ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

اسد قریشی

محفلین
کس کو پڑی ہے طور پہ جایا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
اک تیرِنیم کش کہ ترازو نہ ہو سکا
آتی ہے کیسے سانس نہ پوچھا کرے کوئی
الفت میں تیری خود کو فنا کر گئے ہیں ہم
ہو عشق گر تو اس سے زیادہ کرے کوئی
فرصت کہاں ہے مجھ کو جو اک سانس لے سکوں
ایسے کسی کو یاد نہ آیا کرے کوئی
موجیں تو ٹوٹ جاتی ہیں ساحل پہ آتے ہی
طوفاں میں کشتیوں کو اتارا کرے کوئی
محرم تھا، آشنا تھا، گیا چھوڑ کر مجھے
اب وحشتوں میں کس کو پکارا کرے کوئی
پتھرا رہی ہیں آنکھیں تری راہ دیکھتے
اتنا بھی انتظار نہ دیکھا کرے کوئی
دکھتے نہیں ہیں زخم دلِ صد فگار کے
"ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی"
اب تک نہ آیا تم کو اسد شاعری کا ڈھب
دل کی زباں سے دل پہ ہی لکھا کرے کوئی
اسد​
 

اسد قریشی

محفلین
بہت خوب اسد، ہم تخلص بھی خوش ہوئے ہوں گے۔ ’انتطار دیکھنا‘ بہت عرصے بعد پڑھنے کو ملا۔

بہت نوازش! قبلہ کیا 'انتظار دیکھنا' کا استعمال مناسب نہیں ؟

اُسامہ جمشید صاحب اور حمید صاحب آپ دونوں صاحبان کا بہت شکریہ
 
Top