داغ عذر آنے میں بھی ھے اور بلاتے بھی نہیں (داغ دہلوی)

چاند بابو

محفلین
اتنی اچھی غزل شئیر کرنے پر زونی بھائی کا بہت بہت شکریہ اور وارث بھائی اور شمشاد بھائی کا اسے مکمل کرنے پر شکریہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
اتنی اچھی غزل شئیر کرنے پر زونی بھائی کا بہت بہت شکریہ اور وارث بھائی اور شمشاد بھائی کا اسے مکمل کرنے پر شکریہ۔

شکریہ اور چاند بابو اس سے پہلے یہ زونی بہنا سچ مچ میں بھائی بن جائے اور وہ بھی بڑا والا، اپنے پیغام کو مدون کر لیں۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت مشہور غزل ہے، اسے مہدی حسن، فریدہ خانم اور بیگم اختر کی آوازوں میں تو سن چکا ہوں، شاید کسی اور نے بھی گائی ہو۔



میرے پاس رونا لیلٰی کی آواز میں بھی موجود ہے اور رونا لیلٰی نے ایک اور اضافی شعر بھی گایا ہے:

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں

یہ لیجیے رونا لیلٰی کی آواز میں اس غزل کی آڈیو:
[ame]http://www.divshare.com/download/4693948-127[/ame]
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح صاحب، یہ بھی خوب ہوا، میرے خیال میں اس غزل کے مزید اشعار "دریافت" کرنے چاہیئں۔ :)
 

زونی

محفلین
زونی میں ریکارڈ کرکے اپنا ریکارڈ نہیں لگوانا چاہتا - ;) اگر کسی نے سننی ہے تو روبرو سن سکتا ہے - وارث صاحب جب ملیں گے تو ان کی سمع خراشی کا سامان تیار رکھوں‌گا - :)




اسکا مطلب ھے ہمارا چانس تو گیا:grin:


وارث بھائی سمع خراشی کے وقت ٹیپ ریکارڈر ساتھ رکھئے گا;)
 

مرک

محفلین
مجھے پہت پسند آئ یہ غزل بہت شکریہ اپکا۔
دعا کریں ہم پھی کوئ اچھی سی غزل جلری اپ سب کی خدمت میں پیش کریں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مرجائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں

سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشہء مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں

ہوچکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں


از داغ دہلوی
 
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھُپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں

جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو

جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں
 
Top