۱
چودھویں کی چاندنی پہاڑیوں پر بکھری ہوئی تھی۔۔۔ سناٹے اور چاندنی کا حسین امتزاج صدیوں پرانی چٹانوں کو گویا جھنجھوڑ کر جگا رہا تھا!۔۔۔ ایک لامتناہی سکوت کے باوجود بھی نہ جانے کیوں ماحول بڑا جاندار معلوم ہو رہا تھا۔ پہاڑوں میں چکراتی ہوئی سیاہ سڑک پر جو بلندی سے کسی بل کھائے ہوئے سانپ سے مشابہ نظر آتی تھی۔ ایک لمبی سی کار دوڑتی دکھائی دے رہی تھی۔
اچانک وہ ایک جگہ رک گئی۔۔۔ اور اسٹیرنگ کے سامنے بیٹھا ہوا آدمی بڑبڑانے لگا "کیا ہو گیا ہے۔۔۔ بھئی!"
اس نے اسے دوبارہ اسٹارٹ کیا۔۔۔ انجن جاگا ۔۔۔ ایک مختصر سی انگڑائی لی اور پھر سو گیا!۔۔۔
کئی بار اسٹارٹ کرنے کے باوجود بھی انجن ہوش میں نہ آیا!۔۔۔
"یار دھکا لگانا پڑے گا!" اس نے پیچھے مڑ کر کہا! مگر پچھلی سیٹ سے خراٹے ہی بلند ہوتے رہے۔۔۔
اس نے دونوں گھٹنے سیٹ پر ٹیک کر بیٹھتے ہوئے سونے والے کو بری طرح جھنجھوڑنا شروع کردیا!۔۔۔
لیکن خراٹے بدستور جاری رہے۔
آخر جگانے والا سونے والے پر چڑھ ہی بٹھا!
"ارے۔۔۔ ارے۔۔ ۔ بچاؤ۔۔۔ بچاؤ!" اچانک سونے والے نے حلق پھاڑ نا شروع کردیا۔ لیکن جگانے والے نے کسی نہ کسی طرح کھینچ کھانچ کر اسے نیچے اتار ہی لیا!
"ہائیں! میں کہاں ہوں؟" جاگنے والا آنکھیں مل مل کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
"عمران کے بچے ہوش میں آؤ!" دوسرے نے کہا!
"بچے۔۔۔ خدا کی قسم ایک بھی نہیں ہے۔۔۔ ابھی تو مرغی انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہے سوپر فیاض۔۔۔!"
"کار اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے!" کیپٹن فیاض نے کہا۔
"جب چلے تھے تب تو شائد اسٹارٹ ہو گئی تھی!"
"چلو دھکا لگاؤ!"
عمران نے اس کے شانے پکڑے اور دھکیلتا ہوا آگے بڑھنے لگا!
"یہ کیا بیہودگی ہے! میں تھپڑ رسید کردوں گا!" فیاض پلٹ کر اس سے لپٹ پڑا۔۔۔
"ہائیں۔۔۔ ہائیں۔۔۔ ارے میں ہوں۔۔۔ مرد ہوں!"
"کار دھکا دئیے بغیر اسٹارٹ نہیں ہوگی!" فیاض حلق پھاڑ کر چیخا۔
"تو ایسا بولو نا۔۔۔ میں سمجھا شائد۔۔ ۔ واہ یار۔۔۔!"
فیاض اسٹیرنگ کے سامنے جا بیٹھا۔۔۔ اور عمران کار کو آگے سے پیچھے کی طرف دھکیلنے لگا۔
"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔!" فیاض پھرچیخا!"پیچھے سے!"
عمران نے منہ پھیر کر اپنی کمر کار کے اگلے سرے سے لگا دی اور زور کرنے لگا۔
"ارے خدا غارت کرے۔۔۔ سور۔۔۔ گدھے!" فیاض دانت پیس کر رہ گیا۔
"اب کیا ہوگیا۔۔۔!" عمران جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
فیاض نیچے اتر آیا۔ چند لمحے کھڑا عمران کو گھورتا رہا پھر بے بسی سے بولا۔