عمران سیریز نمبر 6

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
۱​

چودھویں کی چاندنی پہاڑیوں پر بکھری ہوئی تھی۔۔۔ سناٹے اور چاندنی کا حسین امتزاج صدیوں پرانی چٹانوں کو گویا جھنجھوڑ کر جگا رہا تھا!۔۔۔ ایک لامتناہی سکوت کے باوجود بھی نہ جانے کیوں ماحول بڑا جاندار معلوم ہو رہا تھا۔ پہاڑوں میں چکراتی ہوئی سیاہ سڑک پر جو بلندی سے کسی بل کھائے ہوئے سانپ سے مشابہ نظر آتی تھی۔ ایک لمبی سی کار دوڑتی دکھائی دے رہی تھی۔

اچانک وہ ایک جگہ رک گئی۔۔۔ اور اسٹیرنگ کے سامنے بیٹھا ہوا آدمی بڑبڑانے لگا "کیا ہو گیا ہے۔۔۔ بھئی!"

اس نے اسے دوبارہ اسٹارٹ کیا۔۔۔ انجن جاگا ۔۔۔ ایک مختصر سی انگڑائی لی اور پھر سو گیا!۔۔۔

کئی بار اسٹارٹ کرنے کے باوجود بھی انجن ہوش میں نہ آیا!۔۔۔

"یار دھکا لگانا پڑے گا!" اس نے پیچھے مڑ کر کہا! مگر پچھلی سیٹ سے خراٹے ہی بلند ہوتے رہے۔۔۔

اس نے دونوں گھٹنے سیٹ پر ٹیک کر بیٹھتے ہوئے سونے والے کو بری طرح جھنجھوڑنا شروع کردیا!۔۔۔

لیکن خراٹے بدستور جاری رہے۔

آخر جگانے والا سونے والے پر چڑھ ہی بٹھا!

"ارے۔۔۔ ارے۔۔ ۔ بچاؤ۔۔۔ بچاؤ!" اچانک سونے والے نے حلق پھاڑ نا شروع کردیا۔ لیکن جگانے والے نے کسی نہ کسی طرح کھینچ کھانچ کر اسے نیچے اتار ہی لیا!

"ہائیں! میں کہاں ہوں؟" جاگنے والا آنکھیں مل مل کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔

"عمران کے بچے ہوش میں آؤ!" دوسرے نے کہا!

"بچے۔۔۔ خدا کی قسم ایک بھی نہیں ہے۔۔۔ ابھی تو مرغی انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہے سوپر فیاض۔۔۔!"

"کار اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے!" کیپٹن فیاض نے کہا۔

"جب چلے تھے تب تو شائد اسٹارٹ ہو گئی تھی!"

"چلو دھکا لگاؤ!"

عمران نے اس کے شانے پکڑے اور دھکیلتا ہوا آگے بڑھنے لگا!

"یہ کیا بیہودگی ہے! میں تھپڑ رسید کردوں گا!" فیاض پلٹ کر اس سے لپٹ پڑا۔۔۔

"ہائیں۔۔۔ ہائیں۔۔۔ ارے میں ہوں۔۔۔ مرد ہوں!"

"کار دھکا دئیے بغیر اسٹارٹ نہیں ہوگی!" فیاض حلق پھاڑ کر چیخا۔

"تو ایسا بولو نا۔۔۔ میں سمجھا شائد۔۔ ۔ واہ یار۔۔۔!"

فیاض اسٹیرنگ کے سامنے جا بیٹھا۔۔۔ اور عمران کار کو آگے سے پیچھے کی طرف دھکیلنے لگا۔

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔!" فیاض پھرچیخا!"پیچھے سے!"

عمران نے منہ پھیر کر اپنی کمر کار کے اگلے سرے سے لگا دی اور زور کرنے لگا۔

"ارے خدا غارت کرے۔۔۔ سور۔۔۔ گدھے!" فیاض دانت پیس کر رہ گیا۔

"اب کیا ہوگیا۔۔۔!" عمران جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔

فیاض نیچے اتر آیا۔ چند لمحے کھڑا عمران کو گھورتا رہا پھر بے بسی سے بولا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
"کیوں پریشان کرتے ہو؟"

"پریشان تم کرتے ہو! یا میں؟"

"اچھا۔۔۔ تم اسٹیرنگ کرو! میں دھکا دیتا ہوں!" فیاض نے کہا۔

"اچھا بابا!" عمران پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا!

وہ اگلی سیٹ پر جا بیٹھا اور کیپٹن فیاض کار کو دھکیل کر آگے کی طرف بڑھانے لگا!

کار نہ صرف اسٹارٹ ہوئی بلکہ فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئی!

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ روکو۔۔۔ روکو۔۔۔!" فیاض چیختا ہوا کار کے پیچھے دوڑنے لگا! لیکن وہ اگلے موڑ پر جا کر نظروں سے اوجھل ہوگئی! فیاض برابر دوڑتا رہا!۔۔۔ اس کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا۔۔۔ وہ دوڑتا رہا۔ حتٰی کہ طاقت جواب دے گئی۔۔۔ اور وہ ایک چٹان سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگا! چڑھائی پر دوڑنا آسان کام نہیں ہوتا۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر ہانپنے لگا۔

اس وقت اس حرکت پر وہ عمران کی بوٹیاں بھی اڑا سکتا تھا! لیکن اسانسوں کے ساتھ ہی ساتھ اس کی ذہنی حالت اعتدال پر آتی گئی!

عمران پر غصہ آنا قدرتی امر تھا! لیکن اس کے ساتھ ہی فیاض کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ آج اس نے بھی عمران کو کافی پریشان کیا ہے!

آج شام کو وہ عمران کو تفریح کے بہانے کار میں بٹھا کر کسی نامعلوم منزل کی طرف لے اڑا تھا۔ عمران کی لاعلمی میں روشی سے اس کا سامان سفر پہلے ہی حاصل کر چکا تھا اور وہ سب کار کی اسٹپنی میں ٹھونس دیا گیا تھا۔

وہ جانتا تھا کہ عمران آج کل کام کے موڈ میں نہیں ہے! لہٰذا اسے یہ حرکت کرنی پڑی اور پھر جب یہ "تفریحی سفر" طویل ہی ہوتا چلا گیا، تو عمران کو یہ بتانا پڑا کہ وہ اسے سردار گڈھ لے جا رہا ہے! اس پر عمران ایک لمبی سانس کھینچ کر خاموش ہو گیا تھا! اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس طرح سردار گڈھ لے جانے کا مقصد کیا ہے؟۔۔۔

پھر اس نے کوئی بات ہی نہیں کی تھی! کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا تھا۔ پھر پچھلی سیٹ پر جا کر خراٹے لینا شروع کر دئیے تھے!

ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فیاض کا غصہ زیادہ زور نہ پکڑ سکا ہوگا! وہ اسی پتھر پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا رہا! خنکی کافی تھی!۔۔۔ سیگرٹوں کے کاٹن اور کافی کا تھرموس گاڑی ہی میں رہ گئے تھے! ورنہ وہ اسی پرسکون ماحول سے لطف اندوز ہونے کی کوشش ضرور کرتا!

ویسے وہ مطمئن تھا کہ عمران کا مذاق خطرناک صورت اختیار نہیں کرسکتا وہ واپس ضرور آئے گا اور کچھ تعجب نہیں کہ وہ قریب ہی کہیں ہو!

فیاض گھٹنوں میں سر دئیے عمران ہی کے متعلق سوچتا رہا! اسے اس کی بہتیری حرکتیں یاد آ رہی تھیں! وہ حرکتیں جن پر ہنسی اور غصہ ساتھ ہی آٹے تھے اور دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ہنستے رہیں یا عمران کو مار بیٹھیں!

حماقت کا اظہار اس کی فطرت کا جزو ثانی بن چکا تھا اور وہ کسی موقع پر بھی اس سے باز نہیں رہتا تھا۔۔۔ وہ ان کے سامنے بھی حماقت انگیز حرکتیں کرتا جو اسے احمق نہیں سمجھتے تھے۔ مثلاً خود کیپٹن فیاض کے لئے عمران نے ایک نہیں درجنوں کیس نپٹائے تھے! کام اس نے کئے تھے اور نام فیاض کا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسے آدمی کو احمق نہیں سمجھ سکتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ بھی عمران کے احمقانہ رویے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی!

تقریباً پانچ منٹ گزر گئے اور فیاض اسی طرح بیٹھا رہا!۔۔۔ لیکن کب تک۔۔۔ آخر اسے سوچنا پڑا کہ کہیں سچ مچ عمران اسے چوٹ نہ دے گیا ہو! کیونکہ وہ بھی تو اسے دھوکہ ہی دے کر سردار گڈھ لے جا رہا تھا۔

فیاض اٹھا اور دل ہی دل میں عمران کو گالیاں دیتا ہوا سڑک پر چلنے لگا۔۔۔ لیکن جیسے ہی اگلے موڑ پر پہنچا اسے سامنے سے کوئی آتا دکھائی دیا! چلنے کا انداز عمران ہی کا سا تھا!۔۔۔ فیاض کی مٹھیاں بھینچ گئیں!

عمران نے دور ہی سے ہانک لگائی "کپتان صاحب! وہ پھر رک گئی ہے۔۔ چلو دھکا لگاؤ۔۔۔!"
 

قیصرانی

لائبریرین
فیاض کی رفتار تیز ہو گئی! وہ قریب قریب دوڑنے لگا تھا! عمران کے قریب پہنچ کر اس کا ہاتھ گھوما ضرور لیکن خلا میں چکر کاٹ کر رہ گیا کیونکہ عمران بڑی پھرتی سے بیٹھ گیا تھا!

"ہائیں۔۔۔ ہائیں۔۔۔! کیا ہو گیا ہے تمہیں!" عمران نے اٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ تے ہوئے کہا! "ابھی تو تم اچھے بھلے تھے۔۔۔"

"میں تمہیں مار ڈالوں گا!" فیاض دانت پیس کر بولا!

"اب یہاں تنہائی میں جو چاہو کرلو۔۔۔ کوئی دیکھنے آتا ہے!" عمران نے شکایت آمیز لہجے میں کہا "اگر وہ سالی سٹارٹ نہیں ہوتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے!"

"ہاتھ چھوڑو!" فیاض نے جھٹکا دے کر کہا! لیکن عمران کی گرفت مضبوط تھی وہ ہاتھ نہ چھڑا سکا۔

"وعدہ کرو کہ مارو گے نہیں!" عمران بڑی سادگی سے بولا۔

"مجھے غصہ نہ دلاؤ۔!"

"اچھا تو اس کے علاوہ جو کچھ کہو لادوں! ٹافیاں لو گے!"

فیاض کا موڈ ٹھیک ہونے میں بہت دیر نہیں لگی!۔۔۔ وہ کرتا بھی کیا عمران پر غصہ اتارنا بھی ایک طرح سے وقت کی بربادی ہی تھی۔

ویسے اس بار حقیقتاً کار کو دھکا دینے کی ضرورت نہیں پیش آئی!

عمران نے اپنے کئی منٹ اس کے انجن پر ضائع کئے تھے! وہ زیادہ دو رنہیں گیا تھا!۔۔۔ قریب ہی ایک جگہ کار روک کر انجن کی مرمت کرنے لگا تھا! اسے توقع تھی کہ فیاض بے تحاشہ دوڑتا ہوا وہاں تک پہنچ جائے گا۔ لیکن جب کئی منٹ گذر جانے کے باوجود بھی فیاض نہ آیا تو وہ خود ہی اس کی تلاش میں چل پڑا۔

تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی چکراتی ہوئی سڑک پر سفر کر رہے تھے! لیکن کار فیاض ہی ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔ اور عمران نے پھر پچھلی سیٹ سنبھال لی تھی۔

فیاض بڑبڑانے لگا "اس وقت تمہاری جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو۔۔۔!"

"چین سے گھر پر پڑا سو رہا ہوتا!" عمران نے جلدی سے جملہ پورا کر دیا!

"بکواس مت کرو۔" فیاض نے کہا۔ "معاملہ پانچ ہزار پر طے ہوا ہے!"

"کیسا معاملہ!"

"سردار گڈھ میں تمہارا نکاح نہیں ہوگا!" فیاض نے خشک لہجے میں کہا!

"ہائیں۔۔۔ پھر کیا۔۔۔ یونہی مفت میں میرا وقت برباد کرا رہے ہو!"

"ایک بہت ہی دلچسپ کیس ہے!"

"یار فیاض! میں تنگ آگیا ہوں!"

"تمہاری زبان سےپہلی بار اس قسم کا جملہ سن رہا ہوں!" فیاض نے حیرت ظاہر کی۔

"سینکڑوں بار کہہ چکا ہوں کہ لفظ کیس میرے سامنے نہ دہرایا کرو۔ کیس لاحول ولا قوۃ۔ میں نے اکثر دائیوں کو زچگی کرانے کو بھی کیس ہی کہتے سنا ہے!"

"سنو عمران۔۔۔! بور نہ کرو!۔۔۔ ایسا دلچسپ۔۔!"

"میں کچھ نہیں سننا چاہتا! ختم کرو! مجھے نیند آرہی ہے!" عمران نے اپنے اوپر کمبل ڈالتے ہوئے کہا!

"فی الحال میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے وہ بد دل ہو جائیں!۔۔۔ معاملہ ایسا ہے کہ وہ سرکاری طور پر کوئی کاروائی نہیں کرسکتے! اگر کرنا بھی چاہیں تو کم از کم میرا محکمہ اسے ہنس کر ہی ٹال دے گا!"

فیاض بڑبڑاتا رہا۔۔۔ اور عمران کے خراٹے کار میں گونجتے رہے اتنی جلدی سوجانا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔ شائد عمران کچھ سننے کے موڈ ہی میں نہیں تھا!
 

قیصرانی

لائبریرین
۲​

سردار گڈھ ایک پہاڑی علاقہ تھا! اب سے پچاس سال قبل یہاں خاک اڑتی رہی ہوگی۔مٹی کا تیل دریافت ہو جانے سے اچھا خاصا شہر بس گیا تھا۔

شروع میں صرف مزدور طبقہ کی آبادی تھی! آہستہ آہستہ یہ آبادی پھیلاؤ اختیار کرتی گئی! پھر ایک دن سردار گڈھ جدید طرز کا ایک ترقی یافتہ شہر بن گیا! پہلے صرف مٹی کے تیل کے کنوؤں کی وجہ سے اس کی اہمیت تھی لیکن اب اس کا شمار مشہور تفریح گاہوں میں بھی ہونے لگا تھا۔۔۔ اور یہاں کے نائٹ کلب دور دور تک شہرت رکھتے تھے!۔۔۔

کیپٹن فیاض نے کار ایک کلب کے سامنے روک دی! ٹاؤن ہال کے کلاک ٹاور نے ابھی ابھی گیارہ بجائے تھے اور یہ نائٹ کلبوں کے جاگنے کا وقت تھا۔۔۔ مگر عمران کے خراٹے شباب پر تھے۔۔۔ فیاض جانتا تھا کہ وہ سو نہیں رہا ہے! خراٹے قطعی بناوٹی ہیں! لیکن وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا! یہ اور بات ہے کہ وہ کار کے قریب سے گذرنے والوں سے آنکھیں ملاتے ہوئے شرما رہا تھا۔ وہ کار کے قریب سے گذرتے وقت ایک لمحہ رک کر خراٹے سنتے اور پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جاتے!

"او مردود!" فیاض جھلا کر اسے جھنجھوڑنے لگا!

پہلے تو اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ پھر یک بیک بوکھلا کر اس نے کھلے ہوئے دروازے سے چھلانگ لگا دی! مگر اس بار چوٹ اسی کو ہوئی! غالباً مقصد یہ تھا کہ سڑک پر گرنے کی صورت میں فیاض نیچے ہوگا اور وہ خود اوپر!۔۔۔ مگر فیاض بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا اور عمران جھونک میں تو تھا ہی اوندھے منہ سڑک پر چلا آیا۔۔۔

البتہ اس کی پھرتی بھی قابل تعریف تھی۔ شاید ہی کسی نے اسے گرتے دیکھا ہو!۔۔۔ دوسرے ہی لمحے میں وہ اتنے پرسکون انداز میں فیاض کے شانے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

"ہاں تو اب ہم کہاں ہیں!" عمران نے ایسے لہجے میں پوچھا جس میں نہ تو شرمندگی تھی اور نہ بے اطمینانی!۔۔۔ فیاض پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا تھا!

عمران بے تعلقانہ انداز میں کھڑا رہا۔

آخر فیاض بولا۔ "کپڑے تو جھاڑ لو۔۔۔"

اور عمران بڑی سعادت مندی سے فیاض کے کپڑے جھاڑنے لگا!

"اب جھینپ نہ مٹاؤ!" فیاض پھر ہنس پڑا۔

"تم ہمیشہ اوٹ پٹانگ باتیں کیا کرتے ہو!" عمران بگڑ گیا۔

"چلو۔ چلو!" فیاض نے اسے دھکیل کر عمارت کی طرف بڑھایا۔ وہ دونوں ہال میں داخل ہوئے۔ ابھی بہتیری میزیں خالی تھیں! فیاض نے چاروں طرف نگاہ دوڑا کر ایک میز منتخب کی۔۔۔ اور وہ دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے!

اس گوشے کے ویٹر نے قریب آکر انہیں سلام کیا۔

"وعلیکم السلام" عمران نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

"بچے تو بخیریت ہیں!"

"جج۔۔۔ جی۔۔۔ صاحب۔۔۔ ہی ہی ہی!" ویٹر بوکھلا کر ہنسنے لگا اور فیاض نے عمران کے پیر میں بڑی بے دردی سے چٹکی لی۔۔۔ عمران نے "سی" کر کے ویٹر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

"کھانے میں جو کچھ بھی ہو لاؤ!" فیاض نے ویٹر سے کہا اور ویٹر چلا گیا!
 

قیصرانی

لائبریرین
جن لوگوں نے عمران کو ویٹر سے مصافحہ کرتے دیکھا تھا۔ وہ اب بھی ان دونوں کو گھور رہے تھے!

فیاض کو پھر اس پر تاؤ آگیا اور وہ تلخ لہجے میں بولا۔

"تمہارے ساتھ وہی رہ سکتا ہے، جسے اپنی عزت کا پاس نہ ہو!"

"آج کل فری پاس اور کنسیشن بالکل بند ہے!" اس نے سرہلا کر کہا اور ہونٹ سکوڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا!

"فیاض! پروا نہ کرو!" عمران نے تھوڑی دیر بعد سنجیدگی سے کہا!"میں جانتا ہوں کہ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔ کیا میں نہیں جانتا کہ یہ پیر یٰسین نائٹ کلب ہے؟"

"میں کب کہتا ہوں کہ تم سردار گڈھ پہلی بار آئے ہو!" فیاض بولا! خلاف توقع اس کا موڈ آن واحد میں تبدیل ہو گیا تھا! ہو سکتا ہے کہ یہ عمران کی سنجیدگی کا رد عمل رہا ہو۔

"میں روزانہ باقاعدہ طور پر اخبار پڑھتا ہوں!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا!

"پھر؟"

"آج سے ایک ہفتہ قبل اسی ہال میں ایک ننھا سا نیلا پرندہ اڑ رہا تھا!" عمران آہستہ سے بولا!

"اوہو!۔۔۔ تو تم سمجھ گئے!" فیاض کے لہجے میں دبی ہوئی سی مسرت تھی۔

"مگر تم اس سے یہ نہ سمجھنا کہ مجھے ایسے کسی پرندے کے وجود پر یقین بھی ہے!"

"تب پھر کیا بات ہوئی؟" فیاض نے مایوسی سے کہا!

"مطلب یہ ہے کہ اپنے طور پر تحقیق کئے بغیر ایسے کسی پرندے کے وجود پر یقین نہیں کرسکتا!"

"اور تم تحقیق کئے بغیر مانو گے نہیں!" فیاض نے چہک کر کہا!

"مجھے پاگل کتے نے نہیں کاٹا!" عمران کا لہجہ بہت خشک تھا!

"مجھے کیا پڑی ہے کہ خوامخواہ اپنا وقت برباد کروں!"

"وہ تو تمہیں کرنا ہی پڑے گا!"

"زبردستی؟۔۔۔"

"تمہیں کرنا پڑے گا؟"

"کیا کرنا پڑے گا؟" عمران کی کھوپڑی آؤٹ آف آرڈر ہوگئی!

"کچھ بھی کرنا پڑے!"

"اچھا میں صبر کروں گا مگر نہیں ویٹر کھانا لا رہا ہے! میں فی الحال کھانا کھا کر ایک کپ چائے پئیوں گا!۔۔۔ لہٰذا بکواس بند!"

کھانے کے دوران میں سچ مچ کی خاموشی رہی! شائد فیاض بھی بہت زیادہ بھوکا تھا!۔۔۔ کھانے کے بعد چائے کے دوران پھر وہی تذکرہ چھڑ گیا!
 

قیصرانی

لائبریرین
"جمیل کا یہی بیان ہے! میں نے وہی میز منتخب کی ہے جس پر اس دن جمیل تھا!"

"کیا؟" عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ "یعنی یہی میز جو ہم استعمال کر رہے ہیں؟"

"ہاں یہی! اور خدا کے لئے سنجیدگی سے سنو! بیٹھ جاؤ!"

"واہ رے آپ کی سنجیدگی!" عمران چڑ کر ہاتھ نچاتا ہوا بولا۔ "سانپ کے پھن پر بٹھا دو مجھے۔ لعنت بھیجتا ہوں ایسی دوستی پر!۔۔۔"

فیاض نے اسے کھینچ کر بٹھا دیا اور کہا "تمہیں یہ کام کرنا ہی پڑے گا! خواہ کچھ ہو! میں ان لوگوں سے وعدہ کر چکا ہوں۔۔۔!"

"کن لوگوں سے؟"

"جمیل کے خاندان والوں سے!"

"اچھا تو شروع ہو جاؤ۔۔۔ میں سن رہا ہوں!"

"جمیل اسی میز پر تھا!"

"پھر موڈ خراب کر رہے ہو میرا!" عمران خوفزدہ آواز میں بولا۔ "بار بار یہی جملہ دہرا کر۔۔۔"

"ہشت!۔۔۔ درجنوں آدمیوں نے اس نیلے پرندے کو ہال میں چکر لگاتے دیکھا تھا! وہ چند لمحے خلا میں چکراتا رہا پھر اچانک جمیل پر گر پڑا۔۔۔ اور اپنی باریک سی چونچ اس کی گردن میں اتار دی! جمیل کا یہی بیان ہے کہ اسے اس کی چونچ اپنی گردن سے نکالنے میں کسی قدر قوت بھی صرف کرنی پڑی تھی۔ بہرحال اس نے اسے کھینچ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ دور بیٹھے ہوئے لوگ اس کا مضحکہ اڑانے کے لئے ہنسنے لگے! ان کےساتھ وہ بھی ہنستا رہا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک یہاں نہیں بیٹھ سکا! کیونکہ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا! جیسے گردن میں کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔۔۔ لیکن پھر یہ تکلیف ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رہی۔ رات بھر وہ سکون سے سویا اور جب دوسری صبح جاگا تو اپنےسارے جسم پر بڑے بڑے سفید دھبے پائے۔۔۔ خاص طور پر چہرہ بالکل ہی بدنما ہو گیا ہے۔۔۔ اب اگر تم اسے دیکھو تو پہلی نظر میں وہ برص کا کوئی بہت پرانا مریض معلوم ہوگا!۔۔۔"

"کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ داغ اسی پرندے کے حملے کا نتیجہ ہیں!" عمران بولا۔

"یقیناً!"

"کیا ڈاکٹروں کی رائے یہی ہے!"

"ڈاکٹروں کو اسے برص تسلیم کر لینے میں تامل ہے!۔۔۔ جمیل کا خون ٹیسٹ کیا گیا ہے اور اسی کی بنا پر ڈاکٹر کوئی واضح رائے دیتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں!"

"خون کے متعلق رپورٹ کیا ہے؟"

"خون میں بالکل نئی قسم کے جراثیم پائے گئے ہیں! کم از کم اس وقت تک کے دریافت شدہ جراثیم میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا!"

"اوہ۔ اچھا! رپورٹ کی ایک کاپی تو مل ہی جائے گی۔۔۔!"

"ضرور مل جائے گی۔"فیاض نے سگریٹ سلگائے ہوئے کہا۔

"مگر اس کے خاندان والے محکمہ سراغرسانی سے کیوں مدد چاہتے ہیں! اس مرض کا سراغ تو ڈاکٹر ہی پا سکیں گے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"حالات کچھ اسی قسم کے ہیں!" فیاض سرہلا کر بولا "اگر واقعی یہ کوئی مرض ہے تو اس پرندے نے جمیل ہی کو کیوں منتخب کیا جب کہ پورا ہال ہی بھرا ہوا تھا؟"

"یہ دلیل بے تکی ہے!"

"پوری بات بھی تو سنو! اگر اچانک اس دن وہ اس مرض میں مبتلا نہ ہو گیا ہوتا تو اس کی منگنی تیسرے ہی دن ایک بہت اونچے خاندان میں ہو جاتی۔!"

"آچ۔۔۔ چھا!۔۔۔ ہوں!"

"اب تک خود سوچو!"

"سوچ رہا ہوں!" عمران نے لا پرواہی سے جواب دیا! پھر کچھ دیر بعد بولا "گردن کے زخم کے متعلق ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟"

"کیسا زخم!۔۔۔ دوسری صبح اس جگہ صرف ایک نشان نظر آ رہا تھا جیسے گردن میں گزشتہ دن انجکشن دیا گیا ہو اور اب تو شائد خود جمیل بھی یہ نہ بتا سکے کہ پرندے نے کس جگہ چونچ لگائی تھی۔"

"خوب۔۔۔!" عمران کنکھیوں سے ایک جانب دیکھتا ہوا بڑبڑایا! کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر عمران نے پوچھا!

"اچھا سوپر فیاض! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟"

"یہ کہ تم اس سلسلے میں جمیل کے خاندان والوں کی مدد کرو!"

"لیکن اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ جمیل کی منگنی تو ہونے سے رہی! تم مجھے ان لوگوں کا پتہ بتاؤ جن کے ہاں جمیل کی منگنی ہونے والی تھی!"

"اس سے کیا ہوگا!"

"میری منگنی ہوگی! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں شادی کے بغیر ہی مر جاؤں؟"

"میں نہیں سمجھا!"

"فیاض صاحب!۔۔۔ پتہ!"

"اچھا تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ انہیں لوگوں کی حرکت ہے!"

"اگر ان کا تعلق پرندوں کی کسی نسل سے ہے تو یقیناً انہی کی ہوگی اور مجھے انتہائی خوشی ہوگی کہ میں کسی چڑے کا داماد بن جاؤں!"

"تم پھر بہکنے لگے!"

"فیاض۔۔۔ ڈئیر۔۔۔ پتہ۔۔۔!"

فیاض چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا "وہ یہاں کا ایک سربرآوردہ خاندان ہے!۔۔۔ نواب جاوید مرزا کا خاندان۔۔۔ پروین۔۔۔ جاوید مرزا ہی کی اکلوتی لڑکی ہے اور جاوید مرزا بے اندازہ دولت کا مالک ہے!"

"آہا۔۔۔" عمران اپنی رانیں پیٹتا ہوا بولا "تب تو اپنی چاندی ہے!"

"بکواس بند نہیں کرو گے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"اچھا! خیر ہٹاؤ!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا "جمیل کس حیثیت کا آدمی ہے!"

"ظاہر ہے کہ وہ بھی دولت مند ہی ہوگا ورنہ جاوید مرزا کے یہاں رشتہ کی تجویز کیونکر ہوتی۔۔۔ اور اب تو جمیل کی دولت میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ ابھی حال ہی میں اس کی ایک مملوکہ زمین میں تیل کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے!"

"کیا جمیل اس زمین کا تنہا مالک ہے؟"

"سو فیصدی! خاندان کے دوسرے لوگ حقیقتاً اس کے دست نگر ہیں! یا دوسرے الفاظ میں اس کے ملازم سمجھ لو۔ تین چچا دو ماموں۔۔۔ چچا زاد بھائی بھی کئی عدد۔۔۔!"

"اور چچا زاد بہنیں؟"

"کئی عدد۔۔۔!"

"ان میں سے کوئی ایسی بھی ہے جس کی عمر شادی کے قابل ہو!"

"میرا خیال ہے کہ خاندان میں ایسی تین لڑکیاں ہیں!"

"جمیل کے کاروبار کی تفصیل۔۔۔!"

"تفصیل کے لئے مزید پوچھ گچھ کرنی پڑے گی ویسے یہاں اس کے دو بڑے کارخانے ہیں۔ ایک ایسا ہے جس میں مٹی کے تیل کے بیرل ڈھالے جاتے ہیں! دوسرے میں مٹی کے تیل کی صفائی ہوتی ہے!"

"تو گویا وہ کافی مالدار ہے!" عمران سرہلا کر بولا "لیکن کیا خود جمیل ہی نے تم سے گفت و شنید کی تھی!"

"نہیں! اس نے تو لوگوں سے ملنا جلنا ہی ترک کر دیا ہے! نہ وہ گھر سے باہر نکلتا ہے!"

"تو کیا میں اسے نہ دیکھ سکوں گا!"

"کوشش یہی کی جائے گی کہ تم اسے دیکھ سکو!۔۔۔ ویسے وہ میرے سامنے بھی نہیں آیا تھا۔"

"تم نے یہ نہیں بتایا کہ محکمہ سراغراسانی سے رجوع کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہوئی تھی؟"

"اس کے چچا۔۔۔ سجاد کو۔۔۔ وہ میرا پرانا شناسا ہے!"

"اب ہم کہاں چلیں گے؟"

"میرا خیال ہے کہ میں تمہیں جمیل کی کوٹھی میں پہنچا دوں! لیکن خدا کے لئے بہت زیادہ بوریت نہ پھیلانا!۔۔۔ تمہیں اپنی عزت کا بھی ذرا پاس نہیں ہوتا!"

"میری فکر تو تم کیا ہی نہ کرو! میری عزت ذرا واٹر پروف قسم کی ہے!"

"میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے الو سمجھیں!"

"حالانکہ تم سے بڑا الو آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا!"عمران نے سنجیدگی سے کہا!"لاؤ ایک سگریٹ مجھے بھی دو! میں بھی باقاعدہ طور پر سگریٹ شروع کر دوں گا۔ کل ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ جن پیسوں کا گھی دودھ کھاتے ہو اگر انہیں کے سگریٹ پئیو تو کیا حرج ہے!"

"اچھا اب بکواس بند کرو!" فیاض اس کی طرف سگریٹ کیس بڑھاتا ہوا بولا۔۔۔ اور اس نے سگریٹ کیس لے کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔۔۔ وہ دونوں کرسیوں سے اٹھ گئے!

"کیا مطلب ۔۔۔!" فیاض نے کہا۔

"تمہارے پاس کافی سگریٹ ہیں! اب میں آج ہی سے تو سگریٹ خریدنے سے رہا!۔۔۔

فیاض ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑا کر خاموش ہو گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۳​

جمیل کی کوٹھی بڑی شاندار تھی اور اس کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا! ہوسکتا ہے کہ اس کی تعمر اس اندازے کے ساتھ ہوئی ہو کہ پورا خاندان اس میں رہ سکے! کم و بیش پچیس کمرے ضرور رہے ہوں گے۔

فیاض عمران کو پچھلی رات ہی یہاں پہنچا گیا تھا اور پھر فیاض وہاں اتنی ہی دیر ٹھہرا تھا جتنی دیر میں وہ سجاد اور اس کے بھائیوں سے عمران کا تعارف کرا سکا تھا! عمران نے بقیہ رات سکون سے گزاری! یعنی صبح تک اطمینان سے سوتا رہا!

دن کے اجالے میں لوگوں نے عمران کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں قائم کی! کیونکہ وہ صورت ہیسے پرلے سرے کا بیوقوف معلوم ہوتا تھا!

چائے اس نے اپنے کمرے میں تنہا پی۔۔۔ اور پھر باہر نکل کر ایک ایک سے "امجاد صاحب" کے متعلق پوچھنے لگا! لیکن ہر ایک نے اس نام سے لاعلمی ظاہر کی! آخر سجاد آٹکرایا! عمران نے اس سے بھی "امجاد صاحب" کے متعلق پوچھا۔!

"یہاں تو کوئی بھی امجاد نہیں ہے!" سجاد نے کہا!۔۔۔ یہ ایک ادھیڑ عمر کا قوی الجثہ آدمی تھا! اور اس کے چہرے پر سب سے نمایاں چیز اس کی ناک تھی!

"تب پھر شائد میں غلط جگہ پر ہوں!" عمران نے مایوسی سے کہا۔ "کیپٹن فیاض نے کہا تھا کہ امجاد صاحب میرے پرانے شناسا ہیں اور ان کے بھتیجے!۔۔۔"

"امجاد نہیں سجاد!" سجاد نے کہا "میں ہی سجاد ہوں!"

"نہیں صاحب مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ امجاد۔۔۔! اگر آپ سجاد کہتے ہیں! تو پھر یہی درست ہوگا۔ آپ کے بھتیجے صاحب۔۔۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں!"

"بہت مشکل ہے جناب!" سجاد بولا "وہ کمرے سے باہر نکلتا ہی نہیں۔۔۔ ہم سب خوشامدیں کرتے کرتے تھک گئے!"

"مجھے وہ کمرہ دکھا دیجئے!"

"آئیے۔۔۔ پھر کوشش کریں! ممکن ہے کہ۔۔ مگر مجھے امید نہیں!"

دو تین راہداریوں سے گذرنے کے بعد ایک کمرے کے سامنے رک گئے عمران نے دروازے کو دھکا دیا! لیکن وہ اندر سے بند تھا!

سجاد نے آواز دی لیکن اندر کوئی کھانس کر رہ گیا۔۔۔ اتنے میں عمران نے جیب سے سگریٹ کیس نکال کر ایک سگریٹ سجاد کو پیش کیا اور دوسرا خود سلگا لیا!۔۔۔ سجاد نے سگریٹ سلگا کر پھر دروازے پر دستک دی۔

"خد اکے لئے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو!" اندر سے ایک بھرائی ہوئی سی آواز آئی!

"جمیل بیٹے! دروازہ کھول دو! باہر آؤ۔۔۔دیکھو میں نے ایک نیا انتظام کیا ہے! ہمارے دشمنوں کی گردنیں نالی میں رگڑ دی جائیں گی!"

"چچا جان میں کچھ نہیں چاہتا۔۔۔ میں کچھ نہیں چاہتا!"

"ہم تو چاہتے ہیں!"

"فضول ہے! بیکا رہے۔۔۔! اس کمرے سے میری لاش ہی نکلے گی!۔۔۔"

"دیکھا آپ نے!" سجاد نے آہستہ سے عمران سے کہا اور عمران صرف سر ہلا کر رہ گیا!
 

قیصرانی

لائبریرین
پھر سجاد خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا! وہ بے خیالی میں پے در پے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہا تھا! اچانک اس کے چہرے کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور سگریٹ کی دھجیاں اڑ گئیں۔

"ارے خدایا!" سجاد چیخ مار کر فرش پر ڈھیر ہو گیا۔

"کیا ہوا!" اند رسے کوئی چیخا! پھر دوڑنے کی آواز آئی اور دروازہ جھٹکے سے کھل گیا۔ دوسرے لمحے عمران کے سامنے ایک قوی ہیکل نوجوان کھڑا تھا جس کے چہرے پر بڑے بڑے سفید دھبے تھے!

اس نے جھپٹ کر سجاد کو فرش سے اٹھایا اور سجاد عمران کی طرف دیکھ کر دھاڑا۔

"یہ کیا بیہودگی تھی!"

"ارے۔۔۔ لل۔۔۔ خد۔۔۔ خدا کی قسم۔۔۔!" عمران ہکلانے لگا!

"یہ کیا ہوا!۔۔۔ "جمیل نے سجاد کو جھنجھوڑ کر کہا "یہ کیا تھا!"

"کچھ نہیں!" سجاد عمران کو قہر آلود نظروں سے گھورتا ہوا ہانپ رہا تھا!

"آپ کون ہیں؟" جمیل عمران کی طرف مڑا۔ لیکن پھر دوسرے ہی لمحے میں دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر کمرے میں گھس گیا! دروازہ پھر بند ہو چکا تھا!

"مجھے بتائیے کہ اس بیہودگی کا کیا مطلب تھا!" سجاد عمران کے چہرے کے قریب ہاتھ ہلا کر چیخا۔

گھر کے کئی دوسرے افراد بھی اب وہاں پہنچ گئے تھے!

"دیکھئے! عرض کرتا ہوں!" عمران گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔ "یہ کیپٹن فیاض کی حرکت ہے! اس نے میرے سیگرٹ کیس سے اپنا سگریٹ کیس بدل لیا ہے یہ دیکھئے!۔۔۔ سگریٹ کیس پر اس کا نام بھی موجود ہے!"

عمران نے سگریٹ کیس اسے پکڑا دیا۔۔!

"یہ سگریٹ دراصل میرے لئے تھا!" عمران پھر بولا "مجھے بہت افسوس ہے! لاحول ولا قوۃ۔ آپ جلے تو نہیں؟"

وہ آگے جھک کر اس کے چہرے کا جائزہ لینے لگا!

"اگر یہ مذاق تھا تو میں ایسے مذاق پر لعنت بھیجتا ہوں!" سجاد نے ناخوشگوار لہجے میں کہا "میں نہیں جانتا تھا کہ فیاض ابھی تک بچپنے کی حدود میں ہے!"

"میں فیاض سے سمجھ لوں گا!" عمران اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولا۔

دوسرے افراد سجاد سے دھماکے کے متعلق پوچھنے لگے اور سجاد نے سگریٹ پھٹنے کا واقعہ دہراتے ہوئے کہا "اس طرح اچانک ہارٹ فیل بھی ہوسکتا ہے! فیاض کو ایسا مذاق نہ کرنا چاہئے تھا! اس نے اس کے سگریٹ کیس سے اپنا سگریٹ کیس بدل لیا ہے! اب سوچتا ہوں کہیں فیاض نے مجھ سے بھی تو مذاق نہیں کیا ہے!"

"ضرور کیا ہوگا!" عمران حماقت انگیز انداز میں پلکیں جھپکاتا ہوا بولا۔

"آپ کا عہدہ کیا ہے؟" سجاد نے اس سے پوچھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
"شہدہ۔۔۔! میرا کوئی شہدہ نہیں ہے۔ لا حول ولا قوۃ کیا آپ مجھے لفنگا سمجھتے ہیں! لفنگا ہوگا وہی سالا فیاض۔ ایک دفعہ پھر لا حول ولا قوۃ!"

"آپ اونچا بھی سنتے ہیں؟" سجاد اسے گھورنے لگا!

"میں اونچا نیچا سب کچھ سن سکتا ہوں!" عمران برا سا منہ بنا کر بولا اور سگریٹ کیس سے دوسرا سگریٹ نکالنے لگا۔۔۔ پھر اس طرح چونکا جیسے دھماکے والا واقعہ بھول ہی گیا ہو اس نے جھلاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے سلسلے میں سارے سگریٹ توڑ کر پھینک دئیے اور سگریٹ کیس کو فرش پر رکھ کر پہلے ہی تو اس پر گھونسے برساتا رہا!۔۔۔ کھڑا ہو کر جوتوں سے روندنے لگا! نتیجہ یہ ہوا کہ سگریٹ کیس کی شکل ہی بگڑ گئی!

کچھ لوگ مسکرا رہے تھے اور کچھ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

"میں نے آپ کا عہدہ پوچھا تھا!" سجاد بولا۔

"میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا!" عمران کا لہجہ ناخوشگوار تھا! "میں ابھی واپس جاؤں گا۔ فیاض کی ویسی کی ایسی۔۔۔ ایسی کی ایسی۔۔۔ لا حول ولا قوۃ۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ ویسی کی جیسی۔۔۔!"

"ایسی کی تیسی!" ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے تصحیح کی۔۔۔!

"جی ہاں! ایسی کی تیسی۔۔۔ شکریہ!" عمران نے کہا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ لڑکی نے سجاد کا ہاتھ پکڑا اور ایک دوسرے کمرے میں لے آئی!

"یہ آدمی بڑا گھاگ معلوم ہوتا ہے۔" اس نے سجاد سے کہا۔

"بالکل گدھا!"

"نہیں ڈیڈی! میں ایسا نہیں سمجھتی!۔۔۔ جمیل بھائی کو کمرے سے نکالنے کی ایک بہترین تدبیر تھی!۔۔۔ یہ بتائیے کہ پہلے بھی کوئی اس میں کامیاب ہوسکتا تھا! خود فیاض صاحب نے بھی تو کوشش کی تھی!"

سجاد کچھ نہ بولا! اس کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئی تھیں۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا!

"تم ٹھیک کہتی ہو! سعیدہ! بالکل ٹھیک! مگر کمال ہے۔۔۔ صورت سے بالکل گدھا معلوم ہو تا ہے!"

"محکمہ سراغرسانی میں ایسے ہی لوگ زیادہ کامیاب سمجھے جاتے ہیں اور وہ سچ مچ اپنی ظاہر کی حالت کی ضد ہوتے ہیں!"

عمران راہداری سے کچھ اس انداز میں رخصت ہوا تھا جیسے اپنے کمرے میں پہنچتے ہی وہاں سے روانہ ہو جانے کی تیاریاں شروع کر دے گا۔

"اب کیا کیا جائے!" سجاد نے سعیدہ سے کہا۔

"میں۔۔۔ میں نہیں تم جاؤ۔۔۔!"

"اچھا۔۔۔ میں ہی روکتی ہوں!"

سعیدہ اس کمرے میں آئی جہاں عمران کا قیام تھا! دروازہ اندر سے بند نہیں تھا! اس نے دستک دی! لیکن جواب ندارد! آخر تیسری دستک کے بعد اس نے دھکا دے کر دروازہ کھول دیا کمرہ خالی تھا۔ لیکن عمران کا سامان بدستور موجود تھا۔ پھر نوکروں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عمران خالی ہاتھ باہر گیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۴​

پیر یٰسین نائٹ کلب دن میں بھی آباد رہتا تھا!۔۔۔ وجہ یہی تھی کہ وہاں رہائشی کمرے بھی تھے۔۔۔ اور وہاں قیام کرنے والے مستقل ممبر کہلاتے تھے اور پھر چونکہ یہ "سیزن" کا زمانہ تھا اس لئے یہاں چوبیس گھنٹے کی سروس چلتی تھی!

عمران نے ڈائننگ ہال میں داخل ہو کر چاروں طرف دیکھا اور پھر ایک گوشے میں جا پہنچا۔ اس کی پشت پر ایک کھڑکی تھی اس نے ویٹر کو بلا کر آئس کریم کا آرڈر دیا۔ حالانکہ خنکی اس وقت بھی اچھی خاصی تھی!۔۔۔

وہ تھوڑی دیر تک آئس کریم کی چسکیاں لیتا رہا۔۔۔ پھر یک بیک اس طرح اچھلا کہ سینے کے بل میز پر آ رہا وہاں سے پھسل کر فرش پر آ رہا اور پھر وہ اس طرح کپڑے جھاڑ جھاڑ کر اچھل کود رہا تھا جیسے کپڑوں میں شہد کی مکھیاں گھس گئی ہوں۔۔۔

ہال میں اس وقت زیادہ آدمی نہیں تھے! بہرحال جتنے بھی تھے وہ اپنی جگہوں پر بیٹھے تو نہیں رہ سکتے تھے!

"کیا بات ہے۔۔۔ کیا ہوا!" کسی نے پوچھا!

"پپ۔۔۔ پپ۔۔۔ پپرندہ۔۔۔ پرندہ!" عمران ایک رسی پر ہانپتا ہوا بولا پھر اس نے اس کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کے قریب بیٹھ کر اس نے آئس کریم کھائی تھی!

"پرندہ!" ایک لڑکی نے خوفزدہ آواز میں دہرایا!

اور پھر لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے! ویٹروں نے جھپٹ جھپٹ کر ساری کھڑکیاں بند کردیں!

لیکن اتنے میں ایک بھاری بھرکم ادمی عمران کے قریب پہنچ گیا اور وہ صورت سے کوئی اچھا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا! اس کا چہرہ کسی بلڈاگ کے چہرے سے مشابہ تھا!

"پرندہ!" وہ عمران کے شانے پر ہاتھ مار کر غرایا۔ "ذرا میرے ساتھ آئیے!"

"کک۔۔۔ کیوں؟"

"اس لئے کہ میں یہاں کا مینیجر ہوں!" اس نے عمران کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے کرسی سے اٹھا دیا!

عمران کو اس کے اس رویہ پر حیرت ضرور ہوئی لیکن وہ خاموش رہا اور اس نے اس بات کا موقع نہیں دیا وہ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے ہی اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔

مینیجر نے اسے اپنے کمرے میں کھینچ کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ عمران اس وقت پہلے سے بھی زیادہ بیوقوف نظر آرہا تھا!

"ہوں کیا قصہ تھا پرندے کا!" وہ عمران کو گھورتا ہوا غرایا۔

"قصہ تو مجھے یاد نہیں!" عمران نے بڑی سادگی سے کہا۔ "لیکن پرندہ ضرور تھا!۔۔۔ نیلا۔۔۔!"

"اور وہ تمہاری گردن میں لٹک گیا! کیوں؟"

"نہیں اٹک سکا!۔۔۔ میں دعویٰ کرتا ہوں ! ۔۔۔"

"تمہیں کس نے بھیجا ہے! اس نے میز کی دراز کھول کر لوہے کا ایک دو فٹ لمبا رول نکالے ہوا کہا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
"کسی نے نہیں! میں والدین سے چھپ کر یہاں آیا ہوں!۔۔۔" عمران نے لاپرواہی سے جواب دیا! لیکن اس کی نظریں لوہے کے اس رول پر تھیں!

"میں تمہاری ہڈیاں بھوسہ کردوں گا!" مینیجر گردن اکڑا کر بولا۔

"کیا والد صاحب نے ایسا کہا ہے؟" عمران نے خوفزہ آواز میں پوچھا!

"تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟"

"اچھا تم ہی بتاؤ کہ کون بھیج سکتا ہے؟" عمران نے سوال کیا لیکن مینیجر رول سنبھال کر اس پر ٹوٹ پڑا۔

عمران "ارے" کرتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا!۔۔۔ رول دیوار پر پڑا اور مینیجر پھر پلٹا ۔۔۔ دوسرا حملہ بھی سخت تھا! لیکن اس بار مینیجر جھونک کر میز سے جا ٹکرایا اور پھر میز کے ساتھ ہی خود بھی الٹ گیا! موقع تھا! عمران چاہتا تو اتنی دیر میں دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل سکتا تھا!۔۔۔ مگر وہ احمقوں کی طرح کھڑا۔۔۔ ارے ارے۔۔۔ ہی کرتا رہ گیا!

"آپ کے کہیں چوٹ تو نہیں آئی!" عمران نے اس سے پوچھا جب وہ دوسری طرف ہاتھ ٹیک کر اٹھ رہا! اس کے اس جملے پر مینیجر کو اس زور کا غصہ آیا کہ وہ ایک بار پھر الٹی ہوئی میز پر ڈھیر ہو گیا۔۔۔!

"میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا!" مینیجر دوبارہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہوا غرایا!

"آپ خوامخواہ خفا ہو رہے ہیں چچا جان!" عمران نے نہایت سعادت مندی سے عرض کیا "آپ یقیناً والد صاحب کے دوست معلوم ہوتے ہیں! اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو میں آئندہ یہاں نہ آؤں گا!"

مینجر سامنے کھڑا اسے گھور رہا تھا اور اس کا سینہ سانسوں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پھول کر پچک رہا تھا!۔۔۔

"جی ہاں" عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا! "والد صاحب کہتے ہیں کہ جہاں عورتیں بھی ہوں وہاں نہ جایا کرو۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ کان پکڑتا ہوں۔۔۔ اب کبھی نہ آؤں گا!"

مینجر پھر بھی نہ بولا! وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر عمران کو گھورنے لگا! عمران بھی سرجھکائے کھڑا رہا۔۔۔ اس کے اس روئیے نے مینجر کو الجھن میں ڈال دیا ورنہ یہ بات وہ بھی سوچ سکتا تھا کہ عمران اگر بھاگنا چاہتا تو وہ اسے روک نہ پاتا!

"پرندہ! تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا!۔۔۔" اس نے تھوڑی دیر بعد پوچھا!

"وہ میری گردن سے ٹکرایا تھا!۔۔۔ مجھے پروں کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی تھی۔۔۔ پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کدھر گیا!"

"بکواس۔۔۔ بالکل بکواس۔۔۔ میرے کلب کو بدنام کرنے کی انتہائی مکروہ سازش!"

"میں بالکل نہیں جانتا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں!"

"تم بس یہاں سے چپ چاپ چلے جاؤ اور کبھی یہاں تمہاری شکل نہ دکھائی دے! سمجھے!"

عمران کچھ سوچنے لگا! پھر سر ہلا کر بولا "یہ کوئی دوسرا معاملہ معلوم ہوتا ہے!۔۔۔ آپ والد صاحب کے دوست نہیں ہیں۔ کیوں؟"

"چلے جاؤ!" مینجر حلق پھاڑ کر بولا!

"تم میری توہین کر رہے ہو دوست!" عمران یک بیک سنجیدہ ہو گیا!
 

قیصرانی

لائبریرین
"تم کون ہو؟"

"میں سیاح ہوں۔۔۔ اور میں نے اس پراسرار پرندے کے متعلق اخبارات میں پڑھا تھا!"

"سب بکواس ہے!" مینجر غرایا!۔۔۔ "وہ پرندہ اس کتے۔۔۔ جمیل کے علاوہ اور کسی کو نہیں دکھائی دیا تھا۔۔۔ کلب کو بدنام کرنے کا ایک نا پاک طریقہ!"

"تب تو ضرور یہی بات ہو سکتی ہے۔۔۔ اور میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس کہانی پر یقین نہیں آیا ہے!"

"ابھی تم نے کیا سوانگ بھرا تھا!" مینجر پھر جھلا کر کھڑا ہو گیا!

"بیٹھو بیٹھو! یہ میرا پیشہ ہے!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا!

"کیا پیشہ!۔۔۔"

"میں ایک اخبار کا رپورٹر ہوں!۔۔۔ چندرنگر کا مشہور اخبار۔۔۔ اجالا!۔۔۔ نام سنا ہوگا تم نے۔۔۔ میں صحیح واقعہ معلوم کرنے کی غرض سے یہاں آیا ہوں!"

"تم جھوٹے ہو!" مینجر غرایا!

"تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں جھوٹا ہوں!۔۔۔ مجھے صحیح معلومات حاسل کرنی ہیں ورنہ میں اب تک یہاں ٹھہرتا کیوں؟۔۔۔ میرا سر اتنا مضبوط نہیں ہے کہ لوہے کی سلاخ سے محبت کرسکے۔"

"تو تم نے پرندے کا نام اس طرح کیوں لیا تھا!"

"محض اس لئے کہ تم مجھ سے کھل کر گفتگو کرسکو!۔۔۔ تم نے محض غصے میں اس بات کا اظہار کر دیا کہ یہ تمہارے کلب کو بدنام کرنے کے لئے ایک سازش ہے۔۔۔۔ کیا تم نے دوسرے اخبار کے رپورٹروں سے بھی یہی کہا ہوگا؟"

"نہیں!" مینجر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا!

"کیوں؟"

لیکن مینجر نے اس "کیوں" کا کوئی جواب نہیں دیا!

عمران نے سر ہلا کر کہا "تم نے اس لئے اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ جمیل شہر کا ایک بہت بڑا آدمی ہے۔۔۔"

اس پر مینجر نے شہر کے اس بہت بڑے آدمی کو ایک گندی سی گالی دی اور پھر خاموش ہو گیا!

"ٹھیک ہے! تم کھلم کھلا نہیں کہہ سکتے! ظاہر ہے کہ تمہارا کلب انہیں بڑے آدمیوں کی وجہ سے چلتا ہے!"

مینجر نے تمام بڑے آدمیوں کے لئے بھی وہی گالی دہرائی اور اپنے جیب میں ہاتھ ڈال کر سیگرٹ کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔

"ٹھیک ہے!" عمران مسکرا کر بولا "میں تم سے متفق ہوں اور میرا اخبار بھی متفق ہو جائے گا! لیکن صحیح حالات کا علم ہونا ضروری ہے۔"

"میں دعوٰی سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ پرندہ جمیل کے علاوہ اور کسی کو نہیں دکھائی دیا تھا!"

"لیکن جمیل تمہارے کلب کو کیوں بدنام کرنا چاہتا ہے!"

"میں نے الیکشن میں اس کی مخالفت کی تھی!" مینجر بولا۔

"مگر میرا خیال ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا!" عمران نے کہا۔

"وہ خود نہیں حصہ لیتا! مگر اپنے امیدوار کھڑے کرتا ہے۔۔۔ اور اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس حلقہ انتخاب سے اس کے امیدوار کے علاوہ اور کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے!"

"اچھا خیر۔۔۔ ہاں مگر تمہاری مخالفت کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔"

"اس کے دو امیدوار کامیاب نہ ہوسکے!"

"اور وہ اس کے باوجود بھی تمہارے کلب میں آتا رہا تھا!" عمران نے کہا!

"ہاں۔۔۔ اسی پر تو مجھے حیرت تھی! لیکن اس پرندے والے معاملے نے میری آنکھیں کھول دیں! وہ اس طرح انتقام لینا چاہتا ہے! آدھے سے زیادہ مستقل ممبروں نے کلب سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔۔۔ اور روزانہ کے گاہکوں میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے!"

"اچھا اگر یہ سازش ہے تو میں دیکھ لوں گا!" عمران بولا! "اور میں یہاں سے اس وقت تک نہ جاؤں گا۔ جب تک حقیقت نہ معلوم کرلوں!"

مینجر کچھ نہ بولا! اس کے چہرے پر یقین و تشکیک کی کشمکش کے آثار نظر آرہے تھے!
 

قیصرانی

لائبریرین
۵​

شام بڑی خوشگوار تھی! سورج دور کی پہاڑیوں کی طرف جھک رہا تھا اور کپکپاتی ہوئی سرخی مائل دھوپ سرسبز چٹانوں پر بکھری ہوئی تھی۔

عمران چلتے چلتے اچانک منہ کے بل گر پڑا پہلے تو ننھی ننھی بچیوں نے قہقہہ لگایا لیکن جب عمران اٹھنے کی بجائے بے حس و حرکت اوندھا پڑا ہی رہا تو بچیوں کےساتھ والے اس کی طرف دوڑ پڑے۔۔۔ ان میں دو جوان لڑکیاں تھیں اور تین مرد! ایک نے عمران کو سیدھا کیا۔۔۔ اور پھر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر بولا۔

"بیہوش ہو گیا ہے۔۔۔!"

"دیکھئے سر تو نہیں پھٹا!" ایک لڑکی بولی۔۔۔ اور وہ آدمی عمران کا سر ٹٹولنے لگا!

یہ لوگ اپنے اچھے لباس کی بنا پر اچھی حیثیت والے معلوم ہو رہے تھے!

"نہیں سر محفوظ ہے!" نوجوان بولا! "یہ شائد کسی قسم کا دورہ ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ مرگی۔۔ مرگی!" وہ عمران کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگا!

سامنے ہی ایک عالیشان عمارت تھی اور یہاں سے اس کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔۔۔ یہ نواب جاوید مرزا کی کوٹھی تھی!۔۔۔

"اب کیا کرنا چاہئے!" نوجوانوں میں سے ایک نے کہا "یہ بیچارہ یہاں کب تک پڑا رہے گا۔۔۔ کیوں نہ ہم اسے اٹھا کر کوٹھی میں لے چلیں!"

لڑکیوں نے بھی اس کی تائید کی اور تیسرا جو سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا منہ بنا کر بولا "میرا خیال ہے کہ اس کی ضرورت نہیں!"

"کیوں؟" ایک لڑکی جھلا کر اس کی طرف مڑی!

"یہ مجھے کوئی اچھا آدمی نہیں معلوم ہوتا!"

"برا ہی سہی!" لڑکی نے ناخوشگوار لہجے میں کہا "دنیا کا کوئی آدمی فرشتہ نہیں ہوتا!"

عمران کو زمین سے اٹھایا گیا! لیکن وہ تیسرا الگ ہی الگ رہا۔

حالانکہ وہ دونوں اس کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔۔۔ جوں توں کرکے وہ کوٹھی میں داخل ہوئے اور سب سے پہلا کمرہ جو ان کی پہنچ میں تھا۔ عمران سے آباد ہوگیا! وہ اسے ہوش میں لانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کرتے رہے لیکن کامیابی نہ ہوئی! آخر تھک ہار کر انہیں ڈاکٹر کو فون کرنا پڑا۔۔۔

"یہ بن رہا ہے!" اس نوجوان نے کہا جس نے اسے برا آدمی کہا تھا!

"تم احمق ہو!" لڑکی بولی!

"ہوسکتا ہے کہ شوکت کا خیال درست ہو؟" دوسرے نے کہا!

"تم بھی احمق ہو!"

پہلے نے کچھ نہیں کہا دوسری لڑکی بھی خاموش رہی۔

"اچھا میں اسے ہوش میں لاتا ہوں۔" شوکت آگے بڑھ کر بولا۔۔۔!

"نہیں۔۔۔ قطعی نہیں!" لڑکی نے سخت لہجے میں کہا "ڈاکٹر آرہا ہے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"تمہاری مرضی!" شوکت برا سا منہ بنائے ہوئے پیچھے ہٹ گیا!

اتنے میں ایک باوقار بوڑھا کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی عمر ستر کے لگ بھگ رہی ہوگی لیکن تندرستی بہت اچھی تھی! سفید بالوں میں بھی وہ جوان معلوم ہوتا تھا!۔۔۔

"کیا بات ہے!۔۔۔ یہ کون ہے؟"

"ایک راہگیر!" لڑکی نے کہا "چلتے چلتے گرا اور بیہوش ہوگیا!"

"لیکن یہ ہے کون؟"

"پتہ نہیں! تب سے اب تک بیہوش ہے!"

"اوہ۔۔۔ تم لوگوں کو عقل بالکل نہیں! ہٹو ادھر مجھے دیکھنے دو!"

بوڑھا مسہری کے قریب پہنچ کر بولا "آدمی ذی حیثیت معلوم ہوتا ہے! اس کی جیب میں وزیٹنگ کارڈ ضرور ہوگا! تم لوگ اب تک جھک مارتے رہے ہو!"

اس نے عمران کی مختلف جیبیں ٹٹولنے کے بعد آخر کار ایک وزیٹنگ کارڈ نکال ہی لیا!۔۔۔ اور اس پر نظر ڈالتے ہی اس نے قہقہہ لگایا۔

"ہاہا۔۔۔ دیکھا پروین! میں نہ کہتا تھا کہ کوئی ذی حیثیت آدمی ہے۔۔۔ یہ دیکھو!۔۔۔شہزادہ سطوت جاہ!"

"شہزادہ سطوت جاہ" شوکت نے طنزیہ لہجے میں دہرایا۔

پروین بوڑھے کے ہاتھ سے کارڈ لے کر دیکھنے لگی!

"ہوسکتا ہے کہ یہ مجھ سے ملنے ہی کے لئے ادھر آیا ہو!" بوڑھے نے کہا۔

شوکت دوسری لڑکی کے قریب کھڑا آہستہ آہستہ کچھ بڑبڑا رہا تھا!

اچانک وہ لڑکی بوڑھے کو مخاطب کرکے بولی "شوکت بھائی کا خیال ہے کہ یہ شخص بیہوش نہیں ہے!"

"تمہارا کیا خیال ہے!" بوڑھے نے لڑکی سے پوچھا۔

"بات یہ ہے کہ اب تک ہوش میں آ جانا چاہئے تھا!" لڑکی نے کہا۔

"یعنی تم بھی یہی سمجھتی ہو کہ یہ بن رہا ہے!"

"جی ہاں! میرا بھی یہی خیال ہے!"

"اچھا تو اس معاملہ میں جو بھی شوکت سے متفق ہو اپنے ہاتھ اٹھا دے!" بوڑھے نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔ پروین کے علاوہ اور سب نے ہاتھ اٹھا دیئے۔

"کیوں تم ان لوگوں سے متفق نہیں ہو؟" بوڑھے نے اس سے پوچھا!

"نہیں! حضور ابا۔۔۔!"

"اچھا تو تم یہیں ٹھہرو۔۔۔ اور تم سب یہاں سے دفع ہو جاؤ!" بوڑھے نے ہاتھ جھٹک کر کہا! پروین کے علاوہ اور سب چلے گئے۔۔۔!
 

قیصرانی

لائبریرین
نواب جاوید مرزا عرف عام میں جھکی تھا۔۔۔ اور اس کے ذہن میں جو بات بیٹھتی پتھر کی لکیر ہو جاتی!۔۔۔ وہ لوگ جو اس سے متفق نہ ہوتے انہیں عام طور پر خسارے ہی میں رہنا پڑتا تھا! اس کے تینوں بھتیجے شوکت، عرفان، صفدر اور بھانجی ریحانہ اس وقت دھوکے ہی میں رہے۔۔۔ اس لئے انہیں اس کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔۔۔ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ نواب جاوید مرزا کی رائے مختلف ہوگی!

"میرا خیال بھی کبھی غلط نہیں ہوتا" جاوید مرزا نے پروین کی طرف دیکھ کر کہا "یا ہوتا ہے؟"

"کبھی نہیں!"

اتنے میں ڈاکٹر آگیا!۔۔۔ وہ کافی دیر تک عمران کو دیکھتا رہا!

پھر جاوید مرزا کی طرف دیکھ کر کہا "آپ کا کیا خیال ہے!"

"نہیں تم پہلے اپنا خیال ظاہر کرو!"

"جو آپ کا خیال ہے وہی میرا بھی ہے!"

"یعنی۔۔۔!"

ڈاکٹر شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ یہاں کا فیملی ڈاکٹر تھا اور یہاں سے اسے سینکڑوں روپے ماہوار آمدنی ہوتی تھی! اس لئے وہ بہت محتاط رہتا تھا!۔۔۔ وہ جاوید مرزا کے سوال کا جواب دیئے بغیر ایک بار پھر عمران پر جھک پڑا۔

"ہاں ہاں!" جاوید مرزا اپنا سر ہلا کر بولا "اچھی طرح اطمینان کرلو۔۔۔ پھر خیال ظاہر کرنا!"

جاوید مرزا ٹہلنے لگا! ایک لحظہ کے لئے اس کی پشت ان کی طرف ہوئی اور پروین نے اشارے سے ڈاکٹر کو سمجھا دیا۔۔۔

جاوید مرزا ٹہلتا رہا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ بڑبڑا رہا تھا۔ "شہزادہ سطوت جاہ۔۔۔ شہزادہ سطوت جاہ۔۔۔ واہ نام ہی سے شان ٹپکتی ہے۔ پرانی عظمتوں کا احساس ہوتا ہے۔۔۔!"

"جناب عالی۔۔۔" ڈاکٹر سیدھا کھڑا ہوتا ہوا بولا "بیہوشی! گہری بیہوشی۔۔۔ مگر یہ کوئی مرض نہیں معلوم ہوتا!"

"خوب تو تم بھی مجھ سے متفق ہو!"

"قطعی جناب۔۔۔!"

"پھر۔۔۔! یہ ہوش میں کیسے آئے گا!"

"میرا خیال ہے۔۔۔ خود بخود۔۔۔ دوا کی ضرورت نہیں!"

"مگر میرا خیال ہے کہ دوا کی ضرورت ہے!"

"اگر آپ کا خیال ہے تو پھر ہوگی۔۔۔ آپ مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہیں!" ڈاکٹر نے کہا!

"نہیں بھئی! بھلا میں کس قابل ہوں!" جاوید مرزا نے مسکرا کر انکساری ظاہر کی!

"فی الحال میں ایک انجکشن دے رہا ہوں!"

"انجکشن" جاوید مرزا نے برا سا منہ بنایا۔ "پتہ نہیں۔۔۔ کیا ہو گیا ہے آج کل کے معالجوں کو۔۔۔ انجکشن کے علاوہ کوئی علاج ہی نہیں ہے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"پھر آپ کیا چاہتے ہیں!" ڈاکٹر نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا!

"کوئی نیا۔۔۔ طریقہ۔۔۔ ایک نادر شاہ درانی نے۔۔۔"

یک بیک عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا!

"گٹ آؤٹ۔۔ آل آف یو" اس نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر چاروں طرف دیکھ کر شرمندہ ہوجانے کے انداز میں ہونٹوں پر زبان پھیر پھیر کر تھوک نگلنے لگا۔۔۔!

"اب کیسی طبیعت ہے!" جاوید مرزا نے پوچھا!

"وہ تو ٹھیک ہے۔۔ مگر۔۔۔!" عمران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا!

"میں جاوید مرزا ہوں۔۔۔ یہ پروین ہے۔۔۔ اور یہ ڈاکٹر فطرت!"

"عشرت!" ڈاکٹر نے تصحیح کی!

"اور میں۔۔۔!"

"ہاں ہاں٬ تم سطوت جاہ۔۔۔ ہو! شہزادہ سطوت جاہ!"

"ہائیں۔۔۔!" عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا "آپ میرا نام کیسے جان گئے!"

اس پر جاوید مرزا صرف ہنس کر رہ گیا!

"میں نے ابھی تک کسی پر اپنی اصلیت ظاہر نہیں کی تھی۔۔۔ آپ کو کیسے۔۔۔!"

"پروا مت کرو!۔۔۔" جاوید مرزا نے کہا۔۔۔ "اب تمہاری طبیعت کیسی ہے!"

"مگر میں یہاں کیسے آیا۔۔!"

"تم چلتے چلتے گر کر بیہوش ہو گئے تھے!" جاوید مرزا بولا۔

"ہائیں!" عمران کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں "کوئی ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا۔۔۔!"

"ایکسیڈنٹ!" جاوید مرزا نے حیرت ظاہر کی "میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا!"

"میری کار کہاں ہے؟"

"کار" پروین اسے گھور کر بولی "آپ تو پیدل تھے۔۔۔ ہم نے کوئی کار نہیں دیکھی!"

"مذاق نہ کیجئے!" عمران گھگھیا کر بولا!

"نہیں بخدا وہاں کوئی کار نہیں تھی!"

"میرے خدا!۔۔۔ کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں!" عمران اپنی پیشانی رگڑنے لگا!

"کیا معاملہ ہے!" جاوید مرزا نے دخل دیا۔

"میں اپنی کار ڈرائیو کر رہا تھا!" عمران نے کہا۔۔۔!

پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا ہوگا ظاہر ہے!۔۔۔ جاوید مرزا سے لے کر دروازوں کے شیشے صاف کرنے والا لڑکا تک سب پاگل ہو گئے! بڑی دور دور تک کار تلاش کی گئی۔ مگر۔۔۔ وہاں تھا ہی
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا!۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سب اسٹڈی میں اکٹھے ہوئے۔ شوکت، عرفان، صفدر اور ریحانہ بھی موجود تھے!

شوکت بار بار عمران کو عجیب نظروں سے گھورنے لگتا تھا!۔۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ان سب سے بیزار ہو!۔۔۔ اس نے اس دوران ایک بار بھی حیرت کا اظہار نہیں کیا تھا!

"سردار گڈھ۔۔۔ بھوتوں کا مسکن بن گیا ہے!" جاوید مرزا بڑبڑایا!

"روزانہ ایک انہونی بات سامنے آتی ہے۔۔۔ ویسے سطوت جاہ تم ٹھہرے کہاں ہو!"

"رائل ہوٹل میں!۔۔۔"

سردار گڈھ کب آئے ہو!"

"پرسوں!"

"پھر تم اپنی کار کے لئے کیا کرو گے!"

"صبر کروں گا۔۔۔!"

"آپ کہاں کے شہزادے ہیں جناب!" دفعتا شوکت نے پوچھا!

"پرنس آف ڈھمپ!" عمران اپنی گردن اکڑا کر بولا!

"یہ ڈھمپ کیا بلا ہے!"

"نقشے میں تلاش کیجئے! آپ ہماری توہین کر رہے ہیں!"

"شوکت باہر جاؤ!" جاوید مرزا بگڑ گیا!

شوکت چپ چاپ اٹھا اور باہر چلا گیا!

"تم کچھ خیال نہ کرنا" جاوید مرزا نے عمران سے کہا "یہ ذرا بددماغ ہے!"

"آپ بھی میری توہین کر رہے ہیں!" عمران نے ناخوشگوار لہجے میں کہا! " نہ آپ نہ جناب۔۔۔ تم۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔!"

"میں نواب جاوید مرزا ہوں!"

"اچھا!" عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ پھر آگےبڑھ کر اس سے مصافحہ کرتا ہوا بولا "آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔۔۔"

"مجھے بھی ہوئی!"

"اور یہ سب حضرات۔۔۔ اور ۔۔۔ خواتین!"

"یہ عرفان ہے! یہ صفدر ہے۔۔۔ یہ پروین۔۔۔ یہ ریحانہ۔۔۔!"

"یہ پروین۔۔۔" عمران صفدر کی طرف اشارہ کرکے بولا! پھر اپنا منہ پیٹنے لگا۔۔۔ "لاحول ولا قوۃ۔۔۔ بھول گیا۔۔۔! ۔۔۔ یہ یہ!"

جاوید مرزا نے ایک بار پھر ان کے نام دہرا کر عمران کو سمجھانے کی کوشش کی!

"ان سب کی رگوں میں آپ کا خون ہے!" عمران نے پوچھا!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top