سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 36 - 37
تھوڑی دیر بعد جولیانافڑ واٹر کی آواز آئی تھی۔ ”کیپٹن خاور کی رپورٹ شیلا و ھنی رام عمر چوبیس سال ففتھ ایئر میںسوشیالوجی کی طالبہ ہے! آزاد خیال اور سرکش ہے! خاندان کے کسی فرد سے قابو میں نہیں آئی۔ کئی دن گھر سے غائب رہتی ہے۔ بہت جلد بے تکلف ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لڑکے دوست ہیں۔ سیر و شکار کی رسیا ہے۔ اکثر اس کے اخباب جنگلوں میں کیمپنگ کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن ان افراد کے زمرے میں نہیں آتی۔ جو منشیات کا شوق رکھتے ہیں۔ ! ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکی جس کی بنا پر جنس بے راہ روی کی شکار بھی کہی جاسکے۔ ماضی قریب میں بھی وہ ایک ہفتے کی کیمپنگ میں شریک رہی تھی ۔اس کیمپنگ میںگیارہ افراد نے حصہ لیا تھا! اؤور اینڈ آل۔!
عمران نے ٹیپ ریکارڈر کا سوئچ آف کردیا۔ اس کی آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ” ماضی قریب میں کیمپنگ۔ ۔ ۔ !“ وہ آہستہ سے بڑ بڑایا۔!“ گیارہ افراد“ اب وہ پھر جولیا نافٹنر واٹر کے نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے فوراََ ہی جواب ملا۔
”رپورٹ مل گئی ان گیارہ افراد کے نام اور پتے درکار ہیںجنہوں نے کیمپ میںشرکت کی تھی۔ جتنی جلد بھی ممکن ہو ”عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
”بہت بہتر جناب۔“
”ویٹس آل۔!“ کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
چند لمحے کھڑا کچھ سوچتا رہا ۔ اور پھر سٹنگ روم میںآکر گلرخ کو آواز دی۔
”جی صاحب“
”دوپہر کا کھانا۔ دو بج رہے ہیں۔!“
”میں سمجھی تھی شائد آپ باہر جائیں گے۔ اب تو مسور کی دال کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔“
”اس سے پہلے کیاتھا؟“
”کھیری گردے اور آلو کے کباب۔ ۔ ۔ !“
”خدا غریق رحمت کرئے تم دونوں کو۔ ۔ ۔ وہ مردود واپس آیا کہ نہیں۔!“
”واپس نہ آتا تو مسور کی دال ہی کیسے بچتی۔ ۔ ۔ ۔!“
”کہاں ہے ۔ ۔ ۔!“
”قیلولہ کررہا ہے۔“ وہ برا سامنہ بنا کر بولی۔1“ کوٹھی میں ہوتا تو اب تک چند یا صاف ہوگئی ہوتی۔ ۔ ۔ میری تو تقدیر ہی پھوٹ گئی ہے چھوٹے سرکار۔ ۔ ۔ ۔!“
”مجھے نہیں معلوم تھا کہ شادی کے بعد قیلولہ بھی شروع کر دے گا۔ !“
”آپ جیسے بادشاہ کا نوکر ٹھہرا۔“
”ارے مسور کی دال ہی لے آبادشاہ کے لئے۔ ۔ ۔ ۔“
”مجھے بڑی شرمندگی ہے صاحب جی ۔ ۔ ۔ اسی نے کہا تھا کہ آُ دوپہر کا کھانا نہیں کھائیں گے۔!“
”اب میںکہہ رہا ہوں کہ کھاؤں گا۔!“
”صرف دال۔ ۔ ۔ ایک چپاتی بھی تو نہیںچھوڑی۔!“گلرخ نے کہا۔
”صرف دال کھانے کی ترکیب یہ ہے کہ اگر پتلی نہ ہو تو اس میںایک گلاس پانی بھی شامل کیا جائے۔ ۔ ۔ اور چمچے سے “ عمران نے داہنی ہتھیلی پر چمچہ فرض کرکے منہ کے قریب لے جاتے ہوئ کہا۔
”بڑاجی دکھتا ہے آپ کے لئے صاحب جی ۔ ۔ ٹھہریئے میں گرم گرم چپاتیاں ڈالتی ہوں اور آملیت بنائے دیتی ہوں۔ ۔ ۔ !“
”لیکن انڈے دینے والی مرغی اس وقت کہاں مل سکے گی۔ “ عمران نے مایوسی سے کہا۔
”انڈے تو ہیں۔!“ وہ چہک کر بولی۔
”جا جلدی سے دیکھ کہیں اب تک ان میں سے بچے نہ نکل آئے ہوں۔!“
وہ کھی کھی کرتی ہوئی بھاگ گئی اور عمران دونوں ہاتھوں پر سر تھامے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔
علامہ دہشت نے شیلا پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی تھی۔ اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے بکھرے ہوئے کاغذات کی طرف متوجہ ہاگیاتھا۔
وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ ”تم میرے مشن کے