علی پور کا ایلی (178 - 185)

ماوراء

محفلین
گنگناتے۔ پھر وہ چپکے سے شہزاد کی سیڑھیاں چڑھ جاتا۔ “چچی کوئی سودا تو نہیں منگوانا“ اور اس کی آنکھوں سے گلابی شرارے پھوٹتے اور ہونٹوں سے اف اف کی آواز پیدا ہوتی۔ جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو اور شہزاد بے نیازی سے اس کی طرف دیکھتی اور “نہیں“ کہہ کر یوں بے پروائی سے کسی کام میں لگ جاتی جیسے پتہ ہی نہ ہو کہ رفیق کو اتنا کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ارجمند انکراینڈی کا تمام تر سامان لے کر چوگان میں کھڑا ہو جاتا اور بہانے بہانے شہزاد کی کھڑکی کی طرف دیکھتا ریشمیں رومال ہاتھوں میں اچھالتا۔ احتیاط سے بنائے ہوئے بالوں کو ریشمیں رومال سے سنبھالتا اور پھر بانسری ہونٹوں تلے رکھ کر سر اٹھا کر یوں اوپر کی طرف دیکھتا جیسے سپیرے کے ٹوکرے سے سانپ نکلنے والا ہو۔
لیکن نہ جانے شہزاد کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ اس نے ارجمند کی حرکات کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ وہ کھڑکی میں آتی ہر راہ چلتی ہوئی محلے والی سے کوئی بات چھیڑ لیتی۔ ہر آتے جاتے سے ہنس ہنس کر بات کرتی مگر اس نے کبھی ارجمند کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ارجمند کی ساری کی ساری انکر اینڈی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ پھر وہ اکتا کر کچی حویلی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ جہاں کپ اسے دیکھ کر چھلکتی اور کیپ یوں پھدکتی جیسے پارے کو آگ دکھاوی گئی ہو۔ کچی حویلی میں پہنچ کر اس کے انکر اینڈی میں از سر نو تاثر ہو جاتا تھا اور پھر چہرے پر رونق آ جاتی۔
احاطے میں ایلی کے کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اول تو اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ ارجمند سے سیکھے ہوئے داؤ کو آزما سکے۔ لیکن کبھی ارجمند کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا تو کچی حویلی یا باہر کنوئیں کے قریب محلے کے احاطے میں کھڑے ہو نا ایلی کے لئے ناممکن تھا اور پھر وہاں شہزاد کے لئے کھڑے ہونا۔
جب سے ایلی نے ریل گاڑی میں اس مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھول کر اس کی طرف جھانکا تھا۔ اس پر شہزاد کا اس قدر رعب پڑ گیا تھا کہ اس کی آواز سن کر نگاہیں جھک جاتیں اور وہ وہاں سے بھاگ لیتا۔ شہزاد کے رو برو جانا تو الگ بات تھی۔
شہزاد کے سامنے ایلی کے شانوں پر منوں بوجھ پڑ جاتا۔ نسوں میں گویا خون جم جاتا۔ دل دھک دھک کرتا۔ جی چاہتا کہ دوڑ کر کسی کونے میں جا بیٹھے اور اپنے آپ کو محفوظ کرے۔ شہزاد تو یوں دکھائی دیتی تھی جیسے کسی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ جیسے وہ ایک ایسی پاکیزہ ہستی ہو جس کی
 

ماوراء

محفلین
179

طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا جرم ہو۔ اس لئے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر مسکراتی ہوئی شہزاد کی طرف حسرت ناک نگاہوں سے دیکھتا اور اس کے قریب تر جانے کی آرزو کو دل میں بسا کر گھنٹوں اس کے قدموں میں بیٹھ رہتا۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آرزو کرنے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔
اسے تو بس شہزاد کے قرب کی آرزو تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سے قریب تر ہو جائے اور اسے دیکھ کر شہزاد کی آنکھوں میں ایسی پھلیجڑیاں چلیں جیسے شریف کو دیکھتے ہوئے چلا کرتی تھیں۔ مگر یہ نا ممکن تھا اور ممکن ہوتا بھی تو لیکن کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے دوست کی بیوی کی آرزو کرے۔ کتنی بری بات تھی۔ کتنی ناجائز۔ اس بات کو بھلانے کے لئے اس نے اپنی توجہ دوسری باتوں کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔
چند ایک دنوں کے ارجمند نے بھی محلے کے چوگان میں کھڑا ہونا موقوف کر دیا۔ “نہ بھئی۔“ وہ چلانے لگا۔ “اپنے بس کی بات نہیں۔ اپنے تو پر جلتے ہیں اور بھئی ایلی بات یہ ہے کہ پکا پکایا کھانا نصیب میں نہیں۔ اپنے نصیب میں تو انتظار کرنا لکھا ہے۔ بس چھ سال کی بات ہے۔ صرف چھ سال۔ پھر کپ کو جھلکتے دیکھنا۔ اف غضب ہو جائے گا اور دوست رام تو ہم پہلے ہی کر لیں گے۔ اگر مناسب وقت پر رام نہ کر لیا جائے بھائی تو یہ بلا قابو میں نہیں آتیں۔ بس حبابوں کی کٹوریوں میں گلاب آیا تو سمجھ لو کہ دنیا ہی بدل گئی۔یوں آنکھیں پھیر لیتی ہیں جیسے جانتی ہی نہ ہوں اور وہ شہزاد۔ ارے وہ تو ظالم بے عزتی کر دیتی ہے بالکل بے عزتی۔ اس روز مجھ سے پوچھنے لگی۔ “کس داؤ پر کھڑا ہے تو ---------- کچھ کامیابی کی بھی امید ہے یا ایسے ہی ظالم نے مجھے کاٹ کر رکھ دیا اللہ بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ہم کسی گنتی میں شمار نہیں اور پھر یوں کاٹ کر رکھ دینا۔ بھئی واہ۔ نہ بھئی اپنے بس کی بات نہیں۔ لیکن تم آزادی سے آ جا سکتے ہو۔ دوست تم مزے میں ہو۔“
ارجمند اور ایلی دونوں اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لئے کپ اور کیپ میں دلچسپی کا اظہار کرنے لگتے۔ ایلی کہتا “چلو وہاں چلیں تمھارے گھر میں ہکوڑی ڈکوری دیکھیں گے۔“ ارجمند مسکرا کر چلاتا “کیوں دوست ابھی سے چوہا گھڑی پر چڑھنے لگا۔“ اور وہ دونوں کھڑکی کی درزوں سے مقابل کے گھر میں جھانکتے۔ سبز جنگلے کا دروازہ کھلتا اور ایلی محسوس کرتا جیسے کسی مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھل گئے ہوں۔ اس کے شانوں پر بوجھ پڑ جاتا۔ بند بند میں دھنکی سی بجنے لگتی اور وہ گھبرا کر کھڑکی سے ہٹ جاتا۔
 

ماوراء

محفلین
180 -181

“ارے کیا ہے تجھے۔“ ارجمند اسے یوں بے توجہی برتتے ہوئے دیکھ کر کہتا “میاں عین موقع پر میدان چھوڑنا مردوں کا کام نہیں۔“
اس پر ایلی لاجواب ہو کر بھاگ آتا اور اپنے چوبارے کے کونے میں بیٹھ کر اپنی کمتری کو شدت سے محسوس کرتا۔ اس کی نگاہوں میں فرار کی رنگین راہیں کھلتیں اور وہ ان میں کھو جاتا۔




٭٭٭


سانوری​


دولت پور

کچھ روز کے بعد دولت پور سے علی احمد کا خط موصول ہوا۔ جس میں ایلی کو ہدایت کی گئی تھی کہ خط کو دیکھتے ہی وہ فوراً دولت پور آ جائے۔ خط پڑھ کر ایلی چونکا اسے ڈر تھا کہیں ابا اسے دولت پور کے کالج میں داخل ہونے پر مجبور نہ کریں۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے پھر سے لاہور کے کسی کالج میں داخل کیا ھائے۔ کیونکہ لاہور میں وہ آزادانہ زندگی بسر کر سکتا تھا۔ لیکن جب سے علی احمد کا تبادلہ دولت پور نہیں ہوا تھا ایلی کو یہ فکر دامن گیر ہو گیا تھا کہ کہیں علی احمد اسے دولت پور کے کالج میں داخل ہونے پر مجبور نہ کریں۔ علی احمد کے مکان سے ایک مرتبہ چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد وہ از سر نو وہاں مقید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ علی احمد کے کمرے سے ڈرتا تھا۔ اسے کشمیر کے سیبوں پر پلی ہوئی ماں کی حنا مالیدہ ہاتھوں سے وحشت ہوتی تھی۔ سب سے بڑھ کر اسے علی احمد کے کمرے سے نفرت تھی۔ جہاں کوئی نہ کوئی کوریا خانم موجود رہتی تھی۔
لیکن علی پور میں رہ کر اپنی زندگی تباہ کرنا بھی تو اسے گراں ہو رہا تھا۔ ایک ان جانی کشمکش اسے چکی کے پاٹوں کی طرح پیس رہی تھی۔ اس لئے اس نے دولت پور جانا منظور کر لیا۔ کیونکہ علی پور سے مخلصی پانے کا یہی ایک واحد طریقہ تھا اور وہ مانگے کے سوٹ کیس میں اپنی چند ایک لودھیانے کی قمیض ڈال کر دولت پور کی طرف چل پڑا۔
دولت پورہ میں علی احمد کے مکان کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ وہ ایک پختہ چوبارہ تھا جو ایک جنگلے دو کمروں اور ایک کمرہ نما صحن پر مشتمل تھا۔
 

ماوراء

محفلین
182

ایلی نے محسوس کیا کہ کہ وہ مکان گھر نہیں تھا بلکہ تمام تر علی احمد کا کمرہ تھا۔ گھر تو بام آباد میں تھا۔ جہاں ایک وسیع و عریض صحن تھا۔ جس کے پہلوؤں میں چار کمرے تھے۔ ایک دوسرے سے دور جہاں علی احمد کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور رہنا ممکن تھا۔ جہاں ایلی ٹین کے سپاہی کے میدان جنگ کی ہما ہمی سے دور رہ سکتا تھا۔ جہاں وہ اپنی انفرادیت کو بحال رکھ سکتا تھا۔ اور پانی کی بوتل بھرنے کے باوجود اپنے ذہن کو اس کمرے کے تاثرات سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ لیکن دولت پور کا گھر تو سب کا سب ایک کمرہ تھا۔ جسے بہت سے حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ جیسے کبوتروں کے رہنے کے لئے ڈربے بنے ہوتے ہیں۔ اگرچہ دیواروں کے پردے کھڑے تھے۔ اس کے باوجود کسی کمرے کی انفرادی حیثیت نہ تھی۔
دولت پور کا چوبارہ دیکھ کر وہ لرز گیا۔ اسے ٹین کے سپاہی اور ربڑ کی چیخنے والی گڑیا کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ نہیں نہیں وہ دولت پور کے کالج میں میں تعلیم نہیں پائے گا۔ کبھی نہیں۔
صحن میں چولہے کے سامنے شمیم بیٹھی تھی۔ کشمیر کا وہ سیب جو پکنے سے پہلے ہی سڑا جا رہا تھا۔ وہ شمیم۔ اس کے گرد کباڑی کی دوکاڑی کی مانند کھانے پینے کی چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ گود کی ننھی بچی کی ناک بہہ رہی تھی۔ قریب ہی بڑی لڑکی حوائج سے فارغ ہونے میں مشغول تھی۔شمیم روٹیاں پکاتے ہوئے ننھی کی ناک پونچھتی۔ بڑی لڑکی کے جسم کو کپڑے سے صاف کرتی اور پھر انہیں ہاتھوں میں آٹے کا پیڑا اٹھا کر روٹی پکانے میں مصروف ہو جاتی۔ ساتھ والے کمرے میں علی احمد میلی سی دھوتی باندھے ایک بڑے سے رجسٹر میں آلو اور پیاز کا حساب لکھنے میں مصروف تھے۔ بغلی کمرے میں چیزیں گڈ مڈ پڑی تھیں۔
ایلی پر ایک گھبراہٹ طاری ہوئی جا رہی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس مکان سے مخلصی پالے۔ اس لئے وہ عقبی کھڑکی میں کھڑا ہو کر پچھواڑے کے مکانات کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ سامنے کوٹھے پر کوئی شخص منتظر نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اس کی نگاہوں میں امید کی کرن واضح تھی۔ اس کے انداز سے بے صبری عیاں تھی۔ چند لمحات کے لئے وہ کوٹھے پر ٹہلتا رہا۔ پردے کے قریب آ کر کھڑا ہو جاتا۔ نگاہیں اس کھڑکی پر مرکوز ہو جاتیں جس میں ایلی کھڑا تھا۔ چند منٹ ایلی وہاں کھڑا رہا پھر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا اور شمیم کی طرف متوجہ ہو گیا۔
شمیم کے رہنے سہنے کا انداز دیکھ کر اسے غصہ آنے لگا کیا میٹریکولیٹ ایسی ہوتی ہیں۔ کیا کشمیر میں پلی ہوئی عورتوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
183

--------------- ایلی کی نظروں میں شمیم کی آنکھوں کا فرق زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا تھا۔ شمیم کے چہرے پر حزن و ملال کے آثار واضح تھے۔ رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ “بیچاری۔“ وہ سوچنے لگا “ اس کی زندگی عام بیویوں سے کس قدر مختلف ہے اسے کیا کیا برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جب چینی کی گڑیا آ کر چیختی ہو گی اور ٹین کا سپاہی میدان کار زار گرم کرتا ہو گا تو شمیم اس بغلی کمرے کی چارپائی پر بیٹھ کر کیا سوچتی ہو گی۔“ اس کے دل میں پہلی مرتبہ شمیم کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی لیکن اس جذبہ ہمدردی میں ترس کا عنصر نمایاں تھا۔
سارا دن ایلی پریشان رہتا۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ صحن میں شمیم کو روٹی پکاتے ہوئے دیکھ کر اس کی طبیعت مالش کرنے لگتی اور وہ دیوار کی طرف منہ موڑ لیتا ----------- کھڑکی سے کور جھانکتی۔ “بابو جی کہاں ہیں۔“ دروازے سے استانی تہہ بند جھاڑتی ہوئی داخل ہوتی۔ ادھر سے خانم مسکراتی۔ وہ زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ بالاخر وہ بغلی کمرے کی کھڑکی سے اس بے قرار نوجوان کو دیکھنے میں کھو جاتا جو نہ جانے کس لئے دن بھر چھت پر بادیہ پیمائی کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ پھر وہ گھبرا کر گھر سے باہر نکل جاتا اور دولت پور کے بازاروں میں بے مصرف گھومتا۔
دولت پور دوسرے شہروں سے کس قدر مختلف تھا۔ بام آباد کی تو اور بات تھی وہ تو شہر تھا ہی نہیں بلکہ محض ایک نو آبادی تھی۔ جہاں غریب لوگ رہتے تھے۔ لیکن دولت پور تو پرانا شہر تھا۔ پھر اس کے بازاروں میں اس قدر ویرانی کیوں تھی۔ اس کی دوکانوں میں وہ بھڑک نہ تھی ھو بڑے شہروں کی دوکانوں میں ہوتی ہے۔
بازاروں میں آتے جاتے لوگ سادہ طبیعت کے تھے۔ ان کے لباس میں دکھاوے کا عنصر نہ تھا۔ ان کی گفتگو میں ایک رجیب قسم کی معصومیت تھی۔ وہ اپنی غربت کا اظہار کرنے سے گھبراتے نہ تھے۔ ایک پیسے کا سودا لینے کی عار نہ سمجھتے تھے۔ دولت پور لاہور سے کس قدر مختلف تھا۔



سلفر اور پٹاخہ


دولت پور کی زندگی کا مرکز پنواڑی کی دوکان تھی جو عوام کے جذبات کی عکاسی کرتی تھی۔ ہر دوکان پر چار ایک نوجوان جمع رہتے جو پان کھاتے۔ ایک دوسرے پر فقرے کستے اور پھر سیٹھ گردداری لال یا مدن لال بھابھڑہ کے تازہ ترین معاشقے پر ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگتے۔ ایلی دور سے ان کی باتیں سنتا اور پھر آگے نکل جاتا اس کے لئے ایسی دوکان پر جانا ممکن نہ تھا۔
 

ماوراء

محفلین
184

جہاں لوگ کا جمگھٹا لگا ہو۔ پان خریدنے کے لئے وہ ایسی دوکان پر جایا کرتا تھا جہاں کوئی گاہک نہ ہو مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا کہ سودا خریدنے کے دوران میں گاہک آ جاتے اور مجمع لگ جاتا ایسے مواقع کی اسے دولت پور کی مجلسی زندگی کے متعلق چند ایک باتوں کا علم ہو گیا تھا۔ مثلاً اسے معلوم تھا کہ سیٹھ گردھاری لال کی حیثیت اب وہ نہیں رہی تھی جو کبھی پہلے تھی اور ان اس نے ساجو سے تعلقات پیدا کر رکھے تھے۔ اور ساجو ان کی یہاں آتی جاتی تھی اور دولت پور میں ایسا کون تھا جو ساجو سے واقف نہ ہو۔ کون نہیں جانتا تھا کہ وہ سلفے کی چلم ہے اگرچہ اب چلم میں راکھ رہ گئی ہے۔ لیکن پھر بھی شوقین اسے چوستے تھے اور اس کا دھندا چلتا تھا۔
اسے یہ معلوم نہ تھا کہ سیٹھ گردھاری لال کون ہے اور ساجو کس کا نام ہے۔اور وہ سلفے کی چلم کیوں ہے۔ وہ تو صرف یہ جانتا تھا کہ ساجو کوئی ہے۔ ہو گی کوئی اور سیٹھ گردھاری لال اسے چوس رہے تھے۔ لیکن اسے اس بات سے کیا تعلق۔
کئی مرتبہ حلوائی بازار کی طرف جاتے ہوئے جب وہ گلی میں سے گزرتا تو اسے خیال آتا کہ شاید یہی مکان ہو سیٹھ گردھاری لال کا۔ شاید یہی شخص جو چلا آ رہا ہے سیٹھ گردھاری لال ہے۔ کیونکہ دولت پور کے سیٹھوں اور عوام میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔ دیکھنے میں وہ ایک سے ہی معلوم ہوتے تھے۔
پھر اسے معلوم ہوا کہ دولت پور میں ایک نیا فتنہ بیدار ہوا ہے۔ جس کی شکل پٹاخہ سی ہے۔ اور جو مست ہاتھی کی طرح چلتی ہے اور شوقین راستے میں کھڑے ہو کر گھنٹوں اس کا انتظار کرتے ہیں۔
اس سلفے کی چلم اور اس نئے فتنے کے باوجود ایلی کو دولت پور میں رہنے سے کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور بلآخر مجبور ہو کر علی احمد سے کہنے لگا “ میں یہاں داخل نہیں ہوں گا۔ میں تو لاہور میں پڑھوں گا۔“ علی احمد نے ایک ساعت کے لئے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پھر بولے۔“ اس وقت اس موضوع پر بات کرنا بیکار ہے اس لئے کہ ہمیں فرصت نہیں ہے کل دفتر آ جانا تو وہاں یہ مسئلہ طے کر لیں گے۔“
 

ماوراء

محفلین
185

داخلہ


دفتر میں علی احمد کی حیثیت افسر کی تھی۔ ان کے لئے ایک علیحدہ کمرہ مخصوص تھا۔ جس میں بیٹھ کر وہ کام کرتے تھے۔ دوسرے دن ایلی اطمینان سے ان کے دفتر جا پہنچا اور بے تکلفی سے اسلام و علیکم کہہ کر کرسی پر بیٹھ گیا جو علی احمد کے میز کی دوسری جانب رکھی تھی۔
“ہوں۔“ علی احمد بولے “ تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“
“جی ہاں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “مجھے لاہور داخل کروا دیجئے کیونکہ لاہور میں ------ “
“ہوں۔“ انہوں نے ایلی کی بات کاٹ کر کہا۔ “ تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے بید کی چھڑی اٹھائی جو پاس دیوار کے سہارے کھڑی تھی۔
“ تو تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے زن سے سوٹی اس کے سر پر دے ماری۔“
“ارے۔“ وہ گھبرا گیا۔ اسے اس سلوک کی توقع نہ تھی۔
“ہوں۔“ علی احمد نے کہا۔ “تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ اور سوٹی کی ایک اور ضرب لگائی۔ ایلی گھبرا گیا۔
“دیکھئے آپ مجھے مجبور نہ کریں۔“ وہ بولا۔
“ہوں تم یہاں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ انہوں نے ایک اور ضرب لگائی۔ “ میں کہتا ہوں آپ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ۔“
زن سے ایک اور ضرب پڑی۔ نہ جانے اس وقت ایلی کو کیا ہوا وہ یہ بھول گیا کہ وہ ایلی ہے اور علی احمد اس کے والد ہیں۔ اس نے ایک جست لگائی اور اس میز پر چڑھ گیا جو باپ اور بیٹھے کے درمیان بچھی ہوئی تھی۔ جھپٹ کر علی احمد کے ہاتھ کی سوٹی کو پکڑ لیا۔ ایک کھولتی ہوئی نگاہ باپ پر ڈالی۔
“تو تم دولت پور کے کالج میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہو۔“ علی احمد نے وہی فقرا پھر دہرایا ایلی نے ایک جھٹکا دے کر بید کی سوٹی علی احمد کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے توڑ موڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ چند سماعت کے لئے وہ علی احمد کے روبرو کھڑا رہا۔ جیسے ان کا حریف ہو اور پھر میز سے اتر کر چپکے سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
دو ایک گھنٹے نہ جانے وہ کہاں گھومتا رہا۔ بھاگ جانے کے خوفناک منصوبے بناتا رہا۔ سوچتا رہا کہ کس طرح وہ سمندری جہاز میں داخل ہو کر چھپ جائے گا اور جب جہاز گہرے سمندر میں
 
Top