علامہ دہشتناک : صفحہ 66-67 : تیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



2a6045z.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے یہاں دیکھا ہو۔ ! لیکن مجھ سے تو ابھی تک کسی نے کوئی باتن ہیں کی۔ پہلے میں سمجھی تھی کہ شائد عالمہ میرا امتحان لینے والے ہیں۔!“
”علامہ کا نام بھی نہ انے پائے زبان پر۔!“
”اب تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ بہت اچھا ہوا کہ تم اس طرح مل گئے۔!“
”اوہ ۔ ۔ ۔ بیٹھو۔ ۔ ۔ تم اب تک کھڑی ہوئی ہو ۔ ۔ ۔ میں تمہارے لئے ایک پگ بنالوں۔ شراب اور سگریٹ تک مہیا کی گئی ہے میرے لئے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مقصد سمجھ میں نہیں اتا۔!“
”تم سے بھی کچھ نہیں پوچھا کسی نے۔!“
”نہیں۔ ۔ ۔ لیکن میں ان کا قیدی ہوں۔ ۔ ۔ !“
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم علامہ ہی کے کسی امتحان سے گزرنے والے ہیں۔!“
”اونہہ ۔ ۔ ۔ دیکھا جائے گا۔!“ اس نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ اور الماری کھولنے سے قبل ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے علامہ کی دی ہوئی انگشتری نکل آئی تھی۔ ۔ ۔ الماری کھولی اور انگزتری کے اندر کا سارا سیال ایک گلاس میں منتقل کردیا۔ اس کی پشت شیلا کی طرف تھی۔ بوتل اٹھائی اور گلاس میں شراب انڈیلتا ہوا شیلا کی طرف مڑ کر بولا ۔
”اسے یاد رکھنا کہ ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی ہیں۔!“
’خدا ہی جانے۔ ۔ ۔ ۔!“ اس نے کہا اور گلاس شیلا کے سامنے چھوٹی میز پر رکھ دیا۔ ۔ ۔ شیلا نےگلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے میں عجیب قسم کا شور گونجا اور دونوں ہی اچھل پڑے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ۔ ۔ ۔ پھر شیلا بولی
”یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آئی تھی۔!“
”پتا نہیں۔“
ٹھیک اسی وقت دروازہ کھلا تھا۔ اور عمران کمرے میں داخل ہوا تھا۔
”کیا یہاں دستک دے کر اندر آنے کا رواج نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“ پیٹر بھنا کر بولا۔
”نہیں تو ۔ ۔ ۔ یہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔! عمران نے بوکھلا کر کہا۔
”لیکن میرے کمرے میں دستک دئے بغیر اب کوئی داخل نہ ہو۔!“ پیٹر سخت لہجے میں بولا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”جی بہت اچھا۔ ۔ ۔ !“ عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہاِ
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ اندرز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
”یہ کیا بدتمیزی ۔ ۔ ۔ !“ پیڑ آگے بڑھتا ہوا بولا۔
”اچھا تو پھر تم ہی پی لو ۔! شراب پیتی ہوئی عوتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔!“ عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔ کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی۔ لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
”تم ہو کون۔؟ پٹیر غصیلے لہجے میں بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں۔ ۔ ۔ ۔لیکن ان خاتوں کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا۔ ۔ ۔ !“
”میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔!“ پٹیر آستیں چڑھاتا ہوا بولا۔!
”اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں پیتا ۔ ۔ ۔ تم ہی پی لو۔ ۔ ۔ !“
”کیا مطلب۔!“ پٹیر دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔ “عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا ۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پٹیر کی انا کو چھیٹردیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کے ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔!
پٹیر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑھی پھرتی سے چپراس ماری ۔ ۔ ۔ پٹیر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا۔ ۔ ۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔ ۔ ۔!
”ٹھہر جاؤ۔!“ عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا ”اس دھول دھپے سے کیا فائدہ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔!“
”تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے!“ پٹیر ہانپتا ہوا بولا۔ !” میں رانا صاحب کا مہمان ہوں ۔!“
”رانا صاحب ہی کافرمان ہے کہ پٹیر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔!“
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”جی بہت اچھا۔ ۔ ۔ !“ عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہاِ
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ اندرز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
”یہ کیا بدتمیزی ۔ ۔ ۔ !“ پیڑ آگے بڑھتا ہوا بولا۔
”اچھا تو پھر تم ہی پی لو ۔! شراب پیتی ہوئی عوتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔!“ عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔ کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی۔ لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
”تم ہو کون۔؟ پٹیر غصیلے لہجے میں بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں۔ ۔ ۔ ۔لیکن ان خاتوں کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا۔ ۔ ۔ !“
”میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔!“ پٹیر آستیں چڑھاتا ہوا بولا۔!
”اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں پیتا ۔ ۔ ۔ تم ہی پی لو۔ ۔ ۔ !“
”کیا مطلب۔!“ پٹیر دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔ “عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا ۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پٹیر کی انا کو چھیٹردیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کے ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔!
پٹیر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑھی پھرتی سے چپراس ماری ۔ ۔ ۔ پٹیر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا۔ ۔ ۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔ ۔ ۔!
”ٹھہر جاؤ۔!“ عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا ”اس دھول دھپے سے کیا فائدہ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔!“
”تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے!“ پٹیر ہانپتا ہوا بولا۔ !” میں رانا صاحب کا مہمان ہوں ۔!“
”رانا صاحب ہی کافرمان ہے کہ پٹیر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔!“
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل


”مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے یہاں دیکھا ہو۔ ! لیکن مجھ سے تو ابھی تک کسی نے کوئی باتن ہیں کی۔ پہلے میں سمجھی تھی کہ شائد عالمہ میرا امتحان لینے والے ہیں۔!“
”علامہ کا نام بھی نہ انے پائے زبان پر۔!“
”اب تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ بہت اچھا ہوا کہ تم اس طرح مل گئے۔!“
”اوہ ۔ ۔ ۔ بیٹھو۔ ۔ ۔ تم اب تک کھڑی ہوئی ہو ۔ ۔ ۔ میں تمہارے لئے ایک پگ بنالوں۔ شراب اور سگریٹ تک مہیا کی گئی ہے میرے لئے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مقصد سمجھ میں نہیں اتا۔!“
”تم سے بھی کچھ نہیں پوچھا کسی نے۔!“
”نہیں۔ ۔ ۔ لیکن میں ان کا قیدی ہوں۔ ۔ ۔ !“
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم علامہ ہی کے کسی امتحان سے گزرنے والے ہیں۔!“
”اونہہ ۔ ۔ ۔ دیکھا جائے گا۔!“ اس نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ اور الماری کھولنے سے قبل ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے علامہ کی دی ہوئی انگشتری نکل آئی تھی۔ ۔ ۔ الماری کھولی اور انگزتری کے اندر کا سارا سیال ایک گلاس میں منتقل کردیا۔ اس کی پشت شیلا کی طرف تھی۔ بوتل اٹھائی اور گلاس میں شراب انڈیلتا ہوا شیلا کی طرف مڑ کر بولا ۔
”اسے یاد رکھنا کہ ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی ہیں۔!“
’خدا ہی جانے۔ ۔ ۔ ۔!“ اس نے کہا اور گلاس شیلا کے سامنے چھوٹی میز پر رکھ دیا۔ ۔ ۔ شیلا نےگلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے میں عجیب قسم کا شور گونجا اور دونوں ہی اچھل پڑے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ۔ ۔ ۔ پھر شیلا بولی
”یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آئی تھی۔!“
”پتا نہیں۔“
ٹھیک اسی وقت دروازہ کھلا تھا۔ اور عمران کمرے میں داخل ہوا تھا۔
”کیا یہاں دستک دے کر اندر آنے کا رواج نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“ پیٹر بھنا کر بولا۔
”نہیں تو ۔ ۔ ۔ یہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔! عمران نے بوکھلا کر کہا۔
”لیکن میرے کمرے میں دستک دئے بغیر اب کوئی داخل نہ ہو۔!“ پیٹر سخت لہجے میں بولا۔
”جی بہت اچھا۔ ۔ ۔ !“ عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہاِ
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ اندرز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
”یہ کیا بدتمیزی ۔ ۔ ۔ !“ پیڑ آگے بڑھتا ہوا بولا۔
”اچھا تو پھر تم ہی پی لو ۔! شراب پیتی ہوئی عوتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔!“ عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔ کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی۔ لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
”تم ہو کون۔؟ پٹیر غصیلے لہجے میں بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں۔ ۔ ۔ ۔لیکن ان خاتوں کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا۔ ۔ ۔ !“
”میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔!“ پٹیر آستیں چڑھاتا ہوا بولا۔!
”اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں پیتا ۔ ۔ ۔ تم ہی پی لو۔ ۔ ۔ !“
”کیا مطلب۔!“ پٹیر دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔ “عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا ۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پٹیر کی انا کو چھیٹردیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کے ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔!
پٹیر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑھی پھرتی سے چپراس ماری ۔ ۔ ۔ پٹیر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا۔ ۔ ۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔ ۔ ۔!
”ٹھہر جاؤ۔!“ عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا ”اس دھول دھپے سے کیا فائدہ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔!“
”تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے!“ پٹیر ہانپتا ہوا بولا۔ !” میں رانا صاحب کا مہمان ہوں ۔!“
”رانا صاحب ہی کافرمان ہے کہ پٹیر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔!“
”مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے یہاں دیکھا ہو۔! لیکن مجھ سے تو ابھی تک کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ پہلے میں سمجھی تھی کہ شائد علامہ میرا امتحان لینے والے ہیں۔!“
”علامہ کا نام بھی نہ آنے پائے زبان پر۔!“
”اب تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہت اچھا ہوا کہ تم اس طرح مل گئے۔!“
”اوہ ۔۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔ تم اب تک کھڑی ہوئی ہو ۔۔۔۔ میں تمہارے لئے ایک پگ بنا لوں۔ شراب اور سگریٹ تک مہیا کی گئی ہے میرے لئے۔۔۔۔ لیکن مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔!“
”تم سے بھی کچھ نہیں پوچھا کسی نے؟
”نہیں۔۔۔۔ لیکن میں ان کا قیدی ہوں۔۔۔۔!
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم علامہ ہی کے کسی امتحان سے گزرنے والے ہیں۔!“
”اونہہ ۔۔۔۔ دیکھا جائے گا۔!“ اس نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور الماری کھولنے سے قبل ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے علامہ کی دی ہوئی انگشتری نکل آئی تھی ۔۔۔۔ الماری کھولی اور انگشتری کے اندر کا سارا سیال ایک گلاس میں منتقل کردیا۔ اس کی پشت شیلا کی طرف تھی۔ بوتل اٹھائی اور گلاس میں شراب انڈیلتا ہوا شیلا کی طرف مڑ کر بولا ۔
”اسے یاد رکھنا کہ ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی ہیں۔!“
’خدا ہی جانے۔۔۔۔ !“ اس نے کہا اور گلاس شیلا کے سامنے چھوٹی میز پر رکھ دیا ۔۔۔۔ شیلا نےگلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے میں عجیب قسم کا شور گونجا اور دونوں ہی اچھل پڑے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ۔۔۔۔ پھر شیلا بولی۔
”یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آئی تھی؟
”پتا نہیں۔“
ٹھیک اسی وقت دروازہ کھلا تھا۔ اور عمران کمرے میں داخل ہوا تھا۔
”کیا یہاں دستک دے کر اندر آنے کا رواج نہیں ہے ۔۔۔۔ !“ پیٹر بھنّا کر بولا۔
”نہیں تو ۔۔۔۔ یہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔!" عمران نے بوکھلا کر کہا۔
”لیکن میرے کمرے میں دستک دیئے بغیر اب کوئی داخل نہ ہو۔!“ پیٹر سخت لہجے میں بولا۔
”جی بہت اچھا ۔۔۔۔ !“ عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔۔؟پیٹر آگے بڑھتا ہوا بولا۔
”اچھا تو پھر تم ہی پی لو۔! شراب پیتی ہوئی عورتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔!“ عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلّے نہیں پڑی تھی کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
”تم ہو کون؟ پیٹر غصیلے لہجے میں بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں ۔۔۔۔ لیکن ان خاتون کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا ۔۔۔۔ !“
”میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔!“ پیٹر آستیں چڑھاتا ہوا بولا۔!
”اچھی بات ہے ۔۔۔۔ میں نہیں پیتا ۔۔۔۔ تم ہی پی لو ۔۔۔۔ !“
”کیا مطلب۔!“ پیٹر دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا ۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پیٹر کی انا کو چھیٹر دیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کے ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔!
پیٹر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑی پھرتی سے چپراس ماری ۔۔۔۔ پیٹر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا ۔۔۔۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔۔۔۔!
”ٹھہر جاؤ۔!“ عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا ”اس دھول دھپے سے کیا فائدہ ۔۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔!“
”تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے؟“ پٹیر ہانپتا ہوا بولا۔! ”میں رانا صاحب کا مہمان ہوں ۔!“
”رانا صاحب ہی کا فرمان ہے کہ پیٹر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔!“
 

ابو کاشان

محفلین
خرّم بھائی! نظرِ ثانی میں غلطیاں نوٹ کر لیں۔ خیال رکھیئے گا۔

جویریہ جی! یہ نظرِ ثانی میں نے بڑی محنت سے کی ہے۔ کاوش کیسی لگی؟ بتائیے گا ضرور ۔
 

زینب

محفلین
خرم پا جی انہوں نے ایک بار کہنے سے بھی سن لیا تھا تین بار کہنے کی کیا ضرورت تھی:p
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
:)

ایسا میرے ساتھ بھی ہوجاتا ہے ایک ہی پیغام دو بار پوسٹ ہو کے نظر آتا ہے ۔

زینب ، مجھے اتنی ہنسی آئی آپ کا جملہ پڑھ کے ، اتنا دلچسپ لکھا :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




تیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

تیسواں : 66 - 67 | ٹیم 3 | خرم شہزاد خرم | ابو کاشان | ---- | ---- | 60%







 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ


"مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے ۔۔۔۔؟ ہو سکتا ہے یہاں دیکھا ہو لیکن مجھ سے تو ابھی تک کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ پہلے میں سمجھی تھی کہ شائد علامہ میرا امتحان لینے والے ہیں۔!“
”علامہ کا نام بھی نہ آنے پائے زبان پر۔!“
”اب تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہت اچھا ہوا کہ تم اس طرح مل گئے۔!“
”اوہ ۔۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔ تم اب تک کھڑی ہوئی ہو ۔۔۔۔ میں تمہارے لئے ایک پگ بنا لوں۔ شراب اور سگریٹ تک مہیا کی گئی ہے میرے لئے۔۔۔۔ لیکن مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔!“
”تم سے بھی کچھ نہیں پوچھا کسی نے؟“
”نہیں۔۔۔۔ لیکن میں ان کا قیدی ہوں۔۔۔۔!“
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم علامہ ہی کے کسی امتحان سے گزرنے والے ہیں۔!“
”اونہہ ۔۔۔۔ دیکھا جائے گا۔! “اس نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور الماری کھولنے سے قبل ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے علامہ کی دی ہوئی انگشتری نکل آئی تھی ۔۔۔۔ الماری کھولی اور انگشتری کے اندر کا سارا سیال ایک گلاس میں منتقل کردیا۔ اس کی پشت شیلا کی طرف تھی۔ بوتل اٹھائی اور گلاس میں شراب انڈیلتا ہوا شیلا کی طرف مڑ کر بولا۔
”اسے یاد رکھنا کہ ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی ہیں۔!“
’خدا ہی جانے۔۔۔۔ !“ اس نے کہا اور گلاس شیلا کے سامنے چھوٹی میز پر رکھ دیا۔۔۔۔ شیلا نےگلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے میں عجیب قسم کا شور گونجا اور دونوں ہی اچھل پڑے۔ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ۔۔۔۔ پھر شیلا بولی۔
”یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آئی تھی؟“
”پتا نہیں۔“
ٹھیک اسی وقت دروازہ کھلا تھا اور عمران کمرے میں داخل ہوا تھا۔
”کیا یہاں دستک دے کر اندر آنے کا رواج نہیں ہے ۔۔۔۔؟ “ پیٹر بھنّا کر بولا۔
”نہیں تو ۔۔۔۔ یہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔!" عمران نے بوکھلا کر کہا۔
”لیکن میرے کمرے میں دستک دیئے بغیر اب کوئی داخل نہ ہو۔!“ پیٹر سخت لہجے میں بولا۔
”جی بہت اچھا ۔۔۔۔ !“ عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔۔؟“ پیٹر آگے بڑھتا ہوا بولا۔
”اچھا تو پھر تم ہی پی لو۔! شراب پیتی ہوئی عورتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔!“ عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلّے نہیں پڑی تھی کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
”تم ہو کون؟ پیٹر غصیلے لہجے میں بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں ۔۔۔۔ لیکن ان خاتون کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا ۔۔۔۔ !“
”میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔ !“ پیٹر آستین چڑھاتا ہوا بولا۔!
”اچھی بات ہے ۔۔۔۔ میں نہیں پیتا ۔۔۔۔ تم ہی پی لو ۔۔۔۔ !“
کیا مطلب؟!“ پیٹر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔“ عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا ۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پیٹر کی انا کو چھیٹر دیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کے ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔!
پیٹر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑی پھرتی سے چپراس ماری ۔۔۔۔ پیٹر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا ۔۔۔۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔۔۔۔!
”ٹھہر جاؤ۔!“ عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا ”اس دھول دھپے سے کیا فائدہ ۔۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔!“
”تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے؟“ پیٹر ہانپتا ہوا بولا۔! ”میں رانا صاحب کا مہمان ہوں ۔!“
”رانا صاحب ہی کا فرمان ہے کہ پیٹر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔!“


ابو کاشان آپ نے محنت کی ہے مگر ابھی پروف ریڈنگ کے اصولوں کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

"مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہو سکتا ہے یہاں دیکھا ہو لیکن مجھ سے تو ابھی تک کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ پہلے میں سمجھی تھی کہ شائد علامہ میرا امتحان لینے والے ہیں۔ !“
”علامہ کا نام بھی نہ آنے پائے زبان پر۔ !“
”اب تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہت اچھا ہوا کہ تم اس طرح مل گئے۔ !“
”اوہ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹھو۔ ۔ ۔ ۔ تم اب تک کھڑی ہوئی ہو۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہارے لئے ایک پگ بنا لوں۔ شراب اور سگریٹ تک مہیا کی گئی ہے میرے لئے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔ !“
”تم سے بھی کچھ نہیں پوچھا کسی نے ؟“
”نہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں ان کا قیدی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ !“
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم علامہ ہی کے کسی امتحان سے گزرنے والے ہیں۔ !“
”اونہہ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھا جائے گا۔ ! “اس نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور الماری کھولنے سے قبل ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے علامہ کی دی ہوئی انگشتری نکل آئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ الماری کھولی اور انگشتری کے اندر کا سارا سیال ایک گلاس میں منتقل کر دیا۔ اس کی پشت شیلا کی طرف تھی۔ بوتل اٹھائی اور گلاس میں شراب انڈیلتا ہوا شیلا کی طرف مڑ کر بولا۔
”اسے یاد رکھنا کہ ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی ہیں۔ !“
’خدا ہی جانے۔ ۔ ۔ ۔ !“ اس نے کہا اور گلاس شیلا کے سامنے چھوٹی میز پر رکھ دیا۔ ۔ ۔ ۔ شیلا نے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے میں عجیب قسم کا شور گونجا اور دونوں ہی اچھل پڑے۔ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ پھر شیلا بولی۔
”یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آئی تھی؟“
”پتا نہیں۔ “
ٹھیک اسی وقت دروازہ کھلا تھا اور عمران کمرے میں داخل ہوا تھا۔
”کیا یہاں دستک دے کر اندر آنے کا رواج نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ “ پیٹر بھنّا کر بولا۔
”نہیں تو۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔ !" عمران نے بوکھلا کر کہا۔
”لیکن میرے کمرے میں دستک دیئے بغیر اب کوئی داخل نہ ہو۔ !“ پیٹر سخت لہجے میں بولا۔
”جی بہت اچھا۔ ۔ ۔ ۔ !“ عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟“ پیٹر آگے بڑھتا ہوا بولا۔
”اچھا تو پھر تم ہی پی لو۔ ! شراب پیتی ہوئی عورتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ !“ عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلّے نہیں پڑی تھی کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
”تم ہو کون؟ پیٹر غصیلے لہجے میں بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان خاتون کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ !“
”میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔ !“ پیٹر آستین چڑھاتا ہوا بولا۔ !
”اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں پیتا۔ ۔ ۔ ۔ تم ہی پی لو۔ ۔ ۔ ۔ !“
”کیا مطلب؟!“ پیٹر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔ “ عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پیٹر کی انا کو چھیٹر دیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کے ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔ !
پیٹر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑی پھرتی سے چپراس ماری۔ ۔ ۔ ۔ پیٹر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ ۔ ۔ ۔ !
”ٹھہر جاؤ۔ !“ عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا ”اس دھول دھپے سے کیا فائدہ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔ !“
”تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے ؟“ پیٹر ہانپتا ہوا بولا۔ ! ”میں رانا صاحب کا مہمان ہوں۔ !“
”رانا صاحب ہی کا فرمان ہے کہ پیٹر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔ !“
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top