سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 38 - 39
بارے میں کیا جانتی ہو۔!“
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!“ شیلا نے جواب دیا۔ “مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہین میںواضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لوگوں کا صفایا کریدا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لوگوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں“
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب“
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہیں۔!“
”میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔“
”کس بناء پر کہہ رہی ہو۔ ۔ ۔ !“
”دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!“
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لتا ہے۔ ۔ ۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔ ۔ ۔ !“
“مجھے تسلیم ہے۔ ۔۔ ۔ !“
”سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے۔ ۔ ۔ !“
“جی ہاں۔!“
“تب پھر کیا خیال ہے تہمارا ۔!“
“میں نہیں سمجھتی۔!“
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے۔ ہر بار سہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ !“
”مم ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا عرض کروں۔ ۔ ۔ !“
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!“
”دد ۔ ۔ ۔ دیکھ رہی ہوں۔!“
”اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!“
”کس طرح جناب۔!“
”جس طرح بھی ممکن ہو۔“
”بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔!“
”یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آسکتا ۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔ ۔ ۔ !“
”تم نے وفاداری کا عہد کیا تھا۔!“
”میں اس پر قائم ہوں جناب۔!“
”تب پھر اپنے باپ کو قتل کردو۔ ۔ ۔ !“
”جنابِ عا لی۔!“ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جاؤ۔“
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی ۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوگئی ہے۔
دفعتاََ علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! ”تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدرو قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے ۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تا اسے مرجانا چاہئے۔“
”مم ۔ ۔ ۔ میںتسلیم کرتی ہوں۔ ۔ ۔ !“
”میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میںرہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑھے گا۔!“
”آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میںاپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!“ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
”تم سچ مچ خوفزدہ نظر آنے لگی ہو۔!
وہ کچھ نہ بولی ۔ علامہ کہتا رہا ۔ ”حقیقتاََ میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں