عملیات کی دنیا از عمران ناگی

راجہ صاحب

محفلین
تابوت کا قیدی


چلتے چلتے میاں جی نے گھمبیر لہجے میں مجھے ایک بار پھر سمجھایا تھا۔
''ناگی پتر! تیرا علم ابھی کچا ہے۔ تو ضد کرکے جا تو رہا ہے لیکن میرے بچے ذرا پائوں جما کر رہنا۔ حرامزادی پچھل پیری ہے۔ وہ کسی روپ میں تمہارے سامنے اور پیچھے سے تجھے دھوکہ دے سکتی ہے۔ اس کا بھروسہ نہ کرنا ……اور ہاں۔ میں نے تجھے جس جگہ پر بیٹھنے کو کہا ہے وہیں پر بیٹھنا۔ اللہ جنت نصیب کرے۔ تیرے دادا بھی وہاں بیٹھ کر چلہ کاٹا کرتے تھے ……''
استاد مراد نے بھی مجھے کہا تھا۔
''مجھے ساتھ لے چلو۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔''
مگر میں نے دونوں کی نہیں سنی تھی۔
یہ رات بڑی قہرناک تھی۔ پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ رات آخری پہر میں داخل ہو رہی تھی۔ میں ابھی میانی صاحب سے ایک کوس دور ہی تھا جب رات کے سناٹے میں میرے دل و دماغ پر خوف کے پہرے بیٹھنے لگے تھے۔ مگر میں زیر لب وظائف کی گردان کئے آگے ہی آگے اس سیل رواں کی طرح بڑھ رہا تھا۔ جو اپنی آتش سے بپھرا ہوا ہو تو راستے میں حائل ساری رکاوٹیں بہا لے جاتا ہے۔ قبرستان سے جھینگروں اور کتوں کے شور سے ماحول میں کہرام سا مچا ہوا تھا …… اور کچھ یہی عالم میرے اندر بھی برپا تھا۔ میں آج جس غرض سے میانی صاحب میں چوکی لگانے جا رہا تھا اس پر میری زندگی کا دارومدار تھا۔ اپنے انتقام کی آگ بجھانے اور اس خرافہ بدروح سے معصوم جانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنے جیون کا ایک نیا کھیل کھیلنے کے لئے آگ کے اس دریا میں کودنے جا رہا تھا جس نے میرے ہنستے بستے آشیانے کی خوشیوں کو اپنی ظالم لہروں میں لے کر غرق کر دیا تھا۔
میری زبان پر وظائف تھے اور دل و دماغ میں کہرام سا برپا تھا۔ یادوں کی ایک یورش تھی جو میرے اندر کے جوالا مکھی کو باہر اگلنے کے لئے بے تاب تھی۔ میں خدا سے اس توفیق کی دعا مانگ رہا تھا کہ جس کی مدد سے میں اس ظالم بدروح کو جہنم واصل کر سکتا تھا۔ میں جین مندر سے بہت آ گئے نکل گیا۔ اس زمانے میں لاہور کی یہ آبادی اتنی گنجان نہیں تھی۔ چوبرجی کشادہ اور ویران علاقہ تھا۔ میرے بائیں طرف مزنگ کی آبادی تھی۔ میں جوں جوں وہاں سے گزر رہا تھا' رات کے مہیب سیاہ اندھیروں میں بہت سے نادیدہ وجود لہراتے ہوئے' ناچتے ہوئے دکھائی دینے لگے تھے۔ مجھے لگا جیسے وہ خرافہ میرے استقبال کے لئے جشن کا اہتمام کر رہی ہے۔ فضا میں منحوس جانوروں کی کربناک چیخیں گونج رہی تھیں تو اندھیروں میں لپٹے بہیمانہ وجود بھوکی نظروں سے مجھے گھور رہے تھے۔ میں نے اپنا خیال فوراً وظائف پر مرکوز کر دیا اور دل و دماغ کو یکسوئی کے ساتھ وظائف کے زیر اثر کر دیا۔
میں جب میانی صاحب کی خستہ حال قبروں کے پاس پہنچا تو میرا پورا بدن پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ میں نے صبح ہی اس جگہ کا تعین کر لیا تھا جہاں مجھے بیٹھنا تھا۔ میں چوبرجی اور مزنگ کے درمیان واقع میانی صاحب کی گھاٹی پر پہنچ کر برگد کے اس صدیوں پرانے شجر ظلمت کے نیچے بیٹھ گیا یہاں نہ جانے کتنے عاملوں نے چوکیاں لگا کر خانماں برباد بدروحوں کو جہنم واصل کیا تھا۔ یہ جوگیوں کا استھان بھی تھا۔ عیسائی اور ہندو عامل عموماً یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ میاں جی نے مجھے اس برگد کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا کہ اس پر عیسائی جنات کی ایک پکھی (قبیلہ) بھی رہتی ہے اور کئی بدروحوں کو جلا کر ان کی راکھ اس کہنہ سال آسیبی درخت کے تنے میں دفن ہے۔
برگد کے پاس سرسوں کا ایک بڑا سا دیا روشن تھا جس کی ملگجی روشنی نے مہیب گھنے آسیبی درخت کا ماحول انتہائی پراسرار بنا دیا تھا۔ برگد کی شاخیں ناگوں کی طرح لہرا رہی تھیں۔ میں نے چٹائی اس دئیے کے پاس بچھائی اور انگیٹھی نکال کر سامنے رکھ لی۔ پھر میںنے چٹائی اور انگیٹھی کے گرد حصار باندھا اور پورے اطمینان کے بعد چوکی کا سامان نکالنے لگا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
میں نے 125منکوں والی سیاہ تسبیح نکالی اور انگیٹھی کے سلگتے خوشبودار سحرسوز دھوئیں پر نظریں جما کر پڑھائی کرنے لگا۔ ابھی میں نے پہلی تسبیح مکمل نہ کی تھی کہ برگد کے درخت پر جیسے بھونچال آ گیا۔ مجھے لگا جیسے بہت سارے پرندے درخت کے پتوں میں جان کنی کے عالم میں پھڑپھڑا رہے ہیں اور برگد کی آسیبی دنیا ان پرندوں کو نگل رہی ہے اور ہر ذی حس پر موت کمندیں ڈال رہی ہے۔
شاخیں جہنمی شعلوں کی طرح دیوانہ وار میرے اردگرد لہرانے لگی تھیں اور عیسائی جنات کی پوری پکھی پر مرگ ناگہانی طاری ہو گئی تھی۔ میرے سر کے اوپر اس قدر قیامت خیز شور تھا کہ برگد کا پور استھان اس پہاڑ کی طرح لرزنے لگا تھا جس کی پاتال میں آتش فشاں ابلنے لگتا ہے تو اس پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اگر یہی عالم رہا تویہ استھان پھٹے گا اور میں اپنے حصار سمیت اس میں غرق ہو جائوں گا۔ ایک لمحہ کے لئے میری رگ رگ میں خوف اتر گیا۔ اگرچہ میں اس سے پہلے بھی کچھ خطرناک چلے کاٹ چکا تھا اور خوف مجھ پر کبھی غالب نہیں آیا تھا مگر وہ لمحے بڑے پرآشوب اور جاں گسل تھے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے اندر آرا چل رہا ہے اور اعضائے قلب کو اپنے کھرنڈ دندانوں سے کاٹ رہا ہے۔ بے حد اذیت اور خوف کی صلیب پر میرا بدن لٹکا ہوا تھا۔ اس کے باوجود میں اپنے ذہن کو خوف کی دہلیز پار نہیں کرنے دے رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ذرا سی لغزش مجھے تباہ کر دے گا۔ جلالی عملیات کی آگ مجھے روئی کی مانند جلا کر راکھ کر دے گااور میں اک شعلہ بے آسرا کی طرح بجھ جائوں گا یہ میرے مضبوط اعصاب کی آزمائش کا وقت تھا اور مجھے بہت سے خوفناک قاتل لمحوں کو سرنگوں کرنا تھا۔ مجھے اس خرافہ بدروح کو تسخیر کرکے عبرتناک موت سے ہمکنار کرنا تھا۔جو میری خوشیوں کی قاتل تھی۔ جس نے میرے ارمانوں کا خون کیا تھا۔ میرے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا تھا۔ اور جو میرے بچوں کی قاتل تھی ……۔ پس مجھے اس امتحان سے سرخرو ہونا تھا۔
برگد کے استھان پر کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد برگد کے مکینوں کا شور کم ہوے لگا تھا۔ جوں جوں میرا عمل تیز ہو رہا تھا۔ استھان کا لرزہ بڑھتا جا رہا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد مجھے احساس ہوا جیسے کوئی بھاری بھرکم وجود دھپ دھپ کرتا ہوا میری طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پورے ماحول میں کافور کی ملی جلی ناگوار سی بو پھیل گئی اور پوری فضا پر بوجھل پن سا طاری ہو گیا۔ مجھے جیسے انہی لمحات کا انتظار تھا۔ میری پڑھائی کا تیر ٹھیک بیٹھا تھا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں تو اس کے ساتھ ہی استھان کی کپکپاہٹ بھی رک گئی۔ انگیٹھی کا دھواں ایک دبیز سی چادر کی طرح میرے اردگرد پھیل گیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھیں سماعت کی راہنمائی میں اس جانب مرکوز کرکے پڑھائی شوع کر دی جدھر سے وہ وجود ناگہاں آ رہا تھا۔
''حاضر ہو جا …… آجا …… آگے اور آگے ……'' میری بوجھل اور قہر میں غرقاں آواز گونجی۔ مجھے لگا جیسے میرے اندر سے کوئی اور ہی بول رہا ہے۔ مجھے اپنا آپ اجنبی سا لگا۔ میں نے پڑھائی کے دوران دوبار یہ جملہ بولا تھا۔ پھر ایک دو ثانیے بعد ہی دبیز دھوئیں میں کفن بردار ایک طویل القامت وجود سر پر تابوت اٹھائے ہوئے میری طرف بڑھ آیا۔ وہ جیسے بہت لمبی مسافتیں طے کرکے آیا تھا' بری طرح کانپ رہا تھا۔ اس کی بوجھل اور گھمبیر آواز سے استھان کے ماحول پر سنسناہٹ دوڑ گئی۔ وہ حصار سے باہر انگیٹھی کے سامنے آ کے رک گیا۔ تابوت حصار کے باہر رکھ کر اور دونوں ہاتھ باند ھ کر بڑبڑایا۔
''آقا میرے لئے کیا حکم ہے؟''
''اپنا حصہ لے اور چلا جا……''
میں نے سخت لہجے میں کہا اور پھر تھیلے میں سے سات دالوں سے بنا ہواپتلا اس کی جانب پھینک دیا۔ وہ ندیدوں کی جھپٹا اور غائب ہو گیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
میں جلدی سے اٹھا اور آسمان کی طرف دیکھا۔ نو چندی رات اپنے جوبن پر تھی۔ میری سماعتوں اور بصارتوں کی بندشیں کھل گئی تھیں۔ میں اب کائنات اسرارمیں سرگرداں مخفی مخلوق کو دیکھ سکتا تھا۔ ہوائی مخلوق آسمان پر چہلیں کرتی گھوم پھر رہی تھی۔ میں نے مخصوص عمل پڑھااور پھر تابوت کو حصار کے اندر کھینچ کر تابوت کا ڈھکن کھول دیا پھر میں نے تابوت میں دفن ہونے سے پہلے آخری بار پڑھائی کی اور وظیفہ پڑھتے ہوئے ماش کے دانے تابوت کے چاروں طرف پھیلا دئیے تھے۔ مشک بور کا چھڑکائو بھی کر دیا تھا۔ تابوت والی جگہ کو اگر کی خوشبو سے مہکا دیا اور میں دم بخود سا خود سپردگی کے انداز میں موت کے تابوت میں لیٹ گیا اور زیر لب اس قاتلہ کی حاضری کے لئے وظیفہ پڑھنے لگا۔ تابوت میں موت کا سکون اور گھپ اندھیرا تھا۔ ہوا کا ایک جھونکا بھی داخل نہیں ہو رہا تھا لیکن عجیب بات تھی کہ مجھے آکسیجن کی کمی کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ ایک عجیب سی مسرور کن خوشبو میرے ذہن پر مسلط ہو رہی تھی اور رگ و پے میں لذت آمیز سنسنی پھیل رہی تھی۔ میری سماعت اور ذہن میں انتظار کی گھڑیاں بج رہی تھیں۔
''ٹھک … ٹھک… ٹھک……'' دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجھے لگا کہ میں جہان اسرار میں کھو گیا ہوں۔ میری آنکھیں تو پہلے ہی بند تھیں۔ لیکن اعصاب کی ساری حسیات بیدار تھیں اور کسی متوقع خطرے کے گلے ملنے کے لئے مجھے تیار کیا جا رہا تھا۔ مشک بو کی مہک تیز رفتار ہوا کے جھونکوں کی مانند تابوت میں گردش کر رہی تھی۔ لمحے سرک رہے تھے۔ دل کی دھڑکن کی صدا آہستہ آہستہ دور ہوتی جا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آواز معدوم ہو رہی ہے اور میرا بدن خوشبوئوں کا غبار بن کر گہرائیوں میں گر رہا ہے۔ مجھے چلہ کے تقاضوں کے مطابق کسی قسم کے خوف میں مبتلا نہیںہونا تھا اور نہ ہی حرکت کرنی تھی۔
یہ خود سپردگی کا عمل تھا۔
میں خواب و خیال کی دنیا میں اتر گیا تھا۔ میرے ذہن سے تاریکی کی چادر سرک گئی تھی اور کھلا آسماں اپنی تابناکیوں اور رفعتوں کے ساتھ پھیلا ہوا نظر آیا۔ پوری کائنات کے اسرار کے قفل جیسے کھل گئے تھے۔ میںفضائوں میں تیر رہا تھا مگر پڑھائی کا عمل پھر بھی نہیں رکا تھا۔ ایک خودکار طریقے سے ہی ایک طرف کو بڑھ رہا تھا۔ میں جدھر سے بھی گزرتا ہوائی مخلوق کے بدوضع' بدصورت وجود حیرت و استعجاب سے میری طرف دیکھتے لیکن میرے براق وجود کی روشنیاں انہیں مجھ سے دور کر دیتیں۔ ایک دو بار کچھ شوریدہ سر اور شرارتی وجود مجھے چھونے اور ڈرانے کی خاطر میری طرف لپکے بھی تھے مگر جونہی وہ میرے براق کی لہراتی طلسماتی روشنیوں کے قریب آئے ان پر ان گنت سے شہاب گرے اور وہ عبرتناک چیخیں مار کر لمحہ بھر میں راکھ ہو گئے تھے۔
تاحد نظر ارض و سما کی وسعتیں جلوہ فگن تھیں۔ میں فضائوں کے سینے سے اترتا ہوا ایکجانب کو بڑھنے لگا تو اسی لمحے نو چندی رات کا شباب اترنے لگا جس سے پورے ماحول میں بے چینی و بے قراری بڑھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ جدھر کو مجھے لے جایا جا رہا تھا… دور بہت دور ایک کھنڈر نما عمارت ہے جس پر سونے کا کلس نمایاں ہے' کسی غمزدہ بیوہ کی طرح اداس نظر آ رہا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد نادیدہ راہنما قوتیں مجھے اس کھنڈر میں لے گئیں۔ میں قریب پہنچا تو یہ ایک مندر کی عمارت تھی جس پر کائی اور مکڑیوں کے جالے جال کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ مندر سے باہر انسانوں کی کھوپڑیاں اور ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ مندر کی عمارت ناگوار بو میں سانسیں لے رہی تھی۔ میں مندر کے بڑے سے دروازے کے سامنے اترا تو دروازہ بے آواز صدا کے ساتھ دھیرے دھیرے کھل گیا اور ناگوار بو کا بھبکا باہر کو نکلا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
میں دروازے کے اندر داخل ہوا۔ گہرے نارنجی رنگ کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ میں جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا دھوئیں میں میرا راستہ بنتا جا رہا تھا اور میں ایک بڑے سے کمرے کے اندر پہنچ گیا۔
کمرے کا ماحول دیکھ کر میرے لبوں پر زہرناک مسکراہٹ تیر گئی۔ مندر کی ناگوار فضائوں کے برعکس کمرے کا ماحول نہایت خوشبودار احساس لئے ہوئے تھا اور نہایت آراستہ پھولوں سے سجا ہوا کمرہ … ایک بڑی سی مسہری' ریشمی پردے جس کے چاروں طرف لہرا رہے تھے۔ میٹھے میٹھے سروں میں گھنٹیاں بجنے لگیں' بے خود کر دینے والا ماحول تھا۔ میں دروازے کے درمیان کھڑا ہو گیا تو مسہری کے پردے بے تابی سے والہانہ انداز میں پھیل گئے اور ایک کمال نازاں و جمال صفت دوشیزہ مہین لباس میں لپٹی ہوئی مسہری پر بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت انگیز ہوس آمیز چمک تھیں۔
''ٹھہر کیوں گئے ہو۔ آگے آجائو ……'' وہ بولی تو فضا میں ترنم جاگ اٹھا۔
میں آگے بڑھا۔ میری چال میں تفاخر اور خمار تھا۔ زبان اس کے جلوہ حسن کے آگے گنگ ہو گئی تھی۔ اس وقت مجھے گماں ہوا کہ میں جس کی تلاش میں آیا ہوں یہ وہ نہیں ہے۔ پدمنی تو نفرت و کراہت کا ملغوبہ۔ ایک ایسی بدروح ہے جس کو دیکھتے ہی گھن آتی ہے۔ مگر یہ شفاف شبنموں جیسی میٹھی دوشیزہ کون ہے؟ شاید مخفی قوتوں نے اس مہربان وجود کو میری مدد کے لئے بھیجا ہے۔
وہ انگڑائی لیکر اٹھی تو اس کے ریشمی بدن کی پوروں میں آتش جوانی سے تلاطم برپا ہو گیا۔ اس کا ہر عضو بے باک ہو گیا۔ اتنی مکمل عورت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔وہ کسی مصور کی خیالی تصویروں جیسی تھی۔ اس کو دیکھ کر زاہد بھی کفر کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں خود فراموشی کے عالم میں کھو گیا۔ اس نازنیںپری جمال اپسرانے میرے پورے بدن کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ میں دم بخود حیرت سے اس مجسمہ فطرت کو دیکھ رہا تھا۔
''آئو میرے ہمدم آگے بڑھو۔ میں کب سے تمہارے انتظار میں پیاسی بیٹھی ہوں۔''
اس کی آواز جذبات سے مغلوب ہو رہی تھی اور وہ جل پری کی طرح مخملی مسہری پر بے قراری سے پہلو بدلنے لگی۔
میں کسی سحرزدہ موکل کی طرح مسہری کے پاس پہنچا تو میری رگوں میں آتش لہو بھڑکنے لگی۔ اس نے نرم گداز شیر و شہد میں گندھا ہوا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس کا ہاتھ بے اختیاری سے تھام لیا۔ اس نے سسکاری بھری تو آگ نفس میرے بدن کو یوں جلانے لگی جیسے آگ سے بھڑکتے تندور کے پاس موم رکھ دیا جائے تو وہ پگھل کر مائع ہو جاتا ہے۔ اس نے میرا ہاتھ تھاما تو میرا پورا بدن موم کی طرح پگھل گیا۔ وہ اٹھی اپنا چہرہ میرے قریب لا کر بولی ''تم اتنے برسوں سے کہاں تھے۔''
میں خاموش کسی بت کی طرح اس کا تمازت بھرا چہرہ دیکھتا رہا۔
اس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے گداز مخروطی ہاتھوں میں تھام لئے اور انہیں اپنی تپتی آنکھوں پر لگا کر بولی۔
''یہ آنکھیں وصل ہجر میں سلگ سلگ کر موم ہو گئی ہیں۔'' اس کی آنکھوں سے موتیوں جیسے آنسو گرے اور میرے ہاتھوں میں جذب ہو گئے۔ میرا دل بے اختیار ہو گیا۔
''میں اب آ گیا ہوں نا''
میرے لبوں سے نکلا
 

راجہ صاحب

محفلین
''اب مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائو گے۔''
وہ اپنے قریب کر کے بے تابی سے پوچھنے لگی۔
نہ جانے اس وقت کیا ہوا کہ میں موم کی طرح اس کی قربت میں پگھلتا چلا گیا۔ میرا نفس بہک گیا اور مجھے کچھ ہوش نہ رہا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے تو اس وقت ہوش آیا تھا جب حسن آتش رواں نے مجھے پانی پانی کرکے میری روح کو آب گناہ میں غرق کر دیا تھا۔
پس اس وقت جب میں گناہ وندامت کی دلدل میں ڈبکیاں کھا رہا تھا' وہ دلفریب حسن اپنی حقیقت کے ساتھ آشکار ہو گیا اور اس نے بے حد و بے حساب بلند قہقہہ لگایا۔ میں جیسے ہوش میں آگیا اور چونک کر اس کی جانب دیکھا تو مجھ پر لرزا طاری ہو گیا۔ مسہری پر میں جس کے قرب وصل کی آگ سے موم ہو گیا تھا اب اس کا جہنمی پیرہن عیاں ہو گیا تھا۔ کچھ لمحے پہلے جس کے حسن دلفریب نے میرے قلب و نظر کو بدگماں کرکے مغلوب کر لیا تھا اب اپنے مکروہ خدوخال کے ساتھ نمایاں ہو گیا تھا۔ وہ مسہری پر ایک سراپۂ نفرت اپنی قہرسامانیوں حقارتوں کے نشہ میں مغرور ہوئے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ اس کا مکروہ چہرہ میرے سامنے مکڑی کے جالے کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ خوشبوئوں کی بجائے تعفن آمیز بو کا احساس بڑھ گیاتھا۔
وہ سراپۂ آگ' نفرت و جلال کا روپ پدمنی مجھے دغا دے گئی تھی۔ مجھے بات ہو گئی تھی۔ میں اپنے چلے کی ریاضتوں کے انبار تلے دب گیا تھا۔
پدمنی فتح سے چور تھی۔ وہ کسی فاتح درندے کی طرح ڈکرائی اور بولی
''میں نے تیری شکتی' تیرا مان' تیرا گیان اور تیرا استھان پلید کر دیا' تباہ کر دیا' تجھے برباد کر دیا ہے۔ ہا …ہا… ہا…ہا… ''۔اس کا قہر و نفرت کی مستی میں ڈوبا قہقہہ مجھے ذلت ناک شکست سے دوچار کر گیا تھا۔ میں نے بے بسی کے عالم میں خود کو مجتمع کرنے کی کوشش کی اور اس کے بال اپنی مٹھی میں جکڑنے لگا۔ لیکن اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا اور میں مسہری سے نیچے گر گیا۔
میری حیثیت برفیلی سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اس نومولود بچے کی سی ہو گئی تھی جس کے اوپر سے بھاری لحاف اتار کر بے دردی سے باہر پھینک دیا جائے۔ ندامت اور شرمندگی کی لہر نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا اور پھر میں نے اپنی حیثیت کا ادراک کرتے ہی اس قاتلہ کی جانب دیکھا جو اپنے خبیث باطن کی خباثتوں کے ساتھ میرے سر پر کھڑی تھی۔
''پدمنی میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا''۔ میں ہانپتا کانپتا ہوا بولا تو اس نے استہزائی قہقہہ لگایا اور پھر نفرت سے بھرپور نگاہ مجھ پر ڈالی اور بولی۔
''اب تو مجھے کوئی نہیں مار سکے گا۔ نہال شاہ کی پوری نسل بھی مجھے مارنے پر لگ جائے تو میں اس کے ہاتھ نہ آسکوں گی''۔
پدمنی دو قدم پیچھے ہٹ کر نفرت سے دہاڑی۔ ''میں تجھے واپس بھیج رہی ہوں۔ تمہیں عبرت کی تصویر بنا کر۔ جائو اور اپنے میاں جی اور اس کالے نامراد سے کہو۔ وہ تمہیں ایسا گیانی بنا دیں۔ ایسا علم سکھادیں جو پدمنی کو جلا کر راکھ کر سکے۔ جائو اور اس لمحے کا انتظار کرو جب میں دوبارہ تیری خوشیاں چھیننے آئوں گی۔ اب میں ہر کالی منگل کو تیرے پاس آیا کروں گی اور تم میری پیاسی اور سلگتی آتما کی آگ بجھایا کرو گے۔ آج پدمنی نے صدیوں بعد ایک منش کے وجود سے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے ۔ جس کی تمنا میں وہ جل کر مر گئی۔ سنو جانے سے پہلے یہ سنتے جائو کہ تمہارے بابا نہال شاہ نے اگر مجھے میرے بدن کو چھو لیا ہوتا اورمجھ سے بیاہ رچا لیا ہوتا تو میں اس کے عوض تمہارے خاندان کی رکھشا کرتی''۔
 

راجہ صاحب

محفلین
''پدمنی تو جھوٹ بولتی ہے۔ میرے باوا جی سرکار نے تجھے اس وقت بخش دیا تھا جب تو ان کی موت بن کر ان پر نازل ہوئی تھی۔ لیکن انہوں نے تمہارے ساتھ رحمدلی کا سلوک کیا۔ تو نے ان سے علم سیکھنے کی بھیک مانگی اور انہوں نے تجھے نہ صرف پناہ دی بلکہ علم سکھانے شروع کئے۔ اے ظالم بدروح تو اپنی شرارتوں اور شیطانیوں کے باعث باوا جی کی نظروں میں گر گئی تھی تو اپنی آگ میں خود جل گئی اور اس کا الزام باوا جی کو دیتی ہے۔ تو نے میرے خاندان کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا ہے۔ میرے بچوں کو تو نے مار ڈالا اے ظالم… تو نے معصوم سندھ کو برباد کر دیا۔خدا کی قسم میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ایک دن تجھے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا تو تجھے ذلت کی موت ماروں گا۔''
پدمنی میری بات پر قہقہے لگاتی رہی۔ میری باتوں کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
میں نے اپنی قوتوں کو یکجا کر کے اپنے وجود پر نظر ڈالی تو مجھے اپنی پور پور میں پدمنی کی غلاظت بکھری ہوئی نظر آئی۔ ظالم نے اپنی صدیوں کی پیاس بجھانے کے لئے مجھے بھرپور استعمال کیا تھا۔ میں اپنی قوتوں کو یکجا نہ کر سکا۔ میرے نورانی علوم کی طاقتیں ناراض ہو گئی تھیں۔ پدمنی اپنی خوابگاہ میں فاتح کی طرح تن کر کھڑی تھی اور میں فرش پر بکھرا پڑا تھا۔ میری روح اپنی کم مائیگی پر بلک رہی تھی۔ مجھے یہ احساس کوڑے مارنے لگا تھا کہ میں نے میاں جی کی ہدایات پر عمل کیوں نہیں کیا تھا۔ انہوں نے تو مجھے واضح بتادیا تھا کہ دیکھ پتر پدمنی نہ جانے کس روپ میں تیرے سامنے آئے اور تو اس سے دغا کھا جائے۔ اگر تو اس بار اس کے دھوکے میں آ گیا تو تجھے بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ میں نے میاں جی کی نصیحت کو اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے فراموش کر دیا تھا اور اب پدمنی کے رحم و کرم پر بیٹھا بلک رہا تھا۔
نہ جانے میں کب تک شرمندگی کی آگ میں جلتا رہتا کہ اچانک مجھے پدمنی کی بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے چہرے پر اذیت ناک کھچائو اور گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔ اسی لمحہ ایک نورانی ہیولہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبی سی چھڑی تھی جس کی نوک سے آگ کا شعلہ نکل رہا تھا۔ ہیولے نے چھڑی کی نوک پدمنی کی طرف کی تو پدمنی نے دلخراش چیخ ماری۔
''اشرف میاں۔ اگر تو نے مجھے جلایا تو میں تیرے ناگی کو مار ڈالوں گی۔''پدمنی نے کربناک آواز میں کہا تو ہیولے نے چھڑی فضا میں روک لی اور اس کا رخ اوپر کر دیا ۔ پھر ایک بھاری بھر کم آواز گونجی۔
''بدبخت تو نے اس کو اپنی غلاظت کے جال میں پھانس لیا ہے۔ آج میں تجھے جانے دے رہا ہوں صرف اس کی زندگی کی خاطر۔ پھر دوبارہ کبھی اس کو تنگ کیا تو اسی وقت جلا کر راکھ کر دوں گا''۔
 

راجہ صاحب

محفلین
ہیولے کی آواز میں اسقدر دبدبہ تھا کہ پدمنی جھرجھری لیکر رہ گئی اور آناً فاناً نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
بس مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کے بعد ہیولہ میری طرف بڑھاتھا۔ اس نے چھری میری طرف بڑھائی تو میرے ذہن کو زور دار جھٹکا آیا۔ یوں لگا جیسے میرا وجود غلاظت سے باہر نکل آیا ہو۔ میں زوردار چیخ مار کر اٹھا تو میرا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔
''میاں جی…'' میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے گرد گھپ اندھیرا تھا اور میرا پورا بدن مردے کی طرح تنگ سی جگہ پر اکڑا پڑا تھا۔ مانوس خوشبوئیں میرے گرد ہنوز پھیلی ہوئی تھیں۔
اسی لمحہ ڈھک سے میرے اوپر کوئی ڈھکن سا اٹھا تو مجھے یاد آیا کہ میں تو تابوت میں قید ہو کر پڑھائی کر رہا تھا۔ تابوت کا ڈھکن کھلا تو دئیے کی روشنی میں دو وجود کھڑے نظر آئے۔
'' ناگی باہر نکلو۔'' میاں جی کی آواز سنائی دی۔
''لے تو میرا ہاتھ تھام لو'' دوسرا وجود استاد مراد کا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا ۔ تابوت سے باہر نکال کر بولا ۔ ''میرے کاندھے پر ہاتھ رکھو کہیں گر نہ جانا''۔ مجھے بے حد نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔
''شکر کر 'زندہ بچ گیا ہے''۔ میاں جی گھبمیر آواز میں بولے
'' آپ کا شک صحیح نکلا تھا۔ میاں جی'' استاد مراد نے کہا'' اسے بہت سجھایا تھا کہ مجھے ساتھ لے چلو۔ مگر اسے اپنی پراسرار طاقتوں پر بہت گھمنڈ تھا''۔ استاد مراد اور میاں جی مجھے بڑی مشکل سے آستانے پر لے کر آئے تھے۔ سحری کا وقت ہو چلا تھا۔ مجھ سے تو چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ میں نیم بے ہوش تھا۔ انہوں نے مجھے آستانے کے اندر لٹایا اور میرے کپڑے اتار کر میرے بدن پر مختلف عملیاتی تیلوں کی مالش کرنے لگے۔ یہ مانوس سی بو تھی مجھے یاد آیا کہ برسوں پہلے میں نے استاد مراد کو جب اس طرح کے تیلوں سے مالش کراتے دیکھا تھا تو مجھے گھن آنے لگی تھی۔ لیکن آج میرے بدن کو پدمنی کی نحوست سے پاک کرنے کے لئے عملیاتی تیل سے مالش کی جا رہی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ استاد مراد اور میاں جی نے سورج طلوع ہونے تک عملیات اور دھونیوں کے ذریعے میرے ہوش قائم رکھنے کی کوشش کی تھی۔ میاں جی نے استاد مراد سے یہ کہا تھا۔
''سورج پھوٹنے سے پہلے پہلے اس کو ہوش میں لاناہے۔ اگر یہ بے ہوش ہو گیا تو پدمنی کا خوف اس کے ذہن میں پنجے گاڑھ کر بیٹھ جائے گا''۔
 

راجہ صاحب

محفلین
لہذا انہوں نے سورج نکلنے سے پہلے مجھے مکمل ہوش دلا دیا۔ استاد مراد اور میاں جی نے پورا دن مجھے اپنے پاس رکھا اور مجھے عملیات کی پراسرار دنیا کی اونچ نیچ سے آگاہ کرتے رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا۔ ''ناگی یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ اندھے جذبات' غصہ اور بے شعوری سے عامل کو بچنا چاہیے۔ چلہ کے وقت کبھی خلاف علم حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ چھوٹے موٹے علم میں بھی عامل کی گستاخی اور بے پروائی برداشت نہیں ہو سکتی''۔
میں اس رو ز بے حد رنجیدہ بھی تھا اور میر اخون بھی کھول رہا تھا۔ میں نے میاں جی سے صاف صاف کہہ دیا تھا۔ ''میاں جی میں پدمنی کو معاف نہیں کر سکتا۔ وہ میری خوشیوں کی قاتل ہے۔ میں اپنی جان قربان کر کے بھی آنے والی نسلوں کو اس کے قہر سے بچائوں گا''۔
''پہلے تجھے عملیات کی تعلیم مکمل کرنی ہو گی''۔میاں جی نے کہا۔ '' تمہیں علوم پر دسترس ہو گی تو تبھی اس خرافہ کو پکڑنے میں کامیاب ہو سکو گے۔ دیکھو علم تو ہمارے پاس بھی ہے لیکن بعض حالات میں ہماری قوتیں بے بس ہو جاتی ہیں۔'' میاں جی نے اس کی وجوہات سے مجھے آگاہ کیا اور مجھے احساس ہو گیا کہ جب انسان دو کشتیوں کا سوار ہو تو اس کے ڈوب مرنے کا امکان بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت میں کالے علم اور نوری علم سیکھنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ اگر ایک عامل صرف نوری علوم حاصل کرے تو گندی قوتیں اس پر غالب نہیں آ سکتیں۔ کالے اور سفید علوم کے ملغوبہ سے استفادہ کرنے والا عموماً کالی قوتوں سے مات کھا جاتا ہے۔
اس روز میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے اگر ایک بڑا اور کامیاب عامل بننا ہے تو مجھے نوری علوم پر دسترس حاصل کرنا ہو گی۔ میں نے میاں جی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بے حد خوش ہوئے البتہ رنج کے عالم میں کہا '' کاش ہم نے بھی صرف نوری علم سیکھا ہوتا''۔
میں میاں جی کی بات سمجھتا تھا۔ انہوں نے بھی خاندانی روایات کی طرح کالے علم اور نوری علم سے استفادہ کیا تھا۔ اس علم کے باعث ہی بعض اوقات وہ طاقتور کالی قوتوں کو مکمل طور پر شکست نہیں دے سکتے تھے۔
استاد مراد نے میرے فیصلے کو پسند نہیں کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں سفلی اور نوری دونوں علوم سیکھنے کا عمل جاری رکھوں۔ اگرچہ اس وقت تک میں نے کچھ سفلی علوم بھی سیکھ رکھے تھے اور نوری علوم سے بھی راہنمائی لیتا تھا لیکن ایک عامل کامل بننے کے لئے مجھے ایک کشتی پر سوار ہونا تھا۔ میرے سامنے پدمنی کی طاغوتی قوتوں کا ایک کوہ گراں تھا جس کو میں نے گرانا تھا۔ پھر میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آخر ایسی پراسرار قوتیں حاصل کرنے کا کیا فائدہ جس پر عامل کو پوری دسترس نہ ہو۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ دنیا میں صرف نوری طاقتیں ایسی ہیں جنہیں زوال نہیں آسکتا۔ کالے علوم والا تو زندگی بھر عذابوں سے درچار رہتااور ذلتیں اٹھاتا ہے۔
میں نے نوری علوم اور عملیات کی راہ پر چلنے سے پہلے اپنی باطنی غلاظتوں کو دھونے کا فیصلہ کیا۔ میاں جی نے میری بھرپور مدد کی اور مجھے وہ روشن راہیں دکھا دیں جن پر چل کر میں روحانی علوم کا ماہر بن سکتا تھا۔ میں آپ کی اپنی اس آپ بیتی میں ان علوم سے آگاہ کروں گا۔ یہ ایک لمبا صبر آزما اور کھٹن سفر تھا مگر یہ تھا بہت ثمرآور۔ روحانی علوم کے لئے مزید راہنمائی کیلئے میاں جی نے اپنے خاندانی عامل جن طرطوش کو بھی بلایا تھا اور مجھے کئی مہینے تک اس کے سپرد کیا تھا۔ طرطوش کی نگرانی اور سرپرستی میں مجھے عجیب و غریب تجربات سے بھی گذرنا پڑا تھا۔
ٹھہرئیے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ میں جہانِ عملیات کے اسرار بیان کرنے سے پہلے آپ کو اپنا مکمل تعارف کرادوں اور اپنے اس خاندانی پس منظر اور حالات سے آگاہ کردوں جن کی وجہ سے مجھے عملیات کی دنیا میں آنا پڑا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
زمیندار جو عامل بن گیا

انیسویں صدی کے وسط تک ہمارا خاندان ضلع ہوشیار پور کا نامی گرامی زمیندار گھرانہ تھا، مگر اس کی وجاہت اور زمینداری اس وقت زوال پذیر ہو گئی جب سارے خاندان کی باگ دوڑ باوا جی نہال شاہ کے ہاتھ آئی۔ انہیں زمینوں اور گھوڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ آبائی پیشہ جاری نہ رکھ سکے۔ ان کی عدم دلچسپی کے باعث خاندان کا دبدبہ اور اثر و رسوخ قدرے کم پڑ گیا اور شریک برداری نے باوا جی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زمینوں پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔
ہمارے باواجی کو اگر دلچسپی تھی تو صرف علم نجوم اور عملیات سے، میں نہیں جانتا کہ انہیں جوتش سے کیسے دلچسپی پیدا ہوئی مگر یہ ضرور علم ہے کہ انہوں نے بیس سال کی عمر ہی میں ان علوم پر دسترس حاصل کر لی تھی اور ان کے چرچے سن کر نیپال کے شاہ نے انہیں اپنے دربار میں مدعو کیا تھا۔ شاہ نیپال جوتشیوں اور سنیاسیوں کا بہت بڑا قدر دان تھا۔ اس کے دربار میں بڑے بڑے جاگیرداروں کو وہ عزت اور رتبہ نصیب نہ ہوتا جو ایک درمیانے درجے کے جوتشی کو مل جاتا۔ ہمارے باوا جی تو اعلیٰ پائے کے جوتشی تھی۔ انہیں ستاروں کے علم کے علاوہ حکمت اور عملیات پر بھی کامل عبور تھا۔
باوا جی نہال شاہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ انہوں نے حکمت کی تعلیم کسی سے حاصل نہیں کی تھی۔ انہیں جوتش اور عملیات کی بدولت ہی حکمت کا خزانہ ملا تھا۔ ان کے بارے میں یہ روایت نسل در نسل ہم تک پہنچی ہے کہ انہوں نے اپنے عملیات کے زور پر جنات کو بھی اپنا مطیع کر رکھا تھا اور ان میں طرطوش نامی ایک عمر رسیدہ جن بھی تھا جو اپنے قبیلے میں طبیب کی حیثیت رکھتا تھا۔ باواجی کو طب و حکمت کے رموز اور نایاب نسخہ جات کا عمل طرطوش ہی نے سکھایا تھا، اس نے چند ایک نسخے ایسے عطا کیے تھے جو عملیات اور طب کے ملاپ سے تیار کیے جاتے تھے اور انہیں اپنی نسل کو منتقل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
باوا جی کی شہرت ہوشیار پور سے نکل کر دور دور تک پھیل چکی تھی، لیکن ان کا اپنا خاندان انہیں ایک سنیاسی اور سادھو ہی سمجھتا اور اکثر افراد ان کا مذاق اڑاتے تھے، تاہم باواجی اپنی طاقتوں سے پوری طرح آگاہ تھے اور وہ شریک برادری کی باتیں اور طعنے سننے کے باوجود خاموش رہتے تھے۔ انہوں نے شادی بھی نہیں کی تھی، ان کی کوئی بہن تھی نہ بھائی۔ ماں، باپ لڑکپن ہی میں وفات پا گئے تھے، اس لیے وہ دیوانہ حال اپنی دنیا میں رہتے اور کئی کئی ماہ کیلئے گائوں سے باہر چلے جاتے۔ کسی کو ان کے بارے میں علم نہ ہوتا کہ وہ کہاں ہوں گے اور کب آئیں گے۔
ان کی عدم موجودگی میں ان کی برادری نے زمینوں کے علاوہ ان کی خاندانی حویلی پر بھی قبضہ کر لیا، باواجی ان کی یہ تمام حرکات دیکھتے رہے مگر انہیں کچھ نہیں کہا تھا۔
باواجی نہال شاہ نے اکیسویں سال میں قدم رکھا، تو ان کے چلوں اور عملیات کا ایک دور ختم ہو گیا۔ ان دنوں وہ مستقل طور پر اپنی حویلی میں رہنے لگے اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے اپنی زمینوں پر بھی جانا شروع کر دیا۔ برادری کو باوا جی کی یہ تبدیلی ناگوار گزری، مگر کوئی بھی کھل کر ان کے خلاف نہیں بول سکتا تھا، کیوںکہ گائوں کے اصل وارث اور بڑے چودھری تو وہی تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ علم جوتش کے عشق نے انہیں گھر بار سے بیگانہ کر دیا تھا، مگر اب وہ دوبارہ اپنی چودھراہٹ اور خاندانی وراثت کو سنبھالنے کے شائق ہو گئے تھے، لہٰذا وہ تمام لوگ جو ہاتھ آئی مفت کی زمینوں پر پل رہے تھے، اب اندر ہی اندر ان کے خلاف سازشیں کرنے لگے تھے۔ باواجی کو اپنے علوم کے ذریعے ان تمام سازشوں کا علم تھا، لیکن وہ ازخود کسی کو کچھ نہیں کہنا چاہتے تھے۔
ہمارے اس آبائی گائوں کا نام نمولیاں تھا۔ یہ تحصیل گڑھ شنکر کا گائوں تھا۔ نمولیاں کے پہلو میں ایک بڑا سا مٹی کا ٹیلہ تھا جس پر ہندوئوں نے ایک طرف شمشان گھاٹ بنا لیا تھا اوراس کی دوسری جانب مسلمانوں کا قبرستان تھا۔ ہماری حویلی اس ٹیلے سے سو گز کے فاصلے پر سب سے نمایاں تھی اور اس کی چھت پر کھڑے ہو کر گائوں کے ہر گھر میں باآسانی جھانکا جا سکتا تھا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
مٹی کا یہ ٹیلہ بابا لال شہباز کے نام سے مشہور تھا جو ایک صاحب کرامات بزرگ تھے، انہوں نے ایک بار جلتی ہوئی ''پاتھی'' (اوپلا) اپنے تکیے میں دبا دی اور خود کہیں چلے گئے تھے۔ بعد میں کسی نے وہ جگہ کھودی تو وہ جلتی ہوئی پاتھی برآمد ہو گئی، یہ بات سارے گائوں میں پھیل گئی اور اسے بابا لال شہباز کی کرامت سمجھ کر ان کا ٹیلہ بنا دیا گیا۔ قیام پاکستان تک اس پر ہر ہاڑ کی پہلی جمعرات کو میلہ لگتا تھا۔ میلے میں ہندو، سکھ اور مسلمان عقیدتمند آتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے۔
اس بار بھی ہاڑ کی پہلی جمعرات آتے ہی نمولیاں میں لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی۔ باوا جی نہال شاہ ان دنوں اپنی حویلی میں واپس آ چکے تھے اور انہوں نے میلہ سجانے میں پہلی بار دلچسپی لی تھی۔ پرانی روایت کے مطابق، گائوں کا چوہھری میلے کی شروعات کرتا تھا، لیکن اس بار باوا جی گائوں میں موجود تھے، لہٰذا خود انہوں نے خصوصی اعلان کر دیا کہ مزار پر آنے والے زائرین ان کے مہمان ہوں گے اور وہی زائرین کے کھانے کا انتظام کریں گے۔ یہ بات حیرت انگیز بھی تھی اور شریک برادری کے لیے دکھ کا باعث بھی۔ سبھی طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے لگے۔
کسی نے کہا: ''مجھے تو سادھو کے تیور اچھے نہیں لگتے۔ اس کے ہوش واپس آ رہے ہیں، تبھی تو دو تین مہینے سے حویلی میں ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے اور زمینوں پر بھی جا رہا ہے۔''
''اور یہ بھی سنا ہے کہ گائوں کے سارے کمی اس کے پاس پلٹ گئے ہیں۔ اس کے باپ کے نوکر اب دن رات اس کا پہرہ دیتے ہیں۔''
کوئی اور بولا! ''اب کیا ہو گا؟''
ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ ایک جوشیلا بلند قامت اور نہایت کڑیل جوان منصور خان برادری کے سورمائوں اور بزرگوں کے سامنے کھڑا ہو کر سینہ پھلانے لگا: ''سادھو کا سارا سنیاس میں نکالوں گا۔ تم لوگ فکر مت کرو، اب یہ کام میرا ہے، میں اسے گائوں سے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا اور اس کی ہڈیاں توڑ کر رکھ دوں گا۔ وہ دوبارہ ادھر آنے کی جرأت نہیں کرے گا۔''
جمعرات سے ایک دن پہلے ہی دوسرے دیہات کے زائرین نمولیاں آنے لگے۔ باوا جی نے اپنی حویلی کے دروازے کھول دیے تھے۔ زائرین آتے گئے اور حویلی میں شب بسری کے علاوہ انہیں لذیذ کھانا مل رہا تھا۔ سبھی لوگ باواجی کی فیاضی کے معترف ہوئے اور انہیں دعائیں دینے لگے۔ باواجی ان باتوں سے بے نیاز اپنے کمرے میں ساری رات ریاضت کرتے رہے۔ یہ سحری کا وقت تھا، چاند نے افق اور زمین پر اپنا نور پھیلا رکھا تھا۔ باوا جی نہال شاہ حویلی سے باہر نکلے اور اپنی زمینوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ ان کا معمول تھا کہ وہ جس رات چلہ کاٹتے تو سحری ہوتے ہی کھیتوں میں نکل جاتے، اپنے چند خاص عملیات کرتے اور پھر سورج کی پہلی کرن کے نمودار ہوتے ہی حویلی میں لوٹ آتے۔ اس روز بھی وہ حسب معمول کھیتوں میں گئے اور ایک صاف ستھرے کھیت میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنے گرد ایک حلقہ کھینچا اور سر گھٹنوں میں دبائے گرد و پیش سے بیگانہ ہو کر اپنے عمل میں مصروف ہو گئے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی کو یونہی بیٹھے بیٹھے خاصا وقت ہو گیا تھا جب منصور خان ہاتھ میں کلہاڑی اٹھائے وہاں پہنچ گیا۔ اس نے ایک نظر باواجی کو دیکھا جو اپنے آپ میں مست تھے اور پھر اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ دودھیا روشنی میں اسے کوئی ذی روح دکھائی نہ دی۔ ماحول پر عجیب طرح کی خاموشی مسلط تھی۔ دور سے کہیں کتوں کے بھونکنے کی ایک آدھ آواز آ رہی تھی۔ منصور خان دبے پائوں اطمینان کے ساتھ آگے بڑھا، مگر جونہی وہ باوا جی سے تین فٹ کے فاصلے پر پہنچا، کسی غیر مرئی طاقت نے اس کے پائوں جکڑ لیے اور اسے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔
منصور کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا وہ ہر خوف سے بے نیاز تھا، مگر اس لمحے اس کا دل لرز کے رہ گیا۔ اس نے کلہاڑی تان کر باواجی پر وار کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا اور اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ غیر ارادی طور پر پیچھے ہٹا، مگر جونہی اس نے دوبارہ آگے بڑھنا چاہا، تو اس غیر مرئی طاقت نے دوبارہ اسے جکڑ لیا۔ منصور خان نے اس بار آگے بڑھنے کے لیے بہت زور لگایا، مگر پہلے کی طرح پھر ناکام رہا۔ اس نے کلہاڑی زمین پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے انجانی قوت کو آگے دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکا۔
منصور خان پسینے میں شرابور تھا۔ اس نے دیکھا کہ باواجی نہال شاہ اپنے حال میں مست ہیں۔ اس نے بے چارگی سے آسمان کی طرف دیکھا اور زمین سے کلہاڑی اٹھانے کے لیے جھکا تو وہ اپنی جگہ سے غائب تھی۔ وہ دیوانہ وار اسے تلاش کرنے لگا، کلہاڑی اس کی نشانی تھی اور سارا گائوں اس نشانی کو خوب پہچانتا تھا۔ منصور خان کلہاڑی تلاش کر ہی رہا تھا کہ عقب سے باواجی کی آواز سنائی دی: ''منصور خان! کلہاڑی ڈھونڈ رہا ہے کیا؟''
وہ ایک دم پلٹااور باواجی کے ہاتھ میں اپنی کلہاڑی دیکھ کر حیران رہ گیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی دو قدم آگے بڑھے اور منصور خان کی آنکھوں میں اپنی شعلہ نما آنکھیں ڈال کر بولے: ''میں چاہوں تو تیری ہی کلہاڑی سے تیرے ٹکڑے کر دوں، مگر میں خون خرابہ پسند نہیں کرتا اور نہ میں دوسروں کو اس کی اجازت دیتا ہوں۔ لے پکڑ اپنی کلہاڑی اور اسی خاموشی سے گائوں واپس چلا جا جیسے آیا تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ صبح کے اس پر نور اجالے میں سارا گائوں تیرا تماشا دیکھے۔''
منصور خان باواجی کی قہر آلود آنکھوں کی تاب نہ لا سکا۔ اس نے کلہاڑی پکڑ لی اور سر گرا کر مریل قدموں سے پلٹ گیا اور ایک بار بھی اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
باواجی نہال شاہ بھی حویلی واپس آ گئے اور صبح سویرے اپنے ہاتھوں سے زائرین کو کھانا کھلایا اور پھر سب سے پہلے خود ٹیلے پر جا کر بابا لال شہباز کے مزار پر دعا کی۔ اس کے بعد عام زائرین اپنے چڑھاوے چڑھانے کے لیے آتے رہے اور یہ سلسلہ سہ پہر تک جاری رہا۔
اس روز باواجی نے میلے میں ایک نئی روایت ڈالی۔ انہوں نے دور دراز کے دیہات سے آنے والے نوجوانوں کو اپنے گائوں کے نوجوانوں سے کشتی لڑنے کی دعوت دی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان اور سکھ نوجوان ایک ہل چلے ہوئے کھیت میں نکل آئے۔ گائوں کی عورتیں بھی کھیل تماشے دیکھنے وہاں اکٹھی ہو گئیں۔ یہ کشتیاں ہو ہی رہی تھیں کہ منصور خان بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آ گیا اور اچھل اچھل کر بیٹھکیں لگانے لگا۔ گھومتے گھومتے وہ اس جگہ آ پہنچا جہاں باوا جی نہال شاہ بیٹھے تھے۔ وہ باواجی کے سامنے بیٹھکیں لگانے لگا۔ سارا مجمع منصور خان کی اس حرکت پر حیران رہ گیا کیونکہ اس کا یہ انداز مبازرت دراصل باواجی کو مقابلے پر للکار رہا تھا۔ سارا گائوں اور زائرین یہ جانتے تھے کہ باواجی نہال شاہ جواں سال ہونے کے باوجود شہ زور نہیں۔ وہ دبلے پتلے سے تھے، چلوں اور ریاضتوں کی مشقت سے وہ انتہائی نحیف دکھائی دیتے تھے۔
منصور خان نے دراصل یہ شاطرانہ چال چلی تھی کہ گائوں والوں کے سامنے کشتی کی آڑ میں ان کا خاتمہ کر دے گا اور اس پر کوئی لڑنے بھی نہیں آئے گا کیونکہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ باواجی دائو پیچ کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔
باواجی نہال شاہ منصور خان کی شاطرانہ چال سمجھ گئے تھے، لیکن وہ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھے مسکراتے رہے۔ منصور خان باواجی کی اس حرکت پر تلملا اٹھا اور بلند آواز میں بولا: ''گائوں والو! تم میں سے کوئی ہے جو میرا مقابلہ کر سکے۔'' مجمع پر خاموشی چھائی رہی تو منصور خان دوبارہ چلایا: ''تو پھر گائوں والو! میں گائوں کے وارث چودھری نہال شاہ کو مقابلے کی دعوت دیتا ہوں' اس سے کہو میرا مقابلہ کرے''مجمع تب بھی خاموش رہا، البتہ منصور خان کے حواری بولے: ''چودھری نہال شاہ! منصور خان کی خواہش پوری کر دو۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی نے مسکراتے ہوئے ایک نظر منصور کے حواریوں پر ڈالی اور پھر اپنی چادر اتار کر اپنے منشی کو تھما دی۔ ''سرکار! یہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟'' منشی، باواجی کی چادر پکڑتے ہوئے بولا۔ ''آپ کہاں اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں سرکار! اسے دفع کریں اور کہہ دیں کہ کسی اور سے زور آزمائی کرے۔''
''منشی جی! اس کا مقابلہ تو اب میں ہی کروں گا۔ اس نے میری غیرت کو للکارا ہے، لہٰذا اسے اس کی سزا دینا بہت ضروری ہو گیا ہے۔'' یہ کہہ کر باواجی، منصور خان کو گھورتے ہوئے میدان میں آ گئے۔
باواجی نے ایک سفید چوغہ زیب تن کر رکھا تھا، وہ عموماً کالے رنگ کی چادر سے بکل مارتے اور سر پر سفید رنگ کی پگڑی باندھتے تھے۔ چادر تو انہوں نے منشی کو پکڑا دی تھی، البتہ پگڑی بدستور سر پر قائم تھی۔
منصور خان نے باواجی کو اپنے مقابل آتے دیکھ کر ٹھٹھا لگایا: ''سادھو جی! یہ پگڑی اور سفید چوغہ اتار کر لنگوٹ کس لو۔ ایسا نہ ہو تمہارے سر کی عزت میرے پیروں تلے روندی جائے اور تیرا یہ چوغہ تار تار ہو جائے۔''
باواجی نے اس کی نظروں سے نظریں ملاتے ہوئے کہا: ''منصور خان! تو انتہائی کمینہ اور بدفطرت انسان ہے۔ میں تجھے ایک بار معاف کر چکا ہوں، لیکن آج تو پورے گائوں کے سامنے مجھے بے عزت کرنے اور جان سے مارنے کی غرض سے یہ کھیل کھیل رہا ہے تو جان لے کہ آج کے بعد تیری طاقت کا یہ نشہ بھی اتر جائے گا اور تو اپنے بدبخت پیروں پر نہ چل سکے گا اور نہ ہی ان گستاخ آنکھوں سے کسی کو دیکھ سکے گا۔''
باواجی کا لہجہ لمحہ بہ لمحہ بدلتا جا رہا تھا۔ ان کی آواز جوش جذبات سے قدرے بلند ہو گئی تھی۔
منصور خان، باواجی کی جلالی کیفیت دیکھ کر اندر سے ہل گیا۔ اسے سحری والا واقعہ بھی یاد آ گیا، مگر وہ گائوں کے لوگوں کے سامنے اپنی سبکی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ اس نے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا: ''نہال شاہ! بہانے نہ بنائو، تم اپنی زبان کی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتے، مگر میں تجھے اپنے ان پنجوں سے مروڑ کر رکھ دوں گا۔'' وہ یہ کہتے ہی باواجی کی طرف اچھلا مگر دوسرے ہی لمحے ایک مافوق الفطرت واقعہ ہوا اور لوگوں کے منہ سے چیخیں نکل گئیں۔
منصور خان جس زور سے باواجی کی طرف کودا تھا، اس سے دوگنی طاقت میں وہ الٹی قلابازی کھا کر کئی گز پیچھے لڑھکتا چلا گیا اور جب رکا تو اس کا سر اکھاڑے کی نرم مٹی میں دھنس چکا تھا اور ٹانگیں آسمان کی طرف ستون کی طرح اکڑ گئی تھیں، اس کے دونوں بازو سیدھے اکڑ گئے۔ اس کے بدن میں ذرا بھی جنبش پیدا نہ ہوئی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی پتھر کے بت کو سر کے بل زمین میں گاڑ دیا گیا ہو۔ لوگ حیران تھے کہ منصور خان کے ساتھ ہوا کیا ہے، مگر یہ صرف باواجی ہی جانتے تھے کہ اس بدنصیب کے ساتھ کیا ماجرا پیش آیا ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی اطمینان سے منصور خان کی طرف بڑھے اور پانچ فٹ دور کھڑے ہو کر اپنی انگشت شہادت سے اس کی طرف اشارہ کیا۔ اگلے ہی لمحے منصور خان دھڑام سے چاروں شانے چت پڑا تھا۔
باوا جی جوان تھے، اگرچہ ریاضت نے انہیں اپنے نفس پر دسترس عطا کی تھی مگر جب جوانی کی سرکش موجیں انسانی جذبات کو مہمیز دیتی ہیں تو کئی بار دماغ تپ بھی جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت باواجی کے ساتھ بھی ہوا اور جلال کی کیفیت میں بے قابو ہو گئے تھے اور انہوں نے دنیا کے سامنے اپنے بھید کھول دیے تھے۔
''اوئے بدبخت منصورے! اٹھ اور میری پگڑی اپنے ناپاک قدموں تلے روند ڈال۔'' باواجی بے سدھ لیٹے منصور کی طرف بڑھے اور ایک بار پھر شہادت کی انگلی اس کی طرف سیدھی کر دی۔
منصور خان کسی موکل اور سحر زدہ انسان کی طرح کھڑا ہو گیا۔ باواجی اس کے قریب ہوئے اوراس کی آنکھوں میں اپنی قہر آلود آنکھیں گاڑ دیں۔ برسوں کی ریاضت نے ان کی آنکھوں میں پراسرار چمک بھر دی تھی۔ ان کی آنکھوں سے نفرت کے سیاہ بادل اٹھے اور منصور کی آنکھوں پر چھا گئے۔ اس کی روشنی سے بھر پور آنکھوں میں اندھیرے اتر گئے۔ اسے یوں لگا جیسے آگ کی ایک روشن سلاخ اس کی آنکھوں میں پھیر دی گئی ہو، وہ زخمی بھینسے کی طرح ڈکرایا:
''لوگو! مجھے بچائو۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔'' منصور خان نے اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے کی طرف ہٹنا چاہا مگر وہ اپنی جگہ سے جنبش نہ کر سکا۔ اسے یوں لگا جیسے پیٹ سے نیچے کا دھڑ پتھر کا ہو گیا ہے۔ اسے باواجی کی پراسرار قوتوں نے بے بس کر دیا تھا اور اس کا اوپر کا دھڑ نیچے والے بے جان پتھریلے دھڑ پر یوں ڈولنے لگا جیسے کپڑا ہوا سے لہرانے لگتا ہے۔
پھر یکایک سرد ہوا کا ایک تیز بگولا نمودار ہو گیا جس نے منصور خان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں لگا جیسے برف پوش پہاڑوں سے تیز برفیلی ہوائیں یہاں اتر آئی ہوں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ سرد بگولا صرف منصور خان تک محدود تھا جبکہ پورے مجمع تک اس کی ایک بھی لہر نہیں پہنچ رہی تھی۔ سرد بگولا جب رکا تو منصور خان کی جگہ برف کا ایک مجسمہ، استادہ نظر آیا۔ لوگ حیران و پریشان ہو کر کبھی اس مجسمے کو اور کبھی باواجی کو دیکھتے جبکہ باواجی تو ان سب سے جیسے بے پروا ہو گئے تھے۔ وہ بھول ہی گئے تھے کہ ان کے گرد ان کے گائوں کے لوگ کھڑے ہیں اور میلے میں شرکت کرنے والوں کا بھی ایک ہجوم وہاں اکٹھا ہے۔ اسی لمحے مجمع میں حرکت پیدا ہوئی اور لوگ دبے پائوں وہاں سے کھسکنے لگے۔ یہ سب منصور خان کے حواری تھے۔ وہ جیسے ہی مجمع کے حصار سے باہر نکلے، ان کے قدم ایک گرجدار آواز نے روک لیے۔ ''تم کہاں بھاگنے لگے ہو؟ اپنے یار کو تو ساتھ لیتے جائو۔'' باواجی ان سب کے خوف سے لرزتے چہروں کو دیکھتے ہوئے بولے۔ ''تم تو گائوں کے چودھری ہو۔ چودھری ڈرپورک نہیں ہوتے۔ آگے بڑھو اور اس سادھو اور مست ملنگ سے دو دو ہاتھ کرو۔''
وہ باواجی کی آنکھوں اور لہجے کی تاب نہ لا سکے اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے: ''نہال شاہ جی! ہمیں معاف کر دو، ہم نے تم کو پہچاننے میں غلطی کی ہے۔ قسم لے لو آئندہ جو ہم تمہارے بارے میں کوئی بھی غلط بات سوچیں۔''
ان سب کے سر ندامت اور خوف سے جھکے ہوئے تھے، اسی لمحے باواجی کا منشی ان کے قریب آ گیا۔ اس نے باواجی کی کالی چادر ان کے کاندھوں پر ڈال دی۔ باواجی نے اپنے عمر رسیدہ منشی کو سرد نگاہوں سے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے ان کا جلال کافور ہو گیا۔ انہوں نے چادر کی بکل ماری اور خاموشی سے اپنی حویلی کی جانب چل دیے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی نہال شاہ سیدھے اپنے حجرہ میں پہنچے تھے ۔ کمرہ لوبان اور عنبر کی مدہوش کن خوشبو سے معمور تھا۔ ایک گوشے میں تیل کا دیا روشن تھا۔ حویلی کے ایک کمرے کو باواجی نے اپنے لیے حجرے کی صورت میں ترتیب دیا تھا اور اپنے شب و روز اسی کمرے میں بسر کرتے۔ حجرے کے بیچ میں ایک چٹائی بچھی تھی جس پر سفید چادر اور گائو تکیہ پڑا تھا۔ یہ باواجی کا بستر تھا۔ وہ چارپائی کی بجائے زمین پر سوتے تھے۔ حجرے میں چھوٹے چھوٹے لکڑی کے صندوق بھی پڑے تھے جس میں نایاب جڑی بوٹیاں تھیں۔ ان جڑی بوٹیوں سے وہ ادویات بناتے تھے۔
مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد باوا جی چٹائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور طرطوش کی حاضری لگانے لگے وہ جب سے حویلی آئے تھے، ان کی طرطوش جن سے باقاعدہ ملاقاتیں جاری تھیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد حجرہ بھاری بھاری سانسوں سے بھر گیا، ملگجے اجالے میں ایک بھاری بھر کم وجود باواجی کے سامنے پیش ہوا۔ یہ طرطوش جن تھا جو انسانی روپ میں باواجی کے پاس آتا تھا۔ اس نے سفید لباس پہن رکھا تھا۔ گندمی رنگ، موٹی موٹی سرمگیں سحر انگیز آنکھیں، کاندھیوں تک سفید زلفیں اور سفید ڈاڑھی اور فولاد میں ڈھلا ہوا حرارت آمیز بدن۔ وہ دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور باواجی اس سے نایاب جڑی بوٹیوں اور مہلک ترین امراض کا درس لینے لگے۔ دونوں خاصی دیر تک حکمت کی گرہیں کھولتے رہے۔ جب طرطوش کے واپس جانے کا وقت ہوا تو اس نے باواجی سے اجازت طلب کی اور جاتے جاتے بولا: ''نہال شاہ! میں آج آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔''
''جی فرمائیں! ''باواجی ہمہ تن گوش ہو گئے۔
''آج آپ نے جلالت کا جو روپ اختیار کیا ہے، یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ آپ نے منصور خان کو اس کی گستاخی کی اس قدر کڑی سزا دی ہے کہ ہماری برادری میں بھی یہ بات پھیل گئی ہے کہ طرطوش کا یار اپنی طاقت کے گھمنڈ میں انسانوں پر ظلم کر رہا ہے۔''
باواجی اطمینان سے بولے: ''طرطوش! تم درست کہتے ہو، میں بھی جانتا ہوں کہ مجھے کس وقت کیا کرنا ہے۔ تمہیں اعتماد ہونا چاہیے کہ تمہارا دوست کوئی غلط کام نہیں کرے گا۔''
''میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج کل ہمارے قبیلے کے باغی خاصے سرکش ہو گئے ہیں۔ مجھے ان کے معاملات نے الجھا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ باغی، سردار کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہیں اور انہوں نے ایک آدھ بار میرے شاگردوں پر حملے بھی کیے ہیں، اس لیے ہمیں بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔''
''میں اس معاملے میں تمہاری کچھ مدد کر سکتا ہوں؟ مجھے آپ اپنے باغیوں کے سرغنے کا نام بتائیں۔
 

راجہ صاحب

محفلین
میں اسے اپنا مطیع کر کے کمزور بنا دوں گا اور وہ آیندہ آپ کے سامنے سر اٹھانے کی جرات نہیں کرے گا۔''
طرطوش، باواجی کی پیشکش سن کر حیرت سے بولا: ''یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں! کیا واقعی آپ یہ کام کر سکتے ہیں؟''
باواجی مسکرائے: ''طرطوش! کیا تمہیں یہ بات یاد نہیں رہی کہ تمہیں ہم تک پہنچانے والی قوت نے ہمیں کیا کچھ دے رکھا ہے۔''
طرطوش شرمسار ہوگیا۔ ''ہاں! یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔ 800 سال کی عمر میں حافظہ کمزور پڑ ہی جاتا ہے۔ ہم میں بھی انسانوں جیسی کمزوریاں، خامیاں اور بیماریاں موجودہیں۔''
''پھر توآپ کو حافظہ مضبوط کرنے کی دوا کھلانی چاہیے۔'' باواجی مسکرائے۔
طرطوش جنات کی مخلوق میں مستند اور حاذق طبیب مشہور تھا، لیکن جب باواجی نے اسے دو تین جڑی بوٹیوں کے مرکبات سے دوا بنانے کا طریقہ سکھایا تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا اور باواجی کے دونوں ہاتھ تھام کر عقیدت سے بولا: ''نہال شاہ جی! آپ تو ہم جنات سے زیادہ حاذق ہیں اور …'' طرطوش کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ حجرے میں کسی تیسرے کی سانس محسوس ہوئی۔
باواجی ایک دم دہاڑے: ''تو نے دبے پائوں حجرے میں آنے کی جرات کیسے کی؟''
''یہ میں ہوں باوا جی!'' ایک نوخیز جن لہولہان حالت میں حاظر ہوا۔
طرطوش اسے دیکھ کر قدرے گھبرایا اور پوچھا: ''مستان تجھے کیا ہوا ہے؟''
مستان اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے بولا: بابا حضور! مجھے گورداس نے مارا ہے۔''
''گورداس… اس کی یہ جرات…۔''طرطوش غصے سے کانپنے لگا اور اس کی آواز سے حجرے میں تلاطم بپا ہو گیا۔ اس نے باوا جی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ''یہ گورداس باغیوں کا سردار ہے، باوا جی۔ مستان میرا شاگرد ہے، اسے میں نے جڑی بوٹیاں لانے کے لیے کشمیر بھیجا تھا۔ مجھے یقین ہے اس نے مستان کو کشمیر ہی میں مارا ہو گا، اس لیے کہ وہ ہماری حدود میں ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے اجازت چاہوں گا اور بہت جلد ملاقات کے لیے حاضری دوں گا۔ اس دوران، میں گورداس کا معاملہ نپٹانے کی کوشش کروں گا۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
''ٹھیک ہے تم جائو مگر یہ بات یاد رکھنا کہ اگر تم ہمارے دوست ہو تو ہم بھی تمہارے دوست ہیں۔ تمہارے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ جب آئو تو گورداس کے سارے کوائف لیتے آنا۔ میں اس شیطان کو بھسم کر کے رکھ دوں گا۔'' باوا جی نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا۔
''میں سردار سے اجازت حاصل کرنے کے بعد گورداس کے کوائف دوں گا، باوا جی!'' طرطوش بولا۔ ''ہم اپنے ضوابط کی رو سے اپنے دشمنوں کو مارنے سے پہلے سردار کی اجازت لینے کے پابند ہوتے ہیں۔''
طرطوش مستان کو لے کر واپس چلا گیا اور باواجی چٹائی پر اسی حالت میں بیٹھے رہے۔ وہ اپنی پراسرار طاقتوں کومجتمع کر کے اپنا وجود سمیٹ رہے تھے، کچھ ہی دیر بعد وہ چلے کی حالت سے باہر آ گئے اور پھر اپنے زمینی بستر پر سو گئے۔
ان کو سوئے کچھ ہی دیر گزرتی تھی کہ حجرے پر ایک محتاط دستک ہوئی، وہ جلدی سے بیدار ہوئے اور دروازہ کھول دیا۔ باہر چادر میں لپٹی ایک عورت کھڑی تھی۔ اس نے چادر سرکا کر گھونگھٹ نکال رکھا تھا۔ باواجی نے سوچا یہ عورت حویلی کی چاکر ہو گی، چنانچہ وہ دروازے سے باہر آ گئے اور بولے: ''کیا بات ہے؟ اس وقت کیوں آئی ہو؟''
''میں…'' عورت کچھ بولتے ہوئے جھجک سی گئی۔
''بولتی کیوں نہیں؟ کیا بات ہے؟'' باوا جی نے ذرا تلخی سے کہا۔
عورت قدرے گھبرائی اور اپنا گھونگھٹ سرکا کر اپنا چہرہ عیاں کر دیا۔ باواجی ایک لمحے کے لیے اس کے حسن کی تاب نہ لا سکے، لیکن انہوں نے اپنے دل کو قابو میں رکھتے ہوئے پوچھا:
''کون ہو تم؟ میری بات کا جواب کیوںنہیں دیتی؟''
''میرا نام روشن ہے۔'' وہ جھجک کر بولی۔ ''منصور خان کی چھوٹی بہن ہوں۔''
باواجی، منصور خان کا نام سنتے ہی حجرے سے باہر آ گئے۔ ''تو یہاں تک کیسے پہنچی ہے۔''
''آپ اس حویلی کے پرانے باسی ہیں مگر شاید ان چور دروازوں کو نہیں جانتے جو اس حویلی کی دیواروں میں چھپے ہیں۔'' روشن آہستہ سے گویا ہوئی: ''میں ان چور دروازوں کو جانتی ہوں۔''
باواجی نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: ''میں کل صبح تک یہ چور دروازے بند کردوں گا۔''
''آپ میرے بھائی کو معاف کر دیں۔'' وہ لجاجت سے بولی۔
باواجی نے کہا: ''ہم تمہاری بات کا مان رکھ لیتے ہیں، اب گھر جائو۔ صبح منصور خان گھر آ جائے گا۔''
روشن نے ممنونیت سے باواجی کو دیکھا۔ اس کی آنکھیں تشکر سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ زبان سے کچھ کہنا چاہتی تھی، مگر کسی حجاب نے اس کے لب سی دیے ۔ وہ خاموشی سے پلٹ گئی۔ باواجی اسے واپس جاتا ہوا دیکھتے رہے۔ وہ حجرے میں واپس آئے اور چٹائی پر دراز ہو گئے … یہ رات باواجی نے کشمکش میں گزار دی اور سحری کے وقت نماز ادا کرنے کے بعد وہ حسب معمول اپنے کھیتوں کی طرف نکل پڑے، لیکن آج انہیں اپنے کسی مراقبے میں قرار نہیںآ رہا تھا۔ وہ بہت جلد واپس حویلی آ گئے، اور اپنے نفس سے لڑتے رہے۔ آخر کار جب سورج طلوع ہوا تو ان کے دل نے کچھ اور ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
روشن کی خاموش آنکھوں نے انہیں جذبات کے تلاطم میں مبتلاکر دیا تھا، لہٰذا انہوں نے اپنے نفس پر قابو پانے کے لیے اپنی پسندیدہ جگہ پر جا کر چھ ماہ کا چلہ کاٹنے کا فیصلہ کیا اور اسی روز کسی کو بتائے بغیر ایک بار پھر حویلی سے غائب ہو گئے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
حسین چمارن اور ٹھاکر



ہوشیار پور سے ذرا آگے ایک پہاڑی تھی جس پر ہندوئوں کا ''ارجنی کا میلہ'' لگتا تھا۔ باواجی پہاڑی کی ایک ہموار چٹان پر بیٹھ جاتے اور وہاں پہروں چلہ کشی میں غرق رہتے۔ یہاں سے بستی کی گزرگاہیں اور کھیت کھلیان صاف نظر آتے تھے، مگر کسی کو باواجی کا یہ مسکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔
باواجی کو پہاڑی مسکن پر آئے چھ ماہ بیت گئے تھے اور اب وہ دوبارہ اپنی زندگی کی طرف لوٹ رہے تھے۔ انہوں نے گائوں واپس جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اگلے روز ان کو واپس جانا تھا۔ جانے سے پہلے وہ کچھ وقت کے لیے چلہ کاٹنے لگے۔ انہیں کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ان کے حساس کانوں نے کسی کے قدموں کی چاپ سنی۔ انہوں نے آنکھیں کھولے بغیر اپنی روحانی طاقت سے دیکھ لیا کہ ایک نوجوان بوڑی کنویں کی طرف جا رہا ہے، تو اسے مخاطب کیا:
''تو ادھر کیا لینے جا رہا ہے بنتو؟''
دبے دبے پائوں پہاڑی گزر گاہ سے گزرنے والا وہ جواں سال غریب اپنا نام سن کر گھبرا گیا، اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
''اوپر آ جا بنتو! پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ آ۔ ''باواجی نے اسے پکارا۔
بنتو چمار نے اپنے ہاتھ میں مٹی کا کوزہ اٹھا رکھا تھا۔ اس نے اپنے سامنے والی پگڈنڈی کی جانب نظر دوڑائی اور کسی سحر زدہ انسان کی طرح اس طرف ہو لیا۔ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ کر اس کی باواجی پر نظر پڑی اور وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
وہ باواجی کو دیوتائوں کا اوتار سمجھ کر ان کے قدموں میں جھک گیا مگر باواجی نے اسے کاندھے سے پکڑا اور دھیرے سے کہا: ''اٹھ پاگل لڑکے! مجھے سجدہ نہ کر۔ میں کسی بھگوان کا اوتار نہیں، میں تو اپنے اللہ کا حقیر بندہ ہوں۔'' انہوں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کٹورے کی طرف دیکھا اور آہستگی سے پوچھا: ''اس میں پانی لینے جا رہا ہے تو؟''
''جی پر بھو…'' بنتو مسکینی سے بولا۔ '' میری پتنی بیمار ہے سرکار۔''
''اور اس نے تجھے بوڑی کنویں کا پانی لانے کے لیے کہا ہے۔''
''جی۔ جی سرکار۔''
''… او رتو پانی لانے کے لیے چل دیا۔'' باواجی نے اس سے سوال کیا۔ '' تو نہیں جانتا کہ بوڑی کنویں کا پانی لانے والا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔''
''جانتا ہوں سرکار! بنتو چمار ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔ ''پر میں نے سنا ہے کہ بیمار پتنی کے لیے پانی لانے والے کو کنواں کچھ نہیں کہتا۔''
باواجی مسکرائے اور بولے: ''کنواں کسی کی نیت نہیں جانتا۔ وہ تو خونی ہے اور اپنے پانی کے بدلے خون پیتا ہے۔''
بنتو، باواجی کی بات سن کر لرز گیا۔ اس کی حالت دیکھ کر باواجی نے کہا:
''احمق آدمی! تو موت سے لڑنے جا رہا ہے۔ لے میں تیرا مسئلہ حل کر دیتا ہوں۔'' یہ کہہ کر انہوں نے مراقبے کی کیفیت میں اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دوسرے ہی لمحے وہ بنتو چمار کو دیکھتے ہوئے بولے:
''تیری پتنی بیمار نہیں۔ وہ ڈھونگ رچا رہی ہے۔''
''نن… نن… نہیں سرکار! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے تو کالی کی وسوگند کھائی ہوئی ہے۔ روشنا ہرجائی نہیں ہو سکتی۔''
''میں جانتا ہوں تو میری بات کا یقین نہیں کرے گا بنتو! اس کا حل یہی ہے کہ میں تجھے بوڑی کے کنویں سے بچا لوں۔'' یہ کہہ کر باوا جی نے فضا میں ہاتھ گھمایا اور دوسرے ہی لمحے ان کے ہاتھ میں ایک پھڑپھڑاتی چڑیا آ گئی۔
''یہ چڑیا تیری جان کا صدقہ ہے۔ پانی نکالنے سے پہلے اس کو کنویں کی طرف پھینک دینا،
اس کے بعد ڈول سے پانی نکال لینا اور ادھر میرے پاس واپس آ جانا۔''
ڈرا سہما بنتو کنویں کے قریب پہنچا اور چڑیا اس کی طرف اچھال دی۔ اس نے ابھی اپنے پر کھولے ہی تھے کہ کسی پراسرا بے آواز لہر نے اسے اپنے سحر میں لے لیا اور غڑاپ سے کنویں کے اندر چلی گئی۔ بنتو نے جلدی سے ڈول پکڑا اور اسے کنویں میں پھینک کر پانی نکال لیا۔ پھر جلدی سے کٹورہ پانی سے بھرا اور واپس بھاگا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے ایک بار بھی پلٹ کر دیکھا تو وہ پتھر کا ہو جائے گا۔
وہ ہانپتاکانپتا پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا اور پانی سے بھرا کٹورہ باواجی کے سامنے رکھ دیا۔ ''یہ لیں سرکار، میں پانی لے آیا ہوں۔''
باواجی نے اطمینان سے کٹورہ اٹھایا اوراس کا پانی اپنے کٹورے میں ڈال دیا۔ پھر اپنے گھڑے کا پانی بنتو کے کٹورے میں ڈال کر کہا: ''یہ لے اور اپنی پتنی کو سادہ پانی پلا دے۔'' بنتو بے چارہ پریشان ہو گیا۔ باواجی مسکرائے اور اس کی بات کاٹتے ہوئے بولے: ''تیری پتنی کو بوڑی کے کنویں کا پانی نہیں چاہیے تھا، وہ تیری جان لینا چاہتی ہے۔''
''سرکار! مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ ری کہ وہ میری جان کیوں لینا چاہتی ہے۔ جہاں تک مجھے یا دہے آج تک ہمارے درمیان لڑائی نہیں ہوئی۔ اس نے آج تک مجھے تنگ نہیں کیا، پھر وہ میری جان کی دشمن کیسے بن گئی؟''
باواجی حسب معمول مسکرائے۔ ''اس کا جواب تجھے چند روز بعد ہی مل جائے گا۔ فی الحال تو یہ پانی اپنی بیمار پتنی کو پلا دے۔''
بنتو نے سادہ پانی کا کٹورہ اٹھایا اور بستی کی طرف چلا گیا۔ تمام راستے وہ باواجی کی باتوں ہی میں الجھا رہا، لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے ان کی باتوں کو ایک دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور گھر کا دروازہ پار کرتے ہی زور زور سے چلایا:
 
Top