داغ عذر آنے میں بھی ھے اور بلاتے بھی نہیں (داغ دہلوی)

عُذر آنے میں بھی ہے اور بُلاتے بھی نہیں
باعثِ ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

سر اُٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سُنتے تیری
نہیں سُنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خُوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اُٹھاتے بھی نہیں

ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں

نواب مرزا داغ دہلوی
 

Smukhtar

محفلین
مکمل غزل

عُذر آنے میں بھی ھے اور بلاتے بھی نہیں
باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں

منتظر ہیں دم رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں

سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشہء مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

کیا کہا، پھر تو کہو، ہم نہیں سنتے تیری
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خوب پردہ ھے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں

ہو چکا قطعِ تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں

داغؔ دہلوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top