شمشاد
لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحات 246 سے 275
صفحات 246 سے 275
بس وہ اس قابل نہ تھا کہ اسے کوئی اہمیت دی جائے۔ اس میں ذہنی چمک تو تھی مگر وہ ڈر اور خوف کے دبیز پردوں میں دم توڑ رہی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود کفیل نہ تھا جیسے کہ شیخ ہمدم تھے۔ جب شیخ ہمدم اسے الیاس صاحب کہتے تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا اور اسے محسوس ہوتا کہ وہ بھی ایک حثیت کا مالک ہے باعزت فرد ہے ایک ایسا شخص جو بالغ العقل ہے۔
ان باتوں کے باوجود ایلی زیادہ تر شیخ ہمدم کے پاس نہیں بیٹھ سکتا تھا کیونکہ جلد ہی اس پر احساسِ کمتری چھا جاتا اور وہ وہاں سے چلے آنے کا کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر لیتا۔ گھر آ کر وہ چارپائی پر لیٹ جاتا اور شریف کی سی آنکھیں بنا کر چھت کو گھورنے لگتا۔ چھت پر ایک سفید سا دھبہ چمکتا اور ایک بھوری لٹ لٹکتی دو سیاہ آنکھیں ڈولتیں۔ بار بار آہیں بھرتا اور پہلو بدلتا اور محسوس کرتا کہ زندگی ایک مسلسل کوفت ہے ایک دکھ بھری کیفیت۔
نتیجہ
ایلی کا نتیجہ نکلا تو وہ فیل تھا۔ اس خبر کو سنکر اسے بہت صدمہ ہوا لیکن اس نے اپنی تعلیمی ناکامی کو ایسی چابکدستی سے ناکامی محبت کی طرف مبذول کر دیا کہ اسے فیل ہونے کا کوئی صدمہ نہ رہا۔ وہ الجھی ہوئی لٹ اور پُر پیچ ہو گئی اور اس سفید دھبے میں دل کے خون کی ہلکی سی سُرخی شامل ہو گئی۔
نتیجہ کے اعلان کے بعد علی احمد کا ایک خط موصول ہوا جس میں ایلی کی مختصر طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ وہ امرتسر جا کر ایڈورڈ روڈ پر روشن لال سے ملے۔ خط میں علی احمد نے یہ نہ لکھا تھا کہ یہ روشن لال کون تھے اور ان سے ایلی کو ملانے کا مقصد کیا تھا۔ ایلی صرف اس حد تک سمجھ سکا تھا کہ روشن لال علی احمد کے دوست تھے اور انہوں نے کسی نجی کام کے لیے اس سے روشن لال سے ملنے کو کہا تھا۔
ایلی کو معلوم نہ تھا کہ روشن لال امرتسر آریہ کالج کے پرنسپل تھے اور علی احمد کا مقصد اس ملاقات سے صرف یہ تھا کہ روشن لال ایلی کو امرتسر آریہ کالج میں داخل ہونے پر رضامند کر لیں اور وہ لاہور میں آوارگی کرنے سے محفوظ ہو جائے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایلی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ وہ امرتسر جائے۔ وہاں ایک سال رہنا تو بڑی خوش نصیبی تھی۔ شاید انہیں بےبی شو کا وہ معمولی واقعہ یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ان کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی تھی۔ اس لیے انہوں نے اسے چنداں اہمیت نہ دی تھی۔ لیکن ایلی کے لیے اب بے بی شو کا وہ دن ایک تاریخی دن تھا ایک ایسا دن جسے وہ کبھی فراموش نہ کر سکتا تھا۔
پرنسپل
روشن لال خوش شکل اور جوان قسم کے آدمی تھے۔ ان کے بشرے سے ذہانت اور بے تکلفی ٹپکتی تھے۔
----- “ ہوں ------ “ وہ بولے “ تو تم علی احمد کے لڑکے ہو۔ جانتے ہو علی احمد میرے دوست ہیں لنگوٹیہ دوست، مگر تم گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ علی احمد کے بیٹے کو گھبرانا زیب نہیں دیتا۔ بیٹھ جاؤ، چائے پیو گے نا۔ اوہ تو تمہیں مجھ سے زیادہ ان سنہری مچھلیوں سے دلچسپی ہے۔“ ایلی کو بلور کے مرتبان میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر وہ ہنسنے لگے۔
“ اچھا تو الیاس یہ بتاؤ کہ جب مرتبان کا پانی گندہ ہو جائے اور مچھلیوں کو تازہ پانی بہم پہنچانا ہو یعنی مرتبان کا پانی بدلنا ہو تو کیا کریں گے؟“
ایلی سوچنے لگا “ ہاں ہاں سوچ لو۔“ وہ مسکرا کر بولے۔ “ مگر کوئی ایسی بات بھی نہیں۔ سائنس پڑھی تھی نا تم نے دسویں میں۔“
ایلی ان کی بے تکلف باتیں حیرانی سے سن رہا تھا۔ اس کا تو خیال تھا کہ روشن لال اسے کوئی ضروری پیغام دیں گے اور بزرگانہ انداز میں کچھ فرمانے کے بعد یہ ملاقات ختم ہو جائے گی۔ مگر وہ تو اس سے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے وہ علی احمد کی بجائے خود ایلی کے دوست ہوں۔
“ اچھا تو الیاس تمہارے مشاغل کیا ہیں؟“ وہ پوچھنے لگے۔ “ سنا ہے فی الحال فیل ہونا تمہارا مشغلہ ہے۔ جب میں تمہاری عمر میں تھا تو میرا بھی یہی شغل تھا۔ کئی ایک سال میں کامیابی سے فیل ہوتا رہا۔“
ایلی حیران تھا کہ انہیں کیا جواب دے۔ وہ بڑے شوق سے ان کی باتیں سن رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ “ اچھا بھئی “ بالاخر وہ بولے “ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو ہم تمہیں اپنے کالج میں داخل کر لیں۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ کیوں۔“
“ آپ کا کالج “ ایلی نے خوشی سے پوچھا۔
“ ہاں ہاں۔“ وہ بولے “ ایک چھوٹا سا کالج ہے اور اسے چلانا میرا ذمہ ہے۔ تم ایسے لڑکے اگر میرے کالج میں داخل ہو جائیں تو بڑا اچھا ہو۔“
“ جی ہاں “ ایلی خوشی سے جھوم گیا۔ ایک تو امرتسر اور پھر روشن لال صاحب اس سے بہتر صورت اور کیا ہو سکتی تھی اور وہ داخل ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔
ہال دروازے میں پہنچ کر دفعتاً اسے خیال آیا کہ وہ یہاں رہتی ہے اس شہر میں۔ ان تانگوں میں بیٹھتی ہو گی۔ اس نے بازار میں چلتے ہوئے تانگوں کی طرف دیکھ کر سوچا۔ ان سڑکوں پر چلتی پھرتی ہو گی۔ کتنی خوش نصیب ہیں یہ سڑکیں، یہ راستے، یہ تانگے، یہ ہوا۔ ایک سفید سا دھبہ اس کی نگاہوں تلے چمکنے لگا اور گھنگھریالی لٹ لہرا لہرا کر اسے بلانے لگی۔ اللہ کرئے ابا روشن لال کی تجویز مان لیں اور میں امرتسر کالج میں داخل ہو جاؤں۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ تجویز تو خود علی احمد کی تھی جسے روشن لال نے اپنی جانب سے پیش کیا تھا تا کہ ایلی کو یہ احساس نہ ہو کہ اسے امرتسر میں داخل ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اور وہ لاہور میں داخل ہونے کا مطالبہ نہ کرئے۔
دس دن کے اندر اندر علی احمد کا خط موصول ہوا جس میں اسے امرتسر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی تھی اور وہ اپنا مختصر سامان اٹھا کر امرتسر آ پہنچا اور آریہ کالج میں داخل ہو گیا اور پرنسپل روشن لال نے اسے بورڈنگ میں داخل ہونے کی خصوصی اجازت حاصل کر دی کیونکہ وہاں مسلمان لڑکوں کو رہنے کی اجازت نہ تھی۔
آم اور سانپ
بورڈنگ شہر سے بہت دور نہر کے کنارے آموں کی کوٹھی میں واقع تھے۔ آموں کی کوٹھی ایک ویران جگہ تھی۔ زرد رنگ کی یہ پرانی عمارت چاروں طرف سے آم کے درختوں میں گھری ہوئی تھی جہاں رات بھر زمین پر سانپ رینگتے اور دن بھر الو بولتا۔ مغرب کی جانب ایک کچھ سڑک تھی جس کے پرے امرودوں کا ایک باغ تھا۔ جنوب کی طرف نہر بہتی تھی اور دونوں طرف ویران زمین تھی۔
کوٹھی سے ایک پختہ سڑک شہر کی طرف نکل گئی تھی۔ سڑک کا یہ ویران ٹکڑا دو فرلانگ لمبا تھا جس کے دونوں طرف اونچے لمبے درخت لگے تھےاور وہ اتنے گنے تھے اور تعداد میں اس قدر زیادہ تھے کہ اچھی خاصی جنگل کی شکل بن گئی تھی۔ سڑک کے اس ویران ٹکڑے سے پرے کمپنی باغ اور ٹھنڈی کھوئی تھی۔
اڑتے پھلکے
بورڈنگ میں تقریباً بارہ تیرہ کمرے تھے جن سے ہٹ کر دو کمرے تھے جو باورچی خانے کے لیے مخصوص تھے جن میں چار ایک غلیظ باورچی اور نوکر ہر وقت کام میں مصروف رہتے تھے۔ کوٹھری کے مشرق میں دو بڑے کمرے بنگالی پروفیسر بیٹر جی کے لیے مخصوص تھے جو بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور اکثر چوری گھر میں مچھلی پکا کر کھایا کرتے تھے کیونکہ بورڈنگ میں گوشت مچھلی اور انڈا پکانا قانونی طور پر منع تھا۔ بورڈنگ کے باورچی خانے میں آلو ساگ بھنے ہوئے ٹنڈے، بینگن کا بھرتہ اور دالیں پکتی تھیں۔ رسوئی کے باہر ایک لمبی میز پڑی تھی۔ یہ میز لڑکوں کا ڈائینگ ہال تھی۔ بندہ باورچی چھوٹے چھوٹے پھلکے پکا کر انہیں باورچی خانے سے پُراسرار رکابیوں کی طرح ہوا میں پھینکتا اور باہر میز پر بیٹھے ہوئے لڑکے انہیں دبوچتے۔
“ بندو پھلگا “ رام لال چلاتا اور بندو ایک زرد زرد سا پھلکا فضا میں چھوڑتا جو رام لال کے ہاتھوں میں آ کر گرتا۔ ایلی بندو کی چستی اور نشانے پر حیران رہ گیا۔ وہ منظر عجیب تھا۔ باورچی خانے کے باہر سفید زمین پر ایک لمبی غلیظ میز پر دس بارہ لڑکے کٹوریاں سامنے رکھے بیٹھے تھے اور بندو کے پھلکے کبوتروں کی طرح ہوا میں اُڑ رہے تھے۔
“ بندو پھلکا “ اور ایک ساعت میں ایک پھلکا پکارنے والے کے ہاتھ میں آ گرتا۔
“ بندو دال “ ایک لڑکا چیختا اور ہنستا ایک کٹوری لے کر بھاگتا۔
ایلی کے لیے کھانے کی میز کا یہ منظر بالکل نیا تھا۔ نیا اور انوکھا۔ لیکن اسے اجازت نہ تھی کہ وہ اس میز پر بیٹھے کیونکہ وہ مسلمان تھا اور مسلمان کے لیے جنرل ٹیبل پر بیٹھنا منع تھا۔ اس کے لیے کچن کے برتنوں کو استعمال کرنا ممنوع تھا۔ خوش قسمتی سے اس سال بورڈنگ میں دو اور مسلمان لڑکے داخل ہو گئے تھے جنہیں خصوصی وجوہ کی بناء پر وہاں رہنے کی اجازت مل گئی تھی اور ان تینوں کا فرض تھا کہ یا تو وہ سب سے پہلے کھانا کھا لیں اور یا سب کے بعد اور یا کمرے میں بیٹھ کر جب جی چاہے کھائیں بشرطیکہ اس وقت کوئی نوکر فارغ ہو جو ان کے لیے کھانا لا سکے۔