سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 46 - 47
”تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔!“ بڑی سادگی سے کہا گیا۔
”آپ کا نام کیا ہے جناب۔!“
”عمران۔ ۔ ۔ !“
“کیا کرتے ہیں؟“
”کاشت۔ ۔ ۔ ۔مطلب یہ کہ ایگر یکلچرل فارمز ہیں میرے۔ ۔ ۔ ۔!“
”اور آپ پٹ سن نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ !“
”اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے؟“
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی۔ لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیاتھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔”میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میںآُ کہاں جائیں گے۔!“
“اسٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔“
”ارے ۔ ۔۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ !“شیلا نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہاتھا کہ اس شخاص سے راہ و رسم بڑھائے۔
”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ !“اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ ” تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔!“
”یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے!کل تک آپ کو یہانگاڑی کا ڈھانچہ بھی شائد نہ ملے۔!“
”میرے پاس رسہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ہمشہ ساتھ رکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔!“
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسے کا ایک لچھا نکالا تھا۔!
”یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔!“
”کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں۔!“
”جی ہاں۔!“
”اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہں میں جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔!“
”ارے ۔ ۔ ۔ ارے ۔ ۔ ۔ مم میری بات تو سنئے۔ ۔ ۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپم میری گاڑی میں
بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔!“
”جی نہیں ۔ ۔ ۔۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔!“
”آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔!“ وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
”اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔“
”شکریہ!مادام!“
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے۔اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اسٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔!
”کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔!“ شیلا نے عمران سے کہا۔!“ میں نے منیجر سے بات کر لی ہے“
”آپ کتنی اچھی ہیں۔!“
”خوشامد نہیں۔!“
”دیکھئے ۔ ۔ ۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکرگذار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا “
”کیا بُرا مان گئے۔!“
”مان جاتا ۔ ۔ ۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔!“
”آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیںقائم کی۔!“
”اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔!“
”فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو !“
”تو پھر۔!“
”تو پھر کیا۔ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔!“
”اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے۔!“
”میں خواہ مخواہ اپنے ذہین کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔