پیش آیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھی رہی ، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ، حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ وہاں آئے ، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور اونچی آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ، اتنے میں میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔ ( صحیح بخاری ، المغازی : 1041 )

بہرحال روشن خیال لوگوں کا یہ مؤقف مبنی برحقیقت نہیں ہے کہ چہرے کا پردہ مطلوب نہیں ، بلکہ اس سلسلہ میں صحیح مؤقف یہی ہے کہ چہرے کا پردہ اسلام میں مطلوب ہے ، اسلامی معاشرتی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ ( واللہ اعلم )[/font]
 

فاروقی

معطل
[font="alvi Nastaleeq V1.0.0"] چہرے كا پردہ كرنے كے تفصيلى دلائل
ميں عورت كے پردہ كے متعلق قرآنى آيات معلوم كرنا چاہتى ہوں تا كہ اپنى كچھ مسلمان بہنوں كو پيش كر سكوں، وہ معلوم كرنا چاہتى ہيں كہ اگر چہرے كا پردہ واجب يا كہ افضل ہے واجب نہيں ؟


الحمد للہ:

مسلمان بھائى آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ عورت كا اجنبى اور غير محرم مردوں سے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، جس كے وجوب پر كتاب اللہ اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت، اور معتبر اور صحيح قياس مطردہ كے دلائل موجود ہيں:

اول:

كتاب اللہ كے دلائل:

پہلى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ ﴾النور ( 31 ).

اس آيت سے عورت كے پردہ كے وجوب كى دلالت درج ذيل ہے:

ا ۔ اللہ سبحانہ و تعالى نے مومن عورتوں كو اپنى عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ديا ہے، اور عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ايسا معاملہ ہے جو اس كے وسيلہ كى حفاظت كے ساتھ ہوگا، اور كسى بھى عاقل شخص كو اس ميں شك نہيں كہ اس كے وسائل ميں چہرہ ڈھانپنا بھى شامل ہے، كيونكہ چہرہ ننگا ركھنا عورت كو ديكھنے، اور اس كے حسن و جمال ميں غور و فكر كرنے اور اس سے لذت حاصل كرنے كا سبب ہے، جس كے نتيجہ ميں وہاں تك پہنچنے كى كوشش اور رابطہ كيا جائيگا.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" آنكھيں زنا كرتى ہيں، اور ان كا زنا ديكھنا ہے....

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور شرمگاہ اس كى تصديق كرتى ہے، يا پھر تكذيب كر ديتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6612 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2657 ).

تو جب چہرہ كا ڈھانپنا عفت و عصمت اور شرمگاہ كى حفاظت كے وسائل ميں سے ہے تو پھر ا سكا بھى حكم ہے، كيونكہ وسائل كو بھى مقاصد كے احكام حاصل ہيں.

ب ۔ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر اوڑھ كر ركھيں ﴾.

گريبان سر ڈالنے والا سوراخ ہے، ور الخمار اس چادر كو كہتے ہيں جس سے وہ اپنا سر ڈھانپتى ہے، تو جب عورت كو يہ حكم ہے كہ وہ اپنى اوڑھنى اپنے گريبان پر اوڑھيں تو عورت كو اپنا چہرہ چھپانے كا بھى حكم ہے، كيونكہ يا تو يہ اس سے لازم ہے، يا پھر قياس كے ساتھ، كيونكہ جب حلقوم اور سينہ چھپانے كا حكم ہے تو بالاولى چہرہ ڈھانپنے كا حكم ہے، كيونكہ يہ تو حسن و خوبصورتى اور جمال اور پرفتن جگہ ہے.

ج ۔ اللہ سبحانہ و تعالى نے ظاہرى زينت كے علاوں باقى سب زيبائش اور بناؤ سنگھار كو مطلقا ظاہر كرنے سے منع كيا ہے، اور ظاہرى زينت مثلا ظاہرى كپڑوں كا ظاہر ہونا تو ضرورى ہے، اسى ليے اللہ تعالى نے " الا ما ظھر منھا " كے الفاظ بولے ہيں، اور يہ نہيں فرمايا: " الا ما اظھر منھا " بعض سلف مثلا ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنھما، اور ابن سيرين وغيرہ نے قولہ تعالى:

" الا ما ظھر منھا " كى تفسير چادر اور كپڑے، اور كپڑوں كے نيچى طرف سے ( يعنى اعضاء كے كنارے ) جو ظاہر ہوں كى ہے، پھر پھر اللہ تعالى نے انہيں زينت ظاہر كرنے سے دوبارہ منع كيا ہے، ليكن جن كو اس سے استثنى كيا ہے ان كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے، تو اس سے پتہ چلا كہ دوسرى زينت پہلى زينت كے علاوہ ہے، تو پہلى زينت سے مراد ظاہرى زينت ہے جو ہر ايك كے ليے ظاہر ہو گى جس كا چھپانا ممكن نہيں، اور دوسرى زينت سے مراد باطنى زينت ہے ( اور اس ميں چہرہ بھى ہے ) اور اگر يہ زينت ہر ايك كے سامنے ظاہر كرنى جائز ہوتى تو پھر پہلى زينت كو عام كرنے اور دوسرى كو استثنى كرنے ميں كوئى فائدہ معلوم نہيں ہوتا.

د ۔ اللہ سبحانہ و تعالى نے غير اولى الاربۃ مردوں كے سامنے زينت ظاہر كرنے كى رخصت دى ہے، اور غير اولى الاربہ وہ خادم ہيں جنہيں كوئى شہوت نہيں، اور وہ بچے ہيں جو شہوت كو نہيں پہنچے، اور نہ ہى عورتوں كى پردہ والى اشياء كى اطلاع ركھتے ہيں، تو يہ دو چيزوں پر دلالت كرتا ہے:

1 - ان دو قسموں كے علاوہ باطنى زينت كسى اور اجنبى اور غير محرم كے سامنے ظاہر كرنى جائز نہيں.

2 - حكم كى علت اور مدار عورت سے فتنہ اور اس سے تعلق پيدا ہونے كے خوف اور خدشہ پر مبنى ہے، اور بلاشك و شبہ چہرہ حسن و جمال كا منبع اور پرفتن جگہ ہے، تو اس كا چھپانا واجب ہوا، تا كہ شہوت والے مرد اس سے فتنہ ميں نہ پڑيں.

ھ۔ ۔ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان:

﴿ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے ﴾

يعنى عورت اپنے پاؤں زمين پر مت مارے كہ جو اس نے خفيہ پازيب اور پاؤں ميں زيور پہن ركھا ہے ا نكى جھنكار سنائى دے، چنانچہ جب پازيب وغيرہ كى آواز سن كر مرد كے فتنہ ميں پڑنے كے خوف سے عورت كو زمين پر پاؤں مارنے سے منع كيا گيا ہے تو پھر چہرہ ننگا ركھنا كيسا ہوگا.

ان دونوں ميں سے فتنہ كے اعتبار سے كونسى چيز بڑى ہے آيا عورت كے پازيب كى آواز جس كے متعلق يہ پتہ نہيں كہ وہ كيسى اور كتنى خوبصورت ہے، اور نہ ہى يہ علم ہے كہ آيا وہ نوجوان ہے يا بوڑھى ؟ اور نہ ہى يہ معلوم ہے كہ آيا وہ بدصورت ہے يا كہ خوبصورت ؟

يا كہ خوبصورتى و جمال اور نوجوانى سے بھرپور چہرے كو ديكھنا، اور پرفتن حسن و جمال كا نظارہ كرنا جو اس كى جانب ديكھنے كى دعوت دے رہا ہو ؟

ہر انسان جسے عورتوں ميں تھوڑى بھى خواہش ہے وہ يہ جانے كہ دونوں فتنوں ميں سے كونسا بڑا ہے، اور كون چھپانے اور مخفى ركھنے كا زيادہ حق ركھتا ہے.


دوسرى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ بڑى بوڑھى عورتيں جنہيں نكاح كى اميد ( اور خواہش ہى ) نہ رہى ہو وہ اگر اپنى چادر اتار ركھيں تو ان پر كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں، تاہم اگر ان سے بھى ا حتياط ركھيں تو ان كے ليے بہت بہتر اور افضل ہے، اور اللہ تعالى سنتا اور جانتا ہے ﴾النور ( 60 ).

وجہ دلالت يہ ہے كہ:

اللہ سبحانہ و تعالى نے بڑى عمر كى بوڑھى عورتوں سے ايك شرط كے ساتھ گناہ كى نفى كى ہے جو زيادہ عمر ہو جانے كى بنا پر مردوں كى رغبت نہ ركھتے ہوئے نكاح كى خواہش نہيں ركھتيں، كہ اس سے انكى غرض بےپردگى اور زيب و زينت نہ ہو.

اور ان بوڑھى عورتوں كے ساتھ حكم كى تخصيص اس بات كى دليل ہے كہ نوجوان لڑكياں جو نكاح كرنا چاہتا ہيں وہ اس ميں مخالفت حكم ركھتى ہيں، اور اگر چادر اتارنے كا حكم سب كو عام ہوتا تو پھر ان بورھى عورتوں كى تخصيص كرنے كا كوئى فائدہ نہ تھا.

اور قولہ تعالى:

﴿ بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں ﴾

سے نكاح كى خواہش كرنے والى نوجوان لڑكى كے پردہ كرنے كے وجوب پر ايك اور دليل ملتى ہے كہ اس كے ليے غالب يہ ہے كہ جب وہ اپنا چہرہ ننگا كريگى تو وہ اپناء سنگھار اور خوبصورتى و جمال ظاہر كرنا چاہتى ہے، اور اپنى جانب مردوں كو متوجہ كرنا چاہتى ہے تا كہ وہ اس كى طرف ديكھيں، اور اس كے سوا نادر ہے، اور نادر كا حكم نہيں ہوتا.


تيسرى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾الاحزاب ( 59 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" اللہ تعالى نے مومن كى عورتوں كو يہ حكم ديا كہ جب وہ اپنے گھروں سے ضرورت كے ليے باہر نكليں تو اوڑھنيوں كے ساتھ اپنے چہروں كو اپنے سروں كے اوپر سے ڈھانپ ليں، اور اپنى ايك آنكھ ظاہر ركھيں "

اور جليل القدر صحابى كى تفسير حجت ہے، بلكہ بعض علماء كرام تو كہتے ہيں كہ:

يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع حديث كے حكم ميں ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا يہ قول كہ:

" وہ اپنى ايك آنكھ ظاہر كريں " صرف ضرورت كى بنا پر اس كى رخصت دى گئى ہے، تا كہ وہ راستہ ديكھ سكيں، ليكن اگر ضرورت نہ ہو تو پھر اسے بھى ظاہر كرنا صحيح نہيں.

اور جلباب اس چادر كو كہتے ہيں جو دوپٹے كے اوپر ہوتى ہے، اور عبايا كے طور پر استعمال كى جاتى ہے.

چوتھى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ ان عورتوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ اپنے باپوں، اور اپنے بيٹوں، اور بھائيوں اور بھتيجوں، اور بھانجوں، اور اپنى ( ميل جول كى ) عورتوں، اور ملكيت كے ماتحت ( لونڈي اور غلام ) كے سامنے ہوں، اور اے عورتو اللہ تعالى سے ڈرتى رہو اللہ تعالى يقينا ہر چيز پر شاہد ہے ﴾الاحزاب ( 55 )

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جب اللہ تعالى نے عورتوں كو اجنبى اور غير محرم مردوں سے پردہ كا حكم ديا تو بيان كيا كہ ان قريبى رشتہ دار مردوں سے پردہ كرنا واجب نہيں، جيسا كہ سورۃ النور ميں بھى انہيں استثناء كرتے ہوئے اللہ تعالى نےفرمايا ہے:

﴿ اور وہ اپنى زينت اور بناؤ سنگھار ظاہر مت كريں، مگر اپنے خاوندوں كے ليے ﴾الخ

دوم:

چہرے كا پردہ واجب ہونے كے سنت نبويہ سے دلائل:

پہلى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

جب تم ميں سے كوئى شخص بھى كسى عورت كو شادى كا پيغام بھيجے اور اس سے منگنى كرنا چاہے تو اس كے ليے اسے ديكھنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھنا چاہتا ہو، چاہے وہ عورت كى لاعلمى ميں ہى اسے ديكھ لے "

اسے احمد نے روايت كيا ہے، مجمع الزوائد كے مؤلف كہتے ہيں: اس كے رجال صحيح كے رجال ہيں.

اس سے وجہ دلالت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منگنى كرنے والے شخص سے گناہ كى نفى كى ہے، خاص كر اس شرط كے ساتھ كہ وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھے، جو اس كى دليل ہے كہ منگنى كے بغير ہر اجنبى عورت كو ديكھنے والا شخص ہر حالت ميں گناہ گار ہوگا، اور اسى طرح جب شادى كا پيغام بھيجنے والا شخص منگنى كرنے كى غرض كے بغير ہى لڑكى كو ديكھے تو بھى اسے گناہ ہوگا، مثلا كوئى شخص لذت اور فائدہ حاصل كرنے كے ليے ديكھے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: حديث ميں تو اس كا بيان ہى نہيں كہ وہ كيا چيز ديكھے، ہو سكتا ہے اس سے مراد سينہ اور گلا ہو ؟

ا سكا جواب يہ ہے كہ:

ہر كوئى جانتا ہے كہ شادى كا پيغام دينے والے شخص كا مقصد خوبصورتى حاصل كرنا ہے، اور سارى خوبصورى چہرے ميں ہى ہوتى ہے، اور اس كے علاوہ جو كچھ ہے وہ چہرے كى خوبصورتى كے تابع ہے، ا سكا غالبا قصد ہى نہيں كيا جاتا، تو شادى كا پيغام دينے والا صرف عورت كے چہرہ كو ديكھےگا، كيونكہ بلا شك خوبصورتى چاہنے والے كے ليے فى ذاتہ يہى مقصود ہے.

دوسرى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب عورتوں كو عيد كے ليے عيدگاہ جانے كا حكم ديا تو عورتوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك كے پاس ہو سكتا ہے پردہ كرنے كے ليے چادر اور اوڑھنى نہ ہو ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس كى ( مسلمان ) بہن كو چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنى اوڑھا دے "

صحيح بخارى اور صحيح مسلم.

تو يہ حديث اس كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كى عورتوں ميں عادت تھى كہ وہ چادر اور اوڑھنى كے بغير باہر نہيں نكلتى تھيں، اور چادر نہ ہونے كى حالت ميں ان كے ليے باہر نكلنا ممكن نہ تھا، اور چادر اور اوڑھنى اوڑھنے كے حكم ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ پردہ كرنا لازمى ہے.

واللہ اعلم.


تيسرى دليل:


صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر ادا كرتے تو آپ كے ساتھ مومن عورتيں بھى اپنى چادريں لپيٹ كر نماز ميں شامل ہوتيں، اور پھر وہ اپنے گھروں كو واپس ہوتى تو اندھيرا ہونے كى بنا پر انہيں كوئى بھى نہيں پہچانتا تھا "

اور وہ كہتى ہيں:

" اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كى يہ حالت ديكھ ليتے جو ہم ديكھ رہے ہيں، تو انہيں مسجدوں ميں آنے سے روك ديتے جس طرح بنى اسرائيل كى عورتوں كو روك ديا گيا تھا "

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اسى طرح روايت ہے.

اس حديث سے دو وجہ سے دلالت كى گئى ہے:

پہلى:

پردہ كرنا اور چھپ كر رہنا صحابہ كرام كى عورتوں كى عادت تھى، جو كہ سب سے بہتر لوگ ہيں، اور اللہ كے ہاں لوگوں سے سب سے زيادہ عزيز ہيں.

دوسرى:

ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا، اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما عالم و فقيہ اور بصيرت كے مالك ہيں، دونوں ہى يہ بتا رہے ہيں كہ اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہ كچھ ديكھ ليتے جو ہم عورتوں كى حالت ديكھ رہے ہيں ت وانہيں مسجدوں ميں آنے سے روك ديتے، اور يہ اس دور كى بات ہے جو سب ادوار سے بہتر اور افضل تھا، تو پھر اب ہمارے اس دور ميں كيا ؟!!

چوتھى دليل:

ابن عمر رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں "

تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:

تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ ايك بالشت تك اسے ٹخنوں سے نيچے لٹكا كر ركھيں "

وہ كہنے لگيں:

" پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اور اس سے زيادہ نہيں "

جامع ترمذى حديث نمبر ( 1731 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5336 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4117 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3580 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

تواس حديث ميں عورت كے پاؤں ڈھانپنے كے وجوب كى دليل پائى جاتى ہے، اور اس كى دليل ہے كہ يہ چيز صحابہ كرام كى عورتوں ميں معلوم تھى، اور پھر بلا شك و شبہ پاؤں تو چہرے اور ہاتھ سے كم فتنہ و خرابى كے باعث ہيں، تو كم چيز كى تنبيہ اس سے بڑھى چيز پر تنبيہ ہے، اور وہ اس كے حكم ميں اولى اور افضل ہے.

اور پھر شرعى حكمت ا سكا انكار كرتى ہے كہ كم فتنہ اور خرابى كى باعث چيز كا تو پردہ ہو، اور اسے چھپايا اور ڈھانپا جائے، اور جو اس سے فتنہ و خرابى ميں بڑى اور زيادہ ہو اسے ننگا ركھنے كى اجازت دى جائے، يہ ايك ايسا تناقض ہے جو اللہ كى حكمت و شرع كے ليے مستحيل ہے.

پانچويں دليل:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1562 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2935 ) ابن خزيمہ نے ( 4 / 203 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " جلباب المراۃ المسلۃ " ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول:

" جب وہ ہمارے برابر آتے "

اس سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى مراد قافلہ سوار ہيں, اور يہ قول:

" ہم ميں سے عورتيں اپنے چہرے پر اپنى اوڑھنى لٹكا ليتى "

يہ چہرے كہ پردہ كے واجب ہونے كى دليل ہے، كيونكہ احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا مشروع ہے، تو اگر چہرہ ننگا ركھنے ميں كوئى قوى مانع نہ ہو تو اس وقت ننگا ركھنا باقى رہتا حتى كہ قافلہ سواروں كے گزرتے وقت بھى.

ا سكا بيان اور تفصيل يہ ہے كہ: احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا اكثر اہل علم كے ہاں واجب ہے، اس كا كوئى معارض نہيں، صرف وہى جو واجب ہے، تو اگر پردہ كرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام كى حالت ميں واجب كو ترك كرنا جائز نہ ہوتا.

صحيح بخارى اور مسلم وغيرہ ميں يہ حديث موجود ہے كہ:

" احرام كى حالت ميں عورت كو نقاب اور دستانے پہننا ممنوع ہيں "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ اس كى دليل ہے كہ نقاب اور دستانے ان عورتوں ميں معروف تھے جو احرام والى نہ تھيں، اور يہ عورتوں كے چہرے اور ہاتھ كا پردہ كرنے كا تقاضا كرتا ہے.


يہ كتاب و سنت ميں سو نو دلائل تھے:

اور دوسويں دليل يہ ہے كہ:

صحيح اعتبار اور قياس مطرح ہے، جو يہ كامل شريعت لائى ہے اور وہ مصالح اور اس كے وسائل كا اقرار ، اور ان پر ابھارنا، اور خرابيوں اور ان كے وسائل كا انكار اور اس سے منع كرنا ہے.

اور جب ہم غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے بے پردگى، اور عورت كا چہرہ ننگا ركھنے پر غور و فكر اور تامل كرتے ہيں تو ہم يہ اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں ديكھتے ہيں، اور اگر يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ اس ميں كوئى مصلحت پائى جاتى ہے، تو يہ ان خرابيوں كے مقابلہ ميں بہت ہى چھوٹى ہے.

بےپردگى كى خرابياں درج ذيل ہيں:

1 - فتنہ: اس ليے كہ عورت اپنے آپ كو ايسے فعل كے ساتھ فتنہ ميں ڈالتى ہے جو اس كے چہرہ كو خوبصورت اور بنا سنوار كر پيش كرتا ہے، اور اسے پرفتن بنا كر دوسروں كے سامنے لاتا ہے، اور يہ چيز شر و برائى اور فساد كے سب سے بڑے اسباب ميں سے ہے.

2 - عورت سے شرم و حياء ہى ختم ہو جاتى ہے، جو كہ ايمان كا حصہ ہے، اور پھر يہ شرم و حياء عورت كى فطرت كا تقاضا بھى تھا، عورت شرم و حياء ميں ضرب المثل تھى، اسى ليے كہا جاتا ہے:

اپنے پردہ ميں رہنے والى كنوارى عورت سے بھى زيادہ شرم والا "

اور عورت سے شرم و حياء كا ختم ہو جانا اس كے ايمان ميں نقص كى نشانى ہے، اور جس فطرت پر وہ پيدا ہوئى ہے اس سے نكلنے كى علامت ہے.

3 - اس سے مرد بھى فتنہ كا شكار ہو جاتا ہے، اور خاص كر جب عورت خوبصورت، اور حسن و جمال والى ہو، اور وہ ہنسى مذاق اور اٹھكيلياں بھى كرتى ہو، جيسا كہ بہت سارى بےپردہ عورتيں مٹك مٹك كر چلتى اور كرتى ہيں، اور پھر شيطان تو انسان ميں اس طرح سرايت كرتا ہے جس طرح جسم ميں خون ہوتا ہے.

4 - مردوں كے ساتھ عورت كا اختلاط اور ميل جول:

كيونكہ جب عورت اپنے آپ كو چہرہ ننگا ركھنے اور بےپردہ گھومنے پھرنے ميں مردوں كے برابر سمجھےگى تو اس سے شرم و حياء كہا ملے گى اور نہ ہى وہ مردوں كے ساتھ دھكم پيل كرنے ميں شرمائيگى.

اور اس چيز ميں بہت زيادہ خرابى و فتنہ ہے، امام ترمذى نے حمزہ بن ابو اسيد انصارى عن ابيہ كے طريق سے حديث روايت كي ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے باپ نے بيان كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد سے نكلے تو راہ ميں مرد عورتوں كے ساتھ مل گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو فرمايا:

" تم ذرا پيچھے ہٹ جاؤ بعد ميں آنا، كيونكہ تمہيں راہ كے درميان چلنے كا حق نہيں، تم راستے كى كناروں كى طرف ہو كر چلا كر، تو عورت بالكل ديوار كے ساتھ ہو كر چلتى حتى كہ ديوار كے ساتھ چپك كر چلنے كى وجہ سے اس كے كپڑے ديوار كے ساتھ اٹك جاتے "


جامع ترمذى جديث نمبر ( 5272 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح الجامع حديث نمبر ( 929 ) ميں حسن قرار ديا ہے. [/font]
لنک

صحيح پردہ كے اوصاف

كيا مسلمان عورت كافرہ عورت سے پردہ كرے

پردہ کے متفرق مسائل
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، اللہ آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے ، فاروقی بھائی ، میرا خیال ہے اس موضوع پر قران اور احادیث کے اتنے دلائل کے بعد شاید ہی کوئی صاحب ایمان پردے کی فرضیت کے بارے میں شک کا شکار رہے ، یہاں مجھے ایک بہت جید عالم دین کی ایک بات یاد آ رہی ہے جو بے پردگی کے دانستہ اور نا دانستہ حامیوں کے لیے خاص طور پر اور ہر ایک مسلمان کے لیے بڑی نصیحت آموز ہے ، اس قسم کی باتوں کو میں نے ایک کتاب """ سنہری باتیں """ کی صورت میں جمع کرنا شروع کر رکھا ہے ، موضوع کی مناسبت سے ایک سنہری بات پڑھتے چلیے :::
::: سنہری باتیں ::: میں اُن لوگوں کے ساتھ چلا یہاں تک ہم ایک یونیورسٹی میں پہنچے ، وہ چھٹیوں کے دن تھے میزبان ہمیں طالب علموں کے رہائش گاہ کی طرف لے گئے جس کے ساتھ ہی طالبات کی رہائش گاہ تھی اور دونوں کے درمیان کسی قِسم کی کوئی حد یا روکاٹ نہ تھی ، یعنی دونوں طرف سے کوئی بھی جب بھی جس سے بھی ملنا چاہے اُس کے پاس آنا جانا چاہے اس پر کوئی پابندی تو کیا روکاٹ بھی نہیں ، یورپ میں تو بعض لوگوں نے مَردوں کی بڑائی کو ناجائز قرار دے رکھا ہے ، اور ان کو ان کی مرادنہ عِزت سے دور کر رکھا ہے ، میں نے بہت عرصہ پہلے ایک دفعہ کہا تھا کہ '''میں جتنی فرانسی زُبان جانتا ہوں اور جتنی انگریزی اس کے جاننے والوں سے سمجھی ہے اس میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو عربی کے لفظ '''عِرض ::: عِزت''' کا معنی ( مفہوم ) رکھتا ہو ''' اسی طرح کئی سال پہلے میں نے ایک خبر پڑھی تھی اور اس وقت اسےبیان بھی کیا تھا اور اب تک وہ خبر مجھے یاد ہے کہ ''' (یورپ امریکہ وغیرہ میں )مخلوط تعلیم والے سکولز او یونیورسٹیز کے ذمہ دار افراد وہاں کی طالبات کو باقاعدہ اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ کس طرح حمل ہونے سے بچا جائے ، اور اگر ہو جائے تو اس سے کس طرح نجات حاصل کی جائے ''' اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ زنا کاری اور اس کے بدلے میں ہونے والے حمل کو ختم کرنا جائز قرار دیتے ہیں ، اور اس عمل کی وجہ سے انسانیت کے عِزت مند رتبے سے گر کر حیوانیت کے درجے پر پہنچ جاتے ہیں ، اس کے بعد ہم میں سے ہی ایسے لوگ ظاہر ہونے لگے جنہوں نے اپنی مسلمان بہنوں بیٹیوں کو اسی راہ پر چلانا چاہ ، پس پردہ اور حجاب کے خِلاف کاروائیاں کرنے لگے ، اور بے پردگی اور مرد و عورت کے میل جول کو ترویج دینے لگے ، اور یوں ہمارے اندر ابلیس کے دستور کے پہلے بند کا نفاذ کرنے لگے ، یعنی بے پردگی ، اور ننگا پن پھیلا کر جنسی بے راہ روی کا راستہ کھولنا ، (جیسا کہ ابلیس نے آدم علیہ السلام کے خلاف سب سے پہلے یہ ہی کام کیا جس کی خبر اللہ تعالی نے دیتے ہوئے فرمایا ( فَوَسوَسَ لَہُمَا الشَّیطَانُ لِیُبدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنہُمَا مِن سَوء َاتِہِمَا ::: اور شیطان نے آدم اور حوا کو وسوسہ ڈالا تا کہ ان کی شرمگاہوں میں سے جو ڈھکا ہوا ہے ان پر ظاہر ہو جائے) سورت الاعراف /آیت20 اور فرمایا ( یَنزِعُ عَنہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوء َاتِہِمَا ::: ابلیس نے آدم اور حوا کے لباس اتروا دیےتا کہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھا دے ) سورت الاعراف /آیت 27 ، کیا یہ اُن (بے پردگی ، بے حیائی ، اور مرد و عورت کے باہمی میل جول پھیلانے والوں) کے جہنم کی طرف لے جانے والے اِمام اور قائد ابلیس کے دستور کا پہلا بند نہیں ؟ ''' ذِکریات الشیخ علی الطنطاوی ''' رحمۃ اللہ علیہ سے ماخوذ۔
یہ کسی ایک شخصیت کے بارے میں نہیں ، ہر ایک ان باتوں کی روشنی میں اپنے افکار و سوچ کو پرکھ سکتا ہے جان سکتا ہے کہ وہ کس کے دستور پر عمل پیرا ہے ؟
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مقرر کردہ قوانین پر یا اللہ کے دشمن ابلیس کے دستور پر ؟؟؟
اللہ ہم سب کو کسی ہر منفی ضد اور تعصب سے محفوظ رکھے اور حق پہچان کر اسے قبول کرنے کی ہمت عطا فرمائے ، و السلام علیکم
 

فاروقی

معطل
شکریہ بھائی عادل سہیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ ، بہت خوب عطا بھیا ، اللہ تبارک و تعالی مزید علم و حلم عطا فرمائے،
امید ہے وہ نام نہاد پردہ دار اور روشن خیال افراد اس سے سبق حاصل کریں
گے جو پردے کو محض فیشن اور حجاب اور اسکارف سے معمول کرتے ہیں۔
اللہ جزائے خیر عطا فرمائے اٰمین
 

فاروقی

معطل
ماشا اللہ ، بہت خوب عطا بھیا ، اللہ تبارک و تعالی مزید علم و حلم عطا فرمائے،
امید ہے وہ نام نہاد پردہ دار اور روشن خیال افراد اس سے سبق حاصل کریں
گے جو پردے کو محض فیشن اور حجاب اور اسکارف سے معمول کرتے ہیں۔
اللہ جزائے خیر عطا فرمائے اٰمین

آمین ......ثم آمین........جزاللہ خیر
 

مغزل

محفلین
اٰمین ثم اٰمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صل اللہ علیہ والہ واصحابہ وبارک وسلم
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی ، فاروقی ، بھائی مغل ، اور وجی ، اللہ آپ سب کو قبول حق پر بہترین اجر عطا فرمائے ، اور سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ، و السلام علیکم
 

تعبیر

محفلین
آپ یہاں پڑھنے کے لیے ہی پوسٹ کرتے ہیں نا ؟؟؟
اگر ہاں تو پلیز تھوڑا تھوڑا لکھا کریں تاکہ پڑھا اور سمجھا جا سکے بلکہ اگر کچھ پوچھنا بھی ہو تو پوچھا جا سکے

میں نے ابھی کچھ نہین پڑھا دیکھتے ہی دماغ گھوم گیا ہے
 

جہانزیب

محفلین
لیکن حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ مندرجہ ذیل حدیث‌ کی بابت کوئی ایک لفظ‌ نہیں‌ کہا گیا ۔

[LEFT]Book 32, Number 4092:

Narrated Aisha, Ummul Mu'minin:

Asma, daughter of AbuBakr, entered upon the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) wearing thin clothes. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) turned his attention from her. He said: O Asma', when a woman reaches the age of menstruation, it does not suit her that she displays her parts of body except this and this, and he pointed to her face and hands.[/LEFT]
 

فاروقی

معطل
آپ یہاں پڑھنے کے لیے ہی پوسٹ کرتے ہیں نا ؟؟؟
اگر ہاں تو پلیز تھوڑا تھوڑا لکھا کریں تاکہ پڑھا اور سمجھا جا سکے بلکہ اگر کچھ پوچھنا بھی ہو تو پوچھا جا سکے

میں نے ابھی کچھ نہین پڑھا دیکھتے ہی دماغ گھوم گیا ہے

بہت اچھی بات ہے سسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئندہ میں کوشش کروں گا ۔۔۔۔مختصر لکھنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ایک دفعہ اسے پڑھ لیجیئے۔۔۔۔۔آپستہ آہستہ
 

محمد وارث

لائبریرین
میں تو کہتا ہوں یہ سارا فتور ہی عورت کا پھیلایا ہوا ہے، انکے چہروں پر تیزاب پھینک دینا چاہیئے کہ نہ عورتوں کے چہرے رہیں اور نہ پاک دامن عفت مآب معصوم مردوں کی عصمت کے پردے چاک ہوں، بلکہ دنیا میں تمام عورتوں کو زندہ درگور کر دینا چاہیئے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور روزِ حشر تمام ملعنوں، شیطانوں، جہنمیوں، دوزخیوں کو اللہ تعالٰی سے شکوہ کرنا چاہیئے کہ تو نے فقط اور فقط ہم معصومین کے بہکانے کو عورتوں کو بنایا اور وہی تمام فتنے کی جڑ تھیں سو تمام عورتوں کو دوزخ میں ڈال کر ہمیں جنت میں حوریں عطا فرما اور اگر ان سے بھی نفرت ہو تو غلمان ہی کافی ہیں۔

نعوذ باللہ السمیع العلیم من ذالک۔
 

فاروقی

معطل
جناب عالی طنز کی بجائے...........اسلامی لحاظ سے اسے ایک نظر دیکھیئے ..........یہاں تنقید نہیں ہو رہی بلکہ سیکھنے سکھانے کے لیئے سوال جواب ہو رہے ہیں.............

ویسے آپ کو غصہ کس لیئے آیا ..........آپس کی بات ہے
 
میں تو کہتا ہوں یہ سارا فتور ہی عورت کا پھیلایا ہوا ہے، انکے چہروں پر تیزاب پھینک دینا چاہیئے کہ نہ عورتوں کے چہرے رہیں اور نہ پاک دامن عفت مآب معصوم مردوں کی عصمت کے پردے چاک ہوں، بلکہ دنیا میں تمام عورتوں کو زندہ درگور کر دینا چاہیئے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور روزِ حشر تمام ملعنوں، شیطانوں، جہنمیوں، دوزخیوں کو اللہ تعالٰی سے شکوہ کرنا چاہیئے کہ تو نے فقط اور فقط ہم معصومین کے بہکانے کو عورتوں کو بنایا اور وہی تمام فتنے کی جڑ تھیں سو تمام عورتوں کو دوزخ میں ڈال کر ہمیں جنت میں حوریں عطا فرما اور اگر ان سے بھی نفرت ہو تو غلمان ہی کافی ہیں۔

نعوذ باللہ السمیع العلیم من ذالک۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی محمد صاحب ، فاروقی بھائی نے آپ کے اس مندرجہ بالا مراسلے کا بہت اچھا جواب دے دیا کہ :::

جناب عالی طنز کی بجائے...........اسلامی لحاظ سے اسے ایک نظر دیکھیئے ..........یہاں تنقید نہیں ہو رہی بلکہ سیکھنے سکھانے کے لیئے سوال جواب ہو رہے ہیں.............

ویسے آپ کو غصہ کس لیئے آیا ..........آپس کی بات ہے
اس کے بعد آپ سے مجھے صرف یہ سمجھنا ہے کہ یہ جو کچھ آپ نے کہا ، آپ کے یہ الفاظ کیا مفہوم رکھتے ہیں ، میں آپ کا بڑا ممنون ہوں گا کہ اپنے ان الفاظ کی کچھ تشریح فرما دیجیے ، کیونکہ مجھے ان کا جو مفہوم سمجھ میں آ رہا ہے وہ کافی سے زیادہ خوفناک نتائج کا حامل نظر آتا ہے ،
آخر میں آپ نے جو اللہ کی پناہ طلب کی وہ کس چیز سے ہے ، اپنی ان باتوں کے نتیجے سے ، یا دوسروں کے بارے میں اور روز محشر کے بارے میں ، جنت میں با عمل ایمان والوں کو ملنے والے انعامات کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی تکرار سے ؟؟؟
اللہ تعالی ہمیں اس کی بندگی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، و السلام علیکم
 

دوست

محفلین
حضرت اسماء والی یہ حدیث جو صحیح مسلم میں سے ہے شاید اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ خواتین حجاب لے سکتی ہیں جس میں ان کا چہرہ اور ہاتھ نظر آسکیں۔ کام والی جگہ پر ایسا کیا جانے میں‌ کوئی حرج بھی نہیں۔ بلکہ بعض‌ جابز جیسے استقبالیہ پر موجود خاتون اگر نقاب کرے گی تو اسے کون نوکری دے گا۔
 

جہانزیب

محفلین
اوپر مولانا صاحب کے دلائل پڑھ کر فوری طور پر دو سوالات ذہن میں‌ آ‌رہے ہیں‌، تفصیلا اس موضوع پر بحث‌ ویک اینڈ‌ کو ہو گی ۔
پہلا سوال یہ ہے کہ مولانا نے حجاب کی بابت دلائل دیتے وقت ایک دلیل دی ہے، کہ شادی سے پہلے لڑکے کو لڑکی دیکھنے کی اجازت دی ہے، اور اس کا گناہ نہیں‌ہے ۔ لیکن شائد وہ یہ بتانا بھول گئے ہیں‌ کہ حجاب مردوں‌ پر بھی فرض‌ ہے، اور قرآن میں عورتوں‌ کے حجاب سے پہلے والی آیت میں‌ پہلے مردوں‌ کے حجاب پر بات ان الفاظ‌ میں‌ کی گئی ہے ۔

[arabic][ayah]قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ۔[/ayah][/arabic]

آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں

اس آیت سے ایک بات ظاہر ہے کہ مسلمان مرد، کسی عورت کی طرف نہیں‌ دیکھ سکتا، البتہ حدیث‌ کی رو سے اس کی تشریح‌ یوں‌ہو گی کہ شادی کی غرض‌ سے مرد کا عورت کو دیکھنے پر کوئی قباحٹ نہیں‌ ہے ۔ اس سے کہیں‌ بھی عورت کے چہرہ ڈھانپنے کی تشریح‌کیسے نکالی جا سکتی ہے ؟ اوپر مولانا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عورت کا چہرہ ڈھانپنا فرض‌ نہیں‌ واجب ہے لیکن یہ بتانا بھول گئے ہیں‌ کہ مرد کا اپنی نگاہیں‌ نیچی رکھنا فرض‌ ہے ۔ امید ہے آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں‌ گے اور منطق سے بات کریں‌ گے ۔

دوسری سوال، کہ عورت کا صرف ایک آنکھ کھلی رکھنے کے بارے میں بیان ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اگر مجبوری نہ ہو تو دونوں‌آنکھیوں‌پر کپڑا یا پردہ ڈال دینا چاہیے۔ اس زمانے میں‌ کتوں‌ کو اندھے لوگوں‌ کو راستہ دکھانے پر سدھایا جاتا ہے، تو کیا عورت کا واچ ڈاگ رکھنا اسلام کے لحاظ‌سے فرض‌ ہے؟‌
 

بنگش

محفلین
جہانزیب بھائ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ عورت سے پہلے مرد کو پردہ کرنے کا حکم دیا گيا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ بھی بتا دیا گیا کہ مرد کا پردہ نگاہیں نیچی رکھنا ہے ۔
جہاں تک میرے علم میں ہے یہ بحث کہ عورت کو چہرہ ڈھانپنا چاہيئے یا نہیں اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اوائل اسلام سے ہی چلتی آرہی ہے ، اور ابھی تک اس کا کوئ فیصلہ نہیں ہو سکا۔ وجہ ؟ جن کتابوں سے چہرہ چھپانے کے دلائل ملتے ہیں انہی کتابوں سے چہرہ نہ ڈھانپنے کی دلیل بھی مل جاتی ہے۔تو اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ آیا ان بحثوں کو چلتا رہنے دیں یا کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں مگر وہ ایک بات آئے کہاں سے ؟ میرا خیال ہے ہم میں سے جو لوگ عربی بہتر جانتے ہوں وہ صرف قرآنی آیات کو سامنے رکھیں اور اگر پھر بھی بات صاف نہیں ہوتی تو ایک دوسرا راستہ اختیار کر لیا جائے۔
میری اس بات سے بہت کچھ اختلاف کیا جا سکتا ہے ،اگر میں یہ کہوں اس مسلئے کا سائنٹیفک بنیادوں پر مکمل سیکولر ہو کر جائزہ لیا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ جن اقوام نے پردہ کی پابندی کی وہ انسانیت کے ليئے زیادہ بارآور اور سود مند ثابت ہوئيں یا وہ اقوام جنہوں نے اس کی پابندی سے خود کو لا تعلق رکھا؟ آج گھر کے اخراجات پورا کرنے کے ليئے عورت کو بھی معاشی سر گرمیاں کر نی پڑتی ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہيئےکہ اس پر آشوب عہد کی تخلیق میں سرمایہ دارانہ نظام کا بھی ہاتھ ہے ۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ مسلہ حل ہو جائیگا۔ میں بحث کو ایک نئے رخ پر ڈالنا چاہتا ہوں ۔ بجائے یہ کہ ہم پردہ کا ایک مذہبی مسلہ کی حیثیت سے جائزہ لیں ، اسے ایک معاشرتی مسلئے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میری گزارش ہو گی ان ممبران سے جو سائیکولوجی کا اچھا علم رکھتے ہوں کہ وہ اس مسلئے پر روشنی ڈالیں اور اس کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیں۔
مجھے خطرہ تو یہی ہے کہ میری تجویز دونوں حلقوں کی طرف سے رد کر دی جائيگی ، لیکن پھر بھی ایک بار سو چیں تو سہی،،،،،،
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top