عرضِ مطلب میں شان جاتی ہے - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی)

عرضِ مطلب میں شان جاتی ہے
بات اے مہربان جاتی ہے

عشق میں آن بان جاتی ہے
آن جاتی ہے شان جاتی ہے

بیمروت ہے پوری مرگِ فراق
چھوڑ کر نیم جان جاتی ہے

بات تو کرنے دے ہمیں اے ضبط
کام ہی سے زبان جاتی ہے

شب وصل اس کی دیکھیں اپنے بعد
کس کے گھر مہمان جاتی ہے

روحِ عاشق بھی اسکے کوچہ کی
خاک آ آکے چھان جاتی ہے

مجھ کو ذلت نہ دیجئے سرِ بزم
سوچئے کس کی شان جاتی ہے

لاکھ وہ چشمِ شوخ ہے خودرائ
دل جو کہتا ہے مان جاتی ہے

شکوہ جوروستم کا اُس کے جلال
دیکھئے آن بان جاتی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب! دو اشعار میں املا کی اغلاط ہیں انہیں دوبارہ دیکھ لیں۔
روحِ عاشق بھی اسکے کوچہ کی
خاک آ آکے چہان جاتی ہے

لاکھ وہ چشمِ شوخ ہے خودرائ
دل جو کہتا ہے مان جاتی ہے
 
Top