شمشاد
لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحات 891 سے 905 تک
نے اس سے جواب طلبی کی ہے۔ بے چارہ پٹ جائے گا۔“
ایلی کو موقع مل گیا۔ بولا “ ہاں آپ نے واقعی مولوی صاحب سے زیادتی کی تھی۔“
“ تو اب کس طرح اس کا تدارک کریں۔“ شیخ نے اس سے ہنس کر پوچھا۔
“ کریں تو بہتر ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“ تو میں معافی مانگ لوں۔“ شیخ چلایا۔
ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
“ ہاں میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرطیکہ وہ کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ میں نے صدق دل سے معاف کر دیا۔“
شیخ کی یہ بات سن کر ایلی کے دل میں پھر سے اس کے لیے احترام پیدا ہو گیا۔
اس کے بعد مسلسل دو روز سارا سٹاف مولوی صاحب کی منتیں کرنے میں لگا رہا کہ شیخ کو معاف کر دیں اور تحریر لکھ کر دیدیں۔ مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ تھے لیکن آخر کار انہوں نے مولوی صاحب کو مجبور کر دیا اور انہوں نے یہ تحریر لکھ دی کہ اگرچہ شیخ کا طرز عمل ناروا تھا تاہم ان کا راضی نامہ ہو گیا ہے اور انہوں نے شیخ کو معاف کر دیا ہے۔
یہ تحریر حاصل کرنے کے بعد شیخ نے سکول بند ہونے پر مولوی صاحب کو اپنے کمرے میں بلا لیا جب کہ سب اساتذہ اور طلبہ جا چکے تھے اور پھر سے انہیں لاتعداد فحش گالیاں دیں اور جان بوجھ کر ایسے سخت کلمات کہے کہ وہ پھر غصے میں آ کر انسپکٹر سے شکایت کریں۔ شیخ کا یہ اقدام سوچے سمجھے پلان کے مطابق تھا۔ بلکہ ایک چپڑاسی کو آگ لگانے کے لیے ان کے گھر بھیجا۔ چپڑاسی نے مولوی صاحب کو بتایا کہ انسپکٹر نے شیخ کی جواب طلبی کی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مولوی صاحب شیخ کے خلاف شکایت کا ایک اور خط لکھیں۔ جب اسے اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ مولوی صاحب نے دوسرا خط لکھ دیا ہے تو شیخ نے انسپکٹر کو اپنی طرف سے خط لکھا جس کا نفسِ مضمون یہ تھا :
“ مولوی رحمت اللہ میرے باپ کی جگہ ہیں ان کی عزت کرتا ہوں۔
عرصہ چھ ماہ کا ہوا کہ وہ اونٹ سے سر کے بل گر پڑے تھے۔ ان کے
سر پر چوٹ آئی تھی جب سے ان کا ذہن کا توازن ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی
بے وجہ ناراض ہو جاتے ہیں اور پھر خود ہی مجھے معاف کر دیتے ہیں۔
غالباً وہ جاورا میں رہنا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ خانگی امور ہیں۔ بہرحال
میں نہیں چاہتا کہ ان کی بہتری میں حائل ہوں۔ مولوی صاحب کا معافی نامہ
ارسال خدمت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔
اگرچہ میں نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ سہواً کوئی بات منہ سے نکل گئی
ہو جسے غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے برا مان لیا ہو تو مجھے علم نہیں۔“
ایم معروف ولایت سے بیرسٹری کی ڈگری لے کر نئے نئے ہندوستان میں آئے تھے اور آتے ہی کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے۔ پھر چند ماہ کے بعد محکمہ میں ڈویژنل انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے واقف نہ تھے اور چونکہ طبعی طور پر کسی کا بُرا نہیں چاہتے تھے، لٰہذا شیخ مسعود کے اس خط سے جو مولوی رحمت اللہ کے دوسرے شکایتی خط کے ساتھ موصول ہوا تھا انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی مولوی صاحب کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ انہوں نے مولوی صاحب کے لیے بے انتہا ہمدردی محسوس کی۔ اپنے ڈپٹیوں کو بلا کر انہیں ساری بات سمجھائی کہ وہ دورے پر جائیں تو کوئی مناسب مقام تلاش کریں جہاں مولوی صاحب کو تبدیل کیا جائے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں بھی ڈپٹی یا معروف جاتے کمال ہمدردی سے کہتے :
“ ہمارے ایک عربی مولوی ہیں جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہیں البتہ ذرا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ان کا۔ اگر آپ انہیں اپنے سکول میں لے لیں تو کیا اچھا ہو۔“
افسران کی اس بے پناہ ہمدردی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب کی دیوانگی پر مہر ثبت ہو گئی اور ڈویژن کے کونے کونے میں مولوی صاحب کے دماغی عارضے کا پرچار ہو گیا۔ ادھر شیخ مسعود نے اسے ہوا دی۔
مولوی صاحب کی بیگم کے کانوں تک بات پہنچی تو اس نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگی۔ “ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ وہ باؤلا ہے کوئی مانتا ہی نہ تھا۔“
یہ بات ان کی بیوی کے حق میں تھی۔ چونکہ وہ مولوی صاحب سے الگ آزادی میں رہنا چاہتی تھی۔ اسے بہانہ مل گیا۔ ایک روز دفعتاً اس نے شور مچا دیا جب مولوی صاحب وظیفہ پڑھنے میں مصروف تھے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اس پر بیگم نے پینتر بدلا۔ “ دہائی خدا کی اب لوگوں کو دکھانے کے لیے جائے نماز پر جا بیٹھا ہے۔“
یہ تو بہرصورت تمہید تھی۔ بیگم نے محلے کے چار بزرگوں کو بٹھا کر کہا کہ میں تو ہرگز اس دیوانے کے ساتھ نہ رہوں گی۔ اور یہ فیصلہ کرا لیا کہ وہ لائلپور رہے اور مولوی صاحب انہیں باقاعدہ خرچ بھیجتے رہیں۔ اس فیصلے کے بعد وہ بچوں کو لے کر چلی گئی اور مولوی صاحب تن تنہا رہ گئے۔
حالات کو یوں بدلتے دیکھ کر مولوی صاحب بھونچکے رہ گئے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بیٹھے بٹھائے چاروں طرف آگ سی کیوں لگ گئی ہے۔ کیوں لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگے ہیں۔ حیرت اور گھبراہٹ سے ان کی شکل و صورت میں دیوانگی کی جھلک پیدا ہو گئی۔
شیخ مسعود واحد آدمی تھا جو حالات کے رخ کو سمجھ رہا تھا۔ مولوی صاحب کا ذکر آ جاتا تو وہ قہقہے لگاتا اور خوش ہوتا جیسے کسان اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹتے وقت خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ شیخ اپنی کارکردگی پر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے اپنی اس صناعی میں مزید بیل بوٹے کاڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس نے اپنے ایک سکھ شاگرد سوبھا سنگھ کو جو سکھوں کے ایک چک میں مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر بن چکا تھا اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ مولوی صاحب کو اپنے سکول میں لے لینے کی پیش کس کر دے اور بعد میں ذرا ان کے مزاج صاف کرنے کا انتظام کرئے۔
انسپکٹر صاحب کو بھلا بات کی حقیقت سمجھنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو صرف نظم و نسق چلانے پر مامور تھے۔ انہوں نے سکھ ہیڈ ماسٹر کے اس اقدام کی تعریف کی اور مولوی رحمت اللہ وہاں تبدیل کر دیئے گئے۔ ہیڈ ماسٹر سوبھا سنگھ کے توسط سے مولانا کو چک میں کوٹھری مل گئی۔ اور وہ وہاں کسمپرسی کے عالم میں جا پڑے۔ سوبھا سنگھ نے پہلے ہی چک میں مشہور کر دیا تھا کہ ان کے دماغ میں کچھ فتور ہے۔
ایک روز مولانا نے جوش اسلام میں آ کر با آواز بلند اذان فرما دی۔ سوبھا سنگھ کا اشارہ تو پہلے ہی موجود تھا۔ لوگ مولوی صاحب پر پل پڑے۔ انہوں نے پیٹ پیٹ کر انہیں ادھ موا کر دیا اور کوٹھری سے ان کا سامان نکال کر باہر پھنکوا دیا۔ سامان کیا تھا۔ ایک بستر، ایک لوٹا، ایک جائے نماز اور ایک تسبیح۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ چک سے دیس نکالا ملنے کے بعد مولوی صاحب نے عالم مجبوری میں علاقے کی اس واحد مسجد میں قیام کیا جو وہاں سے چار میل دور برسرراہ مسافروں کے نماز پڑھنے کے لیے بنائی تھی اور جو چار مربع فٹ اینٹوں کے چبوترے پر مشتمل تھی۔ اس علاقے میں صرف وہی پناہ گاہ انہیں مل سکی۔ انہوں نے اپنا سامان وہاں رکھ دیا اور خود اللہ کی یاد میں بیٹھ گئے۔ پھر ایک روز سوبھا سنگھ کے اشارے پر کوئی ان کا بستر اٹھا کر لے گیا۔ جب وہ سکول سے واپس آئے تو بستر کا کچھ پتہ نہ تھا۔ رات کو سردی کی وجہ سے وہ اکڑ گئے اور اگلے روز سکول میں لڑکے ان کے گرد جمگھٹا کئے انہیں چھیڑ رہے تھے۔
“ پاگل پاگل۔“
پھر معلوم نہیں کہ انہیں کیا ہوا۔ زمین نگل گئی یا آسمان نے ڈھانپ لیا۔
صفحات 891 سے 905 تک
نے اس سے جواب طلبی کی ہے۔ بے چارہ پٹ جائے گا۔“
ایلی کو موقع مل گیا۔ بولا “ ہاں آپ نے واقعی مولوی صاحب سے زیادتی کی تھی۔“
“ تو اب کس طرح اس کا تدارک کریں۔“ شیخ نے اس سے ہنس کر پوچھا۔
“ کریں تو بہتر ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“ تو میں معافی مانگ لوں۔“ شیخ چلایا۔
ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
“ ہاں میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرطیکہ وہ کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ میں نے صدق دل سے معاف کر دیا۔“
شیخ کی یہ بات سن کر ایلی کے دل میں پھر سے اس کے لیے احترام پیدا ہو گیا۔
اس کے بعد مسلسل دو روز سارا سٹاف مولوی صاحب کی منتیں کرنے میں لگا رہا کہ شیخ کو معاف کر دیں اور تحریر لکھ کر دیدیں۔ مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ تھے لیکن آخر کار انہوں نے مولوی صاحب کو مجبور کر دیا اور انہوں نے یہ تحریر لکھ دی کہ اگرچہ شیخ کا طرز عمل ناروا تھا تاہم ان کا راضی نامہ ہو گیا ہے اور انہوں نے شیخ کو معاف کر دیا ہے۔
یہ تحریر حاصل کرنے کے بعد شیخ نے سکول بند ہونے پر مولوی صاحب کو اپنے کمرے میں بلا لیا جب کہ سب اساتذہ اور طلبہ جا چکے تھے اور پھر سے انہیں لاتعداد فحش گالیاں دیں اور جان بوجھ کر ایسے سخت کلمات کہے کہ وہ پھر غصے میں آ کر انسپکٹر سے شکایت کریں۔ شیخ کا یہ اقدام سوچے سمجھے پلان کے مطابق تھا۔ بلکہ ایک چپڑاسی کو آگ لگانے کے لیے ان کے گھر بھیجا۔ چپڑاسی نے مولوی صاحب کو بتایا کہ انسپکٹر نے شیخ کی جواب طلبی کی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مولوی صاحب شیخ کے خلاف شکایت کا ایک اور خط لکھیں۔ جب اسے اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ مولوی صاحب نے دوسرا خط لکھ دیا ہے تو شیخ نے انسپکٹر کو اپنی طرف سے خط لکھا جس کا نفسِ مضمون یہ تھا :
“ مولوی رحمت اللہ میرے باپ کی جگہ ہیں ان کی عزت کرتا ہوں۔
عرصہ چھ ماہ کا ہوا کہ وہ اونٹ سے سر کے بل گر پڑے تھے۔ ان کے
سر پر چوٹ آئی تھی جب سے ان کا ذہن کا توازن ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی
بے وجہ ناراض ہو جاتے ہیں اور پھر خود ہی مجھے معاف کر دیتے ہیں۔
غالباً وہ جاورا میں رہنا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ خانگی امور ہیں۔ بہرحال
میں نہیں چاہتا کہ ان کی بہتری میں حائل ہوں۔ مولوی صاحب کا معافی نامہ
ارسال خدمت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔
اگرچہ میں نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ سہواً کوئی بات منہ سے نکل گئی
ہو جسے غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے برا مان لیا ہو تو مجھے علم نہیں۔“
ایم معروف ولایت سے بیرسٹری کی ڈگری لے کر نئے نئے ہندوستان میں آئے تھے اور آتے ہی کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے۔ پھر چند ماہ کے بعد محکمہ میں ڈویژنل انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے واقف نہ تھے اور چونکہ طبعی طور پر کسی کا بُرا نہیں چاہتے تھے، لٰہذا شیخ مسعود کے اس خط سے جو مولوی رحمت اللہ کے دوسرے شکایتی خط کے ساتھ موصول ہوا تھا انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی مولوی صاحب کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ انہوں نے مولوی صاحب کے لیے بے انتہا ہمدردی محسوس کی۔ اپنے ڈپٹیوں کو بلا کر انہیں ساری بات سمجھائی کہ وہ دورے پر جائیں تو کوئی مناسب مقام تلاش کریں جہاں مولوی صاحب کو تبدیل کیا جائے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں بھی ڈپٹی یا معروف جاتے کمال ہمدردی سے کہتے :
“ ہمارے ایک عربی مولوی ہیں جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہیں البتہ ذرا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ان کا۔ اگر آپ انہیں اپنے سکول میں لے لیں تو کیا اچھا ہو۔“
افسران کی اس بے پناہ ہمدردی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب کی دیوانگی پر مہر ثبت ہو گئی اور ڈویژن کے کونے کونے میں مولوی صاحب کے دماغی عارضے کا پرچار ہو گیا۔ ادھر شیخ مسعود نے اسے ہوا دی۔
مولوی صاحب کی بیگم کے کانوں تک بات پہنچی تو اس نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگی۔ “ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ وہ باؤلا ہے کوئی مانتا ہی نہ تھا۔“
یہ بات ان کی بیوی کے حق میں تھی۔ چونکہ وہ مولوی صاحب سے الگ آزادی میں رہنا چاہتی تھی۔ اسے بہانہ مل گیا۔ ایک روز دفعتاً اس نے شور مچا دیا جب مولوی صاحب وظیفہ پڑھنے میں مصروف تھے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اس پر بیگم نے پینتر بدلا۔ “ دہائی خدا کی اب لوگوں کو دکھانے کے لیے جائے نماز پر جا بیٹھا ہے۔“
یہ تو بہرصورت تمہید تھی۔ بیگم نے محلے کے چار بزرگوں کو بٹھا کر کہا کہ میں تو ہرگز اس دیوانے کے ساتھ نہ رہوں گی۔ اور یہ فیصلہ کرا لیا کہ وہ لائلپور رہے اور مولوی صاحب انہیں باقاعدہ خرچ بھیجتے رہیں۔ اس فیصلے کے بعد وہ بچوں کو لے کر چلی گئی اور مولوی صاحب تن تنہا رہ گئے۔
حالات کو یوں بدلتے دیکھ کر مولوی صاحب بھونچکے رہ گئے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بیٹھے بٹھائے چاروں طرف آگ سی کیوں لگ گئی ہے۔ کیوں لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگے ہیں۔ حیرت اور گھبراہٹ سے ان کی شکل و صورت میں دیوانگی کی جھلک پیدا ہو گئی۔
شیخ مسعود واحد آدمی تھا جو حالات کے رخ کو سمجھ رہا تھا۔ مولوی صاحب کا ذکر آ جاتا تو وہ قہقہے لگاتا اور خوش ہوتا جیسے کسان اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹتے وقت خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ شیخ اپنی کارکردگی پر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے اپنی اس صناعی میں مزید بیل بوٹے کاڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس نے اپنے ایک سکھ شاگرد سوبھا سنگھ کو جو سکھوں کے ایک چک میں مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر بن چکا تھا اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ مولوی صاحب کو اپنے سکول میں لے لینے کی پیش کس کر دے اور بعد میں ذرا ان کے مزاج صاف کرنے کا انتظام کرئے۔
انسپکٹر صاحب کو بھلا بات کی حقیقت سمجھنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو صرف نظم و نسق چلانے پر مامور تھے۔ انہوں نے سکھ ہیڈ ماسٹر کے اس اقدام کی تعریف کی اور مولوی رحمت اللہ وہاں تبدیل کر دیئے گئے۔ ہیڈ ماسٹر سوبھا سنگھ کے توسط سے مولانا کو چک میں کوٹھری مل گئی۔ اور وہ وہاں کسمپرسی کے عالم میں جا پڑے۔ سوبھا سنگھ نے پہلے ہی چک میں مشہور کر دیا تھا کہ ان کے دماغ میں کچھ فتور ہے۔
ایک روز مولانا نے جوش اسلام میں آ کر با آواز بلند اذان فرما دی۔ سوبھا سنگھ کا اشارہ تو پہلے ہی موجود تھا۔ لوگ مولوی صاحب پر پل پڑے۔ انہوں نے پیٹ پیٹ کر انہیں ادھ موا کر دیا اور کوٹھری سے ان کا سامان نکال کر باہر پھنکوا دیا۔ سامان کیا تھا۔ ایک بستر، ایک لوٹا، ایک جائے نماز اور ایک تسبیح۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ چک سے دیس نکالا ملنے کے بعد مولوی صاحب نے عالم مجبوری میں علاقے کی اس واحد مسجد میں قیام کیا جو وہاں سے چار میل دور برسرراہ مسافروں کے نماز پڑھنے کے لیے بنائی تھی اور جو چار مربع فٹ اینٹوں کے چبوترے پر مشتمل تھی۔ اس علاقے میں صرف وہی پناہ گاہ انہیں مل سکی۔ انہوں نے اپنا سامان وہاں رکھ دیا اور خود اللہ کی یاد میں بیٹھ گئے۔ پھر ایک روز سوبھا سنگھ کے اشارے پر کوئی ان کا بستر اٹھا کر لے گیا۔ جب وہ سکول سے واپس آئے تو بستر کا کچھ پتہ نہ تھا۔ رات کو سردی کی وجہ سے وہ اکڑ گئے اور اگلے روز سکول میں لڑکے ان کے گرد جمگھٹا کئے انہیں چھیڑ رہے تھے۔
“ پاگل پاگل۔“
پھر معلوم نہیں کہ انہیں کیا ہوا۔ زمین نگل گئی یا آسمان نے ڈھانپ لیا۔