ظہُور نظرؔ ::::::صحرا میں گھٹا کا مُنتظر ہُوں :::::ZUHOOR -NAZAR

طارق شاہ

محفلین
غزل
ظہُور نظرؔ


صحرا میں گھٹا کا مُنتظر ہُوں
پھر اُس کی وَفا کا مُنتظر ہُوں

اِک بار نہ جس نے مُڑ کے دیکھا​
اُس جانِ صَبا کا مُنتظر ہُوں

بیٹھا ہُوں درُونِ‌‌ خانۂ غم​
سیلابِ بَلا کا مُنتظر ہُوں

جاں آبِ بَقا کی کھوج میں ہے​
مَیں مَوجِ فَنا کا مُنتظر ہُوں

کُھل جاؤں گا اپنے آپ سے مَیں​
مانُوس فضا کا مُنتظر ہُوں

غنچوں کے سِلے ہُوئے لَبوں سے​
تحسِینِ صَبا کا مُنتظر ہُوں

اِس دَور میں خواہشِ طَرب ہے​
مدفن میں ہَوا کا مُنتظر ہُوں

ماضی کی سزا بُھگت رہا ہُوں​
فردا کی سزا کا مُنتظر ہُوں

شاید کہ وہاں مُفر ہو غم سے​
تسخِیر‌ خلا کا مُنتظر ہُوں

ہاتھوں میں ہے میرے دامنِ شب​
سُورج کی صَدا کا مُنتظر ہُوں

برسوں سے کھڑا ہُوں ہاتھ اُٹھائے​
تاثِیرِ دُعا کا مُنتظر ہُوں

میرا تو خُدا کبھی نہیں تھا​
میں کِس کے خُدا کا مُنتظر ہُوں

کہتے ہیں جسے نظرؔ مُسافر​
اُس آبلہ پا کا مُنتظر ہُوں

ظہور نظرؔ​
 
Top