سیما علی
لائبریرین
علم کا طالب، کتابوں کا جوہری
مبشر علی زیدی
ٹیلی وژن اور صحافت میں طویل عرصہ کام کرنے کی وجہ سے میں بتا سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ آن اسکرین کچھ اور ہوتے ہیں اور آف اسکرین کچھ اور۔ عوامی زندگی میں کچھ اور، ذاتی زندگی میں کچھ اور۔ منبر پر کچھ تو نجی محفل میں کچھ اور۔
علامہ طالب جوہری کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں لیکن کسی رخ میں تصنع نہیں تھا۔ جیسی گفتگو مجلس کے خطاب میں کرتے تھے، ویسی ہی ٹیلی وژن کی تقریر میں۔ جو موقف عوام کے سامنے ہوتا تھا، وہی حکام کے سامنے۔ جس انداز سے علما سے مخاطب ہوتے تھے، اسی طرح مجھ جیسے طالب علم کے سامنے۔
علامہ صاحب کا روپ ایک ہی تھا لیکن میں نے انہیں مختلف زمانوں میں مختلف نگاہوں سے دیکھا۔
ایک زمانہ تھا جب وہ پی ٹی وی پر فہم القرآن کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔ اس کا آغاز 80 ء کے عشرے کے نصف اول میں ہوا ہو گا کیوں کہ تب میں خانیوال کے ایک پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا۔ ہر شام نشریات کا آغاز بصیرت نام کے پروگرام سے ہوتا تھا لیکن ہفتے میں ایک بار جو بصیرت علامہ صاحب کی گفتگو سے ملتی، وہ انمول تھی۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھنے کی تحریک مجھے ان کی تقاریر سے ملی۔
کراچی منتقل ہونے کے بعد 1985 کے محرم میں پہلی بار علامہ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انچولی سوسائٹی کا بارگاہ شہدائے کربلا ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ جہاں آج امام حسین کی ضریح کی شبیہ موجود ہے، وہاں شامیانہ لگا کر رات کے نو بجے مجلس منعقد کی جاتی تھی۔ چند سو افراد سے زیادہ کا مجمع نہیں ہوتا تھا۔
اس سال علامہ طالب جوہری نے سورہ فیل کی تفسیر پڑھی۔ میں نے منبر کے بالکل سامنے بیٹھ کر انھیں سنا۔ تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم اور ان کے علمی مرتبے سے ناواقف تھا۔ سچی بات ہے کہ پہلی مجلس میں ایک ٹی وی کی شخصیت کو دیکھنے کے شوق میں گیا تھا۔
خطاب ختم ہونے سے پہلے میں خود سے وعدہ کر چکا تھا کہ روز انہیں سننے آؤں گا۔ علامہ صاحب منبر سے اترے تو میں ان سے ہاتھ ملانے کو آگے بڑھا۔ لیکن یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ان کا قد مجھ سے بھی کم تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے چھوٹے قد پر دن رات کڑھتا تھا۔ اس کے بعد زندگی بھر کے لیے یہ رنج ختم ہو گیا۔
علامہ صاحب جیسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کی قامت میں منبر کی بلندی بھی شامل ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا کہ میں نے پاکستان میں ہوتے ہوئے علامہ صاحب کے عشرۂ محرم کی مجالس نہ سنی ہوں۔ وہ کسی سال ایک اور کسی سال دو عشرے پڑھتے تھے۔
طویل عرصے تک نشتر پارک کی مرکزی مجلس ان سے منسوب رہی۔ دوسرا عشرہ کبھی وہ انچولی میں پڑھتے اور کبھی رضویہ میں۔
بارگاہ شہدائے کربلا کراچی کے بڑے امام باڑوں میں سے ایک ہے۔ ہزاروں افراد اس میں سما جاتے ہیں۔ اس کے بعد بڑا احاطہ ہے۔ اسی احاطے میں مسجد خیر العمل ہے۔ ایسا دسیوں بار ہوا کہ میں گھر سے نکلا اور مجلس میں نہیں پہنچ سکا۔ امام بارگاہ، مسجد، احاطہ، رشید ترابی پارک، سڑکیں، گلیاں، سامنے کا میدان، سب کھچا کھچ بھرے ہوتے۔ ہر جگہ لاؤڈ اسپیکر لگا دیے جاتے تاکہ جو جہاں ہے، وہاں بیٹھ کر علامہ صاحب کا خطاب سن لے۔
تیس سال تک میں نے علامہ صاحب کو جب دیکھا، منبر پر دیکھا۔ انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں اور میں انھیں ایک ایک کر کے پڑھتا چلا گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ فقط ذاکر نہیں بلکہ مجتہد بھی ہیں۔ مجتہد وہ ہوتا ہے جو اجتہاد کر سکتا ہے، جو فتویٰ دے سکتا ہے۔ فقہ جعفریہ میں مجتہد بننے کے لیے عراق کے شہر نجف یا ایران کے شہر قم میں برس ہا برس تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔
علامہ طالب جوہری نے 27 اگست 1938 کو بہار کے شہر پٹنہ میں جنم لیا تھا۔ ان کے والد مصطفیٰ جوہر بہت بڑے عالم اور شاعر اہل بیت تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خانوادہ کراچی منتقل ہوا۔
طالب جوہری نے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم کے لیے نجف گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمیٰ ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ آیت اللہ علی سیستانی ان کے ہم جماعت تھے۔
اتفاق سے میں انچولی میں آٹھ سال تک علامہ طالب جوہری کا ہمسایہ رہا ہوں۔ ایک گلی میں ان کا گھر اور برابر والی گلی میں میرا قیام تھا۔ لیکن کبھی ان کی خدمت میں حاضری دینے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ایک بار لاہور میں علامہ احمد جاوید سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کراچی میں انچولی کے قریب رہتے تھے تو علامہ طالب جوہری سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔ اس گفتگو میں انھوں نے یہ بتا کر حیران کیا کہ علامہ صاحب مہمل شاعری کے ماہر ہیں اور انھوں نے پوری پوری غزلیں ایسی کہیں ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔
میں اکثر ادیبوں شاعروں سے ان کی کتابوں پر دستخط کرواتا رہتا تھا۔ علامہ احمد جاوید سے ملاقات کے بعد کراچی آکر میں نے علامہ صاحب کا ایک مجموعۂ کلام تلاش کیا اور دستخط کروانے ان کے گھر پہنچ گیا۔ علامہ صاحب سو رہے تھے۔ میں اپنی ایک کتاب اور ان کا مجموعہ کلام چھوڑ آیا۔
شام کو علامہ صاحب کی کال آئی۔ انھوں نے فوراً طلب فرمایا۔ میں پہنچا تو انھوں نے ایک دلچسپ کہانی سنائی۔
علامہ صاحب نے کہا کہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان سے کسی بات پر وہ خفا ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اخبار پڑھنا بند کر دیا تھا۔ چند دن پہلے ان کے ایک واقف آئے تو ان کے پاس اخبار کے چند تراشے تھے۔ یہ سو لفظوں کی کہانیاں تھیں جو انھوں نے علامہ صاحب کو پڑھ کر سنائیں۔ انھوں نے دریافت کیا کہ یہ کس نے لکھی ہیں؟ اس شخص سے ملواؤ۔ ان صاحب نے کہا کہ میں اس لکھنے والے سے واقف نہیں۔
پتا نہیں یہ اتفاق تھا یا علامہ صاحب کی زبان کا اثر کہ ادھر انھوں نے ملنے کی خواہش کی اور میں خود ان کے گھر پہنچ گیا۔
اس کے بعد میں جب تک پاکستان میں رہا، ہر کچھ عرصے کے بعد ان کے ہاں جاتا رہا۔ ان کی نجی محفل میں بھی علما آتے تھے اور کسی ایک مسلک کے نہیں، ہر مکتب فکر کے علما۔ مجھے جاتے ہوئے شرم آتی تھی لیکن پھر کسی دن علامہ صاحب کا فون آتا اور وہ کہتے، میاں کدھر ہیں آپ؟ جلدی سے آجائیں۔
فقط عالم دین ہونا بھی کم نہیں لیکن علامہ صاحب اس سے بہت بڑھ کر تھے۔ غیر معمولی شاعر تھے۔ ادب کے بے حد عمدہ پارکھ تھے۔ فلسفی تھے۔ تاریخ دان تھے۔ اور جس موضوع پر مجھ سے گفتگو کرنا پسند کرتے تھے وہ ان کا کتابیں جمع کرنے کے شوق تھا۔
انچولی میں مکان کی ایک منزل اور نیو رضویہ سوسائٹی میں پورا مکان کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے کئی بار علامہ صاحب کو پرانی کتابیں پیش کیں۔ وہ بہت خوش ہو کر کتب کا تحفہ لیتے تھے۔ اس کے بعد اس موضوع کی کتابوں کا تذکرہ شروع کرتے تو علم کے دریا بہا دیتے۔
ایک بار ان کتابوں کا تذکرہ ہوا جن پر پابندی لگی اور وہ نایاب ہو گئیں۔ علامہ صاحب نے ایسی لغات اور کتابوں کی لمبی فہرست بیان کی جو ان کے پاس تھیں۔ ان میں 1926 میں شائع ہوئی طحہ حسین کی کتاب فی الشعر الجاہلی شامل تھی۔
ایک بار میں نے علامہ صاحب سے اپنی گمراہی کا ذکر کیا اور چند ایک کتابوں کے نام لیے جو گمراہ کن اثرات رکھتی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے ڈانٹیں گے یا عالم دین ہونے کے ناتے ذکر و تبلیغ کریں گے۔ لیکن انھوں نے علمی گفتگو شروع کر دی اور مجھے کئی کتابوں کے نام بتائے کہ اگر گمراہ ہونا ہے تو ٹھیک طرح سے ہو جاؤ۔ ادھورا علم کسی کام کا نہیں ہوتا۔
کسی موقع پر میں نے سوال کیا کہ کیا واقعی آیت اللہ سیستانی آپ کے ہم جماعت تھے۔ علامہ صاحب نے کہا کہ یہ بات درست ہے۔ یوں درست ہے کہ ہم دونوں آقائے خوئی کے درس میں ساتھ بیٹھتے تھے۔ لیکن جو میرا پہلا سال تھا، وہ سیستانی صاحب کا 17 واں سال تھا۔ وہ مجھ سے بہت سینئر ہیں۔
دسمبر 2018 میں آخری بار ملاقات ہوئی تو علامہ صاحب کے پیر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، یہ کیا ہوا؟ انھوں نے فرمایا کہ شوگر بڑھ گئی ہے۔ انگوٹھے میں زخم ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کاٹ دیا۔ وہ تکلیف میں تھے لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ بینائی بے حد کمزور ہو چکی تھی۔ لیکن آواز میں وہی زور اور گرج برقرار تھی جو ان کا خاصہ تھی۔
گزشتہ سال میرا کربلا کا سفر نامہ شائع ہوا تو میں نے ایک دوست سے کہا کہ علامہ صاحب کو میری طرف سے پیش کر دو۔ دوست نے وہ انہیں پہنچایا اور درخواست کی کہ کیا میں ایک تصویر لے لوں جس میں آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہوں۔ علامہ صاحب نے کہا، آج نہیں۔ پہلے مبشر میاں سے کہو کہ ہمیں فون کریں۔ وہ ہدیہ ملے گا تو پھر آکر تصویر اتار لینا۔
علامہ صاحب کو شوگر تھی۔ دل کا عارضہ تھا۔ ہارٹ اٹیک ہو چکا تھا۔ کئی بار اسپتال میں داخل ہو کر واپس آئے تھے۔ اس بار معلوم ہو گیا تھا کہ وہ رخصت ہونے والے ہیں۔ وینٹی لیٹر پر جا چکے تھے۔ کئی بار موت کی افواہ عام ہوئی تھی۔ اس کے باوجود جب ایک معتبر دوست نے فون کیا کہ آج سچ مچ علامہ صاحب چلے گئے تو دل بیٹھ گیا۔
بیشتر لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ایک عالم دین کا انتقال ہو گیا۔ لیکن علمائے دین اور بہت سے ہیں۔ علامہ ایک دبستاں تھے۔ ادیب اور شعرا بہت سے ہیں۔ علامہ پوری تہذیب تھے۔ تاریخ داں بہت سے ہیں۔ علامہ خود چلتی پھرتی تاریخ تھے۔
منبر نے علامہ کا قد بڑھایا تھا۔ علامہ نے منبر کی توقیر بڑھائی۔ ایسا علم کا طالب اور کتابوں کا جوہری ہم دوسرا نہ دیکھ پائیں گے۔
(تحریر: مبشر علی زیدی/وائس آف امریکہ)
مبشر علی زیدی
ٹیلی وژن اور صحافت میں طویل عرصہ کام کرنے کی وجہ سے میں بتا سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ آن اسکرین کچھ اور ہوتے ہیں اور آف اسکرین کچھ اور۔ عوامی زندگی میں کچھ اور، ذاتی زندگی میں کچھ اور۔ منبر پر کچھ تو نجی محفل میں کچھ اور۔
علامہ طالب جوہری کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں لیکن کسی رخ میں تصنع نہیں تھا۔ جیسی گفتگو مجلس کے خطاب میں کرتے تھے، ویسی ہی ٹیلی وژن کی تقریر میں۔ جو موقف عوام کے سامنے ہوتا تھا، وہی حکام کے سامنے۔ جس انداز سے علما سے مخاطب ہوتے تھے، اسی طرح مجھ جیسے طالب علم کے سامنے۔
علامہ صاحب کا روپ ایک ہی تھا لیکن میں نے انہیں مختلف زمانوں میں مختلف نگاہوں سے دیکھا۔
ایک زمانہ تھا جب وہ پی ٹی وی پر فہم القرآن کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔ اس کا آغاز 80 ء کے عشرے کے نصف اول میں ہوا ہو گا کیوں کہ تب میں خانیوال کے ایک پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا۔ ہر شام نشریات کا آغاز بصیرت نام کے پروگرام سے ہوتا تھا لیکن ہفتے میں ایک بار جو بصیرت علامہ صاحب کی گفتگو سے ملتی، وہ انمول تھی۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھنے کی تحریک مجھے ان کی تقاریر سے ملی۔
کراچی منتقل ہونے کے بعد 1985 کے محرم میں پہلی بار علامہ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انچولی سوسائٹی کا بارگاہ شہدائے کربلا ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ جہاں آج امام حسین کی ضریح کی شبیہ موجود ہے، وہاں شامیانہ لگا کر رات کے نو بجے مجلس منعقد کی جاتی تھی۔ چند سو افراد سے زیادہ کا مجمع نہیں ہوتا تھا۔
اس سال علامہ طالب جوہری نے سورہ فیل کی تفسیر پڑھی۔ میں نے منبر کے بالکل سامنے بیٹھ کر انھیں سنا۔ تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم اور ان کے علمی مرتبے سے ناواقف تھا۔ سچی بات ہے کہ پہلی مجلس میں ایک ٹی وی کی شخصیت کو دیکھنے کے شوق میں گیا تھا۔
خطاب ختم ہونے سے پہلے میں خود سے وعدہ کر چکا تھا کہ روز انہیں سننے آؤں گا۔ علامہ صاحب منبر سے اترے تو میں ان سے ہاتھ ملانے کو آگے بڑھا۔ لیکن یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ان کا قد مجھ سے بھی کم تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے چھوٹے قد پر دن رات کڑھتا تھا۔ اس کے بعد زندگی بھر کے لیے یہ رنج ختم ہو گیا۔
علامہ صاحب جیسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کی قامت میں منبر کی بلندی بھی شامل ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا کہ میں نے پاکستان میں ہوتے ہوئے علامہ صاحب کے عشرۂ محرم کی مجالس نہ سنی ہوں۔ وہ کسی سال ایک اور کسی سال دو عشرے پڑھتے تھے۔
طویل عرصے تک نشتر پارک کی مرکزی مجلس ان سے منسوب رہی۔ دوسرا عشرہ کبھی وہ انچولی میں پڑھتے اور کبھی رضویہ میں۔
بارگاہ شہدائے کربلا کراچی کے بڑے امام باڑوں میں سے ایک ہے۔ ہزاروں افراد اس میں سما جاتے ہیں۔ اس کے بعد بڑا احاطہ ہے۔ اسی احاطے میں مسجد خیر العمل ہے۔ ایسا دسیوں بار ہوا کہ میں گھر سے نکلا اور مجلس میں نہیں پہنچ سکا۔ امام بارگاہ، مسجد، احاطہ، رشید ترابی پارک، سڑکیں، گلیاں، سامنے کا میدان، سب کھچا کھچ بھرے ہوتے۔ ہر جگہ لاؤڈ اسپیکر لگا دیے جاتے تاکہ جو جہاں ہے، وہاں بیٹھ کر علامہ صاحب کا خطاب سن لے۔
تیس سال تک میں نے علامہ صاحب کو جب دیکھا، منبر پر دیکھا۔ انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں اور میں انھیں ایک ایک کر کے پڑھتا چلا گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ فقط ذاکر نہیں بلکہ مجتہد بھی ہیں۔ مجتہد وہ ہوتا ہے جو اجتہاد کر سکتا ہے، جو فتویٰ دے سکتا ہے۔ فقہ جعفریہ میں مجتہد بننے کے لیے عراق کے شہر نجف یا ایران کے شہر قم میں برس ہا برس تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔
علامہ طالب جوہری نے 27 اگست 1938 کو بہار کے شہر پٹنہ میں جنم لیا تھا۔ ان کے والد مصطفیٰ جوہر بہت بڑے عالم اور شاعر اہل بیت تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خانوادہ کراچی منتقل ہوا۔
طالب جوہری نے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم کے لیے نجف گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمیٰ ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ آیت اللہ علی سیستانی ان کے ہم جماعت تھے۔
اتفاق سے میں انچولی میں آٹھ سال تک علامہ طالب جوہری کا ہمسایہ رہا ہوں۔ ایک گلی میں ان کا گھر اور برابر والی گلی میں میرا قیام تھا۔ لیکن کبھی ان کی خدمت میں حاضری دینے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ایک بار لاہور میں علامہ احمد جاوید سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کراچی میں انچولی کے قریب رہتے تھے تو علامہ طالب جوہری سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔ اس گفتگو میں انھوں نے یہ بتا کر حیران کیا کہ علامہ صاحب مہمل شاعری کے ماہر ہیں اور انھوں نے پوری پوری غزلیں ایسی کہیں ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔
میں اکثر ادیبوں شاعروں سے ان کی کتابوں پر دستخط کرواتا رہتا تھا۔ علامہ احمد جاوید سے ملاقات کے بعد کراچی آکر میں نے علامہ صاحب کا ایک مجموعۂ کلام تلاش کیا اور دستخط کروانے ان کے گھر پہنچ گیا۔ علامہ صاحب سو رہے تھے۔ میں اپنی ایک کتاب اور ان کا مجموعہ کلام چھوڑ آیا۔
شام کو علامہ صاحب کی کال آئی۔ انھوں نے فوراً طلب فرمایا۔ میں پہنچا تو انھوں نے ایک دلچسپ کہانی سنائی۔
علامہ صاحب نے کہا کہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان سے کسی بات پر وہ خفا ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اخبار پڑھنا بند کر دیا تھا۔ چند دن پہلے ان کے ایک واقف آئے تو ان کے پاس اخبار کے چند تراشے تھے۔ یہ سو لفظوں کی کہانیاں تھیں جو انھوں نے علامہ صاحب کو پڑھ کر سنائیں۔ انھوں نے دریافت کیا کہ یہ کس نے لکھی ہیں؟ اس شخص سے ملواؤ۔ ان صاحب نے کہا کہ میں اس لکھنے والے سے واقف نہیں۔
پتا نہیں یہ اتفاق تھا یا علامہ صاحب کی زبان کا اثر کہ ادھر انھوں نے ملنے کی خواہش کی اور میں خود ان کے گھر پہنچ گیا۔
اس کے بعد میں جب تک پاکستان میں رہا، ہر کچھ عرصے کے بعد ان کے ہاں جاتا رہا۔ ان کی نجی محفل میں بھی علما آتے تھے اور کسی ایک مسلک کے نہیں، ہر مکتب فکر کے علما۔ مجھے جاتے ہوئے شرم آتی تھی لیکن پھر کسی دن علامہ صاحب کا فون آتا اور وہ کہتے، میاں کدھر ہیں آپ؟ جلدی سے آجائیں۔
فقط عالم دین ہونا بھی کم نہیں لیکن علامہ صاحب اس سے بہت بڑھ کر تھے۔ غیر معمولی شاعر تھے۔ ادب کے بے حد عمدہ پارکھ تھے۔ فلسفی تھے۔ تاریخ دان تھے۔ اور جس موضوع پر مجھ سے گفتگو کرنا پسند کرتے تھے وہ ان کا کتابیں جمع کرنے کے شوق تھا۔
انچولی میں مکان کی ایک منزل اور نیو رضویہ سوسائٹی میں پورا مکان کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے کئی بار علامہ صاحب کو پرانی کتابیں پیش کیں۔ وہ بہت خوش ہو کر کتب کا تحفہ لیتے تھے۔ اس کے بعد اس موضوع کی کتابوں کا تذکرہ شروع کرتے تو علم کے دریا بہا دیتے۔
ایک بار ان کتابوں کا تذکرہ ہوا جن پر پابندی لگی اور وہ نایاب ہو گئیں۔ علامہ صاحب نے ایسی لغات اور کتابوں کی لمبی فہرست بیان کی جو ان کے پاس تھیں۔ ان میں 1926 میں شائع ہوئی طحہ حسین کی کتاب فی الشعر الجاہلی شامل تھی۔
ایک بار میں نے علامہ صاحب سے اپنی گمراہی کا ذکر کیا اور چند ایک کتابوں کے نام لیے جو گمراہ کن اثرات رکھتی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے ڈانٹیں گے یا عالم دین ہونے کے ناتے ذکر و تبلیغ کریں گے۔ لیکن انھوں نے علمی گفتگو شروع کر دی اور مجھے کئی کتابوں کے نام بتائے کہ اگر گمراہ ہونا ہے تو ٹھیک طرح سے ہو جاؤ۔ ادھورا علم کسی کام کا نہیں ہوتا۔
کسی موقع پر میں نے سوال کیا کہ کیا واقعی آیت اللہ سیستانی آپ کے ہم جماعت تھے۔ علامہ صاحب نے کہا کہ یہ بات درست ہے۔ یوں درست ہے کہ ہم دونوں آقائے خوئی کے درس میں ساتھ بیٹھتے تھے۔ لیکن جو میرا پہلا سال تھا، وہ سیستانی صاحب کا 17 واں سال تھا۔ وہ مجھ سے بہت سینئر ہیں۔
دسمبر 2018 میں آخری بار ملاقات ہوئی تو علامہ صاحب کے پیر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، یہ کیا ہوا؟ انھوں نے فرمایا کہ شوگر بڑھ گئی ہے۔ انگوٹھے میں زخم ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کاٹ دیا۔ وہ تکلیف میں تھے لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ بینائی بے حد کمزور ہو چکی تھی۔ لیکن آواز میں وہی زور اور گرج برقرار تھی جو ان کا خاصہ تھی۔
گزشتہ سال میرا کربلا کا سفر نامہ شائع ہوا تو میں نے ایک دوست سے کہا کہ علامہ صاحب کو میری طرف سے پیش کر دو۔ دوست نے وہ انہیں پہنچایا اور درخواست کی کہ کیا میں ایک تصویر لے لوں جس میں آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہوں۔ علامہ صاحب نے کہا، آج نہیں۔ پہلے مبشر میاں سے کہو کہ ہمیں فون کریں۔ وہ ہدیہ ملے گا تو پھر آکر تصویر اتار لینا۔
علامہ صاحب کو شوگر تھی۔ دل کا عارضہ تھا۔ ہارٹ اٹیک ہو چکا تھا۔ کئی بار اسپتال میں داخل ہو کر واپس آئے تھے۔ اس بار معلوم ہو گیا تھا کہ وہ رخصت ہونے والے ہیں۔ وینٹی لیٹر پر جا چکے تھے۔ کئی بار موت کی افواہ عام ہوئی تھی۔ اس کے باوجود جب ایک معتبر دوست نے فون کیا کہ آج سچ مچ علامہ صاحب چلے گئے تو دل بیٹھ گیا۔
بیشتر لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ایک عالم دین کا انتقال ہو گیا۔ لیکن علمائے دین اور بہت سے ہیں۔ علامہ ایک دبستاں تھے۔ ادیب اور شعرا بہت سے ہیں۔ علامہ پوری تہذیب تھے۔ تاریخ داں بہت سے ہیں۔ علامہ خود چلتی پھرتی تاریخ تھے۔
منبر نے علامہ کا قد بڑھایا تھا۔ علامہ نے منبر کی توقیر بڑھائی۔ ایسا علم کا طالب اور کتابوں کا جوہری ہم دوسرا نہ دیکھ پائیں گے۔
(تحریر: مبشر علی زیدی/وائس آف امریکہ)