عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 14
بہت جلد لٹکائی جائے گی۔"
(2)
اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔
میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔
آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔ ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بے حد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا، اور میں تک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کی اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیئے لیتے ہیں۔ تو بسم اللہ۔ ہم کو لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔
اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائے گی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بے تکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 15
نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔
ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔
شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ وگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ "کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟"
میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی "خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرے گا۔ مگر ایک بات ہے۔" میں نے کہا۔ "وہ کیا؟"
وہ بولی۔ "وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔"
میں نے جل کر کہا۔ یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔"
"پھر کیا کروں؟" شاہدہ نے کہا۔ )کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔(
میں نے کہا۔ "کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔"
"پاگل نہیں تو۔" شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا۔ "دیوانی ہوئی ہے میں صلاح کیا دوں؟
اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آ کے تجھے بھگا لے جائے۔"
"خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔" میں نے کہا۔ "کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔" یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔
"تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔" شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ "جاتی کہاں ہے شادی نہ بیا، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائے گا۔ چل دوسری باتیں کر۔
یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔
میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 16
شاہدہ سے کہا کہ "اب شاید خط کا جواب آ گیا ہو گا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔
چلتے وات میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کےلئے جا رہا ہو۔میری حالت عجیب امید و بہم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہو گا یا منظور کر لیا ہو گا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ "بہن خدا تجھے اس موذی سے بجائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔" میں نے چپکے سے کہا۔ "اچھا۔"
(3)
شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لئے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 17
رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔
میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑاکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 18
خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔ میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطر دان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔
میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں متحمل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اُڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے "اونھ" کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔
میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی "تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔" آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گئے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے گلدان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آر میں ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 19
(4)
میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔
اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بے طرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔"
یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے۔ "اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔" میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ شزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے۔ "چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا یں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔"
یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گئے اور انہوں نے کہا۔ "میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر ۔۔۔" یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے۔ "آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 40​
(۴)​
"یہ کیل تو مارے ڈالتی ہے۔" نواب صاحب نے کچھ بیکل ہو کر پینترا بدلا اور کیل کی جگہ کو ٹٹول کر میری کمر میں آدھ انچ اور اپنا گھٹنا پیوست کردیا۔ نواب صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے۔ آپ کہیں گے کہ ان کا گھٹنا اور "باریک" تو عرض ہے کہ ایک موٹی چیز بھی جس وقت مستقل طور پر جسم میں پیوست ہونے کی کوشش کرتی ہے اور وہ بھی پھر یکے پر تو اس کی چبھن کسی طرح نوک دار چیز کی چبھن سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتی۔ میں خوش تھا کہ نواب صاحب کی ران میں کیل چبھ رہی ہے اور میرا بدلا لے رہی ہے۔ حالانکہ یکے پر گدی تھی اور اس پر دوہری چادر مگر یکہ نواب صاحب کو بے کل کئے دیتی تھی۔​
تھوڑی دیر بعد نواب صاحب اس کیل سے پریشان ہو کر اکڑوں کی قسم کی کروٹ سے بیٹھ گئے۔ ان کا سر عجیب طرح یکے کے جھکولوں کے ساتھ گردش کر رہا تھا یعنی اس طرح کہ اگر ان کی ناک پر پینسل باندھ دی جاتی اور اس کے سامنے کاغذ ہوتا تو ایک گول حلقہ بن جاتا۔ لیڈی ہمت قدر کو ایسے جھٹکے لگ رہے تھے کہ اگر ان کی ناک پر پینسل ہوتی تو آدھا حلقہ تو ٹھیک بنتا مگر پھر پینسل کاغذ میں چبھ جاتی۔ میری ناک شاید لہریا بناتی اور یکے والا چونکہ جھکا ہوا تھا لہٰذا اس کی ناک سطریں کھینچ رہی تھی۔ غرض اس طرح ہم سب اقلیدس کی شکلیں حل کرتے چلے جا رہے تھے۔​
ماہرین فلکیات کا ایک عجیب نظریہ ہے۔ اور وہ یہ کہ نظام شمسی کے تمام اجسام مقررہ حدود کے اندر اپنے اپنے قواعد کے مطابق اصطلاح میں کشش رکھتے ہیں اس نظریہ کی رو سے قیامت جب آئے گی جب اس کشش میں فرق پڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ تمام اجسام بے قابو ہو کر آپس میں لڑ جائیں گے۔ حسن اتفاق کہ اس نظریہ کی تفسیر یکہ پہ پیش آنا تھی۔ ایک معمولی سے گڑھے پر نہایت ہی معمولی سا جھٹکا لگا۔ مگر یہ جھٹکا تھا جس نے گویا نظام شمسی کو درہم برہم کر دیا۔ آپس میں ہم سب کے سر لڑ گئے اور پھر علیحدہ ہو کر ڈنڈوں میں جا لگے اور کچھ تو اس وقتی ابتری سے ہوا نہیں مگر اس سلسلہ میں نواب صاحب کا گھٹنا میری کمر میں پھر در آیا، میں بالکل کگر پر تھا اور وہ اب قصہ ماضی کی بات تھی جب ان کا گھٹنا آدھ آدھ انچ سرکتا تھا اب تو جگہ ہی نہ تھی اور میں طوطے کی طرح اڈے پر بیٹھا ہوا تھا۔​
یکہ کا دباؤ ویسے ہی تھا، یعنی آگے کو مائل تھا۔ قسمت کی خوبی نواب صاحب نے اس نامعقول سی وجہ سے ایک معمولی سے جھٹکے سے بیکل ہو کر ایک دم سے اچھل کر بوجھ آگے ڈال دیا۔ یکے کا ساز کیا تھا۔ بس رسیوں کی جکڑ بندی تھی۔ واللہ عالم جھٹکے سے مگر میں کہتا ہوں کہ شاید قصداً لیڈی ہمت قدر نے ایک چیخ کے ساتھ اپنی چھوٹی سی چھتری میرے سر پر رکھ کر اپنی​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 42​
طرف زور سے گھسیٹی۔ ادھر میں پر کٹے طوطے کی طرح نواب صاحب کے گھٹنے کی بدعتوں کی وجہ سے گویا اڈے پر بیٹھا ہی تھا۔ وہاں سوائے کگر کے رہ ہی کیا گیا تھا۔ ہم جو ایک دم سے زمین پر آ لگے تو میں آگے کو گرا چھتری منہ پر چھڑی تھی، دکھائی کیا دیتا خاک اور پھر دکھائی بھی دیتا تو بے کار۔ جھٹکے سے چھتری تو بعد میں الگ ہو گئی۔ مگر میں عجیب طرح گرا، اور دور تک اپنی ناک زمین سے صرف بالشت بھر اونچی کئے دوڑا ہی چلا گیا اور پھر ہر قدم پر یہ امید تھی کہ بدن قابو میں آ جائے گا اور کھڑا ہو جاؤں گا۔ مگر حضرت یہ امید موہوم نکلی اور اس طرح منقطع ہوئی کہ دس بارہ قدم کی مسافت اسی طرح ناک زمین سے کوئی بالشت بھر اونچی کئے طے کرنے کے بعد میں اپنی ناک سے سڑک کی زمین پر ہل چلا دینے پر مجبور ہو ہی گیا۔​
اٹھا اور اپنی ناک ٹٹولی۔ سارا منہ گرد سے سفید ہو گیا تھا۔ آنکھوں نے جب دیکھا کہ ناک ارادہ قطعی ہے تو وہ بند ہو گئی تھیں۔ ورنہ دھول میں پھوٹ ہی جاتیں۔ مگر پھر بھی آنکھوں نے بہت کام کیا تھا اور آخر وقت تک کھلی رہنے کی وجہ سے ان کی مٹی گھس گئی تھی۔ ہاتھوں نے بڑی خدمت کی اور چھل گئے۔ ورنہ شاید میری ناک گھس کر غبار راہ ہو جاتی۔ کیونکہ بلا مبالغہ فٹ بھر کے قریب ناک نے زمین پر ایک گہری سی لکیر کھینچی۔ کچھ بھی ہو یہ سب چشم زدن میں چکا تھا۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے ڈنڈے پکڑے مسلسل چیخیں مار رہی تھیں۔ حالانکہ وہ خطرے سے باہر تھیں۔ اور بندریا کی طرح ڈنڈے پر چپکی ہوئی تھیں۔ نواب صاحب یکہ کے بم پر کچھ اس طرح آکر رکھے تھے کہ شبہ ہوتا تھا کہ وہ بچوں وال گیم گھوڑا گھوڑا بم کے ڈنڈے سے کھیل رہے تھے۔ یکے والا غریب البتہ پہیہ کی سیدھ میں چت گرا تھا۔ گھوڑا اس وقتی سبکدوشی کو غنیمت تصور کرکے ایک انداز بے خودی کے ساتھ سڑک کے کنارے کچھ ٹفن اڑا رہا تھا۔​
بہت جلد ایک دوسرے کی خیریت اور مزاج پرسی سے فراغت پائی، یکے والے نے یکے کے ساز کی گانٹھا گونٹھی اور باندھا بوندھی کی مگر کچھ ٹھیک نہ بندھا تو نواب صاحب سے اس نے کہا۔​
"آپ کے پاس رسی کا کوئی ٹکڑا تو نہیں ہوگا؟"​
نواب صاحب نے اس کا جواب دیا۔ " الو کے پٹھے۔۔۔ ام۔۔۔ بہم۔۔۔" (بھنا رہے تھے) میں نے ڈانٹ کر کہا۔ " ابے تو بالکل ہی گدھا ہے۔"​
یکہ والا گنگنا کر بولا۔ " میاں میں نے کہا شاید کوئی ٹکڑا وکڑا نکل آئے، پھر اب بتائیے کیا ہو، بغیر رسی کے کام نہیں چلے گا۔"​
میرا سوتی رومال اور بیگم صاحبہ اور نواب صاحب کا ریشمی رومال ان تینوں کو ملا کر مضبوطی سے ساز کی بندش کو یکے والے نے سنبھالا۔ جھٹکے دے کر خوب اچھی طرح آزمانے کے بعد اس​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 43​
نے کہا۔ "اب بیٹھ جائیے۔"نواب صاحب چونکہ سب سے زیادہ بھاری تھے، لہٰذا یکے والے نے کہا کہ ذرا پیچھے کو دبے رہیں۔ ہم سب اچھی طرح بیٹھ گئے۔ نواب صاحب پیچھے کو دب کر بیٹھے، ایسے کہ جیسے کہ گاؤ تکیہ لگائے ہوں اور جو کچھ تھا، سو تھا، میں خوش تھا کہ نواب صاحب کے گھٹنے سے میری جان چھوٹی۔​
مگر تھوڑی ہی دیر بعد نواب صاحب کی پیٹھ میں یکے کی آرائش چبھنے لگی۔ کیونکہ یہ یکہ ضرورت سے زیادہ موٹے موٹے نیلے پیلے موتیوں سے آراستہ تھا جو مضبوط تار میں پرو کر ڈنڈوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا نواب صاحب کچھ آگے کو مائل ہوئے اور انہوں نے گھٹنا اڑانے کی تمہید اٹھائی۔ اب میں تنگ تھا لہٰذا میں نے نواب صاحب سے کہا کہ ذرا پیچھے ہی رہیئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ یکہ دباؤ ہو جائے گا۔ لیڈی ہمت قدر اب دباؤ کے نام سے کانپتی تھی۔ انہوں نے بھی نواب صاحب سے کہا کہ پیچھے ہی رہیئے۔ اب یکے کا توازن بہت اچھی طرح قائم تھا۔ ذرا بھی دباؤ ہوتا تو میں نواب صاحب کی توجہ رومالوں کی کمزور بندش کی طرف دلاتا اور نواب صاحب پھر ٹھیک طرح بیٹھ جاتے، ورنہ بیگم صاحبہ غل مچاتیں۔​
کوئی قابل ذکر بات نہ تھی کہ ایک معمولی سے جھٹکے پر لیڈی ہمت قدر چیخیں اور ساتھ ہی سڑک پر سے باسی گوبر کا ایک ٹکڑا پہیہ کے ساتھ اڑ کر ان کی آنکھ میں لگا۔ وہ چیخیں تو دراصل اس وجہ سے تھیں کہ ہاتھ میں ڈنڈے کی پھانس لگ گئی تھی کہ یک نہ شد دو شد اور ان کی آنکھ میں گوبر پڑ گیا۔ یکہ روکا گیا۔ پھانس نکالی گئی اور آنکھ صاف کی گئی۔ لیڈی ہمت قدر کے ہاتھ ڈنڈا پکڑے پکڑے سرخ ہو گئے تھے اور وہ کہہ رہی تھیں کہ " میرا شانہ اکھڑا جا رہا ہے۔" مگر کیا کرتیں لاچار و مجبور تھیں، کوئی چارہ ہی نہ تھا۔​
(۵)​
اسی حالت میں ہم چلے جا رہے تھے۔ سڑک رفتہ رفتہ خراب آتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ایسی آئی کہ ہوشیاری سے بیٹھنا پڑا۔ لیڈی ہمت قدر "دباؤ" یکہ کا خیال کر کرکے کانپ اٹھتی تھیں۔ اور نواب صاحب کو تاکید پر تاکید تھی کہ پیچھے ہٹے رہو۔ یکے والا بھی خوش تھا کہ گھوڑا ہلکا چل رہا ہے۔ مگر یہ شاید لیڈی ہمت قدر کو معلوم نہ تھا کہ یکے پر بیٹھنا دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو "دباؤ" جب آگے کو بوجھ ہوگا، اور پھر "الار" جب پیچھے کو بوجھ ہوگا۔ میں چونکہ آگے کو بیٹھا تھا اور دباؤ یکے کا لطف اٹھا چکا تھا کہ یکہ بان سے لے کر نواب صاحب تک ہر کس و نا کس کی یہ کوشش تھی کہ یکہ "الار" رہے۔​
رومالوں کی بندش پر "الار" یکے کا زور بے طرح پڑ رہا تھا اور چونکہ آگے بیٹھنے والے کو​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 43​
"الار" یکہ میں خطرہ ہوتا ہے لہٰذا میں چپ تھا۔ لیڈی ہمت قدر جانتی ہی نہ تھیں کہ "الار" کیا چیز ہوتی ہے۔ نواب صاحب بیگم صاحبہ کی خوشنودی میں منہمک تھے اور یکے والے کے لیے "الار" اور "دباؤ" روزانہ کا مدوجزر ٹھہرا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ایک غیر معمولی گڑھے پر جھٹکا لگا۔ رومالوں نے تڑاخا بھرا۔ لیڈی ہمت قدر جو اصولاً چیخیں حق بجانب تھیں۔ کیونکہ یکے کے دونوں بم اینٹی ایئر کرافٹ گن (ہوائی جہاز کو گرانے کی توپ) کی نالوں کی طرح اٹھ گئے۔ یکہ اگر آدمی ہوتا تو قطعی چت گرتا۔ عقلمند یکہ بان نے یکے کی پشت پر نیچے ایک طرف یکے کا داہنا بم قصداً آدھ گز بنوایا تھا۔ جس کو ظاہراً بیکار طور پر نکلا ہوا چھوڑ دیا تھا۔ یہ دراصل اگر سچ پوچھئے تو تھیوری آف بیلنس یعنی نظریہ توازن کی تفسیر تھا۔ جس کو اصطلاحاً پورپ کی طرف "الریٹھا" کہتے ہیں۔ یا بالفاظ دیگر "اینٹی الار اپریٹس (آلہ مائع الار) واقعی اگر یہ کہیں نہ ہوتا یکہ مع اپنے اسباب جہالت یعنی ہم لوگوں کے سر کے بل (یعنی چھتری کے بل) چت گرتا۔​
مگر پھر بھی باوجود یکے "آلہ نما مائع الار" نے یکہ ایک جھٹکے کے ساتھ روک لیا۔ لیکن دونوں بمیں ہوا میں معلق ہو گئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یکے والا لڑھک کر لیڈی ہمت قدر کی گود میں گرا اور اپنی اس عزت افزائی سے اس قدر گھبرایا کہ میری گردن پر سے ہوتا ہوا نکل کر پہیئے کے پاس گرا۔ میں لمبا لمبا یکہ میں لیٹنے پر مجبور ہوا۔ اور یکے بان کے بیٹھنے کی جگہ جو ایک خانہ ہوتا ہے اس کا ڈھکنا کھل جانے کی وجہ سے تمباکو ملی ہوئی ریت پھانکنے کے علاوہ میرے منہ پر ہتھوڑی اور چلم اور دوسری مکروہات گریں مع لگام کے جو یکے بان چھوڑ گیا تھا۔​
نواب صاحب نے عجیب حرکت کی تو وہ گڑ گڑا کر پھاندے اور چھپکلی کی طرح پٹ سے پہیہ کے برابر دھول میں گرے اور اس برجستگی کے ساتھ اٹھے کہ بیان سے باہر ہے۔​
یکے والے کے پاس کافی عذر موجود تھا۔ مثلاً صاحب یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ (کوئی غیر معمولی بات نہیں) ساز پرانا ہو گیا ہے۔۔۔۔ کہیں رومالوں سے کام چلتا ہے ۔۔۔۔ نیا ساز اب کے میلے کی مزدوری سے خریدوں گا ۔۔۔۔ گھوڑا چھ سیر دانہ کھاتا ہے، دام ہی بچتے نہیں۔" وغیرہ وغیرہ۔​
یکہ میں بھی جگہ جگہ خزانے ہوتے ہیں، نہ معلوم کن کن مقامات کو یکہ والے نے کریدا اور کہاں سے رسی کے متعدد ٹکڑے نکال کر ساز کو پھر گوندھا اور کسا اور خدا خدا کرکے ہم پھر چلے۔ لیڈی ہمت قدر اب سہمی ہوئی تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کس طرف زور دیں۔ آگے کو جھکیں تو دباؤ کا ڈر اور پیچھے رہیں تو الار کا خطرہ۔ عجیب لہجہ میں انہوں نے کہا۔ " یکہ بڑی خطرناک سواری ہے۔ کبھی کوئِ مر تو نہیں جاتا؟"​
یکہ والا بول اٹھا۔ " صاحب جس کی آتی ہے وہ اس بہانے بھی جاتا ہے۔"​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 44​
نواب صاحب نے زور سے ڈپٹ کر کہا۔ " چپ بے ۔۔۔۔ ٹراپ ۔۔۔۔" (بڑبڑانے لگے)​
(۶)​
پکی سڑک! پکی سڑک! یہ نعرہ ہم لوگوں نے پکی سڑک کو دور ہی سے دیکھ کر اس طرح بلند کیا جس طرح کرسٹوفر کولمبس کے ساتھیوں نے زمین کو دیکھ کر زمین! زمین! کا غلغلہ بلند کیا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم زور سے پکی سڑک پر کھڑ کھڑاتے جا رہے تھے۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ یکے پر ہم گویا سر کے بل بیٹھے ہیں۔ بے کمانی کے یکے کی کھڑ کھڑاہٹ بھی عجیب چیز ہے۔ کچی سڑک کی مٹی اور غبار چشم زدن میں کپڑوں پر سے جھڑ گئی۔ نواب صاحب کی کیل بجائے ان کے ایک جگہ گڑتی ساری ران کے طول و عرض میں چبھ رہی تھی۔ یکے والے کو موقع ملا۔ " آؤ بیٹا" کرکے اس نے گھوڑے کی رسی کی لگام اچھی طرح جھاڑ دیا اور گھوڑا بھی کچی سڑک کی صعوبت سے خلاصی پا کر اپنے جوہر دکھانے لگا، وہ تیز چلا اور پٹا۔ خوب تیز چلا اور خوب پٹا۔ یکے والے کو اس سے بحث نہیں کہ تیز چل رہا ہے، گھوڑے کو نہ مارنا چاہیے۔ وہاں تو اصول ہے کہ مارے جاؤ گھوڑا بھی کہتا ہوگا کہ الٰہی یہ کیا غضب ہے، جتنا جتنا تیز دوڑتا ہوں، مارا جاتا ہوں۔ قدم ہلکا کرتا ہوں تو مارا جاتا ہوں۔ آخر کو جانور پھر جانور ہے، لے کر بے تحاشہ دوڑآ، اور اسی مناسبت سے مار کھائی۔ "ہائیں ہائیں" میں کرتا ہی رہا اور لیڈی ہمت قدر کی چیخیں الگ کہ اتنے میں خیر سے داہنے پہیہ کی عین اس برق رفتاری کے عالم میں کیل نکل گئی اور پہیے نکل کر یہ جا وہ جا۔​
خدا کی پناہ، موٹر کا حادثہ تو کوئی چیز نہیں، گھوڑا بھاگتے میں کروٹ کے بل گرا۔ اور یکے والا آدھا اس کے نیچے۔ میں اڑ کر دور گرا نواب صاحب یکے کے پیچھے گرے۔ اور بیگم صاحبہ خود یکہ کے داہنی طرف، یکے والا چوٹ کی وجہ سے اور لیڈی ہمت قدر صدمہ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔ اور نواب صاحب کا کولہا اتر گیا، اور میری دو پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ سب اپنی اپنی جگہ پڑے تھے۔ گھوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے آنکھیں جھپکا کر دیکھا۔ نواب صاحب لنگڑاتے ہوئے اٹھے اور اپنی بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔ ایک عجیب پسپائیت کا عالم تھا۔​
خدا رحیم و کریم ہے اس نے دس پندرہ منٹ بعد ہی ایک موٹر بھیج دیا۔ ایک انگریز اس طرف جا رہا تھا، جدھر سے ہم آ رہے تھے۔ اس نے سب کو بین بٹور کر سیدھا ہسپتال پہنچایا۔ یکے والے کا یکہ اور گھوڑا وہیں رہ گیا تھا۔ بعد میں وہ کھو گیا۔ نواب صاحب نے اس کو اپنے موٹر پر جب سے رکھ لیا ہے۔ کبھی کبھی ملتا ہے تو اس کی صورت دیکھ کر نواب صاحب اور میں اور لیڈی ہمت قدر سب کو ہنسی آتی ہے۔​
نواب صاحب اور ان کی لیڈی صاحبہ تو پھر کبھی یکے پر نہیں بیٹھیں اور نہ بیٹھیں گی، لیکن میں اب بھی بیٹھتا ہوں۔ سواری ماشاء اللہ خوب ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 45​
الشذری
چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں پہلی جماعت میں داخل ہوا۔ جس وقت میں جماعت میں آیا تو دیکھا کہ چودھری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چودھری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنا پڑی تھی۔ وہ میرے پاس آ کر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجوہ اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی۔ میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا اور چودھری صاحب الگ بٹھائے گئے۔ یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا۔​
بی-اے میں چودھری صاحب عازم بیت اللہ ہوئے۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہو جائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے۔​
"ذرا غور تو کیجئے۔" چودھری صاحب بولے۔ " یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو تعلیم کا حصہ سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں۔ آخر تکمیل دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تو اس کو کس بنا پر پوری حاضریاں نہ ملیں؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے۔"​
ان کی کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور محکمہ دینیات کے پروفیسروں نے چودھری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔​
(۱)​
حج سے پہلے وہ چودھری صاحب تھے اور حج کے بعد "الحاج الشذری الہندی" بہت غور و خوض کے بعد تمام عربی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ "چودھری" معرب ہو کر​
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 46
"الشذری" ہو گیا تھا اور یہ ارتقائی نشو و نما چوہدری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے مگر "الشذری" اس سے مجبور تھے اور عربی جبہ و قبہ پسند کرنے لگے تھے لیکن باوجود مختصر ڈاڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے۔ ان کی تمام کوششیں اپنے کو عرب بنانے میں بالکل اسی طرح ضائع جاتی تھیں جس طرح بعض دیسی عیسائی کوٹ پتلون پہن کر غلط اردو دیدہ و دانستہ بولتے ہیں اور غلط انگریزی مجبوراً اور تہ پہ تہ سفید پاؤڈر کی لگاتے ہیں مگر حقیقت نہیں چھپتی اور بالکل یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کمرہ میں قلعی ہوئی ہے اس میں کسی زمانہ میں ضرور باورچی خانہ تھا۔ نہ یوروپین انٹر میں بیٹھنے سے کام چلتا ہے اور نہ یورپین نرخ پر چائے خریدنے سے۔ غرض یہی حالت چوہدری صاحب کی تھی کہ عرب بننے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی تھیں۔
میں نے اور انہوں نے تعلیم ساتھ پائی تھی۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی۔ اگر وہ روانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا۔ رہ گیا سوال معنی کا تو یہ کبھی طے نہ ہو سکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یا وہ مجھ پر۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہو گئی تھی اور اس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔
چوہدری صاحب کا اتنا پرانا ساتھ، پھر اتفاق کی بات کہ ساتھ ہی عراق کا سفر درپیش ہوا۔
بغداد کی گلیوں میں دو آدمی۔۔۔ میں اور شذری۔۔۔ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ دونوں میں سے واقعہ دراصل یوں ہے کہ ایک بھی عربی نہیں جانتا۔ شہر کی چیخ و پکار کیا ہے؟ یقین مانئے کہ گویا چاروں طرف قل ہو اللہ پڑھی جا رہی ہے۔ میں اور چوہدری صاحب دونوں عربی نہیں جانتے۔ لیکن پھر بھی مجھ میں اور چوہدری صاحب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
"تم احمق ہو۔" بھائی شذری نے کہا۔ "ارے میاں عربی بولنا اور سمجھنا اس قدر آسان ہے کہ وہ ہر شخص جو ہماری اور تمہاری طرح اردو جانتا ہے اور فارسی میں بھی قدرے دخل رکھتا ہے بڑی آسانی سے عربی بول اور سمجھ سکتا ہے۔"
میں نے تنگ آ کر کہا۔ "خدا گواہ ہے، آج تیسرا دن ہے کہ بغداد آئے ہیں مگر میری سمجھ میں یہاں کا ایک حرف نہیں آتا۔ طبیعت ہے کہ الٹی جاتی ہے۔ خدا کی پناہ تربوز مانگو تو چھوارے دے رہے ہیں اور روٹی مانگو تو پانی۔ یہاں سے جلدی بھاگنا چاہیے۔ میری عمر تو گزر جائے گی اور یہ عربی سمجھ میں نہ آئے گی۔"
ادھر تو میرا یہ حال اور ادھر بھائی شذری کا یہ خیال کہ کچھ نہیں صرف معمولی اردو میں
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 47
من۔ ول۔ ال۔ کم وغیرہ لگاؤ بس عربی ہو گئی۔ اسی بنا پر میں چوہدری صاحب کی عربی دانی کا قائل ہی نہ ہوتا تھا۔ اگر سڑک پر دو آدمیوں میں حجت یا لڑائی ہو رہی ہو تو چوہدری صاحب کا فرض ہوتا تھا کہ لڑائی کی وجہ سے مجھے آگاہ کریں اور یہ ظاہر کریں کہ عربی سمجھتے ہیں۔ یا پھر کہیں سائن بورڈ پر نظر جائے تو ناممکن کہ اس کی تفسیر میرے سامنے نہ پیش ہو۔ مجھ کو یہ باتیں ان کی کہاں تک تکلیف نہ دیتیں جبکہ میں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ حضرت کسی طرح بھی مجھ سے زیادہ عربی سمجھنے کے اہل نہیں تھے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ ہم دونوں مدینے کے قاضی صاحب سے ملنے جا رہے تھے۔ راستے میں چوہدری صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک چائے کی دکان پر چڑھ گئے۔ آٹھ درجن فنجان کا آرڈر دیا گیا۔ "میں نے تعجب سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا۔ اول تو مجھ کو اس قسم کی چائے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پھیکی سیٹھی بغیر دودھ کی چائے، بیٹھے شیشے کی فنجانوں میں پی رہے ہیں اور پھر یہاں ایک نہ دو بلکہ آٹھ درجن فنجان چائے جو میں کسی طرح بھی نہ پی سکتا تھا۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا۔ "آخر یہ کیا حماقت ہے؟" چوہدری صاحب تنک کر بولے۔ "دام ہم دیں گے، تم کیا جانو۔ عربی سمجھتے نہیں، نہ یہاں کے نرخ کا پتہ، دیکھو آج ہم تم کو دکھاتے ہیں کہ کسی ملک میں جانا اور وہاں کی زبان سمجھنا کتنا مفید ہوتا ہے۔" غرض چائے آئی اور خوب پی اور لنڈھائی۔ پھر بھی بچ رہی۔ آخر کہاں تک پیتے مگر چوہدری صاحب نے "زرمی خورم" کر ڈالا۔
جب چائے کا بل پیش ہوا تو چودھری صاحب سٹپٹائے۔ قریب قریب دو ڈیڑھ پیسہ فی فنجان طلب کر رہا تھا اور چودھری صاحب ایک درجن فنجان کے دام ایک یا ڈیڑھ پیسہ کے حساب سے دے رہے تھے۔ کہاں ایک پیسہ فی فنجان اور کہاں ایک پیسہ فی درجن۔ جب غلط سلط عربی سے معاملہ نہ سلجھا تو حضرت شذری نے دکاندار کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پر لا کھڑا کیا اور دکاندار کےکھمبے پر جو نرخ لکھا ہوا تھا اس کی طرف دکاندار کی توجہ مبذول کرائی کہ جب کھلم کھلا نرخ لکھ رکھا ہے تب آخر کیوں دام زیادہ مانگتے ہو؟ دکاندار نے اس عبارت کو پڑھا اور کچھ چکرایا۔ ادھر ادھر دیکھا، سارے میں اس سرے سے اس سرے تک تمام دکانوں خواہ وہ چائے کی ہوں یا کھجوروں کی، یا گوشت کی، بڑے بڑے سیاہ حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ جس کا اردو میں ترجمہ ہوتا تھا۔ "ایک پیسہ میں ایک درجن فنجان چائے۔ دکاندار نے کہا : "میں نے یہ نہیں لکھا، کوئی مردود سارے بازار میں یہی لکھتا چلا گیا اور میں اس کا ذمہ دار نہیں۔" مجھے ایک دم سے خیال آیا اور میں نے چودھری صاحب کو ہندوستان کے اسی قسم کے اشتہار یاد دلائے۔" ایک پیسہ ایک درجن چائے کی پیالیاں" یا پھر "گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔" یہ مرض عراق میں

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 48
بھی پھیلا ہوا ہے۔ اس بدعت کی ذمہ دار چائے کی کمپنیاں تھیں نہ کہ کوئی چائے والا۔
میں نے چودھری صاحب کی عربی دانی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چودھری صاحب کا یہ کہنا کہ "آپ کون ہوتے ہیں۔ دام میرے گئے یا آپ کے۔" مجھ کو خاموش کر دینےکے لیے کافی تھا۔
(2)
چائے پی کر ہم حضرت قاضی صاحب کے یہاں گئے۔ بدقسمتی سے وہ نہ ملے اور ہم اپنا ملاقاتی کارڈ چھوڑ کر دریا کے کنارے پہنچے۔
عراق میں ایک ناؤ ایسی بھی ہوتی ہے جیسے گول پیالہ۔ خوش قسمتی سے ایسی ہی ناؤ ملی۔ میں تو چپ کھڑا رہا اور چودھری صاحب نے ہندوستانی عربی یا باالفاظ دیگر عراقی اردو میں بات چیت شروع کی۔ خدا معلوم انہوں نے کیا کہا اور ملاح نے کیا سمجھا مگر نتیجہ اس گفت و شنید کا یہ ہوا کہ ہم دونوں ناؤ میں بیٹھ گئے اور دریا کی سیر ہونے لگی۔ اس ناؤ کی تعریف کے چودھری صاحب نے پل باندھ دیے۔ کہنے لگے کہ "اس ناؤ میں خاص بات یہ ہے کہ بھنور یعنی گرداب میں پڑ کر بھی نہیں ڈوبتی۔"میں نے تعجب ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ "دیکھو ابھی اسے گرداب میں لے چلیں گے، تاکہ تم خود دیکھ لو۔" میں نے کہا : "خدا کے واسطے رحم کیجئے، مجھ کو ذرہ بھر بھی شک نہیں، آپ سچ کہتے ہیں اور مجھ کو تسلیم ہے کہ کم بخت ناؤ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا مقابلہ کر لے گی۔" مگر وہ نہ مانے پر نہ مانے بیچ دریا کے بہاؤ سے ذرا ہٹ کر بڑے زور و شور سے بھنور پڑ رہا تھا جس کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ چودھری صاحب ملاح سے غلط سلط عراقی اردو بول رہے تھے، چونکہ لفظ عمیق جانتے تھے لہذا تمام تر دریا کی گہرائی پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اب ملاح سے انہوں نے اس خوفناک بھنور کی طرف انگلی اٹھا کر کہا : "لہ غریق کشتی میں الگردابہ۔" لفظ گرداب پر انگلی سے بھنور کی شکل بنائی اور بھنور میں ناؤ لے چلنے کا اشارہ کیا۔ میں نے کہا : "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو" مگر وہ میری سنتے ہی نہ تھے۔ "ٹھہرو جی۔" کہہ کر میرا ہاتھ انہوں نے جھٹک دیا۔ ملاح نے نہ معلوم ان سےکیا کہا جس کو یہ قطعی نہ سمجھے ہوں گے مگر بات چیت بھلا کیسے رک سکتی۔ عربی فارسی اور انگریزی میں تمام الفاظ بولے جاتے خواہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ان کی بلا سے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ میں چیختا پیٹتا رہ گیا اور ملاح نے تیزی سی کشتی کو لے جا کر گرداب میں ڈال دیا اور کشی نے گھومنا شروع کیا۔ جب کشتی گھومی تو اول تو مجھے ڈر لگا لیکن پھر لطف آیا، ہم دونوں کشتی کا کنارہ پکڑے نیچے پانی کو دیکھنے لگے۔ یہ لطف بہت عارضی تھا اور میرا سر چکرایا۔ میں نے واپس چلنے کو کہا۔ اتنے میں موذی ملانے نے پانی میں پتوار ڈال کر ناؤ کی گردش میں اضافہ کر دیا۔ چودھری صاحب ہنس رہے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ "خدا کے واسطے بس کرو۔ میرا

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 49
سر پھٹا۔" میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے پانی کی سطح پر الٹا لٹکا ہوا گھوم رہا ہوں۔ اب چودھری صاحب کو بھی چکر آئے۔ وہ دراصل ضبط کر رہے تھے، ورنہ ان کی اور میری حالت یکساں تھی۔ وہ پھر ہنس رہے تھے لیکن میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور زور سے چلایا کہ "خدا کے واسطے ناؤ روکو۔" چودھری صاحب اس خیال میں تھے کہ جب جی چاہے گا رکوا لیں گے۔ چنانچہ اب انہوں نے خود ڈگمگاتے ہوئے ملاح سے کہا : "ایھا الشیخ شد المن الدقص اخرج میں الگرداب۔" بانگڑو ملاح واللہ اعلم سمجھتا بھی ہو گا یا نہیں کہ فارسی میں بھنور کر گرداب کہتے ہیں اور پھر الشذری اور خود اس کے عربی کپڑوں کی پھڑ پھڑاہٹ اور دریا کا شور اور پھر لٹو کی طرح ناؤ کی گردش، سمجھنا تو درکنار ملاح نے سنا بھی کہ نہیں۔ اس نے سنا اور نہ سمجھا اور نہ سننے یا سمجھنے کی کوشش کی اور اللہ کا نام لے کر دانتوں سے اپنے ہونٹ دبا کر۔ "ایاغ۔" کہہ کر زور سے پتوار پانی میں ڈال کر ناؤ کو اور بھی گھن چکر کر دیا۔ میں تو آنکھیں بند کر کے چلا کر سجدے میں گرا اور ادھر الشذری "ایھا الشیخ" کا نعرہ مار کر جو اپنی جگہ سے ہٹے تو میرے سر پر نازل ہوئے۔ اٹھے اور پھر گرے اور لوٹن کبوتر کی طرح لوٹنے لگے۔ ایک طرف اپنے گھٹنے توڑ رہے تھے تو دوسری طرف اپنی داڑھی اور ٹھوڑی سے میری پیٹھ۔ ان کی ٹھوڑی میری پیٹھ میں کس طرح لگ رہی تھی، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں ایسے وقت میں بھی پچھتا رہا تھا کہ ناحق میں نے کہہ سن کر ان کی ڈاڑھی کم کرائی۔ میں سجدے میں پڑا۔ "سبحان ربی الاعلی" کہے چلا جا رہا تھا۔ "خدا کے واسطے نکالو۔" ادھر الشذری بوکھلا کر چلائے۔ "شدۃ المن الرقاصہ ابے ایھا الشیخ" خدا کے واسطے اخرج میں الگرداب ارے مرا۔" میں پھر چلایا : "ہائے مرا۔" ادھر اس ناہنجار ملاح نے ایک مرتبہ اور پانی میں پتوار ڈال کر زور سے چکر کی تیزی میں اضافہ کر دیا۔ میری یہ حالت ہو گئی کہ سر پھٹا جا رہا تھا اور یقین ہو گیا کہ سر چکرا کر اب موت واقع ہو رہی ہے۔ چودھری صاحب نے اب دہائی اور تہائی دینا شروع کی اور میں پڑے پڑے ان کی کوششوں کی داد دے رہا تھا، وہ چلا رہے تھے۔ "اے نالائق شیخ۔۔۔ برحمتل کم بخت اشدۃ میں الرقص ۔۔۔ ارے اخراج ۔۔۔ من الگرداب، ارے موذی ناؤ نکال۔" چکرا کر وہ میرے اوپر پھر گرے۔ میں نے آنکھ کھول کر دیکھا، ساری دنیا گھوم رہی تھی۔ چودھری صاحب نے پھر دھاڑ کر کہا۔ "ایدھا الشیخ ابے الو۔۔۔ ابن الخنزیر۔۔۔ ارے مرے۔۔۔ ابے روک۔۔۔۔ روک۔۔۔ ارے نکال۔۔۔ یا اللہ۔۔۔ ابے ایھا الشیخ من الموذی اخرج من الماء الگرداب۔۔۔ نالائق۔۔۔ بدمعاش۔۔۔ واللہ۔۔۔ بھئی شیخ۔۔۔" مگر توبہ کیجئے بھلا ان باتوں سے کہیں ناؤ رکنے والی تھی۔
سر پٹک پٹک کر ہم دونوں بے ہوش ہو گئے۔
نہ معلوم کتنی دیر بعد آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو دریا کے کنارے بے بس پایا۔ مارے درد کے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 50
سر پھٹا جا رہا تھا۔ تمام چائے دریا برد ہو چکی تھی۔ نہ طاقت رفتار تھی، نہ طاقت گفتار۔ بڑی دیر تک اس پسپائیت کے عالم میں پڑے رہے۔ بڑی کوششوں کے بعد بھائی شذری نہ معلوم کس طرح اٹھ کھڑے ہوئے کہ چاروں شانے چت گرے اور ادھر وہ نابکار ملاح ہنس رہا تھا اور اپنی مزدوری کا طالب تھا، ادھر الشذری مزدوری نہ دیتے تھے اور اپنی گردابی عربی اس نقاہت میں بول رہے تھے۔
جب ایک فارسی داں حضرت کا ادھر سے گزر ہوا تو معاملہ صاف ہوا۔ ادھر الشذری نے ملاح کی شکایت کی کہ ہم دونوں کو اس ناؤ میں چرخ دے کر ادھ مرا کر دیا اور مزدوری مانگتا ہے اور ادھر ملاح نے کہا کہ "ایسے لوگ بھی کم دیکھنے میں آئے ہوں گے کہ مارے چکر کے مرے جا رہے تھے مگر بار بار یہی کہتے تھے کہ ناؤ کو شدت کے ساتھ رقص کراؤ۔ میرا خود سر چکرا گیا اور دگنی مزدوری واجب ہے۔"
"ارے کم بخت چودھری۔" میں نے مری ہوئی آواز میں کہا : "یہ تمہاری عربی میری جان لے گی۔ یاد رکھو اگر میں مر گیا تو یہ خون تمہاری گردن پر ہو گا۔"
قصہ مختصر ملاح کو مزدوری دینی پڑی اور ہم گدھوں پر لاد کر گھر پہنچائے گے۔ بھیجا ہل گیا تھا اور ہلنا جلنا دوبر تھا۔ رہ رہ کر میں الشذری کو کوستا تھا کہ "ملعون تیری گردابی عربی نے میری جان لے لی۔"
تین چار روز تک دونوں کا حال پتلا رہا۔ معلوم ہوا کہ اکثر لوگ ناؤ کو گرداب میں ڈلوا کر رقص کراتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوا مگر چودھری صاحب نہ قائل ہونا تھے نہ ہوئے۔ وہ بھی یہی کہے گئے کہ "سب شرارت ملاح کی تھی اور اس نے جان بوجھ کر ہماری لسی بنا ڈالی۔" واللہ اعلم۔
اسی ہفتے میں جب ہم دونوں کے دماغوں میں توازن قائم ہو گیا تو مدینہ منورہ کے قاضی صاحب کے یہاں پہنچے۔ قاضی صاحب موصوف کے اب سعود کے حملہ کی وجہ سے وطن چھوڑنا پڑا تو حیدر آباد پہنے، وہاں سرکار نظام سے سو روپیہ ماہوار کی پنشن مقرر ہو گئی، کچھ عرصے تک ہندوستان می سیاحت کی، پھر عراق میں سکونت پذیر ہو گئے۔ انہوں نے اچھی طرح سفر کیا تھا اور ہندستانیوں سے ان کو محبت تھی۔
ایک فارسی دان عراقی کرم فرما نے ہم دونوں کو قاضی صاحب سے ملایا۔ وہ بہت جلد مختصر سا تعارف کرا کے چلے گئے اور ہم دونوں رہ گئے۔ چودھری صاحب نے فوراً حسب عادت غلط سلط عربی بولنا شروع کر دی۔ قاضی صاحب ایک لفظ فارسی کا نہ جانتے تھے اور ٹھیٹ عربی میں باتیں کر رہے تھے۔ اگر کسی جملے کے دو ایک لفظ جو اردو میں رائج ہیں میں سمجھ لیتا تو اندازے سے جملے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 51
کا تھوڑا بہت مطلب بھی سمجھ لیتا، ورنہ قاضی صاحب کی گفتگو سمجھنا دشوار تھی، مگر بھائی الشذری شاید مجھ سے دوگنا سمجھ رہے تھے۔ قاضی صاحب حیدر آباد، بمبئی، لاہور، دہلی، آگرہ وغیرہ کی سیر کر چکے تھے۔ اتنا تو پتہ چلتا تھا کہ ان مقامات کا ذکر کر رہے ہیں۔ باقی میری سمجھ میں کچھ آتا نہ تھا لیکن بھائی الشذری بیچ میں بار بار بول اٹھتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ قاضی صاحب کی گفتگو حرف بحرف سمجھ رہے ہوں۔ میرے بارے میں وہ بہت پہلے ہی قاضی صاحب سے یہ کہہ کر خاموش ہو چکے تھے کہ "لاعلم لسان العربی" یعنی یہ عربی قطعی نہیں جانتے، لہذا اب قاضی صاحب بھائی الشذری کی طرف مخاطب تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ سمجھ رہا ہے حالانکہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ اتنا ہین قاضی صاحب کی گفتگو سے بہرہ اندوز ہو رہے تھے جتنا کہ میں۔ آگرہ کے لفظ کے ساتھ ایک ہی جملے میں تاج محل کا نام آیا اور پھر تعریفی الفاظ۔ اس موقع پر الشذری سمجھ رہے تھے کہ تاج محل خود ان کی ملکیت ہے، کیونکہ خود وہ آگرہ کے باشندے تھے۔ اظہار خصوصیت ضروری سمجھا اور قاضی صاحب سے انہوں نے کہا۔ "انا اہل بلدہ آگرہ۔" یعنی میں بھی شہر آگرہ کا رہنے والا ہوں۔ قاضی صاحب سمجھ گئے۔ فوراً ہی انہوں نے کہا : "مگر تم تو علی گڑھ سے آئے ہو۔" میں بھی اندازا مطلب سمجھ گیا اور شذری بھی۔ اس پر الشذری بولے۔۔۔ "انا اہل آگرہ مگر طلب علم من الدار العلوم فی وعلی گڑھ۔" قاضی صاحب باوجود "مگر" کے سمجھ گئے کیونکہ علی گڑھ یونیورسٹی کا نام سن چکے تھے۔ بطور شکایت کے الشذری نے کہنا چاہا کہ آپ آگرہ آئے مگر علی گڑھ نہ آئے۔ لفظ آئے کی عربی تو جانتے نہ تھے، یا یاد نہ تھی، لہذا نازل ہونا استعمال کیا۔ "حضرت نزول فی آگرہ من البمبئی لانازل علی گڑھ۔" قاضی صاحب سمجھ گئے اور تیزی سے وجہ بیان کرنے لگے جو نہ الشذری سمجھے اور نہ میں مگر الشذری سر ہلا رہے تھے اور بولے : "ہنا دارالعلوم علی گڑھ معروفا کچیر المن الہند والدھر۔" یعنی علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستان اور دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ اس کے بعد ہی قاضی صاحب نے پوچھا کہ بمبئی سے علی گڑھ کتنی دور ہے۔ اب الشذری ذرا چکرائے کیونکہ نہ تو عربی گنتی جانتے تھے اور نہ میل کی عربی۔ میری تجویز کہ الف لیلہ کا الف بمعنی ہزار اور فرسخ بجائے میل کام دے جائے گا۔ انہوں نے "ٹھہرو جی" کہہ کر رد کر دی اور قاضی صاحب سے بولے : "فاصلہ از علی گڑھ من البمبئی یک لیک و یک نہار۔" یک لیل و یک نہار کلمے کی انگلی سے بتا کر جوش کے ساتھ انگلی ہلائی۔ ایسے کہ باوجود کہ قاضی صاحب فارسی نہ جانتے تھے مگر مطلب قطعی سمجھ گئے، ایک دن ایک رات کا سفر ہے۔ میں بھی الشذری کی قابلیت کی داد دینے لگا لیکن قاضی صاحب نے فورا ہی سرسید کا تیزی سے کچھ ذکر کر کے ایک اور ٹیڑھا سوال اٹکا دیا وہ یہ کہ سر سید مرحوم کے کوئی اولاد میں سے ہے بھی کہ نہیں اور ہے تو کیا کرتا ہے۔ مگر الشذری تو عربی زبان کے ماہر ہو چکے تھے۔ میری تجویزوں کو رد کرتے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 52
ہوئے بولے کہ "ٹھہرو جی مجھے عربی میں بتانے دو۔" بہت جلد الشذری نے قاضی صاحب کو جواب دیا : "سید راس مسعود بن سید جسٹس محمود بن سر سید۔" اس پر قاضی صاحب نے پوچھا کہ "سید محمود کیا کرتے ہیں؟" تو میں الشذری سے کہا کہ کہہ دو انا للہ و انا الیہ راجعون مگر الشذری نے میری تجویز رد کر کے کہا۔ رحمۃ اللہ علیہ واقعی مناسب جواب تھا اور قاضی صاحب سمجھ گئے۔ لیکن الشذری نے اور بھی واضح کر دیا اور اپنے جواب کو مکمل کر کے دہرایا۔ "سید راس مسعود بن سید جسٹس محمود رحمۃ اللہ علیہ بن سر سید علیہ الرحمۃ۔" اور پھر اس پر بھی بس نہ کی اور کہا۔ "بحیر تم والتعجب کہ حضرت نزول حیدر آباد ولاتعارف من الراس مسعود صدر محمہ تعلیمات حیدر آباد۔" قاضی صاح سمجھ گئے اور شاید اظہار تاسف کیا۔
تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نے قاضی صاحب سے اجازت چاہی تو قاضی صاحب نے ہم دونوں سے جو کچھ بھی کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھائیں۔
واپسی پر چودھری صاحب نے راستے میں اپنی عربی دانی کا سکہ میرے اوپر بٹھانے کی کوشش کی اور میرا ناک میں دم کر دیا۔ انہوں نے عربی قواعد زبان کی رو سے میرے تمام تجویز کردہ جوابات غلط بتائے اور کئی لفظوں کے بارے میں سخت بحث رہی، وہ کہتے تھے کہ عربی ہیں اور میں کہتا تھا کہ فارسی۔ تنگ آ کر اپنی جان چھڑانے کے لیے میں نے تسلیم کر لیا کہ "بیشک آپ کو مترجم کی امداد کی قطعی ضرورت نہیں۔" شاید وہ اور میں دونوں ناؤ والا قصہ بالکل بھول گئے تھے۔
(3)
بعد مغرب ہم دونوں قاضی صاحب کے یہاں پہنچے۔ بد قسمتی سے قاضی صاحب گھر پر نہ تھے۔ حبشی ملازم جس نے ہمیں صبح دیکھا تھا اور جانتا تھا کہ ہم لوگ دعوت کے سلسلہ میں آئے ہیں بڑی بدتمیزی سے پیش آیا اور اس نے لے جا کر ہمیں کمرے میں بٹھایا۔ ہم لوگوں کی بدقسمتی، ہاں بدقسمتی کہ یہ حبشی چلا گیا اور تھوڑی دیر میں ایک دوسرا حبشی ملازم آ گیا۔ یہ اس حبشی ملازم سے زیادہ خطرناک اور زیادہ حبشی تھا۔ مجھے صرف دو چیزوں سے ڈر لگتا ہے۔ ہندوستان میں تو بل ڈاگ سے اور عراق میں حبشی ملازم سے، واللہ اعلم ہندوستانیوں کو دوسرے قسم کے کتے کیوں نہیں ملتے اور عراقیوں کو دوسری قسم کے ملازم۔
جب کافی دیر ہو گئی اور دعوت کے آثار نظر نہ آئے تو میں کہا کہ "چودھری صاحب! یار کہیں غلطی تو نہیں ہوئی اور دعوت کل شب کو تو نہیں ہے۔ واقعہ بھی ہے کہ دعوت کے گھر میں تو خود بخود مہمان کو دعوت کے آثار معلوم ہو جاتے ہیں۔ فرش، روشنی، میز کرسی اور دوسری تمام چیزیں جو گھر میں نظر آتی ہیں یہ کہتی ہیں کہ "اے مہمان، آج تیری دعوت ہے، مگر یہاں تو فضا ہی سرد تھی اور کچھ رنگ و بو کا پتہ نہ تھا۔ جب میں نے شبہ ظاہر کیا تو چودھری صاحب بھی
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 53
گھبرائے اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ دعوت کے سلسلے میں جو قاضی صاحب سے باتیں ہوئی تھیں ان میں لفظ "رات" اور "کھانا" تو یاد پڑتا تھا مگر "آج" یا کل کا خیال نہیں۔ بہت یاد کیا مگر بیکار، نہ تو "آج" کی عربی معلوم تھی اور نہ "کل" کی۔ اگر قاضی صاحب نے ان الفاظ کا استعمال بھی کیا ہو گا تب بھی یاد نہ رہا۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے الشذری نے اس حبشی کو پکارا۔ "ایھا الشیخ ہذا لیل مجمع الطعام۔" یعنی دعوت باطعام کا مجمع آج ہی رات کو ہے۔ اس حبشی نے ہم دونوں کو سر سے پیر تک دیکھا۔ کہا یہ ممکن ہے کہ وہ غور کر رہا تھا کہ ہمارا ظاہر ہماری اصلیت سے مختلف ہے۔ بدقسمتی سے وہ غور سے یہی دیکھ رہا تھا۔ خوب اچھی طرح ہم دونوں کو بار بار تعجب سے دیکھ کر جواب دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ چینی زبان بولا یا لاطینی، خاک سمجھ میں نہ آیا تو بھائی شذری بولے۔ "انا الھندی ولالسان العربیہ انت قل عجلت۔" بقول کسے خرابی ہو اس عربی جاننے والے کی جس کے سامنے بھائی شذری اس طرح عربی کی ٹانگ توڑیں۔ مطلب ان کا یہ تھا کہ ہم الہندی ہیں، لسان عربی نہیں جانتے۔ تم عجلت سے بولتے ہو۔ وہ شاید سمجھ گیا اور اس نے بہت رسانیت سے پوچھا، مگر وہ بھی سمجھنا ناممکن تھا لیکن کچھ شبہ ہوا کہ کھانے کو پوچھتا ہے۔ میں چودھری صاحب سے کہا کہ "بھائی خوب اطمینان کر لو، محض اندازے سے کام نہ لو۔" مگر وہ نہ مانے سر ہلا ہلا کر اور کہنے لگے" ہاں ہاں نعم نعم نعم" اس نے معاملہ سمجھ کر سر ہلا دیا اور اشارہ کیا۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کمرے میں لا کر بٹھایا۔ اس کمرے میں معمولی فرش تھا اور بہت اجڑا سا کمرہ تھا۔ میں نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ "آخر ہم یہاں کیوں بیٹھیں؟" اس پر چودھری صاحب نے کہا کہ "اس لیے کہ وہ کہتا ہے کہ دعوت والے یہاں بیٹھیں گے۔ مجھے برا معلوم ہوا کہ چودھری صاحب خواہ مخواہ اپنی عربی دانی کے سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ میں بگڑ کر کہا کہ "تم غلط کہتے ہو، اس نے ہرگز یہ نہیں کہا، تم خاک نہیں سمجھتے۔ خواہ مخواہ مجھ پر رعب جماتے ہو۔" اس پر چودھری صاحب بھی بگڑ گئے اور کہنے لگے کہ "جب عربی نہیں جانتے تو خواہ مخواہ مجھ سے کیوں الجھتے ہو؟" جھائیں جھائیں کر ہی رہے تھے کہ ایک سینی میں کھانا آ گیا۔ میں نے نرمی سے اب چودھری صاحب سے کہا کہ بھئی آخر پوچھو تو کہ یہ معاملہ کیا ہے کہ میزبان خود ندارد۔" کہنے لگے کہ "میں دریافت کرتا ہوں۔" آپ حبشی سے پوچھنے لگے "لا قاضی صاحب۔" یعنی قاضی صاحب نہیں ہیں۔ "فی نزول بیتکم والشرکۃ لنا طعام۔" یعنی یہ کہ اپنے گھر پر کیب آئیں گے اور کیا ہمارے ساتھ طعام میں شرکت نہ کریں گے؟ دراصل الشذری کی عربی بہ نسبت عربوں کے میں زیادہ سمجھتا تھا۔ واللہ اعلم وہ حبشی کیا سمجھا، کچھ نہ کچھ تو ضرور سمجھا جو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا "نہیں آئیں گے۔" اور کچھ تیزی سے بول کر ہاتھ کے اشارے سے ہم سے جلدی کھانے کو کہا۔

 
Top