فارسی شاعری عارفانہ فارسی کلام ۔۔۔حضرت شاہ نیاز بریلوی ۔۔۔۔۔۔ رفتم اندر تہِ خاک انسِ بتانم باقیست

جیلانی

محفلین
رفتم اندر تہِ خاک انسِ بتانم باقیست
(میں خاک کے نیچے چلا گیا لیکن بتوں کی محبت باقی ہے )
کلام ؛ فخرالاولیاء،نازشِ عرفا،قطبِ عالم ، نیاز بے نیاز،حضرت والا منزلت شاہ نیاز احمد علوی بریلوی قادری چشتی فخری نظامی صابری سہروردی نقشبندی قدس سرہ العزیز

رفتم اندر تہِ خاک انسِ بتانم باقیست
عشق جانم بر بود آفتِ جانم باقیست
میں خاک کے نیچے چلا گیا لیکن بتوں کی محبت باقی ہے ۔عشق نے میری جان لے لی لیکن میری آفتِ جان باقی ہے۔

سرو سامان وجودم شرر عشق بسوخت

زیرِ خاکسترِ دل سوزِ نہانم باقیست
میرے وجود (ہستی) کے سروسامان کو عشق کی آگ نے جلادیالیکن اس جلے ہوئےدل کی خاک کے نیچے سوزِ نہاں(چھپی ہوئی جلن)باقی ہے۔

کاروانم ہمہ بگزشت زمیدانِ شہود

ہمچو نقشِ کفِ پا نام و نشانم باقیست
تمام قافلہ میدانِ شہود(اس موجود دنیا)سے گزر گیا لیکن کفِ پا کے نشانات کی طرح صرف میرا نام ونشان باقی ہے۔

ہستیم جملہ خیالست بتمثال سراب

بالیقین من نیم و وہم و گمانم باقیست
میری ہستی تمام تر خیال ہے بالکل سراب کی طرح۔سچ یہ ہے کہ میرا تو کچھ وجود نہیں صرف وہم و گمان باقی ہے۔

طمع فاتحہ از خلق نہ داریم نیاز

عشقِ من در پسِ من فاتحہ خوانم باقیست
اے نیاز مجھے قطعی اس کی لالچ نہیں کہ لوگ مجھ پر فاتحہ پڑھیں۔اس لئے کہ خود میرا عشق میرے بعد مجھ پر فاتحہ خوانی کے لئے باقی ہے۔
 

جیلانی

محفلین
مہر رویت نہ ہمیں دیدۂ حیرانم سوخت

کلام ؛ فخرالاولیاء،نازشِ عرفا،قطبِ عالم ، نیاز بے نیاز،حضرت والا منزلت شاہ نیاز احمد علوی بریلوی قادری چشتی فخری نظامی صابری سہروردی نقشبندی قدس سرہ العزیز

مہر رویت نہ ہمیں دیدۂ حیرانم سوخت
گرمی شعلۂ حسنِ تو دل و جانم سوخت
شمع ساں بر سر بزمت ہمہ عمرم میسوز
لیک یک لحظہ بہجرانِ تو نتوانم سوخت
نیست انصاف کہ بزم تو بر افروز و شمع
مہر پرور بحضورت بہ ازاں دانم سوخت
دلِ مجموعِ من از غنچۂ لب بند خوشت
ہرزہ خندیدن گلہائی گلستانم سوخت
منکہ پروانہ نمط سوزے و سازے دارم
غلغل و شور سحر گاہی مرغانم سوخت
لالہ زار جگرم رشکِ بہارِ ارم ست
نو بہار عجبے صحنِ گلستانم سوخت
دفتر دعویِ تقدیس ملائک یکسر
شعلۂ آتش عشق دل انسانم سوخت
گذر قافلہا یک نفس آسودہ نداشت
غم آوارگی گرد بیابانم سوخت
فلک افلاک بسیلاب سر شکم در چرخ
بود تا چشم سہیلت یم طوفانم سوخت
بلبلم در قفس و دور ز گلشن بہ بہار
در چمن نغمۂ مرغانِ خوش الحانم سوخت
کاروانم ہمہ بگزشت و من و تنہائی
غم و اماندگی از قافلہ یارانم سوخت
داغ برقست قرارِ دلِ بیتاب نیاز
جانِ بارانِ گہر چشم در افشانم سوخت
 

جیلانی

محفلین
مہر رویت نہ ہمیں دیدۂ حیرانم سوخت

مہر رویت نہ ہمیں دیدۂ حیرانم سوخت
تیرے چہرہ کے سورج نے نہ صرف میری حیران آنکھوں کو جلادیا

کلام ؛ فخرالاولیاء،نازشِ عرفا،قطبِ عالم ، نیاز بے نیاز،حضرت والا منزلت شاہ نیاز احمد علوی بریلوی قادری چشتی فخری نظامی صابری سہروردی نقشبندی قدس سرہ العزیز

مہر رویت نہ ہمیں دیدۂ حیرانم سوخت
گرمی شعلۂ حسنِ تو دل و جانم سوخت
تیرے چہرہ کے سورج نے نہ صرف میری حیران آنکھوں کو جلادیا بلکہ تیرے حسن کے شعلہ کی گر می نے میری جان و دل کو بھی جلادیا ہے
شمع ساں بر سر بزمت ہمہ عمرم میسوز
لیک یک لحظہ بہجرانِ تو نتوانم سوخت
تیری بزم میں ساری زندگی شمع کی طرح جلتا رہا لیکن تیرے ہجر میں جلنا ایک لمحہ کے لئے بھی ممکن نہیں
نیست انصاف کہ بزم تو بر افروز و شمع
مہر پرور بحضورت بہ ازاں دانم سوخت
یہ کوئی انصاف نہیں کہ شمع تو تیری بزم کو روشن کئے ہوئے ہےاور میں سمجھوں کہ مہر پرور (سورج کی خصوصیت رکھنے والا)تیری موجودگی میں اس سے جل جائے
دلِ مجموعِ من از غنچۂ لب بند خوشت
ہرزہ خندیدن گلہائی گلستانم سوخت
میرا مطمئن دل لب کی بند کلی سے خوش ہے(کہ اس نے)میرے گلستاں کے پھولوں کی فضول ہنسی کو جلادیا
منکہ پروانہ نمط سوزے و سازے دارم
غلغل و شور سحر گاہی مرغانم سوخت
میں نے کہ جسے پروانے کی طرح سوز و ساز حاصل ہےصبح کی چڑیوں کے شور و غل کو جلادیا
لالہ زار جگرم رشکِ بہارِ ارم ست
نو بہار عجبے صحنِ گلستانم سوخت
میرے جگر کا لالہ زار جنت کی بہاروں کے لئے باعث رشک ہے(لیکن)ایک عجیب نو بہار نے میرے گلستاں کے صحن کو جلادیا
دفتر دعویِ تقدیس ملائک یکسر
شعلۂ آتش عشق دل انسانم سوخت
فرشتوں کے تقدس کے دفتر کو انسان کے دل کے شعلۂ عشق نے مکمل جلادیا
گذر قافلہا یک نفس آسودہ نداشت
غم آوارگی گرد بیابانم سوخت
قافلوں کی گزر کو ایک لمحہ بھی سکون نہیں میرے صحرا کی خاک کو غمِ آوارگی نے جلادیا
فلک افلاک بسیلاب سر شکم در چرخ
بود تا چشم سہیلت یم طوفانم سوخت
تمام آسمانوں کا آسمان میری آنکھوں کے سیلاب سےگردش میں تھا (لیکن)تیری ستاروں جیسی آنکھوں نے اس سمندری طوفان کو جلادیا
بلبلم در قفس و دُور ز گلشن بہ بہار
در چمن نغمۂ مرغانِ خوش الحانم سوخت
میری بلبل بہار کے موسم میں قفس میں ہے اور گلشن سے دور ہے۔باغ کے خوش الحان پرندوں کے نغموں نے اسے جلادیا
کاروانم ہمہ بگزشت و من و تنہائی
غم و اماندگی از قافلہ یارانم سوخت
میرا سارا کارواں گزر گیا اب میں ہوں اور تنہائی ہے دوستوں کے قافلہ سے بچھڑنے کے غم نے مجھے جلادیا
داغ برقست قرارِ دلِ بیتاب نیاز
جانِ بارانِ گہر چشم در افشانم سوخت
اے نیاز برق کا داغ اب دلِ بیتاب کا قرار ہےموتیں کی بارش نے میری موتی برساتی آنکھ کو جلا دیا
 

mgkr11

محفلین
کاروانم ہمہ بگزشت زمیدانِ شہود
ہمچو نقشِ کفِ پا نام و نشانم باقیست
اللہ اللہ کیا کہنے، سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top