عروضیے از افتخار حیدر

امان زرگر

محفلین
...
عروضیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلے کٹے ،بھنے ہوئے ،سڑے ہوئے عروضیے
جما لیا ت کے عدو
یہ شاعری کے مستری
الف گرا گئے کہیں ،کہیں پہ ی بٹھا گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات بات پر لڑیں ۔بگڑ پڑیں ،جھگڑ پڑیں
کوئی کہے روا ہے یوں
کوئی کہے روا نہیں

یہ صف بہ صف ادھر ادھر بٹے ہوئے عروضیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لفظ لفظ معترض ، یہ حرف حرف بد نظر
یہ نظم نظم جل مریں ،یہ ہر غزل پہ بد گماں
پہاڑ کھود کر نکالتے بھی ہیں تو اِک چوہا
مرا ہوا سڑا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں کسی بھی دل نشین شعر سے نہیں غرض
یہ واو تا و جوڑ کے
یہ علتیں مروڑ کے
سخن کی ساری ہڈیوں سے ماس کو بھنبھوڑ کے
ہیں مطمئن کھڑے ہوئے ، سڑے ہوئے عروضیے

افتخار حیدر
 
اچھی نظم ہے!

ویسے اگر شاعری کا مقصد محض اظہار سمجھا جائے تو عروض راستے میں پڑی ایک مشکل ہے. ہمارے استاد کہتے ہی‍ں کہ فقط عروضیے ہی نہ بن جانا! اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ واقعی عروض کو اظہار کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں تو نثر لکھ لیں. وقت بھی بچے گا اور بات بھی بدلنی نہ پڑے گی.

مگر میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ شاعری محض اظہار نہی‍ں ہے. یہ زبان کے سر کا تاج ہے. یوں سمجھ لیجیے کہ شاعری ایک زبان اندر زبان ہے اور کسی زبان کے متعلق ہم کبھی دوسروں کو 'تہجیے' نہیں کہتے اور نہ ہی اس زبان کے حروف تہجی پر الزام دھرتے ہیں کہ یہ ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں یا ہمیں ان پر خواہ مخواہ محنت کرنی پڑ رہی ہے اور یہ ہمیں درست اظہار نہیں کرنے دیتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ حروف تہجی ہی ہیں جو اصل میں ہمیں اس زبان میں اظہار کرنے کے قابل بنائیں گے ورنہ تو ہماری محض غوں غاں ہی ہے. تو پھر عروض اگر شاعری کے حروف تہجی ہیں اور یہ حروف تہجی سیکھنے کے بعد ہی ہم نے اس زبان کی بقیہ سبھی منازل طے کرنی ہیں تو یہ رکاوٹ کی بجائے سیڑھیاں ہیں.
جب کوئی ہماری زبان کی مدد سے کوئی ایسی بات کرے جس کا ابلاغ مکمل ہوتا ہو مگر ایک ذرا مذکر کی جگہ مؤنث بول دے تو ہم اسے پٹھان کہتے ہیں اور ہم سے اتنا بھی برداشت نہیں ہوتا تو شاعری کے اہل زبان سے کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ناک بھوں نہ چڑھائیں جب ہم نے خود ہی پنگا اس زبان کے بھی تاج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا لیا ہو.
:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
...
عروضیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلے کٹے ،بھنے ہوئے ،سڑے ہوئے عروضیے
جما لیا ت کے عدو
یہ شاعری کے مستری
الف گرا گئے کہیں ،کہیں پہ ی بٹھا گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات بات پر لڑیں ۔بگڑ پڑیں ،جھگڑ پڑیں
کوئی کہے روا ہے یوں
کوئی کہے روا نہیں

یہ صف بہ صف ادھر ادھر بٹے ہوئے عروضیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لفظ لفظ معترض ، یہ حرف حرف بد نظر
یہ نظم نظم جل مریں ،یہ ہر غزل پہ بد گماں
پہاڑ کھود کر نکالتے بھی ہیں تو اِک چوہا
مرا ہوا سڑا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں کسی بھی دل نشین شعر سے نہیں غرض
یہ واو تا و جوڑ کے
یہ علتیں مروڑ کے
سخن کی ساری ہڈیوں سے ماس کو بھنبھوڑ کے
ہیں مطمئن کھڑے ہوئے ، سڑے ہوئے عروضیے

افتخار حیدر
بہت خوب۔۔۔ :)
میں فطری اور بنیادی طور پر عروض کے خلاف کی گئی شاعری کو "مجبوراََ یا مصلحتاََ" شاعری تسلیم کرنے پر اپنے آپ سے شرمندہ ہوجاتا ہوں ۔
لیکن ایک بات یہ دلچسپ لگی کہ عروض پر بھڑاس نکالنے میں بھی عروض کی پابندی کا خیال رکھنا پڑا اسی لیے یہ شاعری پسند آئی ۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔ :)
میں فطری اور بنیادی طور پر عروض کے خلاف کی گئی شاعری کو "مجبوراََ یا مصلحتاََ" شاعری تسلیم کرنے پر اپنے آپ سے شرمندہ ہوجاتا ہوں ۔
لیکن ایک بات یہ دلچسپ لگی کہ عروض پر بھڑاس نکالنے میں بھی عروض کی پابندی کا خیال رکھنا پڑا اسی لیے یہ شاعری پسند آئی ۔
ایک غلطی تو ہے ہی اس نظم میں کم از کم میرے خیال میں۔ اگرچہ میں خود کو عروضیہ نہیں کہہ سکتا!
 
ذاتی طور پر اس حوالے سے افتخار حیدر صاحب سے بات کی تھی۔ افتخار حیدر صاحب ایسے شاعر ہی نہیں دورِ حاضر کے بہت سے شاعر اسی بات پر متفق ہیں کہ محض افاعیل کی جگالی زبان دانی کی معراج ہے نہ ہی پہچان۔میرے نزدیک تو میر و غالب ایسے شعرا کی بھی پہچان "محض" ان کا عروضی نظام نہیں بلکہ اشعار کی بلند خیالی، جذباتیت یا شدت احساس اور حقیقت پسندی ہی ہے۔ بہت عرصہ قبل مولانا الطاف حسین حالی نے بھی یہ موقف پیش کیا تھا کہ شعر میں وزن محض ایک اضافی چیز ہے اس پر پنجاب یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نوری صاحب نے بہت خوبصورت آرٹیکل تحریر کیا تھا جو تحقیقی رسالے زبان و ادب میں شائع ہوا۔شاید یہی وجہ ہے کہ جس بھی شاعر کی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے غیر عروضی شاعری با آسانی مل جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ کچھ کلام اترتے ہی وزن میں ہیں اور کچھ بالکل اس کے متضاد۔ عروض کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس کی بنیاد پر تک بندی کرنا یا کسی کو تضحیک کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ ہمارے ہاں یہ رویہ بہت ہی عام ہے کہ جسے علم العروض پر ذرا سی دسترس حاصل ہوئی دوسروں کا مذاق اڑانا ، تکبر میں مبتلا ہوکر اپنی شاعری سے زیادہ اہمیت نہ دینا اورساری دنیا کے عیوب اس میں گنوا دینا عادات میں شامل ہوگیا ۔کسی بھی شہرکے حلقہ ارباب ذوق کے ایک اجلاس میں شرکت کیجیے یہ صورت حال بڑی واضح دکھائی دینے لگتی ہے۔ادب میں بھی ایسی بے ادبی ہے کہ لوگ ان معاملات پر دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال سے دلگیر ہوکر ایک بار یہ مضمون تحریر کیا تھا:
ہمارے تنقیدی رویے
اردو محفل فورم پر الف عین صاحب مجھے اس لیے بہت پسند ہیں کہ وہ نہ صرف بڑے مثبت انداز میں اصلاح فرماتے ہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ میں نے ان کے لہجے میں آج تک تمسخر ، غرور یا ایسی کوئی بھی بات نہیں دیکھی جو دوسروں کی دل آزاری کا سبب ہو۔ اللہ تعالیٰ استاد محترم کی عمر دراز فرمائے۔ آمین
 

جان

محفلین
ذاتی طور پر اس حوالے سے افتخار حیدر صاحب سے بات کی تھی۔ افتخار حیدر صاحب ایسے شاعر ہی نہیں دورِ حاضر کے بہت سے شاعر اسی بات پر متفق ہیں کہ محض افاعیل کی جگالی زبان دانی کی معراج ہے نہ ہی پہچان۔میرے نزدیک تو میر و غالب ایسے شعرا کی بھی پہچان "محض" ان کا عروضی نظام نہیں بلکہ اشعار کی بلند خیالی، جذباتیت یا شدت احساس اور حقیقت پسندی ہی ہے۔ بہت عرصہ قبل مولانا الطاف حسین حالی نے بھی یہ موقف پیش کیا تھا کہ شعر میں وزن محض ایک اضافی چیز ہے اس پر پنجاب یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نوری صاحب نے بہت خوبصورت آرٹیکل تحریر کیا تھا جو تحقیقی رسالے زبان و ادب میں شائع ہوا۔شاید یہی وجہ ہے کہ جس بھی شاعر کی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے غیر عروضی شاعری با آسانی مل جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ کچھ کلام اترتے ہی وزن میں ہیں اور کچھ بالکل اس کے متضاد۔ عروض کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس کی بنیاد پر تک بندی کرنا یا کسی کو تضحیک کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ ہمارے ہاں یہ رویہ بہت ہی عام ہے کہ جسے علم العروض پر ذرا سی دسترس حاصل ہوئی دوسروں کا مذاق اڑانا ، تکبر میں مبتلا ہوکر اپنی شاعری سے زیادہ اہمیت نہ دینا اورساری دنیا کے عیوب اس میں گنوا دینا عادات میں شامل ہوگیا ۔کسی بھی شہرکے حلقہ ارباب ذوق کے ایک اجلاس میں شرکت کیجیے یہ صورت حال بڑی واضح دکھائی دینے لگتی ہے۔ادب میں بھی ایسی بے ادبی ہے کہ لوگ ان معاملات پر دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال سے دلگیر ہوکر ایک بار یہ مضمون تحریر کیا تھا:
ہمارے تنقیدی رویے
اردو محفل فورم پر الف عین صاحب مجھے اس لیے بہت پسند ہیں کہ وہ نہ صرف بڑے مثبت انداز میں اصلاح فرماتے ہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ میں نے ان کے لہجے میں آج تک تمسخر ، غرور یا ایسی کوئی بھی بات نہیں دیکھی جو دوسروں کی دل آزاری کا سبب ہو۔ اللہ تعالیٰ استاد محترم کی عمر دراز فرمائے۔ آمین

میری ناقص رائے میں شعر کا موزوں ہونا اس کی اپنی ایک خوبی (بلٹ ان فیچر) ہے۔ علم العروض تو محض ان سے اخذ کیا گیا ہے خاص طور پر ان زبان دانوں کے لیے جو الفاظ پہ دسترس تو رکھتے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی طبع موزوں نہیں۔ یہ محض ایک آسان راستہ ہے۔ مثال کے طور پر جو انگریزی ماحول میں رہ کر انگریزی بول چال سیکھ لے اس کے لیے انگریزی گرائمر و دیگر کتب سے انگریزی سیکھنے کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کتب تو زیادہ معاون وہاں ہوتی ہیں جہاں یہ باقاعدہ ماحول نہ ہو بالکل اسی طرح اگر آپ فطری طور پر شعر پڑھنے کا فن جانتے ہیں تو آپ کو علم العروض پہ باقاعدہ دسترس کی ضرورت کم ہی رہتی ہے کیونکہ یہ علم ایجاد شدہ نہیں بلکہ اخذ شدہ ہے۔ اس لیے ہم کبھی بھی نثر کی شعری شکل کو شعر نہیں کہہ سکتے۔ شعر وہی ہے جو موزوں ہے اور موزوں شعر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے جیسا کہ ایک باکمال نثر پڑھنے کا۔ اگر کسی کو الفاظ پہ تو مہارت حاصل ہے لیکن اس کی طبع موزوں نہیں تو وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ وزن ایک اضافی شے ہے۔ وزن تو خود موزئیت کا محتاج ہے۔ ماضی میں اکثر شعراء نے تجربات ضرور کیے ہیں لیکن وزن کے بغیر باقاعدہ شاعری تو ماضی میں شاذ ہی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ تو آج کل زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ مرد کو عورت کا لباس پہنا دینے سے وہ عورت نہیں بن سکتی اور عورت کو مرد کا لباس پہنا دینے سے وہ مرد نہیں بن سکتا۔ چائے دودھ نہیں ہو سکتی اور دودھ چائے نہیں ہو سکتا۔
آپ نے بالکل درست فرمایا کہ محض افاعیل کی جگالی زبان دانی کی معراج ہے نہ پہچان لیکن ہر شعر محض افاعیل کی جگالی نہیں ہوتا بلکہ اچھے شعراء کی موزوں شاعری میں بلند خیال موجود ہوتا ہے لیکن یہ بلند خیال ہی صرف شعر کو شعر نہیں بناتا بلکہ موزوں اس میں ایسا رس بھرتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والا شعر کا عاشق ہو جاتا ہے۔ آپ ایک چیز کی اہمیت بالکل ختم کر کے اس کو دوسرے پہ فوقیت نہیں دے سکتے ورنہ آپ خود بھی خود کو ان انتہا پسندوں کے زمرے میں کھڑا کر رہے ہیں جو خیال سے ماوراء لفظوں کے ہیر پھیر اور افاعیل کی جگالی کو شعر کہتے ہیں۔ وزن کے بغیر خیالات کا اظہار کا طریقہ نثر ہے اور اچھی اور پڑھنے کے لائق نثر بھی دنیا میں موجود ہے۔ یہ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب آپ زبردستی اچھا شاعر یا نثر نگار بننا چاہتے ہیں۔
 
اچھی نظم ہے!

ویسے اگر شاعری کا مقصد محض اظہار سمجھا جائے تو عروض راستے میں پڑی ایک مشکل ہے. ہمارے استاد کہتے ہی‍ں کہ فقط عروضیے ہی نہ بن جانا! اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ واقعی عروض کو اظہار کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں تو نثر لکھ لیں. وقت بھی بچے گا اور بات بھی بدلنی نہ پڑے گی.

مگر میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ شاعری محض اظہار نہی‍ں ہے. یہ زبان کے سر کا تاج ہے. یوں سمجھ لیجیے کہ شاعری ایک زبان اندر زبان ہے اور کسی زبان کے متعلق ہم کبھی دوسروں کو 'تہجیے' نہیں کہتے اور نہ ہی اس زبان کے حروف تہجی پر الزام دھرتے ہیں کہ یہ ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں یا ہمیں ان پر خواہ مخواہ محنت کرنی پڑ رہی ہے اور یہ ہمیں درست اظہار نہیں کرنے دیتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ حروف تہجی ہی ہیں جو اصل میں ہمیں اس زبان میں اظہار کرنے کے قابل بنائیں گے ورنہ تو ہماری محض غوں غاں ہی ہے. تو پھر عروض اگر شاعری کے حروف تہجی ہیں اور یہ حروف تہجی سیکھنے کے بعد ہی ہم نے اس زبان کی بقیہ سبھی منازل طے کرنی ہیں تو یہ رکاوٹ کی بجائے سیڑھیاں ہیں.
جب کوئی ہماری زبان کی مدد سے کوئی ایسی بات کرے جس کا ابلاغ مکمل ہوتا ہو مگر ایک ذرا مذکر کی جگہ مؤنث بول دے تو ہم اسے پٹھان کہتے ہیں اور ہم سے اتنا بھی برداشت نہیں ہوتا تو شاعری کے اہل زبان سے کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ناک بھوں نہ چڑھائیں جب ہم نے خود ہی پنگا اس زبان کے بھی تاج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا لیا ہو.
:)
مریم بہنا جوابا کچھ عرض کیا ہے مکالمہ ملاحظہ کر لیجیے گا۔ جزاک اللہ
 

سید ذیشان

محفلین
عروضیوں کی لڑائیاں بھی ویسے ہی ہوتی ہیں جیسے شاعروں کی لڑائیاں یا پھر مذہبی لوگوں کی لڑائیاں۔ اس کی بنیادی وجہ عروض، شاعری اور مذہب نہیں بلکہ لڑنے والوں کی ہٹ دھرمی ہے۔
 
اگر کچھ لوگوں کو علم عروض پر دسترس رکھنے والوں سے شکایت ہے تو کھل کر کیجئے مجھے کوئی اعتراض نہیں :)
کیونکہ علم عروض سے مکمل ناواقیت کے باوجود میں کبھی کبھار وزن میں اشعار کہہ لیتا ہوں اور یہ بھی جان لیتا ہوں کہ شعر وزن میں ہے یا نہیں ۔ یعنی اس بات سے مکمل آگاہ ہوں کہ وزن میں اشعار کہنے کے لئے علم عروض کا ماہر ہونا لازمی نہیں
لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں علم عروض کے ماہرین کا مکمل احترام کرتا ہوں کیونکہ بنیادی طور پر میں ایک طالب علم ہوں، اور علماء کا احترام کرتا ہوں۔
 
عروضیوں کی لڑائیاں بھی ویسے ہی ہوتی ہیں جیسے شاعروں کی لڑائیاں یا پھر مذہبی لوگوں کی لڑائیاں۔ اس کی بنیادی وجہ عروض، شاعری اور مذہب نہیں بلکہ لڑنے والوں کی ہٹ دھرمی ہے۔
مگر ان لڑائیوں میں تماشہ دیکھنے والوں کو مزا نہیں آتا ۔
 
میری ناقص رائے میں شعر کا موزوں ہونا اس کی اپنی ایک خوبی (بلٹ ان فیچر) ہے۔ علم العروض تو محض ان سے اخذ کیا گیا ہے خاص طور پر ان زبان دانوں کے لیے جو الفاظ پہ دسترس تو رکھتے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی طبع موزوں نہیں۔ یہ محض ایک آسان راستہ ہے۔ مثال کے طور پر جو انگریزی ماحول میں رہ کر انگریزی بول چال سیکھ لے اس کے لیے انگریزی گرائمر و دیگر کتب سے انگریزی سیکھنے کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کتب تو زیادہ معاون وہاں ہوتی ہیں جہاں یہ باقاعدہ ماحول نہ ہو بالکل اسی طرح اگر آپ فطری طور پر شعر پڑھنے کا فن جانتے ہیں تو آپ کو علم العروض پہ باقاعدہ دسترس کی ضرورت کم ہی رہتی ہے کیونکہ یہ علم ایجاد شدہ نہیں بلکہ اخذ شدہ ہے۔ اس لیے ہم کبھی بھی نثر کی شعری شکل کو شعر نہیں کہہ سکتے۔ شعر وہی ہے جو موزوں ہے اور موزوں شعر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے جیسا کہ ایک باکمال نثر پڑھنے کا۔ اگر کسی کو الفاظ پہ تو مہارت حاصل ہے لیکن اس کی طبع موزوں نہیں تو وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ وزن ایک اضافی شے ہے۔ وزن تو خود موزئیت کا محتاج ہے۔ ماضی میں اکثر شعراء نے تجربات ضرور کیے ہیں لیکن وزن کے بغیر باقاعدہ شاعری تو ماضی میں شاذ ہی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ تو آج کل زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ مرد کو عورت کا لباس پہنا دینے سے وہ عورت نہیں بن سکتی اور عورت کو مرد کا لباس پہنا دینے سے وہ مرد نہیں بن سکتا۔ چائے دودھ نہیں ہو سکتی اور دودھ چائے نہیں ہو سکتا۔
آپ نے بالکل درست فرمایا کہ محض افاعیل کی جگالی زبان دانی کی معراج ہے نہ پہچان لیکن ہر شعر محض افاعیل کی جگالی نہیں ہوتا بلکہ اچھے شعراء کی موزوں شاعری میں بلند خیال موجود ہوتا ہے لیکن یہ بلند خیال ہی صرف شعر کو شعر نہیں بناتا بلکہ موزوں اس میں ایسا رس بھرتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والا شعر کا عاشق ہو جاتا ہے۔ آپ ایک چیز کی اہمیت بالکل ختم کر کے اس کو دوسرے پہ فوقیت نہیں دے سکتے ورنہ آپ خود بھی خود کو ان انتہا پسندوں کے زمرے میں کھڑا کر رہے ہیں جو خیال سے ماوراء لفظوں کے ہیر پھیر اور افاعیل کی جگالی کو شعر کہتے ہیں۔ وزن کے بغیر خیالات کا اظہار کا طریقہ نثر ہے اور اچھی اور پڑھنے کے لائق نثر بھی دنیا میں موجود ہے۔ یہ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب آپ زبردستی اچھا شاعر یا نثر نگار بننا چاہتے ہیں۔
محترم جان بھائی جان میں آپ کے خیالات سے کسی حد تک متفق ہوں جیسے یہ کہ "شعر کا موزوں ہونا اس کی اپنی ایک خوبی (بلٹ ان فیچر) ہے" لیکن یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ
1۔شعر کے موزوں ہونے سے علم العروض اخذ کیا گیا ؟
2۔ یہ اخذ کیا گیا ان زبان دانوں کے لیے جو الفاظ پہ دسترس تو رکھتے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی طبع موزوں نہیں ؟ اس بات سے دل و جان سے متفق ہوں کہ یہ عروضی حوالے سے شاعری کو سمجھنے سمجھانے کے لیے بالکل آسان راستہ ہے۔
3۔جان بھائی تحت اللفظ پڑھنے میں اور شاعری کو عروضی طور پر پڑھنے میں جو فرق ہے اسے یقینا فورم پر موجود سبھی دوست بخوبی سمجھتے ہیں اس لیے آپ کا کہنا کہ "اگر آپ فطری طور پر شعر پڑھنے کا فن جانتے ہیں تو آپ کو علم العروض پہ باقاعدہ دسترس کی ضرورت کم ہی رہتی ہے" پھر سے میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ مثلاً آپ جب تحت اللفظ یہ غزل پڑھیں گے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
تو آپ قسمت کے بعد وقفہ دیں گے یا توقف کریں گے جب کہ عروضی حوالے سے اس کی تقطیع یوں کریں گے:
ی نہ تھی ہ ما رقسمت کہ و صا ل یار ہوتا
4۔اس بات سے متفق ہوں کہ موزوں شعر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے لیکن اگر یہ محض تک بندی ہو تو کیا وزن اسے حض آفریں بناتا ہے ؟ یقینا نہیں۔
5۔ جان بھائی آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر کہ بنا وزن کی شاعری دورِ حاضر کا مسئلہ ہے اور یہ بھی کہ مرد عورت نہیں ہوسکتا اور عورت مرد نہیں لیکن معصومانہ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اردو ادب میں پہلے بھی یہ مردو عورتیں (معذرت کے ساتھ اصنافِ نظم) مستعار نہیں لی گئیں تھیں ؟ غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، واسواخت ۔۔۔۔۔ ایک لمبی فہرست ہے ان میں سے ہماری اپنی کونسی صنف ادب ہے یا تھی ؟اگر آج یورپ اور جاپان سے آزاد نظم، نثم، سانیٹ اور ہائیکو جیسی اصناف کو لے لیا گیا ہے تو میرے خیال میں اس میں کوئی بھی مذائقہ نہیں اور اس سے اصناف پر مردوزن کی قدغن لگانا بھی درست نہیں۔ نہ ہی اسے محض کپڑوں کی تبدیلی کہا جاسکتا ہے۔ جس طرح پہلے اصناف کو مستعار لے کر برتا گیا ویسے ہی آج بھی ہورہا ہے۔ رہا مسئلہ آخری بات کا اور وہ ہے کہ افاعیل کی جگالی اور شعر کی قبولیت تو میں اس میں ہر گز متعصب نہیں۔ میں نے پہلے بھی یہی کہا ہے اور اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اچھا شعر محض افاعیل کی جگالی نہیں نہ ہی تک بندی ہے بلکہ اچھا شعر جہاں ایک طرف عروضی حوالے سے پختگی طلب ہے وہیں بلند خیالی اس کی روح ہے اور اول الذکر کی کمی اور آخر الذکر کی موجودگی بہر حال اسے شعر کے زمرے میں ہی رکھتی ہے نہ کہ باہر۔
 

شکیب

محفلین
بھئی ہم تو بغیر وزن کے "شعر" کو شعر نہیں، نثر سمجھتے ہیں جس میں الفاظ کچھ نثر کے برخلاف ادھر ادھر کردیے جاتے ہیں... موزوں کلام میں تو خیر یہ عروضی قید کے سبب ناگزیر ہوتا ہے، لیکن نثر میں تو کوئی ایسی قید نہیں ہوتی!
اس کے برخلاف، موزوں اشعار میں مصرع کی نثر سے قربت محاسن میں شمار ہوتا ہے...
گاڑھی عین والے عروضیوں سے البتہ سبھی چڑتے ہیں!
رہی بات مذکورہ نظم کی، تو یہ واضح طور پر ایک مزاحیہ کاوش ہے، اس میں تضحیک کا کوئی پہلو نہیں...
 

جان

محفلین
محترم جان بھائی جان میں آپ کے خیالات سے کسی حد تک متفق ہوں جیسے یہ کہ "شعر کا موزوں ہونا اس کی اپنی ایک خوبی (بلٹ ان فیچر) ہے" لیکن یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ
1۔شعر کے موزوں ہونے سے علم العروض اخذ کیا گیا ؟
2۔ یہ اخذ کیا گیا ان زبان دانوں کے لیے جو الفاظ پہ دسترس تو رکھتے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی طبع موزوں نہیں ؟ اس بات سے دل و جان سے متفق ہوں کہ یہ عروضی حوالے سے شاعری کو سمجھنے سمجھانے کے لیے بالکل آسان راستہ ہے۔
3۔جان بھائی تحت اللفظ پڑھنے میں اور شاعری کو عروضی طور پر پڑھنے میں جو فرق ہے اسے یقینا فورم پر موجود سبھی دوست بخوبی سمجھتے ہیں اس لیے آپ کا کہنا کہ "اگر آپ فطری طور پر شعر پڑھنے کا فن جانتے ہیں تو آپ کو علم العروض پہ باقاعدہ دسترس کی ضرورت کم ہی رہتی ہے" پھر سے میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ مثلاً آپ جب تحت اللفظ یہ غزل پڑھیں گے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
تو آپ قسمت کے بعد وقفہ دیں گے یا توقف کریں گے جب کہ عروضی حوالے سے اس کی تقطیع یوں کریں گے:
ی نہ تھی ہ ما رقسمت کہ و صا ل یار ہوتا
4۔اس بات سے متفق ہوں کہ موزوں شعر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے لیکن اگر یہ محض تک بندی ہو تو کیا وزن اسے حض آفریں بناتا ہے ؟ یقینا نہیں۔
5۔ جان بھائی آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر کہ بنا وزن کی شاعری دورِ حاضر کا مسئلہ ہے اور یہ بھی کہ مرد عورت نہیں ہوسکتا اور عورت مرد نہیں لیکن معصومانہ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اردو ادب میں پہلے بھی یہ مردو عورتیں (معذرت کے ساتھ اصنافِ نظم) مستعار نہیں لی گئیں تھیں ؟ غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، واسواخت ۔۔۔۔۔ ایک لمبی فہرست ہے ان میں سے ہماری اپنی کونسی صنف ادب ہے یا تھی ؟اگر آج یورپ اور جاپان سے آزاد نظم، نثم، سانیٹ اور ہائیکو جیسی اصناف کو لے لیا گیا ہے تو میرے خیال میں اس میں کوئی بھی مذائقہ نہیں اور اس سے اصناف پر مردوزن کی قدغن لگانا بھی درست نہیں۔ نہ ہی اسے محض کپڑوں کی تبدیلی کہا جاسکتا ہے۔ جس طرح پہلے اصناف کو مستعار لے کر برتا گیا ویسے ہی آج بھی ہورہا ہے۔ رہا مسئلہ آخری بات کا اور وہ ہے کہ افاعیل کی جگالی اور شعر کی قبولیت تو میں اس میں ہر گز متعصب نہیں۔ میں نے پہلے بھی یہی کہا ہے اور اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اچھا شعر محض افاعیل کی جگالی نہیں نہ ہی تک بندی ہے بلکہ اچھا شعر جہاں ایک طرف عروضی حوالے سے پختگی طلب ہے وہیں بلند خیالی اس کی روح ہے اور اول الذکر کی کمی اور آخر الذکر کی موجودگی بہر حال اسے شعر کے زمرے میں ہی رکھتی ہے نہ کہ باہر۔
1۔ عروض کے قواعد شاعری کو سامنے رکھ کر بنائے گئے نہ کہ ان قواعد کو سامنے رکھ کر شاعری کی جاتی ہے۔ مختصر تاریخ کے لیے ویکیپیڈیا کا لنک ملاحضہ فرمائیں۔
علم عروض - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
2۔ بالکل، انگریزی زبان کے قواعد یا کسی بھی زبان کے قواعد کیوں مرتب کیے جاتے ہیں؟ کیا اس سے پہلے زبان بولی نہیں جا رہی ہوتی؟ قواعد تو ہمیشہ بعد میں بنتے ہیں اور اس وقت بنتے ہیں جب ایک زبان بولنے والوں میں عام ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کی قواعد اخذ کرنے کا اولین مقصد اس کی ترویج ہوتا ہے۔ عربی شعراء کا کلام تو علم العروض آنے سے قبل بھی موزوں ہوتے تھے۔
3۔ موزوں شعر اگر کوئی طبع رواں پڑھتا ہے تو اسے تقطیع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تقطیع کی یا تحت اللفظ پڑھنے کی ضرورت تو اس قاری پیش آتی ہے جو فطری طور پر موزوں نہیں ہوتے۔ آپ کوئی بھی مصرع دے دیں کافی دوست یہاں بغیر تقطیع اور بحر کا نام جانے پڑھ کر کافی حد تک یہ درست بتا سکتے ہیں کہ یہ موزوں ہے یا نہیں اور یہ کوئی ایسی خوبی نہیں جس پہ نازاں ہوا جائے۔
4۔ اگر محض تک بندی ہے اور وزن سے خارج ہے تو اسے نثر کہنے میں کیا حرج ہے؟ کیا اس تک بندی سے خود کا شاعر کہلوانا دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے؟ اچھی نثر کی بھی کافی مقبولیت ہے۔
5۔ مستعار میری کم علمی کے مطابق، بول چال میں اردو زبان سے مماثلت یا اردو خود جن زبانوں سے وجود میں آئی، کی بنا پر لیا گیا ہے۔ باقی آپ جس طرح چاہے مرضی لکھ ڈالیں مجھے آپ کی تحاریر پہ کوئی اعتراض نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔مجھے جو مناسب لگتا ہے وہ یہی ہے جو بیان کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عروض کو "ہوا" صرف اور صرف اس کی jargon یا بھاری بھر کم مخصوص اصطلاحات نے بنایا ہے جو عروض دان جائز و ناجائز طور پر اپنی تحاریر میں گھسیٹر دیتے ہیں۔

ورنہ اوزان اور وہ بھی سارے نہیں بلکہ چند معروف کا صرف ورکنگ نالج ہونا کافی ہے۔غالب یا دیگر اساتذہ عروض کے ماہر تھے لیکن موجودہ دور کے لاتعداد اور مشہور شعرا ایسے ہیں جو ماہرِ عروض نہیں تھے اور صرف ورکنگ نالج پر شاعری اور عمدہ شاعری کرتے تھے۔فراز اور پروین شاکر کے بارے میں یہی مشہور ہے۔

دھیان اپنے کلام میں رکھیے، اس کی نوک پلک سنواریے، کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ میاں یہ بحر کس دائرے سے اخذ کی ہے، سالم ہے کہ مرکب کہ محذوف کہ مقطوع، اس میں خبن استعمال کیا ہے کہ حذف کہ کف ، اس میں دخیل کیا ہے اور روی کیا ہے، اللہ اللہ۔لیکن پھر وہی کہ رعب تو اپنی تحریر میں لایعنی اور لا سمجھ الفاظ کے بھاری بھر کم استعمال سے ہی پڑتا ہے۔ :)
 

امان زرگر

محفلین
تمام قابلِ احترام اساتذہ سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اس ساری بحث کا جو نتیجہ میں نکال پایا ہوں وہ درج ذیل ہے۔۔
''افتخار حیدر کی اس نظم میں بیان کردہ سب باتیں درست ہیں''
:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تمام قابلِ احترام اساتذہ سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اس ساری بحث کا جو نتیجہ میں نکال پایا ہوں وہ درج ذیل ہے۔۔
''افتخار حیدر کی اس نظم میں بیان کردہ سب باتیں درست ہیں''
:)
اور اس کے ساتھ ہی آپ کے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت آشکار بھی ہو جاتی ہے۔:)
 
Top