" عشق " پر اشعار

شعیب خالق

محفلین
اپنی تعلیم پر توجہ دو
مت پڑو عشق کے عذابوں میں
عمر کٹتی ہے ان کی کانٹوں پر
پھول رکھتےہیں جو کتابوں میں
 

شعیب خالق

محفلین
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا،
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو اُدھورا چھوڑ دیا
فیض احمد فیض​
 

شمشاد

لائبریرین
عشق میں تیرے گزرتی نہیں بِن سر پٹکے
صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی
(میر)
 

تیشہ

محفلین
میں خوش نظر تھی مجھے اسطرح ستایا گیا
وصال و ہجر کے مابین آزمایا گیا

ابھی کھلے بھی نہ تھے عرصہ و صال میں پھول
تیرے فراق کا نغمہ مجھے سنایا گیا

میں تیرے عشق کی تجدید کرنے نکلی تھی
تو جا چکا ہے مجھے راہ میں بتایا گیا


محبتیں جسے تسخیر کر نہ پائیں تو پھر
منافرت کا نشانہ مجھے بنایا گیا
 

تیشہ

محفلین
اسیِ عشق سے ،اسی چاہ سے ،اسی پیار سے، اسی مان سے
میرے ہاتھ میں گلاب دو ،میں بہت دنوںِ سے اُداس ہوں ، ۔۔ ،
 

شمشاد

لائبریرین
لذت ہنوز مائدہء عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنا سزا کے بعد

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)
 

محسن حجازی

محفلین
سراپا مرہون عشق اور ناگزیر الفت ہستی
عبادت کرتا ہوں برق کی اور افسوس حاصل کا۔
(غالب)
یہ ہم کو ہمارے اساتذہ میں سے ایک نے سکھایا ہے جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرے میں سمندر ہے ذرے میں بیاباں ہے
(اصغر گوندوی)
 
Top