عمران امریکی سازشی بیانیے سے دستبردار، واشنگٹن سے دوستی کے خواہاں

14 نومبر ، 2022

لاہور (ایجنسیاں، جنگ نیوز) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان امریکی سازش کے بیانیے سے دستبردار، واشنگٹن سے دوستی کی خواہش کا اظہار کردیا، عمران خان نے ایک اوریوٹرن لیتے ہوئے سائفر بیانیے کو ماضی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ میرے خیال میں سازش کا بیانیہ گزر چکا اب وہ پیچھے رہ گیا، میں اب امریکا پر الزامات نہیں لگاتا، دوبارہ وزیر اعظم بنا تو امریکا سے اچھے تعلقات رکھنا چاہوں گا۔ماضی میں واشنگٹن سے ہمارارشتہ ہمیشہ آقا اور غلام کا رہا، اس میں زیادہ قصور پاکستانی حکومتوں کا تھا۔ یوکرین پر حملے سے ایک روز پہلے دورہ روس باعث ندامت تھا، ماضی میں فوج نے خودمختار اداروں کو کمزور کیااور شریف خاندان جیسے سیاسی خاندانوں کیساتھ مل کر ایسا کام کیا جیسے وہ قانون سے بالا تر ہیں، میرے مستقبل کے منصوبوں میں پاک فوج تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے مگر اس میں توازن ضروری ہے ‘ایسا نہیں ہوناچاہئے کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہو اوراختیار کسی اور کے پاس ہو ‘کرپشن زدہ اور عدالتوں سے سزا یافتہ شخص لندن میں بیٹھ کر آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کر رہا ہے۔ مسئلہ لندن میں پھنسا ہوا ہے ۔ وہاں بیٹھا شخص شکست کے ڈرسے الیکشن نہیں کر وا رہا ‘ نواز شریف خود کو بچانے کے لیے سارا ملک تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے‘ہینڈلرز کو کہا تھا تجربہ ناکام ہوگا، بدقسمتی ہے غلطی ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی گئی‘عدلیہ کو عوام کا ساتھ دینا چاہئے ۔برطانوی اخبار کو انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھاکہ واشنگٹن سے باوقار تعلقات چاہتا ہوں‘ایسے پاکستان کی قیادت کرنا چاہوں گا جس کے تمام ممالک خصوصاً امریکا سے اچھے تعلقات ہوں، امریکا سے’’آقا غلام‘‘ کے تعلق میں امریکا کو نہیں، بلکہ اپنی حکومتوں کو قصور وار مانتا ہوں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ طاقت کہیں اور ہو تو منتخب حکومت عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتی، نئے سپہ سالار کی تقرری میرٹ پر چاہتا ہوں۔دریں اثناء کھاریاں میں لانگ مارچ کے شرکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے ہی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آئےگا مگر جب تک اسے کھینچتے جائیں گے تو ملک اور مستقبل داؤ پر لگا رہے گا۔میں عدلیہ اور چیف جسٹس سے کہنا چاہتا ہوں کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔چیف جسٹس صاحب! آپ کو ارشد شریف اور اعظم سواتی کو انصاف دینا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کی عدلیہ عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔عمران خان نے کہا کہ ہم امریکا سے ویسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے ان کے انڈیا سے تعلقات ہیں ناکہ غلاموں والے۔موجودہ حکمرانوں کے مطابق میں نے پاکستان کو عالمی دنیا میں تنہا کیا، تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ سات ماہ میں بوٹ پالش کر کے آپ نے کیا فائدہ پاکستان کے لیے حاصل کر لیا۔سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ لوگ کہہ رہے کہ مارچ کی رفتار کافی آہستہ ہے۔ مارچ کو آہستہ تو ہونا ہی تھا چونکہ میرے اوپر وزیر آباد میں حملہ ہوا جس کی اب تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہاکہ آپ شکر کریں کے تحریک انصاف نوجوانوں کو لانگ مارچ کے ذریعے پرامن احتجاج کا راستہ دکھا رہی ہے ورنہ یہ سری لنکا جیسا معاملہ بھی ہو سکتا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ پورے ملک سے لوگ راولپنڈی پہنچیں گے جن کا ایک ہی پیغام ہو گا کہ ہمیں بھیڑ بکریاں نہ سمجھیں بلکہ ہم ہی فیصلہ کریں گے کہ اس ملک کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔

یہ خبر روزنامہ جنگ کراچی سے لی گئی ہے
 

علی وقار

محفلین
14 نومبر ، 2022

لاہور (ایجنسیاں، جنگ نیوز) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان امریکی سازش کے بیانیے سے دستبردار، واشنگٹن سے دوستی کی خواہش کا اظہار کردیا، عمران خان نے ایک اوریوٹرن لیتے ہوئے سائفر بیانیے کو ماضی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ میرے خیال میں سازش کا بیانیہ گزر چکا اب وہ پیچھے رہ گیا، میں اب امریکا پر الزامات نہیں لگاتا، دوبارہ وزیر اعظم بنا تو امریکا سے اچھے تعلقات رکھنا چاہوں گا۔ماضی میں واشنگٹن سے ہمارارشتہ ہمیشہ آقا اور غلام کا رہا، اس میں زیادہ قصور پاکستانی حکومتوں کا تھا۔ یوکرین پر حملے سے ایک روز پہلے دورہ روس باعث ندامت تھا، ماضی میں فوج نے خودمختار اداروں کو کمزور کیااور شریف خاندان جیسے سیاسی خاندانوں کیساتھ مل کر ایسا کام کیا جیسے وہ قانون سے بالا تر ہیں، میرے مستقبل کے منصوبوں میں پاک فوج تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے مگر اس میں توازن ضروری ہے ‘ایسا نہیں ہوناچاہئے کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہو اوراختیار کسی اور کے پاس ہو ‘کرپشن زدہ اور عدالتوں سے سزا یافتہ شخص لندن میں بیٹھ کر آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کر رہا ہے۔ مسئلہ لندن میں پھنسا ہوا ہے ۔ وہاں بیٹھا شخص شکست کے ڈرسے الیکشن نہیں کر وا رہا ‘ نواز شریف خود کو بچانے کے لیے سارا ملک تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے‘ہینڈلرز کو کہا تھا تجربہ ناکام ہوگا، بدقسمتی ہے غلطی ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی گئی‘عدلیہ کو عوام کا ساتھ دینا چاہئے ۔برطانوی اخبار کو انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھاکہ واشنگٹن سے باوقار تعلقات چاہتا ہوں‘ایسے پاکستان کی قیادت کرنا چاہوں گا جس کے تمام ممالک خصوصاً امریکا سے اچھے تعلقات ہوں، امریکا سے’’آقا غلام‘‘ کے تعلق میں امریکا کو نہیں، بلکہ اپنی حکومتوں کو قصور وار مانتا ہوں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ طاقت کہیں اور ہو تو منتخب حکومت عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتی، نئے سپہ سالار کی تقرری میرٹ پر چاہتا ہوں۔دریں اثناء کھاریاں میں لانگ مارچ کے شرکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے ہی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آئےگا مگر جب تک اسے کھینچتے جائیں گے تو ملک اور مستقبل داؤ پر لگا رہے گا۔میں عدلیہ اور چیف جسٹس سے کہنا چاہتا ہوں کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔چیف جسٹس صاحب! آپ کو ارشد شریف اور اعظم سواتی کو انصاف دینا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کی عدلیہ عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔عمران خان نے کہا کہ ہم امریکا سے ویسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے ان کے انڈیا سے تعلقات ہیں ناکہ غلاموں والے۔موجودہ حکمرانوں کے مطابق میں نے پاکستان کو عالمی دنیا میں تنہا کیا، تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ سات ماہ میں بوٹ پالش کر کے آپ نے کیا فائدہ پاکستان کے لیے حاصل کر لیا۔سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ لوگ کہہ رہے کہ مارچ کی رفتار کافی آہستہ ہے۔ مارچ کو آہستہ تو ہونا ہی تھا چونکہ میرے اوپر وزیر آباد میں حملہ ہوا جس کی اب تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہاکہ آپ شکر کریں کے تحریک انصاف نوجوانوں کو لانگ مارچ کے ذریعے پرامن احتجاج کا راستہ دکھا رہی ہے ورنہ یہ سری لنکا جیسا معاملہ بھی ہو سکتا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ پورے ملک سے لوگ راولپنڈی پہنچیں گے جن کا ایک ہی پیغام ہو گا کہ ہمیں بھیڑ بکریاں نہ سمجھیں بلکہ ہم ہی فیصلہ کریں گے کہ اس ملک کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔

یہ خبر روزنامہ جنگ کراچی سے لی گئی ہے
چلیں اس بار یو ٹرن کی بجائے اسے با وقار پسپائی کہہ لیتے ہیں بشرط یہ کہ خبر بھی درست ہو۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
توبہ توبہ آپ نے جنگ اخبار پر 10 فیصد "نادرست" ہونے کا الزام عائد کر دیا، توبہ توبہ!:)
کیا خبر وہ نوے فیصد نا درست کہنا چاہتے ہوں اور ٹائپنگ کی غلطی سے بات ہی بدل گئی ہو۔ 😊
نا درست کو نو درست کہہ لیا جائے تو ؟
جیسے نو خیز :)
 
ایک سوال یہ ہے کہ کیا سازشی بیانیہ امریکی دشمنی کا بیانیہ تھا ؟
سوال یہ بھی ہے کہ ایک ایسی حکومت سے دوستی کی تمنا ہی کیوں رکھی جسے آپ کی خود مختاری کا قطعا لحاظ نہ ہو اور جو اپنے مفادات کے لیے آپ کے داخلی معاملات میں اس حد تک مداخلت کرتا ہو ہے کہ بلاجھجک "منتخب" حکومت کا تختہ تک الٹوا دیتا ہو؟؟؟؟
باقی خان صاحب نے جو بیانیہ بنایا تھا، وہ خالصتا نفرت اور دشمنی پر مبنی تھا ... آپ خان صاحب کو یہاں ڈفینڈ کر بھی لیں تو انہوں آگے چل کر اس سے بھی بڑا بھنڈ مار دینا ہے ... پھر اس کی تاویلات ڈھونڈنا پڑیں گی ... ایک ایسے شخص کی باتوں کا جواز تراشنا، جس کی تضادبیانی اور کذب بیانی کی طویل اور واضح تاریخ ہو، کار عبث ہے.
 
Top