علم والے کہتے ہیں۔۔۔۔۔"آزاد نظم"۔۔۔۔۔عبدالعزیز راقم

مغزل

محفلین
سائنس دان کہتے ہیں،
ایک جیسے قطبوں میں کچھ کشش نہیں ہوتی،
اس لیے تو ہم بھی اب،
ہر جفاکے بدلے میں ،،ہم وفا ہی کرتے ہیں،
سائنس دان کہتے ہیں،
معکوس جب قطب ہوں گے،
ان میں اک کشش ہو گی،
اس لیے تو ہم نے بھی،
بدل ڈالی روش اپنی،
وہ قریب آتے ہیں،ہم دور بھاگ جاتے ہیں،
اور جب تکبر سے دور ہوتے ہیں ہم سے،
پھر اس کشش کو ہم برقرار رکھنے کو،
قریب ان کے جاتے ہیں،
شاید اس کشش کا ہی ، نام اپنے لوگوں نے،
رکھ لیا محبت ہے
راقم صاحب میری دانست میں یہ آزاد نظم سے قریب ہے ،
(معدودے چند اصلاحات کے بعد، جوسرخ روشنائی سے واضح ہیں )
ارکان =فاعلن مفاعیلن (بحر ہزج مثمن اشتر۔بشکریہ وارث صاحب)

سائنس دان کہتے ہیں، --- ( یہاں سائنس کے وزن کا معاملہ ہے ، سانس دان کا وزن آرہا ہے جو غلط ہے ، اسے ’’ علم والے کہتے ہیں ‘‘ سے بدل دیجے )
ایک جیسے قطبوں میں کچھ کشش نہیں ہوتی، ----- ( قطبوں بالضمہ غلط العوام ہے قُطب کی جمع اقطاب ہے ،اس سے گریز بہتر ہے، )
اس لیے تو ہم بھی اب،
ہر جفاکے بدلے میں ،
ہم وفا ہی کرتے ہیں، ------------ ( ہم کی جگہ ’’بس ‘‘ کرنے سے ہم کی تکرار سے جان چھڑائی جاسکتی ہے )
سائنس دان کہتے ہیں، ---- ( یہاں بھی سائنس کے وزن کا معاملہ ہے ، سانس دان کا وزن آرہا ہے جو غلط ہے ، اسے بھی’’ علم والے کہتے ہیں ‘‘ سے بدل دیجے )
معکوس جب قطب ہوں گے، ------------- ( لفظ آگے پیچھے کر کے ’’قطب ہوں گے جب معکوس ‘‘ کیا جاسکتا ہے ، جووزن میں ہے ۔ قطب در دکے وزن پر ہے )
ان میں اک کشش ہو گی،
اس لیے تو ہم نے بھی،
بدل ڈالی روش اپنی، ------------ ( ’’ چال ہی بدل ڈالی ‘‘ --یا-- ’’ طرز ہی بدل ڈالی ‘‘ کرکے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے )
وہ قریب آتے ہیں،
ہم دور بھاگ جاتے ہیں، -------------- ( ’’دور بھاگتے ہیں‌ہم ‘‘-- کردیا جائے )
اور جب تکبر سے دور ہوتے ہیں ہم سے،
پھر اس کشش کو ہم برقرار رکھنے کو، ---------------- ( ’’ اِس ‘‘ کو ’’ اِسی ‘‘ سے بدل دیا جائے )
قریب ان کے جاتے ہیں،----------------( ’’ قریب ‘‘ کو ’’پاس “ سے بدل دیا جائے )
شاید اس کشش کا ہی ، نام اپنے لوگوں نے،
رکھ لیا محبت ہے
----------------------
( لیجے راقم صاحب، اب یہ ہوگئی آزاد نظم ، اب اس پر نثری نظم کا دشنامِ نامی بھی نہ رہا۔)
:notworthy: :notworthy: :notworthy:
 

محمد وارث

لائبریرین
راقم صاحب میری دانست میں یہ آزاد نظم سے قریب ہے ،
(معدودے چند اصلاحات کے بعد، جوسرخ روشنائی سے واضح ہیں )
ارکان =فاعلین مفاعیلن (بحر متدارک)

آپ شاید 'فاعلن مفاعیلن' لکھنا چاہ رہے تھے محمود صاحب، اور یہ بحر متدارک نہیں بلکہ ہزج کی ایک قسم ہے یعنی بحر ہزج مثمن اشتر۔

اور یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی مصرعے کے آخر میں تو مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان آ ہی سکتا ہے مصرعے کے عین وسط میں بھی مفاعیلان آ سکتا ہے۔

اس بحر میں پروین شاکر مرحومہ کی ایک بہت خوبصورت غزل ہے،

جگنوؤں کی شمعیں بھی، راستے میں روشن ہیں
سانپ ہی نہیں ہوتے، ذات کی گھپاؤں میں
 

مغزل

محفلین
آپ شاید 'فاعلن مفاعیلن' لکھنا چاہ رہے تھے محمود صاحب، اور یہ بحر متدارک نہیں بلکہ ہزج کی ایک قسم ہے یعنی بحر ہزج مثمن اشتر۔
اور یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی مصرعے کے آخر میں تو مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان آ ہی سکتا ہے مصرعے کے عین وسط میں بھی مفاعیلان آ سکتا ہے۔
اس بحر میں پروین شاکر مرحومہ کی ایک بہت خوبصورت غزل ہے،
جگنوؤں کی شمعیں بھی، راستے میں روشن ہیں
سانپ ہی نہیں ہوتے، ذات کی گھپاؤں میں

شکریہ وارث صاحب، اپنے تئیں میں نے درست بھی کیا تھا، مگر محفوظ نہ ہوسکا، یہ املا کی غلطی ہے ،
بحروں کے نام سے واقفیت نہیں گوگل پر سرچ کیا تھا تو یہ نام سامنے آیا تھا سو یوں لکھ دیا۔ بہت شکریہ
مذکورہ غزل اگر مکمل مل جائےتو کیا کہنے ۔۔
 

راقم

محفلین
بہت شکریہ، بھإئی م۔م۔مغل

راقم صاحب میری دانست میں یہ آزاد نظم سے قریب ہے ،
(معدودے چند اصلاحات کے بعد، جوسرخ روشنائی سے واضح ہیں )
ارکان =فاعلن مفاعیلن (بحر ہزج مثمن اشتر۔بشکریہ وارث صاحب)

سائنس دان کہتے ہیں، --- ( یہاں سائنس کے وزن کا معاملہ ہے ، سانس دان کا وزن آرہا ہے جو غلط ہے ، اسے ’’ علم والے کہتے ہیں ‘‘ سے بدل دیجے )
ایک جیسے قطبوں میں کچھ کشش نہیں ہوتی، ----- ( قطبوں بالضمہ غلط العوام ہے قُطب کی جمع اقطاب ہے ،اس سے گریز بہتر ہے، )
اس لیے تو ہم بھی اب،
ہر جفاکے بدلے میں ،
ہم وفا ہی کرتے ہیں، ------------ ( ہم کی جگہ ’’بس ‘‘ کرنے سے ہم کی تکرار سے جان چھڑائی جاسکتی ہے )
سائنس دان کہتے ہیں، ---- ( یہاں بھی سائنس کے وزن کا معاملہ ہے ، سانس دان کا وزن آرہا ہے جو غلط ہے ، اسے بھی’’ علم والے کہتے ہیں ‘‘ سے بدل دیجے )
معکوس جب قطب ہوں گے، ------------- ( لفظ آگے پیچھے کر کے ’’قطب ہوں گے جب معکوس ‘‘ کیا جاسکتا ہے ، جووزن میں ہے ۔ قطب در دکے وزن پر ہے )
ان میں اک کشش ہو گی،
اس لیے تو ہم نے بھی،
بدل ڈالی روش اپنی، ------------ ( ’’ چال ہی بدل ڈالی ‘‘ --یا-- ’’ طرز ہی بدل ڈالی ‘‘ کرکے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے )
وہ قریب آتے ہیں،
ہم دور بھاگ جاتے ہیں، -------------- ( ’’دور بھاگتے ہیں‌ہم ‘‘-- کردیا جائے )
اور جب تکبر سے دور ہوتے ہیں ہم سے،
پھر اس کشش کو ہم برقرار رکھنے کو، ---------------- ( ’’ اِس ‘‘ کو ’’ اِسی ‘‘ سے بدل دیا جائے )
قریب ان کے جاتے ہیں،----------------( ’’ قریب ‘‘ کو ’’پاس “ سے بدل دیا جائے )
شاید اس کشش کا ہی ، نام اپنے لوگوں نے،
رکھ لیا محبت ہے
----------------------
( لیجے راقم صاحب، اب یہ ہوگئی آزاد نظم ، اب اس پر نثری نظم کا دشنامِ نامی بھی نہ رہا۔)

السّلام علیکم، بھائی م۔م۔مغل!
آپ کی فون پر دی گئی دھمکی کے بعد مجبوراً بھائی لکھ رہا ہوں۔
آپ نے میری نثری نظم کو بہت محنت کر کے آزاد نظم میں تبدیل کر دیا ہے۔اس کے لیے آپ کا بے حد ممنون ہوں۔ دراصل میرا مزاج ہی نثری نظم یا آزاد نظم کا نہیں ہے۔ مجھے صرف غزل کی صِنف ہی اچھی لگتی ہے۔میں اس نظم کو آپ کی اصلاح کے مطابق درست کر کے دوبارہ پیش کروں گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اکیلی ہی رہے گی۔
پتا نہیں کیسے میں نے یہ لکھ بھیجی۔ لیکن اس کی وجہ سے آپ اور دوسرے احباب کے تبصرے پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
فون کر کے خیریت دریافت کرنے کے لیے بھی بہت شکریہ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھےاور علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
والسّلام
 
Top