شمشاد
لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 14
بہت جلد لٹکائی جائے گی۔"
(2)
اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔
میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔
آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔ ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بے حد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا، اور میں تک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کی اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیئے لیتے ہیں۔ تو بسم اللہ۔ ہم کو لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔
اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائے گی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بے تکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے