شمشاد
لائبریرین
صفحہ 906 تا 935
اس دعوت کے کوائف بھی انوکھے تھے۔
کریلے
ایک مرتبہ انہوں نے شبیر کو مجبور کیا کہ وہ انہیں دعوت کھلائے۔ پہلے تو شبیر انہیں ٹالتا رہا لیکن آخر اس نے محسوس کیا کہ دعوت کھلائے بغیر چارہ نہیں۔ اس نے ایک دن مقرر کر دیا۔ مقررہ دن وہ سب تیار بیٹھے رہے کہ کب بلاوا آئے۔ آکر شبیر آیا اور کہنے لگا۔ “ لو بھئی ابھی کھانا آتا ہے۔“
“ آتا ہے کیا مطلب؟“ افضل نے کہا “ کیا ہم تمہارے گھر نہ جائیں گے؟“
“ نہیں یار۔“ وہ بولا “ وہاں جا کر کھانے کا کیا مزہ۔ یہیں بھجوا دیتا ہوں میں۔ تم میری بیوی کی عادت سے واقف نہین۔ کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔“
اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ شبیر کا بھانجا جاوہ ہاتھ میں ٹرے اٹھائے ان کے گھر کی طرف آ رہا ہے۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاں آنے کی بجائے وہ سیدھا آگے نکل گیا۔
انہوں نے جاوہ کو آوازیں دیں، شور مچایا مگر وہ چپ چاپ سیدھا نکل گیا۔
“ بیگم کی سہیلی کے ہاں کھانا پہنچانے گیا ہے۔“ شبیر بولا۔ “ ابھی واپس آ کر ہمارا کھانا لے آئے گا۔ گھبراؤ نہیں۔“ کچھ دیر کے بعد جاوہ وہی بھرا ہوا ٹرے اٹھائے واپس آ گیا۔ اسے دیکھ کر شبیر بولا۔
“ اچھا تو کیا وہ لوگ گھر نہیں ملے؟ اچھا تو انہیں پھر دے آنا۔ یہ ہمیں دے دو۔“ شبیر نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ افضل اور ایلی کو سمجھ میں نہ آیا۔
دراصل بات یہ تھی کہ شبیر کی بیوی ایلی اور افضل سے مشٹنڈوں کا کھانا پکانے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیئے شبیر نے یہ بہانہ بنایا تھا کہ مسجد میں دو ولی اللہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دعوت کرنا ہے۔ بیگم اس کی چال میں آ گئی اور اس نے کھانا تیار کر دیا۔ جب جاوہ کھانا لے کر مسجد کی طرف روانہ ہوا تو وہ حسبِ عادت دروازے میں کھڑی دیکھ رہی تھی کہ نکڑ والے مکان پر تو نہیں رکتا اور شبیر کی ہدایات کے مطابق جاوہ سیدھا نکل گیا تھا اور موڑ مڑنے کے بعد کچھ دیر وہاں انتظار کرتا رہا تا کہ بیگم شبیر مطمئن ہو کر اپنے کام کاج میں لگ جائے اور وہ کھانا لے کر لوٹ آئے۔
بہرحال ایلی اور افضل کو اس بھید کا علم نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ شبیر نے منتیں کر کے بیوی کو دعوت پکانے پر تیار کر لیا ہے۔
اس رات اسے خیال آیا کہ بیگم شبیر کو راضی کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اگلے روز ایلی نے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔
“ کیوں بھئی “ ایلی نے پوچھا۔ “ شبیر کہاں ہے؟“
“ وہ تو ابھی سکول سے نہیں آئے۔“ جاوہ بولا۔
ایلی نے بلند آواز چلا کر کہا۔ “ لیکن شبیر تو آج سکول آیا ہی نہیں تھا۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ بیگم بات سن کر چونک جائے۔
“ گھر سے تو سکول ہی گئے تھے۔“ جاوہ نے کہا۔
“ میں نے کہا جاوہ۔“ ایلی بڑے رازدارانہ انداز بولا۔ “ تمہارے گھر جب بھی کریلے پکیں تو یار تھوڑے سے مجھے دینا۔ اتنے اچھے کریلے تمہارے ہاں بنتے ہیں کہ جواب نہیں۔ یار مجھے کریلے بہت پسند ہیں۔“
جاوہ چپ چاپ کھڑا تھا۔
ایلی نے آواز اور آہستہ کر لی اور بولا۔ “ چاہے چرا کر کھلاؤ لیکن صرف ایک بار کھلا دو۔ صرف ایک مرتبہ تمہارے گھر کے پکے ہوئے کریلے کھائے ہیں۔ اس روز جب شبیر نے ہماری دعوت کی تھی۔ کھلاؤ گے یار؟“ اس نے کہا۔ “ گھر نہ بتانا۔ چوری چوری کھلا دینا۔ ضرور۔“
ایلی کو اچھی طرح علم تھا کہ شبیر کی بیگم بڑے غور سے اس کی ہر بات سن رہی ہے۔ اس لیے اس نے جاوہ کی بہت منتیں کریں پھر چلا آیا۔
گھر آ کر اس نے افضل کو کہا۔ “ بھئی پتھر تو پھینک آیا ہوں اب پتہ نہیں کیسی لہریں اٹھیں۔ یا تو کشتی ڈوب گئی اور یا کنارے جا لگی۔“
“ کیسا پتھر پھینکا ہے؟“ افضل نے پوچھا۔
“ بس سمجھ لو پتھر تھا۔ اب تو لہریں دیکھو۔
رات کو شبیر آیا تو اس نے آتے ہی شور مچا دیا۔ “ یار یہ کیا سحر کر دیا تم نے الیاس۔ حد ہو گئی۔“
“ کیوں کیا بات ہے؟“ افضل نے پوچھا۔
“ بات؟“ وہ بولا “ بات کہاں تو معجزہ ہو چکا ہے۔“
“ معجزہ۔“ افضل نے دہرایا۔ “ کچھ پلے بھی پڑے یار۔“
“ بات بتانے سے پہلے میں تمہیں پچھلا قصہ سنا دوں۔“ شبیر نے کہا۔ “ جب پہلی مرتبہ تم نے مجھ سے دعوت کھلانے کی بات کی تھی تو میں نے اپنی بیوی سے اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ وہ تمہارے لیے دعوت پکائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اسے کہا تھا کہ مسجد میں دو مولوی ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی دعوت کرنی ہے۔“
“ ارے۔“ افضل چلایا۔
“ اچھا۔“ ایلی بولا۔ “ جبھی چاوہ پہلے خوان لے کر آگے چلا گیا تھا۔“
“ بھئی بیگم تو تمہارا نام تک سننے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن آج۔ معلوم ہے آج کیا مطالبہ کیا ہے اس نے؟“
“ کیا؟“ افضل بولا۔
“ کہ کل تمام سامان خرید کر لاؤ۔ میں ان کی دعوت کروں گی۔“
“ کس کی؟“ افضل چلایا۔
“ بھئی تمہاری اور کس کی۔“ شبیر ہنسنے لگا۔ مجھے تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ نہ جانے آصفی نے وہاں جا کر کیا کیا ہے۔ نقشہ ہی بدل گیا گھر کا۔“
‘ لیکن یہ ہوا کیسے؟ ساری بات بتاؤ یار۔“ افضل بولا۔
“ گھر لوٹا تو پہلے تو جواب طلبی ہوئی کہ بتاؤ آج سکول کیوں نہیں گئے تھے اور گئے کہاں تھے۔ پھر دوسری جواب طلبی ہوئی۔ کہنے لگی اس روز مجھے دھوکہ دیا تھا نا۔ دعوت دوستوں کی کی تھی اور بہانہ مولوی صاحب کا بنایا تھا۔ بیگم کو یہ شکایت ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ “ اگر دوستوں کی دعوت کرنی تھی تو مجھے بتایا ہوتا تا کہ میں دل لگا کر پکاتی۔ میں نے تو ویسے ہی بے پروائی سے کھانا پکایا تھا۔ حیرت ہے یار۔“
“ تو تیر نشانے پر بیٹھا۔“ ایلی ہنسنے لگا۔
“ سبحان اللہ کیا تیر ہے اور کیا تیر انداز ہے۔“ شبیر نے کہا۔ “ ایسی بات کر دکھائی ہے تم نے جو میری دانست میں ممکن ہی نہ تھی۔“
“ چلو “ ایلی بولا۔ “ شیخ سے جا کر شکایت کرنے کا خطرہ تو ٹل گیا۔“
“ ارے۔“ شبیر چلایا۔ “ تو کیا اس لیے یہ تیر چلایا ہے۔“
“ اور کیا دعوت کھانے کے لیے؟“ ایلی ہنسنے لگا۔
اس دعوت کے کوائف بھی انوکھے تھے۔
کریلے
ایک مرتبہ انہوں نے شبیر کو مجبور کیا کہ وہ انہیں دعوت کھلائے۔ پہلے تو شبیر انہیں ٹالتا رہا لیکن آخر اس نے محسوس کیا کہ دعوت کھلائے بغیر چارہ نہیں۔ اس نے ایک دن مقرر کر دیا۔ مقررہ دن وہ سب تیار بیٹھے رہے کہ کب بلاوا آئے۔ آکر شبیر آیا اور کہنے لگا۔ “ لو بھئی ابھی کھانا آتا ہے۔“
“ آتا ہے کیا مطلب؟“ افضل نے کہا “ کیا ہم تمہارے گھر نہ جائیں گے؟“
“ نہیں یار۔“ وہ بولا “ وہاں جا کر کھانے کا کیا مزہ۔ یہیں بھجوا دیتا ہوں میں۔ تم میری بیوی کی عادت سے واقف نہین۔ کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔“
اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ شبیر کا بھانجا جاوہ ہاتھ میں ٹرے اٹھائے ان کے گھر کی طرف آ رہا ہے۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاں آنے کی بجائے وہ سیدھا آگے نکل گیا۔
انہوں نے جاوہ کو آوازیں دیں، شور مچایا مگر وہ چپ چاپ سیدھا نکل گیا۔
“ بیگم کی سہیلی کے ہاں کھانا پہنچانے گیا ہے۔“ شبیر بولا۔ “ ابھی واپس آ کر ہمارا کھانا لے آئے گا۔ گھبراؤ نہیں۔“ کچھ دیر کے بعد جاوہ وہی بھرا ہوا ٹرے اٹھائے واپس آ گیا۔ اسے دیکھ کر شبیر بولا۔
“ اچھا تو کیا وہ لوگ گھر نہیں ملے؟ اچھا تو انہیں پھر دے آنا۔ یہ ہمیں دے دو۔“ شبیر نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ افضل اور ایلی کو سمجھ میں نہ آیا۔
دراصل بات یہ تھی کہ شبیر کی بیوی ایلی اور افضل سے مشٹنڈوں کا کھانا پکانے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیئے شبیر نے یہ بہانہ بنایا تھا کہ مسجد میں دو ولی اللہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دعوت کرنا ہے۔ بیگم اس کی چال میں آ گئی اور اس نے کھانا تیار کر دیا۔ جب جاوہ کھانا لے کر مسجد کی طرف روانہ ہوا تو وہ حسبِ عادت دروازے میں کھڑی دیکھ رہی تھی کہ نکڑ والے مکان پر تو نہیں رکتا اور شبیر کی ہدایات کے مطابق جاوہ سیدھا نکل گیا تھا اور موڑ مڑنے کے بعد کچھ دیر وہاں انتظار کرتا رہا تا کہ بیگم شبیر مطمئن ہو کر اپنے کام کاج میں لگ جائے اور وہ کھانا لے کر لوٹ آئے۔
بہرحال ایلی اور افضل کو اس بھید کا علم نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ شبیر نے منتیں کر کے بیوی کو دعوت پکانے پر تیار کر لیا ہے۔
اس رات اسے خیال آیا کہ بیگم شبیر کو راضی کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اگلے روز ایلی نے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔
“ کیوں بھئی “ ایلی نے پوچھا۔ “ شبیر کہاں ہے؟“
“ وہ تو ابھی سکول سے نہیں آئے۔“ جاوہ بولا۔
ایلی نے بلند آواز چلا کر کہا۔ “ لیکن شبیر تو آج سکول آیا ہی نہیں تھا۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ بیگم بات سن کر چونک جائے۔
“ گھر سے تو سکول ہی گئے تھے۔“ جاوہ نے کہا۔
“ میں نے کہا جاوہ۔“ ایلی بڑے رازدارانہ انداز بولا۔ “ تمہارے گھر جب بھی کریلے پکیں تو یار تھوڑے سے مجھے دینا۔ اتنے اچھے کریلے تمہارے ہاں بنتے ہیں کہ جواب نہیں۔ یار مجھے کریلے بہت پسند ہیں۔“
جاوہ چپ چاپ کھڑا تھا۔
ایلی نے آواز اور آہستہ کر لی اور بولا۔ “ چاہے چرا کر کھلاؤ لیکن صرف ایک بار کھلا دو۔ صرف ایک مرتبہ تمہارے گھر کے پکے ہوئے کریلے کھائے ہیں۔ اس روز جب شبیر نے ہماری دعوت کی تھی۔ کھلاؤ گے یار؟“ اس نے کہا۔ “ گھر نہ بتانا۔ چوری چوری کھلا دینا۔ ضرور۔“
ایلی کو اچھی طرح علم تھا کہ شبیر کی بیگم بڑے غور سے اس کی ہر بات سن رہی ہے۔ اس لیے اس نے جاوہ کی بہت منتیں کریں پھر چلا آیا۔
گھر آ کر اس نے افضل کو کہا۔ “ بھئی پتھر تو پھینک آیا ہوں اب پتہ نہیں کیسی لہریں اٹھیں۔ یا تو کشتی ڈوب گئی اور یا کنارے جا لگی۔“
“ کیسا پتھر پھینکا ہے؟“ افضل نے پوچھا۔
“ بس سمجھ لو پتھر تھا۔ اب تو لہریں دیکھو۔
رات کو شبیر آیا تو اس نے آتے ہی شور مچا دیا۔ “ یار یہ کیا سحر کر دیا تم نے الیاس۔ حد ہو گئی۔“
“ کیوں کیا بات ہے؟“ افضل نے پوچھا۔
“ بات؟“ وہ بولا “ بات کہاں تو معجزہ ہو چکا ہے۔“
“ معجزہ۔“ افضل نے دہرایا۔ “ کچھ پلے بھی پڑے یار۔“
“ بات بتانے سے پہلے میں تمہیں پچھلا قصہ سنا دوں۔“ شبیر نے کہا۔ “ جب پہلی مرتبہ تم نے مجھ سے دعوت کھلانے کی بات کی تھی تو میں نے اپنی بیوی سے اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ وہ تمہارے لیے دعوت پکائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اسے کہا تھا کہ مسجد میں دو مولوی ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی دعوت کرنی ہے۔“
“ ارے۔“ افضل چلایا۔
“ اچھا۔“ ایلی بولا۔ “ جبھی چاوہ پہلے خوان لے کر آگے چلا گیا تھا۔“
“ بھئی بیگم تو تمہارا نام تک سننے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن آج۔ معلوم ہے آج کیا مطالبہ کیا ہے اس نے؟“
“ کیا؟“ افضل بولا۔
“ کہ کل تمام سامان خرید کر لاؤ۔ میں ان کی دعوت کروں گی۔“
“ کس کی؟“ افضل چلایا۔
“ بھئی تمہاری اور کس کی۔“ شبیر ہنسنے لگا۔ مجھے تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ نہ جانے آصفی نے وہاں جا کر کیا کیا ہے۔ نقشہ ہی بدل گیا گھر کا۔“
‘ لیکن یہ ہوا کیسے؟ ساری بات بتاؤ یار۔“ افضل بولا۔
“ گھر لوٹا تو پہلے تو جواب طلبی ہوئی کہ بتاؤ آج سکول کیوں نہیں گئے تھے اور گئے کہاں تھے۔ پھر دوسری جواب طلبی ہوئی۔ کہنے لگی اس روز مجھے دھوکہ دیا تھا نا۔ دعوت دوستوں کی کی تھی اور بہانہ مولوی صاحب کا بنایا تھا۔ بیگم کو یہ شکایت ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ “ اگر دوستوں کی دعوت کرنی تھی تو مجھے بتایا ہوتا تا کہ میں دل لگا کر پکاتی۔ میں نے تو ویسے ہی بے پروائی سے کھانا پکایا تھا۔ حیرت ہے یار۔“
“ تو تیر نشانے پر بیٹھا۔“ ایلی ہنسنے لگا۔
“ سبحان اللہ کیا تیر ہے اور کیا تیر انداز ہے۔“ شبیر نے کہا۔ “ ایسی بات کر دکھائی ہے تم نے جو میری دانست میں ممکن ہی نہ تھی۔“
“ چلو “ ایلی بولا۔ “ شیخ سے جا کر شکایت کرنے کا خطرہ تو ٹل گیا۔“
“ ارے۔“ شبیر چلایا۔ “ تو کیا اس لیے یہ تیر چلایا ہے۔“
“ اور کیا دعوت کھانے کے لیے؟“ ایلی ہنسنے لگا۔