طلسم ہوشربا

نبیل

تکنیکی معاون
التماس مولف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حمد بیحد و ثنائے لا تعداد اس ساقی ازل کو سزا وار ہے کہ جس نے خراب آباد گیتی کو بصدائے مستانہ کن فیکون آریش دی اور نعت معہ تحفہ درود اس مست پیمانہ الست کی ہر جرعہ نوش جام خرد کو درکار ہے کہ جس نے سرمستان خمخانہ کفروضلالت کی بیک ساغر ظہور خمار شکنی فرمائی صلی اللہ علیہ واٰلہ العظام واصحابہ الکرام۔

زاں بعد خوشہ چین خرمن ارباب علم و ہنر و رمز شناسان دقائق معانی پرور عالی پایگاہ خاک راہ سید محمد حسین جاہ بگوش ہوش سخندان ذی ہوش خطا پوش عرض رسا ہے کہ داستان امیرحمزہ فسانہ دلکش و مرغوب پسندیدہ ہر طالب و مطلوب ہے زہے گوہردریائے خو بیانی زہے آفتاب سپہر زور بیانی کہ زبان توصیف و بیاں تعریف نسبت اسکے قاصر ہے منجملہ اس کے ایک طلسم حیرت زا مسمّہ بہ طلسم ہوشربا نادر ہے لہذا اس شاہد دلربائے رعنائی ومحبوب خوش ادائے زیبائی کو چاہا کہ زبان اردو بین بطرز فصیح و تجاورت صحیح جلوہ گاہ تحریری لائے اور مشتاقان ادائے محبوب قصص کو اس کی کرشمہ سنجی پر لبھائے بفضلہ وہ کرمہ و منہ التوفیق و ہو الرفیق الاعلی۔

(جاری۔۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
واضح ہو کہ داستان امیر حمزہ کے سات دفتر ہیں اور بغیر ملاحظہ دفاتر مذکور کے دشوار ہے امیر و عمرو اور زمرد شاہ اور بختیارک اور افراسیاب جادو وغیرہ کے نام سمجھ میں آئیں۔ باین خیال گزارش ہے کہ امیر حمزہ پسر سید خواجہ عبدالمطلب سردار خانہ کعبہ کے ہیں اور عمرو ان کا عیار ہے اور امیر حمزہ نے اپنے پوتے کو بادشاہ لشکر کیا ہے کہ نام اس کا سعد بن قباد ہے اور آپ سپہ سالاری لشکر کی کرتے ہیں اور جتنے بیٹے امیر حمزہ کے ہیں وہ سب مطیع اسی پوتے کے ہیں جو بادشاہ ہے اور بادشاہ روئے زمین بہت سے کہ جن کا ذکر اس قصے میں آئے گا وہ سب ہمراہ لشکر کے اپنی اپنی فوج لیے رہتے ہیں اور امیر حمزہ ایک بادشاہ جلیل القدر زمرد شاہ باختری سے کہ جس کو لقا بھی کہتے ہیں اور اس نے دعوٰی خدائی کا کیا ہے ، لڑ رہے ہیں اس لیے کہ وہ دعوٰی باطل سے باز آئے اور امیر کے ہاتھ سے جس ملک میں لقا بھاگ کر جاتا ہے وہاں کا بادشاہ اور رعایا سب اس کو اپنا خدا سمجھ کر اطاعت کرتے ہیں اور بنا بر اس کے حکم کے امیر سے لڑتے ہیں اور لقا کے ساتھ بیٹا نوشیروان کا فرامرز بن نوشیروان بھی ہے کہ اس سے امیر پہلے لڑ چکے ہیں اب اس نے لقا کا ساتھ کیا ہے اور وزیر فرامرز کا بختیارک بن بختک شیطان درگاہ لقا بنایا گیا ہے کس لیے کہ خدائی میں کوئی شیطان بھی چاہیے۔ غرض لقا نے پہلے جا کر طلسم ہزار شکل میں پناہ لی تھی ۔ جب وہ امیر نے فتح کر لیا تو لقا کوہستان کی طرف آیا ہے۔ طلسم ہزار شکل کا ذکر پہلے اسم طلسم کے ہے بوجہ اس کے کہ طلسم ہوشربا کا حقیر کو بیان کرنا منظور ہے اس لحاظ سے طلسم کو ترک کیا کہ باعث طوالت افسانہ نہ ہو۔

(جاری۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
طلسم ہوشربا
محمد حسین جاہ
1978 عیسوی

نشواط جادو

عمرو بن امیہ ضمری مع مخمور کے روانہ ہوا۔ مفارقت ان دونوں کی مہ رخ و بہار وغیرہ سرداران لشکر کو بہت شاق ہوئی۔ خاطر مضطر اور جان مبتلائے فراق ہوئی۔ قلزم چشم سے دریائے اشک بہا دیا۔

آخر کار اس حال زار کو دیکھ کر ہر ایک مشیر خوش تدبیر نے سمجھایا : "بیبیو! مسافروں کے پیچھے رونا برا ہے۔ چاہیے کہ سنگ جبر برائے چند روز دل پر رکھ کر صبر کرو اور دست دعا بدرگاہ جامع التفوقین اٹھاؤ کہ وہ ان کو بامراد پھر تم سے ملائے، رنج دوری مٹائے۔

اس سمجھانے سے ہر ایک نے انجام کا صبر کیا اور انتظام لشکر میں مصروف ہوا۔ ادھر ملکہ حیرت نے حال رہائی عشاق اور روانہ ہونا عمرو کا سمت کوکب دریافت کر کے شاہ طلسم کو نامہ لکھا۔ ہنوز نامہ بھیجنے نہ پائی تھی کہ طائر سحر فرستادہ شاہ جادواں اس کے زانوں پر آ بیٹھا۔ اس کے گلے میں نامہ بندھا تھا۔ اس نے کھول کر پڑھا لکھا تھا : "اے ملکہ! ابھی جنگ کا آغاز نہ کرنا، جب میں آؤں، اس وقت لڑنا۔"

اس مضمون کو پڑھ کر اپنا نامہ بھی اسی طائر سحر گردن میں باندھ دیا۔ وہ طائر اڑ کر افراسیاب کے پاس آیا۔ اس نے نامہ ملکہ حیرت سے معلوم کیا کہ عشاق گرفتار ہو کر چھوٹ گیا اور عمرو سمت کو کب گیا۔ پس یہ دریافت کرتے ہی دربار میں جو ساحر کہ حاضر تھے۔ اس نے ارشاد کیا : "تم میں سے کوئی ایسا ہے جو عمرو کو اثنائے راہ میں جا کر گرفتار کرے اور منزل مقصود تک پہنچنے نہ دے۔"

ایک ساحر نشواط جادو نامی حسب ارشاد شہنشاہ عالی مقام عرض رسا ہوا : "یہ غلام جاتا ہے اور اس فسادی کو قید کر کے لاتا ہے۔" بادشاہ طلسم نے فرمایا : "تم ٹھہرو، میں ملکہ حیرت کے پاس تم کو بھیجوں گا اور لشکر مہ رخ سے مقابلہ کراؤں گا۔"

یہ کہہ کر کچھ اسما سحر پڑھ کر دستک دی۔ فورا بروہی ہوا گھٹا چھا گئی۔ آندھی زور شور سے آئی اور لکہ ابر "بادل کا ٹکڑا" پر ایک ساحر کو یہ منظر سوار ہو کر ظاہر ہوا اور اتر کے روبرو دے شال طلسم آیا۔ بادب تمام مراسم آداب و سلام بجا لایا۔ بادشاہ ساحران نے فرمایا : "اے صبائی جادو! تم جاؤ اور عمرو و مخمور کوکب کے پاس جاتے ہیں۔ ابھی میری حد میں ہیں گرفتار کر کے میرے پاس لاؤ۔"

یہ حکم سن کر صبائی جادو تسلیم کر کے اپنے ابر پر بیٹھ کر روانہ ہوا۔ اس کے جانے کے بعد افراسیاب کھڑا ہو گیا اور نشواط کا ہاتھ تھام کر ایسا سحر پڑھا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اس وقت اس کو لے کر آپ بھی غائب ہو گیا۔ لمحہ بھر کے بعد نشواط کی آنکھ کھلی، دیکھا کہ ایک صحرا کھجور کے درختوں کا ہے اور ایک تالاب آب صاف سے بھرا ہے۔ اس کے کنارے مع بادشاہ طلسم کے میں کھڑا ہوا۔ یہ دیکھ کر اس نے عرض کیا : "اے بادشاہ! آپ مجھ کو کہاں لائے۔"

شاہ طلسم نے فرمایا : "اس تالاب میں میرے ہمراہ کود پڑو۔"

یہ کہہ کرہاتھ پکڑ کودے اور بہاؤ پر غلطاں و پیچاں دونوں چلے گئے، پھر تہ پر پاؤں لگا اور آنکھ کھول کر دیکھا تو ایک صحرائے سبزہ زار اور دشت پر بہار میں اپنے تئیں پایا، ہوا وہاں کی رشک دم عیسیٰ تھی، جو گھاس اور پتی تھی اکسیر کی جڑی بوٹی تھی۔ درخت ہر ایک زر گل سے نہال تھا۔ ثمر و غنچہ سے ہر شجر مالا مال تھا۔ عشق پیچاں اور کوڑیالے اور بیلدار پھولوں کے درخت کی بیلیں پہاڑوں کے سر پر لٹکتی تھیں۔ مشاطر بہار نے سہرا باندھا تھا۔ گویا اس کی لڑیاں چھٹکتی تھیں۔ ابر بہاری ہر طرف چھایا تھا۔ خدا کی رحمت نے بے حساب کا اس دست بہار آگیں پر سایہ تھا۔

گلوں کی تھی صحرا میں ایسی چمک
کہ ہوں جیسے ستارے برے فلک

شگوفے تھے کھولے ہوئے عطر داں
صبا عطر افشاں تھی ہر سو رواں

لدے گھنگروؤں کی طرح تھے شجر
جھکے بار اثمار سے سر بسر

مگر جعد سنبل تھا یوں تاب دار
کہ پرپیچ ہو جس طرح زلف یار

شگوفےنہ تھے بر سر شاخسار
شہ گل کا افسر تھا گوہر نگار

جو لہراتی تھی نہر میں پڑ کے دھوپ
تھا آبی دوپٹے میں لچکے کا روپ​

بیچ میں اس بیشہ فرحت بخش کے ایک خیمہ بصد عظمت و شان رشک بارگاہ آسمان استادہ تھا۔ جس پر چار سو کل یاقوت احمر کا چڑھا تھا۔ ہر نمگیرہ اس کا سلک مروارید تھا عمدگی میں دید تھا نہ شنید تھا، ریسمائیں کلابتوں کی تھی، قناتیں اون کی تھیں۔ ہر کلس پر سورج مکھی لگی تھی۔ سورج کی آنکھ کا تماشا دیکھنے کو اس پر جھکی تھی۔ جگمگاہٹ اس کی چشم و مہر و ماہ کر خیرہ کرتی تھی۔ قناویل ہر ایک فروغ کواکب فلک کو تیرہ کرتی تھی۔ اندر خیمہکے فرش شاہانہ بچھا تھا، مسندیں پرتکلف لگی تھیں، شیشہ آلات بجا تھا

عجب اس کی خوبی عجیب اس کی شان
وہ خیمہ جواہر کی گویا تھی کان

زمیں اس جگہ کی تھی بلور کی
بچھی مسندیں اس تھیں نور کی

ہر ایک سائباں رشک چرخ بریں
قنادیل انجم سے بڑھ کر کہیں​

چار سو عورت نازنین مہ جبیں اس میں جلوہ گر تھیں۔ حسن میں بہتر از خورشید انور تھیں۔ صورت ان کی اگر زہرہ دیکھتی، ہاروت وار چاہ تعشق میں مقید ہوتی، بلکہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرتی۔

شوخ چنچل بلائے بے درماں
جان عشاق کی تھی آفت جاناں

ان کا مارا نہ مانگتا پانی
حسن میں تھیں وہ یوسف ثانی​

بادشاہ طلسم کے انے سے ہر ایک بناز و انداز بہر استقبال آئی۔ گردن پے تسلیم سب نے جھکائی۔ شاہ ساحراں نے ارشاد کیا : "طاؤس طلسم حاضر لاؤ، حیلہ و عذر نہ کرو۔"

پریوں نے عرض کیا : "طاؤس کا دنیا ہر چندگوارہ نہیں، لیکن حضور کے حکم سے چارہ نہیں۔"

یہ کہہ کر وہ سب غائب ہوئیں اور ایک طاؤس بہت بڑا ہمسر طائر سحر آسمان رو بروئے شاہ جاوداں لائیں۔ شاہ نے نشواط کا ہاتھ پکڑ کے طاؤس پر سوار کیا اور کہا : "یہ تم کو دم بھر میں تیری سلطنت میں لے جائے گا اور وہاں سے جب کار سازی لشکر کر کے اسیر سوار ہو گا تو یہ فوج میں حیرت کی پہنچائے گا۔ اسی پر سوار ہو کر دشمنوں سے مقابلہ کرنا۔ تجھ کو ہر آفت سے جمشید بچائے گا۔ کسی کا سحر تجھ پر کارگر نہ ہو گا، کوئی حیلہ پیش نہ جائے گا۔"

نشواط نے یہ سن کر تسلیم کی اور اپنی راہ لی۔ طائر لے کر اس کو اڑا۔ دم بھر میں شہر نشاط جو اس کا تخت گاہ ہے نظر آیا۔ طاؤس وہاں پہنچ کر ٹھہرا۔ یہ اتر کر داخل قلعہ ہوا۔ افسران لشکر ساحران نامور کو بلا کر حکم بادشاہ طلسم سنایا۔ اس دم نفیر سحر بجی۔ لشکر میں قرنا پھنکی۔ چالیس ہزار ساحر تیار ہوئے۔ سواریوں پر چڑھ کر ساحر کے ہمراہ چلے۔ یہ تھی طاؤس پر چڑھ کر سب کے آگے ہو لیا۔ باجے جنگی بجنے لگے۔ ساحر و جمشید سامری کا دم بھرنے لگے۔ رال اڑاتے گوگل جلاتے چلے۔

مہابت بھی چہروں سے ان کے عیاں
ہر اک سامری وقت تھ بیگماں

کوئی اژدہے کر اڑا کر چلا
کوئی فیل ائش پہ بیٹھا ہوا

کسی کو یہ دعویٰ جادوگری کا
مرے آگے کیا مال تھا سامری​

یہ لشکر بایں کروفر اس طرف سے روانہ ہوائے ہے۔ لیکن اول حال لشکر مہ رخ کا سنیئے کہ بعد روانگی خواجہ عمرو جب رنج سے فرصت پائی۔ عیار بہر عیاری لشکری حیرت میں گئے اور ہر سمت صورت بدلکر پھرنے لگے۔ اتفاقا شہاب جادو نامی ایک ساحر سرداران فوج ملکہ حیرت میں سے اپنے مقام سے اٹھ کر بارگاہ ملکہ کر طرف جاتا تھا۔ برق فرنگی نے اثنا راہ میں جا کر سلام کیا اور دست بستہ عرج پیرا ہوا ؛ "حضور کہاں جاتے ہیں۔" برق نے کہا : "میں ابھی دربار سے آتا ہوں۔ ملکہ نے خفا ہو کر آپ کی نسبت ایسا حکم دیا ہے کہ میں عرض نہیں کر سکتا۔ اتنا جانتا ہوں کہ آپ وہاں گئے اور دشمنوں کے لیے بے عزتی کا سامنا ہوا۔"

شہاب اس خبر وحشت کو سنکر گھبرایا اور باصرار پوچھا ہمارے سر کی قسم سب سچ بتاؤ، کیا ماجرا ہے۔ اس نے کہا : "یہ راز بادشاہوں کے پنہاں ہیں، اگر سب کے سامنے بیان کروں معرض عتاب شاہی ہوں۔ میں بھی نکالا جاؤں، آپ کو اگر دریافت کرنا ہے، انگ تنہائی میں تشریف لے چلیئے، وہاں سب کیفیت سنیئے۔

شہاب یہ سن کر گھبرایا ہوا تھا فورا برق کا ہاتھ پکڑ کر ایک گوشے میں لایا اور خادم خدمت گار وغیرہ سب کو وہاں آنے سے منع کر دیا۔ قسمیں دے کر حال پوچھنے لگا۔ برق نے باتیں کرتے کرتے ایک بیضہ بے ہوشی اس کے منہ پر مارا کہ اس کو چھینک آئی۔ مقام تنہائی کا تھا اور جو کوئی ادھر تھا، ملازمان شہاب منع کرتے تھے کہ ادھر نہ جاؤ ہمارے میاں کی ممانعت ہے۔ برق کو خوب موقع ملا۔ وہیں ٹھہر کر صورت اپنی مثل شکل شہاب بنائی۔ رنگ و روغن عیاری بنا کر اور اس کا پیراہن لے کر پہنا۔ پھر کسی نشیب میں اس کو بیہوش کر کے پٹی دماغ پر بیہوشی کی باندھ کر ڈال دیا اور وہاں سے کہتا ہوا نکلا کہ یہ جو مجھ کو الگ لے گیا تھا۔ یہ حرامزادہ عیار تھا جب میں نے اس کو گرفتار کرنا چاہا وہ بھاگ گیا۔" یہ کہتا ہوا اپنے ملازموں کے ہمراہ بارگاہ حیرت میں آیا۔ ملکہ کو آداب بجا لایا اور دنگل پر متمکن ہوا مگر فکر کرنے لگا کہ کسی طرح قابو پا کر اہک دربار کو بیہوش کروں، اسی فکر میں تھا کہ یکایک طائران سحر ملکہ کے سامنے آئے اور انسان کی صورت غلطک مار کر بنے۔ دعا و ثنا شاہی بجا لا کر عرض پیرا ہوئے۔ نشواط جادو نامی فرستادہ شہنشاہ عالی مقام برائے تنبیہہ بدسگالان دولت داخل لشکر ہوا چاہتے ہیں۔"

یہ کہہ کر طائر بن کر پھر پرواز کر گئے۔ ملکہ حیرت نے یہ خبر سن کر سرداروں کو حکم دیا : "جاؤ اور استقبال کر کے اس کو میرے پاس لاؤ۔ لشکر مقام کو پاکیزہ اور جائےراحت بخش میں اترواؤ۔" یعنی برق بھی ان کے ساتھ پیشوائی کرنے چلا۔ یہاں تک کہ نشواط سے جا کر ملاتی ہوا۔ وہ بھی طاؤس سے اتر کر ہر ایک سے بغل گیر ہوا۔ مزاج سب کا پوچھا۔ باتیں کرتا ہوا بارگاہ میں آیا۔ ملکہ کو تسلیم کی، نذر دی اور خلعت فاخرہ عنایت ہوا۔ مقام برتر پر بیٹھنے کو اشارہ کیا۔

جب یہ بیٹھا برق اس کے پاس جا بیٹھا اور باتیں ہنس ہنس کے خوش مزاجی کرنے لگا۔ اپنے ہاتھوں سے جام شراب شادہ پلاتا تھا اور چپکے چپکے کہتا تھا : "لشکر مہ رخ میں بہت عورتیں نازک بدن ایسی ہیں کہ مجھ کو گلوریاں بھیجتی ہیں اور مجھ پر مائل و مبتلا ہیں۔ دو ایک سےبھی ملاقات کرا دوں گا اور وہ سب اپنے اپنے ملک و مال سے آپ کو نفع پہنچا دیں گی۔ کوڑی آپ کی خرچ نہ ہو گی۔"

یہ سن کر نشواط بہت خوش ہوا کہ عورتیں حسین اور ملاوار ملتی ہیں۔ اب خوب آرام سے گزرے گی۔ حاص مرام ایسی فریب آمیز باتیں سن کر نشواط اس کا مطیع ہو گیا اور برق کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اپنا یا غمگسار بنایا۔ اس عرصے میں بارگاہ اس کے لیے حسب الحکم ملکہ آراستہ ہوئی۔

ملکہ نے کہا : "اے نشواط! ہم نے دربار معاف کیا۔ تم تھکے ماندھے آئے ہو۔ ہم نے دربار تمہارا معاف کیا۔ جاؤ آرام کرو۔" نشواط نے اٹھ کر سلام کیا اور نقلی شہاب نے کہا : "آؤ ہماری بارگاہ میں چل کر ذرا تم بھی بیٹھو، ہمارا جی بہلے گا۔"

ملکہ نے اس کی خاطر شہاب کو بھی اجازت دی۔ یہ بھی اس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے باتیں کرتا ہوا روانہ ہوا اور جب اندر بارگاہ کے آئے۔ شہاب نے کہا: " ملازموں کو ہٹا دیجیئے تو کسی معشوق کو آپ کے لیے طلب کروں۔"

اس نے سب نوکروں کو باہر نکال دیا۔ جب تخلیہ ہوا شہاب نے کہا : "ایک بات میں آپ کے کان میں کہوں گا کیونکہ دیواریں بھی سنتی ہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سن لے۔"

یہ کہہ کر پاس آیا۔ نشواط نے کان بات سننے کو لگایا، شہاب نے ایک طمانچہ مارا کہ حرامزادے ہم ہیں برق فرنگی۔

از بسکہ ہاتھ آغشہ بہ روغن بیہوشی تھا۔ نشواط طمانچہ کھاتے ہی بیہوش ہو گیا۔ برق خنجر کھینچ کر اس کی چھاتی پر چڑھا اور چاہا تھا کہ اس کا سر کاٹے چونکہ طاؤس طلسم پر چڑھ کر آیا ہے ساھران زبردست میں سے ہے۔ جیسے ہی برق نے سر کاٹنا چاہا، ویسے ہی دو پنچے زمین سے نکلے۔ ایک پنجے نے برق کو دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور دوسرے پنجے نے نشواط کو مع برق کے اٹھایا، یعنی جس طرح یہ چھاتی پر سوار تھا، اس طرح رہنے دیا اور لے کر چلا۔ بلب باہر بارگاہ کے نکلے سب لشکریوں نے دیکھا، نشواط چت پڑا ہے اور شہاب اس کی چھاتی پر چڑھا ہے، نیچے لیٹے ہوئے لیے جاتے ہیں۔ یہ ماجرا دیکھ کر لشکر میں ایک غلغلہ برپا ہوا اور سب شور کرتے ہوئے "لینا لینا" کہتے پنجوں کے ساتھ ہوئے۔

ملکہ حیرت غل سن کر چاہتی تھی کہ باہر بارگاہ کے آئے لیکن پنجے اس ہیت سے سامنے ان دونوں کو لائے اور پہنچا کر غائب ہو گئے۔

ملکہ حیرت کو جی اس کیفیت کے دیکھنے سے حیرت ہوئی۔ اور کہا : "اے شہاب یہ تججھ کو کیا ہوا ہے، جو اس کی چھاتی پر چڑھا ہے۔ اس نے تیرا کیا کیا ہے؟"

برق نے کہا : "مجھے نہیں معلوم کہ کس نے مجھ کو اس کی چھاتی بٹھا دیا اور خنجر میرے ہاتھ میں دے دیا۔"

حیرت نے کہا : "کچھ سحر پڑھنے میں تم دونوں کے فرق پڑ گیا۔ کوئی سحر شاید الٹ گیا۔ اچھا سینے پر سے اس کے اترو۔" برق چھاتی پر سے اتر کر الگ کھڑا ہو گیا۔ حیرت نے پانی چھڑک کر نشواط کو ہوشیار کیا۔ برق چاہتا تھا کہ عذر معذرت کر کے اس کا یار بنے، لیکن صرصر شمشیر زن عیارہ لشکریوں کا غل سن کر جو جنگل میں تھی۔ دوڑ کر لشکر میں آئی اور سارا ماجرا دریافت کر کے بارگاہ میں گئی۔ ملکہ حیرت کو سلام کر کے برق کو بغور دیکھ کر پہچانا اور بولی : "ارے موڈی کاٹے تو نے بڑا غضب کیا تھا کہ ملازم شہنشاہ کو مار ہی ڈالا ہوتا۔"

اس کلام کے صرصر کے حیرت بھی سمجھی یہ عیار ہے۔ پکاری کہ "لینا اس کو" ناقوس جادو نامی ایک ساحر برق کے قریب تھا اس نے چاہا کہ میں لپٹ جاؤں برق خنجر بکف تو کھڑا ہی تھا، اس زور سے خنجر مارا کہ ناقوس کا سر کٹ کر دور جا گرا اور شور اس کے مرنے کا بلند ہوا۔ اندھیرا ہو گیا۔ صرصر نیمچہ پکڑ کر دوڑی اور ساحر بھی لینا لینا کہتے دوڑے۔ لیکن برق پر اس گھبراہٹ میں کسی نہ سحر نہیں کیا۔ یہ جست کر کے اسی تاریکی میں بارگاہ سے نکل کر دور بھاگا۔ ہر چند ساحر پیچھے دوڑے، مگر فرط خوف سے آگے نہ بڑھے کہ مبادہ ہم بھی عیار کے ہاتھ سے مارے جائیں۔ برق راہ کترا کر لشکر سے نکل گیا اور اپنے لشکر میں آیا۔

ادھر جب وہ تاریکی دور ہوئی۔ ملکہ حیرت نے اصلی شہاب کی تلاش کی۔ اس کے نوکروں سے پوچھا "بتلاؤ یہ کیا ماجرا ہے" وہ سب عرج رسا ہوئے : "ہمارے سامنے ایک ساحر کے ہمراہ ایک گوشے میں گئے پھر وہ ساحر نہ آیا خود آئے اور فرمایا، وہ عیار تھا بھاگ گیا۔ ہم سمجھے کہ یہی سچ ہو گا۔ الحاصل اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے۔"

ملکہ حیرت نے اسی گوشے میں تلاش کروایا، جہاں ان لوگوں نے بتایا تھا۔ واقعی شہاب کو ایک گوشے میں پڑا ہوا بیہوش اور برہنہ پایا۔ سامنے حیرت کے اٹھا لائے۔ اس نے کپڑے پہنوائے اور پانی چھڑک کر ہوشیار کیا۔ یہ ہوشیار ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھا اور سارا ماجرائے گذشتہ سن کر شکر سامری بجا لایا کہ میری جان بچ گئی۔ مگر نشواط کے یہ عیاری دیکھ کر ہوش اڑ گئے۔

ملکہ حیر ت سے کہا : " اب میں کسی کو اپنے پاس نہ آنے دوں گا اور بارگاہ میں آپ کے پاس بھی نہ بیٹھوں گا۔ آپ میرے نام پر طبل بجنے کا حکم دیجیئے، تاکہ ان نمک حراموں کا خاتمہ کر کے میں یہاں سے چلا جاؤں۔ واقعی یہ آپ ہی کا کام ہے جو ایسے مقام خطرناک پر شب و روز بسر کرتی ہیں۔ مجھے تو اب ہر سمت عیار ہی عیار نظر آتے ہیں۔"

یہ کہہ کر اپنی بارگاہ میں آیا۔ اٹھ کر ہر طرف سحر کر دیا کہ کوئی آنے نہ پائے۔ اپنے نوکروں کو بھی ہٹا دیا۔ یہ تو اس استحکام سے بیٹھا۔

لیکن ملکہ حیرت وہ دن جتنا باقی تھا تامل پذیر رہی جس وقت کے مثل بخت تیرہ نشواط عالم میں تاریکی پھیلی یعنی خورشید جہاں تابہ سینہ سپہر سے اتر کر بارگاہ مغرب میں جا کر روپوش ہوا۔ ملکہ حیرت نے بہر نواخت طبل رزمی حکم دیا۔ افسران فوج نے نقارہ جنگی بجوایا۔ شر و فساد اٹھانے کا بہادروں کو جھگڑا یاد دلا۔ عیار جو اسیس لشکر دہر کارے مہ رخ رواں دواں خدمت بلکہ مہ رخ عالی شان میں حاضر ہوئے اور سر عجز جھکا کر اول مجرا کیا پھر دعا و ثنا شاہی اس طرح بصد ادب بجا لائے : "نشواط کے آنے سے ملکہ حیرت نے طبل جنگ بجوایا ہے۔ کل کے روز معرکہ ٹھہرایا ہے۔" یہ کہہ دوبارہ خبر لینے کو روانہ ہوئے۔

مہ رخ نے یہ خبر سنتے ہی نفیر سحر بجائی۔ طلب ارشم پر بہادروں نے چوب لگائی۔ دونوں طرف سے شور شرابا بلند ہوا۔ ساحر آگاہ ہو کر سحر جگانے لگے۔ بہادر ہتھیار درست کر کے منچلا پن دکھانے لگے۔ دربار حسب دستور سر شام سے برخاست ہوا۔ سردار خیموں میں آ کر آلات حرب تیار کرنے لگے۔

جہاں میں قیامت ہوئی آشکار
کہ لی امن نے واں سے راہ فرار

ہوا مہر گردوں پہ پھر جلوہ گر
سو رزم گہ پھر چلے کینہ ور

بہادر ہوئے عازم رزم گاہ
ہوئی کینہ جو پھر وہ جنگی سپاہ​

جس وقت کہ آفتاب نکلا عازم جنگ کا ہر ایک ارجمند ہوا۔ لشکر دونوں طرف سے دادی مصاف میں آئے۔ بادشاہ دونوںلشکر کے بصد شان و شوکت سوار ہو کر چلے۔ نوبت و نقارے بجنے لگے۔ سحر کے ابر پر ساحر سوار ہوئے۔ ایک جانب کو طاؤس اور اژدر اور فیلہائے آتشیں(آگ کے ہاتھ) اڑتے ہوئے نظر آئے۔ میدان قتال بہادروں سے بھر گیا۔ ہر ایک جانتا تھا کہ آج نام رہ گیا اور سر گیا۔ علمبرداروں نے پھریرے علموں کے کھولے۔ ساحروں کے پرے جم گئے۔ بیلداروں نے زمین ہموار کر دی۔ سقوں نے آبشار کر کے خاک بٹھائی۔ صف آراؤں نے صفوف لشکر ترین فوجیں مرنے پر تل گئیں نقیب مذمت دنیائے فانی سنا کر بہادروں کو پکارے : "اے نامور ذرا تصور کر کہ ایک دن مرنا ضرور ہے۔ انجام کو ہر ایک کا ٹھکانہ گور ہے، چاہیے کہ لڑ کر مر جاؤ اور اپنا نام کر جاؤ۔"

بعد ترتیب صفوف لشکر نشواط بھی چالیس ہزار ساحروں سے میدان میں آ کر ٹھہرا تھا۔ سامنے حیرت کے آ کر اجازت خواہ ہے۔ اس نے کہا : "جازم کو سامری کی حفاظت میں دیا۔

غبار ساٹھ کر رہ گیا۔ شور اس کے مرنے کا بلند ہوا۔ اس وقت حیرت کو بڑا رنج ہوا اور اس نے افسران فوج کو للکارا : "لینا اس کو چالیس ہزار ساحر ملا زمان نشواط ایک جانب سے اور دوسرے طرف سے لشکر حیرت آ پڑا۔

ادھر لشکر ملکہ مہ رخ بہر حمایت مہتر قران کی یہی ساحر پہلوان قدرت سامری بن کر آئے تھے۔ آگے بڑھا جنگ مغلوبہ آغاز ہوئی در دریائے لشکر موج مار کر باہم مل گئے۔ شمشیر کی وصار رواں ہوئی۔ تیروں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ گھٹا کی طرح فوج گھر آئی۔ خون کے دونگڑے برسنے لگے آب آہن کی طغیانی ہوئی زورق حیات فوفانی ہوئی بیر غل مچانے لگے۔ نارنج و ترنج چلنے لگے شعلہ ہائے آتش نکلنے لگے دم بھر میں لاش پر لاش گر گئی۔ نقد جان لٹ گئی۔ دولت زندگی پر آفت آئی سلامتی کنارہ کر گئی۔

چلی صرصر تیغ سوسن وہاں
گرے کٹ کے سر مثل برگ خزاں

کسی سمت کو شور کرتے تھے بیر​

(ختم شد صفحہ 20)
 
Top