عذاب آئے کچھ ایسے کہ ہم بکھر سے گئے - اقبال طالب

کاشفی

محفلین
غزل
(اقبال طالب - سعودی عرب)

عذاب آئے کچھ ایسے کہ ہم بکھر سے گئے
وہی اداس دروبام ہم جدھر سے گئے

نشاطِ محفلِ یاراں میں اس قدر الجھے
فرازِ علم و ہنر اپنی رہگزر سے گئے

خدا کو بھول گئے مشرکوں کی صحبت میں
نتیجہ دیکھا دعاؤں کے بھی ثمر سے گئے

بچھڑ کے اپنے مدارس سے درس گاہوں سے
جمود ایسا جہاں تھے وہیں ٹھہر سے گئے

نگاہ پڑتے ہی آقا تمہارے روضہ پر
دکھی جو لوگ تھے وہ کس قدر نِکھر سے گئے

میں رو رہا تھا کھڑا قرطبہ کی مسجد میں
کہاں سے آئے تھے ہم کس طرح کدھر سے گئے

دیارِ غیر میں آنے کا یہ ثمر پایا
کہاں کے نام و نصب ہم تو اپنے گھر سے گئے

پڑھا ہے دل سے کلامِ ذکا کو جب طالب
شعورِ شعر و سخن پھر مرے نکھر سے گئے

مقطع: استاد محترم ذکا صدیقی صاحب مرحوم کی یاد اور محبت میں۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ! بہت خوب۔ شریکِ محفل کرنے پر آپ کا شکریہ!
نشاطِ محفلِ یاراں میں اس قدر الجھے
فرازِ علم و ہنر اپنی رہگزر سے گئے
 
Top