تابوت کا قیدی
چلتے چلتے میاں جی نے گھمبیر لہجے میں مجھے ایک بار پھر سمجھایا تھا۔
''ناگی پتر! تیرا علم ابھی کچا ہے۔ تو ضد کرکے جا تو رہا ہے لیکن میرے بچے ذرا پائوں جما کر رہنا۔ حرامزادی پچھل پیری ہے۔ وہ کسی روپ میں تمہارے سامنے اور پیچھے سے تجھے دھوکہ دے سکتی ہے۔ اس کا بھروسہ نہ کرنا ……اور ہاں۔ میں نے تجھے جس جگہ پر بیٹھنے کو کہا ہے وہیں پر بیٹھنا۔ اللہ جنت نصیب کرے۔ تیرے دادا بھی وہاں بیٹھ کر چلہ کاٹا کرتے تھے ……''
استاد مراد نے بھی مجھے کہا تھا۔
''مجھے ساتھ لے چلو۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔''
مگر میں نے دونوں کی نہیں سنی تھی۔
یہ رات بڑی قہرناک تھی۔ پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ رات آخری پہر میں داخل ہو رہی تھی۔ میں ابھی میانی صاحب سے ایک کوس دور ہی تھا جب رات کے سناٹے میں میرے دل و دماغ پر خوف کے پہرے بیٹھنے لگے تھے۔ مگر میں زیر لب وظائف کی گردان کئے آگے ہی آگے اس سیل رواں کی طرح بڑھ رہا تھا۔ جو اپنی آتش سے بپھرا ہوا ہو تو راستے میں حائل ساری رکاوٹیں بہا لے جاتا ہے۔ قبرستان سے جھینگروں اور کتوں کے شور سے ماحول میں کہرام سا مچا ہوا تھا …… اور کچھ یہی عالم میرے اندر بھی برپا تھا۔ میں آج جس غرض سے میانی صاحب میں چوکی لگانے جا رہا تھا اس پر میری زندگی کا دارومدار تھا۔ اپنے انتقام کی آگ بجھانے اور اس خرافہ بدروح سے معصوم جانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنے جیون کا ایک نیا کھیل کھیلنے کے لئے آگ کے اس دریا میں کودنے جا رہا تھا جس نے میرے ہنستے بستے آشیانے کی خوشیوں کو اپنی ظالم لہروں میں لے کر غرق کر دیا تھا۔
میری زبان پر وظائف تھے اور دل و دماغ میں کہرام سا برپا تھا۔ یادوں کی ایک یورش تھی جو میرے اندر کے جوالا مکھی کو باہر اگلنے کے لئے بے تاب تھی۔ میں خدا سے اس توفیق کی دعا مانگ رہا تھا کہ جس کی مدد سے میں اس ظالم بدروح کو جہنم واصل کر سکتا تھا۔ میں جین مندر سے بہت آ گئے نکل گیا۔ اس زمانے میں لاہور کی یہ آبادی اتنی گنجان نہیں تھی۔ چوبرجی کشادہ اور ویران علاقہ تھا۔ میرے بائیں طرف مزنگ کی آبادی تھی۔ میں جوں جوں وہاں سے گزر رہا تھا' رات کے مہیب سیاہ اندھیروں میں بہت سے نادیدہ وجود لہراتے ہوئے' ناچتے ہوئے دکھائی دینے لگے تھے۔ مجھے لگا جیسے وہ خرافہ میرے استقبال کے لئے جشن کا اہتمام کر رہی ہے۔ فضا میں منحوس جانوروں کی کربناک چیخیں گونج رہی تھیں تو اندھیروں میں لپٹے بہیمانہ وجود بھوکی نظروں سے مجھے گھور رہے تھے۔ میں نے اپنا خیال فوراً وظائف پر مرکوز کر دیا اور دل و دماغ کو یکسوئی کے ساتھ وظائف کے زیر اثر کر دیا۔
میں جب میانی صاحب کی خستہ حال قبروں کے پاس پہنچا تو میرا پورا بدن پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ میں نے صبح ہی اس جگہ کا تعین کر لیا تھا جہاں مجھے بیٹھنا تھا۔ میں چوبرجی اور مزنگ کے درمیان واقع میانی صاحب کی گھاٹی پر پہنچ کر برگد کے اس صدیوں پرانے شجر ظلمت کے نیچے بیٹھ گیا یہاں نہ جانے کتنے عاملوں نے چوکیاں لگا کر خانماں برباد بدروحوں کو جہنم واصل کیا تھا۔ یہ جوگیوں کا استھان بھی تھا۔ عیسائی اور ہندو عامل عموماً یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ میاں جی نے مجھے اس برگد کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا کہ اس پر عیسائی جنات کی ایک پکھی (قبیلہ) بھی رہتی ہے اور کئی بدروحوں کو جلا کر ان کی راکھ اس کہنہ سال آسیبی درخت کے تنے میں دفن ہے۔
برگد کے پاس سرسوں کا ایک بڑا سا دیا روشن تھا جس کی ملگجی روشنی نے مہیب گھنے آسیبی درخت کا ماحول انتہائی پراسرار بنا دیا تھا۔ برگد کی شاخیں ناگوں کی طرح لہرا رہی تھیں۔ میں نے چٹائی اس دئیے کے پاس بچھائی اور انگیٹھی نکال کر سامنے رکھ لی۔ پھر میںنے چٹائی اور انگیٹھی کے گرد حصار باندھا اور پورے اطمینان کے بعد چوکی کا سامان نکالنے لگا۔