علی پور کا ایلی(726-740)

ماوراء

محفلین
ہو گی لیکن آپ تو بڑے معقول آدمی معلوم ہو رہے ہیں۔ اور جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں دولہا میاں ہوں جس کے دم قدم سے یہ رونق ہو رہی ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔
وہ ایک بھرپور جسم کا آدمی تھا۔ پر رعب چہرا کسرتی جسم لیکن اس کے چہرے پر وہ بات نہ تھی جو منصر کی خصوصیت تھی۔
شادی کی وجہ سے سفید منزل میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھمسان کا رن پڑا ہو۔ ہر کوئی مصروف تھا سب بیک وقت بات کر رتے تھے۔ جسے شاید کوئی نہ سنتا تھا۔ اور اس کے علاوہ بھانت بھانت کے لوگ آ جارہے تھے وہ شاید غالباً اس کے رشتے دار تھی۔ ایلی حیران تھا کہ یکدم اتنے رشتے دار کہاں سے آ گئے۔ ایلی کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ مکان کرائے کا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہے۔ لیکن اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ منصر کہاں کے رہنے والے تھے اگر وہ لاہور کے رہنے والے تھے تو پھر گھر میں سبھی لوگ اردو کیوں بولتے تھے اور پھر ان کا لہجہ ایل زبان کا سا تھا اور زبان نہایت مہذب اور شستہ تھی۔
ان حالات میں ظاہر تھا کہ سادی کو دیکھنے یا ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایلی کی خواہش تھی کہ سادی سے ملے اسے یاد دلائے کہ دوپٹہ چھیننے کی شرط جیتنے کی وجہ سے اس کی حیثیت فاتح کی ہے اور جو حکم وہ دے گا سادی کو اسے ماننا پڑے گا۔ سادی نے خود ہی کہا تھا جو مانگو گے ملے گا۔ کئی ایک دن وہ سوچتا رہا کہ کیا مانگوں دوپٹہ تو لے چکا اب قمیض لینے کا فائدہ؟ ایلی نے کئی بار سادی کا دوپٹہ سونگھا تھا لیکن اس میں سادی کے جسم کی بو نہ تھی۔ اس میں سینٹ کی بو آتی تھی۔ حالانکہ وہ کئی ایک بار سادی سے ملا تا لیکن اس نے کبھی سادی کے جسم کو بو محسوس نہ کی تھی۔ شہزاد کے جسم کی بو کو محسوس کر کے نہ جانے ایلی کو کیا ہو جاتا تھا اس کی آنکھیں ابل آتی تھیں۔
نہیں نہیں قمیض مانگنا بے کار ہے تو پھر کیا مانگوں؟ اس نے بہت سوچا تھا کئی ایک دن کے بعد دفعتاً اسے خیال آیا تھا۔ ہاں وہ خوشی سے اچھل پڑا تھا۔ سادی سے کہوں گا کہ مجھ سے ملے اکیلی ملے۔ گھر سے باہر مقبرے یا شالیمار میں اور کم از کم دو گھنٹے میرے ساتھ رہے۔
ہاجری فرحت رابعہ شہزاد اور بیگم کو کوٹھے پر جاتے ہوئے اس نے حسرت سے دیکھا تھا کاش کہ وہ بھی اوپر جا سکتا۔ شاید اماں اسے بلائیں۔ لیکن اتنے رشتہ داروں کی موجودگی میں وہ اسے کس طرح بلا سکتی تھیں۔ اماں کو تو شاید اپنا ہوش بھی نہ تھا چونکہ وہ انتظامات میں مصروف تھیں۔
 

ماوراء

محفلین
727

انھر منصر کو اتنی فرصت نہ تھی کہ ایلی کے پاس بیٹھے اب کی بار وہ بالکل ہی محروم رہا تھا۔
رانا واحد شخص تھا جو مصروف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ اس کی طبعی خصوصی تھی۔ انتظامات میں تو شاید برابر کا حصہ لے رہا تھا لیکن اس کے رویے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے فارغ ہو۔ بے کار ہو۔ جیسے ازل سے ہی اسے کوئی کام نہ ہو۔ دراصل اس کی طبیعت میں گھبراہٹ اور پریشانی کا عنصر نہ تھا لٰہذا وہ کام میں مصروف ہونے کے باوجود مطمئن اور فارغ دکھائی دیتا تھا۔
اماں بھی ان کے ساتھ انتظامات میں مصروف تھا۔ اب کی بار امان نے ایلی کو دیکھ کر وہ پرانا انداز اختیار نہیں کیا تھا بلکہ جیسے اس نے ایلی کو برداشت کر لیا ہو جیسے اس کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد اب اسے ایلی سے کوئی شکایت نہ ہو۔
منتظموں میں وہ معلوم نہیں رومی ٹوپی کو دیکھ کر ایلی ٹھٹھکا “ارے“ وہ چلایا “ان صاحب کو تو میں نے کہیں دیکھا ہے۔“ وہ دیر تک سوچتا رہا۔ پھر اسے یاد آیا۔ آخاہ یہی صاحب تو اس روز پھل کا ٹوکرا لائے تھے۔ اب بھی رومی ٹوپی کا وہی پرسرار انداز تھا جیسے کہیں سے پھل کا ٹوکرا لائے ہوں اور انہیں وہ ٹوکرا نہ جانے کسے دینا ہو۔
منصر کے باقی بھائیوں میں صرف انور ایلی کے لیے باعث دلچسپی تھا۔ اس کی آنکھوں سے بیک وقت شرارت ذہانت اور تبسم کی پھوار سی پڑتی تھی اب تو ایلی کو علم ہو چکا تھا کہ انور ہی نے سر پر دوپٹہ لے کر سفید منزل کے چوبارے سے جمال کو اشارے کیے تھے اور اس طرح ناؤ گھر اور سفید منزل کے باہمی رابطے کا راز فاش ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں سفید منزل کے اوپر زینے میں اینٹوں کے جنگلے بند کر دئیے گئے تھے۔ انور جب بھی ایلی کے قریب آتا تو اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔


شکریہ شکریہ


شادی سے ایک دن پہلے رانا ایلی کے پاس آ بیٹھا۔ کہنے لگا “الیاس صاحب کل برات میں کیا آپ شہ بالا بنیں گے۔“
“شہہ بالا“ ایلی نے رانا کی طرف استفسار بھری نگاہ سے دیکھا۔
“شہہ بالا کا مطلب“ بیسٹ مین ہے۔“ وہ بولا۔
“آپ کا مطلب ہے۔“ ایلی ہنسنے لگا۔ “کہ سہرے لگا کر میرا کارٹون بنایا جائے۔“
 

ماوراء

محفلین
728

نہیں تو رانا نے کہا “ہمارے ہاں نہ سہرے ہوتے ہیں اور نہ گھوڑے پر سواری۔
“تو پھر“ ایلی نے پوچھا۔
“برات سفید منزل سے چلے گی اور موتی محلًہ پر جا کر رکی جائے گی جہاں ہماری ہونے والی بیگم رہتی ہیں۔ برات کے آگے بینڈ باجا ہو گا۔ بینڈ کے پیچھے دولہا اور شہہ بالا ہوں گے اور اس کے پیچھے براتی نہ کوئی یار ہو گا نہ سہرا۔ اور سبھی پیدل ہوں گے۔“
“اچھا ---------- “ الیاس سوچنے لگا۔
“یہ تو آپ کی مرضی پر موقوف ہے کہ شہہ بالا بنیں یا نہ بنیں۔ میں نے بھئی تمھارے بھلے کی کہی ہے اگر تمھیں منظور نہیں تو نہ سہی۔“
“میرے بھلے کی؟“ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں ہاں۔“
“وہ کیسے؟“
“ایک سنہرا موقعہ ہے اگر فائدہ اٹھانا چاہو تو ----------- “ رانا نے شرارت بھری مسکراہٹ سے جملہ مکمل کر دیا۔
“میں نہیں سمجھا۔“ایلی نے کہا۔
“ویسے بات معمولی سی ہے لیکن صاحب ذوق کے لیے بڑی بات ہے۔“ وہ کہنے لگا۔ دیکھو نا راستے میں جتنی کھڑکیاں اور جھروکے ہیں برات گزرے گی تو وہ سب کھلیں گی جو کھڑکی کبھی نہیں کھلی۔ وہ بھی کھل جائے گی اس وقت اور جو کبھی کھڑکی میں نہیں آئی وہ بھی کھڑکی میں آ کھڑی ہو گی اور دولہا اور شہہ بالا کو دیکھے گی رنگ رنگ کی آنکھیں طرح طرح کی نگاہیں دولہا اور شہہ بالا پر مرکوز ہو جائیں گی۔ صرف یہی نہیں۔ ہو کوئی کوشش کرے گی کہ ان کو صرف دیکھے ہی نہیں بلکہ اپنا آپ دکھائے بھی اور وہ جب خود اپنا آپ دکھاتی ہیں تو کیا کیا پوز بنتے ہیں کیا کیا پوز“ رانا ہنسنے لگا “اپنا خوب صورت ترین حصہ دکھاتی ہیں خوب صورت ترین انداز اگر شہہ بالا بن کر ہمارے ساتھ چلو گے تو لاہور کی ساری پدمنیاں اور نہ جانے کون کون تمھاری نگاہوں کے سامنے ایستادہ ہوں گی اور تمھیں اندازہ ہو گا کہ یہاں کیا کیا چیز چھپی پڑی ہے۔ ارے صاحب۔ اف اف “ رانا نے اس ڈرامائی انداز سے جھرجھری لی کہ ایلی کے جسم میں ابھی ایک لہر دوڑ گئی۔
“اگر تم صاحب ذوق ہو تو شاید تمھارے لیے کوئی دروازہ مستقل طور پر کھل جائے اللہ بڑا کارساز ہے
 

ماوراء

محفلین
729

اور اگر ذوق نہیں تو علمی دلچسپی ہی سہی۔ پنڈت کو کاکی کتاب کی تفسیر لکھ سکیں گے آپ۔“
یہ کہہ کر رانا یوں کسی کام میں مصروف ہو گیا جیسے ایلی کے فیصلے سے اسے خاص دلچسپی نہ ہو۔
وہ اپنی ایک مصروفیت سے ایک ساعت کے لیے فارغ ہوتا اور آ کر ایلی سے سرسری طور پوچھتا۔
“کیوں الیاس صاحب کیا فیصلہ کیا فیصلہ کیا آپ نے؟“ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر۔ ادھر ادھر چلا جاتا اور ادھر سے فارغ ہو کر ادھر آتے ہوئے ایلی کو کہنی مار کر پوچھتا۔ “کیا فیصلہ کیا؟“
نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے روز برات کے جلوس میں ایلی رانا کے ساتھ ساتھ شہہ بالا کی حیثیت سے چل رہا تھا۔ اور قدم قدم پر رانا اسے دبی آواز میں کہہ رہا تھا۔ “ ادھر بھئی ادھر دائیں ہاتھ۔
واہ واہ کیا چیز تھی۔ سبحان اللہ۔ تم نے موقعہ کھو دیا۔ ہئے ہئے حد تھی حد تھی۔ ذرا چوکس رہو بھائی ------ “
“بھئی واہ ادھر تو چاند چڑھا ہوا ہے ----- وہی بات ہے وقت تنگ است و کار ہائے بسیار ----- او ہو۔ تم تو بھئی اپنے آپ میں کھوئے ہوئے ہو۔“
الیاس کے روبرو کھڑکیاں کھل رہی تھیں چقیں سرک رہی تھیں انگلیاں بڑھ رہی تھیں سیاہ نشیلی آنکھیں طلوع ہو رہی تھیں۔ تبسم لہرا رہے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سادی چل رہی تھی وہ مسکرائے جا رہی تھی ہنس کر کہہ رہی تھی۔ دیکھ سکتے سکتے ہیں تو دیکھ لیجیئے۔ اور وہ محسوس کر رہا تھا جیسے دیکھنے کی قوت سلب ہو چکی ہو۔ دیکھنے کے باوجود اسے دکھتا نہیں تھا۔ چاروں چرف سادی ہی سادی نظر آ رہی تھی۔ سارے لاہور پو مسلط تھی۔
جب وہ موتی محلے کی گلی میں پہنچے تو سفید بازوؤں لہراتی انگلیوں متبسم چہروں اور شوخ نگاہوں کا گویا ایک طوفان امڈ آیا۔
بینڈ رک گیا۔ جلوس تھم گیا۔ رانا کی نگاہیں پھلجڑیاں چلا رہی تھیں۔ ایلی میں نہ جانے کیوں گھبراہٹ سی پیدا ہوئی جا رہی تھی۔
سامنے کی ایک کھڑکی میں سادی کی جھلک دکھائی دی وہ مسکرا رہی تھی لیکن اس کی مسکراہٹ پھیکی اور بے جان تھی جیسے کوئی کھائی ہوئی ہو سادی تو ایسی نہ تھی۔ ایلی نے کوشش کی کہ وہ جلوس سے نکل کر سامنے کمرے میں جا بیٹھے لیکن رانا نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
 

ماوراء

محفلین
730

“واہ“ وہ بولا “یہی تو نقطہ عروج ہے اور نقطہ عروج کو چھوڑ کر جانا -------------- واہ صاحب“ رانا نے مضبوطی سے اسے پکڑے رکھا اور آنکھوں سے اوپر کی کھڑکیوں کی طرف آتش بازی چھوڑتا رہا۔
“یہاں تو قیامتیں چھپی ہوئی ہیں۔ طوفان ہیں فتنے ہیں۔ رانا مسکراتے ہوئے بولا۔
پھر بینڈ نے سلامی کی آخری سریں فضا میں پھیلا کر باجے ہونٹوں سے الگ کر دئیے اور وہ سحر ٹوٹ گیا۔ اس پر سب کمروں کی طرف بڑھے اور رانا اور ایلی کا ساتھ چھوٹ گیا۔
جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو رانا نے ایک لڑکے کو بھیج کر الیاس کو بلا بھیجا۔ الیاس نے سمجھا کہ شاید رسم کے مطابق اسے دولہا کے پاس بیٹھنا چاہیے اس لیے وہ بادل نخواستہ وہاں چلا گیا اگرچہ مزید نگاہوں پر چڑھنے سے وہ گھبرا رہا تھا۔
“الیاس صاحب“ رانا اس کی طرف جھک کر بولا۔ “شکریہ شکریہ الیاس صاحب“
“کیوں۔“ ایلی نے پوچھا۔
“آج بھئی تم نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔“
“احسان کیا شہ بالا بننے کی بات کر رہے ہیں آپ“ ایلی نے پوچھا۔
“ہاں ہاں۔“
“لیکن اس میں احسان کی کیا بات تھی۔؟!
“تھی“ رانا مسکرایا۔
“آپ تو کہتے تھے الٹا اس میں میرا فائدہ ہے۔“
“اور کیا کہتے بھائی۔“ رانا نے شرارت بھری نظر ایلی پر ڈالی۔
“ میں نہیں سمجھتا۔“ ایلی بوکھلا گیا۔
“بات یہ ہے بھئی کہ تم شہ بالا نہ بنتے تو ظاہر ہے کہ میرے کسی بھائی کو بنا دیا جاتا اور میرے بھائی تم جانتے ہو سبھی خوبصورت ہیں کم از کم مجھ سے زیادہ خوب صورت ہیں۔ اور جب ان میں سے کوئی برات میں میرے ساتھ ساتھ ہوتا۔ اور دیکھنے والے اس دیکھتے تو ظاہر ہے کہ اپنی حیثیت تو ختم ہو جاتی۔ لوگ کہتے “اے ہے دولہا تو بس اللہ کا فضل ہی سمجھ لو۔“
“لیکن تم ساتھ تھے تو اپنی وہ حیثیت پیدا ہوئی جو شاید کبھی نہ ہو سکتی کبھی نہ ہو سکے۔
 

ماوراء

محفلین
731

تمھارے ساتھ ہونے نے مجھے خوب صورت بنا دیا۔ آج وہ دھوم مچی ہے کہ اپنی کہ حد ہے اور یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا۔2 رانا ہنسنے لگا۔
“کال کلوٹا ------ “سادی سامنے کھڑی ہنس رہی تھی۔
“ اور میں سانوری سے کہتی تھی ہے تجھے ایلی میں کیا دکھائی دیا جو تو اس پر ریجھ گئی۔“
شہزاد آنسو بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“تو یہ ہے وہ لڑکا جس کا تم نے انتخاب کیا ہے۔“ موتی محلے کی کھڑکیوں سے آوازیں آ رہی تھیں۔ “یہ؟“ کوئی ہونٹ نکال رہی تھی۔ “ارے“ کسی کی نگاہ میں تحقیر جھلک رہی تھی۔ “توبہ ہے توبہ ہے۔“ ڈھولک سر پیٹ رہی تھی۔


خوفناک موڑ

علی پور واپس جانے کے لیے جب وہ سٹیشن پر پہنچے تو ایلی نے دیکھا کہ بیگم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ بیگم نے تحقیر بھری نگاہ ایلی پر ڈالی اور پھر ہنس کر بولی۔ “تم بھی کیا یاد کرو گے کہ مجھے ساتھ لائے تھے۔“
ایلی اس کی بات سن کر گھبرا گیا۔
“میں نے ان لوگوں پر وہ سکہ بٹھایا ہے کہ یاد کریں گے۔ دھاک جما دی ہے آصفیوں کی۔“ وہ ہنسی۔
ایلی کو معلوم نہ تھا کہ بیگم کا وار چل گیا ہے دراصل اس کے ذہن میں یہ بات آ ہی نہ سکتی تھی کہ بیگم اس نئے تعلق کو توڑنے کی کوشش کرے گی اس کا تو یہ خیال تھا کہ بیگم کی کوشش ہو گی کہ ایلی ان کے سر سے ٹل جائے اور اسے سر سے ٹالنے کا اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا تھا۔ ان سب افراد میں جو برات پر گئے تھے اگر کسی کا مفاد اس تعلق کو توڑنے سے وابستہ تھا تو وہ صرف شہزاد ہو سکتی تھی لیکن بیگم ---------
ایلی کو معلوم نہ تھا کہ بیگم نے موقعہ پا کر سادی کی والدی سے ایسے موقع پر بات کی تھی جب سادی قریب ہی موجود تھی۔ اس نے کہا “ایلی لڑکا تو اچھا خاصہ ہے لیکن یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھتی نہیں بہن میں تو سچ کہوں گی لڑکے کو میری اپنی بیٹی سے محبت ہے۔ اس بات کو سبھی جانتے ہیں۔ توبہ کتنی بدنامی ہے بہن میری بیٹی شادی شدہ ہے یہی جو میرے ساتھ آئی ہے۔ دراصل خون کا اثر نہیں جاتا ایلی کے باپ کو اب تک عورتوں کا شوق ہے چار بیویاں کر چکا ہے۔“
 

ماوراء

محفلین
732

ایلی کو خبر نہ تھی کہ اتنی سی سرسری بات کر کے بیگم نے حالات کا دھارا ہی بدل دیا تھا۔ اس کی زندگی کا رخ ایک ایسے موڑ کی طرف بدل دیا گیا تھا جس طرح بدنامی، رسوائی اور بے عزتی کی مہیب چٹانیں کھڑی تھیں۔
دراصل بیگم کی اپنی زندگی تباہ ہو چکی تھی اور اس کی تباہی کا باعث اس کی اپنی جنسی سرد مہری تھی۔ اسی وجہ سے جنس سے اسے نفرت تھی براہ راست یا بالواسطہ ہر جنسی تعلق کو توڑنے میں در پردہ خوشی محسوس کرتی تھی۔
علی پور واپس جاتے ہوئے بیگم ایک سکندر تھی اور ایلی اور شہزاد شریف اور سادی تباہ و تاراج شدہ ریاستیں تھیں جو اس کے قدموں میں پھیلی ہوئی تھیں اس کا دل فخر سے دھڑک رہا تھا۔ کہ کیا یاد کرو گے کیا یاد کرو گے۔ گاڑی سبک رفتاری سے علی پور کو چلی جا رہی تھی۔
ہاجرہ کے چہرے پر مسکراہٹوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ وہ بار بار اپنی ناک کی طرف دیکھتی اور مسکراتی اور پھر ناک کی طرف دیکھنے لگتی۔ فرحت مسرور تھی لیکن اس کی مسرت میں پریشانی اور فکر کا عنصر نمایاں تھا غالباً وہ سوچ رہی تھی کہ بیگم اور رابعہ خود اپنے دکھ میں گم تھی۔ اسی طرح ایک روز اس کی اپنی شادی ہوئی تھی۔ اس کا خاوند محلے میں سب سے زیادہ خوب صورت اور لائق تھا لیکن ----------- وہ عیسائی ہو چکا تھا اور اب وہیں لاہور میں ایک میم کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا اور رابعہ کی گود میں اس کا اکلوتا بیٹا امی تھا۔جس کے پیدا ہوتے ہی رابعہ کے سہاگ کا سورج غروب ہو چکا تھا اسے گھر میں پیار سے سب ا می کہتے تھے۔ کب امی بڑا ہو گا۔ دولہن بیاہ کر لائے گا اور رابعہ کی زندگی کا اندھیرا دور ہو گا۔ کبھی کبھی رابعہ سر اٹھا کر ہاجرہ کی طرف دیکھتی تو معاً اسے یاد آتا کہ وہ کہاں ہے اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی اور اس کا حسین سرخی سے جھلکتا اور وہ کہتی “ ہے کتنے اچھے لوگ تھے کتنے سادہ اور پیار کرنے والے اور لڑکی توبہ اتنی پیاری ہے کہ خواہ مخواہ اسے اپنانے کو جی چاہتا ہے۔“ شہزاد اس روز مغموم سی تھی اور خلاف معمول سوچ میں کھوئی ہوئی تھی۔
فرحت اسے کہتی۔ “اے آج سوچ میں کیوں پڑ گئی۔“ لیکن شہزاد اس کی بات کا جواب دینا نہ چاہتی تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب شہزاد خاموش بیٹھی تھی جو اب تو خیر وہ بیسیوں دے سکتی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
733

لیکن نہ جانے کیوں وہ خاموش تھی۔ سر اٹھاتی اور کھسیانی مسکراہٹ کے بعد پھر سر جھکا کر سوچنے لگتی۔
دراصل بیگم کا انداز دیکھ کر اسے شک پڑ گیا تھا کہ بیگم کچھ کر کے آئی ہے۔ وہ اپنی ماں کی طبیعت سے واقف تھی وہ سوچ رہی تھی اگر بیگم نے کچھ کہہ دیا اور بات بگڑ گئی تو وہ سب اس پر شک کریں گے۔
ایلی اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا۔ اس نے بڑی شدت سے کوشش کی تھی کہ سادی کو پیغام بھیجے اور آخری روز وہ کامیاب ہو گیا تھا۔ کسی مہمان کا بچہ جو ایلی سے خاصہ مانوس ہو گیا تھا اس کے ہاتھ اس نے یہ پیغام بھیجا تھا۔ یاد ہے تم شرط ہار گئی تھی اور جواب میں سادی جنگلے کے قریب کھڑی ہوئی با آواز بلند چلائی تھی۔ “جاؤ ان سے کہہ دو ہمیں یاد ہے۔ اور ------------------ نہیں اور کچھ نہیں۔“ سادی کی آواز تو وہی تھی۔ لیکن بات کا ناداز بدلا بدلا سا تھا۔ ایلی سوچ رہا تھا نہ جانے کیا بات ہے برات کے دن کھڑکی میں بھی غمگین کھڑی تھی اور اس وقت بھی اس کی آواز میں وہ مسرت نہ تھی جس کے چشمے ابلا کرتے تھے سادی کی ہر بات میں ہر حرکت میں۔
ایلی کو خبر نہ تھی کہ سادی کی اداسی کا راز اس وقت بیگم کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کی صورت میں ظاہر تھا۔ گاڑی کے پہیوں میں گونج رہا تھا “کیا یاد کرو گے کیا یاد کرو گے۔“ دور سبز کھیتوں سے پرے کانگڑے کی سلاخی چٹانیں کھڑی تھیں۔ اور گاڑی ایلی کو اس مہیب اور خطرناک موڑ کی طرف لیے جا رہی تھی جس کی طرف حالات اسے دھکیل رہے تھے بیگم کی وہ فاتحانہ مسکراہٹ بھی تو حالات کا ایک جزو تھی بے حد اہم جزو اور ایلی اس سے بالکل بے خبر تھا وہ سمجھتا تھا کسی نہ کسی صورت وہ منصر کے گھرانے سے منسلک ہو جائے گا اور اس طرح زندگی کا ایک نیا ورق الٹا جائے گا۔


ہی ہی ہی ہی ہی --------------- !


علی پور واپس آ کر ایلی نے دو خط سادی کو لکھے اور غیر از معمولی دونوں سے ایک کا جواب بھی موصول نہ ہوا۔ اس کے باوجود یہ بات اس کے ذہن میں نہ آیہ کہ بیاہ سے متعلقہ مصروفیت کے علاوہ بھی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔ ان دونوں خطوط میں اس نے مطالبہ کیا تھا کہ عہدو پیمان کے مطابق شرط جیتنے کی وجہ سے سادی اسے ملے اور مقبرہ یا شالامار میں چند ایک گھنٹے اس کے ساتھ رہے۔
 

ماوراء

محفلین
734

وہ سمجھتا تھا کہ شاید وہ خط سادی تک نہ پہنچے ہوں شاید اس سہیلی نے جس کی معرفت وہ خط بھیجتا تھا خطوں کا راز فاش کر دیا ہو۔ شاید وہ لوگ کہیں چلے گئے ہوں شاید -------------- اسے کئی ایک خیال آتے لیکن یہ خیال کبھی نہ آیا تھا کہ شاید بیگم نے سادی کو ایلی سے متنفر کر دیا ہو نہ جانے کیوں اسے سادی پر مکمل اعتماد تھا۔ وہ اپنی نسبت شک کر سکتا تھا لیکن سادی ---------- اونہوں جس عظیم کردار کا سادی نے مظاہرہ کیا تھا اس کی وجہ سے ایلی کو کبھی شک نہیں پڑ سکتا تھا کہ کوئی سادی کو ورغلا سکتا ہے۔
پھر سادی کا خط دیکھ کر ایلی حیران رہ گیا۔ مضمون پڑھ کر اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ وہ خط سادی نے لکھا تھا۔ پہلے چند ایک جملے نہایت سنجیدہ اور خشک اناد میں تحریر کیے گئے تھے۔ اس کے نیچے پانچ چھ لائنیں لکھ کر انہیں کاٹ دیا گیا تھا اور اس قدر احتیاط سے ایک ایک لفظ کاٹا گیا تھا کہ یہ اندازہ لگانا ممکن نہ تھا کہ کٹا ہوا حصہ کس بات کے متعلق ہے۔ کٹے ہوئے مضمون تلے تحریر تھا “خیر چھوڑیے اس بات کو۔“
اوپر لکھا تھا۔
مورخہ 4 ماہ حال کو اس بات کا امکان ہو گا کہ میں آپ سے مل سکوں۔ اس روز شام کے تین بجے سے پانچ بجے تک آپ بوڑھے دریا کے پل پر میرا انتظار کریں۔ امید تو ہے کہ میں ضرور آؤں گی لیکن پانچ بجے تک نہ آئی تو سمجھ لیجئے کہ مجبوری کی وجہ سے رکنا پڑا اس صورت میں پھر اطلاع دوں گی۔
ایلی حیران تھا۔ ایسا خط تو سادی نے کبھی نہ لکھا تھا۔ مضمون کا انداز ہی نیا تھا۔ اس کے علاوہ سادی نے تو کبھی اپنے خط کا ایک لفظ بھی نہ کاٹا تھا۔ وہ بت تکلف اور بے تکان لکھا کرتی تھی اور اس کے خطوط اتنے لمبے ہوتے تھے کہ دیکھنے میں اخبار معلوم ہوتے تھے، آخر کیا بات تھی جو اس نے لکھ کر کاٹ دی تھی۔ ایلی دیر تک سوچتا رہا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ پھر شاید‘ اس نے سوچا‘ کہ ملاقات پر ساری بات معلوم ہو جائے گی اس لیے وہ تیاری میں مصروف ہو گیا۔
لاہور جا کر اس نے سوچا کہ شاید اسے دیر تک پل پر انتظار کرنا پڑے اس لیے اس نے اپنے ایک عزیز کا سائیکل مستعار لے لیا اور پل پر جا پہنچا۔
بوڑھے دریا کے پل پر چند منٹ انتظار کے بعد سادی کا تانگا اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔
 

ماوراء

محفلین
735

تانگے میں وہ اکیلی تھی۔
سادی کا چہرہ انبساط کی وجہ سے گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہوا تھا۔ ایلی کو دیکھتے ہی وہ چلانے لگی۔
“ارے آپ تو پہلے ہی سے موجود ہیں اور میں سمجھی میں پہلے پہنچوں گی۔“
پہلے پہنچ جاتی تو یہاں کیا کرتی تم۔“ ایلی نے کہا۔
“انتظار اور کیا۔“
“انتظار کرنے کا بہت شوہے کیا۔“ ایلی بولا۔
“شوق کیا کر رہی ہوں انتظار نہ جانے کب تک کرنا ہو گا۔ اب تو عادت سی ہو گئی ہے۔“
یہ کہتے ہوئے اس نے تانگے والے کو پیسے دئیے اور تانگے سے نیچے اتر آئی۔
“ارے“ ایلی چلایا “تانگا کیوں چھوڑ دیا۔“
“ہائیں“ وہ بولی “مجھے خیال ہی نہیں آیا۔“
“اور بن سوچے ہی کرایہ چکا دیا۔“ایلی نے پوچھا۔
“آپ کو بھی تو یاد نہیں آیا جو چپکے سے کھڑے رہے۔“ وہ ہنسی۔
“میں تو خیر مصروف تھا۔“
“مصروف -----------------“
“ہاں شدت سے۔“
“تو میں بھی مصروف ہی ہوں گی۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“اب کیا کریں گے ہم نہ جانے کب کوئی خالی تانگہ آئے ادھر۔“
سائیکل جو ہے۔“ وہ چلائی۔ “مجھے آگے بٹھا لیجئے۔“
“ہائیں“ ایلی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
اس زمانے میں لاہور میں عورتیں خیمہ نما نقاب کے بغیر دکھائی نہیں دیتی تھیں بے نقاب عورتیں اول تو نظر نہیں آتی تھیں اور آتی بھی تو میمیں اینگلو انڈین یا ہندو عورتیں۔ پردے کے رواج کی پابندی سختی سے کی جاتی تھی اس حد تک کہ نقاب اٹھا کر چلنا بھی معیوب سمجھا جاتا۔
اس دور کے لاہور میں زیادہ تو رونق شہر کی فصیل کے اندر والے علاقوں میں پائی جاتی تھی ٹکسالی اور موتی بازار میں شوقین مزاج لوگ شام کے وقت جمع ہو جاتے چونکہ عورت کی بہار دیکھنا کسی اور جگہ ممکن نہ تھا۔
 

ماوراء

محفلین
736

ویسے تو شہر سے باہر انار کلی میں خاصی رونق ہوتی تھی لیکن وہاں سیر و تفریح یا خرید و فروخت کرنے والے صرف مرد ہوتے تھے۔ عورتوں کے لیے اندرون شہر ڈبی بازار اور اس کے ملحقہ علاقوں میں زیورات اور پارچہ جات کے چند ایک بازار مخصوص تھے۔ انار کلی سے باہر کے علاقے آباد تھے۔ مال روڈ پر سارا دن الو بولتا تھا شام کو چند ایک گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دیتیں یہ علاقے صرف گوروں اینگلو انڈین اور صاحبو کے لیے مخصوص تھے۔
اس زمانے میں کسی لڑکی کو سائیکل پر بٹھا کر چلنا آسان کام نہ تھا۔ سائیکل پر آگے بٹھانے کی بات چھوڑئیے ان دنوں تو اگر کوئی اینگلو انڈین لڑکی سائیکل پر سوار دکھائی دیتی تو لاگ آواز کستے نعرے لگاتے۔
سادی کی بات سن کر ایلی چونکا لیکن سادی ہنس رہی تھی ہنسے جا رہی تھی۔
“بس ڈر گئے؟“ وہ چلائی۔
“لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“میں بتاتی ہوں۔“ وہ بولی۔ “ اور پھر پھدک کر ایلی کی سائیکل کے آگے بیٹھ گئی۔“ دیکھا یوں ہوتا ہے۔ اب آپ چلائیے۔“
“لیکن اگر گر گئی تو؟“
“تو اٹھ بیٹھوں گی اور پھر سے سوار ہو جاؤں گی۔ دونوں اکھٹے ہی گریں گے نا۔“
ایلی حیرت سے سادی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
راہ گیر انہیں دیکھ کر رک گئے تھے۔ ان کے گرد بھیڑ لگی جا رہی تھی۔“ہی ہی ہی ہی ہی“
وہ ہنس رہے تھے لیکن سادی راہ گیروں کی نگاہوں سے گویا بے خبر تھی بے نیاز تھی۔
“چلئے بابو جی میں پہنچا آؤں۔“ ایک تانگے والا رک کر بولا۔
ایلی نے ملتجی نگاہوں سے سادی کی طرف دیکھا۔
“نہیں۔“ سادی نے با رعب آواز سے کہا۔ “ہم سائیکل پر جائیں گے۔“
راہ گیروں نے قہقہ لگایا۔ ہی ہی ہی سڑک گونجنے لگی دور کھڑے پولیس مین نے انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ ایلی گھبرا گیا۔ اس بھیڑ میں خصوصاً سپاہی سے بچنے کے لیے اس کی سائیکل ڈول رہی تھی سادی ایک ساتھ چیخیں مار رہی تھی قہقہے لگا رہی تھی۔ سڑک پر آتے جاتے لوگ ان کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کوئی ہنس رہا تھا۔ “ ہی ہی ہی ہی“ کوئی فقرے کس رہا تھا “بچ کے بابو“ لیکن سائیکل ڈولتی ہوئی چلے جا رہی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
737

ایلی کو اس وقت قطعی طور پر احساس نہیں تھا کہ سادی کا جسم گویا اس کی آغوش میں تھا اس کے بازو سادی کے گرد حمائل تھے۔ سادی کی پیٹھ اس کی چھاتی سے چھو رہی تھی۔ اور سادی سے سینٹ کی ہلکی ہلکی خوشبو آ رہی تھی۔ ایلی کی تمام تر توجہ راہ گیروں پر مرکوز تھی اسے اتنی فرصت نہ تھی کہ سادی کے جسمانی لمس کو محسوس کرے۔ سادی کو بھی یہ احساس نہ تھا کہ اس کا جسم ایلی سے مس ہو رہا ہے۔ اور وہ اس کے آغوش میں بیٹھی ہے۔ اسے صرف اس قرب کا احساس تھا اور وہ اس میں اس حد تک کھوئی ہوئی تھی کہ اسے راہ گیروں کا خیال ہی نہ تھا۔ اسے قطعی طور پر معلوم نہ تھا کہ لوگ ان کی طرف حیرت سے دیکھ رہے ہیں یا تمسخر سے ہنس رہے ہیں۔ وہ محسوس کر رہی تھی جیسے دو بچے ایک انوکھا کھیل کھیل رہے ہوں ایک نئے کھلونے کو آزما رہے ہوں۔ وہ مسرت سے جھلک رہی تھی، چیخ رہی تھی۔ چلا رہی تھی قہقہے لگا رہی تھی۔
ان دنوں وکالت کا فائنل امتحان قریب تھا اور مقبرہ وکالت کے طالب علموں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر جگہ ہر پلاٹ میں ہر بینچ پر ہر پودے تلے طالب علم قانون کی موٹی موتی کتابیں کھولے مطالعے میں مصروف تھے۔ ان کی آنکھیں پڑھ پڑھ کر چندھیائی ہوئی تھیں۔ چہرے بے خوابی کی وجہ سے سوجے سوجے سے دکھائی دے رہے تھے۔ جیبیں فکر کی وجہ سے پر شکن تھیں۔ قانونی نکات پر بحثیں کرتے کرتے ان کی آوازیں بیٹھ چکی تھیں۔
لیکن سادی اور ایلی کو ان کے وجود کا احساس نہ تھا۔ جب وہ باغ میں داخل ہوئے تو ایلی نے غور سے چاروں طرف دیکھا دو چار ایک پلاٹوں میں چند ایک لڑکے دکھائی دیتے۔ ایلی نے اطمینان کا سانس کیا اور سڑک کے جھمیلے سے نکل کر یوں محسوس کیا جیسے باغ صرف سادی اور ایلی کے لیے مخصوص ہو۔ ان چند ایک لڑکوں کا کیا تھا جو دور اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ ایلی کو یہ معلوم نہ ہوا کہ قریب کے پودوں جھاڑیوں اور پھولوں کے تختوں کی اوٹ میں جگہ جگہ استفسار بھری آنکھیں انہیں دیکھ رہی ہیں۔
باغ کے ایک ویران کونے میں پہنچ کر ایلی نے کلیوں سے لدی ہوئی چنبیلی کی جھاڑی کی طرف اشارہ کر کے کیا “یہ تم ہو سادی۔“
سادی نے حسب عادت قہقہ لگایا۔ “کیوں“ وہ بولی “میں کیا جھاڑی ہوں۔“
 

ماوراء

محفلین
738

“چنبیلی پھولوں میں چٹ کپڑی ہے۔“ ایلی نے کہا “اور تم عورتوں میں۔“
لیکن راہ چلتے کا ہاتھ پکڑتی ہے یہ تو۔“ سادی مسکرائی۔
“اور تم پگڑی اچھالتی ہو۔“ایلی نے کہا۔
سادی نے قہقہ لگایا۔ “جبھی آپ ننگے سر رہتے ہیں۔“ وہ خوشی سے تالی بجانے لگی۔
چنبیلی کی جھاڑی میں حرکت ہوئی۔ اور ٹہنیوں سے ایک سر باہر نکل آیا۔ ایک لمبا ککڑی نما چہرہ چار ایک سفید دانت۔
ایلی گھبرا گیا۔
“ارے“ سادی نے قہقہ لگایا “سبحان اللہ“ وہ چلائی “ ذرا کیمرا تو نکالیے“ سر نے غوطہ کھایا اور سبز ٹہنیوں میں گم ہو گیا۔
“کون تھا یہ۔“ ایلی نے گھبرا کر پوچھا۔


لڈو
“کیا معلوم۔“ وہ ہنسے جا رہی تھی۔
“ارے۔“ وہ پھر چلائی۔
ایلی نے مڑ کر دیکھا۔ ان کی پشت کی طرف آنکھوں کے چار جوڑے ان کی طرف گھور رہے تھے۔ “یہ تو نین جھاڑی معلوم ہوتی ہے۔“ وہ ہنسی۔ ایلی نے اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔
“تم مجھے پٹواؤ گی۔“ وہ بولی۔
“کیا مزا رہے گا۔“ وہ ہنسی۔
“تماشہ دیکھتی ہو۔“
“دیکھتی ہوں۔ کرتی نہیں۔“
“لیکن وہ تو تمہیں تماشہ سمجھتے ہیں۔“
“پڑے سمجھیں۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔“
“سادی۔“ ایلی نے سنجیدگی سے پوچھا “تم ان کی نگاہوں سے گھبراتی نہیں۔“
“نہیں تو“ وہ بولی۔ گنوار پن سے کیوں گھبراؤں۔“
 

ماوراء

محفلین
739

“مجھے تو ڈر آتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“آپ کا کیا ہے۔“ وہ ہنسی “آپ تو یوں ہیں جیسے گھبراہٹ میں جان پڑ گئی۔ لیکن ہم سے نہیں گھبراتے آپ۔“
“تو کیا تم سے بھی گھبراؤں۔“
“کیوں نہیں۔“ وہ بولی۔ “گوری چٹی لڑکی کو دیکھ کر لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔“
“اونہوں ان کی بات نہ کیجئے“ “کیوں“ ایلی نے پوچھا۔
“نہیں“ وہ ہنسی “جلنے کی کوئی بات نہیں۔ اخلاق مانع ہے۔“
“وہ کیا ہوتا ہے۔؟“
“وہ بھی ہوتا ہے۔“ سمجھ لیجئے مجھے کوفت ہوتی ہے۔“
“اور ان کی گنوار نگاہوں سے کوفت نہیں ہوتی۔“
“اونہوں۔“ وہ ہنسنے لگتی۔
“یہ تو یوں دیکھتے ہیں جیسے تم لڈو ہو۔“
“ہوں؟“ وہ ہنسی۔
“ہاں۔ ہو“ وہ بولا۔
“تو ہاتھ کیوں نہیں بڑھاتے آپ۔“
“اونہوں مجھے لڈو سے دلچسپی نہیں۔“
“جھوٹ“ وہ چلائی “سفید جھوٹ۔“
“کیوں“ ایلی نے پوچھا “وہ کیسے۔“
“آپ کے منہ سے تو کسی اور لڈو کی بو آتی ہے۔“
“کیا مطلب؟“ وہ بوکھلا گیا۔
“ہر بات کا مطلب نہیں بتایا کرتے۔“
“کیوں؟“
“بس سمجھ لیجئے خود بخود۔“
“بتا تو دو۔“ اس نے منت کی۔
 

ماوراء

محفلین
740

“نہیں بتاؤں گی نہیں بتاؤں گی۔“ وہ بولی۔
“بھاڑ میں جاؤ بھاڑ میں جاؤ۔“ وہ بولا۔
“بھاڑ میں گئے تو کئی دن ہو گئے۔“
“اور جلی نہیں۔“ اس نے پوچھا۔
“ پر بل نہیں گیا۔“ وہ بولی۔
“نہ جانے کیا کہہ رہی ہو۔“
“جاگتے کو کون جگائے۔“
دفعتاً ایلی نے محسوس کیا کہ وہ سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔ لیکن ایلی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ شہزاد کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ اسے یہ بات کیسے سمجھ میں آ سکتی تھی۔ اسے یہ خیال بھی نہیں آ سکتا کہ بیگم ماں ہو کر اپنی بیٹی کے خلاف بات کر سکتی ہے۔ دفعتاً ان کے قریب ہی سے چار ایک آدمی مل کر گانے لگے۔
“ہمیں لڈو کھلاؤ ہمیں لڈو کھلاؤ۔“
“وہ سب مل کر یوں گا رہے تھے جیسے قوال گاتے ہیں۔ ان کی آوازوں میں تمسخر تھا لیکن تمسخر کی حیثیت ایسی تھی جیسے آرزو کے تھال پر حرص کے پستے چھڑکے ہوئے ہوں۔
“ارے“ سادی حسب عادت قہقہہ مار کر بولی۔“ہم تو قوالوں میں آ گئے۔“
ایلی نے ادھر ادھر دیکھا سادی کے پیچھے پودوں کے جھنڈ میں بیٹھے ہوئے پانچ سات لڑکوں کی ٹولی سادی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“الیاس صاحب آپ بھی لگائیے آواز۔“سادی ہنسی۔
ایلی گھبرا گیا۔
“خدا کے لیے نہ بولو۔“ اس نے اشارہ کیا۔
“کیوں نہ بولوں۔“
“چلو یہاں سے چلیں۔“
“ان بزرگوں کے درشن تو کر لوں۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
قوال قریب تر آ گئے۔ “ہمیں لڈو کھلاؤ ہمیں لڈو کھلاؤ۔“
“ارے“ وہ مڑی۔
 
Top