عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

اپنے ہی آستان سے وحشت
ہے ہمیں اس جہان سے وحشت

جاں سے پیاری ہے سخت رسوائی
ہے مگر آن بان سے وحشت

تهی تمنا فلک کو چهونے کی
گر گئی آسمان سے وحشت

کام کیسا تجهے بتا غافل
صاحب سخت جان سے وحشت

کتنی وحشت سی بن ٹپکتی ہے
یہ مری اس زبان سے وحشت

جا کہ اب جان چهوڑ دے میری
جا کے میرے مکان سے وحشت

تها ہمیں اس یقیں کا خطرہ اور
تهی ہمیں اس گمان سے وحشت

جا سکی جا کے بهی نہ ہائے کیوں
اس مری سخت جان سے وحشت








 
آخری تدوین:
اپنے ہی آستان سے وحشت
ہے ہمیں اس جہان سے وحشت​

کام کیسا تجهے بتا غافل
صاحب سخت جان سے وحشت​

کتنی وحشت سی بن ٹپکتی ہے
یہ مری اس زبان سے وحشت​

مندرجہ بالا اشعار میں الفاظ کی ترتیب پر نظرِ ثانی فرمائیے، کہیں اشعار بے معنی تو نہیں ہورہے؟
 

عظیم

محفلین
زہر کے نام سے دَوا دینا
واہ اُس شوخ کا دغا دینا

میری مَٹی میں اور تهوڑی خاک
اپنے کُوچے کی تم مِلا دینا

گِر چلا ہوں میں اپنی نظروں سے
اے نگہ یار آسرا دینا

کب ہوا بس میں دنیا داروں کے
دین و دنیا کو یُوں بهلا دینا

اے صبا بے سبب نہ آنا تم
آ مجهے یار کا پتا دینا

اِن بہاروں سے دوستی رکهنا
میرا اپنا چمن جلا دینا

کر چلے سب کے حق میں ہم صاحب
اِن فقیروں کو بهی دعا دینا


 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ یہ تو بہت اچھی غزل کہی ہے بیتا عظیم نے!!
پہلے دونوں اشعار بہت خوب
گِر چلا ہوں میں اپنی نظروں سے
اے نگہ یار آسرا دینا
۔۔’اے‘ کیسے تقطیع میں آ سکتا ہے؟ اگر نگہ صرف نگہ ہو تب ہی ممکن ہے، لیکن یہاں محل تو ’نگہِ‘ کا ہے۔

اے صبا بے سبب نہ آنا تم
آ مجهے یار کا پتا دینا
۔۔ شعر خوب ہے لیکن بیان کمزور ہے۔ اگر یوں ہوتا کہ
یوں کبھی بے سبب نہ آنا صبا!
اب کے اس کا بھی کچھ پتا دینا
کچھ بہتر ہو گا؟؟

اِن بہاروں سے دوستی رکهنا
میرا اپنا چمن جلا دینا
۔۔مطلب سمجھ میں نہیں آ سکا۔

کر چلے سب کے حق میں ہم صاحب
اِن فقیروں کو بهی دعا دینا
۔۔یہ بھی بیان نا مکمل لگتا ہے۔ پہلا مصرع نا مکمل ہے۔ سب کے حق میں کیا کر چکے؟
مانگ لی خیر سب کی صاحب نے
اس گدا گر کو بھی دعا دینا
ہو سکتا ہے
یا کچھ اور کہو، گدا گر خود مجھے پسند نہیں
 

عظیم

محفلین

کب زمانہ کسی کی مانا ہے
یہ بهی مجھ سا کوئی دوانا ہے

حکمتیں آج کل کی رائج ہیں
روگ لیکن مجهے پرانا ہے

زندگی اور ہے سوائے کیا
تیرے غم کا ہی اک فسانا ہے

میری خاطر خوشی کا حاصل بهی
روز رونے کا اک بہانا ہے

اک تعلق نبهاتے رہنے سے
ہر تعلق نے ٹوٹ جانا ہے

قتل بهی کرنا چاہئے تو خیر
ہے کوئی حکم جو نہ مانا ہے

حال کیسے عظیم سدهرے گا
مَیں ہوں مجنوں تو دل دوانا ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
زہر خاموشیوں کا پی لوں مَیں
اپنے ہونٹوں کو آج سی لوں مَیں

آ مری زندگی کہ فرصت ہے
آج تھوڑا سا تُجھ کو جی لوں مَیں

 

عظیم

محفلین




میں بھی یارو کمال کرتا ہوں
اپنا جینا محال کرتا ہوں

جانتا ہوں جواب لیکن میں
ہوں سوالی سوال کرتا ہوں

جانے کس بات کی خوشی سی ہے
جانے کیونکر ملال کرتا ہوں

آپ اپنا ہی بن گیا دشمن
آپ اپنا خیال کرتا ہوں

اب سمبھلتا نہیں یہ دل صاحب
جا کہیں عرض حال کرتا ہوں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


رات دن یوں بے کراں ہوتے ہو کیوں
کوئی پوچهے تو ہمیں روتے ہو کیوں

لے گیا میرے خرد کو یہ جنوں
شہر والو جاگ اٹهو سوتے ہو کیوں






 

عظیم

محفلین

آپ کی مدحت سرائی چاہئے
ہم فقیروں کو خدائی چاہئے

جهانکتا کیوں پهر رہا ہوں غیرمیں
اپنے اندر کی صفائی چاہئے

دشت میں صحرا میں بستی سے پرے
گونجتی پِهر ہو دہائی چاہئے

آ مجهے اِس حال میں دیکها رقیب
بول اٹها تیری بهلائی چاہئے

ہوں کسی اپنی ہی خاموشی کا وقت
دَہر کو نغمہ سرائی چاہئے

حسن کا چرچا زمانے میں قبول
کب ہمیں پردہ کشائی چاہئے

اِس غلط فہمی کا ہو بیٹها وہ شخص
صاحِبوں کو پارسائی چاہئے

 
Top