شمشاد
لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحہ 996 سے 1025 تک
“ اور اصل چیز کنی میں باندھ کر رکھی ہوئی ہے۔“ احمد ہنسا۔
“ اونہوں۔“ وہ بولی۔ “ اصلی چیز خاک میں مل چکی ہے۔“
“ خاک میں مل کر ہی تو سونا بنتا ہے۔“ ایلی نے ایک اور نمائشی فقرہ چست کیا۔
“ بنتا ہو گا۔ ہم تو مٹی بن کر رہ گئے۔“
“ اے تو بیٹھی کیا کر رہی ہے پیلی۔ “ اس کی ماں نے غصے سے ادھر دیکھا۔ “ اٹھ اب تیار ہو۔“
“ بیٹھ لینے دے ماں۔“ وہ بولی۔ “ بیٹھ لینے دے کچھ دیر اور۔ ساری عمر تیار ہی ہونا ہے نا۔“
پیلی کے انداز کو دیکھ کر ایلی نے محسوس کیا جیسے مولانا پیلی کا بھیس بناکر بیٹھے ہوں۔ یہ بائی حقیقت سے کس قدر قریب ہے۔ ویسے دیکھنے میں کس قدر دور۔ یہ حقیقت کیا چیز تھی۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اسی شدت سے محسوس کرتا تھا۔ حقیقت ایلی کے لیے وہ مقام تھا جہاں سے ہر چیز اپنی تمامتر عریانی میں پورے طور پر دکھائی دیتی ہے۔
دیر تک وہ دونوں پیلی کے پاس بیٹھے رہے۔ احمد کو نہ جانے کیا سوجھی۔ وہ نیچے جا کر بہت سے چلغوزے لے آیا اور وہ تینوں بچوں کی طرح چلغوزے کھاتے رہے۔ احمد نے بہت سے چلغوزوں کے مغز نکال کر پیلی کو پیش کیئے۔
“ اونہوں۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔ “ خود توڑ کر کھانے میں مزہ ہے احمد۔ مغز نہ دو مجھے چلغوزے کھانے کا سارا رومان ختم ہو جاتا ہے۔“
“ آپ کو رومان سے دلچسپی ہے کیا۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ ہے۔“ وہ بولی۔ “ لیکن ہمارے لیے رومان کچھ اور چیز ہے۔ یہ رومان نہیں۔ اس کی حقیقت ہم پر اس حد تک آشکار ہو چکی ہے کہ کسی گنتی شمار میں ہی نہیں رہا۔“
“ ہمیں بھی پتہ چلے۔“ ایلی بولا۔
“ اونہوں۔“ وہ مسکرائی “ چل بھی جائے تو بھی نہ چلے گا۔ آپ کی دنیا اور ہے اور ہماری اور۔ آپ دیکھتے ہیں اور ہم پر دکھنا لازم ہے۔ رہا دیکھنا تو میں دیکھ دیکھ کر اکتا گئی ہوں۔ پھر بھی دکھنا پڑتا ہے۔ آنکھیں بند کر لوں پھر بھی دکھتا ہے۔“
اس کی بات سن کر ایلی خاموش ہو گیا۔ اسے کوئی بات نہ سوجھ رہی تھی۔
“ وہ دھن کیسے ہے۔“ احمد نے کہا۔ “ مکھ موڑ موڑ مسکات جات۔“
اور وہ گانے لگی۔ دفعتاً اس کے چہرے کا عالم ہی بدل گیا۔ پہلے اس پر بےپروائی کی دبیز تہ چڑھی ہوئی تھی۔ جمال اور بے نیازی جس میں تصنع نہ تھا لیکن جونہی اس نے آہستہ آواز میں گانا شروع کیا، بے نیازی ختم ہو گئی۔ ایک مبہم تڑپ ایک دلفریبی جیسے دفعتاً محبوبیت کی وہ کیفیت ختم ہو گئی ہو۔ جو خود بخود بلا جدوجہد بغیر خواہش اور کوشش کے چھائے ہوئے تھی۔ اب وہ محبوبیت پیدا کرنے کی سعی کر رہی تھی۔ دونوں کیفیات میں کتنا فرق تھا۔ پہلے وہ خدا بنی بیٹھی تھی۔ بے نیاز لاشعوری محبت سے سرشار۔ اب نہ جانے کیا بن گئی تھی۔ کیا واقعی خواہش بذات خود محبوبیت کی کاٹ تھی۔
صفحہ 996 سے 1025 تک
“ اور اصل چیز کنی میں باندھ کر رکھی ہوئی ہے۔“ احمد ہنسا۔
“ اونہوں۔“ وہ بولی۔ “ اصلی چیز خاک میں مل چکی ہے۔“
“ خاک میں مل کر ہی تو سونا بنتا ہے۔“ ایلی نے ایک اور نمائشی فقرہ چست کیا۔
“ بنتا ہو گا۔ ہم تو مٹی بن کر رہ گئے۔“
“ اے تو بیٹھی کیا کر رہی ہے پیلی۔ “ اس کی ماں نے غصے سے ادھر دیکھا۔ “ اٹھ اب تیار ہو۔“
“ بیٹھ لینے دے ماں۔“ وہ بولی۔ “ بیٹھ لینے دے کچھ دیر اور۔ ساری عمر تیار ہی ہونا ہے نا۔“
پیلی کے انداز کو دیکھ کر ایلی نے محسوس کیا جیسے مولانا پیلی کا بھیس بناکر بیٹھے ہوں۔ یہ بائی حقیقت سے کس قدر قریب ہے۔ ویسے دیکھنے میں کس قدر دور۔ یہ حقیقت کیا چیز تھی۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اسی شدت سے محسوس کرتا تھا۔ حقیقت ایلی کے لیے وہ مقام تھا جہاں سے ہر چیز اپنی تمامتر عریانی میں پورے طور پر دکھائی دیتی ہے۔
دیر تک وہ دونوں پیلی کے پاس بیٹھے رہے۔ احمد کو نہ جانے کیا سوجھی۔ وہ نیچے جا کر بہت سے چلغوزے لے آیا اور وہ تینوں بچوں کی طرح چلغوزے کھاتے رہے۔ احمد نے بہت سے چلغوزوں کے مغز نکال کر پیلی کو پیش کیئے۔
“ اونہوں۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔ “ خود توڑ کر کھانے میں مزہ ہے احمد۔ مغز نہ دو مجھے چلغوزے کھانے کا سارا رومان ختم ہو جاتا ہے۔“
“ آپ کو رومان سے دلچسپی ہے کیا۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ ہے۔“ وہ بولی۔ “ لیکن ہمارے لیے رومان کچھ اور چیز ہے۔ یہ رومان نہیں۔ اس کی حقیقت ہم پر اس حد تک آشکار ہو چکی ہے کہ کسی گنتی شمار میں ہی نہیں رہا۔“
“ ہمیں بھی پتہ چلے۔“ ایلی بولا۔
“ اونہوں۔“ وہ مسکرائی “ چل بھی جائے تو بھی نہ چلے گا۔ آپ کی دنیا اور ہے اور ہماری اور۔ آپ دیکھتے ہیں اور ہم پر دکھنا لازم ہے۔ رہا دیکھنا تو میں دیکھ دیکھ کر اکتا گئی ہوں۔ پھر بھی دکھنا پڑتا ہے۔ آنکھیں بند کر لوں پھر بھی دکھتا ہے۔“
اس کی بات سن کر ایلی خاموش ہو گیا۔ اسے کوئی بات نہ سوجھ رہی تھی۔
“ وہ دھن کیسے ہے۔“ احمد نے کہا۔ “ مکھ موڑ موڑ مسکات جات۔“
اور وہ گانے لگی۔ دفعتاً اس کے چہرے کا عالم ہی بدل گیا۔ پہلے اس پر بےپروائی کی دبیز تہ چڑھی ہوئی تھی۔ جمال اور بے نیازی جس میں تصنع نہ تھا لیکن جونہی اس نے آہستہ آواز میں گانا شروع کیا، بے نیازی ختم ہو گئی۔ ایک مبہم تڑپ ایک دلفریبی جیسے دفعتاً محبوبیت کی وہ کیفیت ختم ہو گئی ہو۔ جو خود بخود بلا جدوجہد بغیر خواہش اور کوشش کے چھائے ہوئے تھی۔ اب وہ محبوبیت پیدا کرنے کی سعی کر رہی تھی۔ دونوں کیفیات میں کتنا فرق تھا۔ پہلے وہ خدا بنی بیٹھی تھی۔ بے نیاز لاشعوری محبت سے سرشار۔ اب نہ جانے کیا بن گئی تھی۔ کیا واقعی خواہش بذات خود محبوبیت کی کاٹ تھی۔