علی پور کا ایلی - صفحات 546 تا 575

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

صفحہ نمبر 546 سے 575 تک

دلچسپی ہو گئی تھی۔ اس میں زندگی تھی جو ولولہ تھا جاہ کی طرح اس کی زندگی اصولوں کا سہارا نہیں ڈھونڈتی تھی۔

اس کے بعد کئی ایک دن وہ سب تصاویر فریم کرنے میں شدت سے مصروف رہے۔ فریم کی لکڑی کاٹنے اور اسے کیلوں سے جوڑنے کا کام جی-کے کے سپرد تھا۔

جی کے وزیر آباد کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو ٹیکنیکل کام کے لیے خصوصی صلاحیت رکھتا تھا۔

تصویر کی پیمائش کرنے کے بعد جی کے فریم کی لکڑی سانچے میں رکھ کر آری سے اسے کاٹتا اور پھر ان لکڑیوں کے سرے جوڑ کر ان میں‌ کیل ٹھونک کر فریم تیار کرتا۔ جاہ اس دوران میں اس خصوصی تصویر اور تصویر کار کے متعلق معلومات بہم پہنچاتا اور تصویر کے خصوصی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا۔ ایلی مناسب سائز کے مطابق گتہ کاٹتا۔ ایم کے ہتھوڑی اور کیل اٹھائے رکھتا تا کہ مناسب وقت پر جی کے کہ بہم پہنچا سکے۔ اس کے علاوہ سرکس کے مسخرے کی طرح وہ الٹی سیدھی حرکات سے ان کا دل بہلاتا رہتا۔

تصاویر فریم کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو خیال نہ آیا کہ ان میں بیشتر تصاویر برہنہ تھیں اور انہیں ہوسٹل کے کمرے میں آویزاں کرنا قابل اعتراض سمجھا جا سکتا ہے۔ جاہ کے متعدد لیکچر سننے کے بعد ان سب کی توجہ اس حد تک تصاویر کے معانی پر مرکوز ہو چکی تھی کہ انہیں یہ خیال بھی نہ آیا کہ بیشتر نقوش ملبوسات سے معرا تھے، حتٰی کہ بھا جب نماز پڑھنے کے بعد فریم بنانے کے کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے فریم شدہ تصاویر کر طرف دیکھتا تو اسے بھی لاحول پڑھنے کا خیال نہ آتا۔

پھر جب انہوں نے اپنے اپنے کمرے میں وہ تصاویر آویزاں کر دین اور ہوسٹل کے لڑکوں نے انہیں دیکھا اور ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ شدت سے جسم کھجانے لگے تو ایلی نے محسوس کیا کہ وہ تصاویر برہنہ تھیں۔ اس نے جاہ سے بات کی “ جاہ یہ تصاویر تو ۔۔۔۔۔ “ وہ رک گیا۔

“ ہوں۔“ جاہ نے تیوری چڑھا کر اس کی طرف دیکھا۔

“ میرا مطلب ہے۔“ ایلی گھبرا کر بولا “ یعنی۔۔۔۔“

“ ہوں۔“ جاہ نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔

“ یہ تصاویر تو برہنہ ہیں۔“ ایلی نے بعد مشکل جملہ مکمل کیا۔

“ تصاویر ۔۔۔۔۔“ اس نے کمرے میں ٹنگی ہوئی تصاویر کا جائزہ لیا۔ پھر اس کی نگاہ میں تمسخر جھلکا “ برہنہ “ اس نے حقارت بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ جیسے اس کی نگاہ میں کمرے کی جملہ اشیاء میں سے صرف ایلی کا وجود عریانی اور برہنگی کا مظہر ہو۔ تمسخر اور نفرت کے اس اظہار پر ایلی وہاں سے بھاگا۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ برآمدے میں بھا وضو کر رہا تھا۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ بھا کے گلے لگ کر رہ پڑے۔ لیکن بھا اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔

“ بھا “ وہ بولا “ یہ تصویریں جو ہم نے کمروں میں آویزاں کی ہیں۔“

“ ہاں ہاں۔“ بھا پاؤں دھوتے ہوئے بولا۔

“ وہ عریاں ہیں۔ میرا مطلب ہے برہنہ ہیں۔“

بھا سوچ میں‌ پڑ گیا۔ “ ہاں ہاں“ وہ بولا، “ مجھے بھی کئی بار شک سا پڑا ہے۔“

“ وہ انہیں دیکھ کر کھجاتے ہیں۔ “ ایلی بولا “ اور پھر کمرے سے باہر نکل کر چنگھاڑتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، اور ان کی آنکھیں۔“

“ ہاں ہاں۔“ بھا بولا۔ “ مجھے اب خیال آتا ہے کہ۔“

“ اور وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ۔ میاں میاں۔“

میاں میاں سن کر بھا اچھل کر کھڑا ہو گیا “ ہاں۔“ وہ بولا “ میاں میاں مجھے خیال ہی نہیں آیا۔“

“ لیکن میاں میاں کا مطلب کیا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ میاں میاں کا مطلب“ بھا نے تعجب سے ایلی کی طرف دیکھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

میاں - میاں

میاں میاں در حقیقت کالج میں فارسی پڑھانے والے مولانا کا تکیہ کلام تھا۔ مولانا کا نام محمد عمر تھا۔ وہ کالج میں فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ کالج میں وہ اپنی چار ایک خصوصیات کی وجہ سے مشہور تھے۔

ان کا حلق ایک ایسے وسیع ہال کی مانند تھا جہاں سے ہلکی سے ہلکی آواز گونج کر پھر گونجتی۔ اس لیے ان کی معمولی سے معمولی بات بھی یوں سنائی دیتی تھی جیسے کوئی مجاہد حملہ کرنے سے پہلے سپاہیوں کو جوش اور غیرت دلا رہا ہو۔

مسلسل طور پر جوش اور جذبہ محسوس کرتے رہنے کی وجہ سے مولانا کے خدوخال نے ایسی ترتیب اختیار کر لی تھی کہ ان کہ چہرہ احتجاج اور جذبے کی آمیزش بن کر رہ گیا تھا۔ ان کے چہرے کو دیکھ کر محسوس ہرتا تھا جیسے جملہ نامناسب باتوں کے خلاف ایک گھونسہ کسا ہوا ہو۔

مولانا کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ معمولی سے معمولی نامناسب بات پر وہ غضب میں آ جاتے اور اس شدت سے احتجاج کا اظہار کرتے کہ لڑکے محسوس کرتے کہ نہ جانے وہ کیا کر دیں گے۔ لیکن اس شدت بھرے احتجاج کے بعد وہ ہر نامناسب بات کو یوں برداشت کر لیتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو، جیسے نامناسب باتوں کو برداشت کرنا ان کی عادت ہو۔ اور وہ اپنی اس عادت کی وجہ سے مجبور ہوں۔

مولانا کی آخری خصوصیت انکی تکیہ کلام تھا۔ وہ جماعت یا افراد سے میاں میاں کہہ کر مخاطب ہوتے۔ اسی وجہ سے لڑکوں میں وہ میاں میاں کے نام سے مشہور تھے۔ جماعت میں داخل ہوتے ہی وہ گونجتے “ میاں میاں کہ کیا شور ہے۔“ اس پر لڑکے خاموش ہر جاتے۔ پھر کوئی مسخرہ چپکے سے سیٹی بجاتا اور اس پر مولانا چونکتے “ لاحول ولا قوۃ “ سارا کالج مولانا کے اس مجاہدانہ نعرے سے گونجتا۔ پھر چاروں طرف سے پُراسرار آوازوں کی یورش شروع ہو جاتی۔ ایک کونے میں‌ چکی ہونکتی۔ اور مولانا دفعتاً اس آوازوں کے وجود سے بے نیاز ہو کر صائب کے اشعار پڑھنے میں مصروف ہو جاتے۔

کریسنٹ ہوسٹل کے اجراء کے بعد وقتی طور پر مولانا کو ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا تھا۔ وہ بورڈنگ کی میں بلڈنگ سے باہر ملحقہ عمارت کے ایک کمرے میں مقیم تھے جو کھانا کھانے کے کمرے کے قریب تھا۔

لڑکے ڈائننگ ہال کی طرف جاتے تو انہیں محسوس ہوتا کہ وہ بورڈنگ میں موجود ہیں، چونکہ عام طور پر مولانا نماز پڑھتے ہوئے یا وضو کرتے ہوئے دکھائی دیتے۔ البتہ کوئی غیرمناسب بات وقوع میں آتی تو مولانا کا لاحول ولا قوۃ ملحقہ بلڈنگ سے اُبھر یر ہوسٹل کی مین بلڈنگ میں آ کر گونجتا اور لڑکے چونک کر اٹھ بیٹھتے اور انہیں یہ امر یاد آتا کہ میاں میاں اس بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ ہیں اور ملحقہ بلڈنگ میں کوئی نامناسب بات وقوع میں آئی ہے۔ اس پر میں بلڈنگ میں ایک سرگوشی ابھرتی۔ “ میاں میاں “ اور ہر کمرے میں دہرائی جاتی۔ حتٰی کہ ساری بلڈنگ “ میاں میاں “ گونجنے لگتی۔

مولانا دن میں صرف ایک بار میں بلڈنگ میں آتے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر ساڑھے نو بجے کے قریب وہ حاضری کا رجسٹر بغل میں دبا کر میں بلڈنگ میں داخل ہو جاتے۔ اور ہر کھلے کمرے میں جھانکتے اور بند کمرے پر دستک دے کر کہتے “ میاں میاں “ جس پر لڑکے “ یس سر “ کہہ دیتے اور مولانا حاضری لگا کر دوسرے کمرے کی طرف چل پڑتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

لاحول ولا قوۃ

حاضری کے وقت کریسنٹ ہوسٹل میں خاصا ہنگامہ رہتا تھا۔ چونکہ کئی ایک حاضر لڑکوں کو کئی ایک غیرحاضر لڑکوں کی حاضریاں لگوانی ہوتی تھیں۔ مثلاً کمرہ نمبر ایک کا لڑکا پہلے اپنی حاضری لگواتا پھر باری باری کمرہ نمبر 14، 22 اور 56 میں داخل ہو کر یس سر بول کر اپنے دوستوں کی حاضری لگواتا۔ لڑکا چاہے موجود نہ ہو لیکن کمرہ ضرور اندر سے بند ہو۔ کمرے میں بتی جلائے رکھنا ضروری ہوتا۔ اور اس بات کی خیال رکھا جاتا کہ باہر تالا نہ پڑا ہو۔ جب مولانا سولہ نمبر پر دستک دیتے تو سولہ نمبر کا لڑکا اندر سے یس سر کہہ دیتا اور جب وہ سترہ نمبر پر دستک دیتے تو سولہ نمبر والا پھر سے یس سر چلا کر سترہ نمبر والے کی حاضری لگوا دیتا۔

ایک روز وہی ہوا جس کا ایلی کو ڈر تھا۔ جس وقت مولانا نے حاضری کے وقت جاہ کے دروازے پر دستک دے کر میاں میاں کہا، اس وقت جاہ نہ جانے داستووسکی یا ٹامس میں کے مطالعہ میں اس حد تک مصورف تھا کہ میاں میاں کے جواب میں یس سر کہنے کی بجائے بے خیالی میں اس نے کہا “ کم آن۔“

دستور کے مطابق مولانا کو چاہیے تھا کہ آواز سن کر رجسٹر میں حاضری لگائیں اور اگلے کمرے کی طرف چل پڑیں۔ چونکہ دستور کے مطابق اہم بات یہ تھی کہ اندر سے آواز آ جائے۔ یس سر، کم اِن یا گو آوے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تھا لیکن جاہ کے کمرے کے دروازے پر کھڑے کھڑے نہ جانے مولانا کو کیا ہوا۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ حاضری کے لیے راؤنڈ کر رہے ہیں۔ ممکن ہے جاہ کے انگریزی لب و لہجہ کو بھی اس سے تعلق ہوتا۔ بہرحال مولانا سمجھ بیٹھے کہ وہ پرنسپل کے کمرے کے باہر کھڑے ہیں۔ لٰہذا جاہ کے کم اِن پر وہ انجانے میں پٹ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔

اس چھوٹے سے کیوبیکل میں ان اٹھائیس تصاویر کی طرف دیکھ کر مولانا لڑکھڑائے۔ ان کی آنکھیں گویا خانوں سے باہر نکل آئیں۔ ایک ہی جست میں وہ باہر برآمدے میں پہنچے اور پھر ان کا احتجاج اور غم و غصہ حسبِ معمول اس مجاہدانہ نعرے میں گونجا “ لاحول ولا قوۃ“۔

یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں بلڈنگ میں‌ مولانا نے لاحول کی للکار لگائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس روز ہوسٹل کے کمروں میں میزوں پر پڑے ہوئے گلاس جل ترنگ کی طرح بجے تھے۔ اور لڑکے گھبرا کر کمروں سے باہر نکل آئے تھے۔ اس وقت وہ میاں میاں کہنا یا تمسخر سے چلانا بھول گئے تھے۔

باہر نکل کر لڑکوں نے دیکھا کہ مولانا ہوسٹل کے صدر دروازے کی طرف بھاگے جا رہے ہیں اور حاضری رجسٹر کے ورق ہوسٹل کے صحن میں اُڑ رہے ہیں۔ مولانا حاضری لگانا بھول گئے تھے۔ اور انہیں حاضری کے رجسٹر کا خیال بھی نہ رہا تھا۔ اور روز کریسنٹ ہوسٹل کے جملہ لڑکوں میں سے صرف جاہ واحد لڑکا تھا جو اس حادثہ سے بے خبر اپنے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھنے میں منہمک رہا تھا۔

اگلے روز نیوٹن ہال میں بیٹھے ہوئے جب بھا اور ایلی گزشتہ رات کے واقعہ پر تبصرہ کر رہے تھے تو جاہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔

“ اچھا میں نے خیال نہیں کیا۔“ وہ انگلیوں سے کھیلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

ایم کے نے قہقہہ لگایا “ اچھا ہوا “ وہ بولا “ اپنی بھی روز بے عزتی ہے۔“

“ تم چپ رہو جی‘ جی کے نے اسے ڈانٹا۔

“ اچھا بھئی۔“ وہ بولا “ تو کوئی اور بولے اب“

بھا نے کہا “ لیکن اب ہو گا کیا۔“

“ اللہ جانے کیا ہو گا۔“ ایلی نے کہا۔

وہ سب خاموش ہو گئے۔

دیر تک خاموشی چھائی رہی۔

پھر دفعتاً جاہ بڑبڑانے لگا “ نہیں نہیں ------ نہیں نہیں۔“

سب کی نگاہیں جاہ پر مرکوز ہو گئیں۔

جاہ انگلیوں ہی انگلیوں سے کھیلتے ہونے نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ دفعتاً اس نے اوپر دیکھا اور کہنے لگا “ کیا ہم ایسی جگہ نہیں رہ سکتے جہاں مائیکل اینجلو برنے جونز اور لارڈ لٹن پر لاحول نہ پڑھی جائے، ضرور رہ سکتے ہیں۔ بالکل“ وہ قطعی فیصلے کے انداز میں بولا۔

جاہ کے اس قطعی فیصلے کے بعد سب نے مل کر ایک پرائیویٹ لاج میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

گوریاں

ناؤ گھر

ان کا نیا لاج ایک عظیم تکون نما بلڈنگ کے کونے کا ایک حصہ تھا۔ جبھی انہوں نے اس کا نام ناؤ گھر رکھ دیا تھا۔ بلڈنگ کی پہلی منزل میں گودام اور دکانیں تھیں۔ کونے کے قریب تنگ سی سیڑھیاں دوسری منزل میں چلی گئی تھیں۔ جہاں غسل خانہ، باورچی خانہ، ایک دالان اور دو کمرے تھے۔ جن کے ایک طرف جدھر سڑک واقعہ تھی لکڑی کا جنگلا بنا ہوا تھا۔ جو اب بوسیدہ ہو چکا تھا۔ باورچی خانے اور غسل خانے کے اوپر ایک تیم چھتی تھی۔ جس کا دروازہ اوپر کی سیڑھیوں کے درمیان کھلتا تھا اور اوپر تیسری منزل میں ایک کمرا ایک وسیع برساتی اور کچھ کھلی چھت تھی۔

ناؤ گھر میں پہنچتے ہی جاہ نے اعلان کر دیا کہ وہ دوسری منزل میں قیام کرئے گا۔ “ یہ کمرہ “ وہ بولا “ہمارا بیڈ روم رہے گا، دوسرا کمرا سٹنگ روم اور اس دالان کو ہم کھانے کا کمرہ بنا سکتے ہیں۔“

“ کیوں۔“ بھا جی نے پوچھا۔

بھا نے دالان سے ملحقہ جنگلے کی طرف دیکھا “ بالکل “ وہ بولا “ یہ جنگلہ نماز کے لیے کتنا موزوں ہے۔ ہے نا پال۔“

وہ سب جی کے کو پیار سے پال کہا کرتے تھے۔

“ بالکل۔“ پال چلایا “ اور جنگلے میں یہاں حمام رکھ دیا جائے تو وضو کی جگہ تھی بن جائے گی۔“ اور ایلی “ جاہ بولا “ تم چاہو تو یہیں ہمارے ساتھ رہو۔ ہاں اور اگر وہ تمہارا دوست بخوشی آنا چاہے تو آ جائے ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ تم کہتے ہو نا وہ اچھا لڑکا ہے۔ تو اچھا ہی ہو گا اور اگر ایسا ہی ہے تو آ جائے۔ کیا حرج ہے اوپر کا کمرہ ہم اس کے لیے مخصوص کر دیں گے۔ کیا نام ہے اس کا ہاں ۔ جمال ۔ جمال۔“

“ آ جائے تو بہتر ہے۔“ بھا بولا۔ “ پانچ ہو جائیں گے تو کفایت رہے گی اور تم ایلی تم کہاں رہو گے۔“

“ میں میں۔“ ایلی نے کہا “ میں تو نیم چھتی میں رہوں گا۔“

“ نیم چھتی؟“ جاہ کے ہونٹ حقارت سے کھلے “ ہوں نیم چھتی “ وہ انگلیاں چلاتے ہوئے کہنے لگا۔ “ اسے نیم چھتیوں سے دلچسپی ہے۔ کھلے کمروں سے نہیں۔ بس ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ جو ذہنی طور پر خود نیم چھتی ہو وہ ۔۔۔۔۔“ وہ خاموش ہو گیا۔

جاہ کے منہ سے ایسی بات سن کر ایلی نے کبھی برا نہ مانا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی نے جاہ کی ذہنی عظمت کو سچے دل سے تسلیم کر رکھا تھا۔ اس کے دل میں جاہ کے لیے محبت بھی تھی اور احترام بھی مگر جذبہ احترام اس حد تک حاوی ہو چکا تھا کہ اس کے بوجھ تلے محبت دب کر رہ گئی تھی۔ وہ جاہ کی بات سے ڈرتا تھا۔ تمسخر سے ڈرتا تھا۔ لیکن اس ڈر میں نفرت کا عنصر نہ تھا۔ ایلی جاہ کے قریب رہنے کی خواہش کے باوجود اس سے ذرا ہٹ کر رہنا پسند کرتا تھا۔ اس لیے ناؤ گھر کو دیکھتے ہی اس نے نیم چھتی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہیں جاہ اسے اپنے کمرے میں رہنے پر مجبور نہ کر دے۔ اس لیے جاہ کی بات سننے کے بعد ایلی نے اطمینان کا سانس لیا کہ شکر ہے طوفان نکل گیا۔ مطلع صاف ہو گیا اور اب وہ اطمینان سے نیم چھتی میں اکیلا رہے گا اور شہزاد چھن سے سیڑھیوں سے اترے گی اور نیم چھتی میں جھانک کر کہے گی۔ چلو نا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔“

جمال تیسری منزل کے کمرے کو دیکھ کر ان تین کھڑکیوں کی طرف لپکا جو سڑک کی طرف کھلتی تھیں۔ کھڑکیوں کو کھول کر وہ خوشی سے چلایا۔

“ ارے یہاں سے تو سامنے محلے کے سارے مکانات نظر آتے ہیں۔ کتنے خوبصورت مکانات ہیں۔ کھاتے پیتے فیشن ایبل لوگ رہتے ہوں گے، کیوں ایلی۔“

ایلی کو یہ بات نہ سوجھی تھی۔ “ ظاہر ہے۔“ وہ بولا۔

“لیکن“ جمال نے ہاتھ سے بال سنوارتے ہوئے کہا “ ذرا دور ہیں “

پھر وہ برساتی کی کھڑکیوں میں جا کھڑا ہوا۔ “ یہاں سے تو اور بھی اچھا ہے۔“ اس نے ایک بھر پور مسرت بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ ذرا غور سے دیکھو نا۔“ وہ چلایا اور جسم کھجانے لگا۔

پھر وہ مکان کی عقبی دیوار کے پردے پر جا کھڑا ہوا اور چاروں طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

“ اونہوں اس جانب تو امید کی کوئی صورت نہیں۔“ “زردہ سے پھر ملاقات نہیں ہوئی کیا۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ زردہ “ جمال نے قہقہہ لگایا۔ “ توبہ ہے یار “ اس نے ہنستے ہوئے اپنا کان پکڑ لیا۔

“ توبہ ہے یار۔ اتنی تکلیف ہوئی کہ جس کی انتہا نہیں۔ ایسی ظالم بیماری ہے یہ کہ توبہ ہے۔ بیوی کے سامنے سارا بھانڈا پھوٹ گیا اور معلوم ہے ڈاکٹر کیا کہتا تھا۔ کہتا تھا یہ بیماری کبھی نہیں جاتی۔ کبھی نہیں۔ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔“ اس نے پھر قہقہہ لگایا “ بالکل توبہ کر لی ہے۔ لیکن یار، تم کتنے اچھے ہو۔“ وہ خاموش ہو گیا۔

“ تمہارا جواب نہیں ایلی دوست ہو تو ایسا ہو۔“ اس نے ہنستے ہوئے ایلی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ “ ایسا اچھا کمرہ میرے لیے مخصوص رکھا۔ جس کا جواب نہیں۔ ایمان سے اور پھر محلہ کے عین مقابل اور محلہ بھی فیشن ایبل لوگوں کا۔ بھئی واہ خوب گزرے گی۔ جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔“ جمال نے پھر قہقہہ لگایا۔ “ تم نیم چھتی میں اور میں چوبارے میں۔ واہ واہ واہ اور وہ نچلی منزل والے دور۔ یار وہ تو کتابوں میں جیتے ہیں۔ کتابیں ہی کتابیں - حد ہو گئی یار۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بانورہ ہوشمند

ابھی وہ نیم چھتی میں چیزیں لگانے میں مصروف تھا کہ کریسنٹ ہوسٹل کا باورچی دتہ آ گیا۔

“ بابو جی۔“ وہ بولا “ آپ کو نیچے بلا رہے ہیں۔“

نیچے بیڈ روم میں جاہ، بھا اور پال بیٹھے ایلی کا انتظار کر رہے تھے۔

“ ہاں بھئی “ اسے دیکھ کر جاہ نے کہا “ بیٹھ جاؤ۔ اچھا ہوا کہ جمال نے یہاں آنا پسند کر لیا۔ اچھا ہوا۔ اچھا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ خاصہ ہے خاصہ میرا مطلب ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا “ گوارا قسم کا ہے۔ بشرطیکہ ناگوار ہونا نہ شروع کر دے۔ کیوں پال۔“ جاہ کا مزاح اس حد تک سبک ہوتا تھا کہ اس کا ادراک مشکل سے ہوتا تھا۔ لیکن ایلی نے جاہ کی خصوصی مسکراہٹ سے بھانپ لیا کہ وہ اپنے مزاج کی داد کا طالب ہے۔ ایلی نے قہقہہ لگایا۔

“ ہے نا۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہوا۔ “ لیکن اس وقت مسئلہ درپیش یہ ہے کہ اپنا نوکر دتہ اپنے ہمراہ ایک نوکر لایا ہے۔ نوکر تو ہمیں یہاں رکھنا ہی ہو گا۔ اس سے کہا تھا کہ بھئی کوئی جانا پہچانا نوکر لا دو۔“

“ بالکل۔“ پال نے کہا “ نوکر کے بغیر کیسے ہو گا۔“

“ لیکن دقت یہ ہے“ جاہ نے کہا “ کہ یہ نوکر جو وہ لایا ہے اس کا جانا پہچانا نہیں اور بندہ تو جاننے پہچاننے کے معاملے میں بیوقوف ہے۔“ جاہ اس روز مزاح کے موڈ میں تھا۔

“ جوڑنے یا نفی کرنے کی بات ہو تو میں حاضر ہوں۔“ پال نے کہا۔

“ یہ تو کھانا پکانے کی بات ہے۔“ بھا نے کہا۔

“ اچھا۔“ جاہ تعجب سے بولا۔

“ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ پال کی ناک اور بھی لمبی ہو گئی۔

“ کھانے کے متعلق میں صرف اتنا جانتا ہوں۔“ جاہ نے کہا “ کہ نمک اور مرچ ہو تو کھانا ٹھیک ہوتا ہے اور نمک مرچ کی مجھے خوب پہچان ہے۔ وہاں کریسنٹ میں کھانے کی میز پر جب کوئی چلاتا۔ دتے نمک بھیجو تو دفعتاً مجھے احساس ہوتا کہ میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر کھانے میں کس بات کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔“ ایلی نے قہقہہ لگایا۔ اس پر جاہ نے بڑے التفات سے ایلی کو مخاطب کر کے کہا “ کیوں میاں ہے نا یہی بات۔“

لیکن بھا نے کہا۔ “ معاملہ تو یہ ہے کہ نوکر کی تنخواہ مقرر کی جائے۔“

“ پنچ اجازت دیں۔“ جاہ مسکرایا۔ “ تو بندہ کتاب پڑھنے کا کام کرے۔ چونکہ اس معاملے میں اپنا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ الٹا اپنا دخل دینا نقصان دہ ہو گا۔ کیوں پال۔“ “ لو جی یہ گیا غفار۔“ دتہ چلا کر بولا۔

غفار پتلا دبلا سانولا نوجوان تھا۔ اس کے نقش تیکھے تھے اور بشرے پر ذہانت کے آثار تھے۔

“ سلام علیکم۔“ اس نے بے پروائی سے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔ پھر خود ہی بات شروع کی۔ “ دیکھئے صاحب۔“ وہ بولا “ میرا نام گفار ہے۔“

“ ذرا ٹھہریئے۔“ جاہ نے اس کی بات کاٹی “ کیا آپ اپنا نام نہیں بدل سکتے؟“ غفار نے غور سے جاہ کی طرف دیکھا۔

“ آپ کا نام خاصہ بوجھل ہے۔“ جاہ بولا “ سارے حلق کو تکلیف ہوتی ہے۔ میرے لیے تو آپ کو بلانا مشکل ہو گا۔“

“ جی صاحب۔“ غفار نے مسکرا کر کہا۔ “ نام تو گفار ہی ہے اگرچہ گھر کے لوگ مجھے پیار سے بانورہ کہتے تھے۔“

“ اگر ہم بھی بانورہ کہیں تو آپ کو اعتراض تو نہ ہو گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کہیں گے محبت سے۔“ جاہ مسکرانے لگا۔

“ اجی محبت سے پکاریئے تو جو جی میں آئے کہیے“ غفار بولا۔

“ اچھا بھئی بانورے۔“ بھا نے بمشکل مطلب کی بات شروع کی۔ “ تمہیں پانچ آدمیوں کا کھانا پکانا ہو گا۔ سودا بھی خود ہی لانا ہو گا۔ تو یہ بتاؤ کہ تم لو گے کیا۔“ بانورہ مسکرایا، بولا “ حضور ابھی پودا لگا نہیں اور پہلے ہی پھل پھول کی بات کرنا مناسب نہیں۔“

“ کیا مطلب “ پال چلایا۔

“ معلوم ہوتا ہے “ جاہ بولا “ یہ بانورہ پوئٹری کا طالبعلم ہے۔“

“ مطلب یہ ہے حضور۔“ بانورہ چمک کر بولا۔ “ پہلے کام پھر دام۔“

“ بھئی واہ۔“ جاہ چلایا۔ “ معقول بات ہے۔ جیسے آسکروائلڈ کی لائن ہو۔“

“ یعنی۔----“ بھا نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔

“ واہ بھا۔“ جاہ نے کہا “ تم بھی حد ہو میاں۔ پہلے بات اپریشیٹ کرو پھر سمجھنے کی کوشش کرو۔ جو طریقہ ہوتا ہے۔“

“ جی میرا مطلب ہے۔“ بانورہ بولا “ طریخے کے مطابق تو مناسب ہے کہ ایک روز کے لیے آپ میرا کام دیکھیں اور پھر اگر آپ کو میرا کام پسند ہو تو مجھ سے تنخواہ کی بات کریں۔ اگر میری مانگ آپ کو منظور ہو تو میں کام شروع کر دوں اور نہ ہو تو اللہ حافظ کہہ کر رخصت ہو جاؤں۔“

“ بات تو معقول ہے۔“ پال نے ناک کو گھورتے ہوئے کہا۔

“ کچھ زیادہ ہی معقول ہے۔“ جاہ بولا۔

“ اچھا میاں۔“ بھا نے کہا “ تو کل صبح آ جاؤ۔“

“ بہت اچھا صاحب۔“ بانورہ مسکرایا۔ “ اب مجھے ازازت ہے کیا۔ السلام علیکم۔“ ‌یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گیا۔

“ عجیب نوکر ہے۔“ بھا نے کہا۔

پال ہنسنے لگا “ کہتا ہے ابھی پودہ لگا نہیں تو پھل پھول کی بات کیسی۔“

“ جبھی تو میں نے کہا تھا۔“ جاہ بولا “ کہ پوئیٹری کا طالب علم معلوم ہوتا ہے۔ جیسے کل اس کا نہیں بلکہ ہمارا امتحان ہو گا اور نتیجے کا اعلان وہ کرئے گا۔ بانورہ۔ یار اس کا نام ہوشمند ہونا چاہیے۔“

اگلے روز بانورہ آیا تو وہ سبھی جاہ کے کمرے میں اکٹھے ہو گئے۔

“ ہاں بھئی بانورے کیا پکائے گا تو۔“

“ جو آپ چاہیں۔“ بانورے نے جواب دیا۔

“ بھئی مجھے تو بُھنا ہوا گوشت پسند ہے۔“ جاہ نے کہا۔

“ وہ تو جی۔“ بانورہ بولا “ کھانے میں پسند ہے نا، آپ تو پکانے کے لیے پکوا رہے ہیں۔“

“ ہائیں۔“ ایک نگاہ جاہ نے بانورے کی طرف دیکھا اور پھر یوں سر ہلانے لگا جیسے روئی کا باوا ہو۔

“ چلو بھئی کریلے گوشت بناؤ آج۔“

“ کریلے کھا کھا کر تو تھک گئے بھا۔ پالک نہ ہو جائے۔“ پال نے کہا۔

“ ہو جائے۔“ بھا بولا

“ ایک گجارس میں بھی کروں۔“ بانورہ نے کہا۔

“ ہاں ہاں۔“ بھا نے کہا۔

“ ویسے پکانے کے لیے جو بھی چاہیں تیار کر دوں گا لیکن ایسے موخہ پر مناسب رہتا ہے۔ کوئی ایس چیز آج نمونے کے طور پر پکوائی جائے جسے پکانا مشکل ہو۔“

“ اچھا بھائی تو کیا کیا چیز پکانی مشکل ہوتی ہے۔“ پال نے پوچھا۔

“ ہاں ہاں۔“ جاہ بولا “ ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیئے۔“

بانورہ نے کہا “ صاحب گوشت تو سبھی بنا لیتے ہیں لیکن کام پرکھنا ہو تو دال پکوائیے اور وہ بھی اس کی جو ایک زائد آنچ سے ڈھل جاتی ہے اور ایک آنچ کم ہو تو کھڑی رہتی ہے۔ ویسے جو آپ چاہیں۔ اپنا کیا ہے۔“

“ اچھا بھئی دال ہی پکاؤ۔“ پال بولا۔

“ ہاں۔“ بھا نے کہا۔

جب ہنڈیا میں گھی ڈالنے کو وقت آیا تو بانورہ نے آ کر کیا۔ “ صاحب ایک گجارس ہے ہنڈیا میں ڈالنے کے لیے گھی دیا جائے۔“

“ واہ میاں۔“ بھا نے جواب دیا۔ “ گھی وہاں الماری میں پڑا ہے، ڈال لو۔“

“ یہ تو درست بات نہیں صاحب۔“ بانورہ بولا

“ کیوں۔“ پال نے پوچھا۔

“ ہجور کھانے میں گھی ڈال کر اسے مجیدار بنانا تو مشکل نہیں اور جو پرکھنا ہو تو جروری ہے کہ کم گھی دیا جائے۔“

“ ارے بھائی۔“ جاہ کتاب رکھتے ہوئے بولا “ بانورے کی بات رد کرنے کا خیال دل سے نکال دو۔ پال کی حساب دانی یہاں کام نہ آئے گی۔“

روٹی پکانے سے پہلے بانورہ پھر آ گیا بولا “ حضور کھانا تیار ہے۔ تشریف لائیے۔“

“ اچھا بھئی۔“ بھا نے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

“ میں تو میاں کچھ دیر کے بعد کھاؤں گا۔“ جاہ نے کہا۔

“ ہجور گجارس ہے کہ ایسے وقت یوں ہونا چاہیے کہ آپ سب باورچی خانے میں میرے پاس آ بیٹھیں۔ ادھر آپ سب کھانا شروع کریں ادھر میں پھلکے اتارنا شروع کروں۔“

“ ہوں۔“ جاہ بولا۔

“ دیکھنا تو یہ ہے صاحب کہ میں اس تیزی سے پھلکے اتار سکتا ہوں کہ پانچ آدمی کھاتے جائیں اور پھلکا کم نہ ہو۔ تار نہ ٹوٹے پھر پھلکے کچے نہ اتریں پھول کر اتریں اور کھانے میں اچھے ہوں۔ ہی ہی ہی ہی ------ “ وہ ہنسنے لگا۔

“ کہو بھئی اس کے جواب میں کیا کہتے ہو۔“ جاہ نے پوچھا۔

“ بات تو معقول ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ اچھا بھئی ہم آتے ہیں۔“ بھا نے کہا۔

جب بانورہ چلا گیا تو جاہ بولا “ میاں میں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ بانورہ ہمیں کھانا پکا کر کھلانے کے لیے نہیں آیا بلکہ عقلِ سلیم سکھانے آیا ہے۔ اونہوں، یہ بات نہ نبھے گی۔“ وہ بولا “ یہ ہر وقت کی معقولیت اور بات بات پر طریقے سلیقے، مہنگا سودا ہے دوستو۔ آگے آپ مالک ہیں۔ اپنی تو صرف ایک گجارس ہے۔“

اگلے روز جب ایک نیا نوکر گاما آیا تو اس کو حواس باختہ شکل کو دیکھ کر جاہ خوشی سے چلانے لگا “ یہ ہوئی نہ بات۔“ وہ بولا “ یہ تو اپنا بھائی بند معلوم ہوتا ہے۔ دیکھنے سے ہی تسلی ہو گئی۔

“ جی گوس روٹی پکا لیتا ہوں۔“ پوچھنے پر نئے نوکر نے مختصر جواب دیا۔

“ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔“ جاہ نے قہقہہ لگایا۔ “ آ ہا گوس روٹی سے بڑھ کر کیا چیز ہو گی۔ میاں بات ہوئی نا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بطخ جوہڑ میں پہنچ گئی ہو۔“ ----- اور گامے کو نوکر رکھ لیا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

گوریاں

ناؤ گھر میں ایلی کی مصروفیت کریسنٹ ہوسٹل سے چنداں مختلف نہ تھیں۔ کالج سے واپس آ کر وہ چپکے سے جاہ کی ایک کتاب اٹھا کر نیم چھتی میں بیٹھ کر اس کا مطالعہ کرتا جب تک جاہ کے واپس آنے کا وقت نہ ہو جاتا۔ جاہ کے آنے سے پہلے ہی ایلی وہ کتاب واپس اپنی جگہ پر رکھ دیتا۔ پھر کچھ دیر تک جاہ کے پاس بیٹھ کر اس کی ترش مگر بصیرت افروز باتیں سنتا اور پھر شام کے وقت وہ اور جمال دونوں سیر کو نکل جاتے اور جمال اسے تفصیلاً بتاتا کہ سفید منزل میں ایک کالی کلوٹی مگر جوان دوشیزہ رہتی ہے۔ جس کی آنکھوں میں بلا کی مستی ہے۔ پہلے مکان میں دو ادھیڑ عمر کی عورتیں ہیں جو سوکنیں معلوم ہوتی ہیں اور سامنے منزل میں دو چٹی سفید گوریاں رہتی ہیں جو اتنی گوری ہیں کہ توبہ ہے اور ہر وقت ہنستی ہیں، ہنسے ہی جاتی ہیں۔

جمال گوریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اس کے گالوں پر سرخی جھلکتی، آنکھوں میں مستی چھلکتی اور وہ بار بار جوش میں کھجاتا پھر فرطِ جوش میں جمال ایلی کو اپنی آغوش میں لے لیتا۔

“ یار ایلی “ وہ کہتا “ تم بڑے اچھے ہو۔ کیا جگہ دلوائی ہے مجھے واہ واہ۔ ناؤ گھر لاجواب گھر ہے۔ بس اگر ذرا سا چپو چلا دو بھائی تو اپنی زندگی میں بھی حرکت پیدا ہو جائے۔ لیکن ایلی۔“ وہ دونوں ہاتھوں سے ایلی کے شانے پکڑ لیتا اور پھر مست آنکھیں بنا کر اس کی طرف دیکھ کر پوچھتا۔ “ ایلی وہ اتنی گوری کیوں ہیں۔ بتاؤ نا۔ حد ہو گئی یار اتنی سفید جیسے کھوئے کی بنی ہوئی ہوں۔“

“ مجھے کیا معلوم۔“ ایلی جواب دیتا۔

“ پھر بھی --- بتاؤ تو سہی۔“

“ یہ ہوتی ہی ایسی ہیں۔“ ایلی کہتا۔ “ اگر گوری نہ ہوں تو مرچیلی ہوتی ہیں اور مرچیلی نہ ہوں۔ تو میٹھی رس بھری۔“

“ ہے نا۔“ جمال قہقہہ مار کر ہنستا۔ “ اور وہ زردہ تھی۔ وہ زرد ہو گئی تھی کتنی زرد تھی وہ۔“

“ ہاں شکر کرو گلابی نہ تھی۔“

“ گلابی تو یہ ہیں۔“ جمال کہتا۔ ضرور گلابی ہوں گی۔ جو دور سے خالی سفید دکھے وہ قریب سے گلابی ہوتی ہے۔ لیکن یار۔۔۔“ وہ پھر ایلی کو شانوں سے پکڑ لیتا۔ “ یار وہ اس قدر ہنستی کیوں ہیں۔ دیکھتی ہیں اور ہنستی ہیں۔ ہنستی ہیں اور دیکھتی ہیں۔ دیکھ دیکھ کر ہنستی ہیں۔“

“ تو کیا تم چاہتے ہو کہ دیکھ کر رو دیں۔“ ایلی پوچھتا۔

“ ارے نہیں ۔۔۔۔۔۔ “ جمال رک کر سوچنے لگتا۔

“ شکر کرو بھائی روتی نہیں وہ۔ جو رو دیں تو تمہاری زندگی حرام ہو جائے۔“ ایلی جواب دیتا۔

“ یار ایلی۔“ جمال چلاتا “ کوئی ملنے کو صورت بتاؤ۔ پھر چاہے ہنسیں یا روئیں۔“

“ کیوں پھر کیا ہو گا۔“ ایلی اسے چھیڑتا۔

“ پھر۔۔۔۔۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنستا اور سر کھجاتا۔“ پھر بہت کچھ ہو جایا کرتا ہے۔“ ہنستے ہنستے دفعتاً وہ خاموش ہو جاتا۔ پھر سنجیدگی سے کہتا “ یار دقت یہ ہے کہ وہ دور رہیں اور مجھے دور سے پتہ نہیں چلتا کہ کون کون سی ہے اور کونسی۔ کون بڑی ہے اور کوں چھوٹی، بڑی مشکل ہے۔“

“ بڑی چھوٹی ہو یا چھوٹی بڑی کیا فرق پڑتا ہے۔“ ایلی فلسفیانہ انداز سے بولا۔

“ بڑا فرق پڑتا ہے۔“ جمال کہتا۔ “ چھوٹی چھوٹی ہی ہوتی ہے تمہیں کیا خبر۔“

“ یہ تو ٹھیک ہے۔“

“ نہیں یار۔“ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر کہتا۔ “ تجھے سب خبر ہے۔“

نہ جانے جمال کو یہ خیال کیسے پیدا ہو گیا تھا کہ لڑکیوں کے معاملے میں ایلی ہر راز سے کماحقہ واقف ہے۔ جمال سچے دل سے سمجھتا تھا کہ اس معاملے میں ایلی بڑا سیانہ ہے۔ ایلی بھی اس کی موجودگی میں سیانوں کا رویہ اختیار کر لیتا۔ اس وقت وہ بھول جاتا کہ شہزاد کے روبرو اس کی اپنی کیا حثیت ہوتی ہے۔ اس یہ بھی یاد نہ رہتا کہ وہ بند بیٹھک سے کس شان سے باہر نکلا تھا۔

ہر روز شام کے وقت کسی نہ کسی بہانے جمال اسے آ ملتا۔ اگر ایلی جاہ کے پاس بیٹھا ہوتا تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بناتا۔ “ ایلی اگر فراغت ہو تو مجھے پوئیٹری کا خلاصہ خرید دو۔“

“ خلاصہ۔“ جاہ چونک کر اس کی طرف دیکھتا اور پھر جمال کے چہرے کا جائزہ لے کر کہتا ---- “ ٹھیک ہے، خلاصہ ہاں۔ بھئی تو لے دو انہیں خلاصہ۔ خود بھی خلاصہ پڑھ لو تو کیا حرج ہے۔ خلاصے کے بغیر امتحان پاس کرنا --- اونہوں، خلاصے کے بغیر کیا ہوتا ہے جی۔“

جاہ کے انداز میں بلا کی طنز ہوتی۔ لیکن جمال نے اس کی بات کی دھار کو کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ ایلی کر طرح وہ بھی جاہ سے ڈرتا تھا۔ جاہ سے سبھی ڈرتے تھے اور سبھی اس کی عزت کرتے تھے۔ جاہ کو خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ شاید اسی لیے ناؤ گھر میں اس کی حثیت لاڈلے اور بگڑے ہوئے بچے کی سی تھی اور کبھی کبھار تو ایلی کو محسوس ہوتا کہ جاہ صرف اس لیے علم حاصل کر رہا ہے کہ فوقیت حاصل کر کے دوسروں پر رعب جما سکے۔

لیکن پال کی بات مختلف تھی۔ وہ کبھی جاہ کی بات سن کر اس قدر متاثر نہ ہوا تھا کہ اپنی حیثیت کھو دے۔ وہ مضبوط انفرادیت کا مالک تھا اور اپنی غلط رائے پر اڑ جانے کا عادی تھا۔ پال کو اپنی قابلیت پر ناز تھا۔ اسے اپنے اصول فرد سے زیادہ پیارے تھے۔ دوسرے کی بات کو رد کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ناؤ گھر میں ایلی بھا اور جمال تینوں جاہ اور پال کی بات کی عظمت کو تسلیم کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ معلوم ہوتے تھے۔ بھا تو محض رواداری کے خیال سے۔ “ ہوں تو یہ بات ہے“ کہہ کر خاموش ہو جاتا۔ جمال طبعی طور پر خاموش آدمی تھا۔ بلکہ وہ ایسی معمولی باتوں کو اہمیت ہی نہ دیتا تھا۔ ایلی جی جی کہہ تو دیتا لیکن بعد میں اسے غصہ آتا۔ اس بات پر کڑھتا کہ لوگ دوسروں پر اپنی بات ٹھونسنے کے عادی کیوں تھے۔ ایلی کو خود پسند لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔

بہرحال کسی نہ کسی بہانے جمال اسے وہاں سے نکال کر لے جاتا اور جونہی وہ اکیلے ہوتے وہ اپنے مخصوص معصوم انداز میں وہی بات چھیڑ لیتا۔

“ یار ایلی “ وہ چلاتا۔ “ وہ اتنی شوخ ہیں اتنی نڈر کہ حد ہو گئی۔ اعلانیہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ سلام کرو تو اعلانیہ جواب دیتی ہیں حالانکہ اس وقت اور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ حد ہو گئی یار۔ آج تو دونوں نے بال کھول رکھے تھے۔ اتنے لمبے بال جیسے کسی بال تیل کا اشتہار ہوں۔ یہاں سے وہاں تک اور پھر اتنے کالے اتنے کالے اور ان کالی زلفوں میں اتنے گورے چہرے حد ہو گئی ایلی بالکل جیسے کچی گری کی بنی ہوئی ہوں۔ یار ایلی“ وہ اس کے شانے پکڑ کر کہتا۔ “ اب میں کیا کروں۔“

ایلی کو بھی جمال کی یہ باتیں بے حد پسند تھیں۔ سارے ناؤ گھر میں صرف جمال ہی واحد ہستی تھی۔ جس کے روبرو ایلی کی حیثیت پیدا ہو جاتی تھی۔ جمال کے پاس جا کر دفعتاً وہ احمق سے سیانا بن جاتا اور ان پڑھ سے عالم ہو جاتا۔ ایسی صورت میں اسے جمال کی باتیں کیوں نہ پسند ہوتیں اور جمال کا بار بار کہنا یار ایلی تم ہی کچھ کرو گے تو بات بنے گی۔ تمہارے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ کچھ کرونا ایلی۔ کچھ ہو جائے۔ اب تو یہ دوری مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔ کیا کروں میں کیا کروں۔

جمال کو یہ معلوم نہیں تھا کہ رات کو جب وہ ایلی کو نیم چھتی میں‌ چھوڑ کر اپنے چوبارے میں چڑھ جاتا ہے تو سیڑھیوں میں سے چھن چھنانن کی آواز آتی ہے اور پھر چھن سے کوئی ایلی کے روبرو آ کھڑی ہوتی ہے اور ایلی کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ اور وہ حواس گم قیاس گم کے مصداق یوں اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے جیسے دیوی کی آمد پر باندیاں عزت اور احترام سے کھڑی ہو جاتی ہیں اور پھر وہ حسرت بھری نگاہ سے ان کے بلوری پاؤں کی طرف دیکھتا ہے دیکھے جاتا ہے۔ اسے ہمت نہیں پڑتی کہ نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھے جہاں گلابی چاند جگمگا رہا ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ بلوری قدموں پر اپنا سر رکھ کر رو دے۔ آنکھیں ملے اور کہے “ دیوی میں تمہارے لائق نہیں ہوں۔ لیکن کیا کروں۔ کیا کروں۔“

جمال کو معلوم نہیں تھا کہ گوریوں سے قرب حاصل کرنے کے لیے جس پر اس نے تمام امیدیں استوار کر رکھی تھیں، اس میں اتنی حرارت نہ تھی اتنی سوجھ بوجھ نہ تھی کہ تخلیئے میں بھی قرب حاصل کر سکتا۔ الٹا تخلیئے میں وہ اور تھی دور ہو جاتا اور کوششوں اور تدابیر کے باوجود گوری کو اپنا نہ بنا سکا تھا جو اعلانیہ اس کی ہو چکی تھی۔

جمال کی موجودگی میں ایلی کو بھی یہ تفاصیل بھول جاتی تھیں۔ گھڑی کی جھوٹی عظمت حاصل کرنے کے لیے وہ شہزاد کو بھی بھول جاتا۔ وہ شہزاد جو اس کے لیے زندگی تھی۔ سبھی کچھ تھی۔ جس کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔

جمال کی وہ بات بتنگڑ کی حیثیت اختیار کرتی گئی۔ اس کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ اس کے قہقہے اور کھجانا شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ وہ گوریاں جو اتنی دور رہتی تھیں اور جن کی حیثیت محض ایک قصہ کہانی کی سی تھی قریب آتی گئیں اور قریب اور قریب حتٰی کہ وہ نیم چھتی اور چوبارے پر مسلط و محیط ہر کر رہ گئیں۔ بن دیکھے بن جانے ایلی ان سے اس حد تک مانوس ہو گیا جیسے وہ بھی اس کے ساتھ ناؤ گھر میں رہتی ہوں۔ مثلاً ایلی کو معلوم تھا کہ ان کی چال کیسی ہے، ان کے بال کس طرح گردن پر لٹکتے ہیں، انکی چوٹیاں کیسے بل کھاتی ہیں۔ ان کے دوپٹے کس رنگ کے ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں کس طرح لہراتے ہیں اور ان کی آنکھیں کن کن زاویوں سے دیکھتی ہیں۔ ان میں کیسی کیسی چمک لہراتی ہے۔ ان کی ناکیں کتنی لمبی ہیں اور دہن کتنے چھوٹے۔ ان کے متعلق کوئی بات بھی تو نہ تھی جو جمال نے تفصیل سے ایلی کو نہ بتائی تھی۔ صرف ایک عقدہ باقی تھا جو جمال حل نہ کر سکا تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ کون کونسی ہے اور اس بارے میں ایلی بھی اس کی مدد نہ کر سکتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

میل کرانی

ایلی تو اس معاملے میں جمال کی مدد نہ کر سکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں جمال اس بات پر مصر تھا کہ ایلی کے بغیر اسے گوریوں سے قرب حاصل نہیں ہو سکتا اور وہ اس خلوص اور یقین کے ساتھ بار بار یہ بات دہراتا رہا کہ ایلی کی بے تعلقی کے باوجود اس کے احساس کمتری کے باوجود ایلی سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ کس طریقے سے وہ جمال کی آرزو پوری کر سکتا ہے۔ کئی ایک روز وہ سوچتا رہا لیکن کوئی بات اس کے ذہن میں نہ آئی۔ آخر ایک روز جب وہ نیم چھتی میں پڑا سلیمانی ٹوپی کے متعلق سوچ رہا تھا کیونکہ انہیں ایام میں اس نے ایچ جی ویلز کا ناول “ دی ان وزیبل مین “ ختم کیا تھا کہ دفعتاً اس نے آنکھ اٹھائی تو کھڑکی میں ارجمند کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں پریم پتر تھا اور ہونٹوں سے پریم سندیس لگی ہوئی تھی۔ چند ایک ساعت تو وہ کرشن کنہیا کی طرح مسکاتی آنکھوں سے کھڑا مرلی بجاتا رہا پھر مرلی کو ہونٹوں سے الگ کر کے بولا۔

“ ارے نام روشن کرو نہ کرو پرنتو اپنے گرو کی لاج تو رکھ لو۔ ایک کلی میں کھو جائے بیٹا تو بھنورے کا کلیان نہیں ہوتا۔ دھرم پالن نہیں ہوتا۔“ نروان نہیں ملتا۔ کلی کلی پتر کلی کلی اور بیٹا کنہیا کے پردے کا دوار کھٹکھٹانا ہو تو ------“ ارجمند مسکرایا اور اس نے پتر والا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ “ پریم پتر۔ پریم پتر سے کواڑ کھل جاتے ہیں۔ مندر میں دیوتا براجمان ہو جاتا ہے اور پتر پہنچانا کیا مشکل ہے۔ تم نے تو اپنے گرو کا اپمان کر رکھا ہے۔“

ایلی اٹھ بیٹھا۔ پریم پتر وہ سوچنے لگا۔ پھر وہ کھڑکی میں جا کھڑا ہوا اور اس مکان کی طرف دیکھنے لگا جہاں گوریاں رہتی تھیں۔ اس نے اس مکان کی طرف کئی بار غور سے دیکھا لیکن اسے وہاں کوئی بھی تو جگہ نظر نہ آتی تھی جس کی راہ مکینوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کی بیرونی دیواریں حصار کی طرح کھڑی تھیں۔ کھڑکیاں بند تھیں۔ وہ کھڑکیاں ہمیشہ ہی بند رہتی تھیں۔ کیونکہ اس جانب مکان کا پچھواڑا تھا۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ نہ جانے وہ کتنی دیر تک وہاں کھڑا سنسان گلی کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مکان کا عقبی دروازہ کھلتے دیکھ کر وہ چونکا۔ نہ جانے کون ہے۔ ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر کی عورت کو باہر نکلتے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔ وہ کولہے مٹکاتی ہوئی ناؤ گھر کی جانب آ رہی تھی۔ ارے اس کے ہاتھ میں تو جھاڑو تھا۔ مہترانی ہے۔ بڑی مٹک مٹک کر چلتی ہے۔ ہائیں حیرت سے اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مہترانی ناؤ گھر میں داخل ہو چکی تھی۔ ارے مہترانی ---- اسے یہ بات کیوں نہ سوجھی۔

“ ہوں “ سامنے درخت کے پتوں سے ارجمند جھانکنے لگا۔ “ بیٹا یہ تو انکرانیڈی کا پہلا سبق ہے۔ اسے مہترانی نہ سمجھو۔ اینٹ البحر میں اس کا نام “ میل کرانی“ ہے۔ جب تک اپنی جنم بھومی میں میل کرانی موجود ہے۔ بھنوروں کو غم کس بات کا۔“ پھر اس نے مرلی ہونٹوں سے لگا لی اور پریم ودیا میں کھو گیا۔

ایلی جانتا تھا کہ چند ایک منٹ بعد مہترانی نچلی منزل میں صفائی کرنے کے بعد اوپر آئے گی۔ چونکہ بیت الخلا اوپر ہی تھا۔ لیکن اس سے بات کرنا، ایلی میں اتنی جرات نہ تھی۔ اگر اس نے جواب میں الٹی سی بات کہہ دی، اگر اس نے شور مچا دیا تو جاہ کیا کہے گا، بھا لاحول پڑھے گا اور پھر اس سے کس انداز سے بات کی جائے، اونہوں یہ ایلی کے بس کا روگ نہ تھا۔ لیکن اسے خیال آیا بات کرنے میں تو جمال کا جواب نہ تھا، خصوصاً اس قسم کی بات۔ اس نے جلدی جلدی سلیپر پہنے اور چوبارے کی طرف بھاگا۔

“ میں نے کہا۔“ وہ چلایا “ وہ آ رہی ہے۔“

“ آ رہی ہے؟“ جمال نے حیرت سے اس کر طرف دیکھا۔ “ کون آ رہی ہے؟“

“ بھئی وہی۔“ ایلی نے کہا “ مہترانی۔“

“ مہترانی ----- ؟“ جمال نے پوچھا۔

“ ہاں ہاں ہماری مہترانی۔“

“ اچھا۔“ جمال کی باچھیں کھل گئیں۔ “ کیا وہ نوجوان ہے؟“

“ ارے نہیں یار۔“ ایلی نے غصے سے کہا۔

“ تو پھر“ جمال نے حیرانی سے پوچھا۔

“ ارے بھائی یہی مہترانی ان کے گھر کام کرتی ہے۔“

“ ان کے گھر؟“ جمال نے حیرت سے ایلی کرطرف دیکھا۔

“ گوریوں کے گھر۔“ وہ بولا۔

“ اچھا۔“ جمال نے خوشی سے تالی بجائی۔ “ کیا واقعی؟“

“ ہاں ہاں “ ایلی نے کہا۔

“ میں نے تو اسے کبھی دیکھا بھی نہیں۔“

“ تو دیکھ لو نا اور بات بھی کر لو۔“

“ بات؟ کیا بات کروں میں اس سے پوچھوں میں کون کونسی ہے۔“

“ تم بھی بیوقوف ہو۔“ ایلی نے سیانے کا پارٹ ادا کرنا شروع کر دیا۔

“ پہلے اس سے ادھر ادھر کی بات کرو، ویسے ہی گپ شپ اور اگر دیکھو کہ بات چیت کرنے والی ہے تو ----“ ایلی خاموش ہو گیا۔

“ تو کیا؟“

“ تو اسے کہو کہ تمہارا خط پہنچا دے ان تک۔“

“ خط؟“ جمال چلایا۔ اس کا چہرہ یوں چمکنے لگا جیسے کسی بچے کو نیا کھلونا مل جاتا ہے لیکن ایلی نے سیانوں کی طرح احتیاطی تدبیروں کی وضاحت شروع کر دی۔

“ لیکن آج ہی بھانڈہ نہ پھوڑ دینا۔ آج تو ٹٹولو اسے۔“

عین اس وقت سیڑھیوں میں مہترانی کے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔

“ اچھا تو میں باہر کوٹھے پر جاتا ہوں۔ تم یہیں بیٹھے رہنا۔“

“ یہیں بیٹھا رہوں ----- “ ایلی کا دل ڈوب گیا۔ نہیں نہیں میں چلتا ہوں۔“

“ ارے نہیں۔“ جمال نے کہا “ مجھے اکیلا نہ چھوڑو۔“

“ اونہوں۔“ ایلی نے کہا “ ایسی باتیں اکیلے میں کی جاتی ہیں۔ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ اندر کوئی سن رہا ہے تو اس پر لازم ہر جائے گا کہ اپنی پاکبازی کا ڈھونگ رچا بیٹھے۔“

“ سچ۔“ جمال نے کہا “‌بات تو ٹھیک ہے۔“

“ ہاں ہاں۔“ ایلی بولا۔ یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔ نیم چھتی کے دروازے کے قریب مہترانی آ رہی تھی۔ ایلی نے اسے دیکھ کر بظاہر آنکھیں جھکا لیں اور کنکھیوں سے دیکھنے لگا۔ ادھیڑ عمر کی عورت ہونے کے باوجود اس کا بانکپن واضح تھا۔ اس میں مرچیلا پن تھا اور نگاہ میں بےباکی کی جھلک تھی۔ گھبرا کر وہ نیم چھتی میں‌ داخل ہو گیا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ نہ جانے کیا ہو گا اگر اس نے جمال کو تھپڑ مار دیا تو اگر۔۔۔ جاہ کیا کہے گا۔ جاہ کے ہونٹ حقارت سے کھل جائیں گے اور پال کی ناک سوج کر پکوڑہ ہو جائے گی اور وہ دونوں مل کر کہیں گے ہاں بھئی ایلی کا دوست تھا نہ وہ۔ ایسی حرکت کر دی تو کیا تعجب ہے۔

جب مہترانی چلی گئی تو جمال بھاگا بھاگا ایلی کے پاس آیا۔

“ یار “ وہ بولا “ وہ تو سمجھو پہلے سے ہی گرم ہے۔ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ تم تو مجھے خواہ مخواہ ڈرا رہے تھے۔“

“ کس طرح بات کی تھی تم نے“ ایلی پھر سے سیانا بن کر بیٹھ گیا۔

“ کچھ بھی نہیں، میں نے کہا تھا، جمعدارن اگر جو چوبارے کے سامنے کا کوٹھا بھی صاف کر دیا کرو تو کیا حرج ہے۔ تمہارا تو کچھ نہیں بگڑے گا اپنی بات بن جائے گی۔“

اس پر وہ تنک کر کہنے لگی “ دیتے تو کل دو روپے ہیں اور کہتے ہیں سارا گھر صاف کرو۔ واہ جی۔“

“ چلو کر دیا کرو۔“ میں نے ہنس کر کہا۔

“ نہ جی۔“ وہ بولی۔ “ اتنا سارا کام ہوتا ہے۔ زائد کام کرنے لگیں تو کھائیں کیا۔“

“ اچھا “ میں نے برا سا منہ بنا لیا “ تو مجھ سے بھی ایک روپیہ لے لیا کرو۔“ یہ کہہ کر میں نے ایک روپیہ جیب سے نکال کر دیوار پر رکھ دیا۔ میں نے سوچا جو ہتھیلی پر رکھا تو بدک نہ جائے۔ اس نے برا سا منہ بنایا اور چوبارے کے سامنے جھاڑو دینے لگی۔ پھر وہ آپ ہی آپ کہنے لگی۔ “ لو یہ تو چوبارہ بھی صاف نہین کیا کسی نے کبھی۔“

“ تو کیا میں خود جھاڑو دیا کروں۔“ میں نے ہنس کر پوچھا۔

اس پر ذرا مسکرائی، بولی “ اچھا تو میں کر دیتی ہوں صاف۔“ اس پر میں نے دہائی مچا دی۔

“ نہ نہ بابا۔“ میں بولا “ میں تو غریب آدمی ہوں ایک روپیہ اور کہاں سے دوں گا۔“ اس پر وہ بالکل ہی ہنس دی، بولی “ نہیں میں اور نہیں مانگتی۔“ لیکن میں نے اسے ایک اور روپیہ دے ہی دیا۔ میں نے کہا “ نہ بھئی تمہارا حق تو میں دے کر رہوں گا۔“ اور، اور ایلی میں نے دل میں کہا سالی اب تو رام ہو جائے گی نا۔ وہی ہوا۔ ہو ہنس ہنس کر مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ اس کا نام گجری ہے۔ بچہ وچہ کوئی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں بڑی گرم ہے۔ ایمان سے اور ہے بھی تو اچھی خاصی۔“ جمال کھجاتے ہوئے بولا۔

“ کیا گوریوں کی بات کی۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ خود ہی تو منع کیا تھا تم نے اور اب خود ہی پوچھتے ہو مجھ سے۔“

“ اچھا کیا تم نے “ ایلی بولا۔

جمال ہنسنے لگا “ یار میرا خیال ہے کام بن جائے گا۔“

دوسرے روز ہی جمال ہنستا ہوا ایلی کے پاس آیا۔ “ میں نے کہا یار۔“ وہ بولا۔

“ مجھے ایک خط لکھ دو نا۔“

“ خط۔“ ایلی نے پوچھا۔ “ کیسا خط“

“ وہی خط۔“ جمال نے کہا۔ “ گجری مان گئی ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔

“ گجری؟“

“ وہی مہترانی۔ اس کا نام گجری ہے۔ کیا نام ہے، ہے نا۔“

“ مان گئی ہے۔“ ایلی نے دہرایا۔

خواہ مخواہ کا منشی

“ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے۔“ جمال نے کہا۔ “ اگر تم یہ راستہ نہ سمجھاتے تو مجھے کبھی خیال ہی نہ آتا۔ مجھے معلوم تھا تم کچھ نہ کچھ کرو گے۔ تمہاری مدد کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی ایمان سے۔“ اس نے ایلی کے شانے پکڑ لیے اور فرطِ محبت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ “ اب لکھ دو نا ایک خط کل بھیجنا ہے۔“

“ میں لکھوں۔“ ایلی چلایا۔

“ اور کون لکھے گا۔“

“ تم خود لکھو نا۔“

“ نہیں یار میں اناپ شناپ لکھ دوں گا۔ پڑھ کر وہ کیا کہیں گی۔“

“ میں نے تو کبھی نہیں‌ لکھا محبت کا خط۔“

“ نہیں یار۔“ جمال اس کی منتیں کرنے لگا۔ “ تم لکھ سکتے ہو۔ ایسی ایسی باتیں لکھو کہ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں۔“

اس روز سارا دن جمال ایلی کے گلے کا ہار بنا رہا۔ “ یار لکھ دو نا، لکھ دو نا یار۔“ ایلی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھے۔ اس نے زندگی میں صرف ایک محبت نامہ لکھا تھا۔ وہ بھی ارجمند کی مدد سے جو انہوں نے صبورہ کے جوتے میں رکھ دیا تھا۔ توبہ کتنا ہنگامہ ہوا تھا۔ جب بھی اس کا خیال آتا تو ایلی کو پسینہ آ جاتا تھا اور وہ خط تھا بھی تو بے حد واہیات۔ اس خط کے خیال سے ایلی کو بے حد شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ نہیں نہیں وہ سوچتا میں نہیں لکھوں گا۔ میں کیوں لکھوں؟ جسے کبھی دیکھا تک نہ ہو کیا اسے محبت نامہ لکھا جا سکتا ہے۔ نہ جانے وہ کون ہیں، کیسی ہیں اور پھر کیسی بھی ہوں، مجھے ان سے کیا لینا دینا۔ میں خواہ مخواہ میں‌ کیا منشی ہوں ان کا۔ واہ۔ خواہ مخواہ کا منشی سمجھ رکھا ہے کای۔ لیکن ایلی کے دل کے کسی عمیق ترین کونے میں یہ آرزو چھپی بیٹھی تھی کہ وہ ان پُراسرار گوریوں کو خط لکھے۔ جو اتنی چٹی سفید تھیں۔ جو ہنسے جاتی تھیں، جن میں اس قدر جرات تھی۔ ایسا خط لکھے یہ وہ پاگل ہو کر باہر نکل آئیں۔ گلی کی کھڑکیاں کھول کر ان میں آ کھڑی ہوں اور، لیکن اس کے ذہن میں کوئی بات نہ آتی تھی۔

جمال مسلسل اصرار کئے جا رہا تھا “ لکھو نا یار۔“ ایلی کو لکھنے سے ڈر آتا تھا۔ چونکہ لکھنے کے لیےاس کے ذہن میں کچھ بھی تو نہ تھا۔ اس زمانے میں اس نے کئی ایک نظمیں اور غزلیں تو پڑھی تھیں اور کئی ایک تو اسے حفظ تھیں۔ مثلاً وہ تھی اکثر شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے، لیکن وہ تو گزری ہوئی دلچسپی کی یاد تھی۔ پھر وہ تھی مجھے تجھ سے عشق نہیں، نہیں لیکن یہاں تو عشق ہے، ہے کی ضرورت تھی۔ پھر وہ نظم تھی۔ ابھی تو میں جوان ہوں یا فرصت کی تمنا میں اور یا وہ خوبصورت نقش ماتھے پہ بندی آنکھ میں جادو۔

وہ سب موقعہ کی چیزیں نہ تھیں۔ اس روز اسے احساس ہو رہا تھا کہ شاعر کتنی بے موقعہ چیزیں لکھتے ہیں۔ نہیں، اس نے فیصلہ کیا۔ کیوں لکھوں۔ خود ہی لکھے وہ۔ وہ تو ہر ہفتے اپنی بیوی کو محبت نامہ لکھا کرتا ہے۔

“ نہیں نہیں۔“ جمال کہنے لگا۔ “ بیوی کو خط لکھنا اور ہوتا ہے۔ وہ چیز ہی اور ہے یار، تمہیں معلوم نہیں۔“ جمال پھر اس کی منتیں کرنے لگا۔

رات بھر ایلی سوچتا رہا لیکن اسے کوئی بات نہیں سوجھی۔ آخر تھک کر اس نے ایک پرزے پر ایک جملہ اور ایک شعر لکھا اور پھر سو گیا۔

صبح سویرے ہی جمال نے اسے آ جگایا۔ “ لکھ لیا یار۔“ وہ بولا۔

“ ہاں “ ایلی نے وہ پرزہ سرہانے سے نکال کر اسے دے دیا۔

“ ارے “ جمال چلایا۔ “ بس اتنا۔“

دفعتاً سیانا بیدار ہوا۔ “ اور کیا۔ “ ایلی نے کہا‘ “ بھی پہلی مرتبہ تو لمبے قصے نہیں چلتے۔“

“ واہ “ جمال نے کہا “ پہلی مرتبہ ہی تو اثر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“

“ تم تو پاگل ہو۔ پہلی مرتبہ تو صرف دیا سلائی دکھائی جاتی ہے۔ آگ تو بعد میں لگانی چاہیے۔ تمہیں کیا معلوم۔“

“ اچھا یار۔“ جمال کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ “ تم جو کہتے ہو تو ٹھیک ہی ہو گا۔“

“ تم پڑھو تو سہی۔“ ایلی نے کہا۔ جمال اسے پڑھنے لگا۔

“ گوریو کچھ کہو کچھ سنو۔ یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہو۔ واہ۔“

“ ارے۔“ جمال چلایا، “ اس میں تو شعر بھی لکھا ہے تم نے۔

یہ ہے دامن یہ گریباں آؤ کوئی کام کریں
موسم کا منہ تکتے رہنا کام نہیں دیوانوں کا

جمال نے کہا۔ “ اس مطلب کیا ہوا؟“

“ تم چھوڑو مطلب وطلب کو۔ “ ایلی نے کہا “ تمہیں آم کھانے ہیں، پیڑ گننے سے کیا کام۔“

“ اچھا۔“ وہ جوش میں کھجانے لگا اور پھر بولا “ اچھا یار میں یہ نقل کر کے بھیج دوں گا۔ تو سچ کہتے ہو پہلے خط میں لمبی بات نہیں ہونی چاہیے۔ یار ایلی اگر تم نہ ہو تو یہ باتیں مجھے کون بتائے۔“ جمال نے فرطِ محبت اور انبساط سے ایلی کے شانے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ “ اچھا میں اب جا کر لکھتا ہوں۔ ایسا اچھا کاغذ اور لفافہ خرید کر لایا ہوں میں کہ دیکھ کر طبیعت خوش ہو جائے اور پھر سینٹ کی شیشی بھی۔ معطر کر کے بھیجوں گا۔“

“ ارے رے رے ایسا نہ کرنا۔“ ایلی چلایا۔

“ کیوں “ جمال گھبرا گیا۔

“ میرے یار تو پٹوا کر رہے گا اپنی گوریوں کو۔“

“ کیوں “

“ ایک تو پرزے پر لکھنا۔ معمولی سے پرزے پر اور وہ کٹا ہوا نہ ہو بلکہ پھٹا ہوا ہو۔ اور دوسرے لفافے میں نہ ڈالنا۔“

“ وہ کیوں “

“ بھئی اگر کسی کے ہاتھ بھی لگ جائے تو خط معلوم نہ ہو۔“

“ اچھا ----- “ جمال کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ “ اور وہ سینٹ اور لفافے۔“

“ جب بات چل نکلے گی۔ تب، اب کی بار تو پرزہ ہی تھما دو۔“

“ اچھا یار “ کہہ کر جمال چلا گیا۔ لیکن اسے ایلی کی یہ بات اچھی نہ لگی۔

اگلے روز جمال فاتحانہ انداز سے داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک رنگین لفافہ تھا۔ “ یہ دیکھو “ اس نے گلابی لفافہ دکھایا۔ جس پر سنہری لکیر لگی ہوئی تھی۔ پھر جھٹ سے چھپا لیا۔

“ دیکھا “ وہ بولا۔

“ ہوں “ ایلی نے بے تعلقی سے کہا۔ “ اب تو خوش ہو نا۔“

“ اور کیا تم نہیں۔“ اس نے مضطربانہ انداز سے پوچھا۔

“ مجھے اس میں نہ گھسیٹو۔“ ایلی نے کہا۔

“ کیوں “

“ اونہوں “

“ میں نے کہا “ جمال چمک کر بولا “ وہ دو ہیں اور اگر تم بھی میدان مٰن آ جاؤ تو۔ اگرچہ میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کو بھی ہاتھ سے جانے دوں ایمان سے کہتا ہوں ایلی۔ نہ جانے کیا ہے مجھے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ دونوں سے عشق لڑاؤں۔“

“ تو لڑاؤ۔“ ایلی نے ہنس کر کہا۔

“ تم نے برا تو نہیں مانا ---“

“ نہیں تو۔“

“ لیکن یار تمہارا درمیان میں ہونا ضروری ہے۔“

“ وہ تو میں ہوں ہی۔“ ایلی نے کہا۔ “ ہے نا۔“

“ ہاں ہو تا سہی لیکن اس ہونے اور اس ہونے میں بڑا فرق ہے۔“

“ وہ ہونا مجھ سے نہ ہو سکے گا۔“

“ لیکن کیوں۔“ جمال تڑپ کر بولا۔

“ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔“

“ آخر کیوں نہیں؟“

“ معلوم نہیں۔“ ایلی نے آہ بھر کر کہا۔ اس وقت اس کے سامنے شہزاد کھڑی تھی۔

“ عجب آدمی ہو تم بھی۔“

“ جو ہے حاضر ہے کیا کیا جائے۔“

“ یہ دیکھو کیا لکھا ہے انہوں نے۔ یار بڑی جرات ہے ان میں اور پھر ایلی ----- “ وہ رک گیا۔

“ ہوں “

“ وہ تو بڑی اونچی باتیں کرنے والی معلوم پڑتی ہیں۔ اپنے لیے بڑی مشکل ہو جائے گی۔“

“ تو کیا میں نے کہا تھا کہ اونچی باتیں کرنے والیوں سے عشق لگا لو۔ اب جو لگایا ہے تو نبھاؤ۔“

“ لیکن خط تو تمہیں ہی لکھنا ہو گا نا۔“

“ نہ بھئی یہ بات مشکل ہے۔“ ایلی نے کہا۔

جمال نے برا سا منہ بنا کر لفافہ ایلی کے سامنے رکھ دیا۔ لفافے کے اوپر لکھا تھا “ سنہرے بالون اور شریر آنکھوں کے نام ۔۔۔۔ “

“ کیوں بھئی سنہرے بال۔“ ایلی نے جمال سے کہا۔ “ آنکھوں سے شرارتیں کرتا ہے اور قلم اٹھانے سے ڈرتا ہے۔ “ ایلی نے یہ کہتے ہوئے لفافے مین سے کاغذ نکالا۔ لکھا تھا “ ہم سنتی ہیں، آپ کہیں، موسم تو الٹا موزوں ہے۔“

“ ارے “ ایلی تعجب سے چلایا۔ “ بڑا چست جواب دیا ہے۔“

“ ہو گا ہمیں تو یار سست کر دیا اس جملے نے۔ اب اس کا جواب کون لکھے گا۔ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کچھ اور تم پلو چھڑا رہے ہو۔“ جمال بولا۔

“ ہاں بھئی “ ایلی نے جواب دیا۔ “ یہ تو بڑی مشکل پڑ گئی۔ میرا خیال تھا کوئی سیدھی سادی بات لکھیں گی۔“

“ تم نے شروع میں بات الٹی چلائی ہے۔ اب تم ہی سنبھالو گے تو سنبھلے گی۔ اپنا کام تو بھائی اس وقت شروع ہو گا جب آمنے سامنے کھڑے ہوں گے۔“

“ اس کے جواب میں تو عام محبت نامہ نہیں لکھا جا سکتا۔“ ایلی نے کہا۔

“ تو بھائی لکھو جو جی میں آئے لکھو۔“ جمال بولا۔

“ لیکن مختصر ہی ہو سکتا ہے۔“

“ مختصر ہی سہی یار، تم لکھو تو۔ بات رک نہ جائے۔“

“ اچھا “ ایلی نے کہا “ لکھ دوں گا۔“

جمال کے چہرے پر بشاشت دوڑ گئی۔

اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا۔ ایلی سوچ سوچ کر دو ایک چست اور چمکیلے جملے گڑ کر جمال کو دے دیتا۔ جمال رنگین معطر کاغذ پر انہیں نقل کر دیتا اور پھر گجری کے انتظار میں بیٹھ جاتا۔ جب دوپہر ڈھلنے لگتی تو جمال چوبارے سے نکل کر برساتی میں جا بیٹھتا چونکہ برساتی سے وہ انہیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر شام تک وہ ایک دوسرے سے اشارے کرتے رہتے۔ اگلے روز صبح سویرے ہی وہ دونوں جمال اور ایلی بے صبری سے جواب کا انتظار کرتے اور پھر اسے پڑتے، سمجھنے کی کوشش کرتے۔

“ ارے یہ تو فارسی کے شعر لکھتی ہیں۔“ ایلی نے دوسرے خط پر شور مچا دیا۔ وہ فارسی میں کورا تھا۔ “ اب بتاؤ “ وہ بولا “ اب تو کسی مولانا کو ساتھ ملانا پڑے گا ورنہ نہ ہماری سمجھ میں آئے گا نہ جواب سوجھے گا۔“

“ میں بتاؤں۔“ جمال کہنے لگا۔“ ایک لغت کیوں نہ خرید لیں۔“

“ تو کیا میں سارا دن معانی دیکھتا رہوں گا۔“

“ بھا سے پوچھ لیا کرنا۔ اسے کیا معلوم کہ خط میں لکھا آیا ہے شعر۔“

تیسرے خط میں گوریوں نے سنہرے بالوں شریر آنکھوں تانک جھانک اور ان اشاروں کے متعلق جو جمال کیا کرتا تھا، ایک نظم لکھ بھیجی۔

“ ارے “ ایلی چلایا “ یہ تو شاعر بھی ہیں۔ اب بولو۔“ لیکن اس کے باوجود ایلی کو ان کے خطوط کے جواب لکھنے میں مزا آنے لگا تھا۔ وہ ہر بات میں نکتہ پیدا کرتی تھیں اور ہر لطیف سے لطیف اشارے کو خوب سمجھتی تھیں۔

“ نہیں یار۔“ جمال گھبر گیا۔ “ تمارا ان سے تعارف کرائے بغیر کام نہ چلے گا۔ یہ تو اب کرنا ہی ہوگا۔ آج ہی سہی۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

کال کلوٹا

ایلی نے دو ایک بار تو انکار کیا۔ پھر خاموش ہو گیا۔ دراصل دل ہی دل میں وہ چاہتا تھا کہ ان کو دیکھے۔ ان کے قریب تر ہو جائے۔ وہ چاہتا تھا کہ جمال زبردستی اسے کھینچ کر ان کے سامنے لے جائے۔

اس لیے اس روز دوپہر ڈھلنے کے وقت جمال ایلی کے انکار کے باوجود اسے کھینچتا ہوا برساتی میں لے گیا تو اس نے سرسری ضد کرنے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ حتٰی کہ وہ ان کھڑکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

“ وہ سامنے مکان کی عقبی دیوار ہے نا۔“ جمال اسے سمجھانے لگا۔ “ اس میں اینٹوں کی جالی بنی ہے۔ یہ جالی ان کی سیڑھیوں میں ہے۔ جالی کے عین سامنے دروازہ ہے۔ جس کے پرے ان کیا کوٹھا ہے۔ دروازہ کھلا ہو تو جالی میں سے صاف دکھائی دیتا ہے اور اگر بند ہو تو جالی اندھی ہو جاتی ہے۔ لو دیکھو۔“ اس نے ایلی سے کہا۔ “ وہ سامنے کھڑی ہے ایک حرامزادی مارک ٹائیم کر رہی ہے۔ بڑی شریر ہیں یہ۔“ جمال ہنسنے لگا۔

پھر جمال نے عجیب سے اشارے کرنے شروع کر دیئے۔ ایلی کے کندھوں پر بازو رکھ کر اسے اپنے قریب تر کھینچ لیا۔ وہ اشاروں کی مدد سے گوریوں کو سمجھانے لگا۔ یہ میرا عزیز ترین دوست ہے۔ اس میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔

ایلی کو بھی دھندلی دھندلی اشکال دکھائی دینے لگی تھیں۔ جیسے فضا میں دھبے سے تیر رہے ہوں۔

دفعتاً جمال چلایا۔ “ ارے انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔“

ایلی نے دیوار کی جالی کی طرف دیکھا۔ وہاں تو مسلسل دیوار کھڑی تھی۔ “ یہ کیا حماقت ہے۔ جمال چلایا۔

“ چھوڑو یار“ ایلی بولا ------ وہ ہاتھ چھڑا کر نیم چھتی میں جا بیٹھا۔

اگلے روز غیر متوقع طور پر گجری گوریوں کا خط لائی۔ حالانکہ اس روز جمال نے خط بھیجنا تھا۔ لکھا تھا۔

“ کل آپ ایک کال کلوٹے کو کھینچ کھینچ کر ہمارے سامنے لا رہے تھے۔ یہ کیا حماقت ہے۔ آپ نے ہمیں سمجھا کیا ہے۔ آئندہ سے ایسی حرکت نہ فرمائیے گا۔“

ایلی خط پڑھ کر قہقہہ مار کر ہنسا “ دیکھا “ وہ غصے میں چلانے لگا “ تم کہتے تھے میں تمہارا تعارف کرا کے رہوں گا۔ ہونہہ ہو گیا نا تعارف۔“ اس نے جمال کو ڈانٹا اور پھر ہنسنے لگا۔ لیکن دو ایک قہقہے لگانے کے بعد دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ اس کا دل بیٹھ رہا ہے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا رہا ہے۔

رات کو جب وہ نیم چھتی میں لیٹا ہوا تھا تو سیڑھیوں میں شہزاد کھڑی تھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ “ یوں گہری سوچ میں ڈوبنے سے فائدہ؟ فکر کرنے یا غم کھانے سے تم گورے تو نہ ہو جاؤ گے۔“

“ تمہیں کیا“ ایلی نے کھڑکی کی طرف منہ موڑ لیا۔ لیکن اسے احساس تھا کہ وہ وہیں کھڑی ہے، ویسے ہی مسکرا رہی ہے۔

کھڑکیوں کے عین مقابل میں سہ منزلہ بلڈنگ میں گوریاں قہقہے لگا رہی تھیں۔ “ کال کلوٹا‌“ ایک قہقہہ مار کر ہنسی “ اونہوں “ دوسری نے برا سا منہ بنایا۔ “ نہیں چاہیے نہیں چاہیے۔“

“ انہیں کیا معلوم “ سیڑھیوں میں شہزاد بولی۔

“ سنہرے بال، شربتی آنکھیں۔“ سہ منزلہ بلڈنگ سے کوئی چلائی۔

“ تم ان کی باتیں نہ سنو ایلی۔“ سیڑھیوں میں کسی نے آہ بھری۔ “ ابھی میلے پر جانے کا چاہ ہے۔ رنگ روپ کا دور ہے نا۔“

ایلی نے تڑپ کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا “ کیا تم رنگ روپ میں‌ مدہوش نہیں ہو۔ کیا تم میلے پر جانے جے لیے بیتاب نہیں ہو۔ بھول گئیں جب گانے کے لیے جاتی تھیں۔ یہ بری دیکھنے کے لیے بلاوہ آیا تھا۔“

“ تمہارا غصہ نہیں گیا ابھی “ وہ بولی۔ “ اچھا “ اس نے سر جھکا کر کہا۔ “ آخر آؤ گے ہی نا۔ کب تک بھاگے بھاگے پھرو گے۔ کب تک۔“ یہ کہہ کر وہ چل پڑی۔

ایلی تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ شہزاد کا پلو کھینچ لے، چلا چلا کر کہے “ نہیں نہیں مجھے ساتھ لے جاؤ۔ شہزاد میں بھاگ بھاگ کر اکتا چکا ہوں۔ بھگوڑے کو گھر لے چلو۔“ مگر وہ جا چکی تھی۔

اگلے روز صبح سویرے ایلی اپنے سوٹ کیس میں کپڑے لگا رہا تھا۔ ساماں اکٹھا کر رہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھا نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ “ کہیں جا رہے ہو ایلی ----؟ بھا نے پوچھا۔

“ نہیں تو۔“ ایلی چونک کر بولا۔

“ اچھا۔“ بھا نے کہا۔ “ چیزیں جو اس طرح سنبھال رہے تھے میں سمجھا۔۔۔۔“ یہ کہہ کر بھا اوپر چلا گیا۔ دفعتاً ایلی کو خیال آیا جیسے اسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی ہو۔ “ ہاں۔“ وہ بولا “ میں جاؤں گا۔ میں جاؤں گا۔ مجھے جانا ہی ہو گا۔ وہ میر انتظار کر رہی ہے۔ وہ مجھ سے مایوس ہو جائے گی تو ------ وہ کیا کہے گی۔ کیا کہے گی وہ نہیں نہیں میں جاؤں گا۔“ ۔۔۔۔۔۔ “ کہاں جاؤ گے۔؟ جمال نے داخل ہو کر پوچھا۔

“ علی پور جاؤں گا۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ ارے ارے نہ بھائی۔“ جمال چلایا۔ “ تم چلے گئے تو سارا معاملہ چوپٹ ہو جائے گا۔“

“ کون سا معاملہ؟“

“ وہی معاملہ اور کون سا۔ بڑی مشکل سے چالو ہوا ہے۔ یار اب اسے آدھے رستے چھوڑ کر نہ چلے جانا۔“

“ آدھے رستے کیوں۔“ ایلی نے غصے میں کہا۔ “ اب تو بات چل پڑی ہے۔“

“ نہ بھئی۔“ جمال نے اسے فرطِ محبت سے آغوش میں لے لیا۔ “ ابھی تو بات شروع ہوئی ہے۔“

“ تو کیا میں اسے چلانے کا ذمہ دار ہوں۔“

“ نہیں بھئی۔“ جمال ہنسنے لگا۔ “ ذمہ دار تو نہیں لیکن یار اگر نیا پار لگا دو تو یاد کروں گا ساری عمر۔ بس ایک مرتبہ ملاقات ہو جائے پھر میں سنبھال لوں گا۔ پھر چاہے چلے جانا۔“
 
Top