عملیات کی دنیا از عمران ناگی

راجہ صاحب

محفلین
اسے سیکھنے والا شیطان کا پیروکار ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان کا چیلا جب بھی جنات اور موکلان کو قابو کرتا ہے تو اسے دنیا کا ہر مکروہ اور گندہ ترین کام کرکے ہی اس مخلوق کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کالے جادو کا عامل ایک طاقتور مخلوق کو اپنے قابو کرنے کے باوجود ان کے زیر اثر آجاتا ہے ۔ اس لیے جب وہ اس مخلوق سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا بخوشی آزاد کرتا ہے تو تب بھی اسے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔البتہ جو عامل کالے جادو سے اجتناب کرتا ہے اور نوری علوم کی مدد سے جنات کو قابو کرتا ہے وہ جنات کے زیر اثر نہیں آسکتا۔ باوا جی کا بھی یہ معاملہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر اپنی جان بچانے کے عوض طرطوش کو آزاد بھی کردیں تو وہ انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا بلکہ آزادی کاپروانہ بخوشی قبول کرے گا مگر طوطرش نے حیرت انگیز طور پر آزادی کی نعمت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا۔
''نہال شاہ جی! اگر مجھے آزاد ہونا اتنا ہی اچھا لگتا تو آپ کے مرنے کے بعد تو میں آزاد ہو چکا ہوتا۔ آپ کی زندگی بچا کر میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور اپنی قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ اگر ہمیں بھی پیار و محبت کا مستحق سمجھا جائے تو ہم بھی اچھے اور مخلص دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔''
''ہاں طرطوش واقعی تم نے حق دوستی ادا کردیا ہے۔'' باوا جی نے کہا۔
''اور میں نے بھی……'' طرطوش کے عقب سے مستان شرارت کے ساتھ بولا۔
''ہاں تم بھی ہمارے دوست ہو۔'' باوا جی مسکرائے۔ ''آج سے تم لوگ میرے دوست ہو۔ میں سمجھا تھا کہ دنیا میں میرا اور کوئی نہیں ہے۔لیکن آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب میں تنہا نہیں ہوں۔ بلکہ میرے ساتھ دوستوں کی ایک فوج ہے۔''
نہال شاہ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی تھی۔ '' طرطوش نے پوچھا۔
''مجھے خود سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے سوائے منصور خان کے گھر میں کھانا کھانے کے بعد کسی اور جگہ سے کچھ کھایا بھی نہیں''۔ باواجی تشویش ناک انداز میں بولے۔''لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھے زہر دیا گیا ہے مگر کیسے'' باوا جی بات کرتے کرتے رک گئے اور بولے۔ ''طرطوش تمہارا کیا خیال ہے ۔منصور خان کے گھر والوں نے مجھے زہر دیا ہوگا۔''
''ممکن ہے انہوں نے ہی دیا ہو۔ آخر وہ آپ کے دشمن ہیں ۔'' طرطوش نے جواب دیا۔
'' مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔آج ہی تو منصور خان کی ماں نے مجھے روشن سے شادی کی پیش کش کی ہے۔ ''
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ''طرطوش! تم بھی ذرا حساب لگاؤ اور میں بھی حساب لگا کر دیکھتا ہوں۔''
''باوا جی ! میں تو حساب لگا بھی چکا ہوں۔'' طرطوش نے انکشاف کیا۔'' آپ کو مسان اور زہر کھلایا گیا ہے اور مجھ یقین ہے کہ یہ زہر ملا مسان منصور خان نے ہی کھلایا ہوگا۔''
باوا جی نے چونک کر طرطوش کی طرف دیکھا اور افسوس ناک لہجے میں کہا: ''طرطوش! منصورے کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ خیر اب ذرا مسان کو ظاہر کر کے دیکھتے ہیں کہ اصل معاملہ کیاہے۔''
باوا جی نے طرطوش کو دھونی دینے کے لیے کہا اور خود چٹائی پر آلتی پالتی مار کر عمل کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کمرہ لوبان کی دھونی سے مہک اٹھا ۔ باوا جی نے ایک کالے مرتبان سے تین چھوٹے چھوٹے سفید موتی نکالے اور مستان سے کہنے لگا:
''مستان بابا منوہر کے ٹیلے کے پچھواڑے میں انجیر کا درخت ہے۔ اس کی ایک شاخ توڑ کر لے آ۔'' مستان حکم پاتے ہی غائب ہو گیا او ر پلک جھپکتے ہی شاخ لے آیا۔ اس نے ا نجیر کی شاخ باوا جی کو دی اور تیز لہجے میں کہنے لگا۔''باوا جی سرکار انجیر کے درخت پر چڑیلوں نے بسیرا کیا ہوا ۔ ان کی ساری''پکھی'' وہاں موجود ہے۔ میں جب انجیر کی شاخ توڑنے گیا تو وہ مجھ سے جھگڑ پڑے تھے۔ مگر جب آپ کا بتایا تو کہنے لگے کہ باوا جی کو ہمارا پرنام کہنا اور بتانا کہ ہم کب سے ان کا انتظار کررہے ہیں۔ کسی روز ہمیں درشن دینے کی اجازت دیں۔''
باوا جی مسکرائے اور طرطوش سے کہنے لگے:''یہ خبیث روحیں بڑی مکار ہیں۔ انہوں نے مستان کو یہ نہیں بتایاکہ میں نے انہیں انجیر کے درخت سے باندھ رکھا ہے۔ ان شیطانوں نے میری عدم موجودگی میں گاؤں میں بڑی بڑی برائیاں پھیلائی ہوئی تھیں۔ پہلے اس مسان کو نپٹ لوں' پھر ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔'' یہ کہہ کر باوا جی نے سفید موتی سلگتی انگیٹھی میں ڈال دیے ۔کمرے میں عجیب و غریب طرح کی بو پھیل گئی ۔ باوا جی نے آنکھیں بند کر لیں اور بچیس منکوں والی کالی تسبیح پر کچھ پڑھنے کے بعد انگیٹھی پر پھونکیں مارتے رہے۔ کچھ ہی دیر بعد انگیٹھی کے دھویں کا رنگ بدلنے لگا اور اس کا دھواں آہستہ آہستہ بلند ہونے لگا۔ باوا جی نے پڑھنے کا عمل تیز کر دیا اور جوں جوں و ہ دھویں پر پھونکیں مارتے' دھواں سفید رنگ اختیار کر کے چھت تک بلند ہو گیا اور اس کے بعد اس نے کمرے میں پھیلنا شروع کر دیا ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
اب باوا جی نے انجیر کی شاخ کی مدد سے انگیٹھی کی آگ کو کریدنا شروع کیا تو سارے کمرہ کا دھواں ایک وجود کی شکل میں چھٹنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کالا بجھنگ اور چیچک زدہ چہرے والا مریل سا انسان اپنی بد ہیئت وضع قطع کے ساتھ انگیٹھی کے پاس کھڑا نظر آیا۔ باوا جی نے آنکھیں کھول دیں تو اس شخص نے جھٹ دونوں ہاتھ جوڑے اور باوا جی کے چرن چھونے کے لیے آگے جھکا۔
''پیچھے ہٹ کمبخت'' ۔باوا جی نے انجیر کی شاخ سے اس کو ٹہوکا دیا تو وہ بدک کر چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔ مگر پیچھے ہٹتے ہی اس کی چیخ نکل گئی ۔وہ چلایا:ہائے میں مر گیا''
'' تجھے تو میں ایسا جلاؤں گا کہ تیری نسلیں بھی یاد کریں گی۔ تیری راکھ میں گنگا میں نہیں بہاؤں گا بلکہ کالی چڑیل کو کھلاؤں گا۔'' مستان کی غصہ میں بھری ہوئی آواز ابھری ۔ اس نے ایک زور دار تھپڑ اسے دے مارا اور دھاڑ کر بولا:
''جلدی بول۔ تیرا مسان کس نے قبضہ میں کیا ہے۔''
''میرا ماس تو چھوڑو۔ بھگوان کی سوگند ابھی بتاتا ہوں۔'' کالا شخص درد کی شدت سے چلایا۔
''نہیں تو ایسے ہی بتائے گا۔'' مستان نے اس کی کمر کے ماس(گوشت) کو چٹکی کے انداز میں پکڑ رکھا تھا۔
''میرا نام مرلی ہے۔ مجھے جب شمشان گھاٹ پر جلایا گیا تو پنڈت راما نرائن نے میری راکھ اپنے قبضے میں کر لی وہ میرا مسان اپنے دشمنوں کو کھلاتا رہتا ہے۔'' وہ درد سے بلبلاتا ہوا بولنے لگا۔ ''پنڈت نے باوا جی کو میرا مسان کھلانے سے پہلے اس میں شیش ناگ کا زہر بھی ملادیا تھا۔ تاکہ باوا جی سنبھل ہی نہ سکیں۔''
''مستان اسے چھوڑ دے۔'' باوا جی نے مستان کو حکم دیا اور بولے:'' مرلی آرام سے بیٹھ جا اور مجھے بتا کہ اب تو کس شرط پر اپنی جڑیں میرے وجود سے باہر نکالے گا۔''
مرلی دو زانو ہو کر انگیٹھی کے پاس بیٹھ گیا اور بولا: ''باوا جی آپ جو دان کریں گے میں لے لوں گا۔''
''لیکن تمہیں وچن دینا ہو گا کہ دوبارہ ادھر نہیں آؤ گے۔'' باوا جی نے کہا۔'' میں چاہوں تو تجھے بھسم کر کے تیرا قصہ ہی پار کردوں مگر میں تجھے اپنے اصولوں کے مطابق واپس بھیجنا چاہتا ہوں۔''
''باوا جی آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہم ہندو ماس نہیں کھاتے ۔مجھے سات بھاجی (سبزیاں) کی خوشبو دے دیں۔ برسوں سے کچھ کھایا نہیں ہے۔ میں آپ کے چرن چھوکر چلا جاؤں گا۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
مرلی نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔
''طرطوش! سات سبزیوں کا بندوبست کرو۔'' باوا جی کا حکم پاتے ہی طرطوش نے سات پکی ہوئی سبزیاں حاضر کر دیں۔ جونہی گرما گرم سات سبزیوں کا سالن کمرے میں پہنچا' مرلی بے تابی سے لمبے لمبے سانس لینے لگا اور سبزیوں کی خوشبو لیتے ہی وہ مدہوش سا ہوگیا۔
''ہم نے تمہاری خواہش پوری کر دی ہے۔ تم نے بھاجی کی خوشبو لے لی ہے۔ اب چلے جاؤ۔'' باوا جی نے نفرت کے ساتھ انجیر کی شاخ لہرائی تو مرلی نے ایک فلک شگاف چیخ بلند کی اور دھوئیں میں تحلیل ہو گیا اور وہ دھواں کمرے میں چکر کھانے کے بعد کمرے کی ایک درز سے باہر نکل گیا۔ لیکن اسی لمحہ ایک عجیب بات ہوئی کہ دروازے کے قریب سے کسی کی گھٹی گھٹی سی چیخیں سنائی دیں دوسرے ہی لمحے دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ کھل گیا اور روشن کی ماں چیختی چلاتی دھاڑیں مارتی ہوئی باوا جی کی طرف بڑھی۔
''نہال شاہ! میں لٹ گئی برباد ہوگئی……بے غیرت منصور نے تمہاری عزت روشن کو پنڈت راما نرائن کے حوالے کر دیا ہے۔''
یہ سنتے ہی باوا جی کے تن بدن میں آگ لگی گئی۔ ان کے اندر انتقام کا جوالہ مکھی انگڑائیاں لینے لگا۔ وہ یکدم اٹھے اور طرطوش سے بولے:''طرطوش ! اب پنڈت اور منصورا میرا قہر سے نہیں بچ سکتے۔ خدا کی قسم اب ان دونوں کا قتل مجھ پر واجب ہو گیا ہے۔'' باوا جی نے روشن کی ماں کو تسلی دی اور کہا:
''چاچی ! روشن تیری بیٹی ہے تو اب میری عزت بن چکی ہے۔ تو ادھر حویلی میں میرا انتظار کر۔ میں روشن کو شیطان کے پنجے سے نکال کر لاتا ہوں۔'' یہ کہہ کر باوا جی نے اپنی کالی چادر کی بکل ماری او ر انجیر کی شاخ ہاتھ میں پکڑ کر باہر نکل گئے ۔ طرطوش اور مستان بھی باوا جی کے ساتھ ہو لیے اور کچھ ہی دیر بعد وہ سبھی بابا منوہر کے مندر کے سامنے پہنچ گئے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
مندر ایک ہولناک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ باواجی برسوں بعد اس طرف آئے تھے۔ اگرچہ مندر انہی کی جاگیر میں تھا مگر جب سے انہوں نے سنیاس کا چولا پہنا تھا ' وہ گائوں میں ہونے والی سر گرمیوں سے لا تعلق ہو گئے تھے۔ اس وقت ان کے سامنے بابا منوہر کا مندر ایک نیا روپ لیے ہوئے تھا۔ پہلے تو انہیں گمان گزرا شاید وہ کسی اور مندر میں آ گئے ہیں مگر پھر انہیں یقین کرنا پڑا کہ نمولیاں میں اب ہی مندر ہے جہاں گائوں کی ہندوآبادی پوجا پاٹ کرتی ہے۔
باواجی کی حیرانی کچھ بے جا نہیں تھی۔ اس سے پہلے یہاں ایک ویران کھنڈر نما مندر ہوا کرتا تھا۔اس کے چاروں طرف ہندوئوں کی آبادی تھی اور یہ گھر انتہائی خستہ حالت میں ہوتے تھے مگر اب مندر کے ارد گرد پختہ مکان تعمیر ہوگئے تھے اور مندر کی عمارت بھی ایک قلعے کے اندر بند ہو چکی تھی۔ باواجی کو ہرگز علم نہ تھا کہ دس برس کے عرصے میں بابا منوہر کا مندر ہندوئوں کی سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے اور اس کے اندر پوجا پاٹ کے نام پر غریب و نادار عورتوں کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں۔
باوا جی نے مندر کی عمارت تک پہنچنے کیلئے دروازہ تلاش کرنا شروع کیا تو ان کی حیرانی مزید بڑھ گئی کیونکہ قلعہ نما چار دیواری میں ایک بھی دروازہ نہ تھا۔ اس سے پہلے کہ باواجی قلعے کا دروازہ تلاش کرنے کیلئے طر طوش کو کوئی حکم دیتے، وہ خود ہی کہنے لگا: ''نہال شاہ جی! پنڈت بڑی خبیث اور بدکار روح ہے۔اس نے مندر کے گرد طلسمی قلعہ تعمیر کر دیا ہے۔ یہ پختہ دیواریں نہیں بلکہ فریب نظر ہے۔''
''تمہاری بات ٹھیک ہے طرطوش!'' باواجی نے انجیر کی چھڑی لہراتے ہوئے کہا۔
میں خبیث کافر کا یہ طلسم اپنی چھڑی سے ختم کر دوں گا''۔ یہ کہتے ہی وہ زیر لب کچھ پڑھنے لگے ساتھ ساتھ چھڑی کو فضا میں لہراتے جاتے۔ چند لمحے بعد وہ آگے بڑھے اور چھڑی جونہی دیواروں سے ٹکڑائی فضا میں شیطانی آہوں اور سسکیوں کا شور سنائی دیا۔ باواجی نے چھڑی مارنے کی رفتار تیز کر دی۔ وہ ساتھ ساتھ طرطوش کو بھی ہدایات جاری کر رہے تھے۔
''طرطوش! میں اس خبیث کی حقیقت جان گیا ہوں۔ اس نے جانگلی وال کی چڑیلوں کو اس مندر کی حفاظت پر بلایا ہوا ہے۔ تم مستان سے کہو کہ وہ انجیر کے درخت پر بندھی ہوئی چڑیلوں کو رہا کرا کے لے آئے''۔ اس کے ساتھ ہی باواجی نے اپنی چھنگلی سے تانبے کا ایک چھلا اتارا اور کہا یہ مستان کو دے دو اور اسے کہہ دو کہ انجیر کے درخت سے ایک انجیر توڑ کراس چھلے کو انجیر کے درمیان رکھ کر دوبارہ جوڑ دے اور اسے بابا کے شہباز قلندر کے تکیہ پر جا کر دبا دے۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
طرطوش نے چھلا لے کر مستان کے حوالے کر دیا اور وہ اپنے مشن پر روانہ ہو گیا۔
باواجی کا خیال تھا کہ طلسماتی قلعے کی دیواریں توڑنے میں انہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی مگر انہیں یہ عمل کرتے ہوئے دانتوں پسینہ آرہا تھا۔ وہ جونہی ایک طرف کی دیواریں گراتے اور دوسری جانب بڑھتے تو ان کے آگے گری ہوئی دیواریں دوبارہ کھڑی ہو جاتیں۔ طرطوش بھی باواجی کے ساتھے مل کر دیواریں گرا رہا تھا بلکہ اس نے اپنے شاگردوں کو بھی اس محاذ پر بلا لیا تھا۔ باواجی کے کہنے پر اس کے شاگردوں نے طلسماتی قلعے کی دیواروں پر کھڑی محافظ چڑیلوں کو پکڑ کر باندھنا شروع کر دیاتھا۔ ان کے ایسا کرنے سے فضا میں جنگ و جدل کا سماں پیدا ہو گیا تھا۔ طرطوش اور اس کے شاگرد چڑیلوں سے باقاعدہ گھتم گتھا ہو گئے تھے۔ چڑیلیں کالے جادو کی پیداوار ہوتی ہیں۔ جبکہ جنات ان تمام علوم سے ماورا ہوتے ہیں۔ چڑیلوں کی ساری طاقت ان کے حاکم کے قبضہ میں ہوتی ہے۔ جتنا کوئی حاکم یا عامل طاقتور ہو اس کی مطیع چڑیلیں اتنی ہی طاقت کی حامل ہوتی ہیں۔
طرطوش اور دوسرے جنات کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان چڑیلوں کو قابو میں کرنا اس قدر آسان نہیں کیونکہ ان کا حاکم پنڈت راما نرائن ان کی رکھشا کر رہا تھا۔ جب وہ خاصی دیر تک چڑیلوں کو قید نہ کر سکے تو طرطوش نے باواجی سے کہا ''باواجی سرکار! یہ کالی چڑیلیں قابو میں نہیں آ رہیں''۔
یہ سنتے ہی باواجی نے دیواریں گرانے کا عمل چھوڑ دیا اور طیش کے عالم میں اس کی طرف منہ کر کے بولے:
''طرطوش!تم اور تمہارے شاگرد ان چڑیلوں کو بھی قابو نہیں کر سکتے۔ کتنی شرم اور ذلت کی بات ہے۔ اپنے ساتھیوں سے کہو کہ پیچھے ہٹ جائیں۔ اب میں خود ان کو جلا کر بھم کر دوں گا۔'' یہ کہتے ہی باواجی دس قدم پیچھے ہٹے اور مندر کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔پھر انہوں نے اپنی کالی چادر زمین پر بچھائی اور اس کے گرد نجور اور پیسی ہوئی شگرف سے دائرہ لگا دیا اور خود اندر بیٹھ کر چوکی لگانے لگے۔ انہوں نے خوشبویات سلگانے کیلئے طرطوش سے انگیٹھی منگوائی اور اس میں گوگل اور عطر ڈال کرآگ جلادی، پھر وہ آنکھیں بند کر کے وظیفہ پڑھنے لگے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ باواجی کی چوکے کے گرد ایک سفید سا ہیولا نظر آنے لگا۔ اس لمحے باواجی نے آنکھیں کھول دیں۔ ان کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ انہوں نے انجیرکی شاخ کا رخ ہیولے کی طرف کیا اور دھاڑ کر بولے: ''آتوم! تو نے اتنی دیر کیوں کر دی؟ کیا تجھے معلوم نہیں ہوگیا تھا کہ ہم تمہاری زنجیر ہلا رہے ہیں کم بخت!''۔
فضا میں ایک گونجدار آواز پیدا ہوئی۔یوں لگا کہ جیسے آسمانوں پر بجلی کوندی ہو۔ باواجی کے جواب میں وہ ہیولا دائرے کے اندر داخل ہو گیا اور دو زانو ہو کر اس نے عقیدت کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھا دئیے۔
''پیچھے ہٹ کر بات کرکم بخت! باواجی تیرے ساتھ اس وقت تک ہاتھ نہیں ملائیں گے جب تک تو رامانرائن کے قلعے کو بھسم نہیں کر دیتا۔اس نے تیری کچھ لگتی چڑیلوں کے پورے قبیلے کو قلعے کی دیواروں پر بیٹھا رکھا ہے۔ اب یہ تیرا کام ہے کہ تو گندگی کے ان ڈھیروں کو کس طرح آگ دکھاتا ہے۔''
''جو حکم باواجی سررکار!'' ہیولا گونجدار آواز میں بولا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کھڑے ہو کر اپنے دونوں بازو طلسماتی قلعے کی طرف یوں بڑھا دیے جیسے اسے اپنے سینے سے لگانا چاہ رہا ہو۔
طرطوش اور اس کے شاگرد اس عجیب و غریب ہیولے کی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ باواجی نے اسے آتوم کہہ کر پکارا تھا۔یہ نام ان کیلئے یہ اجنبی تھا۔ طرطوش حیران ہو اکہ برسوں سے باواجی کی سیوا میں لگا ہوا ہے اور ان کے ہر ایک راز سے بھی آگاہ ے مگر آتوم کی آمد نے اسے یقین دلایا کہ وہ باواجی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے باوجود ابھی ان سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوا۔طرطوش ایک صاحب علم جن تھا'مگر اس واقعے نے اس کی قوتوں کو مفلوج کر دیا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے چند چڑیلوں کو مار کرسکا تھا مگر آتوم نے تو آتے ہی طلسمی قلعے کی دھجیاں اڑادی تھیں۔ اس نے ایک بازو کا حصار قائم کر کے قلعے کو جکڑ لیا اور دوسرے سے چڑیلوں کو یوں پکڑنے لگا جیسے کوئی پتنگے پکڑتا ہے۔
وہ ہر چڑیل کو اس کے بالوں سے پکڑتا اور اس کا ایک بال اتار کر اپنے قبضہ میں کر لیتا پھر اسے پرے پھینک دیتا۔ا سی طرح اس نے قلعے پر بیٹھی تمام چڑیلوں کے بال اکٹھے کر لیے اور پھر انہیں باواجی کو تھما کر بولا:''سرکار! یہ کالی چڑیلیں ہیں۔ یہ تب ہی مر سکتی ہیں جب ان کے بال جلا دئیے جائیں۔''
باواجی سلگتی ہوئی انگیٹھی میں بال ڈالنے لگے تو چڑیلوں نے واویلا مچا دیا اور بلک بلک کر اپنی جان بخشی کی التجائیں کرنے لگیں۔
''سرکار! ان پر رحم نہ کیجئے گا''آتوم کی آواز گونجی۔''چڑیل کسی کی نہیں ہوتی۔ آپ نے اسے معاف کر دیا تو اس کی شیطانی طاقت اور بڑھ جائے گی۔''
یہ سنتے ہی باواجی نے تمام چڑیلوں کے بال انگیٹھی میں جھونک دئیے۔ اس لمحے چڑیلوں پر قیامت گزر گئی۔ وہ یوں سلگنے لگیں جیسے گرم لاوا پہاڑوں کو جھلسا دیتا ہے۔طلسمی قلعے کے ارد گرد آگ ہی آگ نظر آ رہی تھی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد ماحول شانت ہوگیا۔ آتوم بولا!''سرکار! اب میرے لیے کیا حکم ہے؟''
''تم جا سکتے ہو آتوم ! مگر یاد رکھو جب میں یاد کروں تو جلدی آجایا کرو۔''باواجی نے کہا۔
آتوم عقیدت سے بولا:''سرکار! آئندہ غفلت نہیں کرونگا۔''پھر اس نے جھک کر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو باواجی نے اس بار اس سے مصافحہ کیا۔ دوسرے ہی لمحے آتوم کا ہیولا غائب ہو گیا۔ باواجی اٹھے اور انجیر کی چھڑی کی مدد سے اپنے حصار میں دروازہ بنا کر باہر نکل آئے۔
''طرطوش! تیرا مستان ابھی تک نہیں آیا ……''باواجی نے حصار سے باہر نکلتے ہی پوچھا۔
یہ سنتے ہی طرطوش پریشان ہوگیا۔ ''اسے اب تک آجانا چاہیے تھا''۔ وہ فکرمندی سے بولا۔ ''کہیں وہ دشمنوں کے ہتھے نہ چڑھ گیا ہو؟''
''ٹھہرو میں دیکھتا ہوں۔''باواجی نے آنکھیں بند کر کے زیر لب کچھ پڑھا اور دوسرے لمحے ان کے چہرے پر حیرانی ابھر آئی۔ آنکھیں کھول کر بولے: ''طرطوش میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ میں نے چڑیلوں کو آزادی دے کر اچھا نہیں کیا''۔
''کیا ہوا ہے نہال شاہ جی؟'' طرطوش گھبرا گیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
''انہوں نے آزاد ہوتے ہی مستان کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔''باواجی بولے۔ ''اب تم مستان کے پیچھے جائو'' میں خود اکیلا مندر میں جاتا ہوں۔اگر میں پہلے مستان کو رہا کرانے اور چڑیلوں سے حساب برابر کرنے چل پڑا تو حرامی پنڈت کچھ اور نہ کر گزرے۔''
طرطوش نے باواجی کی تجویز سے اتفاق کیا اور وہ مستان کے پیچھے چل دیا۔ باواجی نے اپنی کالی چادر سے بکل ماری اور ایک نظر آسمان کی طرف دیکھ کر آگے بڑھے۔ چاند کو گرہن لگا ہوا تھا۔ ان کے حساب کے مطابق یہ رات نحوست کی تاریکیاں اوڑھے ہوئے تھی۔ایسی راتیں کالے علم والوں کیلئے نعمت ہوتی ہیں۔ انہی راتوں میں وہ اپنی شیطانی قوتوں کو دوام بخشنے کیلئے چلے کرتے ہیں اور انسانی خون کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ باواجی اس رات کی سنگینیوں سے آگاہ تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہیں پنڈت راما نرائن روشن کو اپنی ہوش کا نشانہ بنانے کے بعد کالی کی بھینٹ نہ چڑھا دے۔ یہ سوچتے ہی ان کا دماغ سلگ اٹھا۔ انہوں نے مندر کے اندر داخل ہونے سے پہلے اپنے گرد حفاظتی حصار قائم کر لیا اور پھر مندر کے ہاتھی دروازے تک جا پہنچے۔
دروازہ خلاف معمول کھلا تھا۔ پنڈت نے غالباً یہ سوچ کر دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا کہ طلسمی قلعے کی وجہ سے کوئی ذی روح یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ باواجی مندر کے اندر داخل ہوئے تو پہلے ہی کمرے کی شان و شوکت اور پرسراریت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ پوجا پاٹ کا کمرہ تھا۔ جس کے درمیان کالی کی مورتی اپنی وحشت انگیز شکل و صورت کے ساتھ ایستادہ تھی۔ اس کے چرنوں میں خون سے بھرا تھا رکھا ہوا تھا اس کے ساتھ اہی ایک انسانی کھوپڑی اپنی زندہ آنکھوں کے ساتھی پڑی تھی۔ کھوپڑی کی آنکھیں شیطانی چمک کے ساتھ دہک رہی تھیں۔اس کے سر اپر ایک روشن دیا رکھا ہوا تھا۔ تاریک رات میں صرف ایک دئیے کی روشنی سے دن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ باواجی کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ بابا منوہر کے مندر میں ہندو اب پوجا پاٹ نہیں کرتے بلکہ یہ کالے علوم کا مرکز بن چکا ہے۔ کیونکہ کالی کی مورتی اپنے لوازمات کے ساتھ اس بات کا واضح اشارہ کر رہی تھی کہ یہ مندر اس کے پچاریوں کی آماجگاہ ہے۔ کالے علوم کے پروردہ ہندوئوں کیلئے کالی ماتا ایک مقدس دیوی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے جہاں بھی کالے علوم کی تربیت دی جا رہی ہو وہاں کالی کی مورتی، خون بھرا تھال، شیطانی کھوپڑی اور اس پر روشن دیا رکھے جاتے ہیں۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی غصے اور نفرت کے ساتھ آگے بڑھے اور تھال کو ٹھوکر مار کر الٹا دیا اور شیطانی کھوپڑی پہ رکھے ہوئے دئیے کو اپنی چھڑی کی مدد سے پرے پھینک دیا۔ دیا نیچے گرتے ہی بجھ گیا اور کمرہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ ''شیطان کے پجاریو! میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑونگا''۔ باواجی یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے مگر اسی لمحے انہیں اپنے عقب سے شیطانی قہقہہ سنائی دیا۔
''آگئے نہال شاہ! مجھے تمہارا ہی انتظار تھا''۔
باواجی نے پلٹ کر دیکھا تو ان کی نظر شیطانی کھوپڑی پر پڑی۔
''تم نے مجھے چھڑی کیوں نہیں ماری نہال شاہ۔''کھوپڑی بولی۔''چھڑی مار کر تم نے دیا تو بجھا دیا۔ پائوں سے تھال بھی الٹ دیا لیکن میں تب مانوں جب تم یہ چھڑی میرے سر پر مارو گے۔''
باواجی نے اس کی خواہش پوری کرنے کیلئے چھڑی اس کے سر پر دے ماری۔ اس لمحے چٹاک کی آواز گونجی جس کے ساتھ ہی کمرہ ایک دم یوں تھر تھرا گیا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ ''مزہ آگیا نہال شاہ ! مزہ آگیا۔''شیطانی کھوپڑی کا مکروہ قہقہ گونجا۔'' تمہاری چھڑی میں واقعی بڑی طاقت ہے۔''
''میں اسی چھڑی سے تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا شیطان کی اولاد!''باواجی دانت کچکچا کر بولے:''بتا تیرا گرو کہاں ہے؟جا ا س سے کہہ دے نہال شاہ اس کی موت بن کر آگیا ہے۔ اگر خود کو بچا سکتا ہے تو بچالے؟''۔
''میںاپناگروآپ ہوں نہال شاہ!'' کھوپڑی بولی۔ ''میں ہی راما نرائن ہوں۔ مہا طاقتوں کا گرو میں ہی ہوں۔ پہنچ سکتے ہو تو مجھ تک پہنچ جائو۔ اس مندر کے سارے دروازے کھلے ہیں۔ میں نے سنا ہے تمہارے اندر بڑی شکتی ہے۔اس لیے تو تم مسان کھانے کے باوجود موت سے بچ نکلے۔ تم نے میرا طلسماتی قلعہ تباہ کر ڈالا ہے اور میری موکل چڑیلوں کو بھی بھسم کر دیا ہے۔ اب آگے بڑھو اور مجھے راکھ بنا ڈالو نہال شاہ!''کھوپڑی کا ایک ایک لفظ طنز میں ڈوبا ہوا تھا۔'' میں خود تمہاری راہنمائی کرتا ہوں نہال شاہ!آؤ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ''۔یہ کہتے ہی کھوپڑی یوںچل دی جیسے اسے پائوں لگے ہوئے ہوں۔

٭٭٭٭٭٭​

باواجی کو پراسرار طاقتیں حاصل کرنے کے بعد اس طرح کی آزمائش سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا۔ انہیں تو یہ معلوم ہی تھا کہ ہندو کالے علوم پر بہت دسترس رکھتے ہیں مگر انہیں اس سے قبل ان کی طاقتیں دیکھنے کا صحیح موقع نہیں ملا تھا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی کھوپڑی کی راہنمائی میں آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔ بالآخر کھوپڑی ایک بند دروازے کے پاس جا کر ٹھہر گئی اور اس کی جانب اشارہ کر کے بولی:''نہال شاہ! یہ بند دروازہ کھول کر اند رداخل ہوجائو۔''
باواجی نے ہاتھ کا دبائو ڈالا تو دروازہ چر چراہٹ کے ساتھ کھل گیا اور ساتھ ہی انہیں عجیب سی وحشت آمیز بو کا احساس ہوا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ان کی نظر روشن پر پڑی۔ وہ سپاٹ آنکھوں سے دروازے کی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور لباس جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا۔ باواجی دیوانہ وار روشن کی طرف بڑھے مگر وہ تو بت بنی ہوئی تھی۔ ان کی آمد کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
''روشن !روشن!''باواجی اس کے قریب جا کر بولے۔''روشن! تم ٹھیک ہو؟''
''ٹھیک کیسے ہوگی نہال شاہ۔ باواجی کے عقب سے وہی آواز گونجی۔پنڈت راما نرائن نے اسے کسی قابل چھوڑا ہوگا تو یہ ٹھیک رہے گی ناں۔''
باواجی تیزی کے ساتھ پیچھے پلٹے تو دروازے میں پنڈت راما نرائن کو کھڑا پایا۔ اس کی شیطانی آنکھوں سے ہوس کی چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔
''کتے !تونے روشن کے ساتھ کیا کیا ہے؟'' باواجی دھاڑے۔ ''جو کسی کتے کو کرنا چاہیے۔'' پنڈت نے کمینگی کے ساتھ قہقہ لگایا۔
''تو نے میری روشن کی عزت کا روشن دیا بجھا دیا ہے بے غیرت انسان!''باواجی اس کی طرف بڑھے۔''خدا کی قسم اب میں تم لوگوں کا ناپاک وجود اس دھرتی سے مٹاکر ہی دم لوں گا''۔
''ترے اندر دم رہے گا تو ہمارا دم نکالے گا نہال شاہ!''پنڈت اپنی جگہ پر قائم رہا اور باواجی کو طیش دلاتے ہوئے بولا:''تو کیا سمجھتا ہے ترے اندر بہت شکتی ہے۔لیکن تم پنڈت کی شکتی نہیں جانتے۔ گڑھ شنکر کے مندروں کا مہا پجاری 'کالی کا دیوانہ اور لاڈلا راما نرائن معمولی انسان نہیں نہال شاہ!۔''
''تم انسان نہیں شیطان ہو۔''باواجی اس کی طرف تھوک کر بولے۔
''شیطان۔ہا…ہا…''پنڈت نے قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔ ''بھگوان نے چاہا تو مجھے شیطان دیوتا کی شکتی بھی دے دے گا۔ شیطان دیوتا تو کالی کاگرو ہے نہال شاہ!اپنی اچھا تو یہی ہے کہ شیطان دیوتا مجھ پر اپنی نظر کرم ڈالے۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ انہوں نے کچھ پڑھ کر انجیر کی شاخ کا رخ پنڈت کی طرف کیا تو وہ جھٹکا کھا کر پیچھے کو گر گیا۔ باواجی آگے بڑھے لیکن پنڈت اسی لمحے کھڑا ہوگیا۔''بس یہی زور ہے تیری اس چھڑی کا…'' پنڈت نے قہقہہ لگایا اور بولا: لے اب میرا زور دیکھ۔''یہ کہتے ہی اس نے اپنی جٹائوں کو جھٹکا دیا۔ اس کے لمبے لمبے الجھے بالوں کی ساری گرہیں کھل گئیں اور ان سے چھوٹے چھوٹے کیڑے زمین پر گرے اور دیکھتے ہی دیکھتے سنہرے سانپوں کی شکل اختیار کر گئے اور اڑ کر باواجی کی طرف بڑھے۔ باواجی نے بڑی بے نیازی کے ساتھ اپنی چھڑی لہریا انداز میں گھمائی تو سانپ اس سے ٹکراتے ہی آگ کے شعلوں میں لپٹ گئے اور جلنے لگے۔ ان کے جلنے سے کمرے کی فضا تعفن سے بھر گئی اور باواجی کے لیے اس میں سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ یہ چڑیلوں اور دیگر ارواح خبیثہ کی گندگی تھی۔ جس کی بو بڑے سے بڑے عامل کو بے بس کر دیتی ہے، خاص طور پر روحانی علوم کے پروردہ عامل کیلئے ایسے ماحول میں کھڑے ہونا دوبھر ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ باواجی بدبودار ماحول کی گھٹن کا شکار ہوجاتے، انہوں نے اپنے لبادے میں سے گوگل اور مشک کافور نکالے اور انہیں ہاتھ میں لے کر آگ دکھا دی۔ گوگل ایک درخت کا گوند ہے جس کی خوشبو جنات اور دوسری ارواح کو بے کل کر دیتی ہے۔ ہر مسلمان عامل جب بھی کوئی عمل کرتا ہے تو جنات، چڑیلوں اور بد روحوں کو اپاہج کرنے کیلئے جن خوشبویات کی دھونی دیتا ہے گوگل بھی ان میں شامل ہوتا ہے۔
گوگل اور مشک کافور کی دھونی نے یکا یک ہی گندگی کافور کردی لیکن اس لمحہ پنڈت نے جنتر منتر شروع کر دیے۔ وہ کالی ماتا کے منتر پڑھ کر اپنے گرد پھونکیں مارنے لگا اور پھر اس نے ایک زور دار پھونک مار کر کمرے میں آگ لگادی۔ اس وقت باواجی کی توجہ دھونی کی طرف تھی۔ آگ نے انہیں اپنے حصار میں لینے کی کوشش کی مگر وہ ان سے دو قدم پیچھے تک ہی محدود رہ گئی کیونکہ باواجی نے اپنی حفاظت کیلئے حصار قائم کیا ہوا تھا۔ پنڈت نے جب دیکھا کہ اس کی طلسماتی آگ نہال شاہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تو اس نے اپنے موکلان حاضر کر لیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کمرے میں سینکڑوں موکلان جمع ہوگئے …کالے بجھنگ خون آشام نظروں سے گھورتے ہوئے۔ یہ موکلان باواجی کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہوگئے۔ اس دوران باواجی کی نظر دروازے سے ہٹ گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہی پنڈت راما نرائن ، روشن کی طرف بڑھا اورا س کی کلائی پکڑ کر اسے باہر کی طرف لے جانے لگا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
روشن کسی معمول کی طرح اس کے ساتھ چل دی وہ ابھی دروازہ عبور کر ہی رہا تھا کہ اس کے موکلان کی شامت آگئی، لیکن اس وقت تک وہ روشن کو باہر نکال لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
باواجی نے اپنی چھڑی کی مدد سے موکلان کو پیٹنا شروع کر دیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ صرف چھڑی سے کام نہیں بنے گا تو انہوں نے اپنے لبادے میں سے مٹھی بھر کر چاول نکالے اور کچھ پڑھنے کے بعد ان پر دم کیا، پھر کمرے میں بکھیر دیے۔ اس کے ساتھ ہی یوں لگا جیسے کمرے میں قسم قسم کی چاول کی دیگیں پڑی ہوں۔پنڈت کے موکلان جانے کب سے بھوکے تھے۔ وہ اپنی من پسند خوراک دیکھتے ہی چاولوں پر جھپٹے مگر باواجی نے انہیں آواز دے کر کہا ''خبیثو!یہ چاول تب ہی کھا سکو گے جب مجھے وچن دو گے۔''
''ہم وچن دیتے ہیں۔''موکلان یک زبان بولے۔
''تو پھر یہ بھوجن کھاتے ہی دفع ہو جائو اور پنڈت کے بلانے پر کبھی نہ آنا۔ کیونکہ تم نے بھوجن کھالیا ہے۔''باواجی نے کہا۔
عملیات کی پرسرار دنیا میں ایسے ہی عجیب و غریب طور طریقے ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی کالے علم کا ماہر موکلان کو قید کرتا ہے تو انہیں چاول نہیں کھانے دیتا۔ اگر کبھی انہیں چاول کھلا دیے جائیں تو وہ اپنے عامل کی قید سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔ باواجی نے پنڈت کے موکلان کو آزاد کر دیا تھا۔ اس کام سے فارغ ہوتے ہی باواجی نے دروازے کی طرف دیکھا تو پنڈت غائب ہو چکا تھا۔ انہوں نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو روشن بھی غائب تھی۔ باواجی کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ پنڈت روشن کو لے کر کھسک گیا ہے۔
باواجی نے اسی لمحے اپنے موکل کی حاضری لگادی۔ چند لمحے بعد موکل حاضر ہوا تو انہوں نے اسے پنڈت کا پتہ لگانے کیلئے اپنے آگے کر دیا اور پھر اس کی راہنمائی میں مندر کے تہہ خانے تک پہنچ گئے۔ پنڈت تہہ خانے میں داخل ہو ہی رہا تھا جب باواجی نے اپنے موکل کے ساتھ اس کے سر پر پہنچ گئے اور اسے خبر بھی نہ ہو سکی۔ وہ روشن کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ باواجی نے کڑک دار آواز کے ساتھ اسے روکا۔''پنڈت رک جائو…''۔
راما نرائن نے حیران نظروں کے ساتھ باواجی کی طرف دیکھا پھر یکا یک روشن کو قید خانے کے کھلے دروازے کے اندر دھکا دے دیا اور خود بھی اڑتا ہوا تہہ خانے میں داخل ہوگیا اور دروازہ بند کر لیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی نے موکل کواپنے واپس بھیج دیا اور خود دروازے کے پاس پہنچے اور اپنی چھڑی زور سے دروازے پر ماری۔ دروازہ ٹوٹ کر کھل گیا اور باواجی اندر داخل ہوگئے۔
پنڈت نے جونہی دیکھا کہ باواجی اس کے سارے طلسمات تہس نہس کر کے اس تک پہنچ گئے ہیں تو اس نے روشن کو اپنی ڈھال بنا لیا اور بولا:''نہال شاہ ! اب تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں تمہاری روشن کو جان سے مار دوں گا۔''لیکن باواجی نے پنڈت کی دھمکی نظر انداز کر دی اور اسے قہر آلود نظروں سے گھورنے لگے۔ تاہم وہ زیر لب وظائف پڑھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی بند کر کے اس پر پھونک ماری اور اسے انپی نظروں کے سامنے لا کر کھول دیا۔ پھر اس پر اتنے زور سے پھونک ماری کہ کمرہ یکایک سرد ہوائوں سے بھر گیا۔ یوں لگا جیسے برطانی طوفان نے کمرے پر تسلط جما لیا ہے۔ ایسا ہی انہوں نے پہلی بار منصور خاں کو سزا دینے کیلئے کیا تھا یا اب شیطانی علوم کے پروردہ پنڈت موہن کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے کیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے سرد ہوائوں کے تیز بگولوں نے پنڈت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ چیختا ہی رہ گیا۔ روشن کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ نیچے گر گئی تھی۔ اسی لمحے باواجی آگے بڑھے اور بے ہوش روشن کو پیچھے گھسیٹ لائے۔
کمرہ پنڈت کی چیخ و پکار اور سرد بگولوں کے شور سے بھر گیا تھا۔ باواجی نے روشن کو اپنے بازوئوں پر اٹھا لیا اور تہہ خانے سے باہر نکل گئے۔ اب انہیں پنڈت راما نرائن کی فکر نہیں تھی کیونکہ سرد بگولوں نے اس آتشی عامل کی روح منجمند کر دی تھی۔عملیات کی دنیا کا یہ دستور ہے کہ کالے علوم کے پجاری اور جنات سرد پانی سے گھبراتے ہیں اور انہی سے ان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ باواجی نے اندازہ کر لیا تھا کہ پنڈت آتشی علوم کا بھی ماہر ہے۔ یہ قوت جنات کے پاس ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے اس قصہ کاتمام کرنے کیلئے اس کو سرد بگولوں کے ذریعے منجمند کر دیا تھا۔ ان کے اس عمل کا توڑ ان ہندوئوں کے پاس نہیں تھا، اس لیے وہ مطمئن ہو کر حویلی واپس چلے آئے تھے۔ انہوں نے حویلی پہنچتے ہی بے ہوش روشن کو بستر پر لٹایا۔ اس کی ماں باواجی کے حجرے میں بیٹھی ابھی تک رو رہی تھی۔ وہ باواجی کو دیکھتے ہی ان کے قدموں پر جھک گئی مگر انہوں نے اسے بازوئوں سے تھام لیا اور کہا۔
''چاچی!تو میری ماں جیسی ہے۔ مائیں بیٹوں کے پائوں نہیں پکڑتیں۔''
''میرے بچی زندہ توہے نہال شاہ؟'' روشن کی ماں بلکتے ہوئے پوچھنے لگی۔
 

راجہ صاحب

محفلین
''یہ بے ہوش ہو گئی ہے چاچی!'' باواجی نے کہا اور پھر اپنے مختصر سے مطب میں سے کچھ دوائیاں نکال کے بے ہوش روشن کو ہوش میں لانے لگے۔ انہوں نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا اور دوائیوں کے اثر پذیر ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ چند ہی لمحے بعد روشن کی نبض معمول پر آنے کے بجائے مدہم پڑنے لگی۔ باواجی نے اسے ایک اور دوائی پلائی، اس کے بعدروشن کی ماں کو حجرے سے باہر بھیجتے ہوئے کہا
''چاچی! جب تک میں نہ کہوں اندر نہ آنا''۔ وہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئی باہر چلی گئی تو باواجی طرطوش کی حاضری لگانے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ حاضر ہوگیا۔
باواجی نے اسے روشن کی بے ہوشی کے بارے میں بتایا تو اس نے فوراً ایک نسخہ تجویز کر دیا اور ساتھ ہی وہ دوا بھی لا کر دی۔ دوا کھاتے ہی روشن نے آنکھیں کھول دیں اور جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔اس نے بے یقینی سے باواجی کو دیکھا پھر ارد گرد دیکھنے لگی مگر اسی لمحے اسے اپنے حالات کا اندازہ ہو گیا اور وہ سمٹ کر اپنے ہی اندر چھپنے لگی۔ باواجی نے اپنی چادر اتار کر اس کا سر اور تن ڈھانپ دیا اور بولے:
''روشن اب تم ٹھیک ہو۔ آرام کرو میں ذرا باہر جاتا ہوں۔''
روشن نے یکدم باواجی کا ہاتھ تھام لیا اور تڑپ تڑپ کر رونے لی!''نہال شاہ جی!یہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں تو برباد ہو گئی نہال شاہ جی ! مجھے میرے ماں جائے نے برباد کر دیا ہے۔ مجھے کوئی زہر دے دیں۔ میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔''
باواجی نے اسے حوصلہ دیا۔''روشن ایسی باتیں نہ کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔''
''میں آپ کے قابل نہیں رہی نہال شاہ!'' روشن روتی جا رہی تھی۔
''تم میرے لیے آج بھی وہی حیثیت رکھتی ہو جو تمہاری پہلے تھی۔ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا۔''باواجی نے اسے تسلی دی اور کہا ''میں نے اس شیطان کو جہنم واصل کر دیا ہے۔ اب رہا تیرا بھائی ……تو میں ابھی اس کا پتہ کراتا ہوں۔ تم اب اپنا دل چھوٹا نہ کرو۔''
''میں اپنے دل کو کیسے بڑا کروں۔'' روشن تڑپی۔''عورت کی عزت ہی تو اس کے دل کی پاسبان ہوتی ہے۔ جب عزت ہی نہ رہی تو دل کیسا نہال شاہ جی!''۔
باواجی نے جب دیکھا کہ روشن کی ذہنی حالت بگڑ رہی ہے تو انہوں نے پانی دم کر کے اس کے سر پر چھڑک دیا اور بولے۔''روشن تم میری جان ہو۔ تمہاری عزت میری عزت ہے
 

راجہ صاحب

محفلین
میں جانتا ہوں کہ میری عزت آج بھی قائم ہے۔ تم کچھ دیر آرام کرو……میں تمہاری ماں کو تسلی دے کر آتا ہوں۔''
یہ کہہ کر باواجی باہرنکلے مگر اس سے قبل انہوں نے طرطوش کو واپس بھیج دیا تھا۔ وہ مستان کے بارے میں پوچھنا نہ بھولے تھے۔ جب طرطوش نے بتایا کہ مستان کو چڑیلوں کی قید سے رہا کرا دیا گیا ہے توباواجی نے اللہ کا شکر اداکیا۔ طرطوش نے جاتے جاتے ایک انکشاف کرتے ہوئے کہا:''باواجی اگلی نوچندی رات کو جانگلی وال کے برساتی نالے پر ہندو عاملوں نے ایک میلہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ہندو مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کے خون سے کالے علم کے نئے منتر تیار کر رہے ہیں۔ آپ فارغ ہوتے ہی ان کی خبر لیں۔''
یہ سنتے ہی باواجی کو فکر لاحق ہو گئی۔ انہوں نے یہ تو سن رکھا تھا کہ نمولیاں سے ڈیڑھ کوس کی مسافت پر ہندوئوں کا ایک شمشان گھاٹ ہے جس کے ایک طرف ہندوئوں کا گائوں جانگلی وال ہے۔ گائوں کے درمیان سے ایک برساتی نالہ گزرتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ چڑیلوں کا مسکن ہے۔ پنڈت راما نرائن نے اپنے قلعے کی حفاظت کیلئے جانگلی وال کی چڑیلوں ہی کو بلایا تھا۔ باواجی نے تہیہ کر لیا کہ وہ روشن کے ٹھیک ہوتے ہی جانگلی وال جائیں گے اور نوچندی رات سے پہلے برساتی نالے کی چڑیلوں کو راکھ کر دیں گے۔
باواجی ابھی اپنی سوچوں میں گم تھے کہ اچانک انہیں حجرے کے اندر سے روشن کی چیخ سنائی دی۔ وہ دوڑ کر حجرے میں پہنچے تو روشن کو دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ ان کی محبت اور چاہت روشن ایک تیز دھار خنجر اپنے دل میں پیوست کیے ہوئے تڑپ رہی تھی۔ وہ جھٹ سے آگے بڑھے اور خنجر نکال کر پرے پھینک دیا اور نڈھال سی روشن کو سہارا دے کر لٹانے لگے۔''روشن تم نے یہ ……یہ کیا کر دیا''۔
''میں نے کہا تھا نہال شاہ جی، میں آپ کے قابل نہیں رہی ۔''روشن کی آواز لڑ کھڑائی۔''مجھے معاف کردیجئے گا نہال شاہ جی! میں آپ کی روشن تھی مگر پنڈت نے مجھے تاریک کر دیا تھا … نہال شاہ جی… میرے ساتھ ایک وعدہ کیجئے۔''روشن نے کپکپاتے ہاتھوں سے باواجی کا ہاتھ پکڑا۔ ''مجھ سے وعدہ کیجیے گا کہ آپ اب اپنی حویلی آباد کریں گے۔''
''روشن!میں وعدہ کرتا ہوں۔'' باواجی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ وہ جانتے تھے کہ روشن نے جو خنجر اپنے دل میں اتارا تھا زہر میں بجھا ہوا تھا اور تیز دھار خنجر نے اس کا دل کاٹ کے رکھ دیا ہے۔
روشن! باواجی کے بازئوں میں دم توڑ دیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے علم میں یہ داستان کاپی رائٹ فری نہیں اور چند ہی برس پہلے قسط وار چھپتی رہی ہے۔ اس کے بارے کچھ بتائیں
 
Top