عوام کا پیغام – جواب شکوہ

عوام کا پیغام – جواب شکوہ

تحریر : محمد شاہد علی.

(نوٹ : اس تحریر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے ہمارا پیج وزٹ کریں.)

ملک کی غریب و جاہل و بے امان و کثیر خاندان عوام کا ، دست بدست سلام، بنام لنگڑی لولی جمہوریت ، و واجب القتل و دربار مغل و عقل سے پیدل سیاست دان، بعد ازسلام ، عرض کنندگان.
حضور والا عرض یہ ہے، کہ انسان کو کروڑوں سال لگے بندر سے انسان بننے کے عمل میں، مگر معجزانہ طور پر جناب نے فقط چالیس سال میں ہم انسانوں کو دوبار بندر بنا کے رکھ دیا . خود مداری بن بیٹھے اور عوام کو بچہ جمہورا بنا کے رکھ دیا. آپ لوگ ہمیشہ اپنا ہی رونا روتے رہتے ہیں ، کہ یہ نہیں ملا وہ نہیں ملا، مگر آج آپ ہمارا شکوہ بھی سن لیں.

جناب والا ہم نے آپ کو اپنا لیڈر منتخب کیا تھا کہ آپ ہم کو صحیح راستہ دکھلائیں گے . اس ملک میں امن کا نظام لائیں گے ، تاکہ ہم چین سے اپنی زندگیاں گزار سکیں . ہماری بھی یہ خواہش تھی کہ ہمیں انسان سمجھا جائے . ہماری بھی کوئی عزت ہو ، مگر افسوس صد افسوس کہ آپ نے ہمیں انسان تو کجا جانور بھی نہ سمجھا، دو چار سال اگر کوئی کتا بھی پال لو تو اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے، مگر عوام کی تو اتنی بھی وقعت نہیں ہے آپ کی نظر میں. آپکو عوام کی یاد اگر آتی ہے تو صرف اور صرف الیکشن کے دنوں میں آتی ہے جب آپکو ووٹ چاہئے ہوتے ہیں ، آپکا بس چلے تو ان بیس کروڑ عوام کے انگوٹھے کاٹ کر رکھ لیں، اور باقی جسم کہیں دفن کروا دیں.

جناب والا ، باتیں کچ تلخ ہیں اسلئے دل تھام کر سنیے گا.
جناب فرماتے ہیںکہ ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہوتے ہیں، ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا ہے، ہماری راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، سازش کی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، جمہوریت ڈیلیور نہیں کر پاتی ہے.
حضور والا ایک بات تو بتائیں، یہی جمہوریت جب امریکہ اور برطانیہ میں ہوتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ صحیح کام کرتی ہے ، ایک سال میں کئی کئی ڈلیور کر جاتی ہے . یہی جمہوریت جب ترکی اور ملیشیا میں ہوتی ہے تو اسے خوشحال کر دیتی ہے ،
دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں جمہوریت نے اتنا ڈلیور کیا کہ رکھنے کی جگہ نہ رہی، مگر یہی جمہوریت جب آپکے پاس آتی ہے تو بانجھ کیوں ہو جاتی ہے.
حضور والا، مسلہ جمہوریت کے ساتھ نہیں ہے ، مسلہ آپ کے اندر ہے ، جناب میں وہ جراثیم ہی نہیں ہیں کہ وہ جمہوریت سے کچھ ڈیلیور کروا سکیں، اور اگر جمہوریت کچھ ڈیلیور کرتی بھی ہے تو وہ صرف اور صرف آپ کے اور آپکے بچوں کے لئے ، انکی جائیدادیں ، انکے کاروبار انکی تعلیم یہ سب جمہوریت کا عطا کردہ ہے. ہمارے حصّے میں اگر کچھ آتا ہے تو وہ ہے جمہوریت کے پھٹے کپڑے چیتھڑے ،پر جناب فکر نہ کریں عوام اس پر بھی خوش ہیں.

حضور والا، اب یہ نہ کہئے گا کہ عوام نے آپکا ساتھ نہیں دیا ، حضور اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا تھا ، مگر ہم نے آپ کے پیار کی خاطر پوری کوشش کی ہے کہ ہم انسان سے گوبھی بن جائیں، حضور انسان کو تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے . مگر ہم نے اپنے بچوں کو خبر ہی نہیں ہونے دی ہے کہ تعلیم بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ہم نے انکو شروع سے ہی جاہل رکھا ہے. تاکہ وہ جناب کی جاہلانہ اور غیر عقلی و غیر انسانی باتوں پر سر دھنتے اور یقین کرتے رہیں، ہم نے تو اپنے آپ میں وہ حس پیدا ہی نہیں ہونے دی ہے کہ ہم کچھ سوچ سکیں، ڈر تھا کہ کہیں جناب کے آگے سر اٹھانے کی جرات نہ کر بیٹھیں.

حضور ہماری کتنی قربانیاں ہیں جو ہم نے آپکا ساتھ دینے کے لئے دی ہیں، ذرا سنتے جائیں.
حضور والا آپ ہماری صحت کی جانب سے تو بلکل ہی مطمئن ہو جائیں، اسکی تو ہمیں پرواہ نہیں ہے تو جناب کیوں فکر کریں، ہم نے اپنے آپ کو ایسا عادی کر لیا ہے کہ، اب ہم گٹر اور فیکٹری کا گندہ پانی پی کر بھی نہ صرف گزارہ کر سکتے ہیں بلکہ زندہ بھی رہ سکتے ہیں، اسلئے صاف پانی کی تو اب ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے. یہ عالم ہے کہ گندے پانی میں اگی سبزیاں یہاں تک کہ گدھے اور کتے کا گوشت تک کھا لیتے ہیں، اور یہ تو کچھ بھی نہیں ، حضور آپ کی محبت اور عنایات کے طفیل ہم تو مردار تک کھا لیتے ہیں، فلحال صرف جانور کھاتے ہیں، مگر آپ کی محبت میں ہماری اگلی نسلیں کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں.

کھلی اب و ہوا، صاف ستھرا ماحول، اسکا تو ہمیں پتا ہی نہیں کہ کیا ہوتا ہے، بلکہ ہم تو کوشش کر رہے ہیں کہ پودوں کی طرح ، کسی طریقہ سے ہم بھی کاربن ڈآئ آکسائد میں سانس لے سکیں اور آکسیجن خارج کر سکیں، تاکہ دنیا کو بھی ہماری صلاحیتوں کا احساس ہو.
حضور کرنا تو ہم اور بھی بہت کچھ چاہتے ہیں ، مگر کیا کریں، یہ جسم ساتھ چھوڑ جاتا ہے. گردے پھیپھڑے ، دل یہ سب جواب دے جاتے ہیں. جناب تو
علاج کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے ہیں، مگر ہم غریبوں کے لئے کوئی ڈھنگ کا اسپتال نہیں ہے یہاں، اسلئے زندگی بہت اذیت میں گزرتی ہے. اگر اور کچھ نہیں تو بس ایک کام کروا دیں ، ملک میں خالص اور اچھی کوالٹی کا زہر فراہم کروا دیں، اور کسی طرح سے خود کشی کو حلال کروادیں . تاکہ جب جناب کی خدمت کے قابل نہ رہیں تو سکون سے مر سکیں.

حضور والا، آپ نے ہمیں سالہاسال بیوقوف بنایا، پر آپ سے گلہ نہیں ، ہم اپنی خوشی سے بنے تھے. کبھی صوبائیت کے نام پر، کبھی لسانیت کے نام پر، کبھی قرض اتارو کے نام پر، کبھی انصاف کے نام پر، کبھی شہیدوں کا نام لے کر، آپ لوگوں نے ہمیشہ ہم سے ہی قربانی مانگی ہے، ہمارے بچوں کی قربانی مانگی ہے، حضور کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہر بار عوام ہی کیوں قربانی دے. آپ اور آپکے بچے کیوں قربانی نہ دیں. کیا یہ ملک آپکا نہیں ہے کیا اس ملک کا آپ پر کوئی قرض نہیں ہے . جناب عالی دھوکہ تو اس ملک کے عوام کی قسمت میں ہی لکھ دیا گیا ہے، یہ ملک بنا تھا اسلام کے نام پر ، اس وعد ے کی بنیاد پر کہ یہاں سب کی جان مال عزت آبرو محفوظ ہوگی، اسلام اپنی اصل شکل میں نافظ ہوگا، مگر کیا ایسا ہو رہا ہے ، آج ہر طرف مسلمان ہیں پر اسلام کہیں نہیں ہے. آپ ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کے برابر لانے کی بات کرتے ہیں، مگر پہلے اس ملک کو وہ تو بنائیں جسکا خواب دیکھا گیا تھا، اس بار جب آپ اقتدار کی کرسی پر بیٹھیں تو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچئے گا کہ آخر ایسا کب تک چلے گا، کیا یہ ملک مزید کسی سانحے کا متحمل ہو سکتا ہے.
ہوسکتا ہے کہ قدرت مزید کوئی موقع نہ دے یہ آخری موقع ہو ، ہمارے پاس بھی اور آپکے پاس بھ
 
Top