علامہ دہشتناک : صفحہ 38 - 39 : سولھواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


27x1j5t.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بارے میں کیا جانتی ہو۔!“
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!“ شیلا نے جواب دیا۔ “مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہین میں‌واضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لوگوں کا صفایا کریدا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لوگوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں“
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب“
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہیں۔!“
”میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔“
”کس بناء پر کہہ رہی ہو۔ ۔ ۔ !“
”دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!“
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لتا ہے۔ ۔ ۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔ ۔ ۔ !“
“مجھے تسلیم ہے۔ ۔۔ ۔ !“
”سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے۔ ۔ ۔ !“
“جی ہاں۔!“
“تب پھر کیا خیال ہے تہمارا ۔!“
“میں نہیں سمجھتی۔!“
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے۔ ہر بار سہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ !“
”مم ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا عرض کروں۔ ۔ ۔ !“
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!“
”دد ۔ ۔ ۔ دیکھ رہی ہوں۔!“
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
”اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!“
”کس طرح جناب۔!“
”جس طرح بھی ممکن ہو۔“
”بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔!“
”یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آسکتا ۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔ ۔ ۔ !“
”تم نے وفاداری کا عہد کیا تھا۔!“
”میں اس پر قائم ہوں جناب۔!“
”تب پھر اپنے باپ کو قتل کردو۔ ۔ ۔ !“
”جنابِ عا لی۔!“ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جاؤ۔“
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی ۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوگئی ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دفعتاََ علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! ”تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدرو قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے ۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تا اسے مرجانا چاہئے۔“
”مم ۔ ۔ ۔ میں‌تسلیم کرتی ہوں۔ ۔ ۔ !“
”میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میں‌رہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑھے گا۔!“
”آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میں‌اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!“ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
”تم سچ مچ خوفزدہ نظر آنے لگی ہو۔!
وہ کچھ نہ بولی ۔ علامہ کہتا رہا ۔ ”حقیقتاََ میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ابوکاشان ، یہاں بھی توجہ کیجیے گا پلیز ، یہ صفحہ بھی منتظر ہے ۔ آپ اس صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ کر لیں ۔

اس کی دوسری پروف ریڈنگ جویریہ کریں گی ۔
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل

بارے میں کیا جانتی ہو۔!“
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!“ شیلا نے جواب دیا۔ “مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہین میں‌واضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لوگوں کا صفایا کریدا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لوگوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں“
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب“
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہیں۔!“
”میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔“
”کس بناء پر کہہ رہی ہو۔ ۔ ۔ !“
”دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!“
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لتا ہے۔ ۔ ۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔ ۔ ۔ !“
“مجھے تسلیم ہے۔ ۔۔ ۔ !“
”سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے۔ ۔ ۔ !“
“جی ہاں۔!“
“تب پھر کیا خیال ہے تہمارا ۔!“
“میں نہیں سمجھتی۔!“
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے۔ ہر بار سہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ !“
”مم ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا عرض کروں۔ ۔ ۔ !“
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!“
”دد ۔ ۔ ۔ دیکھ رہی ہوں۔!“
”اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!“
”کس طرح جناب۔!“
”جس طرح بھی ممکن ہو۔“
”بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔!“
”یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آسکتا ۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔ ۔ ۔ !“
”تم نے وفاداری کا عہد کیا تھا۔!“
”میں اس پر قائم ہوں جناب۔!“
”تب پھر اپنے باپ کو قتل کردو۔ ۔ ۔ !“
”جنابِ عا لی۔!“ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جاؤ۔“
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی ۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوگئی ہے۔
دفعتاََ علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! ”تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدرو قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے ۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تا اسے مرجانا چاہئے۔“
”مم ۔ ۔ ۔ میں‌تسلیم کرتی ہوں۔ ۔ ۔ !“
”میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میں‌رہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑھے گا۔!“
”آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میں‌اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!“ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
”تم سچ مچ خوفزدہ نظر آنے لگی ہو۔!
وہ کچھ نہ بولی ۔ علامہ کہتا رہا ۔ ”حقیقتاََ میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں

بارے میں کیا جانتی ہو۔!“
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!“ شیلا نے جواب دیا۔ “مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہن میں‌واضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لوگوں کا صفایا کردیا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لوگوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔“
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب۔!“
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہیں۔!“
”میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔“
”کس بناء پر کہہ رہی ہو۔۔۔۔!“
”دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!“
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے۔۔۔۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔۔۔۔!“
“مجھے تسلیم ہے ۔۔۔۔!“
”سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے ۔۔۔۔!“
“جی ہاں۔!“
“تب پھر کیا خیال ہے تہمارا۔!“
“میں نہیں سمجھتی۔!“
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے۔ ہر بار وہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!“
”مم ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ کک ۔۔۔۔ کیا عرض کروں ۔۔۔۔!“
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!“
”دد ۔۔۔۔ دیکھ رہی ہوں۔!“
”اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!“
”کس طرح جناب۔!“
”جس طرح بھی ممکن ہو۔“
”بہت مشکل ہے۔۔۔۔!“
”یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آسکتا۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔۔۔۔!“
”تم نے وفاداری کا عہد کیا تھا۔!“
”میں اس پر قائم ہوں جناب۔!“
”تب پھر اپنے باپ کو قتل کردو ۔۔۔۔!“
”جنابِ عا لی۔!“ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جاؤ۔“
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی ۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوگئی ہے۔
دفعتاََ علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! ”تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدرو قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے ۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تو اسے مرجانا چاہئے۔“
”مم ۔۔۔۔ میں ‌تسلیم کرتی ہوں۔۔۔۔!“
”میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میں‌ رہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑھے گا۔!“
”آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میں‌اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!“ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
”تم سچ مچ خوفزدہ نظر آنے لگی ہو۔!"
وہ کچھ نہ بولی ۔ علامہ کہتا رہا ۔ ”حقیقتاََ میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




سولہواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

سولہواں : 38 - 39 | ٹیم 3 | خرم شہزاد خرم | ابو کاشان | ----- | ---- | 60 %







 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ مسعود



بارے میں کیا جانتی ہو؟ “
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!“ شیلا نے جواب دیا۔
“مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہن میں‌واضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لوگوں کا صفایا کر دیا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لوگوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔“
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب۔!“
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟"
”میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔“
”کس بنا پر کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟ “
”دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی، اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!“
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے۔۔۔۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔۔۔۔!“
“مجھے تسلیم ہے ۔۔۔۔!“
”سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے ۔۔۔۔؟ “
“جی ہاں۔!“
“تب پھر کیا خیال ہے تہمارا؟ “
“میں نہیں سمجھی جناب۔!“
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے؟ ہر بار وہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!“
”مم ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ کک ۔۔۔۔ کیا عرض کروں ۔۔۔۔!“
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!“
”دد ۔۔۔۔ دیکھ رہی ہوں۔!“
”اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!“
”کس طرح جناب؟!“
”جس طرح بھی ممکن ہو۔“
”بہت مشکل ہے۔۔۔۔!“
”یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آ سکتا؟ “
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔۔۔۔!“
”تم نے وفاداری کا عہد کیا تھا۔!“
”میں اس پر قائم ہوں جناب۔!“
”تب پھر اپنے باپ کو قتل کر دو ۔۔۔۔!“
جنابِ عالی۔!“ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جاؤ۔“
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی ۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوگئی ہے۔
دفعتاََ علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! ”تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدر و قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے ۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تو اسے مر جانا چاہئے۔“
”مم ۔۔۔۔ میں ‌تسلیم کرتی ہوں۔۔۔۔!“
”میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میں‌ رہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑے گا۔!
”آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میں‌ اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!“ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
”تم سچ مچ خوف زدہ نظر آنے لگی ہو۔!"
وہ کچھ نہ بولی ۔ علامہ کہتا رہا ۔ ”حقیقتاََ میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




سولہواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

سولہواں : 38 - 39 | ٹیم 3 | خرم شہزاد خرم | ابو کاشان | -جویریہ | ---- | 80 %







 

الف عین

لائبریرین
بار سوم:

بارے میں کیا جانتی ہو؟ “
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!“ شیلا نے جواب دیا۔
“مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہن میں‌واضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لہو گوں کا صفایا کر دیا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لہو گوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔“
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب۔!“
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟"
”میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔“
”کس بنا پر کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟ “
”دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی، اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!“
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے۔۔۔۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔۔۔۔!“
“مجھے تسلیم ہے ۔۔۔۔!“
”سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے ۔۔۔۔؟ “
“جی ہاں۔!“
“تب پھر کیا خیال ہے تمہارا؟ “
“میں نہیں سمجھی جناب۔!“
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے؟ ہر بار وہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہو جاتا ہے ۔۔۔۔!“
”مم ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ کک ۔۔۔۔ کیا عرض کروں ۔۔۔۔!“
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!“
”دد ۔۔۔۔ دیکھ رہی ہوں۔!“
”اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!“
”کس طرح جناب؟!“
”جس طرح بھی ممکن ہو۔“
”بہت مشکل ہے۔۔۔۔!“
”یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آ سکتا؟ “
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔۔۔۔!“
”تم نے وفا داری کا عہد کیا تھا۔!“
”میں اس پر قائم ہوں جناب۔!“
”تب پھر اپنے باپ کو قتل کر دو ۔۔۔۔!“
”جنابِ عالی۔!“ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جاؤ۔“
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی ۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہے۔
دفعتاََ علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! ”تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدر و قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے ۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تو اسے مر جانا چاہئے۔“
”مم ۔۔۔۔ میں ‌تسلیم کرتی ہوں۔۔۔۔!“
”میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میں‌ رہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑے گا۔!“
”آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میں‌ اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!“ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
”تم سچ مچ خوف زدہ نظر آنے لگی ہو۔!"
وہ کچھ نہ بولی ۔ علامہ کہتا رہا ۔ ”حقیقتاً میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top