عورتوں‌کے لیے مخصوص خانے میں‌مرد

پاکستان میں‌یہ بڑا مسئلہ ہے کہ عورتوں‌کے لیے مخصوص کمپارٹمنٹ میں‌بھی مرد اکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ویسے ہی یہ حصہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ بلکہ منی بس میں‌تو بہت ہی منی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے عورتوں‌کو سفر کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کوئی گورنمنٹ اجاے عورتوں‌کا یہ مسئلہ حل نہیں‌ہوتا۔ ایک زمانے میں‌ عورتوں‌کے لیے الگ بس چلنے کی سنی تھی مگر پتہ نہیں‌اس کا کیا ہوا۔ ویسے کراچی میں‌ تو عورتوں‌کے لیے بس میں‌مخصوص حصہ ہوتا ہے کیا پاکستان کے دوسرے شہروں‌میں‌ہوتا ہے؟ اگر نہیں‌تو کیوں‌نہیں؟
1100232531-1.gif
 
ٹرانسپورٹ کے حوالہ سے یہاں ایسے ہزار مسائل ہیں اور کروڑہا وعدے جو کہ کبھی پورے نہ ہونے کے لیے کیے گئے ہیں۔۔۔! کس کس کا رونا روئیں گے؟
 

تفسیر

محفلین
پاکستان میں‌یہ بڑا مسئلہ ہے کہ عورتوں‌کے لیے مخصوص کمپارٹمنٹ میں‌بھی مرد اکر بیٹھ جاتے ہیں۔؟

کیوں بیٹھ جاتے؟ ایسا کیوں ہے؟
کیا کراچی کے مردوں میں عورتوں کےجائز حصہ کی عزت، عورتوں کا لحاظ اور تہذیب و اخلاق نہیں ہوتے؟ :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیوں بیٹھ جاتے؟ ایسا کیوں ہے؟
کیا کراچی کے مردوں میں عورتوں کےجائز حصہ کی عزت، عورتوں کا لحاظ اور تہذیب و اخلاق نہیں ہوتے؟ :)

السلام علیکم تفسیر بھائی آپ کا سوال تو بہت مناسب ہے البتہ وسائل کی قلت اور مسائل کی بے پناہ زیادتی کی موجودگی میں بہت کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
شہر کی آبادی کے لحاظ سے گاڑیوں کی ناکافی تعداد اس کا ایک بڑا سبب ہے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پاکستان میں‌یہ بڑا مسئلہ ہے کہ عورتوں‌کے لیے مخصوص کمپارٹمنٹ میں‌بھی مرد اکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ویسے ہی یہ حصہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ بلکہ منی بس میں‌تو بہت ہی منی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے عورتوں‌کو سفر کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کوئی گورنمنٹ اجاے عورتوں‌کا یہ مسئلہ حل نہیں‌ہوتا۔ ایک زمانے میں‌ عورتوں‌کے لیے الگ بس چلنے کی سنی تھی مگر پتہ نہیں‌اس کا کیا ہوا۔ ویسے کراچی میں‌ تو عورتوں‌کے لیے بس میں‌مخصوص حصہ ہوتا ہے کیا پاکستان کے دوسرے شہروں‌میں‌ہوتا ہے؟ اگر نہیں‌تو کیوں‌نہیں؟
1100232531-1.gif

شہریوں کو دوسروں کے کئے کے ساتھ ساتھ بہت حد تک خود اپنے کئے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔۔۔ بات بات پر جس طرح ٹرانسپورٹ اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور پہلے سے ہی ناکافی وسائل کو مزید ناکافی کر دیا جاتا ہے اس کا خمیازہ بھی سب کو بُھگتنا پڑتا ہے اور بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں زنجیر در زنجیر
 

تفسیر

محفلین
السلام علیکم تفسیر بھائی آپ کا سوال تو بہت مناسب ہے البتہ وسائل کی قلت اور مسائل کی بے پناہ زیادتی کی موجودگی میں بہت کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
شہر کی آبادی کے لحاظ سے گاڑیوں کی ناکافی تعداد اس کا ایک بڑا سبب ہے ۔

ھھم ۔۔۔
rose.gif

شگفتہ بہن ۔۔۔معذرت کے ساتھ ۔۔۔ اس سے پہلے کے بھیا کی دُھنائی ہو یہ پھول حاضر ہے
rose.gif

۔۔۔۔ وسائل اور گاڑیاں ۔۔۔۔اخلاق وتہذیب ، قدر و عزت اور انسانیت کا بدل نہیں ہوتے ۔ آسان حالات میں تو سب ہی انسان کہلاتے ہیں۔ انسانیت کی پرکھ مشکلات میں ہوتی ہے۔ ;)
 
اپ کی بات کسی حد تک درست ہے۔ مگر اپ نے شاید کراچی میں بسوں میں‌سفر نہیں‌کیا ہے۔ وہاں تو لوگ منی بسوں‌کی چھتوں‌پر بھی سفر کررہے ہوتے ہیں۔ میرا اشارہ اسی طرف تھا کہ کاش ٹرانسپورٹیشن کے معاملات درست ہوجائیں۔

ویسے میں اس بات سے متفق ہوں کہ عمومی طور پر معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ جب میں کراچی میں تھا تو یہ تصور کرتا تھا کہ یہ لوگ جو خواتیں کے کمپارٹمنٹ میں بیٹھ جاتے ہیں کم تعلیم یافتہ یا کم شعور کے حامل ہیں جن کی اکثریت کراچی سے باھر سے ائی ہے اور کراچی کو اپنا شہر نہیں سمجھتی۔ مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ نقطہ نظر درست نہیں۔ معاملہ اخلاقی تنزلی کا ہی ہے اور اس کا واضح سبب مذہبی علم و تعلیم کی کمی ہے۔ یعنی وہ تربیت جو پہلے ملتی تھی اب مفقود ہے۔
 

تیشہ

محفلین
السلام علیکم تفسیر بھائی آپ کا سوال تو بہت مناسب ہے البتہ وسائل کی قلت اور مسائل کی بے پناہ زیادتی کی موجودگی میں بہت کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
شہر کی آبادی کے لحاظ سے گاڑیوں کی ناکافی تعداد اس کا ایک بڑا سبب ہے ۔






سنیں ، ۔۔ سنیں

بس میں بہت زیادہ رش تھا ، ایک بزرگ سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے ڈنڈا پکڑے کھڑے تھے ، قریب ہی سیٹ پر ایک نوجوان کھڑکی پر سر ٹکائے سو رہا تھا ، کنڈیکٹر نے اس خیال سے اسےُ جگانے کی کوشیش کی کہ کہیں اسکا اسٹاپ نہ نکل جائے۔
نوجوان آنکھیں کھولےُ بغیر بولا ، '' میں سو نہیں رہا ہوں ' تم اپنا کام کرو '

سو نہیں رہے ہو تو پھر اسطرح آنکھیں بند کئے کیوں بیٹھے ہو؟:confused: کنڈیکٹر نے حیرت سے پوچھا ۔



میں بزرگوں کو کھڑے ہوکر سفر کرتے نہیں دیکھ سکتا ، ' ، نوجوان نے جواب دیا ،


zzzbbbbnnnn.gif
zzzbbbbnnnn.gif
 
شہریوں کو دوسروں کے کئے کے ساتھ ساتھ بہت حد تک خود اپنے کئے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔۔۔ بات بات پر جس طرح ٹرانسپورٹ اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور پہلے سے ہی ناکافی وسائل کو مزید ناکافی کر دیا جاتا ہے اس کا خمیازہ بھی سب کو بُھگتنا پڑتا ہے اور بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں زنجیر در زنجیر

درست فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ زیر زمیں‌ریل کا نظام کراچی کا ایک بڑا مسئلہ حل کرسکتا ہے۔ پھر اس ریل میں‌خواتین‌کے لیے الگ ڈبے بھی لگ سکتے ہیں۔ شاید سٹی گورنمنٹ اس پر کام بھی کررہی تھی۔ معلوم نہیں‌کب عمل درامد ہوتا ہے۔
ئ
 

تفسیر

محفلین
اس تھریڈ کو پڑھنے کے بعد میں نے کچھ تحقیقات کیں۔ جن سے پتہ چلا کہ کراچی ڈسٹرکٹ اس مسئلہ پر کام کر رہا ہے۔

http://www.karachicity.gov.pk/eip-kcr.asp
http://dawn.com/2007/02/09/local2.htm
February 09, 2007
پلان کہ مطابق کراچی میں کراچی سرکلر سسٹم کو بہتر کیا جائےگا اور ماڈرن لائٹ سسپینڈیڈ ریلوے سسٹم بنایا جائے گا۔ یہ چھ سال کا پلان ہے۔ اس سسٹم میں ہر روز 174,000,000 لوگ سفر کر سکیں گئے۔

contacts
MUHAMMAD JAVED HANIF
District Coordination Officer
Office
9231161-9231175 Res .
- Fax 9231152-9205610
E-Mail
dco@karachicity.gov.pk
 

تفسیر

محفلین

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ کراچی کے لوگ ( یعنی آپ) کیا کرر ہے ہیں۔؟


کسی بھی قوم کی کامیابی کا راز کی حکومت نہیں ہوتی ۔ کامیابی کا راز اس قوم کا کردار ہوتا ہے۔ کردار بنیادی اخلاقی جواہر سے بناتا ہے اور بنیادی تعلیم کے ذریعہ civic dutyپیدا کی جاسکتی ہے۔


اب آیے مسئلہ کی طرف
جب تک کہ حکومت ٹرانسپورٹیشن مسائل کو حل نہ کرلیے ۔میں یا آپ کیا کرسکتے ہیں۔

یوں تو مسائل کو حل کرنے کے کئ طریقے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ طریقے دوسرے طریقوں پر فوقیت رکھتا ہے اور اس کہ اصول زندگی کے کیسی پہلو پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

1۔ خواب
2۔ تشخیص
3۔ تعمیل کا منصوبہ
4۔ سوچ ایک طریقہ ہے
5۔ خواہش
6۔ یقین و ایمان
7۔ آٹوسجیشن
8۔ تعلیمِ خصوصی
9۔ تصور
10۔ منظم منصوبہ بندی
11۔ ارادۂِ مصمم اور فیصلہ
12۔ ثابت قدم
13۔ ماسٹرمائنڈ
 

تفسیر

محفلین
ایک فرضی مثال ؛

ہم لوگ ’ گارڈن آف دی ورلڈ ‘ کی سیر کرنے آئے ہیں۔ یہ جگہ لاس اینجلس کے ایک گرد ونواح میں ہے۔ ہم لوگ جاپانیز گارڈن میں ہیں۔ باغ کا رقبہ 5 ایکڑ ہے۔ اس جگہ میں پانچ مختلف گارڈن ہیں۔ فرانسیسی بٹرفلائی اور فاؤنٹین گارڈن، اٹالین گارڈن، انگلش روز گارڈن ، جاپانی باغ اور اسپین کے مشن کی کورٹ یارڈ جو کہ گارڈنوں کے درمیان ہے۔ سعدیہ نے گرم گرم چائے سب کو دی۔
” کیا ہماری گل پھر سے بلبل ہو سکتی ہے؟“۔ اباجان نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ” ہاں“ اوراس کا جواب بھی خود دے دیا۔” تم اس بات کو جانتے ہوکہ دنیا کا ہرکام ممکن ہے۔ ہزار ہا لوگوں نے اس کو بار بار ثابت کیا ہے“۔
” توکیا پختون عورتوں کوآزادی دلانا ایک ممکن حقیقت ہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
سعدیہ نے کہا۔” آزادی ایک فطری حق ہے اور جو لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو دنیا کی کوئ طاقت آزادی حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی ہے“۔
” ہم جا نتے ہیں کہ پختون عورتوں پر ظلم ہورہاہے۔ ظالم جانتا ہے۔ لیکن مظلوم کو اس کا پتہ نہیں“۔ ماں نے کہا۔
” مظلوم کو بتایا گیا ہے کہ وہ قوم اور گھر کی عزت کی ذمہ دا ر ہے۔اور یہ ذمہ داری اس سے قربانی مانگتی ہے۔یہ ظلم رسم و رواج کے نام پرکیا جارہا ہے“۔ میں نے ما ں کی بات میں اضافہ کیا۔
اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔ ” تو ہم اس جدوجہد کا کس کوذمہ دار ٹھہرائیں؟“۔
” پختون عورتویں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں۔ یہ ذ مہ داری تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کی ہے“۔ میں نے کہا۔
اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” وہ چار اہم چیزیں کیا ہیں جو پختون عورتوں کو حاصل کرنی ہیں“۔
“ تقدیر پر خود مختیا ری ، خود اعتمادی ، سیاسی قوت، تنظیم”
سعدیہ نے کہا۔ ” ہمارا کام پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کی تقدیر پر خود مختیا ری حاصل کرانا ہے۔ ہرپختون کی بیٹی میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہے اور تمام پختوں عورتوں کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہے۔ان کا شعور بلند کرنا ہے ان کو منظم ہونا سیکھانا ہے۔ہمارا کام ان کو وسیلہ مہیا کرنا ہے“۔
ان مقاصد کو حاصل کرنے کے کیا بنیادی اصول ہیں؟ اباجان نے مجھ سے سوال کیا؟
” سوچ ، مقصد مقرر ، مستقل مزاجی، اورخواہشِ شدید“۔
ہر کام کا آغاز سوچ سے ہوتاہے۔ ہم کو سوچ کی اہمیت کو ان کی ذہنوں ہیں نقش کرانا ہے۔ ان کو بتا دینا ہے کہ مقصدِ مقرر ، مزاج ِقائم اور خواہشِ شدید کس طرح سوچ کوبلند کرتی ہے اور اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے۔
انسان کا دماغ جو سوچتا ہے اور اس پریقین کرتا ہے دماغ اس کو حاصل کر لیتا ہے۔ جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے سے نہیں ڈرتے۔ اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے“۔
”یقین ِکامل، سوچ کو کس طرح مضبوط کرتا ہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
” یقین ِکامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور اُن کے ملنے کو محسوس کر لیتا ہے اورتحت الشعور، سوچ کو ایک روحانی کیفیت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کو علمیت لامحدود میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ دعا اللہ کو پہنچتی ہے“۔ سعدیہ نے بڑے فخر سے کہا۔
اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں کون سے تین جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں؟“
میں نے کہا۔” ایمان ، محبت، شہوت کے جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین جذبات ملتے ہیں وہ خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیال ایک دم سے تحت ا لشعور میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں روحانی کیفیت بن کر وہاں سے جواب لاتا ہے۔ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہََََََََ دماغ کو جواب دینے کی ترغیب کرتی ہے“۔
” ایمان کا دوسرا کام کیا ہے؟“۔
” آٹو سیجیشن کیا ہے؟“
” جس طرح نماز میں اللہ تعالٰی سے شعوری طور سے دُعا مانگی جاتی ہے۔اور ایمان اس دُعا کو روحانی طور مضبوط کرتا ہے تاکہ دُعا تحت الشعوراللہ تعالٰی تک پہنچ جائے اسی طرح آٹو سیجیشن میں ہم ایک مقصدکو بار بار دُہراتے ہیں۔یہ دُہرانا، ہمارے مقصد کو شعور سے تحت الشعور میں منتقل کرتا ہے۔ تحت الشعور، یقینِ کامل کی وجہ سے اس مقصد کو حاصل میں تیزہو جاتا ہے“
” حواس خمسہ کیا ہیں ؟ اور اُن کے کام کیا ہیں؟“
آنکھیں، کان ، ناک ، منہ ، ہاتھ حواس خمسہ ہیں۔آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ کان کی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواس خمسہ سے دماغ کوترغیب ملتی ہیں اور دماغ ان کا جواب دیتا ہے۔
اباجا ن میری طرف متوجہ ہوئے۔” کیا ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہم کو مکمل حل ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؟“
میں نے کہا۔” اگر آپ کی کوئ خواہش ہے تواس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ انتظارنہ کریں کہ جب میرے پاس اس کو حل کرنے کے لیے مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا“۔
اباجا ن نے کہا۔ مگر ہمارے پاس اس مسئلہ کا حل بھی موجود نہیں؟“۔
” اس حل یا منصوبہ کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ چھٹی حس کی وجہ سے جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چمکے۔ اس غیبی مدد کو شاعر’ آمد ، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے۔کامیابی کو حاصل کرنے کا پہلا اصول اس مقصد کی خواہش شدید اور دوسرا اصول کامیابی کا یقین ہونا ہے“۔
اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” تعلیم کیا ہے؟ “۔
” علم کاحاصل کرنا ، اس کا سمجھنا اور اور اس کو استعمال کرنا ہے“
اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔”علم کی کتنی قسمیں ہیں؟“
” علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم عامہ اورعلم مخصوصہ“۔
” علم عامہ کیا ہے ؟“
” علم عامہ ،علم کا حصول اوراس کو سمجھنا ہے۔پروفیسر علم کو بخشتے ہیں۔ وہ علم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کمانے میں نہیں کرتے۔ وہ علم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔
” اور علم مخصوصہ کیا ہے؟“
” علم مخصوصہ ، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں علم کا استعما ل تعلیم مخصوصہ ہے۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔وہ علم مخصوصہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔
” تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے؟“
” ہزاروں لوگ مغالطے میں ہیں کہ تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے۔ تعلیم صرف ایک ’ صورتِ امکانی ‘ ہے یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو ’ مقصد مقرر‘ کے لیے’ منظم‘ کیا جائے ا ور اس کا رُخ ’ مخصوص اختتام‘ کی طرف کیا جائے“۔
” صحیح تعلیم سے کیا مراد ہے؟“۔
” سینکروں لوگ یہ سمجھتے ہیں اگر کوئ شخص اسکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن اٹالیین لفظ ایڈوکو سے بنی ہے۔ جس کے معنی ہیں’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہو۔ تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کویہ تربیت دی ہے کہ تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہراس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔
” علم کے حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں؟“
” علم کے حاصل کرنے کے چار ذرائع ہیں۔
خود کی تربیت اور تعلیم۔ لا محدود قابلیت۔ جمع کیا ہو علم۔
پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج، تجربات اور تحقیقات۔ سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے”۔
” سوچ کیا ہے؟”
” سوچ ایک کارخانہ ہے جس میں منصوبے بنتے ہیں۔ عقل و شعور میں خواہش ایک راہ کی طرف ڈھلتی ، گھڑتی اور عمل وار ہوتی ہے“۔
” کیا انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے؟“
” انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے۔ انسان نے عقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیا اور قدرتی قوتوں کو قابو میں کیا ہے“۔
” سوچ کی کتنی قسمیں ہیں؟“
سوچ دو طر ح کی ہوتی ہیں۔ایک اختراعی ترکیبی سوچ ہے۔ اور دوسری موجدہ سوچ کہلاتی ہے“
” اختراعی سوچ کیا ہوتی ہے؟“
اختراعی سوچ میں آپ پرانے خیال، منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں۔ یہ غیر موجدہ قوت ہے۔
” مجودہ سوچ کیا ہوتی ہے؟“
” مجودہ سوچ میں الہامی خیال ، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ غیر محدود دماغی قابلیت سے رابطہ قائم کرلیتا ہے“۔
” ہر وہ چیز جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے اس کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے؟“
” خواہش سے شروع ہوتی ہے۔ خواہش کا پہلا قدم انتخاب ہے صفات کا اضافہ قوت متصورہ کے کارخانے میں ہوتا ہے۔جہاں پر اس کی تبدّل کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے“۔
” قائد یا لیڈر اورمعتقدکی صفات کیا ہیں؟“
” دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔قائداورمعتقد۔کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط، انصاف پسندی، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی، خوش گوار شخصیت، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا ماہر، ذمہ دار اور مل کر کام کرنے کی صفا ت ہو تی ہیں۔ معتقد لوگ، قائد کا کہا مانتے ہیں“۔
” قائد کیسے بنتے ہیں؟“
” اگر انسان قائد کی صفات کو حاصل کرے اور ان پر عمل کرے تو قائد بن سکتا ہے۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں۔ بہت دفعہ معتقد بھی قائد بن سکتے ہیں“۔
” قائد ناکامیاب کیوں ہوتا ہے؟“
” کچھ قائد ناکامیاب اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ تفصیل کے ماہر نہیں ہوتے اورہر کام کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ا پنی قابلیت کاصلہ مانگتے ہیں اس کے استعمال کا نہیں۔معتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ان میں سوچ کی کمی ہوتی ہے۔ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے قائد سے غیروفاداری کرتے ، بے اعتدالی اور ذیادتی ، حوصلہ افزائ کے بجائے رُعب اور دبدبہ کا استمعال کرتے ہیں۔
” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟“
” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کوئ کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلاتؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور کیے ہوئے فیصلے کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔ جب تم ا پنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلو تو دوسروں کی رائے سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل نہ کرو۔ دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے اور پھر بتاؤ۔
” فیصلہ کی قیمت کیسے جانتے ہیں؟ “
” فیصلہ کی قیمت ، فیصلہ پر عمل کرنے کی جرات کے مطابق ہوتی ہے“۔
” خواہش کو صلہ میں کس طرح سے تبدیل کرتے ہیں؟“
” خواہش کو صلہ میں قائم مزاجی کے بغیر نہیں تبدیل کیا جاسکتا۔ قائم مزاجی اور اصرار، قوت ارادہ سے بنتے ہیں۔ ظلم سے آزادی کی خواہش صرف آزادی سے ہی مل سکتی ہے“۔
” کیا قائم مزاجی کو سیکھا جاسکتا ہے؟“
” قائم مزاجی کی بنیاد مقصد مقرر پر ہے اور خواہش ارادۂ شافی ، منصوبۂ مقرر ، صحیح علم ، مل کرکام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کی وجوہ ہیں“۔
” پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں میں کونسی کامیابی کی خصوصیت ایک جیسی ہوتی ہے؟”
” جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ ، اور عزم شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تجزیہ کریں اور تمام کامیاب لوگوں کی (اس دورِحاضر میں) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجود ہے“۔
” کیا کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ ہونا ضروری ہے؟“
“ کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ کا ہونا ضروری ہے۔منصوبے بغیرمعقول طاقت کے غیرمؤثراور بیکار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ ماسٹر ماینڈ ، ایک سے زیادہ منظم اوردانش مند علم کے لوگ اجتماع پرتوجہ مسئلہ پر مرکوز کرتے ہں“۔
 

تفسیر

محفلین
رجب کی پہلی تاریخ تھی۔شام ہوچکی تھی۔ نورا (ہاوس کیپر) نے چائے بنا کر سب کو پیش کی۔ وہ افغانی ہے۔ ابا اور اماں جان کے ساتھ پچیس سال سے ہے۔اس نے ہمیں پالنے میں ماں کی مدد کی ہے۔ اس کی ملاقات ابا اوراماں جان سے افغانستان میں ہوئ تھی۔ اور پھراس نے ابا اوراماں جان کے ساتھ امریکہ آنے کا فیصلہ کیا۔
سورج ایک نارنگی کی طرح نارنجی تھا، مغرب میں تیزی سے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔
اباجان نے کہا۔ ہماری ساری گفتگو کا لبِّ لباب یہ ہے:
” کامیابی کے اصول بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استمعال ہو سکتے ہیں۔ یہ مقصد دولت ، شُہرت ، محبت اور علمیت بھی ہوسکتی ہے۔ جب ہم تصور اور آٹوسجیشن کے ذریعے خواہش کو شدید اور مقرر خواہش میں تبدیل کرتے ہیں، اس کو حاصل کرنے کے لیے مصنوبہ بناتے ہیں ، تعلیمِ خصوصی حا صل کرتے ہیں اورماسٹر ما ئنڈ کو جمع کرتے ہیں پھر یقین کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور ثابت قدمی سے اس فیلصہ پر قائم رہتے ہیں تو ہمیں مکمل کامیابی حاصل ہوتی ہے”۔
اماں نے کہا”۔ کل سے میری باری ہے۔ میں تم کو
پختون ولی
اسلام اور عورت
پختون کی نفسیات اور سیاست
اور مینیجمینٹ، ارگنائزیشن کے اصولوں
سے آگاہ کروں گی۔
اباجان کے کامیابی کے اصول ، میری پختون سے متعلق انفارمیشن تمہارا عزم مضبوط کریں گی۔ پھر مینجمنٹ اور ارگنائزیشن کو استعمال کرکے تم اپنےگول کوعملی جامہ پہنا سکوگے۔
اندھیرا ہوگیا تھا۔ ہرطرف تاریکی چھا رہی تھی۔ سعدیہ نے کہا۔ ” کیا میں لائٹ کو آن کروں“؟
ماں نے کہا۔” بیٹا ، اوپرآسمان پر دیکھو”۔
آسمان میں گہرے اندھیرے کی وجہ سے ستارے اور بھی چمکنے لگے۔سارا آسمان ستاروں سے بھرا تھا۔ اچانک ایک ستارہ جنوب میں زمین کی طرف پرواز کرنے لگا۔
میں نے کہا۔ ”سعدیہ ، وہ دیکھو۔ شوٹینگ اسٹار“۔
نورا نے سعدیہ کے لمبے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے کہا۔ ”بیٹی ، جب ہم شوٹینگ اسٹار دیکھتے ہیں تو ہم اپنی خواہش کی کامیابی کی دُعا مانگتے ہیں“۔
ہم سب نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے اور ایک دائرہ بنایااور سعدیہ نے کہا۔ ” اللہ تعالٰی ، ہم تیرے حقیر بندے ہیں، ہم تہہ دل سے دُعا کرتے ہیں کہ تو ہماری پختون بہنوں پررحم فرما اور جو ظلم ان کے ساتھ ہو رہا ہے ان کو اس سے نجات دلا“۔
پھرسعدیہ کی آواز بھراگئ۔ اور اس کی دُعا ایک وعدے میں تبدیل ہوگئ۔ ” اے میرے معبود میں تجھ سے آج یہ وعدہ کرتی ہوں کہ گل کی پوتی اس ظلم سے آزاد ہوگی اور وہ حقیقت میں پختون کی بیٹی کہلائی گی“۔
 

تفسیر

محفلین
٭ ٭ ٭

عملی طور پر ہم اس کو اس طرح تقیسم کرسکتے ہیں

1۔ سوچ
2 ۔قول دینا
3 ۔ اولیت دینا
4۔ مخصوص کرنا
5 ۔ بہتر بنانا
6 ۔ حاصل کرنا

یہ قدم ایک دائرے کی طرح کام کرتے ہیں۔

مسئلہ :
میں ہر روز صبح کام پر جاتا ہوں۔ اور شام کو واپس آتا ہوں ۔ میں اپنی حیثت کی بنا پر بس میں سفر کرتا ہوں ۔

1۔ بسیں کم ہیں اور مسافر زیادہ ۔ اسلئے مجھے سفر میں دقت ہوتی ہے۔

سوچ :
۔۔۔۔
اس سوچ کا مقصد تمام حل کو تلاش کرنا ہے جو آپ اور آپ جیسے لوگ مل کر سکتے ہیں۔
اس اسٹیج پر یہ نہ سوچیں کہ مشکلات کیا ہیں۔ یہ مت کہیں یہ نامکن ہے۔۔۔۔۔:grin:

چلیے کچھ حل پیش کریں
 
شکریہ تفسیر صاحب اتنی کوشش کا۔
اللہ اپ کو قبول فرمائے اور لوگوں کا رہنما اور مومنوں کا امام بنائے۔
ویسے اتنی لمبی پوسٹ پڑھ کر بلکہ دیکھ کر پہلے تو میں ہکا بکا :eek: ہی رہ گیا۔
اب پوری پڑھ کر حل سوچوں گا۔
ویسے جزاک اللہ خیر
 
اس مسئلے کے کچھ فطری حل میرے ذہن میں‌کچھ یوں‌اتے ہیں۔ چونکہ بسیں‌کم ہیں‌اور سواریاں‌زیادہ جس کی وجہ سے عورتوں‌کو سفر میں‌مشکل ہوتی ہے لہذا بسوں کی تعداد بڑھائی جاوے۔ مگر فنانشیل مشکلات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں‌ہے۔ لہذا سواریوں کو کم کرنے کی سوچتے ہیں۔ اگرچہ مرد و عورت دونوں‌ ہے سفر میں‌مشکلات محسوس کرتے ہیں کم بسوں‌کی وجہ سے مگر عورتیں‌اپنی مخصوص نسوانی ساخت کی وجہ سے اور کمزور فزیکل اسٹریکچر کی وجہ سے جو کہ فطر ی ہے نسبتا زیادہ دقت محسوس کرتی ہیں۔ لہذا اگر کم تعداد میں‌عورتیں سفر کریں‌تو ان کی کچھ مشکلات میں‌کمی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں‌مذہب بڑا کام اسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام دینِ فطرت ہے لہذا وہ عورتوں‌کا باھر اکر کام کرنا پسندیدہ نہیں‌سمجھتا۔ پھر عورتیں خود گھر میں‌سکون محسوس کرتی ہیں۔اس بات کا وسیع پیمانے پر فروغ دینا چاہے تاکہ سواریوں‌کی تعداد کم ہوسکے۔
دوسری طرف چونکہ معاشرہ معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے اور خود مردوں‌میں بے روزگاری پھیل رہی ہے لہذا عورتوں کے لیے کچھ اسیے کام تلاش کرنے چاہیے جہاں وہ زیادہ سفر نہ کریں‌ ۔ دوسرے مشکل کام اب زیادہ مردوں‌کے حصہ میں‌ائیں۔ یہ معاشرے کی معاشی ترقی کو تقویت دے گی اور ملک اس قابل ہوسکے گا کہ مزید بسیں‌خریدی جاویں۔
اپنی سمجھ میں‌تو بس یہ اتا ہے۔
 

تفسیر

محفلین
ہمت بھائی اور باسم بھا ئی۔

آپ دونوں نے کچھ عمدہ پوائنٹ پیش کیے ہیں ۔ لیکن آپ پورے مسئلے کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ہم سب صرف اپنے کو دیکھیں اور یہ سوچیں کہ اگر میں اپنے سفر کا مسئلہ حل کردوں تو میں پورے مسئلہ میں سے ایک شخص کو کم کردوں گا۔اور اسطرح ہر شخص یہ سوچے تو مجموعی طور پر اسکا اثر بہت بڑا ہوگا۔
پہلے قدم میں مجھے تمام معلومات اکھٹا کرناہوں گی۔

میں اسطرح سوچوں گا ۔

1۔ میرے سفر کے اوقات کیا ہیںِ کیا ان میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟
2۔ کیا میرا آفس اتنا قریب ہے کہ میں پیدل جاسکتا ہوں یا موٹر سائیکل یا بائسکل استعمال کر سکتا ہوں؟
3 ۔گھر سے کتنی مختلف نمبر کی بسیں آفس تک جاتی ہیں ۔اور ان کے اوقات کیا ہیں؟
4۔ کیا میں اپنے سفر کو اسطرح تقسیم کرسکتا ہوں کی دو یا زیادہ ایسے بس routes منتخب کروں جو مجھے office لے جائیں لیکن ان sroute پر کم ٹرافیک ہوتا ہو؟
5۔ بسوں کے علاوہ اور کیا ٹرانسپورٹ کے ذرائع ہیں ؟۔ کوچ ، منی بس، سرکلر ٹرین؟
6 - کیا میرے آس پاس اور لوگ بھی رہتے ہیں ۔ جو میرے آفس کے قریب کام کرتے ہیں؟ کیا ان کو بھی ایسے پرابلم ہیں؟
7۔ اگر ان کو بھی یہی پرابلم ہیں تو کیا ہم مل کر ایک حل بناسکتے ہیں ۔ مثلا ہم ایسا زریعہ تلاش کریں جو قیمت میں بس کے کرایہ کے برابر ہو یہ اس سے بہت زیادہ نہ ہو۔ مثال کے طور پر ایک پرائیوٹ ٹیکسی ڈرائیور ماہواری معاوضہ پر ہمیں ( چار یا پانچ افراد) صبح آفس چھوڑدے اور شام کو لے آئے
8۔ کیا ہم ، ہماری آفس اور بلڈنگ کے دوسرے آفس کے مالکوں کو اس بات پر راضی کر سکتے ہیں کہ وہ ایک منی وین خرید لیں اور آفس ورکر کو گھر سے لائیں اور جائیں۔ آفس ورکر مالکوں کو ماہوار اس کا معاوضہ دیں گے۔
9۔ کیا کراچی سٹی ڈسٹریک نے ride sharing کا پروگرام شروع کیا ہے؟ کیا ہم اس کو استعمال کرسکتے ہیں؟
10 ۔اس پروگرام سے سٹی کا مینجمینٹ pollution اور traffic کم کرسکتی ہے۔ اگر ایسا پروگرام موجود نہیں تو کراچی سٹی ڈسٹریک کے پلاننرز کو لکھیں اور بتائیں کہ دوسرے ملکوں میں ایسے پروگرامز سے شہروں نے pollution اور traffic کم کیا ہے ۔ مثالیں دیں۔
11۔ کیا میں اور دوسرے لوگ جو میرے ارد گرد میں رہتے ہیں اس قسم کاپروگرام شروع کر سکتے ہیں۔

یہ خیا لات ابتدائی ہوں گے اور جیسے جیسے میری سوچ میں وسعت آئے گی ان میں تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ آزاد سوچ کا پہلا قدم ہے۔
بغیر پابندی کے اور
بغیر سوچے کہ یہ ممکن ہے یا نہیں۔ ۔۔۔۔

اب آپ اس کو اور بڑھائے۔۔۔۔۔دو آدمیوں کی سوچ ایک سے زیادہ مکمل ہوتی ہے۔ اور تین کی ایک اور دو سے زیادہ مکمل۔۔۔ اور چار کی ایک، دو اور تین سے زیادہ۔۔۔۔۔

اور ایک کی سوچ دو یا زیادہ سے ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ :)

اور ننھی مننی (بوچھی) کوئی لطیفہ ہوجائے کافی خشک موضوع ہے۔
 
اپ کی باتوں سے کسی حد تک اتفاق ہے۔
چلیے برین اسٹرومنگ سیشن شروع کرتے ہیں۔ اس سیشن میں‌ایک ماڈیریڑر کی ضرورت ہوتی ہے جو "ازاد" سوچ پر اس طرح پہرے بٹھاسکے کہ سوچوں کا محور اپنے مقاصد کی طرف ہی رہے ۔ یعنی برین اسٹرومنگ سیشن کے کچھ مقاصد حاصل ہوسکیں۔ اگرچہ اپ نے پہلے ہی گا ئیڈ لا ئین طے کردیں ہیں لہذا لازم ہے کہ ماڈریشن کا کام بھی اپ ہی کریں۔
اس گفتگو سے یہ بات واضح ہوہی گئی ہوگی کہ سوچ کو کسی معاملے پر ازاد چھوڑنے سے پہلے مقاصد کا تعین ضروری ہے اور مدر پدر ازاد سوچ تخریب کا ذریعہ ہی بنتی ہے۔
بات کہیں‌اور چلی گئی چلیے ۔ مزید سوچتے ہیں۔
جاری۔۔
 

تفسیر

محفلین
decision1.jpg


یہاں میں نے ان چھ اقدام کو دائرے کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔ کیوں؟ آپ اپنے مقصد کو پانےوالے طریقہ میں وقت کے ساتھ ساتھ ہمشہ اصلاح کریں گے۔
یہ طریقہ آپ اپنی زندگی کے کسی مسئلہ پر استعمال کرسکتے ہیں اور آپ کو ماڈریٹر کی ضرورت نہیں ۔ آپ اپنے آپ کو ماڈریٹ کریں گے۔

لامحدود سوچ

1۔ بغیر ناممکنات کے میرا حل کیا ہوگا؟
2۔ میرے ذہن میں ایک کامل یا فاضل تصویر کیا ہے؟
3۔ میری خواہشِ شدید کیا ہے؟
4۔ کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟

قول دینا۔ قبولیت
1۔ یہ سب دیکھتے ہوے کیا میں یہ کام کرنے کو تیار ہوں؟
2۔ جن لوگوں پر حل اثر انداز ہو گا کیا وہ میرے ساتھ ہیں؟
3۔ اگر ان کو اس پر اعتراضات ہیں تو میں اس حل کو کس طرح تبدیل کروں کے وہ میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں مگر میرا مقصد تبدیلی کے بعد بھی قائم رہے۔

ترجیحات

1۔ کون سے حل میری مالی حیثیت میں ہیں؟
2۔ کیامجھ میں ان حل کو امکانی بنانے کی صلاحیت ہیں؟ اگر نہیں تو مجھے ان کو کس طرح حاصل کرنا ہوگا۔ کیا میں ماہر کی مدد لے سکتا ہوں؟
2۔ کون سے حل میں معمولی تبدیلی کے بعد امکانی بناسکتا ہوں؟ مالی طور پر کیا میری صلاحیوں کے لحاظ سے؟

مخصوصیات

1، مسئلہ کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟
2۔ میں اس کو بہتر بنانے کے بعد کس طرح جانچوں گا کہ یہ اب پہلے سے بہتر ہے؟


اصلاحات

1۔ حل کو عمل میں لایا گیا
2 ۔ تعمیل کرنے کے بعد کرنے کے بعد۔ کیا میں اپنا مقصد حاصل کرلیا؟
3۔ کیا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔؟
4۔ تبدیلی کی گئی ۔

حاصل

1۔ کیا میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا؟
2۔ کیا میرے جانچنے کے اصول اس بات کی گواہی دیتے ہیں؟


آپ دیکھیں گے آپ اقدام میں آگے پیچھے جاکر اصلاح کرسکتے ہیں یا تمام اقدام کو دُہرا کر اور بہتر بناسکتے ہیں۔

یاد رہے کے عملی زندگی میں آپ سب سے بہتر طریقہ نہیں اپناتے ۔ آپ وہ طریقہ اپناتے ہیں جو آپ کا مقصد آپ کی وصائل میں رہ کر پورا کرتا ہے۔
 
Top