عملیات کی دنیا از عمران ناگی

راجہ صاحب

محفلین
''روشنا! اری او روشنا! دیکھ میں تیرے لیے پانی لے آیا ہوں۔''
روشنا نے بنتو کی آواز سنی تو جلدی سے رسوئی سے باہر نکلی۔ وہ حیران پریشان سی بنتو کو دیکھنے لگی۔ ''تجھے بوڑی کنویں نے کچھ نہیں کیا؟'' روشنا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ''تو کہیں اور جگہ سے تو پانی نہیں لے آیا؟''
''لے! بھلا اور کہاں سے لانا تھا۔'' بنتو نے پانی کا کٹورہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور جھوٹ کا سہارا لے کر بولا۔ ''لوگ تو ایسے ہی بوڑی کنویں کی کہانیاں بناتے ہیں، مجھے تواس نے کچھ نہیں کہا روشنا''
روشنا کٹورہ پکڑ کر اس کا پانی دیکھنے لگی اور پھر یکایک اس نے ایک جھرجھری لی اور پانی کا کٹورہ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر نیچے گر پڑا۔ بنتو اس کی یہ حرکت دیکھ کر پریشان سا ہو گا۔ ''کیا ہو گیا ہے تجھے روشنا! تو نے یہ پانی کیوں گرا دیا ہے؟''
''بنتو! مجھے سنبھالا دو میں گئی۔'' روشنا اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخی۔ بنتو کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے، اس نے روشنا کو اپنے بازوئوں کے حصار میں لے لیا اور اسے سہارا دے کر صحن میں بچھی چارپائی پر لا بٹھایا۔ روشنا چارپائی پر بیٹھتے ہی یکدم دھڑام سے گری اور تڑپنے لگی۔
''بنتو! میں گئی۔ ہائے بنتو، میرے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہے۔ جا بھاگ کر سنیاسی کو لے آ۔'' روشنا دہائی دینے لگی۔
بنتو نے یہ سنتے ہی باہر کو دوڑ لگا دی اور تھوڑی دیر بعد ہی گائوں کے سنیاسی کو لے آیا، لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی وہ روشنا کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اچھی بھلی ہو چکی تھی اور آرام سے چارپائی پر بیٹھی تھی۔ روشنا، سنیاسی جی کو دیکھتے ہی بولی: ''بنتو! میں اب ٹھیک ہوں۔ سنیاسی جی کو تو نے کیوں تکلیف دی ہے؟'' وہ چارپائی سے اٹھی اور سنیاسی جی کو چارپائی پر بٹھا کر بولی: ''سرکار! بنتو تو ذرا سی بات پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ آپ بیٹھئے میں آپ کے لیے دودھ لاتی ہوں۔'' بنتو، روشنا میں یکایک یہ تبدیلی دیکھ کر ٹھٹک گیا اور اسے باوا جی نہال شاہ کی باتیں یاد آنے لگیں، مگر وہ خاموش ہی رہا۔
روشنا نے سنیاسی جی کی دودھ سے سیوا کی اور ان کے جاتے ہی اس کے تیور بدلنے لگے۔
''بنتو! تجھے مجھ سے پریم نہیں، اگر تو سچا ہوتا تو میری یہ حالت نہ ہوتی۔''
''لیکن… بھلی مانس، میں نے کیا کیا ہے؟'' وہ روشنا کے تیور دیکھ کر ایسا گھبرا گیا کہ اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔
''اچھا تو تجھے اس چوٹی والے چلہ باز نے ورغلایا ہے اور تو اپنی روشنا سے دھوکا کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔'' روشنا تلخی سے بولی۔
 

راجہ صاحب

محفلین
''لیکن اب میں تیرے لیے سچ مچ بوڑی کا پانی لے کر آئوں گا۔ بس تو ایک بار مجھے معاف کر دے۔'' بنتو اپنی جوان بیوی کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ روشنا اس سے بیس سال چھوٹی تھی اور وہ تو ایک عام سی صورت والا مریل اور چیچک زدہ انسان تھا۔ یہ بات تو ساری بستی میں مشہور تھی کہ روشنا ہر دوسرے روز بنتو کی پٹائی کرتی ہے مگر وہ بیوی پرست آگے سے چوں بھی نہیں کرتا۔ اس روز بھی روشنا نے بنتو کو دھنک کر رکھ دیا اور اسے خبردار کیا کہ اگر اب اس نے اس چلہ باز کی طرف جانے کی جرات کی تو اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دے گی۔
اس روز بنتو آگے سے ہاتھ جوڑ کر منمنایا تھا: ''بس اب نہیں جائوں گا۔ میرا وشواش کرو۔''
اس بات کو گزرے دو روز ہوئے تھے کہ روشنا نے بنتو کو ایک اور امتحان میں مبتلا کر دیا۔ اس نے فرمائش کی: ''توجانتا ہے کہ میں ماں بننا چاہتی ہوں ۔مجھے سنیاسی جی نے کہا ہے کہ شیرنی کا دودھ پئے گی تو بیٹا جنے گی۔ اب تو جنگل میں جا اور شیرنی کا دودھ لے کر آ۔ دیکھ اگر تو دودھ لے کر نہ آیا تو مجھے صورت بھی نہ دکھانا۔'' روشنا کے لہجے میں زہر بھرا ہوا تھا، بے چارہ بنتو اس کے آگے گڑگڑا رہا تھا، التجائیں کر رہا تھا، لیکن روشنا نے اسے شیرنی کا دودھ لانے کے لیے آمادہ کر ہی لیا اور بنتو گھر سے شیرنی کا دودھ لانے نکل کھڑا ہوا۔


٭٭٭٭٭٭​


باوا جی کا چلہ پورا ہو چکا تھا اور اب انہوں نے بلاداد کے پہاڑی مسکن کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس روز موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ باواجی نے اپنا مختصر سا سامان اپنے تھیلے میں ڈالا اور پہاڑی سے اتر کر بلاداد کی بستی کی طرف چل دئیے تاکہ ہوشیار پور جانے سے پہلے بنتو چمار کی خیریت دریافت کر لی جائے۔ وہ پوچھتے تاچھتے اس کے گھر پہنچ گئے۔
بلاداد ایک مختصر سی بستی تھی اور یہاں زیادہ تر چمار ہی بستے تھے' البتہ بڑی ذات کے ٹھاکروں نے بستی کے درمیان بڑی سی حویلی بنائی ہوئی تھی۔ حویلی کیا تھی ایک پورے باغ کا منظر پیش کرتی تھی جس میں نارنگی اور آم کے درختوں کے علاوہ رنگ برنگ پھولوں کی بہار دکھائی دیتی تھی۔ ٹھاکر کہرام سنگھ اس بستی کا والی وارث تھا۔ بنتو چمار کا گھر ٹھاکر کی حویلی سے فقط دو سو گز کے فاصلے پر تھا۔ یہ کچا سا مکان ایک کمرے اور رسوئی پر مشتمل تھا لیکن اس کی یہ خوبی تھی کہ وہ حویلی کی طرف جانے والے راستے پر تھا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باواجی بنتو چمار کے دروازے پر پہنچے اور دستک دینے لگے تو معاً انہیں گھوڑے کی ٹاپیں سنائی دیں۔ انہوں نے بے اختیار ہو کر آواز کی جانب دیکھا تو حویلی کی طرف سے ایک گھڑ سوار گھوڑے کو دلکی چال چلاتے ہوئے ادھر آ رہا تھا۔ ایک قد آور اور ٹھوس حبثے کا مالک سکھ شاہانہ انداز میں گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ باواجی نے اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد دروازے پر لگی کنڈی ہلا کر دستک دی اور بنتو کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران گھڑ سوار بھی ان کے سر پر آپہنچا اور باواجی کی طرف دیکھ کر رعب دار آواز میں بولا:
''اوئے سادھو! ان غریبوں مسکینوں کے گھر سے تجھے کیا خیرات ملے گی۔ جا اور اونچی ذات سے والوں سے کچھ مانگ''۔
باواجی نے پلٹ کر سکھ نوجوان کا جائزہ لیا۔ اس کی عمر ٢٥ یا ٢٦ سال ہو گی۔ آنکھوں میں جوانی کا خمار اور لہجے میں تکبر اترا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کے لہجے کو نظر انداز کیا اور تحمل کے ساتھ بولے: ''سردار جی! میں سادھو نہیں اور خیرات لینے کے لئے دروازہ نہیں کھٹکھٹا رہا۔ میں تو بنتو سے ملنا چاہتا ہوں۔''
''تجھے اس سے کیا کام ہے؟'' اس نے بگڑے ہوئے انداز میں پوچھا۔ ''تو اس کا لگتا کیا ہے؟ اس سے پہلے تو تجھے کہیں نہیں دیکھا''۔
''میں اس کا کچھ بھی نہیں لگتا اور نہ مجھے اس سے کوئی کام ہے۔'' باواجی نے تحمل سے جواب دیا۔
''جب تجھے اس سے کوئی کام نہیں اور نہ تو اس کا کچھ لگتا ہے تو پھر کیا لینے آیا ہے؟'' گھڑ سوار نے باواجی کا سر سے پائوں تک جائزہ لیتے ہوئے پوچھا پھر خود ہی مشکوک انداز میں بولا'' تو کہیں اس کی گھر والی سے تو نہیں ملنے آیا۔''
یہ سن کر باواجی کے اندر ابال سے اٹھنے لگا مگر انہوں نے کمال ضبط کے ساتھ کہا۔ ''سردار جی آپ کیسی باتیں کر تے ہیں۔ میرا اس کی بیوی سے کیا واسطہ!''
سکھ گھوڑے سے اترا' اسے قریب ہی کھونٹے سے باندھا اور باواجی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ''حیرت ہے بھئی! تو پھر تو آیا کیا لینے ہے؟''
اس دوران دروازہ کھل گیا اور بنتو چمار کی بیوی روشنا باہر آ گئی۔ اس نے سردار جی کو دیکھتے ہی پرنام کیا' پھر جھک کر اس کے پائوں چھونے لگی تو اس نے روشنا کو بازو سے پکڑ لیا اور لگاوٹ کے ساتھ بولا'' روشنا! تجھے کتنی بار سمجھایا ہے میرے پائوں نہ چھوا کر۔ تیری جگہ تو بلونت سنگھ کے دل میں ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
پاؤں میں جگہ تو ہم نے گائوں کی دوسری عورتوں کو دے رکھی ہے''۔
''سرکار! خیر تو ہے۔ اور یہ کون ہے؟'' روشنا نے باوا جی کی طرف دیکھ کر بے باکی سے پوچھا۔
''لے بھلا مجھے کیا معلوم یہ کون ہے۔ یہ تو تیرے پتی بنتو چمار سے ملنے آیا ہے اور تو مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ یہ کون ہے''۔ بلونت سنگھ نے قہقہہ لگا کر کہا۔
روشنا نے حیرت کے ساتھ باواجی کا جائزہ لیا اور بولی: ''کیا کام ہے تجھے بنتو سے؟''
''یہ تو میں بھی اس سے پوچھ چکا ہوں' اسے کوئی کام نہیں۔ مگر حیرت ہے یہ سادھو پھر بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔ ''بلونت سنگھ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
روشنا نے اب چونک کر باواجی کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگی: ''کہیں تم پہاڑی والے سادھو تو نہیں ہو۔ وہی جس نے بنتو کو بوڑی والے کنوئیں کا پانی نہیں لانے دیا''۔ باوا جی نے اثبات میں سر ہلایا تو بلونت سنگھ اور روشنا نے ایک دوسرے کو عجیب سے انداز میں دیکھا۔ پھر روشنا ناک سکیٹر کر بولی: ''اب تو پھر بنتو کو الٹی سیدھی سنانے آ گیا ہے۔ جا چلا جا یہاں سے بنتو تجھے نہیں ملے گا۔ میں نے اسے شیرنی کا دودھ لانے کے لئے جنگل میں بھیج دیا ہے۔''
باواجی کو یہ تضحیک آمیز لہجہ گوارا نہ ہوا مگر انہوں نے دل کا ابال زبان پر نہ آنے دیا۔ بظاہر وہ ایک نحیف نزاد تھے' اس لئے انہوں نے دونوں کے ساتھ الجھنے سے گریز کیا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ الجھنے پر اگر بلونت سنگھ بدزبانی پر اتر آیا تو انہیں اپنے بچائو اور اسے سزا دینے کے لئے اپنی پراسرار قوتوں کو حرکت میں لانا پڑے گا۔ مگر یہ بات ان کے نفس کے خلاف جاتی تھی۔ اپنا غصہ دبانے کی کے لئے ہی تو وہ چھ مہینے سے پہاڑی مسکن پر چلہ کشی میں مصروف رہے تھے۔ اگر وہ اس سے الجھ پڑتے تو ان کی ساری ریاضت کے ضائع جانے کا خدشہ ہوتا' لہذا انہوں نے روشنا سے کہا: ''روشنا! میں جا تو رہا ہوں مگر میری ایک بات سن لے۔ جو عورت اپنے مرد سے بے وفائی کرتی ہے' اسے کسی اور کی وفا بھی نہیں ملتی۔ تو اپنے معصوم شوہر کو مارنے کے لئے جو کچھ کر رہی ہے' یہ ٹھیک نہیں۔ میرے اللہ نے چاہا تو بنتو کو کچھ نہیں ہو گا۔ وہ زندہ سلامت اور کسی شیر کے مانند آئے گا۔ اس وقت تو چاہے گی بھی …… تو وہ تجھے چھوڑے گا نہیں اور نہ تجھے کوئی اور بچانے والا ہو گا۔'' یہ کہہ کر باواجی نے بلونت سنگھ کی طرف قہربھری نظروں سے دیکھا اور کہا: ''بلونت سنگھ! تجھے اپنی جوانی اور چودھراہٹ پر بڑا گھمنڈ ہے لیکن میں تجھے بھی کہے دیتا ہوں کہ طاقت کے نشے سے باہر نکل آ تیری خرمستیاں تیرے لئے عذاب بننے والی ہیں''۔
بلونت سنگھ کو باواجی کی یہ نصیحت راس نہ آئی اور اس نے انہیں زور سے دھکا دے دیا۔ باواجی اس کا زور آور دھکا سہہ نہ سکے اور لڑکھڑاتے ہوئے گر گئے۔ بلونت سنگھ نے انہیں کہا: ''سادھو مہاراج! اب تیرے لئے یہی اچھا ہے کہ تو فوراًیہاں سے دفع ہو جا' ورنہ کرپان سے تیرا گلا کاٹ دوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے روشنا کا ہاتھ پکڑا اور بولا: ''چل آ روشنا ہم چلتے ہیں۔ '' وہ روشنا کو ساتھ لئے اس کے گھر میں داخل ہو گیا اور دروازے کو کنڈی لگا دی۔
باواجی نے اس قدر بے عزتی پر کمال ضبط سے کام لیا اور کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بنتو چمار کے بند دروازے پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے واپس چل دئیے۔ ان کا یہ سارا ضبط ان کی نفس کشی کا نتیجہ تھا ورنہ وہ اس قدر ضبط نہیں کر سکتے تھے۔ وہ جوگ سنیاس کے خوگر نہ ہوتے تو بھی ان کی ایک اپنی پہچان تھی۔ وہ نمولیاں جیسے بڑے گائوں کے وارث تھے۔ ان کی چودھراہٹ کا دائرہ کم از کم بلونت سنگھ کی جاگیروں سے زیادہ تھا۔ اس تناظر میں ان کا یوں بے عزت ہو جانا ان کی سبکی کے مترادف تھا۔ لیکن روحانیت کا منشا تبھی پورا ہوتا ہے جب آدمی اس کا بے جا استعمال نہ کرے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
جنگل جنات اور باواجی



باواجی سر جھکائے پیدل ہی ہوشیار پور کی طرف روانہ ہو گئے۔ بلاداد کی بستی سے نمولیاں کا فاصلہ خاصا تھا۔ ایک رات اور دن کی مسافت کے بعد ہی پیدل چلنے والا اپنی منزل مقصود تک پہینچ سکتا تھا۔ اس سے پہلے جب وہ ادھر آتے تھے تو گھوڑے پر سوارہو کر آتے۔ اس دور میں گھوڑے کے سوادوسری کوئی سواری ملنا انتہائی دشوار تھا۔ ویسے بھی راستہ پر صعوبت اور خطرناک تھا۔ کوئی اکیلا شخص اس قدر طویل سفر کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ ان دنوں سفر کرنے والے قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے کیونکہ راستے میں ڈاکوئوں اور جنگلی جانوروں کا خدشہ رہتا تھا۔ اس بار باواجی نے جب بلاداد سے نمولیاں کے لئے پیدل سفر کا ارادہ کیا تو اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ پیدل سفر کرنے سے صعوبتوںکو برداشت کرنے اور تزکیہ نفس کا موقع ملے گا۔
باواجی جب بلاداد سے چلے تو سورج ان کے سر پر تھا مگر اب مغرب کی گود میں سر چھپانے کیلئے اپنی روشنیوں کو تاریکیوں کے حوالے کر رہا تھا۔ تین چار گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد وہ گھنے جنگل کے نزدیک پہنچ گئے جو خوفناک جانوروں کا مسکن تھا۔ جنگل سے آگے چھوٹی بڑی پہاڑیاں تھیں اور اس کے بعد ہوشیار پور کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔
باواجی غیر معمولی قوتوں کے مالک انسان تھے اور پراسرار قوتیں ان کی مطیع تھیں اس لئے جنگلی جانوروں سے خوف کھانا ان کی شان کے خلاف تھا۔ وہ تو صرف اﷲ سے ڈرتے تھے اور اﷲ سے ڈرنے والا کسی قسم کا خوف دل میں نہیں لاتا۔ وہ ایک درخت کے نیچے اپنی چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
رات کی تاریکی میں جانوروں اور پرندوں کے شور نے طلاطم برپا کیا ہوا تھا مگر باوا جی گردو پیش سے بے نیاز ہو کر دو زانو ہو کر بیٹھ گئے۔ اس وقت جنگلی حیات نیند کی وادیوں میں اتر رہی تھی اور شور قدرے کم ہو گیا تھا۔
باوا جی نے حسب معمول طرطوش کی حاضری لگانی شروع کی اور چند ہی ثانیے بعد ماحول میں عجیب و غریب تبدیلی رونما ہوئی۔ جنگلی جانوروں نے چیخ پکار شروع کر دی' خاص طور پر جنگلی بلیاں اور کتے درد ناک آوازوں سے چیخنے چلانے لگے تھے۔ پرندوں کے شور نے ان کی منحوس آواز وں میں شدت پیدا کر دی۔ طرطوش نے حاضر ہوتے ہی باوا جی کو سلام کیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
''باوا جی ! آج آپ کو جنگل کے اندر محفل سجانے کا خوب طریقہ سوجھا ہے۔ بے چارے سوئے ہوئے جانوروں کو جاگنا پڑ گیا ہے۔ اب جب تک میں یہاں موجود رہوں گا وہ یونہی روتے چلاتے رہیں گے''۔
باوا جی عجیب لہجے میں بولے: ''طرطوش ! یہ تو اﷲ کی عنایت ہے کہ اس کی ذات اعلیٰ نے جانوروں اور پرندوں کو تمہارے وجود کی پہچان کا علم دیا ہوا ہے۔ ایک اس دور کا انسان ہے جو تم جیسی اعلیٰ مخلوق کا وجود تسلیم ہی نہیں کرتا''
''اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر ایک کو نظر نہیں آسکتے'' طرطوش نے کہا۔ ''ویسے بھی یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جب تک خود کسی چیز کو دیکھ نہیں لیتا ' اس کا وجود تسلیم نہیں کرتا''۔
''نہیں طرطوش یہ بات نہیں۔ انسان بڑا حیلہ باز ہے۔ وہ آنکھوں دیکھی بات پر یقین کر لیتا ہے مگر بعد میں اس پر شک کرتا رہتا ہے اور کسی نہ کسی بہانے سے اس کی حقیقت کو جھٹلاتا رہتا ہے۔انسان کو سمجھنا بہت مشکل ہے تم یوں سمجھو فرشتوں' جنات اور کائنات کی ہر جاندار شے کے اندر جو جو خصوصیات پائی جاتی ہیں وہ انسان کے اندر ہیں۔ اس کی جبلت کا دائرہ کائنات سے ماورا ہے۔ تمہاری مخلوق انسان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ جنات بہت سی طاقتوں کے مالک ہوتے ہیں ' پھر بھی وہ انسان کی نہیں معراج کو چھو سکتے ''
طرطوش باوا جی کی باتیں انہماک کے ساتھ سن رہا تھا۔ وہ بولا اس آن اسے انسانوں کی بڑائی ناگوار گزری۔ وہ بولا ''نہال شاہ! ہم انسان کی افضلیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ کہنا کہ جنات انسانوں سے کم تر ہیں ' درست نہیں ۔ جنات بھی اﷲ کی عبادت اور ریاضت کرتے ہیں اور اسی طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح کہ انسان ہمارے ہاں بھی معاشرتی زندگی مختلف نظاموں کے تحت چلتی ہے۔ ہمارے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں' بیمار ہوتے ہیں' لڑتے جھگڑتے ہیں ۔گویا ہمارا طرز زندگی اور فکرو عمل انسانوں سے مختلف نہیں ۔ ہماری معاشرتی اور سائنسی ترقی اگرچہ انسانوں کو نظر نہیں آتی مگر ہماری دنیا میں یہ سب موجود ہے ۔اب اگر آپ جنات اور انسان کا تقابلی جائزہ لیں تو جنات انسان سے کمتر نہیں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ ان میں انسانوں سے زیادہ خوبیاں ہیں تو غلط نہیں ہوگا''۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی طرطوش کا استدلال سن کر بولے : ''تم ٹھیک کہتے ہو مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ انسان جنات سے افضل ہے اور یہ میں نہیں کہتا ' قرآن کہتا ہے ' البتہ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ انسان جنات سے افضل ہونے کے باوجود جسمانی طورر پر اس سے کمزور ہے۔ اس لیے کہ انسان اپنی علمی خوبیوں سے پہچانا جاتا ہے۔وہ اپنی علمی طاقت کی بدولت جنات کو اپنا مطیع بنا سکتا ہے۔انسان کو جو علم اور ذہن عطا کیا گیا ہے جنات اس سے محروم ہیں''باوا جی نے انسان اور جنات کا تفاوت واضح کرتے ہوئے بتایا۔ ''اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں' جنات اور انسانوں میں بنیادی تخصیص قائم کر دی ہے۔ فرشتے نور کی پیداوار ہیں ۔وہ اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثناء کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ان میں شر کی کوئی گنجائش نہیں ۔جنات آگ سے پیدا ہوئے ہیں 'چنانچہ وہ نیک اور صالح ہونے کے باوجود بدی کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن انسان بظاہر جتنا بھی برا نظر آئے بہر حال اس میں اچھائی کا تناسب جنات کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔انسانوں اورجنات کی ارواح میں یہ فرق خالق کائنات نے قائم کیا ہے ' اس لیے میں اور تم اس خلیج کو پاٹ سکنے سے رہے''۔
طرطوش کو باوا جی کی یہ باتیں ناگوار گزر رہی تھیں لہذا انہوں نے موضوع بدل دیا اور طب کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔
رات آدھی سے زیادہ بیت گئی تھی۔ باوا جی اورطرطوش کی یہ نشست معمول سے خاصی طویل ہو رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے دونوں دوست دن چڑھے تک یونہی طب کی گتھیاں سلجھاتے رہیں گے ۔ سحری سے کچھ دیر پہلے باوا جی نے تہجد کی نماز ادا کی اور کچھ دیر کے لیے آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے ۔ انہوں نے طرطوش کو اس کی دنیا میں واپس جانے کی اجازت دی تو وہ عقیدت و احترام کے ساتھ کہنے لگا:'' نہال شاہ! میں چاہتا ہوں آج میرے شاگرد فجر کی نماز آپ کی امامت میں ادا کریں۔اس وقت تک آپ کچھ دیر کے لیے آرام کر لیں ' میں یہاں پہرہ دیتا ہوں۔
باوا جی نے خوش دلی کے ساتھ اجازت دے دی اور طرطوش فجر ہونے تک باوا جی کا پہرہ دیتا رہا۔پھر اس نے باوا جی کو جگایا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں وضو کرایا۔اسی اثنا میں طرطوش س کے شاگرد جنات بھی حاضر ہو گئے۔ جنگل کی تاریکی میں سفید لبادوں اور انسانی روپ میں ڈھلے ہوئے جواں قامت جنات کی ایک قطار نے باوا جی کی امامت میں نماز ادا کی ۔نماز کے بعد باوا جی نے تلاوت قرآن پاک کی اور انہیں چند فقہی مسائل بتائے۔
اب طرطوش کے واپس جانے کا وقت ہو نے والا تھا۔اپنی دنیا سے جدا ہوئے بہت وقت گزر گیا تھا۔ جانے سے پہلے معاً اسے کچھ یاد آگیا اور اس نے کہا:
''نہال شاہ ! میں آپ کو یہ بتانا بھول ہی گیا ہوں کہ بنتوچمار اسی جنگل میں موت کی ہچکیاں لے رہا ہے۔ جب آپ سو رہے تھے میں نے سارے جنگل کا گشت کیا تھا۔ اس دوران میری نظر اس پڑ گئی ۔ وہ گہرے کھڈ میں پڑا ہے اور اس کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں ۔ میں نے اپنے ایک شاگرد کو اس کی حفاظت پر چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ بتائیں اس کا کیا کرنا ہے''۔
باوا جی نے جھٹ سے کہا:'' اسے نکال کر ادھر لے آؤ''۔
طرطوش نے اپنے چہیتے مستان جن کو اشارہ کیا: ''تم جاؤ اور اسے اٹھا لاؤ'' پھر اس نے باوا جی سے کہا ''میں حیران ہوں وہ جنگل میں کیا لینے آیا تھا؟''
باوا جی نے اسے بنتوچمار' اس کی بیوی اور بلونت سنگھ کا سارا قصہ سنا دیا۔ یہ سن کر طرطوش بھڑک اٹھا اور گرج کر بولا :''نہال شاہ! میں بلونت سنگھ کا گلا اس کی کرپان سے کاٹ دوں گا۔ اس بدکار کی یہ جرات کہ اس نے آپ کو دھکا دے کر گرایا اور بے عزتی کی۔میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
''نہیںطرطوش ! تم یہ نہیں کرو گے۔ میں نے جب اسے معاف کر دیا ہے تو تمہیں اس سے بدلہ لینے کی ضرورت نہیں۔''
اس دوران مستان' بنتو چمار کو اٹھا کر لے آیا۔ باوا جی نے اپنے تھیلے میں سے ایک چراغ نکالا اور جلا کر اس کی روشنی میں بنتو کا جائزہ لینے لگے۔ وہ بری طرح گھائل ہوا تھا اور اس کی دائیں ٹانگ جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔ اس کے باوجود اس کی نبض چل رہی تھی۔ باواجی کے پاس اس وقت کوئی دوائی نہیں تھی ۔انہوں نے طرطوش کو چند ادویات لانے کے لیے کہا جو اس نے کچھ ہی دیر بعد حاضر کر دیں ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی نے بنتو کے پورے جسم پر ان ادویات کی مالش کی اور اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر چند جڑی بوٹیوں کا لیپ کرنے کے بعد اوپر کپڑا باندھ دیا پھر ایک پیالہ پانی میں دوائی گھول کر اس کے منہ میں قطرہ قطرہ ٹپکانے لگے ۔کوئی دس منٹ بعد اس نے سسکاری بھری اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے لگا۔ باوا جی نے اسے مخاطب کیاتو''بنتو چمار باوا جی کی آواز سنتے ہی ہڑبڑا اٹھا اور اس کی بے ہوشی کافور ہو گئی ۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ پہلے اسے گمان ہوا کہ وہ خواب میں باوا جی سے مل رہا ہے مگر باوا جی نے اسے اپنی موجودگی کا یقین دلایا تو اس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے ۔ باواجی نے اسے بتایا کہ وہ انہیں کس حالت میں جنگل سے ملا ہے ' البتہ انہوں نے اسے یہ بتانا مناسب نہ سمجھا کہ اسے جنات نے زخمی حالت میں دریافت کیا تھا اور وہی اسے اٹھا کر لائے ہیں ۔
بنتو چمار باوا جی کی عنایات جان کر زارو قطار رونے لگا اور ہچکیاں بھرتے ہوئے بولا:'' سرکار! میں نے آپ کی بات نہ مان کر بہت بڑا پاپ کیا ہے اور اس کی کڑی سزا بھی بھگتی ہے۔ آپ مجھے شما کردیں '' اس نے باوا جی کے پاؤں پکڑ لیے اور اپنا سر ان کے قدموں میں رگڑنے لگا : بنتو کی اس حرکت پر مستان کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ ہنسنے کی اس عجیب و غریب آواز پر بنتو نے یکدم رونا بند کر دیا اور چونک کر سر اٹھا کر گردوپیش میں دیکھنے لگا۔ وہ حیران تھا کہ باوا جی تو اس طرح کبھی نہ ہنسے ہوں گے کیونکہ یہ آواز تھی ہی غیر انسانی۔
باواجی کو مستان کا یوں ہنسنا اچھا نہ لگا اور انہوں نے اسے جھڑک دیا'' دفع ہوجاؤ۔ اور تم بھی جاؤ''۔ انہوں نے مستان او راس کے ساتھیوں سے کہا تو بنتو چمار ایک بار پھر ان کے قدموں میں گر گیا اور رونے لگا۔
''باوا جی سرکار مجھے قدموں سے جدا نہ کریں''۔ وہ سمجھا تھا کہ باوا جی نے اسے جھڑکا ہے ۔باوا جی کو اس کی غلط فہمی اندازہ ہو گیا تھا۔ لہذا نہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:''بنتو! اب اٹھو اور میری بات غور سے سنو۔''بنتو چمار میکینکی انداز میں یوں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا جیسے اس کے بدن میں کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہی نہیں تھی۔ وہ ایک صحت مند انسان کی طرح حرکت کر رہا تھا ۔


٭٭٭٭٭٭
 

راجہ صاحب

محفلین
یہ باوا جی کی دوائیوں کا حیرت انگیز اثر تھا کہ اس کے سارے زخم مندمل ہو گئے تھے اور جسم میں توانائی بھی رواں ہو گئی تھی' البتہ اس کی ٹانگ کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے جوڑ ابھی تک جدا تھے مگر اسے کوئی درد محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
باوا جی نے بنتوچمار کو اس کی بیوی اور بلونت سنگھ کے تعلقات سے آگاہ کیا اور سمجھایا:'' دیکھو بنتو! جو بندہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا ' وہ بے غیرت کہلاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آدمی جسمانی طور پر طاقتور ہی ہو تو اپنی غیرت کا اظہار کر سکے۔ غیرت تو چیونٹی جتنی بھی ہو تو ہاتھی جیسے پہاڑ کو ماردیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم بلونت سنگھ کو جان سے مار دو' اگرچہ وہ اسی سلوک کا مستحق ہے مگر میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم روشنا کو چھوڑ دو۔وہ کبھی تمہاری ہوئی ہے نہ ہو سکے گی۔وہ ایک ڈائن ہے اور جب بھی اسے موقع ملا تمھیں کھا جائے گی۔ اگر تو زندہ رہنا چاہتا ہے تو غیرت کے ساتھ جی اور مرناہے تو جی داروں کی طرح مر۔''
بنتو چمار باواجی کی باتیں سن کر شرمندگی سے زمین میں گڑ گیا ۔ وہ بولا:''باوا جی سرکار! میں جانتا ہوں کہ روشنا بلونت سنگھ کی رکھیل ہے مگر میں کیا کرسکتا تھا۔ وہ گاؤں کے والی وارث ہیں ۔ہم ان کا ہی دیا کھاتے ہیں اور ہماری جانوں پر انہیں مکمل اختیار حاصل ہے۔ یہ میری بد قسمتی ہے کہ سارے گاؤں میں روشنا سے بڑھ کر کوئی اور خوبصورت ناری نہیں۔ اگرچہ وہ میری پتنی ہے مگر صرف نام کی حد تک ۔بلونت سنگھ سے پہلے اس کا باپ کہرام سنگھ روشنا پر نظر رکھے ہوئے تھا مگر بیٹے کو جب روشنا نظر آئی تو اس نے اپنے باپ سے بات کی۔ بلونت اپنے باپ کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہے۔ اس لیے کہرام سنگھ اس کے راستے سے ہٹ گیا اور اس نے روشنا کے سارے حقوق بیٹے کے نام کر دیے۔ اب آپ ہی بتائیے باوا جی! میں کیا کروں؟ آپ کہتے ہیں میں غیرت کے ساتھ زندہ رہوں۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھے غیرت کے ساتھ کون جینے دے گا؟ یہ کہہ کر بنتو رونے لگا اور بولا:'' باوا جی! روشنا مجھے اپنی قربت کے جھانسے دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اولاد پیدا نہیں کر سکتی۔ اسے کوئی بیماری ہے۔ مگر مجھے اولاد کا بڑا جنون ہے ۔ اسی لیے تو کبھی بوڑی کے کنویں سے پانی لانے پر راضی ہو جاتا ہوں اور کبھی شیرنی کے دودھ کی خاطر جان خطرے میں ڈال لیتا ہوں۔ آپ نے پہلے بھی مجھے بتایا تھا کہ روشنا وفا کی دیوی نہیں مگر میں اس کی باتوں میں آکر بہل گیا تھا اور شیرنی کادودھ لینے اس جنگل میں آگیا تھا۔'' اس کے بعد بنتونے باوا جی کو بتایا کہ کس طرح جنگل میں داخل ہوتے ہی وہ خوفزدہ ہو گیا اور جنگلی جانوروں کی آوازیں سن کر بھاگ اٹھا مگر جھاڑیوں میں الجھ الجھ کر گرنے اور خوف کی شدت سے حواس باختہ ہو کر وہ ایک گڑھے میں گرگیا تھا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
٭٭٭٭٭٭​


باوا جی نہ جانے بنتو چمار میں اس قدر کیوں دلچسپی لے رہے تھے۔ انہیں اس معصوم اور کمزور انسان سے ایک خاص انس ہو گیا تھا۔ تبھی وہ اس پر مہربان ہو رہے تھے۔ انہوں نے اس کی باتیں بڑے غور سے سنیں اور کہا: ''بنتو! میں تیرا درد جانتا ہوں مگر تیرے اس درد کی دوا بھی میں ہی بنوں گا۔ آج سے میں تیرا سایہ بن کر رہوں گا۔ بس تو اپنے اندر حوصلہ پیدا کر اور اپنی بستی میں واپس چلا جا ۔تیرے دشمن تیرا انتظار کر رہے ہیں۔''
باوا جی کی باتوں نے بنتو کو حوصلہ دیا' اس کے اندر یقین کی چنگاری سلگنے لگی اور وہ خود پر اعتماد کرنے کے قابل ہو گیا۔ اسے یہ یقین ہو گیا تھا کہ باوا جی فہال شاہ جس طرح آڑے وقت میں اس کی مدد کو پہنچ رہے ہیں اس طرح مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات میں بھی اس کی مدد کریں گے۔
باوا جی کی ادویات نے بنتو کے زخم تو بھر دیے تھے مگر ابھی وہ اپنی ٹانگوں کے سہارے چلنے سے معذور تھا ' لہذا باوا جی نے اسے اپنے ساتھ نمولیاں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اگلی صبح وہ بنتوکو لے کر جنگل سے کسی طرح باہر نکلے۔ اس بارے میں یہ روایت ہم تک پہنچی ہے کہ انہوں نے اپنی پراسرار طاقتیں استعمال کرنے کے بجائے بنتو کو اپنے کاندھوں پر بٹھا لیا تھا اور پیدل ہی گھنے جنگل عبور کرنے لگے۔ بنتو خود حیران تھا کہ ایک نحیف شخص کس قدر آرام کے ساتھ ایک شخص کو اٹھائے پیدل چل رہا ہے ۔جنگل میں جانوروں کی چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ اور درندے بھاگتے دوڑتے پھر رہے تھے۔ بنتو انہیں دیکھ کر خوف سے مرا جارہا تھا مگر باوا جی کی بے نیازی دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ انہیں جانوروں کا کوئی خوف نہیں تھا۔ اس کے لیے ایک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ کسی بھی درندے نے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا' البتہ جب وہ کسی وحشی جانور کے پاس سے گزر رہے ہوتے تو وہ عجیب انداز میں فضا میں کچھ تلاش کرنے لگتا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ فضا میں کسی نامانوس بو کو محسوس کررہا ہو۔ بنتو کو اسی طرح کے حیران کن تجربات سے پالا پڑتا رہا اور انہوں نے کوئی ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد جنگل عبور کر لیا۔ آگے کھلے سر سبز شاداب لہلہاتے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ پہاڑ کے دامن میں پھیلے ہوئے ان کھیتوں میں ہرن' چنکارے' جنگلی گھوڑے اور خرگوش گھوم پھر رہے تھے۔ باوا جی نے ایک گھوڑے کو قابو کیا اور بنتو کو اس پر بٹھا کر خود بھی اس پر سوار ہوگئے اور پھر اسی گھوڑے پر سفر کرتے ہوئے نمولیاں آگئے۔
بنتو اس وقت تک نمولیاں میں رہا جب تک وہ اپنی ٹانگوں پر چلنے پھرنے حتیٰ کہ دوڑنے کے قابل نہ ہو گیا۔ وہ باوا جی کی سیوا میں لگا رہتا تھا۔ باوا جی نے بھی اس پر خصوصی توجہ دی اور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ایک روزاس نے اسلام قبول کر لیا۔باوا جی نے اس کا اسلامی نام نور دین رکھ دیا۔
ایک مہینے بعد نور دین نے بلاداد جانے کے لیے رخت سفر بندھا اور باوا جی سے اجازت طلب کی ۔انہوں نے اسے نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت ہونے کی اجازت دی اور سمجھایا:'' نور دین! اﷲ نے تجھے اپنے نور سے فیض یاب کیا ہے تو اس نام کی لاج بھی رکھنا۔ اپنی بستی میں اسلام پھیلانے کی کوشش کرنا۔ تقدیر نے ترے راستے بڑے کشادہ کر دیے ہیں مگر ایک بات یاد رکھنا۔ غریبوں اور کمزوروںپر کبھی ظلم نہ کرنا اور ناانصافی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا۔''
نور دین نے ممنونیت کے ساتھ کہا'' باوا جی سرکار! میں آپ کی باتوں پر عمل کروں گا''۔
بنتو چمار اب نور دین کے روپ میں بلاداد کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ وہ اندر باہر سے مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ باواجی نے اسے رخصت کرتے وقت شیر کی ہڈی پر عمل کر کے دیا اور تاکید کی اور کہا ''نوردین اسے کالے دھاگے کے ساتھ باندھ کر اپنے گلے میں ڈال کر رکھے ۔پھر تعویذ اپنے گلے سے کبھی نہ اتارنا۔ شیر کی ہڈی تیرے اندر شیروں جیسی طاقت اور خوبیاں پیدا کر دے گی۔ یاد رکھ یہ راز بھی کسی کو نہ بتانا کہ تمہاری طاقت بڑھانے میں یہ تعویذ کیا کمالات دکھا رہا ہے۔'' نور دین نے تعویذ لے کر سنبھال لیا اور اسی روز بلاداد کے لیے روانہ ہو گیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
ایک روز باوا جی لال شہباز قلندر کے ٹیلے پر اپنے مداحوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ہندو بھی تھے اور سکھ بھی۔ سبھی اپنے مسائل بیان کر رہے تھے اور باوا جی انہیں فرداً فرداً ان کے مسائل کے حل بتا رہے تھے۔ کسی کو وہ تعویذ دے رہے تھے تو کسی کے لیے طبی ادویات تجویز کر رہے تھے۔ انہوں نے منصور خاں کے واقعے کے بعد اپنی یہ عادت بنائی تھی کہ وہ حتی الامکان اپنی پراسرار طاقتوں بالخصوص جنات کے ذریعے سائلوں کے مسائل حل نہیں کراتے تھے۔بلکہ عملیات اور علم نجوم کی بدولت لوگوں کے مسائل حل کرنے شروع کردیے تھے۔ انہوں نے پراسرار علوم کا ایک ملغوبہ سا بنا لیا تھا۔ وہ بیک وقت قرآنی علوم سے بھی استفادہ کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ طب اور نجوم کو بھی استعمال کرتے۔ یہ بات ہمیں معلوم نہیں ہو سکی کہ باوا جی کو یہ ستاروں کا علم کیسے حاصل ہوا' البتہ اس بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ یہ علم انہوں نے اپنے ہی گاؤں کے ایک پنڈت سے سیکھا تھا۔
نمولیاں میں ہندو بھی آ باد تھے ۔ وہ پنڈت کالے جادو اور جوتش کا علم جانتا تھا۔ غالباً اسی نے باوا جی کو جوتش اور کالے علوم کی چاٹ لگائی تھی۔ میں اپنے جدا مجد کی ان پراسرار قوتوں کو روحانیات کا حصہ اس لیے نہیں ٹھہرا سکتا کہ وہ قرآن پاک اور نمازیں پڑھنے کے علاوہ دیگر علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ یہ علوم اسلامی تعلیمات کے برعکس ہو تے ہیں اور ان پر دسترس حاصل کرنے کے لیے عامل کو انتہائی گھٹیا غیر انسانی حرکات اور چلے کرنے پڑتے ہیں۔ ان حرکات کے بغیر ان علوم پر مکمل دسترس حاصل کرنا ناممکن ہے۔ البتہ اگر ایک انسان اسلامی علوم کی بدولت صرف روحانی طاقتوں کے حصول کے لیے عبادت ریاضت کرے تو وہ دیگر مخفی علوم سے بھی زیادہ قوت حاصل کر لیتا ہے۔ایسا شخص اﷲ کا برگزیدہ بندہ بن جاتا ہے اور اس کی نگاہ سے لوگوں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں…مگر علوم کا ملغوبہ تیار کر کے اپنے اندر پراسرار طاقتیں جمع کرنے والے لوگ ذرا مختلف ہوتے ہیں۔باوا جی انہی مختلف لوگوں میں سے تھے۔ وہ دنیا کے آدمی تھے مگر اپنے باطنی علوم کی بدولت اپنے علم کا صدقہ بھی ادا کرتے اور نیک کاموں مائل رہتے تھے۔ انہوں نے کالے علوم سے تو اجتناب کیا تھا' تا ہم وہ اس علم کی تمام مکروہ رسموں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے آگاہ تھے۔ وہ علم جوتش میں اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہ علم چونکہ ستاروں کے حساب کتاب' انکی چال ڈھال اور انسانی زندگیوں پر ان کے اثرات کے بارے میں روشنی ڈالتا ہے' اس لیے باوا جی اسے غیر اسلامی سمجھتے ہوئے اس کا پرچار بہت کم کیا کرتے تھے۔
لیکن اس روز جب وہ لال شہباز قلندر کے ٹیلے پر بیٹھے تھے تو انہیں برسرعام اس علم سے استفادہ کرنے کی ضرورت پیش آ گئی۔ ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے خاندان کے آدمیوں کے زائچے بنانے شروع کر دیے اور کئی گھنٹوں تک ستاروں کی الجھی چالیں تلاش کرنے میں مصروف رہے۔ انہوں نے جب منصور خان کا زائچہ بنایا تو چونک پڑے اور اس فکر میں مبتلا ہو گئے کہ منصور خاں بظاہر اسقدر خوفناک نہیں ہو سکتا جتنا کہ وہ زائچے میں نظر آرہا تھا۔ انہوں نے اس کا زائچہ ایک سے زائد بار بنایا مگر نتیجہ ایک نکل ہی رہا تھا جو باواجی کے حق میں بہتر نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭​
 

راجہ صاحب

محفلین
اتفاق کی بات ہے کہ اس روز گڑھ شنکر کا پجاری پنڈت گرو راما نرائن نمولیاں آگیا۔ وہ بابا منوہر کے مندر میں ایک جاپ کرنے آیا تھا۔ گاؤں کے چودھری باوا نہال شاہ کے پراسرار علوم کی بھنک اس کے کانوں میں پڑی ۔پنڈت راما نرائن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ کالے علوم میں استاد کا درجہ رکھتا ہے اور کالی ماتا کے پجاری اس کے چرن دھو کر پیتے تھے۔
باوا جی کی شریک برادری کے دماغ ابھی ٹھکانے نہیں آئے تھے اس لیے انہیں جونہی یہ خبر ملی کہ گڑھ شنکر سے پنڈت راما نرائن آیا ہے تو انہوں نے باوا جی کے خاتمے کے لیے اس کی مدد حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لیے منصور خاں کو آگے کر دیا۔ منصور خاں نے پہلے تو ان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا مگر برادری کے بار بار طعنوں سے گھبرا کر اس نے پنڈت رامانرائن سے ملنے کا فیصلہ کر لیا اور اسی شام رات ڈھلتے ہی وہ بابا منوہر کے مندر میں گیا ۔اس نے پنڈت راما نرائن سے ملکر اسے اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ باوا جی کو کالے جادو کی بدولت ختم کر دیں۔راما نرائن بڑا گھاگ اور شیطان کا چیلا تھا۔ اس نے منصور خاں سے کارو باری لہجے میں بات کی اور کہا:
''بالکے ! میں تیرا کام کر تو دوں۔ مگر مجھے کیا ملے گا؟''
''آپ جو حکم کریں' میں حاضر کردوں گا'' منصور خاں نے جواب دیا۔
''نہیں بالکے ! تم مجھے راضی نہیں کر سکو گے''
راما نرائن کی آنکھوں میں ہوس کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں۔ لمبی لمبی جٹوئیں 'ماتھے پر سیندور ' ٹھوس بدن' عمر پچاس برس کے لگ بھگ۔ اس نے منصور خاں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا:'' تم یہی چاہتے ہو نا کہ نہال شاہ کو ماردوں اور تم لوگ اس کی حویلی اور زمینوں قابض ہو جاؤ اور تمہیں گاؤں کی چودھراہٹ مل جائے۔
منصور خاں نے اقرار میں سر ہلایا۔
''مگر یہ سوچو کہ یہ کام کر کے مجھے کیا ملے گا''
''میں آپ کی جھولی بھر دوں گا۔'' منصور خاں نے کہا۔
''لیکن بالکے! میری جھولی توپہلے ہی بھری ہوئی ہے۔ دھن دولت کی میرے پاس کوئی کمی نہیں '' پنڈت منصورخاں کا چہرہ دیکھتے ہوئے برابر مسکراتا رہا۔
''پھر آپ ہی کچھ بتائیے '' منصور خان زچ ہو کر بولا
''مجھے اس گاؤں کی سب سے سندر ناری چاہیئے اور وہ ہو بھی مسلمان۔ اگرچہ ہم تم لوگوں کو ملیچھ سمجھتے ہیں مگر آشاؤں کا بھوجن تو یہی مخلوق ہوتی ہے۔ مندر کے اس ویرانے میں ملیچھ رہتا ہے نہ کوئی ……'' پنڈت نے بات ادھوری چھوڑ کر منصورخان کی طرف دیکھا جو تذبذب میں پڑ گیا تھا۔
''ہے نہ یہ مشکل کام؟'' پنڈت راما نرائن بولا: ''منصور خان ! تیری ساری آشائیں صرف پنڈت راما نرائن ہی پوری کر سکتا ہے۔ میںنے تیری جنم کنڈلی بنا کر پڑھ لی ہے۔ تیرے لیکھوں میں راج یوگ ہے۔ تیرے ستاروں کی روشنیاں تیرے آنے والوں دنوں کی تاریکیاں کھا جائیں گی۔ اگر تو اس جیسے دس دیہات کا سب سے بڑا زمیندار بننا چاہتا ہے تو مجھے خوش کر دے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
میں تجھے وچن دیتا ہوں تجھے نامراد نہیں رہنے دوں گا۔''
منصور خان پنڈت کی باتیں سن کر گنگ رہ گیا۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ جذباتی بہت تھا اور جذبات میں آتے ہی اس کا دماغ سن ہو جاتا تھا۔ پنڈت کی باتیں سن کر وہ سنہری مستقبل کے خواب دیکھنے لگا تھا ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے اس اپنے گھر اور غیرت کی دیواروں میں نقب لگائی تھی۔یہ بات تو منصور خان بھی جانتا تھا کہ نمولیاں جیسے بڑے گاؤں میں صرف ایک اس کی بہن روشن ہی تھی جو پنڈت کے معیار پر پوری اتر رہی تھی۔اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ روشن ہی کی وجہ سے باوا جی نہال شاہ نے اس کی خطائیں معاف کرتے ہوئے دوبارہ ایک جیتے جاگتے انسان کا روپ دیا تھا۔ اور وعدہ لیا تھا کہ منصور خان آئندہ ایسا نہیں کرے گا اور اب جب سے نہال شاہ دوبارہ گاؤں آئے تھے تو اسے یہ سن گن بھی ہوگئی تھی کہ روشن باوا جی نہال میں دلچسپی لے رہی ہے۔ یہ باتیں منصور خان کو شدید ناگوار گزری تھیں' لہذا اس نے گاؤں کی چودھراہٹ حاصل کرنے کے لیے پنڈت سے اپنی غیرت کا سودا کر لیا۔

٭٭٭٭٭٭​

مندروں کی گندی سیاست میں جنم لینے والے ہندوؤںنے شروع دن ہی سے برصغیر کے ان مسلمانوں کے خلاف ایسے گھناؤنے جال پھیلا دیے تھے جو کسی نہ کسی گاؤں کے مالک ہوتے تھے۔ ان کے خلاف ان کی برادری میں سے ان کے دشمن پیدا کرتے اور انہیں اپنی ''شکتی'' دے کر خاندانی دشمنیوں کی داغ بیل ڈالتے رہتے تھے۔ نمولیاں میں بھی باوا جی نہال شاہ کے آباؤ اجداد کی وجہ سے مسلمانوں کا دبدبہ تھا مگر باوا جی کی اپنی غلطی کہہ لیں کہ انہوں نے زمینوں اور چودھراہٹ میں ایک طویل عرصہ دلچسپی نہیں لی تھی جس کی وجہ سے ان کی شریک برادری میں پھوٹ پڑ گئی تھی اور گاؤں کے اونچی ذات کے ہندوؤں نے بھی اس خاندان کو ختم کرنے کے لیے اندورون خانہ سازشوں کے جال پھیلا رکھے تھے' البتہ وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے تھے۔ اب انہیں منصور خان کے روپ میں ایک کارندہ مل گیا تھا جو باوا جی نہال شاہ سے اپنی بے عزتی اور ہزیمت کا بدلہ لینے پر تل گیا تھا۔
منصور خان پنڈت رامانرائن کو اپنے مقاصد کی خاطر شیشے میں اتارنے گیا تھا مگر پنڈت نے اسے اپنے شیشے میں اتار لیا اور اسے اپنی غیرت گروی رکھ کر گاؤں کی چودھراہٹ کے خواب دکھا دئیے تھے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی کو ختم کرنے کے لیے پنڈت نے منصور خان کو ایک چھوٹی سی بند پڑیا دی اور اسے سمجھاتے ہوئے کہا :'' منصور خان !١ اس پڑیا میں ایک کوڑھی کا مسان ہے۔ تم یہ مسان کسی طرح نہال شاہ کو کھلا دو۔''
''مگر میں کیسے کھلا سکتا ہوں؟ وہ تو میرا دشمن ہے اور وہ کبھی بھی میرے ہاتھ کا دیا نہیں کھائے گا۔ آپ ایسا کریں کوئی جادو وغیرہ کر کے اس کو ختم کر دیں۔ یہ کھلانے پلانے والا طریقہ رہنے ہی دیں تو بہتر ہے''۔ منصور خان نے کہا۔
''میں نے اپنی شکتی اس مسان میں اتار دی ہے اور نہال شاہ کو مارنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے کھائے۔ تمہیں خود بھی معلوم ہے کہ نہال شاہ مہان شکتی کا مالک ہے۔ اس لیے اسے مارنے کے لیے جادو کے بجائے مسان یا زہر استعمال کرنا پڑے گا۔''
''پنڈت جی! کیا آپ کو یقین ہے کہ مسان کھانے سے وہ مر جائے گا؟'' منصور خان نے سوال کیا۔
''بالکے! وہ مرے گا اور تمہارے سامنے تڑپ تڑپ کر مرے گا''۔ پنڈت نے اسے بتایا'' یہ جو مسان ہے' بڑا ہی کارگر زہر ہے۔ شاید تمہیں نہیں معلوم کہ مسان ہوتا کیا ہے۔ ہم جب مردوں کو جلاتے ہیں تو ان کی راکھ گنگا میں بہادیتے ہیں۔ لیکن ہم بیمار ہندوؤں کے مرنے پر ان کی راکھ چوری بھی کر لیتے ہیں اور ان پر عملیات کر کے بھلے چنگے لوگوں کو کھلا دیتے ہیں۔ مرنے والا جس مرض میں مبتلا ہو کر مرتا ہے' یہ راکھ کھانے والا اسی بیماری میں مبتلا ہو کر مرجاتا ہے۔ اور اس کا کوئی توڑ بھی نہیں نکال سکتا''۔
منصور خان نے پڑیا پنڈت کے ہاتھ سے لے لی اور بولا:''سرکار آپ سے کیا وعدہ اس وقت پورا کروں گا جب آپ کا کیا ہوا وعدہ پورا ہوگا۔''
پنڈت راما نارائن نے ایک مکروہ قہقہ بلند کیا اور اپنی جٹاؤں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا:'' اچھا ٹھیک ہے ہم ہیں تو ندیدے مگر تمہاری بات مان لیتے ہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ پنڈت سے وعدہ خلافی کرنے والا زندہ نہیں رہتا۔''
منصور خاں پنڈت کی ہدایات حاصل کرکے جب مندر سے باہر نکلا تو پورا گاؤں تاریکی کی چادر میں بکل مارے سو رہا تھا۔ وہ اپنی حویلی میں چلا گیا اور مسان کو نہایت احتیاط کے ساتھ سنبھالنے کے بعد سو گیا ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
رات اس نے سنہری خواب دیکھنے میں گزاری تھی۔ اگلے روز وہ تڑکے وقت اپنے حواریوں سے ملا اور انہیں مقصد میں کامیابی کی نوید سنائی مگر انہیں یہ نہیں بتایا کہ پنڈت اور اس کے درمیان سمجھوتہ کیا ہوا ہے۔
اس روز منصور خان باوا جی سے ملنے کے لیے لال شاہ باز کے ٹیلے پرپہنچ گیا اور اس نے اپنی اگلی پچھلی گستاخیوں کی معافی مانگ کر اپنے گھر میں کھانا کھانے کی دعوت دی جسے باوا جی نے قبول کر لیا۔
شام کے وقت باوا جی حسب وعدہ منصور خان کے گھر چلے گئے ۔منصور خان کی ماں اور بہنیں تو کھانے کی تیاری میں لگ پڑیں اور منصور خان' باوا جی کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔باوا جی نے جب سے منصور خان کا زائچہ بنایا ہوا تھا ' انہیں اس کی طرف سے کھٹکا سا لگ گیا تھا۔ مگر نہ جانے انہوں نے پھر بھی کیوں اس کی دعوت قبول کر لی تھی۔ باوا جی نے منصور خان کی آنکھوں میں اضطرابی کیفیت بھی دیکھی تھی۔ اس کا لہجہ اور آنکھیں اس کی باتوں کی چغلی کھاتی تھیں مگر باوا جی نے انہیں یکسر نظر انداز کر دیا' البتہ' باوا جی خود بے چین نظر آرہے تھے۔ بظاہر وہ منصور خان سے باتیں کر رہے تھے۔ مگر ان کی آنکھیں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ منصور خان بھی ان کی بے چینی کا مطلب جان چکا تھا۔ باوا جی کو ابھی تک روشن نظر نہیں آئی تھی۔ حالانکہ اس کی ماں اور دوسری بہنیں آکر نہ صرف ان سے مل چکی تھیں بلکہ ان کے ساتھ باتیں بھی ہوئی تھیں۔ لیکن باوا جی کو یہ پوچھتے ہوئے لاج آرہی تھی کہ روشن کہاں ہے۔ وہ روشن جس نے ان کے دل کے اندھیروں کو محبت کی روشنی سے پرنور کر دیا تھا۔ وہ پوچھتے بھی تو کیسے؟ اس لیے وہ اپنی بے کلی کو لگام دینے میں ہی لگے رہے مگر ان کی بے قرار آنکھوں کو قرار نہ آرہا تھا۔
اس دوران کھانا چن دیا گیا ۔کھانا صرف باوا جی اور منصور کے لیے ہی رکھا گیا تھا۔ کھانا آتے ہی منصور خاں کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ باوا جی نے اس کے چہرے کی یہ تبدیلی صاف طور پر محسوس کر لی تھی اور ابھی وہ اس سے کچھ پوچھنے ہی لگے تھے کہ منصور خان خود ہی اچانک بول اٹھا۔
''نہال شا ہ آؤ پہلے ہاتھ دھولو''اس کے ساتھ ہی اس نے دروازے پر جاکر روشن کو آواز دی ''ارے او روشن! ادھر آؤ بڑے چوہدری کے ہاتھ دھلا دے۔'' روشن کا نام سنتے ہی باوا جی کی آنکھوں میں قرار لوٹ آیا۔ وہ دھیرے سے اٹھے ' اسی لمحے روشن اندر آگئی۔ اس نے بھاری سی چادر سے سر ڈھانپ رکھا تھا۔ اس نے باوا جی کو سلام کیا اور باوا جی خاموشی کے ساتھ کمر سے باہر نکل گئے اور جب ایک آدھ منٹ بعد واپس کمرے میں آئے تو منصور خان باوا جی کے چہرے پر سکون دیکھ کر مطمئن ہو گیا کیونکہ اب وہ خود بھی مطمئن ہو چکا تھا۔ اس نے باوا جی کے کھانے میں مسان شامل کر دیا تھا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر کھانے کے بعد انہوں نے منصور خان سے کہا'' منصورے! میں نے آج تک اس قدر لذیذ اور پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا……''
ابھی وہ بات مکمل بھی نہ کر سکے تھے کہ منصور خان کی ماں اندر آگئی۔ وہ باوا جی کی بات سن کر بولی:'' کھانا مزیدار کیوں نہ ہوتا نہال شاہ پتر……یہ کھانا میری روشن نے جو پکایا ہے۔''
''سبحان اﷲ۔'' باوا جی کے منہ سے نکلا۔
منصور خان کی ماں باوا جی کے پاس بیٹھ گئی اور بولی :''نہال شاہ! اگر تو برا نہ مانے تو ایک بات کہوں۔''
''چاچی! آپ ایک نہیں سو باتیں کریں۔میں برا کیوں مانوں گا۔'' باوا جی نے خوشدلی کے ساتھ کہا۔
''پتر میں اکثر سوچتی ہوں کہ تو کیا چیز ہے ۔تجھے نہ اپنی فکر ہے نہ اپنی جائیداد اور زمینوں کی ۔ ہمارے سوا تیرا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں ہے۔ اگر تیرے ماں باپ زندہ ہوتے یا کوئی بہن بھائی ہی ہوتا تو شاید تمہیں ان کی فکر ہوتی اور تو ان کے لیے اور پھر اپنے لیے کچھ اچھا برا سوچتا۔ لیکن اﷲ نے تجھے ساری فکروں سے ہی آزاد کر دیا ہے۔ اب میری مان شادی کرلے۔ یہ بھری جوانی کی عمر توکب تک اکیلا رہے گا۔ تیری اتنی بڑی حویلی کب تک سنسان رہے گی۔ اگرچہ آج یہ رونقیں تیرے دم سے ہیں مگر جب تو نہ ہو گا تو اس حویلی اور زمینوں پر جانتا ہے کون قبضہ کریں گے جو تیری غیر موجودگی میں یہاں قابض تھے۔ اگر تیرا کوئی بال بچہ ہو گا تو پھر یہ ساری جائیداد ان کی ہو گی۔ اپنی آنے والی نسل کی خاطر اگر تو اس جائیداد کی رکھوالی کرے گا تو یہ بات مناسب لگے گی۔ اگر تو نے شادی ہی نہیں کرنی تو پھر اتنی زمینوں اور حویلی کا کیا کرے گا۔''
منصور خان کو اپنی ماں کی یہ نصیحت آموز باتیں انتہائی ناگوار گزریں ۔وہ بولا:
'' ماں چھوڑ تو کیا باتیں لے بیٹھی ہے۔نہال شاہ کوئی بچہ نہیں کہ جسے دنیا داری کی سمجھ نہیں۔ ویسے بھی وہ جس کام پڑا ہوا ہے ' اس کا تقاضا ہے کہ ابھی شادی نہ کرے۔ ورنہ اس کی ساری ریاضت ختم ہو جائے گی۔''
باوا جی منصور خان کی بات سن ہنس پڑے۔ وہ بولے ''چاچی ٹھیک کہتی ہے' میں اب شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ لیکن میں اس لیے خاموش ہوں کہ مجھے اس بارے میں بات کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
''لے پتر یہ کیا بات ہوئی۔'' منصور خان کی ماں بولی ۔''ہم جو ہیں ۔اگر تو کہے تو تیرے لیے کوئی لڑکی تلاش کروں'' یہ بات تو وہ بھی جانتی تھی کہ نہال شاہ روشن میں دلچسپی رکھتا ہے مگر وہ جان بوجھ کر یہ بات زبان پر نہ لائی تھی۔
''ہاں چاچی'' باوا جی نے عندیہ دیا۔''مگر مجھ سے ایک بار پوچھ ضرور لینا۔''
''منصور پتر تو ذرا جانوروں کو ایک نظر دیکھ آ۔ میں اتنی دیر نہال شاہ سے کچھ باتیں کر لوں۔'' منصور خان نے قہر آلود نظروں سے ماں کو گھورا اور اپنی چادر کو کاندھوں پر ڈال کر باہر نکل گیا۔
''نہال پتر! میں لمبی چوڑی بات نہیں کروں گی۔ تو بھی سچ سچ بتا دے ۔تجھے روشن کیسی لگتی ہے؟''
باوا جی کے لبوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی' بولے: ''چاچی ! تم پوچھنا کیا چاہتی ہو؟''
''تو نے خود ہی اجازت دی ہے کہ میرے لیے کوئی لڑکی تلاش کرو۔ مجھے اپنی روشن سے بڑھ کر کوئی اور لڑکی تیرے لیے بہتر نہیں لگتی پتر۔ اور پھر اس کے کھانے کا ذائقہ بھی تجھے پسند آیا ہے۔'' روشن کی ماں دھیرے سے بولی ۔'' میری روشن بہت تابعدار اور نیک ہے۔''

٭٭٭٭٭٭​

اس شام جب باوا جی حویلی واپس لوٹے تو بہت خوش تھے ۔انہوں نے آتے ہی حویلی کے ملازموں میں چاندی کے سکے تقسیم کیے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ کس بات پر خوش تھے۔ لیکن ان کی خوشیوں پر اس وقت زوال شروع ہو گیا جب اچانک ان کی طبیعت گھبرانے لگی اور انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ باوا جی کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے کسی نے ان کے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا ہے اور دماغ دھواں دھواں سا ہونے لگا ہے۔ جسم میں سے توانائی یوں زائل ہو گی جیسے برسوں کے بیمار ہوں ۔اس وقت وہ اپنے مخصوص کمرے ہی میں موجو د تھے لیکن نقاہت نے انہیں اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ اٹھ کر کوئی دوائی کھاتے یاکسی عمل کے سہارے خود کو قائم رکھ سکتے۔انہیں یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ انہیں ایک طاقتور مسان کھلا دیا گیا ہے جو رگ و پے میں سرایت کر کے پورے جسم پر قبضہ جما چکا ہے۔ صرف آدھ گھنٹہ ہی میں باوا جی کی حالت غیر ہوگئی۔ ان کی زبان پھول کر دانتوں او رتالو کے درمیان یوں پھنس گئی تھی کہ منہ کھول سے نہ کھل سکتا تھا۔ پورے جسم پر عجیب و غریب سی خارش شروع ہو گئی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے بدن کی کھال خشک ہو کر پھٹ رہی ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
باوا جی نے ایک بار اپنی توانائیوں کو قابو کرنے کی کوشش کی تھی اور کسی کو مدد کے لیے بلانا چاہا تھا مگر شیطانی مسان نے ان کی قوت گویائی کو سلب کر لیا تھا۔ انہیں یوں لگ رہا تھا جیسے قضا کا وقت آ چکا ہے اور روح ان کے جسم سے فرار حاصل کرنے کے لیے ایک ایک رگ سے اپنا وجود کھینچ رہی ہے۔ باوا جی بے بسی کی موت کی وادیوں میں اترتے جارہے تھے اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کے ذہن پر مکمل تاریکی چھا گئی اور وہ دنیا اور مافہیا سے بیگانہ ہو گئے۔
پنڈت راما نرائن نے منصور خان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا تھا۔ اس کا دیا ہوا مسان باوا جی کو لمحوں میں دیمک کی طرح چاٹ گیا تھا ۔ویسے تو مسان اتنا سریع الاثر نہیں ہوتا البتہ جب اس پر کوئی عمل کر کے کھلایا جائے تو اس کی شدت بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ایسا جادو آمیز مسان بھی بتدریج اثر کرتا ہے۔ مگر باوا جی کو جو مسان کھلایا گیا تھا اس میں پنڈت نے زہر بھی ملا دیا تھا۔ اسے جب یہ معلوم ہوا تھا کہ باوا جی نہال شاہ خود بھی عملیات کے ماہر ہیں تو اس نے کسی قسم کا خطرہ مول لینا مناسب نہیں سمجھا ۔اسے گمان ہو گیا تھا کہ اگر انہیں صرف مسان ہی کھلایا گیا تو وہ اس کے اثر پذیر ہوتے ہی تدارک کرلیں گے۔
عملیات کی دنیا کا یہ اصول ہے کہ کوئی بھی عامل یا جادوگر اپنے مخالف عامل کو معمولی زک نہیں پہنچاتا بلکہ اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی اسے مار دیتا ہے۔ پنڈت نے اسی اصول کے تحت باوا جی کو مسان میں زہر ملا کر کھلوا دیا تھا۔ لیکن باوا جی کی خوش قسمتی تھی کہ نہیں بے ہوش ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی جب طرطوش خلاف دستور حاضر ہو گیا ۔ حالانکہ وہ اس وقت باوا جی کے سامنے آتا تھا جب باوا جی خود اس کی حاضری لگاتے۔
طرطوش باوا جی کی حالت دیکھتے ہی سکتے میں آگیا۔ اس نے جھٹ پٹ ان کی نبض دیکھی جو تقریباً ڈوب چکی تھی۔ اس نے اپنے شاگرد مستان کو طلب کیا اور جلدی سے چند ادویات لانے کے لیے کہا۔ اس دوران طرطوش نے بے جان باوا جی کو اپنی گود بٹھا لیا او رخود کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ یکدم اسے کچھ خیال آیا اور اس نے کمر ے میں موجود ادویات کے مرتبان کھولے اور ایک پیالے میں سیال نما دوائی انڈیل کر باوا جی کے منہ سے لگانے کی کوشش کرنے لگا ۔زبان پھول جانے کی وجہ سے دانت اس میں کیلوں کی طرح ٹھونک گئے تھے۔ طرطوش نے بمشکل منہ کھولا اور سیال قطرہ قطرہ کر کے ٹپکانے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد مستان بھی ادویات لے کر آگیا۔
 

راجہ صاحب

محفلین
طرطوش نے ایک سفوف پر دم کیا اور اسے پانی گھول کر باوا جی کی نبض پکڑ لی پھر مستان کی مدد سے باوا جی کا منہ کھول کر دوائی ٹپکاتا رہا۔ کچھ دیرکے بعد اسے نبض دوبارہ بحال ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے ایک شاگرد کو طلب کیا اور اسے باوا جی کے چہرے پر عرق چھڑکنے کا کہا۔ عرق کی ہلکی ہلکی بھینی سی پھوار پڑتے ہی باوا جی کا سارا بدن کسمسایا اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ طرطوش پر نظر پڑتے ہی ان کی مردہ آنکھوں میں زندگی آگئی۔
''شکر ہے میرے خدایا! نہال شاہ جی آپ نے آنکھیں کھول لی ہیں۔'' آج آپ نے مجھے بلایا تو نہیں تھا مگر میں خودہی ایک کام کے سلسلے میں آگیا تھا۔ مجھے کیامعلوم تھا کہ تقدیر نے ایک کام کا بہانہ بنا کر مجھے اپنے یار کی مدد کے لیے یہاں پہنچایا ہے۔''
ادویات نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور باوا جی کے اندر توانائی بحال ہونے لگی تھی۔ وہ ہمت کر کے بیٹھ گئے اب ان کی قوت گویائی بھی لوٹ آئی تھی۔ وہ طرطوش کا ہاتھ پکڑ کر بولے:''طرطوش! آج تم نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ میں تاحیات اسے بھول نہ پاؤں گا۔ میں اس کا کوئی بدلہ تو نہیں دے سکتا۔ مگر آج کے بعد تجھے اپنے عمل سے آزاد کرتا ہوں۔''
جب بھی کوئی عامل عملیات کے زور پر جنات یا کسی دیگر نادیدہ مخلوق کو قابو کرتا ہے تو وہ اس کی مطیع اور غلام ہو جاتی ہے اور وہ صرف عامل کی مرضی اور منشاکے مطابق ہی زندگی بسر کر سکتی ہے ۔ اگرچہ بہت سے عامل اس مخلوق کے ہر معاملے کو اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے لیکن اگر وہ چاہیں تو جنات اور مؤکلان چوبیس گھنٹے ان کے پاس رہنے کے پابند ہو سکتے ہیں لیکن اس طرح اس مخلوق کے کھانے پینے کا بندوبست بھی عامل کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ جنات اور موکلان کی خوراک پوری کرنا اور انہیں ان کی فطرت کے مطابق ماحول مہیا کرنا عامل کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو تاہے ۔اس لیے زیادہ تر عامل اور جادوگر جنات کو بوقت ضرورت ہی طلب کرتے ہیں۔اس دوران اگر کوئی عامل وغیرہ اس مخلوق کو اپنے عمل سے آزاد کرنا چاہے تو یہ مخلوق انتہائی خوشی کے ساتھ آزاد ہونا پسند کرتی ہے۔ مگر آزادی کا پروانہ لینے سے پہلے عامل کو کوئی نہ کوئی نشانی ضرور دے کر جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسی نشانیاں عامل کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں کیونکہ جنات وغیرہ نشانی کے طور پر اس کی اولاد میں سے کسی ایک بچے کو مار سکتے ہیں۔ لیکن ایسا صرف کمزور اور کالا جادو کرنے والے عامل کے ساتھ ہی ہوتاہے۔ کیونکہ کالا جادو شرک اور مکروہات کی دنیا کا علم ہے۔
 
Top