علامہ دہشتناک : صفحہ 46 - 47 : بیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



50mtl2.jpg


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔!“ بڑی سادگی سے کہا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے جناب۔!“
”عمران۔ ۔ ۔ !“
“کیا کرتے ہیں؟“
”کاشت۔ ۔ ۔ ۔مطلب یہ کہ ایگر یکلچرل فارمز ہیں میرے۔ ۔ ۔ ۔!“
”اور آپ پٹ سن نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ !“
”اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے؟“
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی۔ لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیاتھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔”میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میں‌آُ کہاں جائیں گے۔!“
“اسٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔“
”ارے ۔ ۔۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“شیلا نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہاتھا کہ اس شخاص سے راہ و رسم بڑھائے۔
”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ !“اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ ” تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔!“
”یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے!کل تک آپ کو یہان‌گاڑی کا ڈھانچہ بھی شائد نہ ملے۔!“
”میرے پاس رسہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ہمشہ ساتھ رکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔!“
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسے کا ایک لچھا نکالا تھا۔!
”یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔!“
”کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں۔!“
”جی ہاں۔!“
”اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہں میں جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔!“
”ارے ۔ ۔ ۔ ارے ۔ ۔ ۔ مم میری بات تو سنئے۔ ۔ ۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپم میری گاڑی میں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔!“
”جی نہیں ۔ ۔ ۔۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔!“
”آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔!“ وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
”اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔“
”شکریہ!مادام!“
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے۔اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اسٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔!
”کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔!“ شیلا نے عمران سے کہا۔!“ میں نے منیجر سے بات کر لی ہے“
”آپ کتنی اچھی ہیں۔!“
”خوشامد نہیں۔!“
”دیکھئے ۔ ۔ ۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکرگذار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا “
”کیا بُرا مان گئے۔!“
”مان جاتا ۔ ۔ ۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔!“
”آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیں‌قائم کی۔!“
”اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔!“
”فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو !“
”تو پھر۔!“
”تو پھر کیا۔ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔!“
”اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے۔!“
”میں خواہ مخواہ اپنے ذہین کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ابوکاشان ، یہاں بھی توجہ کیجیے گا پلیز ، یہ صفحہ بھی منتظر ہے پہلی پروف ریڈنگ کے لیے ۔

اس کی دوسری پروف ریڈنگ جویریہ کریں گی ۔
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان
”تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔!“ بڑی سادگی سے کہا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے جناب۔!“
”عمران۔ ۔ ۔ !“
“کیا کرتے ہیں؟“
”کاشت۔ ۔ ۔ ۔مطلب یہ کہ ایگر یکلچرل فارمز ہیں میرے۔ ۔ ۔ ۔!“
”اور آپ پٹ سن نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ !“
”اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے؟“
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی۔ لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیاتھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔”میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میں‌آُ کہاں جائیں گے۔!“
“اسٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔“
”ارے ۔ ۔۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“شیلا نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہاتھا کہ اس شخاص سے راہ و رسم بڑھائے۔
”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ !“اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ ” تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔!“
”یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے!کل تک آپ کو یہان‌گاڑی کا ڈھانچہ بھی شائد نہ ملے۔!“
”میرے پاس رسہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ہمشہ ساتھ رکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔!“
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسے کا ایک لچھا نکالا تھا۔!
”یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔!“
”کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں۔!“
”جی ہاں۔!“
”اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہں میں جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔!“
”ارے ۔ ۔ ۔ ارے ۔ ۔ ۔ مم میری بات تو سنئے۔ ۔ ۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپم میری گاڑی میں
بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔!“
”جی نہیں ۔ ۔ ۔۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔!“
”آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔!“ وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
”اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔“
”شکریہ!مادام!“
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے۔اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اسٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔!
”کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔!“ شیلا نے عمران سے کہا۔!“ میں نے منیجر سے بات کر لی ہے“
”آپ کتنی اچھی ہیں۔!“
”خوشامد نہیں۔!“
”دیکھئے ۔ ۔ ۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکرگذار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا “
”کیا بُرا مان گئے۔!“
”مان جاتا ۔ ۔ ۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔!“
”آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیں‌قائم کی۔!“
”اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔!“
”فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو !“
”تو پھر۔!“
”تو پھر کیا۔ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔!“
”اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے۔!“
”میں خواہ مخواہ اپنے ذہین کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔

”تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔!“ بڑی سادگی سے کہا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے جناب۔!“
”عمران۔ ۔ ۔۔ !“
“کیا کرتے ہیں؟“
”کاشت۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ ایگر یکلچرل فارمز ہیں میرے۔ ۔ ۔ ۔!“
”اور آپ پٹ سن نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ !“
”اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے؟“
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی۔ لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیاتھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔”میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میں‌آُ کہاں جائیں گے۔!“
“اسٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔“
”ارے ۔ ۔۔۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“شیلا نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہاتھا کہ اس شخص سے راہ و رسم بڑھائے۔
”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ !“اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ ” تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔!“
”یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے! کل تک آپ کو یہاں‌گاڑی کا ڈھانچہ بھی شائد نہ ملے۔!“
”میرے پاس رسّہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہمشہ ساتھ رکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔!“
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسّے کا ایک لچھا نکالا تھا۔!
”یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔!“
”کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں۔!“
”جی ہاں۔!“
”اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہیں میں جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔!“
”ارے ۔ ۔ ۔ ارے ۔ ۔ ۔ مم میری بات تو سنئے۔ ۔ ۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔!“
”جی نہیں ۔ ۔ ۔۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔!“
”آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔!“ وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
”اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔“
”شکریہ! مادام!“
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے۔اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اسٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔!
”کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔!“ شیلا نے عمران سے کہا۔!“ میں نے منیجر سے بات کر لی ہے“
”آپ کتنی اچھی ہیں۔!“
”خوشامد نہیں۔!“
”دیکھئے ۔۔۔۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکرگذار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا “
”کیا بُرا مان گئے۔!“
”مان جاتا ۔۔۔۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔!“
”آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیں‌قائم کی۔!“
”اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔!“
”فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو !“
”تو پھر۔؟“
”تو پھر کیا؟ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔!“
”اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے۔!“
”میں خواہ مخواہ اپنے ذہین کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




بیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

بیسواں : 46 - 47 | ٹیم 3 | خرم شہزاد خرم | ابو کاشان | ----- | ---- | 60 %







 

جیہ

لائبریرین
پروف ریڈنگ بار دوم: جویریہ مسعود



تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔!“ بڑی سادگی سے کہا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے جناب؟ “
”عمران۔۔۔۔ !“
“کیا کرتے ہیں؟“
”کاشت۔۔۔ ۔ مطلب یہ کہ ایگریکلچرل فارمز ہیں میرے۔۔۔۔!“
”اور آپ پٹ سن نہیں جانتے ۔۔۔ !“
”اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے؟“
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔”میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میں‌ آپ کہاں جائیں گے؟ “
“سٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔“
”ارے ۔ ۔۔۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔۔۔ ۔ !“شیلا نے کہا ۔۔۔ ۔نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس شخص سے راہ و رسم بڑھائے۔
”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔۔۔ ! “اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ " تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔!“
”یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے! کل تک آپ کو یہاں‌گاڑی کا ڈھانچہ بھی شائد نہ ملے۔!“
”میرے پاس رسہ ہے۔۔۔۔ ہمیشہ ساتھ رکھتی ہوں ۔۔۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں۔ کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔!“
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسّے کا ایک لچھا نکالا تھا۔!
”یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔!“
”کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں؟ “
”جی ہاں۔!“
”اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہیں، میں جا رہی ہوں ۔۔۔ ۔!“
”ارے ۔۔۔ ارے ۔۔۔ مم میری بات تو سنئے۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔!“
”جی نہیں ۔۔۔۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔!“
”آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔!“ وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
”اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔“
”شکریہ! مادام!“
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ سٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔!
”کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔!“ شیلا نے عمران سے کہا۔!“ میں نے منیجر سے بات کر لی ہے“
”آپ کتنی اچھی ہیں۔!“
”خوشامد نہیں۔!“
”دیکھئے ۔۔۔۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا “
”کیا بُرا مان گئے؟ “
”مان جاتا ۔۔۔۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔!“
”آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیں‌ قائم کی۔!“
”اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔!“
”فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو؟ “
”تو پھر؟“
”تو پھر کیا؟ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔!“
”اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے؟ “
”میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں۔ جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
بارِ آخر:؎

تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔ !“ بڑی سادگی سے کہا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے جناب؟ “
”عمران۔ ۔ ۔ ۔ !“
“کیا کرتے ہیں ؟“
”کاشت۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ ایگریکلچرل فارمز ہیں میرے۔ ۔ ۔ ۔ !“
”اور آپ پٹ سن نہیں جانتے۔ ۔ ۔ !“
”اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے ؟“
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔ ”میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میں آپ کہاں جائیں گے ؟ “
“سٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔ “
”ارے۔ ۔ ۔ ۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“شیلا نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس شخص سے راہ و رسم بڑھائے۔
”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ! “اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ " تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔ !“
”یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے ! کل تک آپ کو یہاں ‌گاڑی کا ڈھانچہ بھی شاید نہ ملے۔ !“
”میرے پاس رسہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ ساتھ رکھتی ہوں۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں۔ کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔ !“
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسّے کا ایک لچھا نکالا تھا۔ !
”یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔ !“
”کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں ؟ “
”جی ہاں۔ !“
”اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہیں ، میں جا رہی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ !“
”ارے۔ ۔ ۔ ارے۔ ۔ ۔ مم میری بات تو سنئے۔ ۔ ۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔ !“
”جی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔ !“
”آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔ !“ وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
”اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔ “
”شکریہ! مادام!“
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ سٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔ !
”کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔ !“ شیلا نے عمران سے کہا۔ !“ میں نے منیجر سے بات کر لی ہے “
”آپ کتنی اچھی ہیں۔ !“
”خوشامد نہیں۔ !“
”دیکھئے۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا “
”کیا بُرا مان گئے ؟ “
”مان جاتا۔ ۔ ۔ ۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔ !“
”آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیں قائم کی۔ !“
”اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔ !“
”فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو؟ “
”تو پھر؟“
”تو پھر کیا؟ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔ !“
”اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے ؟ “
”میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں۔ جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




بیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

بیسواں : 46 - 47 | ٹیم 3 | خرم شہزاد خرم | ابو کاشان | جویریہ | الف عین | 100 %







 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top