عروس البلاد کراچی کا ایک یادگار مشاعرہ

عروس البلاد کراچی کا ایک یادگار مشاعرہ
محمد خلیل الرحمٰن​

عروس البلاد کراچی کی حسین شاموں میں سے ایک ایسی ہی حسین شام کا ذکر ہے، ہم بھاگم بھاگ گھر پہنچے، بیوی بچوں کو سمیٹ کر گاڑی میں بٹھایا اور کشاں کشاں ایکسپو سنٹر پہنچے جہاں پر ایکسپریس نیوز کی جانب سے ایک عدد بین الاقوامی اردو مشاعرے کا بندو بست کیا گیا تھا۔

صاحبو یہ قصہ ہے گزشتہ سنیچر یعنی بروز ہفتہ بتاریخ یکم اکتوبر سنہ ۲۰۱۱ کا۔اور جگہ تھی، کراچی ایکسپو سنٹر جہاں پر ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیرِ اہتمام۳۰ ستمبر اور یکم اکتوبر کو ’’ اردو اور عصرِ حاضر‘‘ کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی اردوکانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز ایک عدد بین الاقوامی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ ہماری بد قسمتی کہ یہ کانفرنس میں ہم شریک نہ ہوسکے لیکن خوش قسمتی سے ہمیں مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع مل گیا اور اس طرح ہم اس قابل ہوسکے کہ اپنے محفلین بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ اس مشاعرے میں شریک کرسکیں۔

ہم نے ہال میں پہنچ کر تقریباً آگے کی جانب کچھ کرسیوں پر قبضہ کیا اور مشاعرے کے شروع ہونے کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ کوئی دوگھنٹے سے زیادہ کے صبر آزما انتظار کے بعد مشاعرہ شروع ہوا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ مشاعرے کی ابتدا سے پہلے ہی تمام کرسیاں پر ہوچکی تھیں۔ منتظمین نے جو اس صورتحال سے پریشان بھی تھے اور خوش بھی، کچھ مزید کرسیوں کا بندوبست کیا اور پھر اعلانِ عام کردیا کہ جن اصحاب کو کرسیاں میسر نہیں ، وہ نیچے قالین پر ہی تشریف رکھیں۔ سکون اور صحت مند تفریحی سرگرمیوں سے محروم شہری جوق در جوق ہال کے اندر پہنچ رہے تھے۔ کراچی اور گلشنِ اقبال جو گزشتہ کئی ہفتوں سے بے سکونی کا شکار تھے، آج کی رات بین الاقوامی اردو کانفرنس اور ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کے شہر قائد میں کامیاب انعقاد کا جشن منارہے تھے۔ لگتا تھا کہ شہر کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائینل جو قریب ہی نیشیل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جارہا تھا، نصف شب کے بعد تک چلا اور یہ مشاعرہ جس میں ہم بہ نفسِ نفیس اپنے پورے خاندان کے ساتھ موجود تھے، نصف شب کے قریب جوبن پر آیا اور صبح تین بجے تک چلا ، گرچہ مشہور شاعر جناب انور مسعود نے گلہ بھی کیا کہ عام طور پر مشاعرے میں ان کی باری آتی ہے تو فجر کی اذان ہورہی ہوتی ہے جبکہ آج یہ معاملہ نہیں ۔ پاکستان ، ہندوستان اور ترکی کے شاعروں کے علاوہ کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانی شاعروں نے بھی اس مشاعرے میں حصہ لیا اور اس طرح شعرا حضرات اور سامعین کی بھر پور شرکت اور کئی معتبر شعرا کی موجودگی نے اس مشاعرے کو چار چاند لگا دئیے اور اسے شہرِ کراچی کا ایک یادگار مشاعرہ بنادیا۔سامعین نے شعرا حضرات کو بھر اور شایانِ شان داد دی۔ مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوتے ہی ہم نے کاغذ پینسل سنبھال، شعرا کے خوبصورت اور بہترین اشعار کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا شروع کردیا۔ شعرا حضرات کو غور سے سننا ، انھیں دیگر سامعین کے ساتھ مل کر بھرپور داد سے نوازنا اور ساتھ ہی ان کی نگارشات کو اپنے پاس محفوظ کرنا گو، خاصا مشکل کام تھا ، پھر بھی ہم نے بحسن وخوبی اس کام کو سر انجام دیا اور اب اس شعرائے کرام کے خوبصورت اشعار کے اس حسین مرقع کو ایک خوبصورت گلدستے کی شکل میں محفلین کے لیے پیش کررہے ہیں۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف


خالد معین :
میں اپنے آپ سے اب جو کلام کرتا ہوں
تو آئینے کے مقابل قیام کرتا ہوں

الٹنا چاہے جو کارِ منافقت کا نقاب
یہ شہر اس کا طرفدار تھوڑی ہوتا ہے

فاطمہ حسن :
آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھکو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں
پوری نہ ادھوری نہ میں کمزور نہ پر زور
انسان ہوں انسان کے معیار میں دیکھیں

کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں

سورج نرائن( لاہور):
مری رگوں سے حرارت نکال دیتا ہے
وہ مجھ کو برف کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے
میں بات بات میں کرتا ہوں گفتگو اپنی
وہ بات بات میں اپنی مثال دیتا ہے

خلیل طوقار(ترکی) :
ذکر خدا فکرِ خدا کرتا نہیں تھا یہ خلیل
رہنمائی کے لیے خضر بنی آتشِ عشق

سعود عثمانی :
ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ گیا نہیں مارا تو میں گیا
اپنی انا کی آہنی زنجیر توڑ کر
دشمن نے بھی مدد کو پکارا تو میں گیا
شل انگلیوں سے تھام رکھا ہے جہان کو
چھوٹا جو ہاتھ سے یہ کنارا تو میں گیا
تیری شکست اصل میں میری شکست ہے
تو مجھ سے ایک بار بھی ہارا تو میں گیا

ایک معیار مستقل رکھنا
درد شایانِ شانِ دل رکھنا

کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دل پہ سِل رکھنا

ہم بھی ویسے نہ رہے دشت بھی ویسا نہ رہا
عمر کے ساتھ ہی ڈھلنےلگی ویرانی بھی

کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے
یہ وہ ہنر ہے کہ جس کی سزا بھی ملتی ہے

عباس تابش :
کیا تعلق ہے مری جاں جو نہیں ہے تجھ سے
تو مرا دوست بھی ہے یار بھی ہے عشق بھی ہے

میں کبھی زندگی کہہ کر نہ پکاروں گا تجھے
زندگی کہتے ہیں اسکو جو بسر ہوجائے

عجیب لوگ ہیں یہ خاندانِ عشق کے لوگ
کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے

تیرا اس کے ماننے والوں سے پالا پڑ گیا
جو پرندے بھیج کر لشکر کے لشکر ماردے

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

بشری اعجاز (لاہور) :
اب آنسو بھی رہائی چاہتے ہیں
یہ ہم کیسی جدائی چاہتے ہیں
محبت بھی عجب دیوانگی ہے
اسیری میں رہائی چاہتے ہیں

اگرچہ عشق نے برباد کردیا مجھ کو
مگر یہ سچ ہے کہ اس نے مجھے سنوارا بھی

سرور جاوید :
کوزہٗ ہجر میں دریا کو اتارا کیسے

عرصہٗ عمر تھا اک شب میں گزارا کیسے
مجھکو ابہام کے چنگل سے رہائی دیتا
تو کہ آوازِ یقیں تھا تو سنائی دیتا

خیال کیسے بھی ہوں معتبر نہیں کھلتے
دیارِ جبر میں دِل کے ہنر نہیں کھلتے

عطا الحق قاسمی :
اسے اب بھول جانے لکا ارادہ کرلیا ہے
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے

ہم مسافر کہاں منزل کی خبر مانگتے ہیں
ہم تو رستوں سے فقط اِذنِ سفر مانگتے ہیں

میں وہ دعا ہوں عطا جو ہر ایک لب پر ہے
بس اتنا ہے کہ ابھی عرصہٗ قبول میں ہوں

ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ ٗ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئیے
عرض کرتے عمر گزری ہے عطا صاحب جہاں
آج اس محفل میں کچھ ارشاد ہونا چاہئیے

عازم کوہلی( بھارت) :
اک عمر گزاری ہے ہم نے اس دنیا کے کاشانے میں
کچھ خود کو تسلی دینے میں ، کچھ لوگوں کو سمجھانے میں

گفتگو اس سے کریں کب اور کیسے
زندگی کھل کر کہیں ملتی کہاں ہے

تری نظروں کے اک فرمان ہی سے
میں تیرا عمر بھر کا ہو گیا ہوں

وہ جسکو شاعری کہتے ہیں عازم
میں ماہر اس ہنر کا ہو گیا ہوں

شاہدہ حسن :
تو نے غم آشنا رکھا مجھ کو
اے خدا یہ خوشی بہت ہے مجھے
ہم کلامی کا لطف لینے کو
رات بھر چاندنی بہت ہے مجھے

جو طے پہلے سے ہے وہ کام سارہ ہونے والا ہے
نہ جانے کس گھڑی بس اک اشارہ ہونے والا ہے
وفا کے باب میں نقصان جھیلا ہے بہت دل نے
کسے بتلائیں جو اب کے خسارہ ہونے والا ہے

ایوب خاور:
یہ تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ مر جائے گا
چاند اک قبر کے سینے میں اتر جائے گا
حسن اور عشق کے مابین ٹھنی ہے اب کے
اس لڑائی میں کسی ایک کا سر جائے گا
خانہٗ خورشید میں مہتاب رکھنے کے لیے
میں نے ڈھونڈی ہے جگہ اک خواب رکھنے کے لیے

ڈاکٹر سید تقی عابدی ( کینیڈا) :
بھٹکے ہوئے منزل پہ پہنچ جائیں گے خود ہی
رستوں سے اگر راہ نماؤں کو ہٹا دو
لوگوں کے فقط عیب نظر آتے ہیں جسکو
اسکو بھی ذرا آئینہ خانے میں بٹھادو

اشفاق حسین ( کینیڈا) :
تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے
میری دنیا ہے یہیں مجھکویہیں رہنا ہے
کام جو عمرِ رواں کا ہے اسے کرنے دے
میری آنکھوں میں سدا تجھ کو حسیں رہنا ہے
میں تری سلطنتِ حسن کا باشندہ ہوں
مجھ کو اب اور کہیں جاکے نہیں رہنا ہے
درد سے کوئی تعلق نہ علاقہ غم سے
صرف لفظوں کے برتنے سے غزل کیسے ہو

امجد اسلام امجد :
بھنور میں کھو گئے ایک ایک کرکے ڈوبنے والے
سرِ ساحل کھڑے تھے سب تماشا دیکھنے والے
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پر کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے ، مگریہ بانٹنے والے

یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے
تخت سے تختہ بہت دور نہیں ہوتا ہے
بس یہی بات ہمیں آپ کو سمجھانی ہے

کہاں آکے رکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا اسے ھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
سحر انصاری :
سب کی خواہش ہے کہ باتیں ہوں خرد مندی کی
کوئی تیار نہیں ہوش میں آنے کے لیے
ہم تو اک حرفِ محبت سے بھی مر سکتے ہیں
تیر کیوں ڈھونڈ کے لاتے ہو نشانے کے لیے

جانے کیوں رنگِ بغاوت نہیں چھپنے پاتا
ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں

سدا اپنی روش اہلِ زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں

سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا
کہ باز جرمِ صداقت سے میں نہیں آیا

پیر زادہ قاسم :
جیسے یادِ انبساطِ غم شکیبائی کے بعد
دیر تک روتے رہے ہم بزم آرائی کے بعد
اے سرشتِ شوق اب ناپید ہوکر دیکھ لے
اور کیا ہونا ہے اس ہونے کی رسوائی کے بعد
خود کو پالینے کی حسرت میں بہت رسوا ہوئے
کچھ سوا رسوائیاں ہیں اب شناسائی کے بعد
بے مسافت اک سفر درپیش رہنا چاہئیے
سوچتے ہیں عمر بھر کی جادہ پیمائی کے بعد
کل میں خود سے سلسلہ در سلسلہ ملتا رہا
عالمِ تنہائی جیسے دشتِ تنہائی کے بعد
ہے وہی صحرا گر شاداب کتنا ہوگیا
رہ روایانِ جنوں کی آبلہ پائی کے بعد
دل میں اب پہلی سی وہ گنجائشیں باقی نہیں
پہلے اک دالان آجاتا تھا انگنائی کے بعد

اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
اب منزلِ تعبیر میں ہے عشقِ بلا خیز
یعنی اسے پالینے سے راحت نہ ملے گی
تا عمر وہی کارِ زیاں عشق رہا یاد
حالانکہ یہ معلوم تھا اجرت نہ ملے گی
تعبیر نظر آنے لگی خواب کی صورت
اب خواب ہی دیکھو گے بشارت نہ ملے گی
آئینہ صفت وقت ترا حسن ہیں ہم لوگ
کل آئینے ترسیں گے تو صورت نہ ملے گی

زبیر رضوی ( بھارت) :
امن کا نغمہٗ جاودانہ
اے مرے ایشیا گنگنانا
امن بچوں کا اسکول جانا
امن ماؤں کا لوری سنانا
امن گڑیں کھلونے تماشے
دولہا دلہن براتیں بتاشے
امن اماں کے ہاتھوں کی روٹی
امن بہنا کے ہاتھوں کی چوڑی
امن ملنے بچھڑنے کے آنسو
بوڑھے ہاتھوں میں بیٹے کے بازو
امن ساجن سے ملنے کا سپنا
امن گوری کا گھونگھٹ میں ہنسنا
امن ہاتھوں میں مہندی کا رچنا
عارضِ گل پہ ہونٹوں کا رکھنا
امن رندوں کی رنگین راتیں
امن زاہد کے روزے نمازیں
امن غالب کی غزلوں کا دیواں
امن فطرت کا دستِ مہر باں

انور مسعود :

کبھی پھر گفتگو ہوگی کہ یہ سوغاتِ افرنگی
عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے
ابھی اتنا ہی کہہ دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے

بند گوبھی پہ غور کرتا ہوں
یہ بھی اک فعلِ اضطراری ہے
ایک پردے کے بعد پھر پردہ
پردہ داری ہی پردہ داری ہے

انور مسعود :

وزیرِ خارجہ ہیں آجکل ترکی کے دورے پر
گھروں میں گیس کی بندش مسلسل ہوگئی ہے
کوئی خطرہ نہیں ہے آمریت کا وطن میں
نصیبو لال کی البم مکمل ہوگئی ہے

گویا کم کم ہے دید کا امکاں
آرزو کی گلی نہیں کھلتی
گرچہ نزدیک ہے گلی تیری
پر ہمیں پارکنگ نہیں ملتی

ظفر اقبال( صدرِ محفل) :
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہوں اس پہ ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئیے

میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیشِ خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں

دور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے

شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں کوئی ہے بھی کہ نہیں
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
شاعری اور طرح کی اسے کہتے ہو ظفر
میں پریشاں ہوں کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں

بھلا دیتا ہوں گر وہ روکتا ہے پاس آنے سے
دوبارہ روکتا ہے میں دوبارہ بھول جاتا ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔ بہت مزہ آیا روداد پڑھ کر۔

واردات کی تاریخ سے بھی مطلع فرما دیتے تو اچھا ہوتا۔
 
درست فرمایا جناب نے۔ اس پوری روداد میں تاریخ کا کوئی ذکر نہیں۔ دراصل ہم اخبار کا تراشہ نتھی کرکے بری الزمہ ہوگئے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اخبار کے تراشے میں بھی تاریخ نہیں ہے۔ ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔

صاحبو یہ قصہ ہے گزشتہ سنیچر یعنی بروز ہفتہ بتاریخ یکم اکتوبر سنہ ۲۰۱۱ کا۔اور جگہ تھی، کراچی ایکسپو سنٹر جہاں پر ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیرِ اہتمام۳۰ ستمبر اور یکم اکتوبر کو ’’ اردو اور عصرِ حاضر‘‘ کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی اردوکانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز ایک عدد بین الاقوامی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ ہماری بد قسمتی کہ یہ کانفرنس میں ہم شریک نہ ہوسکے لیکن خوش قسمتی سے ہمیں مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع مل گیا اور اس طرح ہم اس قابل ہوسکے کہ اپنے محفلین بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ اس مشاعرے میں شریک کرسکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہاں جناب یہ ہوئی نہ بات کہ یہ مراسلہ مکمل ہو گیا ہے کہ کل کلاں کو حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ بہت شکریہ۔
 
شمشاد بھائی، وارث بھائی، محمود مغل بھائی ، بہن ام نورالعین، بھائی حماد اور بھائی سعود کا بہت شکریہ کہ انھوں نے ناچیز کی اس حقیر سی کوشش کو سراہا۔جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top