علی پور کا ایلی(891-905)

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحات 891 سے 905 تک

نے اس سے جواب طلبی کی ہے۔ بے چارہ پٹ جائے گا۔“

ایلی کو موقع مل گیا۔ بولا “ ہاں آپ نے واقعی مولوی صاحب سے زیادتی کی تھی۔“

“ تو اب کس طرح اس کا تدارک کریں۔“ شیخ نے اس سے ہنس کر پوچھا۔

“ کریں تو بہتر ہے۔“ ایلی نے کہا۔

“ تو میں معافی مانگ لوں۔“ شیخ چلایا۔

ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

“ ہاں میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرطیکہ وہ کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ میں نے صدق دل سے معاف کر دیا۔“

شیخ کی یہ بات سن کر ایلی کے دل میں پھر سے اس کے لیے احترام پیدا ہو گیا۔

اس کے بعد مسلسل دو روز سارا سٹاف مولوی صاحب کی منتیں کرنے میں لگا رہا کہ شیخ کو معاف کر دیں اور تحریر لکھ کر دیدیں۔ مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ تھے لیکن آخر کار انہوں نے مولوی صاحب کو مجبور کر دیا اور انہوں نے یہ تحریر لکھ دی کہ اگرچہ شیخ کا طرز عمل ناروا تھا تاہم ان کا راضی نامہ ہو گیا ہے اور انہوں نے شیخ کو معاف کر دیا ہے۔

یہ تحریر حاصل کرنے کے بعد شیخ نے سکول بند ہونے پر مولوی صاحب کو اپنے کمرے میں بلا لیا جب کہ سب اساتذہ اور طلبہ جا چکے تھے اور پھر سے انہیں لاتعداد فحش گالیاں دیں اور جان بوجھ کر ایسے سخت کلمات کہے کہ وہ پھر غصے میں آ کر انسپکٹر سے شکایت کریں۔ شیخ کا یہ اقدام سوچے سمجھے پلان کے مطابق تھا۔ بلکہ ایک چپڑاسی کو آگ لگانے کے لیے ان کے گھر بھیجا۔ چپڑاسی نے مولوی صاحب کو بتایا کہ انسپکٹر نے شیخ کی جواب طلبی کی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مولوی صاحب شیخ کے خلاف شکایت کا ایک اور خط لکھیں۔ جب اسے اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ مولوی صاحب نے دوسرا خط لکھ دیا ہے تو شیخ نے انسپکٹر کو اپنی طرف سے خط لکھا جس کا نفسِ مضمون یہ تھا :

“ مولوی رحمت اللہ میرے باپ کی جگہ ہیں ان کی عزت کرتا ہوں۔
عرصہ چھ ماہ کا ہوا کہ وہ اونٹ سے سر کے بل گر پڑے تھے۔ ان کے
سر پر چوٹ آئی تھی جب سے ان کا ذہن کا توازن ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی
بے وجہ ناراض ہو جاتے ہیں اور پھر خود ہی مجھے معاف کر دیتے ہیں۔
غالباً وہ جاورا میں رہنا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ خانگی امور ہیں۔ بہرحال
میں نہیں چاہتا کہ ان کی بہتری میں حائل ہوں۔ مولوی صاحب کا معافی نامہ
ارسال خدمت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔
اگرچہ میں نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ سہواً کوئی بات منہ سے نکل گئی
ہو جسے غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے برا مان لیا ہو تو مجھے علم نہیں۔“

ایم معروف ولایت سے بیرسٹری کی ڈگری لے کر نئے نئے ہندوستان میں آئے تھے اور آتے ہی کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے۔ پھر چند ماہ کے بعد محکمہ میں ڈویژنل انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے واقف نہ تھے اور چونکہ طبعی طور پر کسی کا بُرا نہیں چاہتے تھے، لٰہذا شیخ مسعود کے اس خط سے جو مولوی رحمت اللہ کے دوسرے شکایتی خط کے ساتھ موصول ہوا تھا انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی مولوی صاحب کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ انہوں نے مولوی صاحب کے لیے بے انتہا ہمدردی محسوس کی۔ اپنے ڈپٹیوں کو بلا کر انہیں ساری بات سمجھائی کہ وہ دورے پر جائیں تو کوئی مناسب مقام تلاش کریں جہاں مولوی صاحب کو تبدیل کیا جائے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں بھی ڈپٹی یا معروف جاتے کمال ہمدردی سے کہتے :

“ ہمارے ایک عربی مولوی ہیں جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہیں البتہ ذرا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ان کا۔ اگر آپ انہیں اپنے سکول میں لے لیں تو کیا اچھا ہو۔“

افسران کی اس بے پناہ ہمدردی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب کی دیوانگی پر مہر ثبت ہو گئی اور ڈویژن کے کونے کونے میں مولوی صاحب کے دماغی عارضے کا پرچار ہو گیا۔ ادھر شیخ مسعود نے اسے ہوا دی۔

مولوی صاحب کی بیگم کے کانوں تک بات پہنچی تو اس نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگی۔ “ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ وہ باؤلا ہے کوئی مانتا ہی نہ تھا۔“

یہ بات ان کی بیوی کے حق میں تھی۔ چونکہ وہ مولوی صاحب سے الگ آزادی میں رہنا چاہتی تھی۔ اسے بہانہ مل گیا۔ ایک روز دفعتاً اس نے شور مچا دیا جب مولوی صاحب وظیفہ پڑھنے میں مصروف تھے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اس پر بیگم نے پینتر بدلا۔ “ دہائی خدا کی اب لوگوں کو دکھانے کے لیے جائے نماز پر جا بیٹھا ہے۔“

یہ تو بہرصورت تمہید تھی۔ بیگم نے محلے کے چار بزرگوں کو بٹھا کر کہا کہ میں تو ہرگز اس دیوانے کے ساتھ نہ رہوں گی۔ اور یہ فیصلہ کرا لیا کہ وہ لائلپور رہے اور مولوی صاحب انہیں باقاعدہ خرچ بھیجتے رہیں۔ اس فیصلے کے بعد وہ بچوں کو لے کر چلی گئی اور مولوی صاحب تن تنہا رہ گئے۔

حالات کو یوں بدلتے دیکھ کر مولوی صاحب بھونچکے رہ گئے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بیٹھے بٹھائے چاروں طرف آگ سی کیوں لگ گئی ہے۔ کیوں لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگے ہیں۔ حیرت اور گھبراہٹ سے ان کی شکل و صورت میں دیوانگی کی جھلک پیدا ہو گئی۔

شیخ مسعود واحد آدمی تھا جو حالات کے رخ کو سمجھ رہا تھا۔ مولوی صاحب کا ذکر آ جاتا تو وہ قہقہے لگاتا اور خوش ہوتا جیسے کسان اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹتے وقت خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ شیخ اپنی کارکردگی پر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے اپنی اس صناعی میں مزید بیل بوٹے کاڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس نے اپنے ایک سکھ شاگرد سوبھا سنگھ کو جو سکھوں کے ایک چک میں مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر بن چکا تھا اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ مولوی صاحب کو اپنے سکول میں لے لینے کی پیش کس کر دے اور بعد میں ذرا ان کے مزاج صاف کرنے کا انتظام کرئے۔

انسپکٹر صاحب کو بھلا بات کی حقیقت سمجھنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو صرف نظم و نسق چلانے پر مامور تھے۔ انہوں نے سکھ ہیڈ ماسٹر کے اس اقدام کی تعریف کی اور مولوی رحمت اللہ وہاں تبدیل کر دیئے گئے۔ ہیڈ ماسٹر سوبھا سنگھ کے توسط سے مولانا کو چک میں کوٹھری مل گئی۔ اور وہ وہاں کسمپرسی کے عالم میں جا پڑے۔ سوبھا سنگھ نے پہلے ہی چک میں مشہور کر دیا تھا کہ ان کے دماغ میں کچھ فتور ہے۔

ایک روز مولانا نے جوش اسلام میں آ کر با آواز بلند اذان فرما دی۔ سوبھا سنگھ کا اشارہ تو پہلے ہی موجود تھا۔ لوگ مولوی صاحب پر پل پڑے۔ انہوں نے پیٹ پیٹ کر انہیں ادھ موا کر دیا اور کوٹھری سے ان کا سامان نکال کر باہر پھنکوا دیا۔ سامان کیا تھا۔ ایک بستر، ایک لوٹا، ایک جائے نماز اور ایک تسبیح۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ چک سے دیس نکالا ملنے کے بعد مولوی صاحب نے عالم مجبوری میں علاقے کی اس واحد مسجد میں قیام کیا جو وہاں سے چار میل دور برسرراہ مسافروں کے نماز پڑھنے کے لیے بنائی تھی اور جو چار مربع فٹ اینٹوں کے چبوترے پر مشتمل تھی۔ اس علاقے میں صرف وہی پناہ گاہ انہیں مل سکی۔ انہوں نے اپنا سامان وہاں رکھ دیا اور خود اللہ کی یاد میں بیٹھ گئے۔ پھر ایک روز سوبھا سنگھ کے اشارے پر کوئی ان کا بستر اٹھا کر لے گیا۔ جب وہ سکول سے واپس آئے تو بستر کا کچھ پتہ نہ تھا۔ رات کو سردی کی وجہ سے وہ اکڑ گئے اور اگلے روز سکول میں لڑکے ان کے گرد جمگھٹا کئے انہیں چھیڑ رہے تھے۔

“ پاگل پاگل۔“

پھر معلوم نہیں کہ انہیں کیا ہوا۔ زمین نگل گئی یا آسمان نے ڈھانپ لیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

سازشی

مولوی صاحب کے اس المیہ پر ایلی ششدر رہ گیا۔ ملازمت کی دنیا سے متعلق یہ پہلی جھلک تھی جو اس نے دیکھی تھی۔ ملازمت میں سازش کا پہلا تجربہ تھا۔ آج تک وہ زندگی کو گویا کنارے پر بیٹھ کر دیکھتا رہا تھا۔ اس کے روبرو سنٹرل ماڈل سکول کی ٹیچر کھڑا چھڑی ہلا رہا تھا۔

“ بھول جاؤ۔ جو کچھ تم نے پڑھا ہے سب بھول جاؤ۔ کتابوں کی دنیا کو فراموش کر دو۔“ وہ چھڑی آگے بڑھا رہا تھا۔ “ یہ لو اسے استعمال کرنے میں دریغ کیا تو پٹ جاؤ گے۔“

دوسری طرف شیخ مسعود قہقہ مار کر ہنس رہا تھا۔

“ دیکھا۔ کیسا تماشہ دکھایا تمہیں۔ بیوقوف کہیں کا۔ میری شکایت کرتا ہے۔ میری۔ بکری کا بچہ جنگلی سؤر سے کھیلنا چاہتا ہے۔ بے وقوف دیوانہ۔“

ایک طرف مولوی خود کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ بھیانک ہو رہا تھا۔ آنکھیں کھینچ گئی تھیں۔ ہونٹ سوجے ہوئے تھے۔ “ یا اللہ۔ “ وہ بڑبڑا رہا تھا۔ “ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے؟“

“ یا اللہ۔“ ایلی دانت پیس کر بولا۔ “ یہ تیری دنیا ہے کیا۔“

اللہ تعالٰی کے خلاف اسے ایک اور شکایت پیدا ہو گئی۔ اس زمانے میں وہ اس مشہور شعر کا قائل تھا۔ انسان پر ایک اور ظلم - اللہ تعالٰی کی ایک اور توہین۔

“ سؤر --- سؤر ---- جنگلی سؤر۔“ ایلی کے کانوں میں‌ آوازیں آ رہی تھیں۔ گھر میں اس کے تمام ساتھی غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔“

“ اب ہمارے ہاتھ سے بچ کر نہ جائے۔“ افضل کی ٹانگ ہل رہی تھی۔ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔

“ وہ چال چلو۔“ چودہری مسکرا رہا تھا۔ “ کہ زندگی بھر شیخ کو معلوم نہ ہو کہ کون چال چل گیا۔ بس چاروں شانے چت گرا ہو۔“

اس رات دیر تک ایلی کے مکان پر کانفرنس ہوتی رہی۔ طے پایا کہ فوری اقدام کیا جائے مگر شیخ کو علم نہ ہو کہ وار کدھر سے ہو رہا ہے ورنہ اگر وہ خبردار ہو گیا تو حملہ کرئے گا اور اس میں حملہ کرنے کی عظیم صلاحیت ہے۔ جاورے کے تمام لوگ مل کر بھی اعلانیہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

حملے کی تمامتر تفصیلات کو طے کرنا ایلی کے ذمے کر دیا گیا۔

اس کے بعد ایلی اور افضل کا گھر سازش کے اڈے میں بدل گیا۔ افضل کی آنکھوں میں پھلجھڑیاں چلنے لگیں جیسے بطخ تالاب میں آ پہنچی ہو۔ چودہری کے گال ابھر کر گلابی ہو گئے۔ احمد کے خوابیدہ خدوخال میں ہلکی سی بیداری پیدا ہو گئی۔ شبیر میں خارجی دنیا میں اس حد تک دلچسپی پیدا ہوئی کہ وہ بیوی کو بھول گیا۔ اس مسلسل گھر سے باہر وقت گزارنے لگا۔

ایلی کا مکان چونکہ گلی کی نکڑ پہ واقع تھا اس لیے اسمبلی ہال بن گیا۔ وہاں بحث مباحثے ہونے لگے۔ قرار دادیں پیش ہونے لگیں۔ پلان بننے لگے۔ تفصیلات طے ہونے لگیں۔ ایک روز جب وہ سرگرم بحث تھے تو دروازہ بجا اور شبیر داخل ہوا۔

“ کچھ ہوش بھی ہے۔“ وہ بولا۔

“ اب ہم ہوش و حواس کی دنیا سے نکل آئے ہیں۔“ افضل نے جواب دیا۔

“ بس اب تو ایک دھن سوار ہے۔“ چودہری نے اپنی رندانہ آنکھوں کو گھماتے ہوئے کہا۔

“ اونہوں۔ یہ غلط بات ہے۔“ شبیر بولا۔ “ اگر بات نکل گئی تو سازش دھری کی دھری رہ جائے گی۔ دنگل شروع ہو جائے گا۔“

“ نہ بھئی۔“ جمال بولا۔ “ ہم تو سازش کے قائل ہیں، دنگل کے نہیں۔“

“ دنگل تو ان پڑھ اور غیر مہذب آدمیوں کا کام ہے۔“

“ ہے نا۔“ شبیر نے رازدارانہ طور پر کہا۔ “ تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سازشیوں کا یہ گروہ ابھی خام ہے۔“

اس بات پر افضل بگڑ گیا۔

“ ہماری توہین کرتے ہو؟“ وہ بولا۔ “ ہم جو پیدائشی کیا خاندانی طور پر مانے ہوئے سازشی ہیں۔“

“ تو خاندانی سازشی کو معلوم ہونا چاہیے ابھی آدھ گھنٹہ ہوا۔ آپ کے دروازے پر خود شیخ مسعود کھڑا تھا اور وہ یہاں پورے پانچ منٹ کھڑا رہا۔“

“ ارے۔“ سب کے منہ سے چیخ نکل گئی اور پھر محفل پر سناٹا چھا گیا۔

“ ابھی تو شیخ پر وار نہیں ہوا اور وہ مطمئن ہے اس کے باوجود وہ اس قدر شکی مزاج واقع ہوا ہے کہ فضا کو سونگھنے سے نہیں چوکتا۔ جب وار ہو جائے گا پھر تو وہ ساری ساری رات بستی کے چکر کاٹے گا جیسے مسلمان بادشاہ بھیس بدل کر رعایا کا حال جاننے کے لیے گھوما کرتے تھے۔“

“ بھئی یہ تو ٹھیک ہے۔“ افضل بولا۔

“ اور اس گھر میں جو بات ہوتی ہے وہ آدھی گلی تک سنائی دیتی ہے۔“

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چندہ کر کے ایک پرانا ہارمونیم خریدا گیا۔ چند ایک تاش کی گڈیاں منگوائی گئیں۔ جب بھی بحث کا آغاز ہوتا تو ایک آدمی ہارمونیم بجانے پر تعینات کیا جاتا۔ تاکہ باجے کے شور میں بات سنائی نہ دے اور سازشی ہر وقت تاش کے پتے تھامے رہتے تاکہ کوئی آ جائے تو سمجھے تاش کھیلنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہیں سے ایک پرانا ٹائپ رائٹر حاصل کیا گیا اور شیخ کے خلاف گمنام چٹھیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا۔

ان چٹھیوں کا انداز انوکھا تھا اور ایلی نے التزاماً انہیں ایسی شکل دی کہ وہ عام گمنام چٹھیوں سے ہٹ کر ہوں تا کہ افسرانِ بالا انہیں دلچسپی سے پڑھیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ نہایت مختصر ہوتیں۔ زبان میں دفتری انداز مفقود ہوتا۔ کوشش کی جاتی ان میں مزاح کا رنگ غالب رہے، مظلومیت اور شکایت کا عنصر نہ ہو۔

ڈویژنل انسپکٹر کو روز ایک چٹھی لکھی جاتی جس کا مستقل عنوان جاورا بلیٹن تھا۔ مستقل عنوان کے نیچے ایک ذیلی عنوان ہوتا۔ اس کے نیچے سیریل نمبر اور نیچے نفسِ مضمون۔

مثلاً

فلاں سال میں 1200 روپیہ بہار ریلیف فنڈ اکٹھا کیا گیا۔ چار صد روپیہ سرکاری بنک میں جمع کرایا گیا۔

باقی آٹھ سو روپیہ کیا ہوا؟

باقی آٹھ سو روپیہ کیا ہوا؟
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

الٹا چور

ان انوکھے خطوط کی وجہ سے ڈویژنل دفتر میں ایک شور سا مچ گیا۔ پرانے افسران حیران تھے کہ یہ گمنام خط کیسے ہیں؟ ایسے گمنام خط تو کبھی موصول نہیں ہوئے تھے۔ مسٹر معروف انہیں پڑھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ غالباً انہیں اس بات پر خوشی ہو رہی تھی کہ اپنے ملک میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایسے رنگین قسم کے شکایتی خط لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

شیخ مسعود کو جب علم ہوا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نگل گئی۔ یا اللہ یہ کیسے گمنام خط ہیں؟ اور ان کا جواب کس طرح دیا جا سکتا ہے؟ اور لکھنے والا کون ہے؟ اور یہ انداز اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن شیخ کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس کی آنکھیں گویا خانوں سے باہر نکل آئیں۔ پھر جب اسے معلوم ہوا کہ خطوط کا یہ سلسلہ لامتناہی ہے تو اس پر ایک وحشت اور دیوانگی طاری ہو گئی۔

اس نے ایلی کو اپنے کمرے میں بلایا اور چاروں طرف کے دروازے بند کر کے کہنے لگا۔

“ کیوں بھئی آصفی صاحب۔ آج کل کچھ دور رہتے ہیں۔ کیا وجہ ہے۔ مجھ سے ناراضگی ہے کیا؟“

ایلی نے ایک ساعت کے لیے سوچا کہ اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بہرصورت ایلی طبعی طور پر رسمی رویے کا حامی نہ تھا لٰہذا اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ عام سازشی نہی بنے گا اور یہ نہ کہے گا ------ “ اچھا۔ یہ بات ہے۔“ یا “ آخر بات کیا ہے۔“

“ بالکل۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ میں آپ سے سخت ناراض ہوں اور جان بوجھ کر آپ سے دور دور رہتا ہوں۔

شیخ بھونچکا سا رہ گیا۔ “ کیا وجہ ہے؟“ اس نے کہا۔

“ وجہ آپ کو معلوم ہے۔ “ یہ کہتے ہوئے ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ الٹا چور ہو۔

“ شیخ اور گھبرایا۔ “ مجھے معلوم نہیں۔ میں نہیں سمجھا۔“ وہ بولا۔

“ آپ سمجھتے نہیں جانتے ہیں لیکن کسی سے کہتے نہیں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ اور شیخ کو مزید پریشانی سے بچانے کے لیے اس نے بات کی وضاحت کی۔ “ دیکھئے شیخ صاحب۔ “ وہ بولا۔ “ گزشتہ دو تین روز سے آپ پریشان ہیں۔ آپ کا چہرہ، آپ کی چال ڈھال، آپ کی باتیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کوئی اہم واقعہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے آپ گھبرائے ہوئے ہیں اور سوچ بچار میں پڑے ہیں۔ صرف آپ کی زبان خاموش ہے باقی تمام اعضا چلا چلا کر وہ راز کہہ رہے ہیں لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ وہ راز آپ نے دل میں چھپا رکھا ہے۔“ ایلی ہنسنے لگا۔

شیخ کا رنگ فق ہو گیا۔ اس نے پہلی مرتبہ حیرت سے ایلی کر طرف دیکھا۔ “ کیا واقعی؟“ وہ بولا۔ “ تو کیا آپ اسی لیے مجھ سے ناراض ہیں۔“

“ ناراض اس لیے ہوں۔“ ایلی نے کہا، “ کہ آپ کو مجھ پر اعتماد نیہں اور آپ مجھے بات نہیں بتا رہے۔“

شیخ نے قہقہ لگایا۔

“ اب ہنسیے نہیں شیخ صاحب۔“ ایلی جال میں آ کر بولا۔ “ ایسا راز رکھنے کا فائدہ جس کا آپ کے جسم کا بند بند اعلان کر رہا ہے۔“

“ تو کیا تمہیں معلوم ہے رہ راز؟“

“ اونہوں۔“ ایلی بولا۔ “ مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ آپ کوئی اہم بات چھپا رہے ہیں جسے آپ بہت اہم سمجھتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اسے جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف اسے بتائیے جس پر آپ کو اعتماد ہے۔“

“ اعتماد تو مجھے کسی پر بھی نہیں۔“ شیخ ہنسنے لگا۔

“ تو نہ بتائیے۔ لیکن پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ضبط سے کام لیں اور یہ بھی ظاہر نہ ہونے دیں کہ کوئی چیز اندر ہی اندر آپ کو کھائے جا رہی ہے۔“

شیخ کھسیانہ ہو گیا۔

ایلی ڈرتا تھا کہ کہیں شیخ اسے اس امر میں رازداں نہ بنا لے۔ اس حد تک دوہرا رول ادا کرنے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ بہرحال اس کی باتیں سنکر شیخ اور بھی گھبرا گیا اور ایلی کو شیخ سے دور رہنے کا جواز مل گیا۔

مسلسل ایک ماہ کی جواب طلبیوں پر شیخ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اسے شک تو ہر استاد پر تھا لیکن اسے یہ ثبوت نہ مل سکا کہ کون اس کے خلاف خط لکھ رہا ہے اور شکایت کی نوعیت اس قسم کی تھی کہ ان کا جواب اس سے بن نہ آتا تھا۔ اس کے پرانے ہتھکنڈے سب فیل ہو چکے تھے۔

شاید اسی وجہ سے اس نے ایک نیا طریقہ کار آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر ایک خصوصی سٹاف میٹنگ بلائی اور اساتذہ کو جمع کر کے سب کے سامنے اس نے وہ راز افشا کر دیا۔

“ حضرات۔“ وہ بولا۔ “ یہ میٹنگ میں نے اس لیے منعقد کی ہے کہ میں آپ سے برادرانہ مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ کوئی شخص میرے خلاف مسلسل شکایات لکھ کر بھیج رہا ہے۔ اس معاملے کو چلتے ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جس صاحب کو مجھ سے شکایت ہے اور یہ مہم چلا رہا ہے وہ میرے روبرو آ جائے اور میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کروں گا۔ بلکہ میں اس سے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں اور اس کی جائز شکایات دور کرنے کے لیے کوشش کروں گا۔“

شیخ یہ کہہ کر رک گیا۔ تمام اساتذہ سر جھکائے چپ چاپ بیٹھے رہے۔ دیر تک وہ انہیں نگاہوں سے کریدتا رہا۔

ایلی اٹھ بیٹھا۔

“ میں دو ایک باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“ وہ بولا۔

“ پوچھئے آصفی صاحب۔“

“ یہ بتائیے کہ شکایات کی نوعیت کیا ہے؟“

ایک ساعت کے لیے شیخ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر حسبِ عادت بات ٹالنے کے لیے اس نے کہا۔ “ بس معمولی قسم کی شکایات۔ ادھر ادھر کی۔“

“ لیکن حضور۔“ چودہری کھڑا ہو کر کہنے لگا۔ “ ایسی گمنام شکایات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ کرنے دیجیئے۔ خود ہی تھک کر رک جائے گا۔“

“ آپ کو کسی پر شک ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ شک تو مجھے آصفی صاحب آپ پر بھی ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔

سارا سٹاف قہقہ مار کر ہنس پڑا۔

“ یہ خط۔“ شیخ نے وضاحت کی۔ “ جدید انگریزی میں لکھے جاتے ہیں اور جدید ترین ٹیچر اس سکول میں صرف آپ ہیں۔ اور انسپکٹر صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ ان لوگوں کے نام لکھ بھیجوں جن پر مجھے شک ہے۔“

“ ہاں ہاں ضرور لکھیے میرا نام۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ تو پھر اقبال کرو نا کہ تمہیں مجھ سے شکایات ہیں۔“ شیخ ہنسنے لگا۔

“ ہاں۔ مجھے آپ سے دو شکایات ہیں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ پہلی شکایت یہ کہ آپ نے دو ماہ تک ہم سے یہ بات چھپائے رکھی ورنہ شاید حالات اس حد تک نہ بگڑتے اور دوسرے شکایت یہ کہ آپ ہم سب سے تو مطالبہ کرنے ہیں کہ ہم آپ پر اعتماد کریں لیکن آپ کو ہم سے کسی شخص پر اعتماد نہیں۔“

سارا سٹاف حیرت سے ایلی کی طرف دیکھنے لگا۔

مسٹر معروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عین اسی وقت تار والا ڈاکیہ داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر شیخ از سرِ نو گھبرا گیا۔

“ کیوں؟“ وہ بولا۔ “ کوئی تار ہے کیا میرے واسطے؟“

“ نہیں جی۔“ وہ بولا۔ “ الیاس آصفی کے نام کا ہے۔“ اس نے ایک تار ایلی کر طرف بڑھا دیا۔

ایلی نے تار کھول کر پڑھا۔

“ کیوں خیریت تو ہے؟“ شیخ نے پوچھا۔

“ جی ہاں بالکل۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ والد صاحب نے مجھے خانپور بلایا ہے۔“

“ خیر سے بلایا ہے کیا؟“

“ لکھا ہے مسٹر معروف تم سے ملنا چاہتے ہیں۔“

“ مسٹر معروف تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیوں؟“

“ مجھے نہیں علم۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ وہ والد صاحب کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ شاید میری تعیناتی کی بات ہو کوئی۔“

ایلی خانپور پہنچا تو گھر میں سب لوگ اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کا خیال تھا نہ جانے کتنی اہم بات ہو جس کے لیے مجھے بلایا ہے۔ شاید مسٹر معروف کو شک پڑ گیا ہو کہ وہ جاورا بلیٹن کا ایڈیٹر ہے یا کسی نے بھید کھول دیا ہو۔ ممکن ہے شیخ مسعود نے خود شکایت کی ہو۔ بہرصورت بات اہم تھی لیکن وہاں جا کر اس نے محسوس کیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

“ اچھا ایلی آیا ہے۔“ علی احمد نے اس کی آمد کی خبر سن کر کہا۔ “ بہت اچھا کیا جو آ گئے۔ یہ ایلی تو نصیر کی ماں گویا جاورے کا بن کر رہ گیا۔“

“ معروف صاحب کی کیا بات ہے؟“ ایلی نے دبی زبان سے پوچھا۔

“ بھئی مجھے تو معلوم نہیں۔ تم تو جانتے ہو اپنے ان سے تعلقات ہیں۔ سبھی افسر عزت کرتے ہیں۔ دوستانہ سلوک سمجھ لو۔ یہ ان کی محبت ہے ورنہ ------- خیر خیر تو وہاں چائے پارٹی پر بیٹھے تھے۔ اتفاق سے جاورے کی بات چل پڑی تو میں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا ہمارا ارادہ ہے وہاں جانے کا۔ اپنا لڑکا ہے نا وہاں۔ اس بات پر مسٹر معروف چونکے۔ اچھا تو الیاس وہاں ہے آج کل، ------ اپ ہی نے تو تعیناتی کی تھی، میں نے جواب دیا۔ اس پر وہ بولے۔ “ تو اسے بلا لو دو ایک دن کے لیے اور جب وہ یہاں آئے تو ذرا میری کوٹھی پر بھجوا دینا۔ ہی ہی ہی ہی۔“ علی احمد ہنسنے لگے۔ “ وہ تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ سبھی افست تمہیں جانتے ہیں۔ کبھی بلکہ اکثر باتوں میں تمہارا تذکرہ آ جاتا ہے نا اس لیے۔ دوست جو ہوئے اپنے۔ کیوں نصیر کی ماں۔ تو کیا دیکھ رہی ہے یوں۔ جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو بات کو۔ میں بتاؤں بالکل بیکار ہے۔ سمجھ کا خانہ ہی جو نہ ہو تو پھر کوشش بیکار ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ کیو شمیم۔ کیا یہ غلط ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“

“ اچھا بھئی ایلی آج شام کو تم معروف صاحب سے ضرور مل لینا۔ ان کی کوٹھی سے واقف ہو نا۔ دانیا کی دوکان کے بائیں ہاتھ صدر میں۔ تم شام کو آٹھ بجے پہنچ جانا ورنہ وہ کلب ولب چلے جاتے ہیں۔ بیرے کو بلا کر کہنا میں آصفی صاحب کا بیٹا ہوں۔ وہ مجھے جانتا ہے جب جاؤ بڑی خاطر مدارت کرتا ہے۔ جہلمیہ ہے ناں۔ یہ جہلمیئے بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں اور معروف صاحب کو یاد دلانا کہ تم آصفی صاحب کے بیٹے ہو ورنہ شاید انہیں یاد نہ رہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ یہ نہ ہو کہ تمہیں واپس لوٹا دیں۔ ہی ہی ہی ہی ہاں بھئی تم جیسے ماتحت تو ان کے سینکڑوں ہیں۔ بیچارے ملنے کو ترستے ہیں لیکن رسائی نہیں ہوتی۔ اور تم، تمہیں تو خود تار دے کر بلوایا ہے انہوں نے۔“

“ آصفی صاحب سے دوستانہ جو ہوا۔“ نصیر کی ماں نے طنزاً کہا۔

علی احمد ہنسنے لگے۔

“ لو اب چمگادڑوں نے بھی بات کرنا سیکھ لیا۔ ہی ہی ہی ہی۔ سن رہی ہو شمیم۔ چیونٹیوں کے بھی پر نکل آئے۔ کہتی ہے میں پرندہ ہوں۔ ہی ہی ہی ہی ------ “

مسٹر معروف ایک خوبصورت، رنگین مزاج، خاموش اور نسائیت سے بھرے ہوئے نوجوان تھے۔ وہ عام انسپکٹروں سے قطعی طور پر محتلف تھے اور ان کا انداز بالکل انوکھا تھا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ براہ راست اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ ویسے عام طور پر محکمہ تعلیم کے افسر بتدریج ترقی کرنے کے بعد ڈویژنل انسپکٹر بنا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غالباً وہ پہلے ڈویژنل انسپکٹر تھے جو ولایت سے ڈگری حاصل کر کے آئے تھے۔ پرانے افسروں کا طرزِ عمل تحصیل دار اور پٹواری کے بین بین ہوا کرتا تھا۔ وہ دیکھنے کی بجائے گھورتے، بات کرنے کی بجائے ڈانٹتے اور اساتذہ سے دور رہتے تھے۔ اس کے برعکس معروف نہایت اخلاق سے ملتے، یوں باتیں کرتے جیسے وہ افسر ہی نہیں اور ڈانٹنے کے فن سے تو وہ بالکل ناواقف تھے۔

ایلی معروف سے مل کر حیران رہ گیا۔ معروف نے اسے پاس بٹھا لیا۔ سگریٹ پیش کیا اور پھر یوں باتوں میں مصروف ہو گئے جیسے ایلی کو ٹیبل ٹاک کے لیے بلایا ہوِ

پھر دفعتاً انہوں نے موضوع بدلا اور جاورا کے متعلق پوچھنے لگے۔ کیا وہ اچھی جگہ ہے؟ موسم کیسا ہے؟ لوگ کیسے ہی؟ سکول کیسا ہے؟ آپ کا دل لگ گیا کیا؟

پہلے تو ایلی بے پروائی سے ان کے سوالات کے جواب دیتا رہا پھر دفعتاً اسے خیال آیا کہ شاید جاورا بلیٹن کا بھید پانے کے لیے اس سے حالات پوچھ رہے تھے۔ اس پر ایلی سوچ میں پڑ گیا۔ اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شیخ کے خلاف کوئی بات نہ کرئے گا۔

“ ہاں تو الیاس صاحب۔ آپ کے سکول میں تو پارٹی بندی نہیں ہو گی کوئی؟“ معروف نے پوچھا۔

“ میں نے تو نہیں دیکھی۔“ وہ بولا

“ ہیڈ ماسٹر تو وہاں کے بہت قابل اور کارکن آدمی ہیں۔“

“ جی ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ اور بے حد دلچسپ ہیں۔“

معروف صاحب نے طرح طرح سے ایلی کو بات کرنے پر اکسایا لیکن اس نے انہیں سرسری جواب دے کر ٹال دیا۔

آخر انہوں نے واضح بات کی۔

“ دیکھو الیاس، میں نے تمہیں صرف اس لیے بلایا ہے کہ جاورا سکول میں سخت گڑبڑ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کچھ لوگ ہیڈ ماسٹر کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور چونکہ میرا اصول ہے کہ ایسے سازشیوں کو سخت سزا دیتا ہوں اس لیے تم خاص طور پر خیال رکھو۔ ایسے لوگوں سے مت ملو۔ بلکہ اگر پتہ چلے تو ہمیں بتاؤ کہ وہ کون ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے ایک دوست کا لڑکا ایسے کیس میں الجھے۔ گڈ نائٹ۔“

معروف صاحب نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور ایلی گھر چلا آیا۔

اگلے روز معروف نے غالباً علی احمد سے بات کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا دن وہ اسے نصیحتیں کرتے رہے۔

“ دیکھو نا ایلی۔ ایسے لوگ ملازمت میں کبھی فائدے میں نہیں رہے جو اس قسم کی سازشوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیشہ اپنے افسر سے بنا کر رکھنی چاہیے ------ چاہے دوسروں سے اس کا سلوک کیسا بھی ہو ہمیں اس سے کیا۔ تم ہمیشہ ہیڈ ماسٹر کا ساتھ دینا اور بلکہ اگر تمہارا کوئی جاننے والا اس سازش میں شریک ہو تو اسے بھی خبردار کر دینا۔ اس کا بھلا کر دینا۔ چونکہ معروف صاحب بہت سخت ایکشن لیں گے۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ تمہیں خود بلا کر بات سمجھا دی ہے۔ تم میرے بیٹے ہو اس لیے۔ ورنہ تمہاری کیا حیثیت ہے۔ ایک معمولی ٹیچر۔ ایسے سینکڑوں ٹیچر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کون پوچھتا ہے جی۔ اور ڈگریاں، ان کی قیمت کیا ہے آج کل ------ اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو کیا تمہیں نوکری مل جاتی۔ اجی توبہ کرو۔ کون پوچھتا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ کیوں نصیر کی ماں۔“

گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایلی سوچ رہا تھا کہ مسٹر معروف کا مجھے بلانے سے یہ مقصد تھا کہ جاورا کے حالات سے واقفیت حاصل کرئے۔ اونہوں۔ معروف کو صحیح حالات جاننےکی خواہش نہیں۔ اسے اس بات سے دلچسپی نہیں کہ نظم و نسق کی خرابیوں کو دور کیا جائے۔ انہیں تو صرف یہ فکر دامن گیر ہے کہ کسی جائز یا ناجائز طریقے سے نظم و نسق قائم کیا جائے، قائم رکھا جائے۔ جبھی انہوں نے مجھے بلوایا تھا تا کہ میری معرفت ان لوگوں کو ڈرا دیا جائے کہ ایس سازشوں کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا اور سازشیوں کو انسپکٹر صاحب سخت سزا دینے کے قائل ہیں۔

جاوار پہنچ کر ایلی نے ساری بات کا رنگ ہی بدل دیا۔ سازشیوں کی محفل میں اس نے ایسی باتیں کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مسٹر معروف انصاف کرنے کے قائل تھے لیکن وہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے جو جرات سے شکایت نہیں کر سکتے اور شیخ صاحب کے پاس جا کر اس نے انہیں بتایا کہ معروف آپ کے بڑے مداح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان لوگوں سے سمجھوتا کر لیں جنہیں آپ سے شکایت ہے تاکہ جاورا سکول کی مزید بدنامی نہ ہو۔

اس ملاقات کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ایلی واپس جاورا پہنچا تو جاورا سکول کی سازش اور تقویت پکڑ گئی۔ وہ لوگ جو تفریحاً سازشیوں کا ساتھ دے رہے تھے اس میں نمایاں حصہ لینے لگے۔ بلیٹن کے لیے تازہ مواد دستیاب ہونے لگا۔ اور شیخ مسعود اس کا مقابلہ کرنے کی امید کھو بیٹھے اور انتہائی خطرناک اقدام کو عمل میں لانے کی سوچنے لگے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر، سپیشل پولیس، سی آئی ڈی اور سول پولیس سے خط و کتابت شروع کر دی۔ اپنے پرانے ہتھکنڈوں کے مطابق وہ اس بات کے قائل تھے کہ دشمن پر سخت وار کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے بچاؤ کو کوشش میں لگ جائے اور مزید وار نہ کر سکے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ضدی عورت

پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ایک روز جب وہ سب مل کر ایک نئی سکیم پر بحث کر رہے تھے تو شبیر کا بھانجا جاوہ داخل ہوا۔ اس کی عمر نو سال کی ہو گی۔

“ کیوں کیا بات ہے؟“ شبیر اسے دیکھ کر چلایا۔ “ کیا مجھے بلایا ہے؟“

“ جی نہیں خاں صاحب۔“ وہ بولا۔

“ تو پھر؟“

“ پیغام دیا ہے۔“

“اچھا۔“ شبیر بولا۔ “ تو ٹھہرو میں ابھی سنتا ہوں۔“

“ جی ------ “ جاوہ نے کہا۔ “ انہوں نے کہا ہے کہ سب کے سامنے دینا پیغام، سب کے سامنے۔“

“ اچھا تو دے۔“ افضل چلایا۔

“ جی انہوں نے کہا ہے کہ جا کر کہدو اگر خان صاحب اس گھر میں پھر داخل ہوئے تو میں شیخ کے گھر جا کر ساری بات بتا دوں گی۔“

“ کیا کہا؟“ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

“ جی یہی کہا تھا۔“

“ کس نے کہا تھا؟“ ایلی نے پوچھا۔

“ شبیر کی بیگم نے اور کس نے۔“ افضل بولا۔

“ ویسے ہی رعب ڈالتی ہے اور کیا۔“

“ اونہوں۔“ شبیر بولا۔ “ یہ نہ کہو تم اس سے واقف نہیں۔ وہ کر گزرے گی۔ وہ بڑی ضدی عورت ہے۔“

“ تو پھر نہ آیا کرو یہاں۔“ افضل بولا۔

“ اسے تم سب سے نفرت ہے۔“ شبیر بولا۔ “ وہ اس مکان کو بہت برا سمجھتی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ وہ شیخ کے گھر جا کر اسے صورتِ حال سے مطلع کر دے۔“

“ تو پھر کیا کیا جائے۔“ احمد نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

“ کرنا کیا ہے۔“ چودھری نے کہا۔ “ آخر ایک نہ ایک دن تو بات نکلے گی۔“

شبیر کی بیوی کے رخ کو بدلنا آسان کام نہ تھا۔ اسے راز فاش کرنے سے باز رکھنے کی صرف ایک صورت تھی کہ شبیر کو وہاں آنے سے منع کر دیا جائے۔ لیکن شبیر نے اعلان کر دیا۔ “ میں مجبور ہوں۔ چاہے لاکھ کوشش کروں میں تم سے ملنے سے باز نہ رہ سکوں گا۔“

“ تو پھر اپنی بیوی کا ذمہ لو کہ وہ ایسی واہیات حرکت نہ کرئے گی۔“ افضل نے کہا۔

“ نہ بھائی۔“ وہ بولا۔ “ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔“

اس نئے جھمیلے کی وجہ سے نکڑ والے مکان کا نقشہ ہی بدل گیا۔ وہ سب گہری سوچ میں پڑ گئے۔

شبیر کی بیوی کو ہر اس مکان سے نفرت تھی۔ جس میں کوئی عورت نہیں رہتی تھی۔ اس کے خیال کے مطابق صرف وہی مرد معزز ہو سکتا تھا جس کے گھر ایک اپنی بیاہتا بیوی ہو اور چونکہ افضل اور ایلی کے گھر میں کوئی عورت نہ تھی۔ لٰہذا ساری دینا کے گناہ اس مکان میں ہوتے تھے۔ وہاں تاش کھیلا جاتا تھا۔ واہیات گفتگو ہوتی تھی۔ شراب پی جاتی تھی۔ جوا کھیلا جاتا تھا۔ رنڈیاں آتی تھیں۔

ان حالات میں اس مکان اور اس کے مکینوں کے خیالات کو بدلنا قطعی طور پر ممکن نہ تھا۔

“ بھئی کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔“ افضل بولا۔

“ اچھا۔“ ایلی نے کہا۔ “ میں کوشش کروں گا۔“ لیکن اس کے باوجود اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح کوشش کرئے۔

ساری رات وہ سوچتا رہا۔ پھر دفعتاً اسے دعوت کا خیال آ گیا جو شبیر نے انہیں کھلائی تھی۔
 
Top