علی پور کا ایلی (906 تا 935)

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 906 تا 935

اس دعوت کے کوائف بھی انوکھے تھے۔

کریلے

ایک مرتبہ انہوں نے شبیر کو مجبور کیا کہ وہ انہیں دعوت کھلائے۔ پہلے تو شبیر انہیں ٹالتا رہا لیکن آخر اس نے محسوس کیا کہ دعوت کھلائے بغیر چارہ نہیں۔ اس نے ایک دن مقرر کر دیا۔ مقررہ دن وہ سب تیار بیٹھے رہے کہ کب بلاوا آئے۔ آکر شبیر آیا اور کہنے لگا۔ “ لو بھئی ابھی کھانا آتا ہے۔“

“ آتا ہے کیا مطلب؟“ افضل نے کہا “ کیا ہم تمہارے گھر نہ جائیں گے؟“

“ نہیں یار۔“ وہ بولا “ وہاں جا کر کھانے کا کیا مزہ۔ یہیں بھجوا دیتا ہوں میں۔ تم میری بیوی کی عادت سے واقف نہین۔ کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔“

اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ شبیر کا بھانجا جاوہ ہاتھ میں ٹرے اٹھائے ان کے گھر کی طرف آ رہا ہے۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاں آنے کی بجائے وہ سیدھا آگے نکل گیا۔

انہوں نے جاوہ کو آوازیں دیں، شور مچایا مگر وہ چپ چاپ سیدھا نکل گیا۔

“ بیگم کی سہیلی کے ہاں کھانا پہنچانے گیا ہے۔“ شبیر بولا۔ “ ابھی واپس آ کر ہمارا کھانا لے آئے گا۔ گھبراؤ نہیں۔“ کچھ دیر کے بعد جاوہ وہی بھرا ہوا ٹرے اٹھائے واپس آ گیا۔ اسے دیکھ کر شبیر بولا۔

“ اچھا تو کیا وہ لوگ گھر نہیں ملے؟ اچھا تو انہیں پھر دے آنا۔ یہ ہمیں دے دو۔“ شبیر نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ افضل اور ایلی کو سمجھ میں‌ نہ آیا۔

دراصل بات یہ تھی کہ شبیر کی بیوی ایلی اور افضل سے مشٹنڈوں کا کھانا پکانے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیئے شبیر نے یہ بہانہ بنایا تھا کہ مسجد میں دو ولی اللہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دعوت کرنا ہے۔ بیگم اس کی چال میں آ گئی اور اس نے کھانا تیار کر دیا۔ جب جاوہ کھانا لے کر مسجد کی طرف روانہ ہوا تو وہ حسبِ عادت دروازے میں کھڑی دیکھ رہی تھی کہ نکڑ والے مکان پر تو نہیں رکتا اور شبیر کی ہدایات کے مطابق جاوہ سیدھا نکل گیا تھا اور موڑ مڑنے کے بعد کچھ دیر وہاں انتظار کرتا رہا تا کہ بیگم شبیر مطمئن ہو کر اپنے کام کاج میں لگ جائے اور وہ کھانا لے کر لوٹ آئے۔

بہرحال ایلی اور افضل کو اس بھید کا علم نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ شبیر نے منتیں کر کے بیوی کو دعوت پکانے پر تیار کر لیا ہے۔

اس رات اسے خیال آیا کہ بیگم شبیر کو راضی کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اگلے روز ایلی نے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔

“ کیوں بھئی “ ایلی نے پوچھا۔ “ شبیر کہاں ہے؟“

“ وہ تو ابھی سکول سے نہیں آئے۔“ جاوہ بولا۔

ایلی نے بلند آواز چلا کر کہا۔ “ لیکن شبیر تو آج سکول آیا ہی نہیں تھا۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ بیگم بات سن کر چونک جائے۔

“ گھر سے تو سکول ہی گئے تھے۔“ جاوہ نے کہا۔

“ میں نے کہا جاوہ۔“ ایلی بڑے رازدارانہ انداز بولا۔ “ تمہارے گھر جب بھی کریلے پکیں تو یار تھوڑے سے مجھے دینا۔ اتنے اچھے کریلے تمہارے ہاں بنتے ہیں کہ جواب نہیں۔ یار مجھے کریلے بہت پسند ہیں۔“

جاوہ چپ چاپ کھڑا تھا۔

ایلی نے آواز اور آہستہ کر لی اور بولا۔ “ چاہے چرا کر کھلاؤ لیکن صرف ایک بار کھلا دو۔ صرف ایک مرتبہ تمہارے گھر کے پکے ہوئے کریلے کھائے ہیں۔ اس روز جب شبیر نے ہماری دعوت کی تھی۔ کھلاؤ گے یار؟“ اس نے کہا۔ “ گھر نہ بتانا۔ چوری چوری کھلا دینا۔ ضرور۔“

ایلی کو اچھی طرح علم تھا کہ شبیر کی بیگم بڑے غور سے اس کی ہر بات سن رہی ہے۔ اس لیے اس نے جاوہ کی بہت منتیں کریں پھر چلا آیا۔

گھر آ کر اس نے افضل کو کہا۔ “ بھئی پتھر تو پھینک آیا ہوں اب پتہ نہیں کیسی لہریں اٹھیں۔ یا تو کشتی ڈوب گئی اور یا کنارے جا لگی۔“

“ کیسا پتھر پھینکا ہے؟“ افضل نے پوچھا۔

“ بس سمجھ لو پتھر تھا۔ اب تو لہریں دیکھو۔

رات کو شبیر آیا تو اس نے آتے ہی شور مچا دیا۔ “ یار یہ کیا سحر کر دیا تم نے الیاس۔ حد ہو گئی۔“

“ کیوں کیا بات ہے؟“ افضل نے پوچھا۔

“ بات؟“ وہ بولا “ بات کہاں تو معجزہ ہو چکا ہے۔“

“ معجزہ۔“ افضل نے دہرایا۔ “ کچھ پلے بھی پڑے یار۔“

“ بات بتانے سے پہلے میں تمہیں پچھلا قصہ سنا دوں۔“ شبیر نے کہا۔ “ جب پہلی مرتبہ تم نے مجھ سے دعوت کھلانے کی بات کی تھی تو میں نے اپنی بیوی سے اس کا تذکرہ نہیں ‌کیا تھا۔ وہ تمہارے لیے دعوت پکائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں‌ نے اسے کہا تھا کہ مسجد میں دو مولوی ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی دعوت کرنی ہے۔“

“ ارے۔“ افضل چلایا۔

“ اچھا۔“ ایلی بولا۔ “ جبھی چاوہ پہلے خوان لے کر آگے چلا گیا تھا۔“

“ بھئی بیگم تو تمہارا نام تک سننے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن آج۔ معلوم ہے آج کیا مطالبہ کیا ہے اس نے؟“

“ کیا؟“ افضل بولا۔

“ کہ کل تمام سامان خرید کر لاؤ۔ میں ان کی دعوت کروں گی۔“

“ کس کی؟“ افضل چلایا۔

“ بھئی تمہاری اور کس کی۔“ شبیر ہنسنے لگا۔ مجھے تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ نہ جانے آصفی نے وہاں جا کر کیا کیا ہے۔ نقشہ ہی بدل گیا گھر کا۔“

‘ لیکن یہ ہوا کیسے؟ ساری بات بتاؤ یار۔“ افضل بولا۔

“ گھر لوٹا تو پہلے تو جواب طلبی ہوئی کہ بتاؤ آج سکول کیوں نہیں گئے تھے اور گئے کہاں تھے۔ پھر دوسری جواب طلبی ہوئی۔ کہنے لگی اس روز مجھے دھوکہ دیا تھا نا۔ دعوت دوستوں کی کی تھی اور بہانہ مولوی صاحب کا بنایا تھا۔ بیگم کو یہ شکایت ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ “ اگر دوستوں کی دعوت کرنی تھی تو مجھے بتایا ہوتا تا کہ میں دل لگا کر پکاتی۔ میں نے تو ویسے ہی بے پروائی سے کھانا پکایا تھا۔ حیرت ہے یار۔“

“ تو تیر نشانے پر بیٹھا۔“ ایلی ہنسنے لگا۔

“ سبحان اللہ کیا تیر ہے اور کیا تیر انداز ہے۔“ شبیر نے کہا۔ “ ایسی بات کر دکھائی ہے تم نے جو میری دانست میں ممکن ہی نہ تھی۔“

“ چلو “ ایلی بولا۔ “ شیخ سے جا کر شکایت کرنے کا خطرہ تو ٹل گیا۔“

“ ارے۔“ شبیر چلایا۔ “ تو کیا اس لیے یہ تیر چلایا ہے۔“

“ اور کیا دعوت کھانے کے لیے؟“ ایلی ہنسنے لگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
میم

“ میں تو دعوت کھانے کے لیے ہی آیا ہوں۔ “ محمود داخل ہو کر بولا۔

“ ارے تم؟“ ایلی اسے دیکھ کر چلایا۔ “ تم یہاں کہاں؟“

“ دیکھ لو۔“ وہ بولا۔ “ ڈھونڈ ہی نکالا تمہیں۔“

“ لیکن اس وقت کون سی گاڑی سے آئے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ گاڑی کا تو وقت نہیں۔“ افضل بولا۔

“ میں موٹر سے آیا ہوں۔“ محمود مسکرانے لگا۔

“ بس سے اس وقت؟“

“ تو کیا کار سے آئے ہو۔“ ایلی نے طنزاّ کہا۔

“ ہاں ہاں کار سے بیٹھ کر سب کتھا سناؤں گا۔“

“ اچھا تو بیٹھ جاؤ۔“ ایلی نے کہا۔ “ پہلے ہماری بھجن منڈی کی کتھا سن لو پھر تمہاری کتھا بھی سن لیں گے۔ چلو بھئی۔“ ایلی چلایا۔ “ پہلے کام پھر کلام۔“

اس پر اس کے ساتھی دو حصوں میں بٹ گئے۔ دو ایک طرف بیٹھ کر ہارمونیم بجانے لگے۔ چار تاش کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔ کھیلنا تو کیا تھا وہ یوں شور مچانے لگے جیسے تاش کھیل رہے ہوں۔ ایلی نے اٹھ کر اپلوں کے ڈھیر تلے سے ٹائپ مشین نکالی اور ٹائپ کرنے لگا۔

“ ارے۔“ محمود حیرت سے چلایا۔ “‌یہ کیسی کتھا ہے۔“

“ یہ سازش ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ سازش۔“ محمود کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔

اب کی بار محمود آیا تو اس کا حدوداربعہ بدلہ ہوا تھا۔ وہ رومی ٹوپی اور شلوار غائب تھیں۔ شلوار کی جگہ پتلون نے لے لی تھی اور سر ننگا تھا۔

جب وہ دونوں اکیلے ہوئے تو انہوں نے بات چھیڑی۔

“ کہاں ہو تم آج کل۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ یہی تو مجھے معلوم نہیں۔“ محمود نے کہا۔

“ آخر کہیں تو ہو گے۔“

“ یہ تو ٹھیک ہے۔“

“ کیا دیپالپور ہو؟“

“ نہیں تو۔“ وہ بولا۔ “ مجھے تبدیل کر دیا ہے۔“

“ کہاں؟ “

“ لائلپور۔“

“ لائل پور میں تو کوئی گورنمنٹ سکول نہیں۔“

“ کوئی نہیں۔“ وہ مسکرایا۔

“ تو پھر؟“

“ میں نے ویلفیئر کے محکمہ میں نوکری کر لی ہے۔ لیکن۔“

“ یار میں یہاں کام نہیں کرنا چاہتا۔“ محمود نے جملہ ختم کیا۔

“ کیوں؟ “

“ اس محکمے میں عورتیں ہی عورتیں ہیں۔“

“ اس میں کیا دقت ہے۔“

“ جس افسر کے ساتھ میں ہوں وہ تو ہر بات میں جذباتی پہلو مدِ نظر رکھتی ہے۔ پھول دیکھ لے تو یوں خوشی سے ناچتی ہے جیسے نہ جانے کیا دیکھ لیا ہو۔ کوئی نوکر آ کر اپنا دکھڑا رو دے تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ہر بات میں ذاتی زاویہ ہر معاملے میں پرسنل ویو، نہ بھئی ان کے ساتھ میرا گزارہ نہیں۔“

“ تم بھی جذباتی پہلو اختیار کر لو۔“

“ عورت کے ساتھ میں تو صرف ایک ہی پہلو اختیار کر سکتا ہوں۔“ وہ ہنسنے لگا۔

“ تو کر لو۔“ ایلی نے کہا۔

“ نوکری ہاتھ سے جائے گی۔“

“ جانے لگے تو سامنے جا کر رہ دینا۔ وہ بھی رو پڑے گی، بات ختم ہو جائے گی۔“

“ سچ۔“ محمود کی آنکھوں میں عجیب چمک لہرائی۔

“ تم خود ہی کہتے ہو۔ نوکر رو کر کتھا سنائے تو اس کے آنسو نکل آتے ہیں۔“

“ لیکن جذباتی پہلو اختیار کیسے کیا جائے۔“ اس نے پوچھا۔

“ یہ تو آسان ہے۔“ ایلی نے کہا۔ “ نئے کپڑے پہنے تو شوق بھری نگاہوں سے دیکھو اور کہو یہ تو بڑا پیارا لگتا ہے۔“

“ یہ تو میں کرتے کرتے تھک گیا۔“ وہ بولا۔ “ خوش تو ہو جاتی ہے مگر میری طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی۔“

“ خوب صورت ہے؟“

“ ایسی خوبصورت تو نہیں، لیکن میم ہے۔“

“ میم۔“ ایلی اچھل کر بیٹھ گیا۔

“ اور جو دیسی ہوتی تو کیا تم سے ہی پوچھتا آ کر۔“

“ کار میں‌ کیسے آئے تھے؟“

“ اسی کی کار ہے۔“ وہ بولا۔

“ ارے تو کیا اس نے اپنی کار دے دی تمہیں یہاں آنے کے لیے؟“

“ خود پہنچانے آئی تھی۔“ وہ ہنسا۔

“ خود --------- ؟“

ایک ساعت کے لیے خاموشی چھائی رہی۔

“ اور اب وہ کہاں ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔

“ واپس چلی گئی۔“

“ واپس کہاں؟“

“ لائل پور۔“

“ تو کیا وہ تمہاری شوفر ہے اور تم پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں بھئی واہ۔“ ایلی ہنسا۔ “ جو آتا ہے ہمیں بےوقوف بناتا ہے۔“

“ یقین کرو۔“ محمود بولا۔ “ میں خود بےوقوف بنا ہوا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔“

“ کیا نہیں آتا سمجھ میں؟“ ایلی نے پوچھا۔

“ کچھ بھی تو نہین آتا۔“ وہ بولا۔ “ کسی وقت میری ہر بات مانتی ہے۔ کسی وقت بات نہیں سنتی۔ کسی وقت بات بات پر ضد کرتی ہے۔ جیسے ہر بات میری خواہش کے خلاف کرنے کی قسم کھائے بیٹھی ہو۔ کسی وقت ایسا ہوتا ہے۔ جیسے مجھ سے بہت قریب آ گئی ہو اور پھر ایک ساعت میں یوں دور چلی جاتی ہے جیسے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ نہیں یار۔“ وہ چلایا۔ “ میں تذبذب سے اکتا چکا ہوں۔ اگر میں اس زنانہ محکمے میں کام کرتا رہا تو کسی روز موقوف ہو جاؤں گا۔“

محمود کے آنے پر ایلی مسلسل دو روز اس کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ دونوں کتابوں کی باتیں کرتے رہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے محاورں پر بحث کرتے رہے، عورت کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے رہے۔

پھر محمود نے سوشل ورکروں کی بات چھیڑ دی۔ “ یار ایلی یہ دنیا ہی نرالی ہے۔“ وہ بولا۔ “ یہ قوم جسے عورت کہتے ہیں۔ عجیب قوم ہے۔ قہقہون میں روتی ہے۔ آنسوؤں میں ہنستی ہے۔ نہ کہہ کر پچھتاتی ہے، ہاں کہتے ہوئے جھجکتی ہے۔ میں آج کل الف لیلٰی کی دنیا میں جی رہا ہوں ------ وہاں خواجہ سرا ہیں، جنات ہیں۔“

ایلی حیرت سے اس کی باتیں سنتا رہا۔ حتٰی کہ دروازے سے پوم پوم کی آواز آئی۔

“ ارے یہ کیا ہے؟“ ایلی چلایا۔

محمود کا رنگ فق ہو گیا۔

“ کار کا ہارن معلوم ہوتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔

“ ہاں ۔ “

“ کیا وہ خود لینے تو نہیں آ گئی؟“

“ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔“

“ اس نے کہا تھا کہ میں آؤں گی۔“

“ نہیں تو۔“ وہ بولا۔ “ اس نے کہا تھا زیادہ سے زیادہ ایک روز رہنا پھر چلے آنا اور آج دو روز ہو چکے ہیں۔“

“ تو یقیناّ وہی ہے۔“ ایلی نے کہا۔

محمود اٹھ کر باہر چلا گیا اور چند ساعت میں آ کر مسکراتے ہوئے بولا۔ “ یار وہی ہے۔ کہتی ہے چونکہ تم وعدے کے مطابق کل نہیں پہنچے تو میں لینے آئیے ہوں۔“

“ ارے۔“ ایلی چلایا۔ “ اچھا افسر ملا ہے تمہیں۔“

محمود نے اپنی چیزیں سوٹ کیس میں رکھنی شروع کر دیں اور کہنے لگا۔ “ یار مجھے اس محکمے سے بچاؤ۔ مجھ اپنا انجام اچھا معلوم نہین ہوتا۔“

ایلی حیران تھا کہ ایسے سازگار حالات کے باوجود محموس وہاں سے تبدلہ کرانا چاہتا تھا۔ کتنی حیران کن بات تھی۔ اور پھر محمود جو طبعی طور پر لیڈیز مین واقع ہوا تھا۔ جو عورتوں سے دور یوں محسوس کرتا تھا جیسے کسی آبی جانور کو صحرا میں پھینک دیا گیا ہو۔ زندگی کس قدر عجیب تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صلح اور جنگ

محمود کے جانے کے بعد ایلی سکول گیا تو شیخ کے تیور بالکل بدلے ہوئے تھے۔

“ کہیے آصفی صاحب۔“ شیخ اسے دیکھ کر بولا۔ “ بڑے مصروف معلوم ہوتے ہیں آپ آج کل۔“

“ ایلی نے محسوس کیا کہ شیخ کی بات طنز بھری تھی۔ “ جی ہاں۔“ وہ بولا

‘ عجیب مصروفیت ہے کہ آدھی رات تک گھر باجے بجتے ہیں۔“

“ وہ تو بجیں گے۔“ ایلی نے کہا۔

“ خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔“

“ جی ہاں۔“ ایلی نے کہا۔

“ سچ ہے۔“ شیخ بولا۔ “ دشمن پر وار ہو رہے ہوں تو خوشی تو ہوتی ہے۔“

“ نہ جانے کیوں ایلی شیخ کی اس بات پر بگڑ گیا۔ “ اگر آپ اس بات پر مصر ہیں کہ میں آپ کو دشمن سمجھتا ہوں تو چلیئے یوں ہی سہی۔“

شیخ نے قہقہہ لگایا۔

“ شیخ صاحب آپ کے قہقہے نہ گئے۔

“ کوشش تو بہت کی لوگوں نے۔“ شیخ ہنستے ہوئے بولا۔

“ جی۔ “ ایلی بولا۔ “ مجھے یہی حیرت ہے۔“

“ اچھا ذرا آیئے تو سہی۔“ شیخ نے رویہ بدلا۔

لیکن نہ جانے کیوں ایلی کو غصہ آ گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی بہانے شیخ سے ناراض ہو جائے تاکہ اس دو رخی سے نجات حاصل ہو جس میں وہ پھنسا ہوا تھا۔ اس دو رخی پر اسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔

“ نہیں شیخ صاحب“ وہ بولا۔ “ اس وقت فرصت نہیں۔“

ایلی کے اس رویے کی وجہ سے شیخ ایلی کے ساتھیوں کو بلواتا اور ان سے کہتا بھئی میری اور آصفی کی صلح کرا دو اور وہ سب مل کر ایلی کو مجبور کر دیتے پھر یہ قافلہ شیخ کے گھر جا پہنچتا۔

وہاں پہنچ کر ایلی صاف صاف بھری محفل میں کہتا۔ “ مجھے شیخ صاحب کے خلاف کوئی شکایت نہیں، صرف اس بات کا رنج ہے کہ وہ مجھ پر شک کرتے ہیں اور پھر ان میں اتنی جرات نہیں کہ صاف صاف منہ پر کہہ دیں۔ نہیں صاف صاف نہیں کہتے بلکہ عورتوں کے طرح طعنے دیتے ہیں“ اس پر شیخ قسمیں کھاتا کہ مجھے آصفی پر شک نہیں۔

شیخ کی یہ بات سنتے ہے چودھری شور مچا دیتا۔ “ چلو بھئی صلح ہو گئی۔ اب کوئی جھگڑا نہین رہا۔ اب آصفی شیخ صاحب سے بغل گیر ہو جائے۔ اٹھو آصفی۔“ افضل اس کی ہاں میں ہاں ملاتا۔ شبیر آہستہ آہستہ سے چلاتا۔ “ اور مٹھائی۔“ “ وہ تو ہو گی ضرور ہو گی۔“ چودھری چیختا۔

پھر وہ سب بیٹھ کر مٹھائی کھاتے اور قہقہے لگاتے ہوئے ایلی کے گھر کی طرف چل پڑتے۔ وہاں جا کر باجے بجنے شروع ہو جاتے۔ تاش کی بازی لگ جاتی اور اپلوں کے انبار تلے سے ٹائپ کی مشین نکل آتی اور چودھری قہقہہ مار کر کہتا۔ “ لو بھئی آصفی آٹھ دن کے بعد شیخ سے پھر بگڑ جانا۔ یار تمہارا کیا بگڑے گا ہمیں مٹھائی مل جائے گی۔ کیا حرج ہے۔“ شبیر قہقہہ لگاتا۔ “ ضرور ضرور۔“ احمد تالی بجاتا۔

“ بگڑ جائے گا، بگڑ جائے گا۔“ افضل سنجیدگی سے کہتا۔ “ میرا ذمہ رہا۔ لیکن تم صلح کرانے میں دیر نہ لگانا۔“

چودھری چلاتا۔ “ اس کا ذمہ میں لیتا ہوں۔“

ان کے لیے یہ ایک نیا شغل تھا۔ جیسے یہ لڑائی اور صلح کا ڈرامہ ڈرامہ در ڈرامہ کی حثیت رکھتا ہو۔ ان کے نزدیک ان نئی بات نے سازش کو صلح اور جنگ کے ایک دلچسپ کھیل میں تبدیل کر دیا تھا۔

پھر وہ بیگم شبیر تھی۔ ان سب نے اس کے پکوانوں کی تعریفیں کر کے اسے بالکل رام کر لیا تھا۔ ہر مہینے وہ ان کو دعوت دیتی اور وہ اس کے گھر جا کھانا کھاتے اور کھانے کے دوران بڑے اہتمام سے اس کے پکانے کی تعریفیں کرتے۔ ان کی تعریفیں سن سن کر شبیر زیر لب کہتا “ ارے کمبختو، اب بس کرو کیوں میرا دیوالہ نکالنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہو۔ ابے او خبیثو کیوں اس نیک بخت کو دھوکہ دے رہے ہو۔ کیوں میرا گھر اجاڑ رہے ہو۔“ لیکن دل ہی دل میں وہ بھی خوش تھا۔ کیونکہ اب بیگم اس پر پابندیاں عائد نہیں کرتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
تت تت - بیچارا

بیگم شبیر کی اس تبدیلی کی وجہ صرف کریلے نہیں تھے۔ ایلی نے بہت جلد محسوس کر لیا تھا کہ خالی کریلے دیرپا ثابت نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ ان بنیادی باتوں کے متعلق کوئی بات نہ چھیڑی جائے جن کے بنا پر بیگم شبیر کو ان کے خلاف شکایت تھی۔

ایلی ابھی زندگی کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ زندگی کا تار و پود کیا ہے۔ وہ صرف چند ایک تھیوریوں سے واقف تھا۔ جو اس نے کتابوں میں پڑھی تھیں۔ اور اسے شوق تھا کہ تھیوریوں کو کام میں لائے اور دیکھے کہ زندگی میں وہ کیا اثر پیدا کرتی ہیں۔ اس نے ان چند نظریات کو آزما دیکھا تھا اور اسے خاصی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس لیے ان خیالات کو مزید آزمانے میں اسے راحت ہوتی تھی۔

ایک روز اس نے بڑی سنجیدگی سے شبیر کو کہا تھا۔ “ شبیر میرا ایک پیغام بیگم تک پہنچا دو۔“

شبیر گھبرا گیا۔ “ نہیں یار چھوڑو اس بات کو اس نیک بخت کو زیادہ دق نہ کرو۔ کہیں وہ بالکل ہی بگڑ نہ جائے۔“

“ نہیں یار۔“ وہ بولا۔ “ یہ خالی کریلے دیر تک نہ چلیں گے۔“

منتیں کر کے اس نے شبیر کو منا لیا تھا اور شبیر نے ایلی کی ہدایات کے مطابق اپنی بیگم کو پیغام دے دیا تھا۔

“ میں نے کہا۔“ شبیر نے بیگم سے کہا۔ “ ایک کام کر دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔ ثواب کا کام ہے۔“

“ کیا ہے؟“ وہ بولی۔

“ یہ جو الیاس ہے نا۔ اس کی خواہش ہے کہ کسی اچھی لڑکی سے اس کی شادی ہو جائے۔“

تو پھر کرتا کیوں نہیں۔“ بیگم غصے میں چلائی۔

“ کسی اچھے رشتے کی تلاش ہے اسے۔ اچھی لڑکی ملے تو کرئے۔“

“ تو کہے نا اپنے ماں باپ سے۔“ وہ بولی۔ “ میں نے تو سنا ہے کہ ماں باپ کا کہا نہیں مانتا وہ۔“

“ یہ ٹھیک ہے۔“ شبیر بولا۔

“ جو ماں باپ کا کہا نہیں مانتا وہ کیا انسان ہے۔“ وہ غصے سے بولی۔

“ نہیں تم نہیں سمجھتی بیگم۔ وہ بولا۔ “ اسے ماں باپ کے چناؤ پر اعتماد نہیں۔“

“ ہئے ماں باپ کے چناؤ پر اعتماد نہیں۔“ بیگم چڑ گئی۔

“ دیکھو نا۔“ وہ بولا۔ “ اس کی چار مائیں ہیں۔“

“ چار مائیں۔“ وہ چلائی۔

“ ہاں۔“ شبیر نے کہا۔ “ والد اپنی دھن میں لگے ہیں۔ والدہ کی کوئی مانتا نہیں۔“

“ تت تت تت۔“ بیگم پسیج گئیں۔ “ بیچارہ“

“ کل بھری محفل میں کہہ رہا تھا ------ “ شبیر رک گیا۔ “ لیکن چھوڑو اس بات کو۔“

“ کہو تو کیا کہہ رہا تھا۔“ وہ مصر ہو گئی۔

“ چلو چھوڑو۔“ شبیر نے کہا۔

“ چھوڑو کیوں۔“

“ تم برا مانو گی۔“

“ نہیں میں نہیں مانتی برا۔“

“ سچ؟ “

“ کہہ جو دیا۔“

“ کہہ رہا تھا میں نے آج تک کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو اچھی لڑکی کا چناؤ کر سکتی ہو۔ صرف ایک بیگم شبیر ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔

“ ویسے ہی اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں یہ۔“ وہ بولی۔

“ نہیں نہیں وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔“

“ اچھا ------“ وہ بولی۔ “ تو کیا میں نے یہاں شادی کی ایجنسی کھول رکھی ہے۔ میں کیا کروں۔“

“ نہیں نہیں۔“ وہ بولا۔ “ مقصد یہ ہے کہ الیاس چاہتا ہے کہ اگر کوئی رشتہ ملے تو تم جا کر لڑکی کو دیکھ لو۔“

“ آخر کس قسم کی لڑکی چاہیے اسے۔“ بیگم نے پوچھا۔ “ ہے بیچارہ۔“

“ بس ایک ہی شرط ہے اس کی۔“

“ کیا؟“

“ کہ لڑکی مغرب زدہ نہ ہو۔“

“ کیا سچ۔“ وہ حیران رہ گئی۔

“ اچھا ------ میں تو سمجھتی تھی ------ “

شبیر قہقہہ مار کر ہنسا۔ “ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ تمہاری بیگم کی کوئی چھوٹی بہن ہے۔ جس کی شادی نہ ہوئی ہو۔“

شبیر اور ایلی کو اچھی طرح سے علم تھا کہ بیگم شبیر کی کوئی چھوٹی بہن نہیں اور اصولی طور پر بیاہ شادی کے جھمیلے میں پڑنے کی قائل نہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ پیغام اسے بھیجا تھا تاکہ بات بھی پہنچ جائے اور اس کے نتائج بھی پیدا نہ ہوں۔ اس پیغام کا یہ نتیجہ ہوا۔ کہ بیگم شبیر الیاس کو بیچارہ کہنے لگی۔ ------ اور ایلی مطمئن ہو گیا۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ جسے چند بار بیچارہ کہہ دیا جائے اس کے خلاف غصہ نہیں رہتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
چلچلاتی ہڈیاں

محمود کے جانے کے بعد ایلی کو ایک خط موصول ہوا۔ جمیل نے ایلی کو خان پور بلایا تھا کہ کوئی ضروری معاملہ ہے۔

خان پور پہنچ کر وہ سیدھا جمیل سے ملا۔

“ کیوں خیر ہے؟“ اس نے پوچھا۔


جمیل حسبِ عادت مسکرا دیا۔ “ گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں۔ نقی نے کہا تھا بلا لو۔“

“ کیوں “

“ وہ آج کل بہت پریشان ہے۔ یار اس کا کچھ کرو۔ اس نے اپنی زندگی بہت تلخ کر رکھی ہے۔ روز بیوی کو پیٹتا ہے۔ روز رات کو ان کے گھر ہنگامہ بپا ہوتا ہے۔ محلے والے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ راہ گیر کھڑے ہو جاتے ہیں۔“

“ اچھا تو کیا اس لیے بلایا ہے مجھے؟“

“ نہیں وہ تو کوئی اور معاملہ ہے۔“ جمیل نے کہا۔

“ مجھے نہیں معلوم۔ نقی خود بتائے گا۔ لیکن نقی کے گھر کے جھگڑے کے بارے میں کچھ سوچو یار ہم سب بڑے پریشان ہیں۔“

شام کے وقت جب وہ نقی کے ہاں پہنچے تو وہ اردگرد اوزار رکھے جوتے کا تلا سی رہا تھا۔

“ ارے تم یہ کیا کر رہے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ جوتا سینا سیکھ رہا ہوں۔“ نقی نے جواب دیا۔

“ اور وہ چڑیاں کیا ہوئیں جو تم کپڑے پر کاڑھا کرتے تھے۔“

“ اڑ گئیں۔“ وہ بولا۔

“ لیکن کوئی اور ہابی منتخب کرتے۔“ ایلی نے کہا۔

“ یہ ہابی تو نہیں۔ “ نقی نے اپنی تھوتھنی اوپر اٹھائی۔ “ ایک روز سوچ رہا تھا کہ آخر ہر نیا جوتا جو میں خریدتا ہوں، میرے پاؤں کو کاٹتا کیوں ہے۔ یہ بات میں عرصہ دراز سے سوچتا تھا۔ یعنی مطلب ہے کہ ذہن میں تھی یہ بات تو مجھے خیال آیا کہ یہ موچی لوگ سٹینڈرڈ سائز کے جوتے بناتے ہیں۔ یعنی اوسط سائز کے اور جس کے پاؤں اوسط سائز سے ہٹ کر ہوں انہیں جوتے کاٹتے ہیں۔ لٰہذا میں نے سوچا کہ اپنے پاؤں کے مطابق جوتا سینا چاہیے۔ یہ بات دیر سے میرے ذہن میں تھی۔ اب کی بار نہ جانے کیسے عمل میں آ گئی۔ وہ یوں ہوا کہ ایک روز میری جیب میں بیس روپے تھے اور میں اتفاقاّ اس بازار میں جا نکلا جہاں موچیوں کے اوزار بکتے ہیں تو میں نے اوزار خریدے۔ پھر جوتا سینے میں کیا دیر لگتی ہے۔ یہ جو ہمارے مکان سے باہر موچی بیٹھتا ہے۔ اس سے ٹانکا لگانا سیکھ لیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب سوچتا ہوں کہ آخر چینی موچی کا کمال کیا ہے۔ یہی نا کہ وہ خوبصورت شکل کا جوتا نہیں بناتے بلکہ ایسا جوتا بناتے ہیں جو پاؤں میں فٹ بیٹھے۔“

“ سنا ہے تم نے بیگم کو پیٹنے کا شغل بیز کر دیا ہے۔“ ایلی نے بات بدلی۔

“ ہاں یار۔“ نقی بولا۔ “ میں نے بھی سنا ہے۔ کل رات کو میں جو اپنی بیٹھک سے باہر نکل کر ایک بند دوکان پر جا بیٹھا۔ ویسے ہی جا بیٹھا۔ میں نے سوچا چلو آتے جاتے لوگوں کا تماشہ دیکھو تو دو محلے والے آ کھڑے ہوئے وہاں۔ انہوں نے یا تو مجھے دیکھا نہیں اور یا پہچانا نہیں۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک کہہ رہا تھا۔ اس نقی بابو نے جو ساتھ والے گھر میں رہتا ہے نے بڑا اودھم مچا رکھا ہے۔ محلے میں روز لڑائی روز لڑائی مجھے اس کی بات تو بری نہ لگی۔“

نقی نے کہا “ لیکن جو جواب دوسرے نے دیا اسے سن کر کباب ہو گیا میں۔“

“ دوسرے نے کیا کہا؟“ ایلی نے پوچھا۔

کہنے لگا “ چھوڑو جی کس کی بات کرتے ہو۔ وہ تو مستی پر آئی ہوئی کتیا ہے۔ کتیا۔“ وہ ہنسا۔

“ کتا بھی نہیں کتیا۔ اور پھر سچے تو بیگم سے لڑنے کو کتیا سے کیا تعلق۔ بڑی گہری بات کہدی سالے نے۔ سمجھ میں نہیں آئی۔“

“ تو پھر اسے کیوں پیٹتے ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ اگر اس نقطے کا مجھے علم ہوتا تو ------ “

“ تو کیا بے خبری میں پیٹتے ہو۔“

“ ہاں یار اب جو تم نے کہا تو مجھے خیال آیا کہ واقعی بے خبری میں یہ عمل ہوتا ہے۔ مثلاّ اس نے کوئی واہیات بات کی اور مجھے غصہ آیا۔ یہاں تک تو شعور ہوتا ہے۔ پھر جو جوش آتا ہے تو میں‌ پیٹ رہا ہوتا ہوں اور وہ چیخ رہی ہوتی ہے۔“

“ تو اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔“

“ یار تم سے پڑھے لکھے ایسی بات کریں، حیرت ہے۔ تم سمجھتے ہو میری انا گھوڑا ہے اور میں سوار ہوں۔ اس کے برعکس مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری انا سوار ہے اور میں گھوڑا ہوں۔ میں اسے قابو میں کیسے رکھوں۔ ہاں یار۔“ دفعتاّ اسے یاد آیا۔ “ جس بات کے لیے میں نے تمہیں بلایا ہے تو تو سنو۔ میں تو عجیب مصیبت میں مبتلا ہوں۔ سمجھ لو باؤلا ہو رہا ہوں۔ عجب بات ہے یار تم یہ بیگم کے قصے کو کیوں لے بیٹھے۔ یہ تو پرانا روگ ہے۔ نہ جانے میرا یا بیگم کا یا دونوں کا۔ شاید اس معاملے میں میں ہی مظلوم ہوں۔ خیر خیر اس قصے کو چھوڑو۔ میں سمجھتا ہوں۔ پٹنے کے لیے اس کی ہڈیاں چلچلاتی رہتی ہیں۔“

“ چائے تو کہہ دو۔“ جمیل نے کہا۔

“ وہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔“ نقی بولا۔ “ کہا تو چائے بنانے کو ہے۔ پتہ نہیں شاید شربت بنا دے یا ستو گھول دے۔“ وہ ہنسنے لگا۔ “ پتہ ہے کل کیا ہوا۔ حقہ جو بھرا اس نے تو میں حیران یا اللہ یہ کیا بھرا ہے چلم میں۔ کہنے لگی تمباکو ہے۔“

“ چلم الٹا کر دیکھا تو گدھی نے چائے کی پتی ڈال رکھی تھی چلم میں۔“ وہ ہنسنے لگی۔ “ پھر لوگ کہتے ہیں میں پیٹتا ہوں اسے۔“

“ ہاں تو وہ بات سنا رہے تھے تم۔“ جمیل نے کہا۔

“ یہ کیا خرافات ہیں۔ “ نقی نے کہا۔ “ بھئی یہ زندگی ہے۔ شکر کرو کہ ہم تمہیں اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی خاص واقعہ پیش آتا ہے تو تمہیں سناتے ہیں۔“

“ لیکن اتنی دور سے بلانا یہ کیا زیادتی نہیں؟“

“ میں نے تو نہیں بلایا۔“ نقی بولا۔ “ میں نے تو جمیل سے کہا تھا کہ میں جاورے ہو آؤں۔ چونکہ میں چاہتا تھا کہ تمہارا مشورہ لوں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ میں گھبرا گیا اور جاورے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ پھر جمیل نے کہا کہ تم وہاں نہ جاؤ۔ اسے یہاں بلا لو۔“

“ ہاں “ جمیل بولا۔ “ میں نے سوچا ہمیں بھی مل جائے گا۔ اپنے بھی دو دن خوشی سے گزر جائیں گے۔“

تو ------ یہاں

“ ہاں تو بات الٹی سی ہے۔“ نقی نے قصہ بیان کرنا شروع کیا۔

“ پہلے میں تمہیں یہ بتا دوں۔“ وہ بولا۔ “ کہ میں یہاں چکلے میں کبھی نہیں گیا۔ نہ ہی مجھے وہاں جانے سے کوئی دلچسپی ہے۔ سمجھ لو میرے دماغ میں یہ خانہ سرے سے خالی ہے۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ چکلا کہاں واقع ہے۔ شاید کہیں کسی جگہ اس کے جائے وقوع کے متعلق سنا ہو۔ ضرور سنا ہو گا۔ لیکن مجھے شعوری طور پر علم نہ تھا کہ وہ کہاں واقع ہے۔“

“ ایک روز۔“ وہ بولا۔ “ مجھے جلدی تھی۔ ایک دوست سے ملنے کے لیے چندو محلے کی طرف جا رہا تھا۔ کابلی دروازے پہنچا تو میں نے چکلے کی گلی کی طرف دیکھ کر سوچا کہ رادھا چوک سے گھوم کر کیوں جاؤں۔ اسی گلی سے کیوں نہ نکل جاؤں۔ ضرور یہ گلی آگے کہیں نہ کہیں نکل جائے گی۔ بند گلی تو معلوم نہیں پڑتی۔ اس طرح پہلی مرتبہ میں چکلے کی گلی میں داخل ہوا۔ اب اپنی ہی دھن میں چلا جا رہا ہوں، کچھ سوچ رہا تھا۔ نہ جانے کس سوچ میں پڑا تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا ہی نہیں۔ شام کا وقت تھا۔ ابھی بتیاں جل رہی تھیں۔ اس وقت زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ بھیڑ تو رات کے وقت ہوتی ہے۔ آدھی گلی تو میں نے ایسے ہی انجانے میں عبور کر لی۔ اب جو سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو سامنے ایک کھڑکی میں بیٹھی ہے۔ میں گھبرایا۔ ادھر دیکھتا ہوں تو ایک دروازے میں کھڑی ہے۔ ایک ادھر چوکی پر بیٹھی ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں چکلے سے گزر رہا ہوں۔ طبیعت مکدر تو ہوئی لیکن میں نے سوچا اب آ جو گیا ہوں تو نکل ہی جاؤں۔

“ ابھی چند قدم آگے گیا تھا کہ دفعتاّ میری نگاہ اس پر پڑی۔ وہ چوبارے کے جنگلے میں بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر میں خواہ مخواہ رک گیا۔ عجیب انداز سے بیٹھی تھی۔ نہ تو وہ راہگیروں کو دیکھ رہی تھی اور نہ اپنا آپ دکھا رہی تھی۔“ نقی مسکرایا۔ “ اسے خبر ہی نہ تھی کہ وہ بیٹھی ہے یا کھڑی ہے یا کہاں بیٹھی ہے۔ باورچی خانے میں بیٹھی ہے یا پلیٹ فارم پر یا چکلے میں۔ دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اس میں ٹھوڑی رکھی ہوئی تھی اور خود کھوئی ہوئی تھی۔ انداز ایسا تھا جیسے روئی روئی ہو۔ بال کھلے تھے پریشان حال کپڑے بے پرواہی سے پہنے ہوئی۔ بس صرف ہونٹوں پر لپ سٹک لگی تھی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

“ اسے دیکھ کر مجھے صرف یہ خیال آیا کہ یہ یہاں کیوں بیٹھی ہے۔ چند ایک ساعت تو میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں سوچا چلو چھوڑو مجھے کیا لینا دینا ہے۔ بیٹھی ہے تو بیٹھی رہے اپنا کیا لیتی ہے۔ میں چل پڑا لیکن یہ سوال میرے دل میں کانٹا سا لگا رہا کہ یہ یہاں کیوں بیٹھی ہے۔ دو قدم چلا پھر رک گیا۔ مجھے غصہ محسوس ہونے لگا۔ آخر یہ کیوں یہاں بیٹھی ہے۔ پھر رک گیا۔ پھر اپنے آپ کو سمجھانے لگا۔ لیکن غصہ بڑھتا ہی گیا۔ حتٰی کہ میں مجبور ہو گیا۔ جی میں آیا کہ جا کر پوچھوں تو اس میں حرج کیا ہے۔“

“ میں واپس آیا۔ لیکن جب اس کے چوبارے کی سیڑھیاں چڑھنے لگا تو خیال آیا کہ آخر اوپر جا کر کہوں گا کیا۔ لاحول ولاقوۃ۔ کیا فضول خیال ہے۔ اگر اس نے کہہ دیا کہ بیٹھی ہوں تجھے کیا۔ تو کیا جواب دوں گا۔ اس خیال پر میں آگے چل پڑا۔ لیکن آگے قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ ہر قدم کے بعد رک جاتا۔ غصہ دم بدم بڑھتا جا رہا تھا۔ بہر صورت اتنی بار رکا میں کہ میں نے سوچا آگے جانا بیکار ہے اور پھر اس قدر غصے میں آ چکا تھا کہ کوئی اور بات ذہن میں نہ رہی تھی۔ لٰہذا میں نے ایک تانگہ لیا اور تانگے والے سے کہا کہ مجھے گھر لے چل۔ گھر پہنچ تو گیا لیکن وہاں بھی رہ رہ کر مجھے یہ خیال آتا کہ وہ وہاں کیوں بیٹھی ہے اور وہ غصہ جو مجھے آ رہا تھا وہ میں نے سب بیوی پر نکالا۔ پیٹ پیٹ کر اس کا پلستر نکال دیا۔ میرے اپنے ہاتھ دکھنے لگے۔ پھر تھک ہار کر سو گیا۔“

“ اگلے روز پھر وہی چکر۔ دفتر گیا تو وہاں کام کرتے کرتے رک جاتا اور وہی خیال آتا کہ وہ وہاں کیوں بیٹھی ہے۔ ہزار سمجھایا لیکن بے کار۔ اب میں دفتر میں خواہ مخواہ لوگوں سے الجھ رہا ہوں۔ بےکار باتوں پر لڑ رہا ہوں حتٰی کہ صاحب سے جا کر الجھ پڑا۔“

“ پھر میں نے سوچا یہ تو بری بات ہے۔ گھر چلو ورنہ گڑ بڑ کر بیٹھوں گا تو میں طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر گھر چلا آیا۔ راستے میں اپنی حماقت پر سوچتا آیا۔ چلتا رہا چلتا رہا اور سوچتا رہا۔“

“ اب جو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں تو اس کے چوبارے کے نیچے کھڑا ہوں۔ یعنی گھر کو پیچھے چھوڑ کر ایک میل آگے نکل گیا اور مجھے علم ہی نہ ہوا کہ آگے نکل آیا ہوں یا کہاں جا رہا ہوں یا راستہ غیر مانوس ہے۔“

“ چوبارے میں کوئی بھی نہ تھا۔ میرا مطلب ہے جنگلے میں کوئی نہ تھا۔ اس وقت کون ہوتا۔ بھلا دوپہر کو دو بجے کون طائفہ باہر بیٹھتی ہے۔“

“ وہاں جو ہوش آیا تو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ یہ میں کہاں آ گیا ہوں اور اس قدر شدت سے غصہ آیا اپنے آپ پر کہ اب اپنے دل کی بات ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ لٰہذا اب مجھے اوپر چڑھنے سے کون روک سکتا تھا۔ اوپر چوبارے میں وہ میلے کچیلے کپڑوں میں چارپائی پر بیٹھی تھی۔ میں نے اوپر جاتے ہی اس سے لڑنا شروع کر دیا۔ وہی بات ہوئی نا۔“ نقی بولا۔ “ نہ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔ میں نے کہا۔ تو یہاں کیوں بیٹھی ہے؟ اور تیرا یہاں بیٹھنے سے کیا مقصد ہے؟ اور تو کیا طائفہ ہے؟ پھر تیرا یہاں کیا کام؟“

“ پہلے تو حیرت سے میری طرف دیکھتی رہی پھر ہنسنے لگی۔ سمجھتی ہو گی کوئی پاگل ہے۔ پھر اس کے حواری آ گئے۔ انہوں نے آ کر مجھ سے الجھنا شروع کر دیا اور غصے سے میرا دماغ اور بھی چل گیا اور میں اتنا اودھم مچایا اور ان سے اتنی مار کھائی کہ کیا بتاؤں۔ پھر لوگوں نے مجھے چھڑایا اور تانگے میں ڈال کر گھر بھجوا دیا۔“

“ اگلے روز پھر وہی جنون۔ میری زندگی گویا حرام ہو گئی۔ بس یہی دھن جی میں سمائی تھی کہ وہاں جاؤں اور جا کر اس سے لڑوں۔ چار ایک روز تو میں نے زبردستی اپنے آپ کو روکے رکھا پھر مجھے خیال آیا کہ یہ بھوت ایسے نہیں اترے گا۔ سمجھانا بجھانا فضول ہے۔ لٰہذا میں نے سوچ سوچ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہاں جاؤں، اسے بک کروں۔ منہ مانگے دام دوں اور پھر لڑنے کی بجائے اس سے باتیں کروں۔ شاید اس اقدام سے دل کی بھڑاس نکل جائے تو صاحب۔“ نقی نے قصہ بیان کرتے ہوئے کہا۔ “ اس روز میں ‌نے نہا دھو کر اچھا لباس پہنا اور بن سنور کر رات کو وہاں جا پہنچا۔“

“ اس کے حواریوں نے جب دیکھا کہ رات رہنا چاہتا ہوں اور میرا دنگا فساد کا ارادہ نہیں تو انہوں نے مزاحمت نہ کی۔ البتہ حرامیوں نے مجھ سے بہت پیسے مانگے۔ ظاہر تھا کہ مجھے ٹھگ رہے ہیں۔ خیر میں نے کہا جو مانگو گے دوں گا۔“

“ تو جناب۔“ نقی بولا۔ “ میں وہاں ٹھہر گیا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ میں اس کے ہاں ٹھہرنے کا ارادہ نہ رکھتا تھا۔ یعنی میں صرف باتیں کرنا چاہتا تھا اور بس ٹھہرنا تو محض بہانہ تھا۔ خیر۔“
 

شمشاد

لائبریرین
نقی اور بانو

“ جب ہم اکیلے رہ گئے تو عجیب بات ہوئی۔ اب میں چپ چاپ کرسی پر بیٹھا سگریٹ پی رہا ہوں اور وہ کن انکھیوں سے میری جانب دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ آخر میں نے بات شروع کی۔ میں نے کہا۔ “ بتا نا مجھے تو یہاں کیوں بیٹھی ہے۔“

“ وہ بولی۔ تو اس بات کو چھوڑ۔ تجھے اپنے کام سے واسطہ۔ میں نے کہا۔ میں تو آیا ہی اس لیے ہوں کہ تجھ سے پوچھوں کہ آخر بات کیا ہے؟ تو یہاں کی نہیں۔ نہ تو یہاں کی دکھتی ہے۔ نہ تیری کوئی حرکت ایسی ہے جو ظاہر کرئے کہ تو یہاں کی ہے، بلکہ تجھے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے مجھے جیسے کوئی مچھلی ریت پر پڑی ہے۔ تو تو یہاں دم توڑ رہی ہے۔“

“ پھر میں نے اس سے محبت بھرے انداز سے بات کرنی شروع کی کیونکہ ویسے تو وہ میرے سوال کا جواب نہ دیتی تھی۔ میں نے کہا۔ دیکھ بانو، چونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ اس کا نام بانو ہے، یہاں اس بازار میں وہ بیٹھی ہیں جو جسم ہی جسم ہوں اور تو تو جسم ہے ہی نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تو بغیر جسم کے ہو۔ یہ روئی روئی آنکھیں یہ کھوئی کھوئی نگاہ جیسے کوئی راستہ بھول گیا ہو اور رو رو کر تھک گیا ہو۔“

“ وہ مجھ سے بار بار کہتی رہی تو چھوڑ اس قصے کو لیکن میں نے اپنی رٹ نہ چھوڑی پھر وہ پوچھنے لگی۔ “ تو کون ہے۔“ میں نے اسے اپنا نام اور کام بتایا۔ اپنے گھر کا پتہ دیا۔ پھر وہ پوچھنے لگی۔ “ تو مجھے حق میں لے گا۔“ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔

“ میں نے کہا۔ تو غلط سمجھ رہی ہے۔ مجھے تیری ہوس نہیں۔ مجھے عورتوں سے کچھ دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں تیری محبت کا مارا ہوا ہوں۔ میں تو صرف یہ پوچھتا ہوں کہ تو یہاں کیسے آ گئی۔ یہ تیری جگہ نہیں۔“

“ قصہ کوتاہ۔“ نقی بولا۔ “ پھر وہ میرے پاس آ بیٹھی اور گھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ روتی رہی۔ کہنے لگی میرے نصیب۔ پھر میں نے بحث چھیڑ لی اور پھر مجھے غصہ آنے لگا اور جب اس نے دونوں بانہیں میری گردن میں ڈال کر ہونٹ میری طرف بڑھائے اور بولی۔ اب چھوڑو بھی نا۔ تو غصے میں میں نے اسے یہ تھپڑ مار دیا۔ وہ لڑکھڑا کر گری اور اس نے شور مچا دیا اور پیشتر اس کے کہ حواری آ پہنچتے میں بھاگ آیا۔ اسے ملے مجھے دس دن ہو چکے ہیں۔ اب یہ حالت ہے کہ چاہے میں پورب کو جاؤں یا پچھم کو مجھے اس وقت ہوش آتا ہے جب میں اس کے چوبارے تلے جا پہنچتا ہوں اور ہوش آتا ہے تو وہاں سے بھاگتا ہوں۔ سارے چکلے میں‌ چرچا ہو رہا ہے۔ لوگ گردن اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھتے ہیں۔ انگلیاں اٹھا اٹھا کر میری طرف اشارے کرتے ہیں۔ طائفوں کے بھڑوے مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔ رنڈیاں میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ اور وہ بانو، وہ تو مجھے دیکھ کر یوں ساکت ہو جاتی ہے جیسے پتھر ہو گئی ہو۔ اس نے ہنسنا مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو وہ ڈر کے مارے باہر بھی نہیں جھانکھتی۔ عجب تماشہ ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔

پھر دفعتہّ اسے خیال آیا “ یار وہ چائے تو مدت سے بنی ہوئی ہو گی۔ میں لایا ہی نہیں۔“ وہ اندر چلا گیا اور چند ساعت کے بعد چائے کا ٹرے اٹھائے ہوئے آیا۔ آتے ہی اس نے چائے بنانا شروع کی۔

“ ہاں “ وہ چائے بناتا ہوا بولا۔ “ تو تمہاری نفسیات کیا کہتی ہے۔ الیاس آصفی۔ یہ سب گڑ بڑ گوٹالہ کیا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے مجھ سے۔ یار ایسی عجیب و غریب باتیں کیوں ہوتی ہیں۔ کوئی بات بھی تو سیدھی نہیں ہوتی۔ ہر بات الٹی، ہر واقعہ پیچیدہ، اب بتاؤ میں کیا کروں؟“

“ ارے۔“ وہ چائے کی طرف دیکھ کر چلایا۔ “ یہ کیا چیز ہے؟“

چائے کا رنگ ہلکا پیازی تھا۔ جیسے چائے نہیں بلکہ پشاوری قہوہ ہو۔

“ لو “ وہ بولا۔ “ پھر اس نے گڑ بڑ کر دی۔ نہ جانے قہوہ بنا دیا ہے یا کیا، حد ہو گئی۔“ نقی نے چائے دانی اٹھائی اور اندر چلا گیا۔

پہلے تو مکان سے اس کے چلانے کی آوازیں آتی رہیں۔ پھر دفعتاّ چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ وہ دھاڑ رہا تھا اور نہ جانے کس چیز سے بیگم کو زدکوب کر رہا تھا اور وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔

“ اور ارے اور پیٹ اور پیٹ۔“ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

“ میں تیری ہڈیاں توڑ دوں گا۔“

“ تو توڑ دے۔ ایک بار میں قصہ ختم کر دے۔“

“ وہ قصہ ختم کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔“

پڑوسی چاروں طرف سے اکٹھے ہو گئے۔

“ اب چھوڑ بھی کہ مار کر ہی دم لے گا۔“ ایک نے کہا۔

“ اے کیا قیامت اٹھا رکھی ہے تم نے۔“ دوسرا بولا۔

“ اے نقی صاحب اے نقی صاحب۔“

دو ایک محلے والے بیٹھک میں آ گئے۔ “ کیوں صاحب یہ کیا آئے دن کے فساد سے ہمارا ناک میں دم آ گیا بھائی صاحب۔“

ایلی اور جمیل خاموش بیٹھے تھے۔

اندر جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

اس پر محلے والے گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ لوگوں نے نقی کو پکڑ لیا لیکن وہ ویسے ہی چیخے جا رہا تھا۔ “ اندھیر خدا کا حقے میں تو چائے ڈالتی ہے تو چائے بناتی ہے تو پان کا زردہ ڈال دیتی ہے۔“ وہ چیخ رہا تھا۔

“ چلو چلیں۔“ جمیل نے ایلی سے کہا۔

“ لیکن یہ گڑبڑ۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ یہ تو یوں ہی رہے گی۔“ جمیل بولا۔ “ کوئی مدد نہیں کر سکتا، کوئی دخل نہیں دے سکتا۔“

“ لیکن۔“ ایلی بولا۔

“ بے کار ہے۔ نقی کا بھید کسی نے نہیں پایا۔“

“ کیا واقعی۔“

وہ دونوں بیٹھک سے باہر نکل آئے۔

باہر بازار میں چراغ جل رہے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ آسمان پر گلابی بادل تیر رہے تھے۔

بیٹھک کے پاس ہی ایک عورت کو دیکھ کر وہ رک گئے۔

وہ ان کے قریب آ گئی۔ “ یہ نیا محلہ ہے نا؟“ اس نے پوچھا۔

“ جی “ جمیل نے جواب دیا۔

“ مجھے نقی صاحب کے گھر جانا ہے۔“ وہ بولی۔ “ مکان نمبر 303 آپ کو معلوم ہے کیا؟“

“ نقی صاحب کے ہاں۔“ جمیل نے حیرانی سے پوچھا۔

“ جی وہ دبلے پتلے صاحب ہیں۔ ڈسٹرکٹ بورڈ میں ملازم ہیں۔“

“ آپ کون ہیں؟“ جمیل نے پوچھا۔

“ میں ------ “ وہ رک گئی۔

“ ان کی رشتہ دار ہیں کیا؟“ جمیل نے پوچھا۔

“ نہیں۔“ وہ بولی “ میں ان کی جان پہچان ہوں۔ مجھے ان سے ضروری ملنا ہے۔“

“ آپ کا نام بانو ہے نا۔“ ایلی نے کہا۔

حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

“ بانو ------ “ جمیل نے حیرانی سے عورت کی طرف دیکھا۔

“ جی ہاں۔“ وہ بولی۔

“ ارے تم کہاں جا رہے ہو۔“ نقی نے بیٹھک سے سر نکال کر انہیں آواز دی۔“

“ یہ لیجیئے نقی آ گیا۔“ ایلی نے کہا۔

بانو کو یوں اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر نقی کی آنکھیں ابل آئیں۔ ایک ساعت کے لیے وہ جھجکا پھر وہ دیوانہ وار آگے بڑھا۔ بانو سمٹ کر رک گئی۔ خوف سے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ لیکن جسم کے بند بند میں سپردگی موجیں مار رہی تھی۔ باہر بازار میں چراغ جل رہے تھے۔ گلابی بادل منڈلا رہے تھے۔ ہوا رک کر سرگوشیاں کر رہی تھی۔ نقی بانو کی طرف یوں بڑھ رہا تھا جیسے وہ ایک خوفناک موج ہو۔ بانو ڈوب جانے کی منتظر تھی۔ “ چلو “ جمیل نے ایلی کو کہنی ماری اور وہ چپ چاپ چل پڑئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
انکوائری

جب ایلی واپس جاورا پہنچا تو وہاں شور مچا ہوا تھا۔ اس کے تمام ساتھی گھر پر جمع تھے۔

“ ارے “ افضل چلایا۔ “ ایلی آ گیا۔“

ایلی آ گیا، ایلی آ گیا۔ چاروں طرف شور مچ گیا۔

“ بڑے موقعے پر آئے ہو ورنہ تمہیں تار دینے والے تھے۔“ چودھری بولا۔

“ آخر بات کیا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ پٹاخہ چل گیا۔“ افضل نے شور مچایا۔

“ اور شیخ کی بات بتاؤ نا۔ اسہال جاری ہیں بری حالت ہے۔“ شبیر نے کہا۔

“ صاف بات کرو یار۔ اسے پریشان کیوں کر رہے ہو۔“ افضل بولا۔

“ جو پودا بویا تھا۔ اسے سمجھ لو پھل لگا ہے۔“

“ یار انکوائری ہو رہی ہے۔“

انکوائری کی بات سن کر ایلی ساکت رہ گیا۔

“ ہاں ہاں۔“ شبیر بولا۔ “ خود مسٹر معروف انکوائری کے لیے آ رہے ہیں۔“

“ خود۔ “

“ ہاں ہاں “

“ کب؟“

“ کل صبح۔“

اگلے روز سکول پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ مسٹر معروف شیخ صاحب کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ باہر اساتذہ کے دل دھڑک رہے تھے اور وہ انتقاماّ لڑکوں کو گھور گھور کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ سازشیوں کے رنگ زرد ہو رہے تھے۔ ان کے انداز میں گھبراہٹ تھی۔ لیکن ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ چپڑاسی مؤدبانہ سٹولوں پر بیٹھے تھے۔ ڈرل ماسٹر خصوصی طور پر کھرج میں احکامات نافذ کر رہا تھا اور ایلی سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ اسے بار بار افضل کی بات یاد آ رہی تھی۔ اس نے ایلی سے کہا تھا۔ “ تمہارے ساتھیوں میں جرات نہیں۔ نہ یہ بات کر سکیں گے نہ سامنے آ سکیں گے۔ اب سوچ لو۔ آیا سامنے آنا ہے یا نہیں۔ دونوں پہلو ہیں۔ اگر تم سامنے نہ آئے تو ممکن ہے سارا کیا کرایا بے کار جائے اور اگر سامنے آ گئے تو شاید زور میں آ جاؤ اور فائدہ کچھ بھی نہ ہو۔“ ایلی سوچ رہا تھا۔

طبعی طور پر وہ سامنے آ جانے کا قائل تھا۔ وہ صرف اس پہلو پر غور کر رہا تھا کہ میرے سامنے آ جانے سے باقی ساتھیوں کو نقصان نہ پہنچے۔

سکول کے بچوں کو چھٹی دینے کے بعد مسٹر معروف نے اساتذہ کی میٹنگ بلائی۔ ہال کمرے میں وہ سب خاموش بیٹھے تھے۔ مسٹر معروف شیخ صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ اساتذہ بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ مسٹر معروف کا شیخ سے برتاؤ ایسا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ شیخ مسعود کی ہر بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے ہر مشورے پر عمل کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔ باتوں کے دوران میں وہ نیچی نگاہ سے اساتذہ کے رد عمل کا جائزہ لے رہے تھے یا شاید یہ دیکھ رہے تھے کہ جو اثر وہ پیدا کرنا چاہتے تھے کیا وہ پیدا ہو رہا ہے۔

شیخ صاحب نہایت مؤدبانہ بیٹھے تھے۔ لیکن ان کے چہرے سے فکر کے آثار مترشح تھے۔ ان کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ آنکھوں سے جھجک اور گھبراہٹ کا اظہار ہو رہا تھا۔

دفعتاّ معروف صاحب نے اساتذہ کو خطاب کرنا شروع کیا۔

“ اساتذہ کرام۔“ وہ بولے “ میں آپ کے سکول میں انکوائری کے لیے آیا ہوں۔“

“کوائف یہ ہیں کہ تقریباّ ایک سال سے جاورا سے گمنام شکایتی خط موصول ہو رہے ہیں۔ ان خطوط کا انداز انوکھا ہے۔ روز ایک خط بھیجا جاتا ہے۔ جس میں صرف ایک شکایت درج ہوتی ہے۔ وہ بھی نہایت اختصار سے۔ گمنام خط لکھنے والا یقیناّ کوئی ذہین آدمی ہے اور یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ یہ شکایت کسی خاص آدمی کے خلاف نہیں ہوتی۔ بہرحال ظاہر ہے کہ آپ میں سے کوئی ایک یا چند لوگ مل کر یہ خطوط بھیج رہے ہیں۔ میں صرف آج اس لیے آیا ہوں کہ اس کے متعلق انکوائری کروں۔ انکوائری جبھی ہو سکتی ہے جب مدعی اور مدعا الیہ دونوں موجود ہوں۔ مدعی شکایت پیش کرئے۔ مدعا الیہ ان کا جواب دے اور میں انسپکٹر کی حثیت سے دونوں پارٹیوں کے دلائل سن کر اس کا فیصلہ کروں۔ لٰہذا میں آپ کی خدمت میں ایک درخواست کروں گا کہ جو بھی مدعی ہے وہ اپنا آپ ظاہر کرے۔“

مسٹر معروف خاموش ہو گئے۔ کمرے پر سکوت طاری تھا۔ تما اساتذہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔

مسٹر معروف نے چند منٹ انتظار کیا۔ وہ اساتذہ کو جانچتے رہے لیکن پھر مزید وضاحت کے لیے کہنے لگے۔

“ دیکھئے۔“ وہ بولے۔ “ یہ بات تو میں تسلیم کرنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں کہ سٹاف کے علاوہ کوئی اور شخص ایک سال سے مسلسل اس سکول کی شکایت بھیج رہا ہے۔ کیا یہ درست نہیں۔“ انہوں نے پوچھا۔ اساتذہ خاموش بیٹھے رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مدعی اور مدعا الیہ

“ تو آپ کی خاموشی سے ظاہر ہے کہ آپ کو میرے خیال سے اتفاق ہے۔“ مسٹر معروف مسکرا کر کہنے لگے۔ “ لٰہذا اگر آپ میں ہی وہ صاحب موجود ہیں۔ جو ایسے خط لکھ رہے ہیں۔ تو وہ مجھ سے بات کریں اور اگر آپ میں سے کوئی شخص اس خطوط کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ انکوائری ختم ہو گئی۔ کیونکہ اگر آپ میں سے کسی شخص کو کوئی شکایت ہی نہیں تو انکوائری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

ایلی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے دیکھ کر شیخ کا چہرہ بھیانک ہو گیا۔ لیکن مسٹر معروف نے اسے چنداں اہمیت نہ دی۔

“ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں الیاس صاحب۔“ معروف نے پوچھا۔

“ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔ “ کیا گمنام خط لکھنے والے نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔“

مسٹر معروف کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے۔ “ میرے خیال میں نہیں۔“

“ تو آپ خود ہی انکوائری کے لیے تشریف لائے ہیں۔ لٰہذا مدعی کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ ایلی نے کہا۔

“ ہوں۔“ مسٹر معروف مسکرائے۔ “ کیا آپ چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔“

“ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔“

مسٹر معروف نے تمام اساتذہ کو مخاطب کر کے کہا۔ “ کیا آپ میں سے کوئی صاحب چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔“

سب لوگ خاموش بیٹھے رہے۔

“ میری ایک گزارش اور ہے۔“ ایلی نے کہا۔

“ کہو۔“ معروف بولے۔

“ ابھی آپ نے فرمایا ہے کہ شکایات کسی فرد کے خلاف نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ مدعا الیہ بھی کوئی نہیں ہے تو پھر مدعی کے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔“

کچھ دیر مسٹر معروف خاموش بیٹھے رہے۔ پھر بولے۔ “ الیاس صاحب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس کیس سے خاصی دلچسپی ہے۔“

“ جی “ ایلی نے کہا اور اس کا دل بری طرح دھڑکنا شروع ہو گیا۔

“ کیا دلچسپی ہے؟“ معروف بولے۔

“ مجھ خطوں کی نوعیت کا علم ہے۔“

“ وہ کیسے ؟“

“ وہ ایسے کہ وہ خط میں نے لکھے ہیں۔“ ایلی نے گھبرا کر کہا اور اس کا سر زمین سے یوں اڑ گیا جیسے ہوائی کو آگ دی گئی ہو۔

مسٹر معروف نے حیرت سے ایلی کی طرف دیکھا۔

اساتذہ کرام نے گردنیں اٹھا لیں۔ ہال کمرے میں سرگوشیاں گونجنے لگیں۔ چودھری کی آنکھ چمکی۔ شبیر نے آہیں بھرنا شروع کر دیا۔ احمد اور ڈرائینگ ماسٹر مسکرا رہے تھے۔

“ تو آپ مدعی ہیں۔“ مسٹر معروف بولے۔

“ جی نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ مجھے ذاتی طور پر کوئی تکلیف نہیں۔“

“ دیکھئے الیاس صاحب۔“ مسٹر معروف نے پینترا بدلا۔ “ میں یہاں انصاف کرنے نہیں آیا۔ میرا فرض یہ ہے کہ آئین اور قوانین کے مطابق نظم و نسق بحال رکھوں۔ سمجھے۔“

“ جی۔“ الیاس نے کہا۔ “‌میں اپ سے انصاف نہیں مانگ رہا۔ شکایات شیخ مسعود کے خلاف نہیں۔ یہ خطوط آپ کو صرف اس لیے لکھے گئے کہ ایسے افعال کا ارتکاب کیا جا رہا ہے کہ آپ کے نظم و نسق کی توہین ہو رہی ہے۔ آپ ہی مدعی ہیں آپ ہی مدعا الیہ ہیں۔“

“ تو آپ ان شکایات کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے تیار نہیں۔“

“ اس کی ضرورت نہیں۔“ ایلی نے کہا۔

“ تو مجھے کیسے علم ہو کہ جو آپ نے لکھا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔“

“ شکایت کے ساتھ متعلقہ ریکارڈ کا حوالہ دیا ہے۔ آپ ریکارڈ دیکھیں۔ گواہوں کی کیا ضرورت ہے؟“

مسٹر معروف بولے۔ “ لیکن میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ریکارڈ دیکھوں۔“

“ تو نہ دیکھیئے۔ آپ جانیں آپ کا نظم و نسق جانے۔“

مسٹر معروف نے ایک قہقہہ مارا۔ “ آپ بڑی دلچسپ باتیں کرتے ہیں مسٹر آصفی۔ میں آپ کی ذہانت کی داد دیتا ہوں۔ لیکن اس سپرٹ سے آپ نوکری نہیں کر سکیں گے۔“

انکوائری کے بعد فضا پر گویا ایک اداسی اور ویرانی چھا گئی۔ وہ اداسی جو کامیابی اور جدوجہد کے بعد چھا جاتی ہے۔ کیا یہ تھی وہ انکوائری جس کے لیے انہوں نے زندگی کا ایک سال حرام کر دیا تھا۔ ایک سال محنت کی تھی۔ سوچ بچار کی تھی۔ پلان بنائے تھے۔ آکر اس تگ و دو کا مقصد کیا تھا۔ ایلی سوچ رہا تھا۔

مولوی، مولوی، منڈیر پر بیٹھا ہوا کوا چلایا۔ مولوی، مولوی۔

اس کے روبرو پاگل مولوی آ کھڑا ہوا۔ وہ سڑک پر بنی ہوئی مسجد پر کھڑا تھا۔ سن رہے ہیں آپ۔ “ ایلی چلایا۔ “ سن رہے ہیں آپ۔ آپ کو ستانے والا آج خود مصیبت میں گرفتار ہے۔“ “ ہوں، ہوں۔“ مولوی نے مڑ کر ایلی کی طرف دیکھا۔

اس کا چہرہ خالی تھا۔ خوشی اور غم سے بے نیاز۔ “ ہوں، ہوں‘ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا “ بیکار ہے بے کار۔“ ایلی کے دل سے آوازیں آنے لگیں۔ “ تم ایک دکھی کا دکھ دور نہیں کر سکے۔ تم اسے مسرت نہ دے سکے۔ الٹا تم نے ایک اور آدمی کو دکھی بنا دیا۔“

ایلی کے روبرو شیخ آ کھڑا ہوا۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنس رہا تھا۔ “ میں صرف اس لیے پٹ گیا“ وہ بولا۔ “ کہ تم نے دوست بن کر مجھ پر وار کیا۔“

ادھر مسٹر معروف مسکرا رہے تھے۔ “ الیاس زندگی سے انصاف کی توقع رکھو گے تو سدا دکھی رہو گے۔ سرکاری ملازمت میں انصاف نہیں ہوتا۔ صرف ایڈمنسٹریشن ہوتی ہے اور ایڈمنسٹریشن کے پاٹ تلے ظالم مظلوم دونوں پستے ہیں۔“

ایلی کے ساتھی خاموشی سے بیٹھے تھے۔ ہارمونیم ایک طرف پڑا تھا۔ تاش کے پتے صحن میں اڑ رہے تھے۔

“ کچھ مزہ نہیں آیا ایلی۔“ افضل کہہ رہا تھا۔

“ ہاں یار کچھ بھی تو نہیں ہوا۔“ شبیر آہیں بھر رہا تھا۔

احمد سر جھکائے بیٹھا گہری سوچ میں پڑا تھا۔

ڈرائینگ ماسٹر کہہ رہا تھا۔ “ اب اس انکوائری کا نتیجہ کیا نکلے گا۔“
 

شمشاد

لائبریرین
پوم پوم

عین اس وقت باہر سے پوم پوم کی آواز آئی اور پھر محمود ہنستا ہوا اندر آ گیا۔

“ چلو۔“ وہ بولا۔ “ جلدی کرو۔ جلدی۔ ابھی واپس آ جانا۔“

“ کہاں جانا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ یہاں باہر تک۔ چلو نا۔ یار۔ باہر کار کھڑی ہے۔“ وہ بولا۔

“ کار۔“ ایلی نے دہرایا۔

“ ہاں ہاں۔“ محمود بولا۔ “ تم سے چند ایک ضروری باتیں کرنی ہیں۔“

“ اچھا۔“ ایلی بولا اور وہ دونوں باہر چلے گئے۔

دروازے کے باہر میدان میں کار کھڑی تھی۔

“ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔“ محمود بولا۔ “ بھئی بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ بڑی ضروری باتیں ہیں۔“

محمود نے اسے گاڑی میں دھکیل دیا اور جونہی وہ کار میں داخل ہوا گاڑی چل پڑی۔

اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ میم کو بیٹھے دیکھ کر ایلی چلایا۔ “ ارے یہ تو میم ہے۔“
“ تو پھر کیا ہوا۔“ محمود ہنسا۔ “ تمہیں کیا کہتی ہے۔“ اس نے زیر لب کہا۔

“ لیکن تم تو کہتے تھے باتیں کریں گے۔“

“ باتیں ہی تو کریں گے۔“

“ اس کے ہوتے ہوئے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ باتیں کرنا جرم تو نہیں۔“

“ لیکن یار۔“ ایلی بولا۔

“ میڈم یہ میرا دوست کہہ رہا ۔“ محمود نے میم کو مخاطب کر کے کہا۔ “ کہ آپ کی موجودگی میں بات نہیں ہو سکتی۔“

وہ مڑ کر دیکھے بغیر پنجابی میں کہنے لگی۔ “ ہام پنجابی نہیں سمجھتا۔“

“ معاف کیجیئے۔“ محمود بولا۔ “ ہمیں شک ہے کہ آپ سمجھتی ہیں۔“

“ شکی مجاج اچھا نہیں ہوتا۔“ وہ پنجابی میں بولی۔

“ لیکن آپ تو پنجابی بول رہی ہیں۔“ ایلی نے کہا۔

“ خالی بولتا ہے سمجھتا نہیں۔“ وہ بولی۔

ایلی قہقہہ مار کر ہنسا۔ اس نے محسوس کیا کہ کار میں تین بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ میم ویم کوئی نہ تھی۔ اس لیے وہ چلا چلا کر باتیں کرنے لگا۔

“ میرا تار ملا تھا۔“ محمود نے پوچھا۔

“ کیسا تار؟“ ایلی نے کہا۔

“ جو میں نے تمہیں دیا تھا کہ میں آ رہا ہوں تیار رہنا۔“ محمود نے کہا۔

“ نہیں تو۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ اچھا تو تمہیں پہلے سے علم نہ تھا کہ میں آ رہا ہوں۔“

“ نہیں تو۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ تعجب کی بات ہے۔“ اس نے کہا اور پھر وہ ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ حتٰی کہ ایلی کو یہ خیال بھی نہ رہا کہ موٹر میں کوئی اور بھی موجود ہے یا موٹر مسلسل چلے جا رہی ہے۔

دوکانوں کو دیکھ کر دفعتاّ ایلی کو خیال آیا کہ اس کے پاس سگریٹ ختم ہو چکے تھے۔

“ ذرا روکیئے میں سگرٹ خرید لوں۔“

کار سے باہر نکل کر وہ حیران رہ گیا۔ “ ارے۔“ وہ چلایا۔ “ یہ کونسی جگہ ہے؟“

غالباّ وہ سمجھ رہا تھا کہ کار جاورا کے چکر کاٹ رہی ہے۔

“ کونسی جگہ ہے۔“ محمود نے ہنس کر پوچھا۔

“ یہ تو لاہور معلوم ہوتا ہے۔“

“ اور کیا پشاور ہو۔“ محمود نے کہا۔

“ کیوں پریشان کر رہے ہو اپنے دوست کو۔“ مسز فلپ نے کہا۔ “ یہ تو جاورا کا بازار ہے۔“

“ لیکن میں واپس کیسے جاؤں گا۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ رات کی گاڑی سے چلے جانا۔ صبح پہنچ جاؤ گے۔“ محمود نے کہا۔

“ یا بیماری کی عرضی دے دینا۔“ مسز فلپ نے کہا۔ “ آخر میڈیکل سرٹیفکیٹ کس مرض کی دوا ہے۔“ وہ ہنسنے لگی۔

“ یہ ٹھیک ہے۔“ محمود چلایا۔ “ تم ہمارے ساتھ ہی چلو۔“

“ کہاں۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ نیا شہر۔“ محمود نے جواب دیا۔

“ لیکن تم تو لائل پور ہو نا۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ اونہوں۔“ محمود بولا۔ “ دفتر تبدیل ہو کر نیا شہر میں چلا گیا ہے۔“

“ اب غصہ میں آنے کا کیا فائدہ۔“ مسز فلپ نے کہا۔

“ محترمہ۔“ وہ بولا۔ “ اس شخص نے مجھ سے دھوکہ کیا ہے۔“

“ کوئی نئی بات ہے۔“ وہ مسکرائی۔

“ یہ تو ٹھیک ہے۔“ ایلی نے کہا۔

“ تو چھوڑو۔“ وہ بولی۔

اور موٹر چل پڑی۔ رات لاہور رکنے کے بعد اگلے روز وہ تینوں نیا شہر جا پہنچے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسز فلپ

مسز فلپ ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ لیکن وہ یوں چلتی پھرتی اٹھتی تھی۔ جیسے ابھی ابھی جوان ہوئی ہو اور اسے اس انوکھی زندگی سے جو اس کے گرد پھیلی ہوئی تھی، والہانہ عشق تھا۔ وہ مسرت بھری حیرت سے ہر چیز کی طرف دیکھتی جیسے اس نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا ہو۔ بچوں کی طرح تالیاں بجاتی اور پھر چاہتی کہ کسی اور کو دکھائے۔ اس تازہ مسرت میں کسی اور کو اپنا شریک بنائے۔ اس کے لیے زندگی سکون اور اطمینان نہیں بلکہ مسلسل حرکت مسلسل مسرت اور مسلسل تگ و دو تھی۔ غالباّ اسی وجہ سے وہ زندگی کی خوشیوں میں پندرہ افراد کو شریک کر چکی تھی اور اب مسٹر فلپ اس کا سولہواں خاوند تھا یا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس قدر ذہانت اور چمک کی مالک تھی کہ کوئی اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس کے ہمراہ چلتے تو تھے لیکن بہت جلد تھک کر پیچھے رہ جاتے۔ پھر وہ محسوس کرنے لگتی کہ وہ اکیلی ہے، تنہا ہے۔ اس بات پر اسے غصہ آنےلگتا۔ اس وقت اس کی خواہش ہوتی کہ کوئی اس سے محبت کرئے یا لڑے، بحث کرئے، ہاتھا پائی سے بھی گریز نہ کرئے۔ اسے جمود سے نفرت تھی۔ سکون ایک بھیانک چیز دکھائی دیتی تھی۔ اسے ہر بات گوارا تھی۔ سکون سے نکل کر پھر سے متحرک کر دے چاہے وہ حرکت کس قدر شدید اور خطرناک کیوں نہ ہو بلکہ ہو تو اور بھی اچھا۔ مسز فلپ کے لیے واحد خطرہ سکون تھا۔

اس کا نیا خاوند مسٹر فلپ ایک نہایت خوبصورت نوجوان تھا۔ لیکن خوبصورتی کے علاوہ اس میں کوئی بات نہ تھی۔ جو مسٹر فلپ کی شخصیت کو جذب پر سکتی۔ درحقیقت مسز فلپ سے شادی کرنے سے مسٹر فلپ کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔

مسٹر فلپ ایک فیکٹری میں ملازم تھا اور اس کی ملازمت اس نوعیت کی تھی کہ تنخواہ میں گزارہ ممکن نہ تھا۔ وہ ہمیشہ حاجت مند رہتا۔ یہ حاجت مندی مسز فلپ کی اپنے خاوند سے دلچسپی میں گویا سونے پر سہاگے کا کام دیتی تھی۔ تنخواہ ملتے ہی مسز فلپ ایک معقول رقم بذریعہ تار مسٹر فلپ کو منی آرڈر کر دیتی۔ پھر مسز فلپ کے خطوں کا تانتا بند جاتا۔ “ فلپ ڈارلنگ تمہیں مزید روپے کی ضرورت ہو تو مجھے لکھو فوراّ اطلاع دو۔ نہیں ڈارلنگ گھٹیا سگریٹ نہ پینا۔ اگر بورے وال میں اعلٰی سگریٹ دستیاب نہ ہوتے ہوں تو مجھے لکھو تاکہ میں نیا شہر سے پیٹی بھیج دوں۔“

مسز فلپ میں مامتا کا ایک طوفان دبا پڑا تھا۔ چونکہ سولہ شادیوں کے باوجود اس کا کوئی بچہ نہ تھا۔ اور وہ مسٹر فلپ کا یوں خیال رکھتی تھی جیسے اس کا اکلوتا بیٹا ہو۔ مسٹر فلپ اس کی اس کمزوری سے واقف تھا اور دل کھول کر اس کے مامتا بھرے جذبات کو حرکت میں لانے اور ان میں شدت پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کیا کرتا تھا۔ دقت یہ تھی کہ وہ بہت دور دراز مقام پر نوکری کرتا تھا اور مسز فلپ کو خالی خطوط پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ شاید اسے خاوند کی جسمانی موجودگی کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو مگر مسلسل تنہائی اسے کھائے جا رہی تھی۔

جب کبھی مسز فلپ کو اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہوتا تو اسے غصہ آ جاتا۔ اس وقت اس کا جی چاہتا کہ کوئی ایسا ساتھی ہو جس پر وہ اپنا غصہ اتار سکے۔ یہ کیا زندگی ہوئی کہ لڑنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ پیار کرنے والا نہیں نہ سہی۔ لڑنے والا بھی ہو تو۔ اس وقت وہ بغیر وجہ اپنے ماتحتوں سے لڑنے کی شدت سے کوشش کرتی مگر اس کے ماتحت نہ جانے کس مٹی سے بنے ہوئے تھے۔ جواب میں سر جھکا کر اس کے روبرو کھڑے ہو جاتے۔ “ یس میڈم ساری میڈم۔“ اس بات پر میڈم کو اور غصہ آتا اور آنکھیں دکھاتی منہ بناتی اور فرفر انگریزی بولتی جسے سن کر ان کے رہے سہے اوسان خطا ہو جاتے۔ اس پر مسز فلپ مایوس ہو کر کمرے میں جا کر رہ دیتی۔ رونے سے دل کی بھڑاس نہ نکلتی تو مسٹر فلپ کو ایک لمبا خط لکھنا شروع کر دیتی۔

مسز فلپ کے دفتر والے سمجھتے تھے کہ میڈم کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کبھی ہنستی ہے، ہنسے جاتی ہے، کبھی بغیر وجہ گرجنا شروع کر دیتی ہے۔ خواہ مخواہ الجھتی ہے۔ منہ کو آتی ہے اور پھر بیٹھ
(صفحہ نمبر 935 ختم ہوتا ہے)
 
Top