سورۃ التوبۃ:8 , آیت:30: میں یہاں قرآن، اسلام یا یہودیت پر بحث نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف ایک معاملے میں معلومات میں اضافہ چاہتا ہوں۔ حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا یہودیوں نے کہاں کہا ہے یا تھا؟ مجھے یہودیوں کی اپنی کتابوں وغیرہ سے اس بارے میں ریفرنس چاہئیں۔
بائبل کی بات ہوتی تو اور بات تھی لیکن یہودی کتب تک رسائی شاید چند ہی لوگوں کی ہو گی۔۔ اس کے ساتھ اگر یہود کی کتب کی کوئی سائٹ ہو اردو میں تو وہ بھی بتا دیں وسلام
میرے خیال میں اس سوال کا شافی جواب کوئی ایسا مسلم اسکالر دے سکتا ہے جسے اپنے مذہب کی کتب کے علاوہ دیگر مذایب کی کتب پر بھی عبور ہو۔ شاید ڈاکٹر ذاکر نائیک اس کیلیئے بہتر اسکالر ہو سکتے ہیں جن احباب کی ان تک رسائی ہے وہ ان سے ضرور یہ سوال پوچھیں۔
بائبل (عہد نامہ عتیق وجدید) جو کہ یہودی اور عیسائی کتب مقدسہ کا مجموعہ ہے اس میں عزیر یا عزرا EZRAعلیہ السلام کو خدا کا بیٹا میرے خیال میں کہیں نہیں کہا گیا ہے درحقیقت اس سلسلے میں مسلم اسکالرز کا یہ کہنا ہے کہ یہ یہودیوں کا عام عقیدہ نہیں تھا بلکہ بعض یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا اس سلسلے میں Encyclopedia Judaicaکا متعلقہ مضمون کا ایک حصہ میں یہاں نقل کر دیتا ہوں جو کہ اس سلسلے میں اسلامی نکتہ نطر کی توضیح کرتا ہے In Islam Muhammad claims (Sura 9:30) that in the opinion of the Jews, ʿUzayr (Ezra) is the son of God. These words are an enigma because no such opinion is to be found among the Jews, even though Ezra was singled out for special appreciation (see Sanh. 21b; Yev. 86b). The Muslim traditionalists attempt to explain the words of Muhammad with a Muslim legend, whose origin appears to stem from IV Ezra 14:18–19. The people of Israel sinned, they were punished by God, the Holy Ark was removed, and the Torah was forgotten. It was due, however, to Ezra’s merit that his heart was filled with the Torah of God, which he taught to the people of Israel. When the Holy Ark was returned to them and they compared that which Ezra taught them with the text of the Sefer Torah in the Holy Ark, the words they found were identical. They deduced from this that Ezra was the son of Allah. Ţabarī cites another version of this legend: the Jewish scholars themselves hid the Ark, after they were beaten by the Amalekites. H.Z. Hirschberg proposed another assumption, based on the words of Ibn Ḥazm (I, 99), namely, that the “righteous” who live in Yemen believe that ʿUzayr was indeed the son of Allah. According to other Muslim sources, there were some Yemenite Jews who had converted to Islam who believed that Ezra was the messiah. For Muhammad, Ezra, the apostle (!) of the messiah, can be seen in the same light as the Christians saw Jesus, the messiah, the son of Allah. An allusion to the figure of Ezra as the apostle of the messiah is found in a tale which is widespread among the Jews of Yemen, according to which Ezra requested that they immigrate to Ereẓ Israel, and because they did not, he cursed them. Yemenite Jews have therefore refrained from naming their children Ezra. According to some Muslim commentators, ʿUzayr is the man who passed by the destroyed city (of Jerusalem; Sura 2:261) and did not believe that it could be rebuilt (see *Jeremiah). [Haïm Z’ew Hirschberg] اس سائٹ میں ھی اس سلسلے میں کچھ وضاحت کی گئی ہے http://www.islamic-awareness.org/Quran/Contrad/External/ezra.html
بھائی زیک، سلام اس بارے میں میں نے تھوڑی سی تحقیق کی ہے ، جو معلوم ہے فراہم کررہا ہوں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کا موقف یہ رہا ہے کہ اللہ تعالی کا فرمایا ہوا بہر طور درست ہے۔ جب اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں تو یہ ہم کواس کا یقین و ایمان ہے۔ اور اس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ پوائینٹ نمبر 1۔ یہودی بائیبل قابل اعتبار نہیں ہے۔ نہ اس کا متن ایک جیسا ہے نہ اس کی ترتیب۔ اور نہ ہی آیتوں اور سورتوںکی تعداد: یہودیوں کا موقف یہ ہے کہ وہ کم از کم اب عذیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیںمانے ہیں لہذا قرآن درست نہیں ہے۔ اب ان کا یہ دعوی کس حد تک درست ہے ۔ اس کا تھوڑا سا تجزیہ 1۔ سب سے پہلی انگریزی کے بائیبل ، آکسفورڈ کا پروفیسر جان وائیکلف نے 1380 میں ہاتھ سے لکھی ۔ 2۔ موجودہ چھپی ہوئی بائیبل بھی وہ بائیبل نہیں ہے یعنی اس کے متن میں اور پہلی بائیبل کے متن میں بہت بہت فرق ہے ۔ گو کہ میں اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مکمل بائیبل نہیں پڑھ سکا کیوں کہ اس میں ذاتی کوائف بہت زیادہ ہیں۔ لیکن جتنی پڑھ سکا، یہ ہی دیکھا کہ بائیبل میبں فرق بہت ہے۔ 3۔ موجودہ چھپی ہوئی انگریزی بائیبل کے اولڈ ٹیسٹا منٹ یعنی عہد نامہ قدیم میں سن آف گاڈ یعنی خدا کا بیٹا کم از کم 3 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اصل الفاظ " ابنَ الوہیم " ہیں ۔ مزید بھی شاید ہو آپ دیکھئے درج ذیل تین لنک دیکھئے ، تینوں سنز آف گاڈ کے لنک ہیںاور اولڈ ٹیسٹامنٹ کے ہیں ۔ آیت نمبر 6 دیکھیں سنز آف گاڈ کے لئے http://www.newadvent.org/bible/job001.htm#verse6about:Tabs مزمور نمبر 88 کی آیت نمبر 7 http://www.newadvent.org/bible/psa088.htm#verse7 http://www.newadvent.org/bible/wis002.htm#verse13 تو گویا سن آف گاڈ کا تصور عہد نامہ قدیم میںموجود ہے۔ اب ہم مثال کے طور پر مزمیر نمبر 88 کی آیت نمبر 7 دیکھتے ہیں کہ اس میں سن آف گاڈ موجود ہے۔ 7 For who in the clouds can be compared to the Lord: or who among the sons of God shall be like to God? آپ آپ اسی آیت کو اردو میں دیکھئے کہ سن آف گاڈ کو ----- فرشتے ----- سے اس طرح تبدیل کیا گیا ہے کہ عام پڑھنے والا شبہ بھی نہیں کرسکتا کہ یہاں خدا کا بیٹا تھا۔ اردو کی بائیبل کا لنک ہے http://www.ibs.org/bibles/urdu/pdf/12 - Old Testament Pages 557-606.pdf اس فائیل میں آپ صفحہ نمبر 20 میں آپ کو مزمور نمبر 89 ملے گی۔ اس کی چھٹی آیت میں دو سوال ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ انگریزی کی مزمور 88، اردو میں مزمور 89 ہے ۔ اس لئے کہ ان سب کے اصل ڈاکومینٹ الگ الگ ہیں۔ اور اردو میں فرشتہ کہا گیا ہے ، جب کہ انگریزی میں خدا کا بیٹا۔ ابنِ الوہیم - اردو میں لکھا ہے -- فرشتوں میں خدا کی مانند کون ہے؟ میں اس سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی خدا کا بیٹا تھا اور اس کو موقع اور ضرورت کے لحاظ سے تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ دوسرا پوائینٹ : عزرا کے بارے میں عہد نامہ قدیم میں یہ لکھا ہے کہ اس کو اوپر لے جایا جائے گا اور وہ خدا کے بیٹے کے ساتھ بیٹھے گا۔ دیکھئے Second Esdras (Fourth Ezra) Second کی آیت نمبر 29۔ عزرا نبی کہہ رہا ہے کہ سب یہودی ان کے خدا کے بیٹے ہیں اور وہ ان کا باپ ہے۔ یہودیوں کی طرح طرح کی تاویل یہ ہے کہ صرف عزرا ہی خدا کا بیٹا تھا ، یہ سب نہیں ہیں 29 - that you should be my people and I should be your God, and that you should be my sons and I should be your father? اب دیکھئے جہاں کہا جا رہا ہے کہ وہ موت کا ذائقہ نہیں چکھیں گے۔ 26 - And they shall see the men who were taken up, who from their birth have not tasted death; and the heart of the earth's inhabitants shall be changed and converted to a different spirit. پھر دیکھئے کہ اس کو اوپر اٹھا لیا گیا 19 - Therefore hear my voice, and understand my words, and I will speak before thee." The beginning of the words of Ezra's prayer, before he was taken up. He said: 20 - "O Lord who inhabitest eternity, whose eyes are exalted and whose upper chambers are in the air, اور وہ خدا کے بیٹوں اور اپنے جیسوں کے ساتھ مقیم ہے۔ 9 - for you shall be taken up from among men, and henceforth you shall live with my Son and with those who are like you, until the times are ended. یہ آیات اگر یہودیوں کے لئے مقدس ہیں تو ان سے ثابت ہوتا ہے ۔ 1۔ وہ اپنے جیسوں کے ساتھ ، جو کہ خدا کے بیٹے ہیں ، بیٹھے گا۔ 2۔ وہ بناءموت اوپر لے جایا گیا۔ اور کچھ ملا تو انشاء اللہ فراہم کروں گا۔ والسلام
فاروق صاحب، آپ نے اپنے پچھلے مباحثے میں ایک جگہ کہا تھا کہ زبور کے گیتوں کی کوئی تحریری شکل نہیں اور یہ علم ان مخصوص یہودیوں میں سینہ بسینہ منتقل ہوتا ہے۔ اب یہ اردو میں بھی دستیاب ہے۔ اور انگریزی میں بھی دستیاب ہے۔ کچھ معلومات یہاں اور یہاں ہیں۔
شاید میں نے مناسب الفاظ نہ استعمال کئے ہوں یا آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ یہودیوں کے کچھ علم سینہ بہ سینہ ضرور چلتے ہیں۔جو کہ انہوں نے یاد کیا ہوا ہے، اس میںسے کچھ لکھا ہوا اور کچھ لکھا ہوا نہیںہے۔ میں کچھ کے بارے میں جانتا ہوں۔ لیکن بائیبل تو پوری موجود ہے، بس اس کے متن مختلف ہیں۔۔ زبور بھی موجود ہے اور لوگ اس کو یاد بھی کرتے ہیں۔ سلیمان اور داؤد علیہ السلام کے پیروکار کچھ مواد صرف یاد کرتے ہیں ، ان کے پاس لکھا ہوا نہیں ہے صرف سینہ بہ سینہ چلتا ہے ۔ یہ لوگ اپنے گیت بھی یاد کرتے ہیں ۔ جو کہ انگریزی اور عبرانی دونوںمیں ہیں۔ یہ بھی یہودی ہیں لیکن ان کا فرقہ الگ ہے ۔ میرے دوستوں میں کچھ دوست یہودی ہیں، یہ کچھ نہ کچھ بتاتے رہتے ہیں۔ بہت سے خود بھی سنی سنائی پر یقین رکھتے ہیں۔ خود سے نہیں پڑھا، مطلب یہ کہ مسلمانوں سے اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ مجھے موجودہ بائیبل لوگوں کی لکھی ہوئی تاریخ لگتی ہے اور کسی طور پر قرآن سے نہیں ملتی۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کچھ تفصیل سے فرمائیے تو آپ کا نکتہ سمجھ میں آئے۔ بس یہ ذہن میں رکھئیے کہ میں ایک طالب علم ہوں اور میری بات کچھ زیادہ قیمت نہیں رکھتی ہے۔ والسلام
قرآن کریم میں جہاں یہودیوں کا ذکر آیا ہے ، عموماً اس کے مخاطب مدینہ کے یہودی ہیں کیوں کہ مسلمانوں سابقہ انہی سے تھا۔ علامہ جلال الدین السیوطی کے مطابق عزیر کو خدا کا بیٹا کہنے والے بھی مدینہ کے یہودی تھے۔ سیوطی کے مشہور کتاب "الاتقان فی العلوم القرآن" کے حصہ دوم کے باب نمبر 70 میں ان یہودیوں کے نام درج ہیں جنہوں نے عزیر کو خدا کا بیٹا کہا تھا۔ دیکھیئے مذکورہ کتاب کا حصہ دوم صفحہ نمبر 367 ۔ سیوطی کی عبارت یوں ہے: "قولہ تعالی وقالت الیہود عزیر ابن اللہ ۔۔۔۔ تا آخر آیت۔ ان لوگوں میں سے سلام بن مشکم، نعمان بن اوفٰی، ابن وحیہ ، شاس بن قیس اور مالک بن الصیف کے نام لئے گئے ہیں" سیوطی نے مزید تفصیل نہیں دی ہے مگر اسی باب کے شروع میں لکھتے ہیں کہ میری اس موضوع پر ایک کتاب موجود ہے جس میں دوسرے کتابوں کے فوائد مع دوسری زاید باتوں کو جمع کیا گیا ہے مگر اس کتاب نام علامہ نے نہیں دیا ہے ۔ شاید اس میں یا علامہ ہی کی تفسیرِ جلالین میں اس کی تفصیل موجود ہو مگر اتنی بات واضح ہے کہ یہ جو نام دئے گئے ہیں یہ سب مدینہ کے یہودی تھے۔ واللہ اعلم
علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب الإتقان في علوم القرآن آن لائن یہاں موجود ہے۔ لیکن مجھے تو سرچ کرنے پر بھی درج ذیل عبارت نہیں ملی : قولہ تعالی وقالت الیہود عزیر ابن اللہ .... سلام بن مشکم، نعمان بن اوفٰی، ابن وحیہ ، شاس بن قیس اور مالک بن الصیف ....
باذوق صاحب آپ کی بات درست ہے مگر میرے زیر نظر اردو ترجمہ ہے اس کو ادارہ اسلامیات لاہور نے شایع کیا ہے اس میں موجود ہے۔ آپ نے جو ربط دیا ہے اس کو میں نے اپنی کتاب کے ساتھ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ تقریبا 2 صفحات آن لائن کتاب میں موجود نہیں ہیں۔
اگر آپ صفحہ نمبر (یا باب نمبر) کے بجائے باب کا عنوان لکھ دیں تو میں لائیبریری سے اصل عربی کتاب ڈھونڈ کر چیک کر لوں گا۔
بہرحال جہاں تک ناموں کا تعلق ہے تو امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں بھی یہ ذکر کیے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ یہود کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں پیش ہوئی جن میں سلام بن مشکم،نعمان بن اوفٰی، مالک بن الصیف تھے اور کہا:ہم آپ کی کیسے پیروی کریں جبکہ آپ نے ہمارا قبلہ چھوڑدیا اور آپ عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بھی نہیں سمجھتے (معاذ اللہ) تو یہ آیت نازل ہوئی۔
یہاں تو ہر اسرائیلی خدا کا بیٹا بنا بیٹھا ہے Bible: Deuteronomy 14:1 Matthew Henry's Concise Commentary