عشق تیرا مقام اونچا ہے

ایم اے راجا

محفلین
ایک تازہ غزل استاد محترم الف عین صاحب کی نذر۔

عشق تیرا مقام اونچا ہے
نسب اعلیٰ ہے نام اونچا ہے

کون اُس کو خرید سکتا ہے !
جاں سے بھی جس کا دام اونچا ہے

تیرے ہاتھوں نے چھولیا جس کو
میکدے میں وہ جام اونچا ہے

میرے استاذ کیا ترے کہنے
تُو بھی ، تیرا کلام اونچا ہے

کیوں نہ تعریف ہو بیاں اس کی
دہر میں جس کا کام اونچا ہے

میں کہ قربان جاؤں مرشد پر
جس کا در اور بام اونچا ہے

دشتِ ویراں کو اس نے بخشا جو
کربلا کا وہ نام اونچا ہے

رہ پہ اس کی جو چل پڑا راجا
اس کا ہر ایک گام اونچا ہے
 

الف عین

لائبریرین
آ گئی میری تشریف!!
عشق تیرا مقام اونچا ہے
نسب اعلیٰ ہے نام اونچا ہے
÷÷درست
کون اُس کو خرید سکتا ہے !
جاں سے بھی جس کا دام اونچا ہے
÷÷درست
تیرے ہاتھوں نے چھولیا جس کو
میکدے میں وہ جام اونچا ہے
÷÷اتنا لمبا محبوب ہے؟؟؟
یہاں ردیف فٹ نہیں ہو رہی ہے۔

میرے استاذ کیا ترے کہنے
تُو بھی ، تیرا کلام اونچا ہے
÷÷روانی کی کمی ہے، کلام کے بعد ’بھی‘ کی ضرورت ہے جس کی ردیف اجازت نہیں دیتی÷

کیوں نہ تعریف ہو بیاں اس کی
دہر میں جس کا کام اونچا ہے
۔۔درست
میں کہ قربان جاؤں مرشد پر
جس کا در اور بام اونچا ہے
÷÷یہاں بھی قافیہ ردیف میں غیر مطابقت ہے
دشتِ ویراں کو اس نے بخشا جو
کربلا کا وہ نام اونچا ہے
÷÷مفہوم واضح نہیں۔ کس نے بخشا؟

رہ پہ اس کی جو چل پڑا راجا
اس کا ہر ایک گام اونچا ہے
۔۔گام اونچا، یہاں بھی عدم مطابقت ہے۔
 
Top