ماوراء
محفلین
ہو گی لیکن آپ تو بڑے معقول آدمی معلوم ہو رہے ہیں۔ اور جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں دولہا میاں ہوں جس کے دم قدم سے یہ رونق ہو رہی ہے۔“ وہ ہنسنے لگا۔
وہ ایک بھرپور جسم کا آدمی تھا۔ پر رعب چہرا کسرتی جسم لیکن اس کے چہرے پر وہ بات نہ تھی جو منصر کی خصوصیت تھی۔
شادی کی وجہ سے سفید منزل میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھمسان کا رن پڑا ہو۔ ہر کوئی مصروف تھا سب بیک وقت بات کر رتے تھے۔ جسے شاید کوئی نہ سنتا تھا۔ اور اس کے علاوہ بھانت بھانت کے لوگ آ جارہے تھے وہ شاید غالباً اس کے رشتے دار تھی۔ ایلی حیران تھا کہ یکدم اتنے رشتے دار کہاں سے آ گئے۔ ایلی کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ مکان کرائے کا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہے۔ لیکن اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ منصر کہاں کے رہنے والے تھے اگر وہ لاہور کے رہنے والے تھے تو پھر گھر میں سبھی لوگ اردو کیوں بولتے تھے اور پھر ان کا لہجہ ایل زبان کا سا تھا اور زبان نہایت مہذب اور شستہ تھی۔
ان حالات میں ظاہر تھا کہ سادی کو دیکھنے یا ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایلی کی خواہش تھی کہ سادی سے ملے اسے یاد دلائے کہ دوپٹہ چھیننے کی شرط جیتنے کی وجہ سے اس کی حیثیت فاتح کی ہے اور جو حکم وہ دے گا سادی کو اسے ماننا پڑے گا۔ سادی نے خود ہی کہا تھا جو مانگو گے ملے گا۔ کئی ایک دن وہ سوچتا رہا کہ کیا مانگوں دوپٹہ تو لے چکا اب قمیض لینے کا فائدہ؟ ایلی نے کئی بار سادی کا دوپٹہ سونگھا تھا لیکن اس میں سادی کے جسم کی بو نہ تھی۔ اس میں سینٹ کی بو آتی تھی۔ حالانکہ وہ کئی ایک بار سادی سے ملا تا لیکن اس نے کبھی سادی کے جسم کو بو محسوس نہ کی تھی۔ شہزاد کے جسم کی بو کو محسوس کر کے نہ جانے ایلی کو کیا ہو جاتا تھا اس کی آنکھیں ابل آتی تھیں۔
نہیں نہیں قمیض مانگنا بے کار ہے تو پھر کیا مانگوں؟ اس نے بہت سوچا تھا کئی ایک دن کے بعد دفعتاً اسے خیال آیا تھا۔ ہاں وہ خوشی سے اچھل پڑا تھا۔ سادی سے کہوں گا کہ مجھ سے ملے اکیلی ملے۔ گھر سے باہر مقبرے یا شالیمار میں اور کم از کم دو گھنٹے میرے ساتھ رہے۔
ہاجری فرحت رابعہ شہزاد اور بیگم کو کوٹھے پر جاتے ہوئے اس نے حسرت سے دیکھا تھا کاش کہ وہ بھی اوپر جا سکتا۔ شاید اماں اسے بلائیں۔ لیکن اتنے رشتہ داروں کی موجودگی میں وہ اسے کس طرح بلا سکتی تھیں۔ اماں کو تو شاید اپنا ہوش بھی نہ تھا چونکہ وہ انتظامات میں مصروف تھیں۔
وہ ایک بھرپور جسم کا آدمی تھا۔ پر رعب چہرا کسرتی جسم لیکن اس کے چہرے پر وہ بات نہ تھی جو منصر کی خصوصیت تھی۔
شادی کی وجہ سے سفید منزل میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھمسان کا رن پڑا ہو۔ ہر کوئی مصروف تھا سب بیک وقت بات کر رتے تھے۔ جسے شاید کوئی نہ سنتا تھا۔ اور اس کے علاوہ بھانت بھانت کے لوگ آ جارہے تھے وہ شاید غالباً اس کے رشتے دار تھی۔ ایلی حیران تھا کہ یکدم اتنے رشتے دار کہاں سے آ گئے۔ ایلی کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ مکان کرائے کا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہے۔ لیکن اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ منصر کہاں کے رہنے والے تھے اگر وہ لاہور کے رہنے والے تھے تو پھر گھر میں سبھی لوگ اردو کیوں بولتے تھے اور پھر ان کا لہجہ ایل زبان کا سا تھا اور زبان نہایت مہذب اور شستہ تھی۔
ان حالات میں ظاہر تھا کہ سادی کو دیکھنے یا ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایلی کی خواہش تھی کہ سادی سے ملے اسے یاد دلائے کہ دوپٹہ چھیننے کی شرط جیتنے کی وجہ سے اس کی حیثیت فاتح کی ہے اور جو حکم وہ دے گا سادی کو اسے ماننا پڑے گا۔ سادی نے خود ہی کہا تھا جو مانگو گے ملے گا۔ کئی ایک دن وہ سوچتا رہا کہ کیا مانگوں دوپٹہ تو لے چکا اب قمیض لینے کا فائدہ؟ ایلی نے کئی بار سادی کا دوپٹہ سونگھا تھا لیکن اس میں سادی کے جسم کی بو نہ تھی۔ اس میں سینٹ کی بو آتی تھی۔ حالانکہ وہ کئی ایک بار سادی سے ملا تا لیکن اس نے کبھی سادی کے جسم کو بو محسوس نہ کی تھی۔ شہزاد کے جسم کی بو کو محسوس کر کے نہ جانے ایلی کو کیا ہو جاتا تھا اس کی آنکھیں ابل آتی تھیں۔
نہیں نہیں قمیض مانگنا بے کار ہے تو پھر کیا مانگوں؟ اس نے بہت سوچا تھا کئی ایک دن کے بعد دفعتاً اسے خیال آیا تھا۔ ہاں وہ خوشی سے اچھل پڑا تھا۔ سادی سے کہوں گا کہ مجھ سے ملے اکیلی ملے۔ گھر سے باہر مقبرے یا شالیمار میں اور کم از کم دو گھنٹے میرے ساتھ رہے۔
ہاجری فرحت رابعہ شہزاد اور بیگم کو کوٹھے پر جاتے ہوئے اس نے حسرت سے دیکھا تھا کاش کہ وہ بھی اوپر جا سکتا۔ شاید اماں اسے بلائیں۔ لیکن اتنے رشتہ داروں کی موجودگی میں وہ اسے کس طرح بلا سکتی تھیں۔ اماں کو تو شاید اپنا ہوش بھی نہ تھا چونکہ وہ انتظامات میں مصروف تھیں۔