''روشنا! اری او روشنا! دیکھ میں تیرے لیے پانی لے آیا ہوں۔''
روشنا نے بنتو کی آواز سنی تو جلدی سے رسوئی سے باہر نکلی۔ وہ حیران پریشان سی بنتو کو دیکھنے لگی۔ ''تجھے بوڑی کنویں نے کچھ نہیں کیا؟'' روشنا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ''تو کہیں اور جگہ سے تو پانی نہیں لے آیا؟''
''لے! بھلا اور کہاں سے لانا تھا۔'' بنتو نے پانی کا کٹورہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور جھوٹ کا سہارا لے کر بولا۔ ''لوگ تو ایسے ہی بوڑی کنویں کی کہانیاں بناتے ہیں، مجھے تواس نے کچھ نہیں کہا روشنا''
روشنا کٹورہ پکڑ کر اس کا پانی دیکھنے لگی اور پھر یکایک اس نے ایک جھرجھری لی اور پانی کا کٹورہ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر نیچے گر پڑا۔ بنتو اس کی یہ حرکت دیکھ کر پریشان سا ہو گا۔ ''کیا ہو گیا ہے تجھے روشنا! تو نے یہ پانی کیوں گرا دیا ہے؟''
''بنتو! مجھے سنبھالا دو میں گئی۔'' روشنا اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخی۔ بنتو کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے، اس نے روشنا کو اپنے بازوئوں کے حصار میں لے لیا اور اسے سہارا دے کر صحن میں بچھی چارپائی پر لا بٹھایا۔ روشنا چارپائی پر بیٹھتے ہی یکدم دھڑام سے گری اور تڑپنے لگی۔
''بنتو! میں گئی۔ ہائے بنتو، میرے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہے۔ جا بھاگ کر سنیاسی کو لے آ۔'' روشنا دہائی دینے لگی۔
بنتو نے یہ سنتے ہی باہر کو دوڑ لگا دی اور تھوڑی دیر بعد ہی گائوں کے سنیاسی کو لے آیا، لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی وہ روشنا کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اچھی بھلی ہو چکی تھی اور آرام سے چارپائی پر بیٹھی تھی۔ روشنا، سنیاسی جی کو دیکھتے ہی بولی: ''بنتو! میں اب ٹھیک ہوں۔ سنیاسی جی کو تو نے کیوں تکلیف دی ہے؟'' وہ چارپائی سے اٹھی اور سنیاسی جی کو چارپائی پر بٹھا کر بولی: ''سرکار! بنتو تو ذرا سی بات پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ آپ بیٹھئے میں آپ کے لیے دودھ لاتی ہوں۔'' بنتو، روشنا میں یکایک یہ تبدیلی دیکھ کر ٹھٹک گیا اور اسے باوا جی نہال شاہ کی باتیں یاد آنے لگیں، مگر وہ خاموش ہی رہا۔
روشنا نے سنیاسی جی کی دودھ سے سیوا کی اور ان کے جاتے ہی اس کے تیور بدلنے لگے۔
''بنتو! تجھے مجھ سے پریم نہیں، اگر تو سچا ہوتا تو میری یہ حالت نہ ہوتی۔''
''لیکن… بھلی مانس، میں نے کیا کیا ہے؟'' وہ روشنا کے تیور دیکھ کر ایسا گھبرا گیا کہ اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔
''اچھا تو تجھے اس چوٹی والے چلہ باز نے ورغلایا ہے اور تو اپنی روشنا سے دھوکا کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔'' روشنا تلخی سے بولی۔
روشنا نے بنتو کی آواز سنی تو جلدی سے رسوئی سے باہر نکلی۔ وہ حیران پریشان سی بنتو کو دیکھنے لگی۔ ''تجھے بوڑی کنویں نے کچھ نہیں کیا؟'' روشنا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ''تو کہیں اور جگہ سے تو پانی نہیں لے آیا؟''
''لے! بھلا اور کہاں سے لانا تھا۔'' بنتو نے پانی کا کٹورہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور جھوٹ کا سہارا لے کر بولا۔ ''لوگ تو ایسے ہی بوڑی کنویں کی کہانیاں بناتے ہیں، مجھے تواس نے کچھ نہیں کہا روشنا''
روشنا کٹورہ پکڑ کر اس کا پانی دیکھنے لگی اور پھر یکایک اس نے ایک جھرجھری لی اور پانی کا کٹورہ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر نیچے گر پڑا۔ بنتو اس کی یہ حرکت دیکھ کر پریشان سا ہو گا۔ ''کیا ہو گیا ہے تجھے روشنا! تو نے یہ پانی کیوں گرا دیا ہے؟''
''بنتو! مجھے سنبھالا دو میں گئی۔'' روشنا اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخی۔ بنتو کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے، اس نے روشنا کو اپنے بازوئوں کے حصار میں لے لیا اور اسے سہارا دے کر صحن میں بچھی چارپائی پر لا بٹھایا۔ روشنا چارپائی پر بیٹھتے ہی یکدم دھڑام سے گری اور تڑپنے لگی۔
''بنتو! میں گئی۔ ہائے بنتو، میرے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہے۔ جا بھاگ کر سنیاسی کو لے آ۔'' روشنا دہائی دینے لگی۔
بنتو نے یہ سنتے ہی باہر کو دوڑ لگا دی اور تھوڑی دیر بعد ہی گائوں کے سنیاسی کو لے آیا، لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی وہ روشنا کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اچھی بھلی ہو چکی تھی اور آرام سے چارپائی پر بیٹھی تھی۔ روشنا، سنیاسی جی کو دیکھتے ہی بولی: ''بنتو! میں اب ٹھیک ہوں۔ سنیاسی جی کو تو نے کیوں تکلیف دی ہے؟'' وہ چارپائی سے اٹھی اور سنیاسی جی کو چارپائی پر بٹھا کر بولی: ''سرکار! بنتو تو ذرا سی بات پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ آپ بیٹھئے میں آپ کے لیے دودھ لاتی ہوں۔'' بنتو، روشنا میں یکایک یہ تبدیلی دیکھ کر ٹھٹک گیا اور اسے باوا جی نہال شاہ کی باتیں یاد آنے لگیں، مگر وہ خاموش ہی رہا۔
روشنا نے سنیاسی جی کی دودھ سے سیوا کی اور ان کے جاتے ہی اس کے تیور بدلنے لگے۔
''بنتو! تجھے مجھ سے پریم نہیں، اگر تو سچا ہوتا تو میری یہ حالت نہ ہوتی۔''
''لیکن… بھلی مانس، میں نے کیا کیا ہے؟'' وہ روشنا کے تیور دیکھ کر ایسا گھبرا گیا کہ اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔
''اچھا تو تجھے اس چوٹی والے چلہ باز نے ورغلایا ہے اور تو اپنی روشنا سے دھوکا کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔'' روشنا تلخی سے بولی۔