علی پور کا ایلی ۔(1244-1247 )

حجاب

محفلین
[align=right:4f209eb729]مگر ان کی جنسی فطرت ایسی خوبی سے سامنے آجاتی ہے کہ جس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔مفتی صاحب نے جس تفصیل سے اور جتنی جزئیات کے ساتھ ان کے حالات بیان کیئے ہیں وہ کردار نگاری کے لیئے بڑے ضروری ہیں۔خاص طور سے مزاحیہ کردار نگاری کے لیئے شیکسپیئر نے فالسٹاف کو پورے طور پر جمانے کے لیئے ایک نہیں تین تین ڈرامے لکھے ۔ڈکنس نے پکوک کو پر اثر بنانے کے لیئے ہزار صفحے کے قریب کالے کیئے۔ہمارے یہاں سرشار کا خوجی بھی اب تک اردو کا سب سے زیادہ مزاحیہ کردار اسی وجہ سے ہے کہ وہ ہزارو صفحوں پر بار بار آتا ہے ۔علی احمد خوجی سے تو کم ہی جگہ گھیرتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ پہلودار اور واقعاتی ہیں ۔وہ اپنے ماحول کے عظیم مضحک نمائندہ ہیں اور آفاقی مزاح کے بھی نمائندہ ہوجاتے ہیں۔اگر ہم یہ کہیں کہ اردو ناول نگاری میں اُن سے بہتر مزاحیہ کردار اب تک نہیں پیش ہوا تو غلط نہ ہوگا۔
" علی پور کا ایلی ۔“ کا کردار نگاری میں دوسرا اہم شاہکار شہزاد ہے ۔یہ حسن جوانی اور زندہ دلی کی صورت ہے اور حسین عورت کی بیباکی اس میں عجیب و غریب کرشمہ دکھاتی ہے ۔اس کا سب میں پہلے ذکر شریف سے اس کی شادی کے سلسلے میں آتا ہے۔اس نے شریف پر تھیلی میں بند مینڈک پھینکا شریف بیان کرتا ہے ۔
واقعی وہ شہزادی ہے ۔اسم بامسمٰی ہے ۔مجھے چھپ چھپ کر دیکھنے کے بعد ایک روز وہ مکان کی دہلیز سے باہر آگئی اور میرے رو برو اُس نے ایک مینڈک کے ذریعے اظہارِ محبت کردیا ۔
اس نے مینڈک کو ایک تھیلی میں ہی رکھا تھا اور جب میں سو رہا تھا تو وہ تھیلی میرے منہ پر پھینک دی اور میں ڈر کر اُٹھ بیٹھا اور وہ ہنسنے لگی ۔
اور پھر ایلی کی نگاہوں تلے ایک شوخ حسینہ آ کھڑی ہوئی اور پھر شادی میں رخصتی کے بعد ریل کے ڈبّے میں ایک مونگیا گٹھڑی اُسے دکھائی دیتی ہے ۔
مونگیا گٹھڑی میں جنبش ہوئی دو سفید خون میں بھیگے ہوئے ہاتھ ایلی کی طرف لپکے تازہ خون کی بو کا ایک ریلا آیا ۔ایلی بھاگنے کی سوچ رہا تھا کہ گٹھڑی کے پٹ کُھل گئے دو گلابی جھیلیں جن میں سیاہ گلاب ابھر رہے تھے۔مخملی بیر بہوٹیاں رینگ رہی تھیں ۔اور بالاآخر ایک چمکدار تبسّم اور ایلی یوں کھڑا تھا جیسے پتھر کا بن چکا ہو ڈبّے کے دوسرے لوگ جھلملا کر معدوم ہو چکے تھے۔
شہزاد کی کردار نگاری اس کے دوسرے لوگوں پر تاثر کے ذریعے ہوتی ہے۔آصفی محلّہ میں آتے ہی وہ ہر شخص کے لیئے حسن و ناز کا عجیب کرشمہ ہوجاتی ہے ۔مگر ایلی اُس سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے ۔جسے اُس کے حسن کی ہر ہر ادا رومانیت کا مظاہرہ نظر آتی ہے ۔اُس کی چال چھم سے آجانا۔اُس کا دوپٹہ اوڑھنے کا انداز اس کے ماتھے کے بل ۔اس کے گورے گورے کھلے بازو ۔اس کے چھوٹے چھوٹے سنگِ مرمر کے پیر ۔اس کا لگاؤ ،اس کی بے نیازی ۔وہ چیز جسے محلے والے بے شرمی کہتے ہیں۔
اور اُس کی بے پناہ ذہانت جس کی بنا پر وہ سب کے باوجود ایلی سے شوخی کرنے کا بہانہ نکال لیتی ہے بار بار بیان ہوتا ہے اور یہ سب ایک سچے عاشق کہ نقطہء نظر سے جس کی بنا پر اس میں حد درجہ کا حسن ٹپکنے لگتا ہے ۔مفتی صاحب شہزاد کو دنیا کی حسین ترین چیز کی طرح پیش کردیتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایلی کہ تاثرات ہی کی ترجمانی نہیں کررہے ہیں بلکہ شہزاد سے انہیں خود ویسا ہی دلی تعلق ہے۔جیسے ایلی کو تھا۔
وہ ساری ناول ان کے تجربہ کی چیز ہے ہی مگر اس تمام تجربہ میں جس چیز نے ان کے دل کو سب سے زیادہ چھوا ہے اور جس چیز نے ان کے تخیل کو سب سے زیادہ روشن کیا ہے وہ شہزاد یا شہزاد کی طرح کی کوئی محبوبہ ہے۔ایلی کے شہزاد سے بڑھتے ہوئے تعلقات کی نفسیاتی تحلیل اس طرح ہوتی ہے کہ قاری کو وہ اپنا خود کا حال معلوم ہونے لگتا ہے۔یہی کردار نگاری کا کمال ہے اور ان تمام معاملات میں حد سے زیادہ واقعیت کے ساتھ جو رومانی پیچیدگی تعجب پیدا کرتی رہتی ہے اس کے انکشاف میں مفتی صاحب کردار نگاری کے اعلیٰ ترین وجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔کتاب کے وہ مقامات جن میں شہزاد چھم سے آجاتی ہے عجیب طرح روشن اور دلکش ہوجاتے ہیں ۔ان کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔اور تکرار کے باوجود ان کا لطف کم نہیں ہوتا۔
شریف کی اجازت سے پہلے پہلے ایلی کو چائے پر بلانے آنا۔پھر اکیلے میں ایلی سے بےباکانہ ملنا۔مختلف ملاقاتوں میں ایک وقت اتنا قریب اور اس وقت اتنا دور ہوجانا عجیب کرشمہء قدرت کی طرح آنکھوں کے سامنے پھرتا رہتا ہے۔ایلی کے عشق میں جسمانی محبت کو دخل نہیں ہے ۔ایسی محبت سے اسے اپنے باپ کے معاشقوں کی وجہ سے نفرت ہوچکی ہے ۔اور قاری بھی شہزاد کے جسمانی حسین تاثرات کے باوجود اسے آسمانی چیز ہی کی طرح چاہنے لگتا ہے۔وہ اسے قبول بھی کرتی ہے مگر ٹالتی بھی ہے،وہ اسے ستاتی بھی رہتی ہے اس کے گالوں کو سہلاتی ہے ۔اس کے چٹکی بھی لے لیتی ہے۔مگر وہ شادی شدہ عورت ہے اور اپنے کو پسپا نہیں ہونے دیتی ۔ناول کا وہ سین جس میں ایلی بند بیٹھک میں چھپا بیٹھا ہے اور یہ انتظار کر رہا ہے ،شہزاد وہاں آئے تو اُس پر حملہ آور ہو شہزاد کو پورے طور پر سامنے لے کے آنے کا کمال ہے ۔
دروازہ کھلا شہزاد اندر داخل ہوئی ۔
ایلی بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے نکلا اور لپک کر اندر سے کنڈی لگا دی ۔شہزاد نے ڈر کر ایک ہلکی سی چیخ ماری۔
کنڈی لگانے کے بعد وہ شہزاد کے روبرو کھڑا ہوگیا ۔
ایک ساعت کے لیئے وہ گھبرا گئی مگر اسے پہچان کر مطمئن ہوکر بولی ۔تم یہاں ۔“ ایلی کی خاموشی اور اس کے وحشت بھرے انداز کو دیکھ کر وہ ازسرِ نو گھبرا گئی ۔یہ سب کیا ہے ؟“ وہ بولی ۔تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟“
ایلی جواب دیئے بغیر اس کی طرف بڑھا۔
پاگل ہو گئے ہو کیا۔“ وہ زیرِ لب چلائی ۔
وہ سمجھتی تھی کہ ایلی اس پر حملہ کرنے والا ہے ۔اسے معلوم نہ تھا کہ دراصل وہ اپنی شدید کمتری کی خفت مٹانے کی ناکام کوشش کررہا ہے اور اپنا اصلی روپ چھپانے کے لیئے اس نے شیر کی کھال پہننے کی مضحکہ خیز کوشش کی ہے ۔
خدا کے لیئے ۔“ وہ چلائی ۔ہٹ جاؤ ۔یہ کیا دیوانگی ہے ۔“
وہ چپ چاپ آگے بڑھتا گیا ۔
ضرور تم پاگل ہو گئے ہو۔“ وہ بولی ۔تم اپنے حواس میں نہیں ہو ۔“
ہاں ۔“ ------------- ایلی نے بھیانک آواز میں جواب دیا ۔ نہیں ہوں ۔“
ایلی کوئی سُن لے گا۔ دیکھ لے گا ۔پاگل نہ بنو ۔وہ چلائی ۔پاگل نہ بنو۔پاگل نہ بنو ۔“
ایک رنگین دھندلکا ایلی کے قریب تر آتا گیا اور قریب اور قریب اور وہ دیوانہ وار اس کی طرف بڑھتا گیا ۔اس کے ہونٹ شہزاد کا خون چوسنے کے لیئے جونک کی طرح آگے بڑھے ۔ہاتھ بازو ، منہ سر جسم وہ دیوانہ وار اس کے جسم کا ایک ایک حصّہ چومنے لگا ۔پہلے تو شہزاد نے اپنے آپ کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی پھر وہ تھک کر،ہار کر ایک لاش کی طرح میز ہر گِر پڑی ۔بھیانک خاموشی طاری ہوگئی ۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے اُس کی وحشت ختم ہوئی جا رہی ہو۔اس نے دیوانہ وار بھٹی میں نیا ایندھن دھکیلنے کی کوشش کی ۔چرار چرار ۔ریشمی کپڑے کے پھٹنے کی آواز آئی ۔
ایلی پاگل نہ بنو ۔“ ایک بار پھر مرمریں جسم کے اس تودے میں حرکت ہوئی ۔پاگل نہ بنو ۔“ مدّھم آواز میں مبہم سا احتجاج دیکھ کر وہ اور بھی بھپر گیا ۔
دھپ ----------- ایک ہوائی سی چھوٹ گئی اور معاً گردوپیش تاریک ہوگئے ۔اُس نے محسوس کیا جیسے وہ ڈوب گیا ہو چاروں طرف اندھیرا تھا ۔گھور اندھیرا ۔خفت ناکامی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ۔خود ساختہ وحشت کا سہارا ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا ۔وہ دیوانگی ختم ہو چکی تھی اور اس کے عقب میں معصیت اور شکست کے منفی احساسات کا ریلا آڑے آرہا تھا ۔ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کے منہ میں گھاس کا تنکا ہو ۔وہی تنکا جو پورس اپنے منہ میں لے کر سکندر کے حضور میں حاضر ہوا تھا۔
اس نئی خفت کو مٹانے کے لیئے ایلی ایک بار پھر آگے بڑھا اور دیوانہ وار شہزاد کے بند بند چومنے لگا ۔اور بالاخر تھک کر بچے کی طرح اس کے قدموں میں سر رکھ کر گِر پڑا۔مجھے تم سے محبت ہے شہزاد مجھے تم سے ۔“
اپنے پاؤں پر آنسوؤں کے قطرے محسوس کرکے شہزاد اُٹھ بیٹھی اور اس کا بازو ایلی کی طرف بڑھا اور اسے تھپکنے لگا ۔
اس کیفیت میں کتنا اطمینان تھا ۔ایلی نے محسوس کیا جیسے ماں کا ہاتھ سرزنش کرنے کی بجائے معاف کردینے کے بعد تھپک رہا ہو ۔
ماں کا ہاتھ عجیب نفسیاتی اشارہ ہے ۔شہزاد عورت کے تمام منصب بڑی پیچیدگی کے ساتھ ادا کررہی ہے ۔وہ ماں بھی ہے ۔بیوی بھی اور محبوبہ بھی ۔معشوقانہ انداز پوری بیباکی کے ساتھ اس میں شروع ہی سے دکھائی دیتے رہے ۔وہ ایک شخص کی قانونی بیوی بھی ہے اور بچہ پیدا کرنے میں زرخیز بھی کہی جاسکتی ہے ۔مگر ایلی کی طرف اس کا رجحان مادرانہ بھی ہے ۔ہمارے معاشرے کے لوگ عورت کی بابت دھڑ سے اچھی یا بری رائے دینے کے عادی ہیں ۔مفتی صاحب ان لوگوں سے کس قدر بالاتر ہیں اور عورت کی پیچیدہ اور غیر فطرت کا کتنا زبردست مشاہدہ رکھتے ہیں ۔
شہزاد کا رویہ متضاد سوالات ایلی کے دل میں لاتا ہے اور ہم بھی ان سوالات میں پڑ کر تعجب کے عالم میں آجاتے ہیں ۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا شہزاد ایلی سے محبت کرتی ہے ۔اس سلسلے میں وہی معاملہ سامنے آتا ہے کہ نہ اعتبار مجھے ہے نہ اعتبار انہیں ۔مگر یہ صاف ہے کہ شہزاد کی اس ۔
[/align:4f209eb729]
 
Top