عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے- برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
معزز اساتذہ کرام

الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی

@محمّد احسن سمیع :راحل:


آپ سے رہنمائ و اصلاح کی درخواست ہے ۔ ۔

شکریہ


عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
بات چوکوں پہ جب سے پھیلی ہے

عشق ٹھہرا گلاب کی مانند
جس کی خوشبو جہاں میں پھیلی ہے

اک مہکتی سی شام یادوں میں
کبھی چنپا کبھی چنبیلی ہے

جانتے تھےکہ ہار جائیں گے
عشق کی بازی پھر بھی کھیلی ہے

یہ الاؤ تو مجھ میں روشن تھا
آگ اس تک یہ کیسے پھیلی ہے

نام لکھا ہے تیرا مہندی سے
اب کسی اور کی ہتھیلی ہے

اس کو بوجھا نہیں کسی نے کبھی
زندگی ایسی اک پہیلی ہے

میری تنہائ ساتھ ہے میرے
وہ بھی میری طرح اکیلی ہے

ہے اداسی کا آنا جانا یوں
اب یہی تو مری سہیلی ہے

تیرا شجرہ ہوا کرے ستھرا
چشمِ بےباک تیری میلی ہے

یہ بتا مجھ کو رازدار مرے
بات لوگوں میں کیسے پھیلی ہے

یہ محبت تو اک سزا ہے بس
میں نے برسوں اکیلے جھیلی ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایک تو تکنیکی غلطی ہو گئی ہے
عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
بات چوکوں پہ جب سے پھیلی ہے

عشق ٹھہرا گلاب کی مانند
جس کی خوشبو جہاں میں پھیلی ہے
... قوافی مطلع متعین کرتا ہے، ان دو اشعار سے کنفرم ہو جاتا ہے کہ مشترک حروف 'ھیلی ہے' ہیں، لیکن اس کے بعد صرف 'یلی' ہے' یعنی قوافی' ہکاری' ہونا تھے، تھیلی، جھیلی، کھیلی، پھیلی وغیرہ
اس لیے مطلع بدل دو، یا اس کا ایک قافیہ۔
اس کے علاوہ' چوکوں' چوک یعنی چوراہوں کی جمع تو ہے ہی، اس کے علاوہ ہندی میں'چوکا' بمعنی باورچی خانہ کی جمع بھی ہے۔ اور یہ لفظ بھی اردو میں اکثر استعمال ہو ہے جیسے ندا فاضلی کی شاعری میں۔ کسی لرکی کی شاعری میں ہو تو خیال اس طرف جا سکتا ہے!
اور بس ایک شعر میں املا کی غلطی ہے
اک مہکتی سی شام یادوں میں
کبھی چنپا کبھی چنبیلی ہے
یہ چمپا ہی ہوتا ہے بیٹا، چمپا نہیں
باقی اشعار درست ہیں، میں زبردستی کی اصلاح نہیں دیتا، ویسے
ہوں اداسی کا آنا جانا ہے
بہتر نہیں موجودہ مصرعے سے؟
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک تو تکنیکی غلطی ہو گئی ہے
عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
بات چوکوں پہ جب سے پھیلی ہے

عشق ٹھہرا گلاب کی مانند
جس کی خوشبو جہاں میں پھیلی ہے
... قوافی مطلع متعین کرتا ہے، ان دو اشعار سے کنفرم ہو جاتا ہے کہ مشترک حروف 'ھیلی ہے' ہیں، لیکن اس کے بعد صرف 'یلی' ہے' یعنی قوافی' ہکاری' ہونا تھے، تھیلی، جھیلی، کھیلی، پھیلی وغیرہ
اس لیے مطلع بدل دو، یا اس کا ایک قافیہ۔
اس کے علاوہ' چوکوں' چوک یعنی چوراہوں کی جمع تو ہے ہی، اس کے علاوہ ہندی میں'چوکا' بمعنی باورچی خانہ کی جمع بھی ہے۔ اور یہ لفظ بھی اردو میں اکثر استعمال ہو ہے جیسے ندا فاضلی کی شاعری میں۔ کسی لرکی کی شاعری میں ہو تو خیال اس طرف جا سکتا ہے!
اور بس ایک شعر میں املا کی غلطی ہے
اک مہکتی سی شام یادوں میں
کبھی چنپا کبھی چنبیلی ہے
یہ چمپا ہی ہوتا ہے بیٹا، چمپا نہیں
باقی اشعار درست ہیں، میں زبردستی کی اصلاح نہیں دیتا، ویسے
ہوں اداسی کا آنا جانا ہے
بہتر نہیں موجودہ مصرعے سے؟

آداب
جی میں اصلاح کرتی ہوں ۔ ۔ شکریہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک تو تکنیکی غلطی ہو گئی ہے
عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
بات چوکوں پہ جب سے پھیلی ہے

عشق ٹھہرا گلاب کی مانند
جس کی خوشبو جہاں میں پھیلی ہے
... قوافی مطلع متعین کرتا ہے، ان دو اشعار سے کنفرم ہو جاتا ہے کہ مشترک حروف 'ھیلی ہے' ہیں، لیکن اس کے بعد صرف 'یلی' ہے' یعنی قوافی' ہکاری' ہونا تھے، تھیلی، جھیلی، کھیلی، پھیلی وغیرہ
اس لیے مطلع بدل دو، یا اس کا ایک قافیہ۔
اس کے علاوہ' چوکوں' چوک یعنی چوراہوں کی جمع تو ہے ہی، اس کے علاوہ ہندی میں'چوکا' بمعنی باورچی خانہ کی جمع بھی ہے۔ اور یہ لفظ بھی اردو میں اکثر استعمال ہو ہے جیسے ندا فاضلی کی شاعری میں۔ کسی لرکی کی شاعری میں ہو تو خیال اس طرف جا سکتا ہے
استادِ محترم
آداب
رہنمائ کیجیئے کہ کونسا مصرعہِ ثانی بہتر رہے گا ۔ ۔


عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
زندگی آگ میں دھکیلی ہے

یا

عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
زیست کتنی مری روپہلی ہے

یا

عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
میری دنیا بڑی اکیلی ہے

اور بس ایک شعر میں املا کی غلطی ہے
اک مہکتی سی شام یادوں میں
کبھی چنپا کبھی چنبیلی ہے
یہ چمپا ہی ہوتا ہے بیٹا، چنپا نہیں

معذرت ۔ ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ لکھا تھا ۔ ۔ :bashful::embarrassed1:


اک مہکتی سی شام یادوں میں
کبھی چمپا کبھی چنبیلی ہے


باقی اشعار درست ہیں، میں زبردستی کی اصلاح نہیں دیتا، ویسے
یوں اداسی کا آنا جانا ہے
بہتر نہیں موجودہ مصرعے سے؟

بجا فرمایا آپ نے ۔ ۔ یہی بہتر ہے ۔

یوں اداسی کا آنا جانا ہے
اب یہی تو مری سہیلی ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلا مطلع ہی رکھو، دوسرے کا قافیہ غلط ہے، تیسرا بھی اچھا ہے۔
باقی تو درست ہو ہی گئے، اگرچہ میرے تجویز کردہ مصرعے میں بھی ایک سقم تھا،
... آنا جانا ہے
بھی ہے پر ختم ہوتا ہے جو ردیف بھی ہے، لیکن اس وقت میرے ذہن میں کوئی متبادل نہیں آ سکا، تم بھی سوچو اگر کچھ مزید بہتر متبادل سوچ سکو!
 

صابرہ امین

لائبریرین
آنا جانا ہے یوں اداسی کا
سے بہتر مصرع ذہن میں نہیں آ رہا

آداب
اب تو ہم کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے ۔ ۔ یہی بہترین ہے :) ۔ ۔ ۔یہ تو اب تبرک کے طور پر ہم ضرور ڈالیں گے ۔ ۔ ۔ شکریہ

آنا جانا ہے یوں اداسی کا
اب یہی تو مری سہیلی ہے

کیونکہ چوکوں والا مصرعہ نکال دیا ہے تو اگر

یہ بتا مجھ کو رازدار مرے
بات لوگوں میں کیسے پھیلی ہے

کے بجائے
یہ بتا مجھ کو رازدار مرے
بات کوٹھوں پہ کیسے پھیلی ہے

کر دیا جائے تو کیسا رہے گا ۔ ۔ ۔

اور یہ شعر ایسے اچانک ہی دماغ میں آگیا ۔ ۔ کہیے تو شامل کر دوں


یہ سنا ہے کہ تونے جام بھرا
اور مئے عشق پھر انڈیلی ہے

آپ کی رہنمائ کی منتظر ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
کوٹھوں.. کے ساتھ درست تو لگتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ کوٹھوں سے مراد بھی دوسری ہوتی ہے!
نیا شعر کوئی خاص تو نہیں، شامل کر سکتی ہو مگر
 

صابرہ امین

لائبریرین
کوٹھوں.. کے ساتھ درست تو لگتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ کوٹھوں سے مراد بھی دوسری ہوتی ہے!
ر
آداب
ذہن میں " بات ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی" ہی تھا ۔ ۔ ۔ دوسرا مطلب اب ذہن میں آیا ۔ ۔ شکریہ

نیا شعر کوئی خاص تو نہیں، شامل کر سکتی ہو مگر

ٹھیک ہے۔ ۔ غزل پہلے جیسی ہی ٹھیک ہے ۔ ۔

اچھا ایک رہنمائ اور کیجیئے گا کہ ایک غزل میں کتنے اشعار ہوں ۔ ۔ میں تو لکھتی ہی جاتی ہوں جو ذہن میں آئے ۔ ۔ اور اچھے اشعار آسان اردو میں لکھے جاتے ہیں یا مشکل مشکل الفاظ کے ساتھ ۔ ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
آداب
آپ سب محترم آساتذہِ کرام سے نظرِ ثانی کی گذارش ہے ۔ ۔

عشق جھیلا، سزا بھی جھیلی ہے
زندگی آگ میں دھکیلی ہے

عشق ٹھہرا گلاب کی مانند
جس کی خوشبو جہاں میں پھیلی ہے

اک مہکتی سی شام یادوں میں
کبھی چمپا کبھی چنبیلی ہے

جانتے تھےکہ ہار جائیں گے
عشق کی بازی پھر بھی کھیلی ہے

یہ الاؤ تو مجھ میں روشن تھا
آگ اس تک یہ کیسے پھیلی ہے

نام لکھا ہے تیرا مہندی سے
اب کسی اور کی ہتھیلی ہے

اس کو بوجھا نہیں کسی نے کبھی
زندگی ایسی اک پہیلی ہے

میری تنہائ ساتھ ہے میرے
وہ بھی میری طرح اکیلی ہے

آنا جانا ہے یوں اداسی کا
اب یہی تو مری سہیلی ہے

تیرا شجرہ ہوا کرے ستھرا
چشمِ بےباک تیری میلی ہے

یہ بتا مجھ کو رازدار مرے
بات لوگوں میں کیسے پھیلی ہے

یہ محبت تو اک سزا ہے بس
میں نے برسوں اکیلے جھیلی ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ
اچھی ہوگئی- لیکن کچھ ملاحظات مجھے قابل ذکر نظر آے اگرچہ معمولی ہیں-

عشق کی بازی میں ق اور ک کی قربت تنافر کی سی ثقالت پیدا کر رھی ہے۔ اسے بازیء عشق کہہ کر دور کیا جاسکتا ہے۔

اب کسی اور کی ہتھیلی ہے
اب کے بجائے پر بہتر ہوسکتا ہے بمعنی لیکن- اب معنوی طور پر کچھ کمزور لگ رہا ہے- جیسے پہلے کسی چیز کا ذکر رہ گیا ہو۔

اب یہی تو مری سہیلی ہے
یہاں تو کی وجہ سے بندش چست نہیں لگر ہی- اب یہ جیسے مری سہیلی ہو بہتر لگتاہے۔یا جیسے اب یہ ۔۔۔
 
آخری تدوین:
تیرا شجرہ ہوا کرے ستھرا
چشمِ بےباک تیری میلی ہے
خیال کے اعتبار سے شعر عمدہ ہے، مگر مجھے یہاں بھی قافیہ پر اشکال ہے. استاد محترم یا عاطف بھائی وضاحت فرما دیں کہ کیا یائے لین و مجہول قافیہ میں جمع ہوسکتی ہیں؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
الاؤ یہاں اَ+لا+او تقطیع ہو رہا ہے، اس کی تقطیع اَ+لا+وْ نہیں ہونی چاہیے؟
مجھے تو جائز حد میں محسوس ہورہا ہے ۔ دونوں طرغ ہی ٹھیک ہوسکتاہے
کیا جھیلی کے ساتھ پھیلی قافیہ آسکتا ہے؟ دونوں کی آواز میں فرق نہیں؟ جھیلی میں یائے مجہول ہے اور پھیلی میں یائے لین!
اس پر کچھ کلام کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ البتہ فرق تو ہے ۔ ماضی میں اس طرح کے کے قوافی مقبول رہے ہیں ۔ جیسے جمشید اور بھید کے ساتھ امید۔ سو
اعلی و اولی یہی ھے جو آپ نے فرمایا۔ لیں کے اصیل تاثر کا کام ہم عجمی لوگ ہمزہ سے لے لیتے ہیں ۔ جو خوب لچکدار ھے ۔
 

الف عین

لائبریرین
مجہول اور لین کے فرق مجھ کو بھی خیال آیا تھا، لیکن سوچا کہ آوازوں کا فرق اتنا نمایاں نہیں لگ رہا اس لیے چلنے دیا۔ دو قوافی ہیں اس نوع کے، پھیلی اور میلی۔ صابرہ یہ بھی کر سکتی ہیں کہ ان اشعار کو لے کر ایک اور غزل کہہ دیں جن میں قوافی محض ی روی کے ہوں، جاری ہے، ہوتی ہے، کہتی ہے، دیکھی ہے!
الاؤ بھی چل سکتا ہے اس طرح میرے خیال میں بھی
 
مجھے تو جائز حد میں محسوس ہورہا ہے ۔ دونوں طرغ ہی ٹھیک ہوسکتاہے

اس پر کچھ کلام کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ البتہ فرق تو ہے ۔ ماضی میں اس طرح کے کے قوافی مقبول رہے ہیں ۔ جیسے جمشید اور بھید کے ساتھ امید۔ سو
اعلی و اولی یہی ھے جو آپ نے فرمایا۔ لیں کے اصیل تاثر کا کام ہم عجمی لوگ ہمزہ سے لے لیتے ہیں ۔ جو خوب لچکدار ھے ۔

مجہول اور لین کے فرق مجھ کو بھی خیال آیا تھا، لیکن سوچا کہ آوازوں کا فرق اتنا نمایاں نہیں لگ رہا اس لیے چلنے دیا۔ دو قوافی ہیں اس نوع کے، پھیلی اور میلی۔ صابرہ یہ بھی کر سکتی ہیں کہ ان اشعار کو لے کر ایک اور غزل کہہ دیں جن میں قوافی محض ی روی کے ہوں، جاری ہے، ہوتی ہے، کہتی ہے، دیکھی ہے!
الاؤ بھی چل سکتا ہے اس طرح میرے خیال میں بھی

جزاکما اللہ صاحبان کرام. آپ کے مراسلوں نے حسب سابق کچھ نیا سکھایا ہے.

دعاگو،
راحل.
 

صابرہ امین

لائبریرین
واہ
اچھی ہوگئی- لیکن کچھ ملاحظات مجھے قابل ذکر نظر آے اگرچہ معمولی ہیں-


عشق کی بازی میں ق اور ک کی قربت تنافر کی سی ثقالت پیدا کر رھی ہے۔ اسے بازیء عشق کہہ کر دور کیا جاسکتا ہے۔


اب کے بجائے پر بہتر ہوسکتا ہے بمعنی لیکن- اب معنوی طور پر کچھ کمزور لگ رہا ہے- جیسے پہلے کسی چیز کا ذکر رہ گیا ہو۔


یہاں تو کی وجہ سے بندش چست نہیں لگر ہی- اب یہ جیسے مری سہیلی ہو بہتر ہر لگتاہے۔یا جیسے اب یہ ۔۔۔
عاطف بھائ

آداب
آپ کی قیمتی آرا کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاح کے بعد جلد حاضر ہوتی ہوں ۔ ۔ شکریہ
 
Top