ماوراء
محفلین
گنگناتے۔ پھر وہ چپکے سے شہزاد کی سیڑھیاں چڑھ جاتا۔ “چچی کوئی سودا تو نہیں منگوانا“ اور اس کی آنکھوں سے گلابی شرارے پھوٹتے اور ہونٹوں سے اف اف کی آواز پیدا ہوتی۔ جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو اور شہزاد بے نیازی سے اس کی طرف دیکھتی اور “نہیں“ کہہ کر یوں بے پروائی سے کسی کام میں لگ جاتی جیسے پتہ ہی نہ ہو کہ رفیق کو اتنا کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ارجمند انکراینڈی کا تمام تر سامان لے کر چوگان میں کھڑا ہو جاتا اور بہانے بہانے شہزاد کی کھڑکی کی طرف دیکھتا ریشمیں رومال ہاتھوں میں اچھالتا۔ احتیاط سے بنائے ہوئے بالوں کو ریشمیں رومال سے سنبھالتا اور پھر بانسری ہونٹوں تلے رکھ کر سر اٹھا کر یوں اوپر کی طرف دیکھتا جیسے سپیرے کے ٹوکرے سے سانپ نکلنے والا ہو۔
لیکن نہ جانے شہزاد کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ اس نے ارجمند کی حرکات کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ وہ کھڑکی میں آتی ہر راہ چلتی ہوئی محلے والی سے کوئی بات چھیڑ لیتی۔ ہر آتے جاتے سے ہنس ہنس کر بات کرتی مگر اس نے کبھی ارجمند کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ارجمند کی ساری کی ساری انکر اینڈی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ پھر وہ اکتا کر کچی حویلی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ جہاں کپ اسے دیکھ کر چھلکتی اور کیپ یوں پھدکتی جیسے پارے کو آگ دکھاوی گئی ہو۔ کچی حویلی میں پہنچ کر اس کے انکر اینڈی میں از سر نو تاثر ہو جاتا تھا اور پھر چہرے پر رونق آ جاتی۔
احاطے میں ایلی کے کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اول تو اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ ارجمند سے سیکھے ہوئے داؤ کو آزما سکے۔ لیکن کبھی ارجمند کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا تو کچی حویلی یا باہر کنوئیں کے قریب محلے کے احاطے میں کھڑے ہو نا ایلی کے لئے ناممکن تھا اور پھر وہاں شہزاد کے لئے کھڑے ہونا۔
جب سے ایلی نے ریل گاڑی میں اس مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھول کر اس کی طرف جھانکا تھا۔ اس پر شہزاد کا اس قدر رعب پڑ گیا تھا کہ اس کی آواز سن کر نگاہیں جھک جاتیں اور وہ وہاں سے بھاگ لیتا۔ شہزاد کے رو برو جانا تو الگ بات تھی۔
شہزاد کے سامنے ایلی کے شانوں پر منوں بوجھ پڑ جاتا۔ نسوں میں گویا خون جم جاتا۔ دل دھک دھک کرتا۔ جی چاہتا کہ دوڑ کر کسی کونے میں جا بیٹھے اور اپنے آپ کو محفوظ کرے۔ شہزاد تو یوں دکھائی دیتی تھی جیسے کسی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ جیسے وہ ایک ایسی پاکیزہ ہستی ہو جس کی
ارجمند انکراینڈی کا تمام تر سامان لے کر چوگان میں کھڑا ہو جاتا اور بہانے بہانے شہزاد کی کھڑکی کی طرف دیکھتا ریشمیں رومال ہاتھوں میں اچھالتا۔ احتیاط سے بنائے ہوئے بالوں کو ریشمیں رومال سے سنبھالتا اور پھر بانسری ہونٹوں تلے رکھ کر سر اٹھا کر یوں اوپر کی طرف دیکھتا جیسے سپیرے کے ٹوکرے سے سانپ نکلنے والا ہو۔
لیکن نہ جانے شہزاد کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ اس نے ارجمند کی حرکات کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ وہ کھڑکی میں آتی ہر راہ چلتی ہوئی محلے والی سے کوئی بات چھیڑ لیتی۔ ہر آتے جاتے سے ہنس ہنس کر بات کرتی مگر اس نے کبھی ارجمند کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ارجمند کی ساری کی ساری انکر اینڈی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ پھر وہ اکتا کر کچی حویلی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ جہاں کپ اسے دیکھ کر چھلکتی اور کیپ یوں پھدکتی جیسے پارے کو آگ دکھاوی گئی ہو۔ کچی حویلی میں پہنچ کر اس کے انکر اینڈی میں از سر نو تاثر ہو جاتا تھا اور پھر چہرے پر رونق آ جاتی۔
احاطے میں ایلی کے کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اول تو اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ ارجمند سے سیکھے ہوئے داؤ کو آزما سکے۔ لیکن کبھی ارجمند کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا تو کچی حویلی یا باہر کنوئیں کے قریب محلے کے احاطے میں کھڑے ہو نا ایلی کے لئے ناممکن تھا اور پھر وہاں شہزاد کے لئے کھڑے ہونا۔
جب سے ایلی نے ریل گاڑی میں اس مونگیا گٹھڑی کے پٹ کھول کر اس کی طرف جھانکا تھا۔ اس پر شہزاد کا اس قدر رعب پڑ گیا تھا کہ اس کی آواز سن کر نگاہیں جھک جاتیں اور وہ وہاں سے بھاگ لیتا۔ شہزاد کے رو برو جانا تو الگ بات تھی۔
شہزاد کے سامنے ایلی کے شانوں پر منوں بوجھ پڑ جاتا۔ نسوں میں گویا خون جم جاتا۔ دل دھک دھک کرتا۔ جی چاہتا کہ دوڑ کر کسی کونے میں جا بیٹھے اور اپنے آپ کو محفوظ کرے۔ شہزاد تو یوں دکھائی دیتی تھی جیسے کسی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ جیسے وہ ایک ایسی پاکیزہ ہستی ہو جس کی