عمر کے کسی بھی حصے میں کامیابی

راجہ صاحب

محفلین
عمر کے کسی بھی حصے میں کامیابی کو کیسے حاصل کیا جائے ؟



جب انسان کو اپنی ذات میں دلچسپی اور مصروفیت کے پہلو دکھائی دیتے ہیں ۔
تب اسے اپنا بوڑھا محسوس نہیں ہوتا ،
اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی عمر کیا ہے ،
کیلنڈری حساب سے بڑھنے والی عمر کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ،


میڈیکل سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ انسان کی یاداشت یا ذہنی صلاحیت 25سال کی عمر میں اپنے پورے جوبن پر آجاتی ہے اور 60 سال کی عمر تک اپنی پوری آب و تاب پر رہتی ہے ۔ اب اگر انسان ان قیمتی دنوں کا بھرپور استعمال کئے بغیر وقت سے پہلے اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے اور اپنی زندگی کے باقی دنوں کو گننا شروع کر دے تب یہ اس کی زندگی سے بے وفائی ہو گی ۔ اگر وہ اپنے تجربے سے بھرپور ان صلاحیتوں سے جان چھڑا کر اپنے باغ کے پودوں یا گھاس کو کاٹنے میں لگ جائے یا غیر ضروری سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دے جو اسے موت کا احساس دلاتی ہیں تب یہ اس کی اپنی کامیاب زندگی کے ساترھ ناانصافی ہوگی ۔

جاری ہے۔۔۔
 

راجہ صاحب

محفلین
آج ہم میں اس قدر شعور بیدار ہو چکا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر انسان کی صلاحیتوں اور اسکی خوبیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔ ماضی میں لوگوں کا یہ شیوہ تھا کہ وہ بڑھاپے یا بڑھتی ہوئی عمر کو سب سے بڑا مسئلہ بنا لیتے تھے جس کی وجہ سے ان کے لاشعور میں ایک بات بیٹھ جاتی تھی کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان کا زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اگر کوئی انسان اپنی بڑھتی ہوئی عمر سے یہ خیال کرنا شروع کر دے کہ اب اس کا زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور اسے گھر جا کر اپنے آخری دن آرام سے گزارنا چاہیے تب اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے وقت سے پہلے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیا ہے ایسی صورتحال کے پیش نظر یہ بات سچ نظر آتی ہے کہ ‘‘انسان اپنے بارے میں بوڑھاپا آنے پر سوچتا ہے ‘‘

کیلنڈری ماہ و سال کے حساب سے بڑھنے والی عمر کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ زندگی میں بھرپور مرد یا خواتین 80 سال کی عمر میں بھی اپنی سوچ کو مثبت رکھتے ہیں جیسے ان کی زندگی کی ابتداء ابھی ہوئی ہو ۔ ایسے لوگ خوشگوار ذہنیت رکھنے کے علاوہ نئےدوستوں سے ملنےکی خواہش بھی رکھتے ہیں ۔ انہیں علم و ہنر کی راہ میں آنے والے نئے چیلنج قبول ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے نزدیک بڑھتی ہوئی عمر کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ۔ ان کی سوچ کے مطابق زندگی کا سفر اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک کہ سانسوں کا سلسلہ منقطع نہیں ہو جاتا ۔
ان کی نزدیک مایوسی ایک غیر ضروری سوچ کا حصہ ہے جسے یہ اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے نزدیک بڑھتی ہوئی عمر کوئی معنی نہیں رکھتی ۔

اپنی ذات سے ایک ناکام شخص کی حیثیت سے گفتگو کیجئے

اگر آُ کی شخصیت تذبذب یا پیچیدگیوں کا شکار ہے جیسے کہ اگر میری عمر صحیح ہوتی تو مجھے یہ نوکری مل سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔یا مجھے خوشی اس وقت ملے گی جب میں ریٹائر ہو جاؤں گا یا میرے پاس اچھے نظریات تو ہیں مگر مجھ میں انہیں عملی جامہ پہنانے کی سکت نہیں ہے ۔ شاید میں بوڑھا ہو چکا ہوں ، اگر آپ کے ذہن میں ایسی باتیں گھومتی ہیں تب اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کافی حد تک ناکام سوچ کا شکار ہیں ۔ آپ نے اپنےذات کو محدود ذہنیت کےباعث مایوسی کے شکنجے کی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کسی کام سے قبل آپ کی مایوسی ہے ۔اب آپ کی زندگی میں اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے ۔ آپ کو اپنی ذات پر بھروسہ کرکے خود کو ایک موقع دینا ہو گا ۔ یقین جایئے آپ اپنی منزل کا تعین خود کریں گے ۔ آپ کو ایک بار اپنے ذہن کو اس بات کے لئے تیار کرنا ہو گا کہ دولت و طاقت ، صحت و خوشحالی ، اور خوشی جیسی نعمتوں کو آپ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ حاصل کر سکتے ہیں ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
حالات سے سمھوتا آپ کی توقی کو ختم کر دیتا ہے ۔

دنیا میں دو طرح کے افراد ہوتے ہیں پہلے وہ جو کامیابی ، صحت ، خوشحالی ، دولت اور خوشی جیسی نعمتوں سے مستفیض ہو رہے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں ان نعمتوں سے محروم ہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں انسانوں کے حالات زندگی ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب آپ یہ سوچ لیتے ہیں کہ آپ کی زندگی ختم ہو گئی ہے تب آپ کی زندگی ختم ہو جاتی ہے یعنی اگر آپ نے حالات کی ٹھوکروں کو اپنا نصب مان کر ان سے سمجھوتا کر لیا تب آپ کی ترقی کا عمل وہیں رک گیا ۔

کامیابی عمر کے کسی تک محدود نہیں ہوتی ہے اس پر نہ عمر رسیدہ افراد کا حق ہے اور نہ ہی یہ نوجوانوں کی باندی ہے اور نہ ہی درمیانی عمر کے افراد اس کے لائق ہیں ۔ کامیابی ایک ایسا موقع ہے جو عمر کی تمیز یا فرق کئے بغیر تمام بنی نوع انسانوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ لہذا اپنے ذہن کے مخلف کونوں میں اس سچ کو بسا لیجیئے اور اسے اپنی زندگی کے طرز فکر میں شامل کر لیجیئے ۔

اپنی عمر کو ذہن میں رکھیے مگر اپنے حالات کو بدلنے پر زور دیجیئے

میں نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اپنی کمزوریوآں اور ناکامیوں کی وجہ تلاش کرتے ہوئے اپنی عمر، ماحول ، اور حالات کو اس کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں ، ایسے لوگ اپنی زندگیوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ‘‘ علی بی سوداگر‘‘ جو افسانوں اور کہانیوں کا مشہور کردار ہے جو کاہل اور سست مزاج تھا کی طرح ہوتی ہے جو اپنا کام پوری لگن سے کرنے کی بجائے اپنی کاہلی ، سستی احساس کمتری ، محرومی اور غیر مضبوط قوت ارادی کو ڈھانپنے کیلئے حیلے و بہانے تلاش کرتے ہیں ۔

میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو آج کامیاب ہے یا ایک کامیاب زندگی کا مالک ہے وہ شخص علی بی سوداگر کی طرح ہے ۔
کامیابی یا ناکامی کو ایک جیسی ذہنی محنت سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ بس فرق یہ ہے کہ کامیابی کا سہرا ہمارے ہر ہوتا ہے اور جبکہ اپنی ناکامی کو ہم کسی پر تھوپنا چاہتے ہیں ۔ آپ اپنی عمر کو تو بدل نہیں سکتے لیکن اپنی سوچ احساسات اور عمل کی مدد سے اپنے حالات و موحول کو تو بدل سکتے ہیں آپ کی کامیابی عمر کی محتاج نہیں ہے آپ کی عمر کم ہے یا زیادہ کامیابی آپ کو کبھی بھی مل سکتی ہے اس ضمن میں آپ کو اپنی سوچ عمل اور احساسات میں انقلابی تبدیلیاں رونما کرنی ہونگی آپ کی زندگی کا دارومدار آپ کی مثبت سوچ پر ہے ۔

بہترین دن اب ہیں لیکن اچھے دن آئندہ آئیں گے

جب آپ اپنی زندگی میں فرسودا اور پرانے نظریات کو جگہ دیتے ہیں یا ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس وقت آپ اپنی آئندہ ترقی پر پابندی لگا دیتے ہیں ۔ آپ کی زندگی ایک مقام پر آکر رک جاتی ہے ۔ آپ کا لاشعور آپ کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو موثر بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے ۔ آپ کے نزدیک مزید زندگی گزارنے کی خواہش بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے آپ کا آج مایوسیوں اور اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے جس کا اثر آپ کی آئندہ زندگی پر پڑتا ہے ۔

آپ کے آگے بڑھنے اور زندگی کا لطف اٹھانے کے دن اب شروع ہوئے ہیں ۔ یہی وہ دن ہیں جنہیں بنیاد بنا کر آپ اپنی زندگی میں صحت، خوشیوں اور کامیابیوں کو حاصل کر سکتے ہیں اس لئے آپ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیجئیے کہ آُ نے زندگی کو پانا ہے مگر اس سے جان چھڑانا نہیں ہے یاد رکھیئے کہ کیلنڈری حساب سے بڑھنے والی عمر بے معنی ہوتی ہے ۔ جب تک آپ میں لڑنے کا حوصلہ ہے تب تک زندگی آپ کے قدموں میں ہے ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
ادھیڑ عمر کے فوائد کا محاسبہ آج سے کیجیئے ۔

ایک بات ذہن میں رکھیے کہ ادھیڑ عمر کے بہت سے فوائد ہوتے ہیں ۔ انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کے تجربات ایمان و اعتقاد ، یقین برداشت ، صبر ، سکون اور اس کی قوت میں بھی بھرپور اضافہ ہوتا ہے ۔ انسان ان تمام نعمتوں سے اس وقت مالامال ہوتا ہے جب اس کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کے تجربات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔
بعض لوگوں میں بڑھتی ہوئی عمر ایک انجانہ سا خوف ہوتی ہے ان کے نزدیک اگر ان کی عمر بڑھ گئی تب وہ تمام صلاحیتوں سے محروم ہو جائے گا ایسے لوگوں میں خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے ۔حالانکہ عمر کے اس حصے میں انسان کی صلاحیتوں اور قابلیت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس عمر میں انسان کے تجربات میں اس حد تک اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے انسان کی کوئی پرواز نہیں ہے کہ وہ مقررہ وقت پر ختم ہو جائے یہ تو ایک عظیم سفر ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظمت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے ۔

اپنی زندگی کو بڑھانے کےلئے آپ کو کیا کرنا ہو گا ۔

جب انسان اس کرہ عرض پر قدم رکھتا ہے اس وقت اس کا بنیادی مقصد اس دنیا میں نشوونما پانا ہے تاکہ وہ دنیا میں اپنا مقام پا سکے ۔



بشکریہ : ماہنامہ مرحبا صحت
 
Top